باتیں کتابوں کی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
باتیں کتابوں کی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

تبصرہ ٴکُتب | عکسِ فریادی - نصیر ترابی

نصیر ترابی شہرِ کراچی کے منفرد، طرح دار اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ محبت، تعلق، سماجی مسائل اور انسانی روئیے آپ کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں۔

عکس فریادی نصیر ترابی کی غزلیات کا مجموعہ ہے۔ آپ کی غزلیات شعری روایات کی علمبردار ہیں تاہم آپ کے موضوعات بہ یک وقت جدید بھی ہیں اور دورِ حاضر سے علاقہ رکھتے ہیں۔

نصیر ترابی کی معروف غزل "وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی" بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔

کتاب کے آخر میں شاعر کے فارسی اشعار بھی موجود ہیں تاہم راقم الحروف اپنی علمی بے بضاعتی کے باعث ان پر رائے دینے سے قاصر ہے۔

بحیثیتِ مجموعی یہ ایک اچھی کتاب ہے اور شعر و ادب کے قارئین کا اسے پڑھنا باعثِ زحمت نہیں ہوگا۔

نصیر ترابی کے کچھ اشعار آپ کے ذوق کی نذر

 

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا
یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا
اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا
ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے
سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا
کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے
پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا
کچھ روز نصیرؔ آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا

*****

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے
شہر بے مہر! کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے
ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
اس کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے

*****

مثل صحرا ہے رفاقت کا چمن بھی اب کے
جل بجھا اپنے ہی شعلوں میں بدن بھی اب کے
ہم تو وہ پھول جو شاخوں پہ یہ سوچیں پہروں
کیوں صبا بھول گئی اپنا چلن بھی اب کے
منزلوں تک نظر آتا ہے شکستوں کا غبار
ساتھ دیتی نہیں ایسے میں تھکن بھی اب کے

*****




تبصرہ ٴکُتب | روشن دان - جاوید صدیقی

روشن دان جاوید صدیقی کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ جاوید صدیقی ہندوستان کے ادیب ہیں اور اُن کا سابقہ بہ یک وقت صحافت اور فلمی دنیا سے رہا ہے۔ یہ خاکے زیادہ تر اُن لوگوں کے ہیں جن سے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں جاوید صدیقی صاحب کا واسطہ رہا۔ ان میں کچھ معروف لوگوں کے خاکے بھی ہیں اور کچھ مصنف کے قریبی لوگوں کے بھی ۔

جاوید صدیقی زبان و بیان پر گرفت رکھتے ہیں۔ اچھا لکھتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ لکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ قاری کو اپنے جذبات میں شریک کر لینا جاوید صدیقی کے لئے مشکل نہیں ہے۔ ان کے بعض خاکوں میں تو افسانوں کا سا رنگ ہے کہ پڑھنے والا اُس کے سحر میں کھو جاتا ہے آخر تک مصنف کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔

کہیں کہیں البتہ منظر نگاری کو کچھ ضرورت سے زیادہ طول دے دیتے ہیں۔ یا اپنے ممدوح (یا شاذ معاملات میں مذموم) کے بارے میں غیر دلچسپ تفصیلات بھی شامل کر دیتے ہیں۔

بہرکیف، یہ ایک اچھی کتاب ہے اور اسے وقت گزاری کے لئے پڑھا جا سکتا ہے۔ 

 


 

تبصرہ ٴکُتب | جپسی - مستنصر حسین تارڑ

 

تارڑ صاحب کا ناول جپسی مجھے اچھا لگا، شاید اس لئے کہ مجھے کافی دن بعد فکشن پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

ناول کا شروع کا حصہ پڑھ کر مجھ جیسے کولہو کے بیل کو اپنے شب و روز میں مقید ہونے کا کافی قلق ہوا۔ اور یہ خیال جاگا کہ کچھ نہ کچھ سیاحتی سرگرمیاں زندگی میں ہونی چاہیے۔ تاہم بہت جلد ہی ہم سنبھل گئے اور قفس کو پھر سے آشیاں سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔

اصلی ناول کافی دیر بعد شروع ہوا۔ یعنی ناول بھی اپنے مرکزی کردار کی طرح کچھ آوارہ گرد ثابت ہوا۔ جپسی کی محبت خانہ بدوشوں کی سی تھی۔ سادہ اور الہڑ ۔ اور کچھ اکھڑ بھی۔ جیسے خانہ بدوشوں کے ہاں سفر اور قیام کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا۔ بعینہ و ہی حال یہاں بھی تھا۔

یوں تو ناول میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انسان عش عش کر اُٹھے لیکن وقت گزاری کے لئے اور اپنے شب و روز سے کٹنے کے لئے یہ ایک اچھا ناول ہے۔

پسِ نوشت: ویسے جپسی سے مجھے طارق عزیز یاد آتے ہیں جو اپنے مشہورِ زمانہ پروگرام میں جپسی امیزنگ کریم کی تشہیر اپنے مخصوص انداز میں کیا کرتے تھے۔



تبصرہ ٴکُتب | جب زندگی شروع ہوگی


"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ناول ہے۔ اگر آپ نے یہ ناول نہیں پڑھا تو میری رائے یہ ہے کہ آپ بغیر کوئی اثر لئے اس ناول کو پڑھیے۔ بعد میں چاہیں تو یہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس ناول کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں تو پھر ہمارا تبصرہ حاضر ہے۔

کراچی ایکسپو سینٹر میں ہر سال کتابوں کی نمائش منعقد ہوا کرتی ہے اور ہم کم از کم ایک بار تو وہاں حاضری دے ہی دیتے ہیں۔ "جب زندگی شروع ہوگی" کا پہلا دیدار ہمیں کراچی ایکسپو سینٹر میں ایسی ہی ایک نمائش میں ہوا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ہال کے داخلی دروازے پر دو تین لوگ اس کتاب کا ایک ایک نسخہ لیے ہر آنے جانے والے کو گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہر ایک کو روک کر کہتے ہیں،کیا آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے؟

میری طبیعت کچھ ایسی ہے کہ میں اُن چیزوں سے کافی بیزار ہو جاتا ہوں جن کی بہت زیادہ مارکیٹنگ ہوتی نظر آتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ بھلا کوئی مجھ پر کوئی شے کیوں مسلط کرے۔ سو اپنی طبیعت کے باعث میں ہمشہ اس گروہ سے بچ کر نکل جاتا۔ پھر اُس کے بعد کہیں نہ کہیں اس کتاب کا دیدار ہوتا رہا کہ اکثر کتابوں کی دوکان پر یہ کافی نمایاں مقامات پر رکھی نظر آتی۔ اور میں اپنا پہلا تاثُّر لیے اسے نظر انداز کر دیتا۔

پھر ایک بار ہمارے ایک شفیق اُستاد نے ہم سے اس کتاب کا ذکر کیا اور بین السطور اس کی تعریف بھی کی۔ تب کہیں جا کر ہم نے اس کتاب کو فہرستِ مطالعہ میں جگہ دی۔ اور کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان دنوں ہم نے یہ کتاب پڑھ بھی لی۔


"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ناول یعنی فکشن ہے۔ لیکن یہ عام فکشن نہیں ہے۔ دراصل مصنف نے اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کی اُخروی زندگی کو ایک ناول کی صورت پیش کیا ہے۔ اس ناول کا آغاز ہی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے سے ہوتا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار عبداللہ نامی شخص ہے اور ناول کے تمام تر واقعات عبداللہ ہی کی زبانی بیان ہوئے ہیں۔ ناول میں حشر کے طویل ترین دن کا بیان ہے کہ کس طرح کے اعمال والوں کے ساتھ اُس دن کیا سلوک ہونا ہے۔ حشر کے دن کی سختیاں اور ہولناکیاں اس میں بتائی گئی ہیں ۔ حساب کتاب کیا ہوگا، کس طرح ہو گا۔حشر کا دن، اللہ کے انسانوں سے کئے گئے وعدوں کے پورا ہونے کا دن، کیسا ہوگا۔ جس نے اللہ کے وعدوں کو سچ سمجھا، اُس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا اور جس نے اللہ کے وعدوں اور وعید وں کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیاوی زندگی کو ہی سب کو کچھ سمجھ لیا، اُس کے ساتھ کیا ہوگا۔ پھر جنت اور جہنم کا بیان۔ جنت کے حسن و جمال اور عیش و آرام والی زندگی کا بیان اور جہنم کے بدترین حالات اور اہلِ جہنم کی مصیبتوں کا احوال اس تحریر میں موجود ہے۔ ساتھ ساتھ بین السطور اس بات کا بیان کہ کس طرح کی زندگی گزارنے والے کی آخرت کیسی ہوگی۔ اعمال کا وزن کس طرح ہوگا۔ نیّتوں کا کیا دخل ہوگا ، اور اللہ کی رحمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بیان۔ غرض کہ ایک کوزے میں سمندر کو بند کر دیا گیا ہے اور وہ بھی دلچسپ کہانی کے پیرائے میں۔

گو کہ مسلمان یہ سب وعدے وعید کہیں نہ کہیں پڑھتا سنتا رہتا ہے لیکن یہ سب چیزیں اکثر کسی ایک جگہ نہیں ملتیں ۔ انسانی فطرت ہے کہ کہانی کی شکل میں چیزوں سے زیادہ اثر لیتا ہے سو یہ ناول ہم سب کو پڑھنا چاہیے۔

اس ناول پر کچھ لوگوں کو اعتراضات بھی ہیں ۔ اور اعتراضات کا ہونا بعید از قیاس ہرگز نہیں ہے کہ ان سنجیدہ موضوعات کو کہانی کی شکل دینے میں کئی ایک قباحتیں درپیش ہو سکتی ہیں۔ تاہم مصنف کا کہنا یہ ہے کہ اُس ناول میں تمام تر مندرجات اور واقعات نگاری کے لئے اُنہوں نے اسلامی تعلیمات کے اہم ترین ماخذ قران اور صحیح احادیث سے استنباط کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے آپ کو کئی ایک احادیثِ مبارکہ اور قرانی آیات یاد آئیں گی جو اس بات کی دلالت ہے کہ یہ محض ایک فکشن نہیں ہے بلکہ مصنف نے اس کے مندرجات کی تحقیق میں کافی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔

ناول کے بارے میں مصنف نے کچھ وضاحتیں آغاز میں اور کچھ ناول کے انجام پر پیش کی ہیں جس سے عمومی شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔

شرعی اعتبار سے اس قسم کے ناول کی کیا حیثیت ہے میں اس حوالے سے کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں ۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ ناول بڑی تاثیر رکھتا ہے اور پڑھنے والے کو خدا سے قریب کرتا ہے اور فکرِ آخرت کو مہمیز کرتا ہے۔

یہ اُن تمام تحریروں سے کہیں بہتر ہے کہ جو ہمیں فکشن کو حقیقت بنا کر سُناتی ہیں اور اس پر یقین کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ہیں، اور ہم میں سے بہت سے سادہ لوح اُن پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔ تاہم یہ ناول ہے اور مصنف نے اسے بطورِ فکشن ہی پیش کیا ہے۔

اگر آپ اس ناول کی صنف کے متعلق تذبذب کا شکار ہیں تو میرے نزدیک اس کی مثال بچوں کی کہانیوں کی سی ہے کہ جو ہوتی تو فکشن ہی ہیں لیکن اُن میں دیا گیا اخلاقی سبق بالکل سچ ہوتا ہے ۔ شاید آپ نے بچپن میں اُس لکڑ ہارے کی کہانی سنی ہو کہ جس کی کلہاڑی دریا میں گر گئی اور ایک جل پری نے اُسے ایک چاندی کی کلہاڑی دکھائی کہ شاید یہ تمہاری کلہاڑی ہے۔ جس پر لکڑہارے نے منع کر دیا کہ یہ اُس کی کلہاڑی نہیں ہے۔ اُس کے بعد جل پری نے اُسے سونے کی کلہاڑی دکھائی اور اس بار بھی لکڑہارے نے انکار کر دیا ۔ اور جب تیسری بار جل پری نے اُسے اُس کی اپنی لوہے کی کلہاڑی دکھائی تو لکڑہارے نے کہا کہ ہاں یہی میری کلہاڑی ہے ۔ اور اس کے بعد اُس کی ایمانداری کے انعام کے طور پر جل پری نے اُسے سونے اور چاندی کی کلہاڑیاں بھی بطور تحفہ دے دیں۔ اب دیکھا جائے تو یہ خالص فکشن ہے لیکن ایمانداری کا سبق اپنی جگہ مسلم ہے اور ہماری توقع ہوتی ہے کہ بچے اس قسم کی کہانیاں سن کر ایمانداری سیکھیں۔

بہرکیف ایک کتاب کے تبصرے کی مد میں اتنا کہنا کافی ہے۔ آپ اپنی رائے کتاب پڑھ کر قائم کر سکتے ہیں۔ آخر میں ایک مشورہ ہماری طرف سے یہ ہے کہ اگر اس کتاب میں پیش کیے جانے والا کوئی خیال یا تصور آپ کے لئے نیا ہو یا چونکا دینے والا ہو تو اِ سے ایک دم قبول یا رد نہ کریں بلکہ تھوڑی سی تحقیق کریں جس سے آپ کی بھرپور تشفی ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ہدایت عطاء فرمائے اور دُنیا میں اور بالخصوص آخرت میں کامیابی سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔

پش نوشت: اگر آپ یہ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کو با آسانی بک اسٹال سے مل جائے گی اور اگر آپ اس کی پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو اس ربط سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔

******


تبصرہ ٴکُتب | پیاری زمین - پرل بک / اختر حسین رائے پوری


'پیاری زمین' مشہور امریکی مصنفہ مسز پرل بک کے ناول گُڈ ارتھ (Good Earth) کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مصنفہ کو نوبل پرائز دیا گیا اور یہ ناول بیسٹ سیلرز میں سے ایک ہے۔ مصنفہ ایک امریکی خاتون ہیں لیکن اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزرا اور اس ناول کے کردار و واقعات بھی چینی دیہاتی زندگی کا پس منظر لیے ہوئے ہیں۔ مصنفہ پرل بک 1892ء میں پیدا ہوئیں اور 1934ءتک زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزارا۔ اسی اثناء میں انہوں نے بیسوی صدی کے چین کی دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھا اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ہی یہ ناول رقم کیا۔


کتاب میں کل 476 صفحات ہیں ۔ جس میں سے 28 صفحات تعارف پر مبنی ہیں ۔ جس میں چین کے اس دور کے حالات ذکر ہیں کہ جب ناول نگاری کو مشاہیرِ ادب حقیر جانتے تھے اور اسے کسی بھی طرح ادبِ عالیہ کا درجہ دینے پر راضی نہیں تھے۔ تعارف میں مزید یہ بھی بتایا گیا کہ چین میں ناول نگاری کا ارتقاء کس طرح ہوا۔ چین کی عوام میں قصہ کہانیوں کا رواج بہت عام تھا ۔ یہی قصہ کہانیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتے ہوئے ناولز کا روپ دھار گئیں ۔

گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کیا اور اسے انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے شائع کیا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری پاکستان کے نامور ترقی پسند نقاد، ماہرِ لسانیات، افسانہ نگار اور مترجم تھے ۔

ڈاکٹر صاحب نے ناول کا ترجمہ بہت احسن طریقے سے کیا ہے اور بامحاورہ ،شستہ و نستعلیق اردو سے مزین یہ ناول کسی بھی طرح اردو دان طبقے کے لئے اجنبی معلوم نہیں ہوتا۔

میرے جیسے قاری کے لئے کہ جو عدیم الفرصتی اور سہل پسندی کے باعث سب سے پہلے کسی بھی کتاب کے صفحات گنا کرتا ہے ، چار ساڑھے چار سو صفحات کا ناول پڑھنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ تاہم ناول اس قدر رواں ہے کہ قاری کو ہرگز گراں نہیں گزرتا۔ حالات و واقعات اس طرح باہم پیوست ہیں کہ قاری کہانی کی تلاش میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کہانی انجام تک اُسے اپنے ساتھ ساتھ چلاتی ہے ۔

ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو قریب سے دکھایا گیا ہے جس نے انتہائی غربت میں اپنے کام کا آغاز کیا اور ایک باندی سے شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد مستقل محنت سے اپنی زمینوں میں اضافہ کرتا گیا۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمیندار بنتا گیا۔ناول بار بار یہ باور کرواتا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے اور وہ لوٹ پھیر کر اپنی زمین کی طرف ہی آتا ہے۔

ناول کا سب سے اہم حصہ وہ ہے کہ جس میں تاریخی قحط کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوئے ۔ یہاں تک کے اُنہیں بھیک مانگ کر بھی گزارا کرنا پڑا۔ قحط کی ہولناکی سمجھنا آج کے انسان کے لئے دشوار ہے ۔ وہ اس بات کا ٹھیک طرح ادراک نہیں کر سکتا کہ کس طرح اناج کے چند دانے انسان کے لئے ہر چیز اور ہر رشتے سے زیادہ مقدم ہو سکتے ہیں۔

کسان وانگ لنگ نے عروج و زوال کے کئی ایک زمانے دیکھے اور آخر کار وہ ایک بہت بڑا زمیندار بن گیا۔ ناول ہمہ وقت کئی ایک ذیلی موضوعات میں بھی گھرا رہتا ہے کہ جن میں انسانی فطرت، غربت کے مسائل، امارت کے ساتھ در آنے والی خرابیاں شامل ہیں ۔ مزید براں اس ناول کی کہانی انسانی زندگی کی ذاتی اور سماجی نفسیات سے بھی چھیڑ چھاڑ کرتی نظر آتی ہے۔

یہ ناول پڑھ کر آپ یہ تو شاید نہ کہیں کہ یہ آپ کے پڑھے ہوئے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ ایک یادگار ناول ہے۔ اور اردو دان طبقے کے لئے اس میں مصنفہ کے ساتھ ساتھ مترجم کی محنت بھی شامل ہے۔

تبصرہ ٴکُتب | سرگزشت از سید ذوالفقار علی بخاری

سرگزشت

سید ذوالفقار علی بخاری
 
23 مارچ 2020ء کو سندھ حکومت نے صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا اور سب لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھیں تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکے ۔ آج اپریل کی چار تاریخ ہے اور تا حال لاک ڈاؤن جاری ہے ۔

نہ جانے اس لاک ڈاؤن سے کتنے فائدے اور کتنے نقصانات ہوئے تاہم اس سے قطع نظر ذاتی حیثیت میں ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ کچھ رُکے ہو ئے کام جو عدم فرصت کے باعث التویٰ کا شکار تھے، ہمارے کان میں کہنےلگے کہ اب تمہارے پاس کوئی بہانہ نہیں بچا۔

انہی بہت سے کاموں میں ایک کام وہ بھی تھا کہ جس کی تلقین ہم سارے زمانے کو کیا کرتے ہیں، یعنی کتب بینی۔ گو کہ ہم نے اب بھی اپنا تما م تر وقت کتب بینی کو نہیں دیا تاہم کچھ نہ کچھ آنسو پوچھنے کا سامان ہو ہی گیا۔

قصہ مختصر ، سید ذوالفقار علی بخاری کی آپ بیتی "سرگزشت" جو ہمارے زیرِ مطالعہ تھی اور جسے ہم مزے لے لے کر آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے، اُسے کچھ زیادہ وقت ملا اور ہم مکمل کتاب پڑھنے میں کامیاب ہو گئے، یا کتاب ہم سے جان چھرانے میں کامیاب ہو گئی۔

سرگزشت نہایت دلچسپ کتاب ہے ۔ فاضل مصنف نے یہ آپ بیتی بالکل غیر رسمی انداز میں لکھی ہے اور اس میں بے ساختگی کمال کی ہے ۔ تاہم غیر رسمی ہونے کے باوجود کتاب کے تمام تر مضامین باہم مربوط نظر آتے ہیں۔

اسے ان کتابوں کی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے کہ جو ختم ہونے کے قریب آئیں تو دل میں ملال سا ہوا کہ یہ دلچسپ کتاب اب ختم ہو جائے گی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب "غبارِ خاطر" اور کچھ دیگر کتابوں کے اختتام پر بھی ہماری ایسی ہی کچھ کیفیت تھی۔ غبارِ خاطر میں اور اس کتاب میں ایک اور قدرِ مشترک باموقع فارسی اشعار کی شمولیت بھی ہے۔ فارسی اشعار ہماری سمجھ میں بامشکل ہی آتے ہیں ۔ لیکن مقامِ شکریہ رہا کہ غبارِ خاطر کی طرح اس کتاب کے آخر میں فارسی اشعار کی تشریح موجود نہیں تھی ورنہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے بھی ہم نفسِ مضمون اور تفہیمِ شعر کی حسرت کے درمیان ہی معلق رہتے۔

مجھے اعتراف ہے کہ میں نے کافی عرصے بعد ایک بہت دلچسپ کتاب پڑھی اور اپنے وقت کا زیاں ہرگز محسوس نہیں ہوا۔

بخاری صاحب نے مضامین کو کوئی عنوان نہیں دیا بلکہ اُنہیں شمار کیا ہے اور اس اعتبار سے کتاب میں کل 55 مضامین ہیں۔ کتاب کے مضامین گو کہ کہانی کی صنف سے علاقہ نہیں رکھتے تاہم بخاری صاحب ہر مضمون کو نکتہ عروج یعنی کلائمیکس تک لے جاتے ہیں اور اکثر مضامین کا انجام افسانوں کے انجام کی طرح ہوتا ہے اور قاری کتاب ہاتھ میں لیے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ مضامین فکشن نہیں ہیں تاہم فکشن سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ خاکسار کی رائے میں ایسا طرزِ تحریر قسمت والوں کو ہی میسر آتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کتاب میں شاذ ہی یہ گمان ہوتا ہے کہ کوئی بات دُہرائی جا رہی ہے۔ ورنہ اکثر آپ بیتیاں مکر ر ارشاد سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ لوگ اُلٹ پھیر کر وہی مضامین بیان کرتے چلتے جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ بخاری صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزار ی ہے اور ریڈیو جیسے محکمے میں جو اُس وقت بے حد اہمیت کا حامل تھا ایک اہم عہدے پر فائز رہے اور سرگرم طبعیت کے باعث ہمہ وقت پر عزم اور مصروف عمل رہے ۔

بہرکیف کتاب انتہائی پرلطف ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ اپنا قیمتی وقت اس کے لئے نکالا جائے۔


*****

تبصرہ ٴکُتب | احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

یہ کتاب معروف پاکستانی صنعت کار جناب احمد داؤد کی سوانح عمری ہے اور اسے عُثمان باٹلی والا صاحب نے لکھی ہے۔ احمد داؤد پاکستان میں صنعتکاری کے بانی سمجھے جاتے ہیں اور کاروباری اعتبار سے پاکستان میں اُن کا نام کافی اہم ہے۔

کتاب کی زبان صاف ستھری ہے اور مضامین بڑے واضح اور آسان انداز میں لکھے گئے ہیں ۔غرض یہ کہ تحریر پر مصنف کی گرفت مضبوط ہے اور مضامین کا ابلاغ ایک عمومی قاری کے لئے بے حد آسان ہے ۔

احمد داؤد کی سوانح عمری ہندوستان سے شروع ہو کر پاکستان تک آ جاتی ہے۔ احمد داؤد کی ساری زندگی محنت اور جانفشانی سے عبارت ہے۔ کاروباری برادری سے تعلق ہونے کے باعث اُن کو کاروباری سمجھ بوجھ وراثت میں ملی تھی۔ اُنہوں نے اپنی محنت سے اپنی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔

نوجوانوں کے لئے ان کی زندگی میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔ احمد داؤد کام کو زندگی سمجھتے تھے اور ہمیشہ انتھک محنت اور لگن سے اپنے اہداف کے حصول میں لگے رہتے تھے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے احمد داؤد کے کچھ اقوالِ زریں میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔

"Pursue work not money. Get down to work and don’t pursue money. If you run after the money it might run away but if you concentrate on your work, money will automatically follow you. So work, work and only work."

"Never lose your hope while passing through unfavorable conditions or experiencing tough times"

"Leave your nose (ego, arrogance or hot temperament) at home while going out for work."

Ahmed Dawood
گو کہ مصنف نے احمد داؤد صاحب کی کچھ خامیوں کا ذکر کیا ہے تاہم ان کا یہ ذکر برائے خانہ پوری ہی معلوم ہوتا ہے۔ خاکسار کا خیال ہے کہ ہر کامیاب شخص کی طرح احمد داؤد کی شخصیت بھی کہیں نہ کہیں ضرور متنازع رہی ہوگی اور اُن کے دوستوں کے ساتھ ساتھ اُن سے اختلاف رکھنے والے لوگ یا اُن پر تنقید کرنے والے لوگ بھی ضرور ہوں گے۔ تاہم یہ کتاب اس معاملے میں خاموش ہے ۔ غالباً یہ کتاب اُن کی برداری کے ایک فرد کی طرف سے لکھی گئی ہے سو اسے ایک غیر جانبدار کتاب گرداننا دشوار ہو گا۔

تاہم احمد داؤد کی زندگی اور جدو جہد سے سبق سیکھنے والوں کے لئے یہ کتاب بہر کیف مفید ہے۔ 

تبصرہ ٴکُتب | بیراگ (ناول)

بیراگ

بیراگ سنہالی ادب کا ایک ناول ہے جسے مارٹن وکرما سنگھے نے تحریر کیا ہے ۔ اس ناول کا اردو ترجمہ مصطفیٰ نذیر احمد صاحب نے کیا ہے اور اس کے ناشر مشعل لاہور ہیں۔ بنیادی طور پر اس ناول کا پس منظر سری لنکا کا دیہی علاقہ ہے اور ناول میں سنہالی ثقافت رچی بسی ہے۔




اس ناول کی طرز ایک آپ بیتی کی سی ہے ۔ لیکن اس سے پیشتر راوی نے اختتامیہ پیش کیا ہے کہ جو ہمیں ناول کے کردار و واقعات سے آگہی دیتا ہے۔ گو کہ ناول کا پلاٹ سیدھا سادھا ہے لیکن پھر بھی یہ کسی عام ناول سے بہت مختلف ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ کہانی دلچسپ ہے لیکن زیادہ دلچسپ انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں الجھتے بل کھاتے وہ مظاہر ہیں جو اس ناول میں بین السطور پیش کیے گئے ہیں۔ اگر آپ کسی شاندار پلاٹ اور کہانی میں ٹوئسٹ کے متلاشی ہیں تو یہ ناول آپ کے لئے نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ انسان کی گوناگوں درونی کیفیات اور نفسیات سے دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو یہ ناول کو ضرور پڑھنا چاہیے۔

تبصرہ ٴکُتب | ہدایت نامہ شاعر از ساقی فاروقی


ہدایت نامہ شاعر، ساقی فاروقی کی کتاب ہے۔

یہ ساقی فاروقی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جسے سنگ میل پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔ شاعری پر تنقید کے حوالے سے یہ ایک بہت اچھی کتاب ہے۔ مصنف ادبی تنقید میں کافی درک رکھتے ہیں ۔ اپنی تحریر میں بڑے کھرے ہیں اور جس بات کو جیسا سمجھتے ہیں ویسا ہی بیان کرتے ہیں۔ اور یہی اُن کی خوبی ہے۔

ساقی صاحب نے اپنی کتاب میں جہاں جہاں تنقید کے باب رقم کیے ہیں وہاں وہاں اُنہوں نے اُنہیں حوالوں سے مشاہیر و معاصر شعراء کے بہترین اشعار کا انتخاب بھی پیش کیا ہے اور ساقی بہرکیف سچے اور اچھے شعر سے محبت کرنے والے ہیں۔

ساقی کلیشے زدہ اشعار و عبارت سے سخت خائف ہیں اور وہ چاہتے کہ ہر شخص جو لکھے وہ نیا ہو اور اوریجنل ہو۔ خاکسار اُن کی اس بات سے صد فی صد متفق ہے ۔ جب ہم کسی نئے شاعر کا کلام پڑھیں تو ہمیں لگے کہ ہم کچھ نیا پڑھ رہے ہیں اور یہ شاعری مشاہیر کے کلام کا نیا جنم نہیں ہے۔

کتاب کا پہلا اور شاید سب سے طویل باب اُنہوں نے وزیر آغا صاحب کی شاعری پر لکھا ہے بلکہ اُنہیں ٹھیک ٹھاک آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اور وزیر آغا کے کلام میں ایسے اسقام کی نشاندہی کی ہے کہ جن سے مبتدی شعراء بھی با آسانی بچ جاتے ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مصنف کافی زیادہ منہ پھٹ اور کسی حد تک بد تمیز واقع ہوئے ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فن شعر اور تنقید میں اُن کی فہم و فراست اور اعلیٰ ذوق کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں۔

اس کتاب کو اردو شعری تنقید کی اچھی کتابوں میں چُنا جا سکتا ہے تاہم اب صرف یہ خواہش ہی کی جا سکتی ہے کہ مصنف نے تنقید کرتے ہوئے نرم رویّہ اختیار کیا ہوتا اور زیرِ گفتگو متن کو معروضی انداز میں دیکھا ہوتا۔

بہر کیف یہ ایک اچھی کتاب ہے اور شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں اور بالخصوص شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔



کتاب پڑھنا کیوں ضروری ہے؟​


ہم حیران ہوتے ہیں ، ہم سے مراد وہ لوگ جنہوں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو اپنی آنکھوں کے سامنے نمو پاتے ہوئے دیکھا ہے اور جن لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے میں اچھی خاصی جگہ بنا لی ، بلکہ یوں کہیے کہ یہ ہم میں سے بیشتر کے حواس پر چھا گیا۔

ہم سب حیران ہوتے ہیں اور اکثر حیران ہوتے ہیں کہ ہم اِس زلفِ گرہ گیر کے اسیر کیسے ہو گئے۔ ہم جو ایک زمانے میں کتابوں سے جڑے رہتے تھے، کتابیں پڑھتے پڑھتے نیند کی آغوش میں چلے جاتے اور صبح اُٹھتے ساتھ ہی تکیے کی نیچے سے پھر کتاب نکال کر وہیں سے شروع ہو جاتے ، ہم کس طرح انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے چُنگل میں اس بُری طرح پھنس گئے کہ اِس سے اب جان چھوٹتی نظر نہیں آتی۔

ہم میں سے بیشتر نے اس کا شکوہ بھی کیا، گلزار صاحب نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم "کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے " لکھی اور بھی کئی لوگوں نے گاہے گاہے اس موضوع پر اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن یہ سب اظہاریے اور شکوے ، شکوے کم اور اپنی بے بسی کا اظہار زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جو کتابیں پڑھنے والے لوگ تھے، اب ہماری اکثریت سوشل میڈیا پر موجود تحریریں پڑھنے تک محدود کیوں ہو گئی ہے؟

شاید آپ یہ کہیں کہ بیشتر لوگ جو دن میں ایک صفحہ بھی نہیں پڑھتے تھے اب ان جانے میں کئی کئی صفحات کے برابر مواد سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر پڑھ لیتے ہیں۔ اور یہ سوشل میڈیا کی خوبی ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگوں کی حد تک تو یہ واقعی ایک اچھی بات ہے۔ لیکن اگر اُن سنجیدہ قارئین کو دیکھا جائے جو پہلے کُتب بینی کے عادی تھے اور اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی تحریروں تک محدود ہو گئے ہیں تو اُن کے لئے یہ بہت بڑے نقصان کا سودا ہے۔

ذیل میں ہم سوشل میڈیا پر ملنے والے تحریری مواد اور باقاعدہ کتب کا ایک مختصر موازنہ کریں گے۔ باقاعدہ کتب سے مراد وہ کتابیں ہیں جو لکھی گئی اور شائع کی گئی، ان میں ای بکس وغیر ہ بھی شامل ہیں۔

کتابیں (کاغذ پر چھپی کتابیں اور ای بُکس وغیرہ)
سوشل میڈیا تحریریں
باقاعدہ کتابیں (اب سے ہم صرف کتابیں کہیں گے) باقاعدہ مصنفین کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جو کہ ناصرف پڑھنے لکھنے کے ہنر سے واقف ہوتے ہیں ۔ بلکہ اُن میں سے بیشتر اوسط علم و ذہانت سے زیادہ ذہین و فطین ہوتے ہیں، اور اپنے وسیع مطالعے کے باعث زیادہ علم والے بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ اُن میں سے کچھ تو عبقری اذہان کے حامل نابغہ روزگار شخصیات ہوتی ہیں۔
سوشل میڈیا پرلکھنے والے ہمارے آپ کے جیسے اوسط علم و ذہانت کے حامل ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو محض پروپیگنڈہ کے لئے لکھ رہے ہوتے ہیں کافی پست ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔
یوں تو بہت سی کتابیں بھی اتفاقاً ہمارے پاس چلی آتی ہیں لیکن زیادہ تر کُتب کی اصناف و مضامین کا انتخاب ہمارے پاس ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر موضوعات اکثر ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں اور ہم اپنے انتخاب کا اختیار کسی حد تک دوسروں کو دے دیتے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی بہ نسبت ، کتابوں میں ہمیں زیادہ موضوعات اور تنوع مل سکتا ہے کہ اکثر یہ ہمارا اپنا انتخاب ہوتی ہیں اورکسی پروپیگنڈے کے تحت ہم پر مسلط نہیں کی جاتیں۔
سوشل میڈیا پر موضوعات میں تنوع بہت کم ہوتا ہے اور اکثر تحریریں محض بہاؤ میں بہنے والے مضامین لیے ہوتی ہیں ۔
سوشل میڈیا کی بہ نسبت ، کتابوں میں ہمارے لئے اثر پذیری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور اِن میں سے اچھی کتابوں کی رسائی ہماری درونی کیفیات تک ہوجاتی ہے، کہ جس تجربے سے گزرنا بڑے نصیب کی بات ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا مضامین کے پیچھے اکثر سطحی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے اور ہمیں عموماً ایسی تحاریر پڑھنے کو نہیں ملتی جن میں واقعتاً گہرائی اور گیرائی کا عنصر موجود ہو۔
کتاب اپنے موضوعات کا احاطہ بڑی جامعیت کے ساتھ کرتی ہیں، اور ان میں فصاحت و بلاغت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
جبکہ سوشل میڈیا تحریر عموماً یک تہی اور اکثر ناقص الخیال ہوتی ہیں۔


مزے کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایجاد کرنے والے امریکیوں کی ایک غالب اکثریت اب بھی کتابیں پڑھتی ہے۔ جن میں طبع شدہ کتابوں کا تناسب اب بھی ای بکس اور آڈیو بکس سے زائد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تہتر فیصد بالغ افراد اب بھی امریکہ میں کتابیں پڑھتے ہیں۔ اور بیشتر لوگوں کے ریڈرز، ٹیب اور فونز میں ہمہ وقت کتابیں موجود رہتی ہیں۔


اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر محض چھوٹی چھوٹی مجہول تحریریں پڑھتے رہنا آپ کے مطالعے کے شوق اور ضرورت کو اُسی طرح پورا کرتی ہیں کہ جیسے پہلے کبھی کتابیں کیا کرتیں تھیں تو پھر آپ کو ایک بار پھر سے اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکی مصنف اور مزاح نگار مارک ٹوئین کا کہنا ہے کہ جو شخص کتابیں نہیں پڑھتا ، اُس شخص سے کسی طرح بہتر نہیں ہے جو پڑھنا ہی نہیں جانتا۔ اسی بات کو اردو میں پڑھ لکھ کر گھاس کاٹنا کہا جاتا ہے۔

ہمارا یہ کہنا ہے کہ کتابوں کے لئے اپنے وسائل بالخصوص وقت میں سے کچھ حصہ ضرور صرف کریں یہ یقیناً آپ کے اور آپ کی آنے والی نسل کے مستقبل کے لئے بہترین سرمایہ کاری ثابت ہوگی۔

تحریر: محمد احمد​



***

Why Book Reading is important?

جہانگیر کا ہندوستان ۔ ۳


جہانگیر کا ہندوستان ۔ ۳



گذشتہ [۱] [۲] سے پیوستہ




پیداوار

ہندوستان کی زمین پیداوار کے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے لیکن یہاں‌پر کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ اگر کبھی کوئی گاؤں پیداوار کی کمی کی وجہ سے پورا لگان ادا نہ کر پائے تو جاگیردار یا گورنر اسے اس قدر مجبور کرتا ہے کہ اسے ادائیگی کے لئے اپنے بیوی، بچوں کو بیچنا پڑتا ہے ورنہ اسے بغاوت کے جرم میں‌سزا دی جاتی ہے۔ کچھ کسان اس ظلم و ستم سے گھبرا کر ان زمینداروں اور راجاؤں کے پاس پناہ لیتے ہیں کہ جو پہلے ہی سے باغی ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسانوں کی چھوڑی ہوئی زمینیں خالی اور بنجر ہو جاتی ہیں اور وہاں گھاس پھوس اگ آتی ہے۔ اس قسم کی زیادتیاں اس ملک میں‌بہت عام ہیں۔

گوشت کی سپلائی یہاں بھی ہالینڈ کی طرح ہے۔ اگرچہ یہاں پر یہ سستا ہے بھیڑیں، بکریاں، تیتر، بطخیں اور ہرنوں کا گوشت بازار میں ملتا ہے۔ چونکہ سپلائی بہت ہے اس لئے قیمت بھی کم ہے بیلوں اور گایوں کی قربانی نہیں کی جاتی ہے کیونکہ ایک تو ان کے ذریعے کاشت کی جاتی ہے دوسرے بادشاہ کی جانب سے ان کی قربانی کی سخت ممانعت ہے اور اس کی سزا موت ہے اس کے مقابلے میں‌بھینسوں کی قربانی کی جاتی ہے۔گائے کی قربانی کی ممانعت بادشاہ نے اپنی ہندو رعایا کو خوش کرنے کے لئے کی ہے کیونکہ وہ گائے کو دیوی اور مقدس مانتے ہیں۔ اکثر ہندو رشوت دے کر یا سفارش کرکے بادشاہ یا گورنر سے ایسا فرمان بھی جاری کروالیتے ہیں‌کہ جس کے تحت ایک خاص مدت تک مچھلی پکڑنے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے یا یہ پابندی لگا دی جاتی ہے کہ کچھ دنوں تک بازار میں کسی قسم کا گوشت نہیں بیچا جائے گا۔ اس قسم کے احکامات عام لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں جہاں تک امراء کا تعلق ہے تو وہ ہر روز اپنی پسند کے جانور گھروں پر ذبح کرتے رہتے ہیں۔

انتظامِ سلطنت

انتظامِ سلطنت کے بارے میں میری یہ رپورٹ مکمل نہیں ہے کیونکہ موجودہ بادشاہ کے بارے میں پوری تفصیل دینا ممکن نہیں‌ہے۔البتہ جہانگیر کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے اپنی شخصیت کو ختم کرکے خود کو اپنی چالاک بیوی کے حوالہ کردیا ہے کہ جس کا تعلق ایک کم تر خاندان سے ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ یا تو وہ زبان کی بڑی میٹھی ہے یا پھر اسے شوہر کو قابو کرنے کے حربے آتے ہیں۔ اس نے اس صورتحال سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور نتیجتاً اس نے آہستہ آہستہ خود کو بے انتہا مالدار بنا لیا ہے۔ اس وقت اس کی حیثیت شاہی خاندان کے کسی بھی فرد سے زیادہ ہے۔ اس کے وہ تمام حمایتی جو اس کے ساتھ ہیں انہیں بھی بے انتہا مراعات کے حاصل ہیں۔ وہ سب اس کے آدمی ہیں اور اسی کی سفارش سے ان کو ترقیاں ملی ہیں۔ چونکہ یہ تمام عہدےدار اس کے احسان مند ہیں لہٰذا بادشاہ تو برائے نام ہے۔ ورنہ تمام اختیارات اس کے اور اس کے بھائی آصف خاں کے پاس ہیں اور اس وجہ سے سلطنت پر ان کو پورا پورا کنٹرول ہے۔ بادشاہ کے کسی فرمان اور حکم کی اس وقت تک تعمیل نہیں ہوتی ہے کہ جب تک ملکہ کی اس پر تصدیق نہ ہو۔ اگرچہ انہوں نے دولت و شہرت و اقتدار سب کچھ حاصل کر لیا ہے مگر ان کی خواہشات اور ہوس کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔

بادشاہ جب شکار سے واپس آتا ہے تو وہ غسل خانہ (جہاں وہ خاص خاص امراء سے ملتا تھا) میں آکر بیٹھتا ہے کہ جہاں تمام امراء اس کے سامنے آکر حاضری دیتے ہیں۔ یہاں‌پر ان لوگوں کو بھی شرفِ بازیابی ملتا ہے کہ جو بادشاہ سے ملنے کی خصوصی درخواست کرتے ہیں۔ وہ یہاں پر ایک پہر رات یا جب تا اس کی مرضی ہو رہتا ہے۔ اس دوران وہ شراب کے تین پیالے پیتا ہے۔ شراب پینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک تین بار تھوڑے تھوڑے وقفے سے اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ شراب نوشی کے دوران جو بھی محفل میں حاضر ہوتا ہے وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شراب نوشی کو بادشاہ کی صحت کے لئے ضروری سمجھتا ہے اسی طرح جیسے ہمارے ملک میں‌کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کی شراب نوشی میں‌رحمت ہے۔ جب بادشاہ آخری پیالہ پی کر سوجاتا ہے تو اس وقت تمام حاضرین بھی رخصت ہوجاتے ہیں۔ امراء کے جانے کے بعد ملکہ معہ کنیزوں کے آتی ہے اور اس کے کپڑے تبدیل کراتی ہے۔ یہ تین پیالے اس کو اس قدر مدہوش او رمسرو ر کردیتے ہیں کہ وہ اس کے بعد جاگنے کے بجائے سونا پسند کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب اس کی ملکہ اس سے جو چاہتی ہے منظور کرالیتی ہے کیونکہ بادشاہ اس پوزیشن میں‌نہیں‌ہوتا ہے کہ وہ اس کی بات سے انکار کرے۔

بادشاہ کے تمام علاقوں، شہروں اور گاؤں وغیرہ کی سالانہ آمدنی کا حساب ایک رجسٹر میں‌لکھا جاتا ہے جو کہ دیوان کے چارج میں‌ہوتا ہے۔ اس وقت موجودہ دیوان ابوالحسن ہے تمام شہزادوں، منصب داروں اور امیروں کو ان کی حیثیت کے مطابق جاگیریں دی جاتی ہیں کہ جس کی آمدن سے وہ اپنا خرچہ پورا کرتے ہیں۔ ان میں کچھ امراء بادشاہ کے دربار میں رہتے ہیں، اور اپنی جاگیر کا انتظام اپنے کسی معتمد کے حوالے کر دیتے ہیں یا وہ کسانوں یا کروڑی کو دے دیتے ہیں کہ جو اچھی یا خراب فصل پر نفع و نقصان کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن صوبے اس قدر غریب ہیں کہ ایک جاگیر جس کی آمدن پچاس ہزار تصور کر لی جاتی ہے۔ وہ درحقیقت پچیس ہزار مشکل سے وصول کرتی ہے۔ اور یہ بھی اس صورت میں کہ غریب کسانوں کو بالکل نچوڑ لیا جاتا ہے۔ اور ان کے کھانے کو خشک روٹی مشکل سے بچتی ہے کہ جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن منصب داروں کو پانچ ہزار سوار رکھنا چاہیے وہ مشکل سے ایک ہزار سوار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی شان و شوکت اور رعب داب کے لئے ہاتھی گھوڑے اور ملازمین کی ایک تعداد رکھتے ہیں تاکہ وہ عام آدمی کے بجائے بارعب امیر لگیں اور جب ان کی سواری نکلے تو ان کے ملازمین بلند آواز میں‌لوگوں کو سامنے سے ہٹاتے رہیں۔ ایسے موقعوں پر جو لوگ راستے سے نہیں‌ہٹتے ہیں۔ انہیں‌ملازم بلا کسی لحاظ کے مارتے پیٹتے ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ ان امراء کی لالچ اور طمع کی کوئی انتہا نہیں ہے ہر وقت ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کریں چاہے اس میں انہیں‌لوگوں پر ظلم و ستم کرنا پڑے یا ناانصافی سے کام لینا پڑے۔ دستور یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی امیر مرتا ہے تو دیکھے بغیر کہ وہ معمولی امیر تھا یا مقرب خاص بادشاہ کے آدمی فورا اس کے محل میں‌جاتے ہیں اور اس کے مال و اسباب و ساز و سامان کی ایک فہرست تیار کرتے ہیں یہاں تک کہ خواتین کے زیورات اور ان کے ملبوسات کو بھی نہیں چھوڑا جاتا ہے، بشرطیکہ انہیں چھپا کر نہیں رکھا جائے ۔ امیر کے مرنے پر بادشاہ اس کی جاگیر کو واپس لے لیتا ہے اس صورت میں عورتوں اور بچوں کو گذارے کے لئے معقول رقم دیدی جاتی ہے ۔ بس اس سے زیادہ نہیں۔ اس کا امکان کم ہوتا ہے کہ بچے اور خاندان والے امیر کی زندگی میں اس کی دولت کا کچھ حصہ چھپا دیں تاکہ وہ بعد میں ان کے کام آئے۔ یہ اس لئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر امیر کی جائداد اس کی آمدن اور اس کی دولت کے بارے میں اس کے دیوان کو پورا پورا پتہ ہوتا ہے۔ دیوان کے ماتحت کئی لوگ ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہاں یہ دستور ہے کہ جو کام ایک آدمی کرسکے اس کے لئے دس ملازم رکھے جائیں۔ ان میں‌سے ہر ایک کے پاس ایک خاص کام ہوتا ہے۔ اور اب یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ امیر کے مرنے کے بعد اس کا حساب کتاب دے۔ اگر ضرورت پڑے تو متوفی امیر کے عملہ کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ حساب کتاب کے تمام کاغذات پیش کریں اور یہ بتائیں کہ ان کے آقا کی آمدنی و اخراجات کیا تھے۔ اگر وہ کچھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں‌تو ان کو اس وقت تک اذیت دی جاتی ہے کہ جب تک وہ سب کچھ نہ بتادیں۔ اب آپ ذرا ایک ایسے شخص کے بارے میں سوچئے کہ جو ایک وقت میں سر پر ٹیڑھی ٹوپی رکھے بارعب انداز میں‌رہتا ہے اور کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ اس کے قریب جائے مگر وقت کے بدلتے ہی وہی شخص پھٹے پرانے کپڑوں اور زخمی چہرے کے ساتھ ادھر سے ادھر پریشان حال بھاگتا پھرتا ہے۔ اس کے بعد ایک ایسے شخص کے لئے اسی قسم کی ملازمت کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ درحقیقت زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ میں‌اس قسم کے کئی لوگوں سے ذاتی طور پر واقف ہوں کہ جو اس اذیت سے گزرے ہیں اور اب غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

میں اکثر امراء سے جو میرے دوست ہیں یہ سوال کرتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اس قدر محنت و مشقت کرکے دولت جمع کرتے ہو، جب کہ تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ دولت نہ تو تمھارے کام آسکے گی اور نہ تمھارے خاندان والوں کے ۔ اس کے جواب میں‌سوائے اس کے اور کچھ نہیں‌ہوتا کہ وہ یہ سب کچھ وقتی طور پر دنیا کو دکھلانے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی شہرت میں اس وجہ سے اضافہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مرنے کے بعد اتنی جائداد ، اس قدر دولت چھوڑی ہے۔ میں ان سےکہا کرتا ہوں کہ اگر انہیں اپنی شہرت اور عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو انہیں‌ یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے دوست اور خاندان والے چونکہ ان کی جمع شدہ دولت سے فائدہ نہیں‌ اٹھائیں گے اس لئے کیا یہ بہتر نہیں‌ہے کہ وہ اس میں ان غریبو‌ں کو شامل کریں کہ جن کی تعداد اس ملک میں بے شمار ہے۔ اور اس بات کی کوشش کریں کہ وہ لوگوں کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کریں۔ان کے ساتھ نا انصافی نہیں کریں، تاکہ عوام کو ان سے کوئی خوف نہ ہو ۔ لیکن جب بھی میں‌یہ دلائل پیش کرتا ہوں تو وہ یہ کہہ کر بحث کا خاتمہ کردیتے ہیں کہ یہ ان کے ملک کا رواج ہے۔

جہاں تک اس ملک میں قانون کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کوئی قانون نہیں ہے۔ انتظامِ سلطنت میں مطلق العنانیت ہے، لیکن قانونی کتابیں ضرور ہیں جو کہ قاضی کے پاس ہوتی ہیں۔ ان قوانین کے تحت سزاؤں میں ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور آنکھ کے بدلے آنکھ لینے پر عمل ہوتا ہے۔ لیکن جیسا ہمارے ہاں ہے وہ کون ہے کہ جو پوپ کو عیسائیت سے نکالے؟ اس طرح یہاں بھی کسی کی مجال نہیں کہ وہ صوبہ کے عامل سے یہ سوال پوچھ سکے کہ "تم ہم پر اس طرح کیوں حکومت کرتے ہو؟ جب کہ ہمارا قانون تو یہ مطالبہ کرتا ہے"

آدابِ زندگی

جہاں تک لوگوں کے طرزِ رہائش اور رہنے سہنے کے انداز کا سوال ہے تو امیر لوگوں کے پاس تو بے انتہا دولت اور لامحدود طاقت ہے لیکن اس کےمقابلے میں عام لوگ انتہائی غربت اور مفلسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ مفلسی کے باعث ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس مشکل سے دو وقت کے کھانے کے لئے کچھ ہوتا ہے۔ ان کی رہنے کی جگہوں یا گھروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عبرت کا نمونہ ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگ ان تکالیف کو انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ اس سے زیادہ اچھا سلوک ہو۔ ان میں مشکل ہی سے کوئی اس بات کی ٕکوشش کرتا ہے کہ اپنی زندگی کوتبدیل کرے اور اپنی موجودہ حالات کو بہتر بنائے۔ یہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ ذات پات کی وجہ سے لڑکے کو وہی پیشہ اختیار کرنا پڑتا ہے کہ جو اس کے باپ کا ہے۔ لوگوں کے لئے یہ بھی ناممکن ہے کہ اپنی ذات سے باہر شادی بیاہ کر سکیں۔ اس لئے ہر فرد اپنی ذات اور پیشہ کے بارے میں پہلے ہی سے آگاہ ہوتا ہے۔

یہاں مزدوروں اور دستکاروں کے لئے دو عذاب ہیں۔ پہلا عذاب تو یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بے انتہا کم ہوتی ہیں۔ سنار، رنگریز، کشیدہ کاری کرنے والے قالین بننے والے، جولاہے، لوہار، درزی ، معمار، پتھر توڑنے والے، اور اسی طرح سے دوسرے پیشہ ور دست کار و ہنر مند، یہ اس کام کو جو ہالینڈ میں ایک آدمی کرے چار مل کر کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک کام کرنے کے بعد ان کی روزانہ کی کمائی مشکل سے 5 یا 6 ٹکہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرا عذاب ان کے لئے گورنر، امراء، دیوان، کوتوال، بخشی اور دوسرے شاہی عہدے داروں کی شکل میں آتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو کام کروانے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کام کرنے والے کو، چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے زبردستی پکڑ کر بلوا لیتے ہیں، ایک مزدور یا کاریگر کی یہ ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اس پر ذرا اعتراض کرے۔ پورے دن کام کے بعد شام کو یا تو اسے معمولی سی اجرت دی جاتی ہے یا بغیر کسی ادائیگی کے اسے رخصت کر دیا جاتا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا کھانا کس قسم کا ہوگا۔ وہ گوشت کے ذائقہ سے بہت کم واقف ہوتے ہیں اور ان کے کھانے میں سوائے کھچڑی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔

مذہبی توہمات

مسلمانوں کے مذہب کے بارے میں ہماری زبان میں کافی مواد چھپ چکا ہے۔ لیکن اب تک ان کے توہمات کے بارے میں‌کہ جو اس ملک میں عام ہیں، نہیں لکھا گیا ہے لہٰذا میں ان میں سے کچھ کے بارے میں‌یہاں لکھوں گا، ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ جو کیتھولک فرقہ والوں کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلا ان کے ہاں بھی اس قدر پیر، فقیر ہیں کہ جیسے کیتھولک فرقہ والوں کے ہاں بزرگ اور اولیاء ہیں۔ لیکن یہ لوگ ان کی مورتیاں نہیں بناتے ہیں کیونکہ یہ ان کے مذہب میں ممنوع ہے۔ لیکن یہ بھی ان کی طرح منتیں مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہر دنیاوی بادشاہ کا اپنا دربار ہوتا ہے۔ اس کے امراء اور عہدے دار ہوتے ہیں کہ جو اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ او ر انتظام سلطنت کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جیسے بادشاہ تک کوئی بھی اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کی رسائی کسی امیر یا عہدے دار سے نہ ہو اسی طرح سے خدا تک سفارش پہنچانے کے لئے بھی اس کے کسی نمائندے کی ضرورت ہے کہ جو اس کی درخواست کو منظور کرائے۔ یہ لوگ بھی کیتھولک فرقہ کی طرح اس گمراہی میں‌ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ خدا عالم الغیب اور ہر چیز کا جاننے والا ہے لیکن یہ لوگ اس سے آنکھیں بند کرکے اور خدا کی رحمت سے انکار کرکے ان جھوٹے لوگوں کے دام فریب میں آجاتے ہیں۔ ان نام نہاد اولیاء کا سحر اور جادو غریب لوگوں پر نہ صرف ان کی زندگی میں بھی چلتا ہے بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے مرید اور متولی غریب لوگوں کو مسلسل فریب و دھوکے میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ عام لوگوں کو کس طرح سے قابو میں رکھا جائے اس مقصد کے لئے یہ عوام میں ان کی کراماتیں اور عجیب و غریب واقعات کے بارے میں کہانیاں پھیلاتے ہیں کہ جنہیں سن کر لوگ ان کے عقیدت مند ہو جاتے ہیں۔

ہندو مت

میری خواہش تو یہ تھی کہ میں ہندومت اور اس کے اعتقادات پر تفصیل سے لکھوں، لیکن جب میں نے اس کا مطالعہ کیا اور اس کے بارےمیں معلومات اکھٹی کیں تو مجھے پتہ چلا کہ چند دلکش اور شاعرانہ قصہ کہانیوں، ہزاروں دیوی و دیوتاؤں اور ان کے کرداروں اور عقیدوں کی بوقلمونی کے سوا اس میں اور کچھ نہیں۔ بس اس بات نے مجھے تفصیل میں جانے سے روک دیا اور میں نے سچائی کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہندو مت میں اگر ایک فرقہ کوئی بات کہتا ہے تو دوسرا فرقہ اس سے الگ ہٹ کر بالکل دوسری بات بتاتا ہے۔ اگر اس مذہب کے بارے میں مصنفین کی تحریریں پڑھو تو اس میں تضادات ہی تضادات نظر آئیں گے کیونکہ اپنا مواد شاید انہوں نے کئی فرقوں سے لیا ہوگا۔ مثلاً گجرات کے بنیوں کی لاتعداد ذاتیں ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ کھاتے ہیں‌اور نہ پیتے ہیں‌۔ برہمنوں کی ذات چونکہ قابلِ عزت ہے اس لئے صرف اس کے ساتھ کھانے پینے میں ممانعت نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں پر کھتریوں میں‌کئی ذاتیں ہیں۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے اعتقادات میں اس قدر تنگ نظر نہیں ہیں۔ یہ بھیڑ و بکری کا گوشت کھالیتے ہیں۔ اور اپنی نجی محفلوں میں‌شراب سے بھی شوق کر لیتے ہیں۔ لیکن ایسی ذاتوں سے بھی میری واقفیت رہی ہے جو کسی ایسی چیز کو نہیں‌کھاتے ہیں کہ جس میں زندگی ہو، یہاں تک کے کچھ سبزیاں بھی۔ ان کی غذا محض چاول اناج اور گھی ہوتی ہے۔ یہاں پر عام بات ہے کہ جتنے خاندان ہیں، اسی قدر عقیدے ہیں۔ چونکہ شادی بیاہ صرف ذات میں ہی ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی ذات و براداری ختم ہو جائے تو اس کے ساتھ اس کا عقیدہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔

انہی رسومات و تہواروں میں ہندو مسلمانوں سے زیادہ سخت ہیں کوئی ہندو عورت و مرد چاہے کس قدر سردی ہو، ضرور صبح کے وقت نہاتا ہے عام لوگ تو دریا یا ندی کے کنارے جا کر نہاتے ہیں جب کہ امراء گھروں‌پر نہاتے ہیں وہ اس وقت تک کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتے جب تک کہ نہا نہ لیں۔ وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں‌کہ سال میں ایک بار گنگا میں جا کر ضرور نہائیں۔ جو اس قابل ہوتے ہیں وہ 500 سے 600 کوس کا فاصلہ اس مقصد کے حصول کے لئے طے کرتے ہیں۔ وہ اکتوبر کے مہینہ میں‌غسل کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس کے بعد ان کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں، واپسی پر وہ گنگا کا پانی اپنے ہمراہ لاتے ہیں اور اسے برکت کے لئے گھر میں رکھتے ہیں۔

کچھ برہمن بڑے ہوشیار ہوتے ہیں۔ وہ اچھے نجومی کی طرح ستاروں کی حرکات سے واقف ہوتے ہیں اور موسموں و حالات کے بارے میں‌صحیح پیشین گوئی کرتے ہیں۔ وہ چاند اور سورج گرہن کے بارے میں بالکل صحیح اندازہ کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ قسمت کا حال بھی بتاتے ہیں۔ ہر شہر میں اس شہرت کے دو یا چار برہمن ضرور ہوتے ہیں۔ موجودہ بادشاہ بھی خاص طور سے ایک کو اپنے دربار میں رکھتاہے۔

خاتمہ

یہ اس ملک کے لوگوں کی عادات، اطوار، انتظام اور رسم و رواج کا ایک خاکہ ہے ۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جتنا حقیقت سے قریب ہو اسے بیان کروں لیکن میں نے جو میں نے بیان کیا ہے نہ تو یہ حتمی ہے نہ پورے ملک پرصادق آتا ہے کیونکہ اس ملک میں بہت زیادہ اختلافات ہیں، انواع و اقسام کی روایات ہیں اور لوگوں کے مذاق میں بہت فرق ہے۔ ان کے طبقہ اعلٰی اور عوام میں اس فرق کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ سے میں اس بات کو بھی ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ میں ہندوستان میں خاموش تماشائی کی طرح نہیں رہا بلکہ ان کے معاشرے اور لوگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔

*******
گذشتہ حوالے:
جہانگیر کا ہندوستان ۱
جہانگیر کا ہندوستان ۲

جہانگیر کا ہندوستان تینوں حصے ایک ساتھ پڑھنے کے لئے یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں۔

جہانگیر کا ہندوستان ۔ ۲



جہانگیر کا ہندوستان - ۲


گذشتہ سے پیوستہ

اور اب پیلسے ئرٹ آپ سے مخاطب ہیں:

یہ رپورٹ میرے اُن تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے کہ جو میں نے یونائیٹڈ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سینئر فیکٹر کی حیثیت سے پیٹرفان ۔ ڈین ۔ بروکے کی ماتحتی میں آگرہ کی تجارتی کوٹھی میں سات سالہ قیام کے دوران لکھی۔ اس دوران میں مجھے تجارت کی غرض سے دوسرے شہر بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ ذیل میں اس رپورٹ کی تفصیل (یہاں صرف منتخب اقتباسات دئیے گئے ہیں)ہے۔

آگرہ

سب سے پہلے آگرہ شہر کا ذکر کروں کہ جو کافی وسیع و عریض ، کھلا ہوا ، اور بغیر فصیلوں کے ہے۔ مگر اس پر زوال کے آثار نظر آتے ہیں۔ شہر کے مکانات اور سڑکیں بغیر کسی منصوبہ اور پلان کے بنی ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہاں پر شہزادوں اور امراء کی حویلیاں موجود ہیں مگر وہ سب تنگ و تاریک گلیوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ اس شہر کی اچانک اور غیر معمولی ترقی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے یہ بیانہ کی حدود میں واقع ایک معمولی سا قصبہ تھا۔ لیکن 1566ء میں اکبر نے اس شہر کو اپنی رہائش کے لئے منتخب کیا اور دریائے جمنا کے کنارے ایک عالیشان قلعہ تعمیر کرایا تو اس قصبہ کی شکل و صورت ہی بدل گئی۔

اس کے ارد گرد گھنے جنگلات کی وجہ سے اب یہ شہر ایک شاہی باغ معلوم ہوتا ہے۔ شاہی محلات اور قلعہ کی وجہ سے امراء نے بھی اس شہر میں کہ جہاں اُنہیں جگہ ملی اپنی حویلیاں تعمیر کرائیں۔ اس غیر منصوبہ بندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں پر کوئی منڈیاں یا بازار اس طرح سے نہیں ہیں جیسے کہ لاہور، برہانپور، احمدآباد یا دوسرے شہروں میں ہیں۔ شہر میں مکانات ایک دوسرے کےقریب قریب ہیں۔ ہندو مسلمان اور امیرو غریب سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اگر موجودہ بادشاہ (جہاں گیر) اس شہر کو اپنی رہائش گاہ بنا لیتا جیسا کہ اکبر نے بنایا تھا، تو یہ شہر دنیا کے مشہور شہروں میں سے ایک ہوجاتا۔ اس شہر کے دروازے جو اکبر نے دفاع اور حفاظت کے لئے تعمیر کرائے تھے وہ اب شہر کے درمیان آگئے ہیں، اور اس کے آگے جو شہر پھیلا ہے وہ موجودہ شہر سے تین گنا زیادہ ہے۔

شہر کی چوڑائی، اس کی لمبائی کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے کیونکہ ہر ایک کی یہ کوشش ہے کہ دریا کے قریب رہے۔ اس لئے دریا کے کناروں پر امراء کے شاندار محلات ہیں جس کی وجہ سے یہ خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔

ان محلات کے بعد شاہ برج یا شاہی قلعہ ہے۔ اس کی فصیلیں سرخ پتھروں سے تعمیر کی گئ ہیں۔ فصیلوں کی چوڑائی ¾ گز ہے ،پھیلاؤ میں یہ 2 کوس ہے۔ اس کی تعمیر میں جو بھی خرچہ ہوا، اور اس کا جو طرزِ تعمیر ہے۔ اس وجہ سے یہ دنیا کی مشہور عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ عمارت مناسب جگہ پر واقع ہے اس کے اردگرد کا ماحول انتہائی خوشگوار ہے۔ اس کا جو حصہ دریا کے رخ پر ہے وہاں پتھروں کی خوبصورت جالیاں اور سنہری کھڑکیاں ہیں۔ یہاں سے بادشاہ اکثر ہاتھیوں کی لڑائی دیکھتا ہے۔ اس کے تھوڑے فاصلہ پر غسل خانہ (وہ جگہ جہاں بادشاہ خاص خاص امراء سے ملتا تھا۔ یہ نجی محفلوں کے لئے بھی مخصوص تھا) ہے جو کہ سنگِ مرمر سے تعمیرکیا گیا ہے۔ شکل میں‌یہ چوکور ہے ۔ اس کے گنبد پر باہر سے طلاء کاری ہے جس کی وجہ سے یہ قریب سے دیکھنے پر شاہی اور دور سے دیکھنے پر شہنشاہی نظر آتا ہے۔ اس کے آگے موجودہ ملکہ نور جہاں کا محل ہے۔ قلعہ میں شہزادوں، بیگمات، اور حرم کی خواتین کی رہائش گاہیں ہیں۔ انہیں میں‌ایک محل مریم زمانی کا ہے جو کہ اکبر کی بیگم اور موجودہ بادشاہ کی ماں ہے۔ ان کے علاوہ تین اور محلات ہیں کہ جو اتوار، منگل اور سنیچر کہلاتے ہیں بادشاہ انہیں دنوں میں‌یہاں ہوتا ہے۔ بنگالی محل میں مختلف اقوام کی عورتیں رہتی ہیں ۔ دیکھا جائے تو یہ قلعہ ایک چھوٹا سا شہر ہے کہ جس میں مکانات ہیں، سڑکیں ہیں، دوکانیں ہیں، اندر سے یہ قلعہ معلوم نہیں‌ہوتا، مگر باہر سے دیکھو تو یہ ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ نظر آتا ہے ۔

دریا کے دوسری جانب سکندرہ نامی شہر ہے۔ یہ آباد شہر ہے اور خوبصورتی و منصوبہ بندی کے ساتھ بنایا گیا ہے یہاں کی اکثر آبادی تاجروں کی ہے۔ اسی شہر سے مشرقی علاقوں اور بھوٹان سے تجارتی سامان آتا ہے۔ یہاں پر نورجہاں کے عہدے دار ان اشیاء پر دریا پار کرنے سے قبل کسٹم ڈیوٹی وصول کرتے ہیں۔ یہ جگہ تجارت کی سب سے بڑی منڈی ہے یہ دو سو کوس کی لمبائی میں پھیلا ہوا ہے ، اگرچہ چوڑائی کم ہے مگر یہاں پر خوبصورت باغات اور بلند و بالا عمارتیں ہیں۔

ان میں سے مشہور سلطان پرویز، نورجہاں اور اس کے مرحوم باپ اعتمادالدولہ کی عمارتیں ہیں۔ اس کا مقبرہ بھی اس شہر میں ہے۔ اس کی تعمیر پر تین لاکھ پچاس ہزار روپیہ کا خرچہ آچکا ہے اور یہ ابھی تک مکمل نہیں‌ہوا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس کے ختم ہونے تک اس پر دس لاکھ مزید خرچ ہوں گے۔ یہاں پر دو مشہور باغات ہیں کہ جو بادشاہ کی ملکیت ہیں، یہ چہار باغ اور موتی محل کے نام سے موسوم ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سے باغات ہیں کہ جو اونچی دیواروں سے گھرے ہوئے ہیں۔ اور جن کے دروازے باغ سے زیادہ قلعہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان باغات و محلات کی وجہ سے شہر کی خوبصورتی بڑھ گئی ہے۔ یہاں کے امراء کی دولت اور شان و شوکت ہمارے ہاں کے امراء سے زیادہ ہے۔ جب تک وہ زندہ رہتے ہیں، اپنے باغات سے لطف اُٹھاتے ہیں، جب یہ مرجاتے ہیں تو یہی باغات ان کے مقبرے بن جاتے ہیں۔ اس شہر میں ان کی تعداد اس قدر ہے کہ میں ان کا ذکر کرنا نہیں چاہتا۔

آگرہ کے مشرقی علاقوں کی تجارت

اکبر کے دور حکومت میں‌تجارت کو بڑا فروغ تھا، یہ صورت حال موجودہ بادشاہ کے ابتدائی عہد میں بھی رہی، کیونکہ اس وقت تک اس میں تازگی و توانائی اور حکومت کرنے کا سلیقہ تھا۔ لیکن جب سے اس نے خود کو لہو و لعب میں مبتلا کر لیا ہے، اس وقت سے عدل و انصاف کی جگہ ظلم و ستم نے لے لی ہے۔ اگرچہ ہر گورنر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کی حفاظت کرے ، لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ ہر گورنر مختلف حیلوں، بہانوں سے لوگوں کو لوٹ رہا ہے اور ان کی ذرائع آمدن پر قابض ہو رہا ہے ۔ کیونکہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ ان غریب لوگوں کی پہنچ نہ تو دربار تک ہے اور نہ ہی بادشاہ تک اپنی شکایات پہنچا سکتے ہیں۔ نتیجہ ان سب باتوں کا یہ ہوا ہے کہ ملک تباہ ہوگیا ہے، لوگ غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔ اس شہر کے پرانے لوگوں کا کہنا ہے کہ اب اس میں ماضی کی کوئی شان وشوکت باقی نہیں رہی ہے کہ جس کی وجہ سے کبھی یہ دنیا بھر میں مشہور تھا۔ اس شہر کی تجارتی اہمیت اس لئے ابھی تک باقی ہے کیونکہ جغرافیائی طور پر یہ ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں سے تمام ملکوں کو راستے جاتے ہیں۔ اس لئے اس راستے سے تمام تجارتی اشیاء کو گزرنا ہوتا ہے، مثلا گجرات، ٹھٹھہ، کابل، قندھار،ملتان اور دکن برہانپور اور لاہور کے راستے یہیں سے گزرتے ہیں بلکہ بنگال اور تمام مشرقی علاقے بھی یہاں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نعم البدل کے طور پر نہیں ہے۔ ان راستوں پر بڑی تعداد میں تجارتی اشیاء آتی جاتی ہیں۔

آگرہ کے مشرق اور مغرب میں واقع صوبوں کا ذکر

لاہور، آگرہ سے 300 کوس مشرق، مغرب میں‌واقع ہے۔ انگریزوں کے آگرہ آنے سے پہلے یہ ہندوستان کا مشہور تجارتی مرکز تھا اور یہاں آرمینا اور شام کے تاجر منافع بخش تجارت کرتے تھے۔ اس وقت نیل کی اہم منڈی آگرہ نہیں بلکہ لاہور تھا کیونکہ یہ تاجروں کے لئے سہولت کا باعث تھا کہ جو مقررہ موسموں میں قندھار سے اصفہاں اور شام قافلوں کی شکل میں جاتے تھے۔ اس لئے نیل شام کے راستے سے یورپ جاتی تھی، یہ یورپ میں‌لاؤری یا لاہوری کہلاتی تھی اب بھی یہاں سے گولکنڈا، منگاپٹم اور مالی پٹم کے بنے ہوئے کپڑوں کی تجارت ہوتی ہے، مگر بہرحال تجارت کی پہلی والی صورت اب باقی نہیں رہی ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ تجارت مر چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے درآمد کرنے والی اشیاء اب صرف ترکی اور ایران کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں کہ جس کی مانگ محدود ہے۔ چونکہ اب تجارت خشکی سے زیادہ سمندری راستوں سے ہوتی ہے، اس لئے اس کی اہمیت گھٹ کر رہ گئ ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر لاہور کی تجارت عملی طور پر ختم ہوگئی ہے، ہندو یا کھتری تاجر جو یہ تجارت کرتے تھے ان کی شہرت اب تک باقی ہے مگر ان کا گذارہ پرانے کمائے ہوئے منافع پر ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ سے موجودہ بادشاہ سال کے پانچ یا چھ مہینے لاہور میں گزارتا ہے (بقیہ وقت، خصوصیت سے گرمیوں کا زمانہ یہ کشمیر یا کابل میں‌رہ کر گزارتا ہے) اس کی رہائش کی وجہ سے شہر کی حالت تھوڑی بہت بہتر ہوگئی ہے۔ لیکن اس کی یہ ساری شان و شوکت، شاہی عمارتوں، محلات، باغات اور شاہی اخراجات کی وجہ سے ہے، اس لئے اس کے اثرات بھی محدود ہیں۔

کشمیر

کشمیر 35 این۔ عرض البلد پر واقع ہے۔ مشرق کی جانب اس کی سرحدیں تبت خورو و کلاں تک جاتی ہیں جو کہ دس دنوں کے سفر کے فاصلے پر ہے۔ جنوب میں‌اس کی سرحدیں کابل سے جا کر ملتی ہیں جو کہ یہاں سے 30 دن کا سفر ہے۔ مغرب میں پونچھ اور پشاور واقع ہیں۔ اس کا سب سے خوبصورت شہر دیرناگ ہے جہاں کہ بادشاہ کے لئے ہندوستان میں‌سب عمدہ شکار گاہیں ہیں۔ اس علاقے میں بڑے خوبصور شہر اور گاؤں واقع ہیں ان کی اتنی تعداد ہے کہ ان سب کا بیان کر مشکل ہے۔

اس لئے اب ہم سب سے مشہور شہر کشمیر (سری نگر) کا بیان کرتے ہیں جو کہ اونچے اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہاں کا ایک پہاڑ مسلمانوں میں تخت سلیمان کہلاتا ہے جس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں، اور کئی کراماتیں اس سے منسوب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر کئی قدیم تحریریں موجود ہیں، اور یہ کہ خود حضرت سلیمان نے یہاں اپنا تخت بنوایا تھا۔ شہر میں پھلوں والے اور دوسرے لا تعداد درخت ہیں۔ یہاں پر دو دریا بہتے ہیں۔ ان میں‌سے بڑا دریا دیر ناگ سےآتا ہے، دوسرا چشمہ کی صورت ابلتا ہے۔ لیکن ان دونوں دریاؤں کا پانی نہ تو میٹھا ہے اور نہ ہی صحت مند۔ اس لئے یہاں کے باشندے اسے پینے سے پہلے ابال لیتے ہیں۔ بادشاہ اور اس کے امراء کے لئے 3 یا 4 کوس سے پانی لایا جاتا ہے جو صاف اور برف کی طرح سفید ہوتا ہے۔ جہانگیر بادشاہ نے پانی کو محفوظ رکھنے کی غرض سے ایک کاریز تعمیر کرائی تھی کہ جو کہ 10 یا 12 کوس کے فاصلہ سے قلعہ میں پانی لاتی تھی۔ لیکن اس خیال سے کہ اسے آسانی کے ساتھ دشمن یا باغی زہر آلود کر سکتے ہیں اس نے کوئی 10 ہزار روپیہ خرچ کرنے کے بعد اس منصوبہ کو ترک کردیا۔

اس ملک اور شہر کے لوگوں کی اکثریت غریب ہے۔ لیکن جسمانی طور پر یہ لوگ طاقتور ہیں، اور بمقابلہ ہندوستانیوں کے زیادہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس لئے حیرت کی بات ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں کو بہت کم کھانے کو ملتا ہے۔ ان کے بچے اس ملک اور شہر کے لوگوں کی اکثریت غریب ہے۔ لیکن جسمانی طور پر یہ لوگ طاقتور ہیں، اور بمقابلہ ہندوستانیوں کے زیادہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس لئے حیرت کی بات ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں کو بہت کم کھانے کو ملتا ہے۔ ان کے بچے گورے اور خوبصورت ہوتے ہیں، لیکن جب یہ بڑے ہوتے ہیں‌تو پیلے اور بدصورت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے طور طریق خوراک اور رہائش کو دیکھا جائے تو وہ انسانوں سے زیادہ جانوروں سے نسبت رکھتے ہیں۔

یہ لوگ مذہبی امور میں بڑے سخت ہیں۔ اکبر کے زمانہ میں کشمیر کو اس کے جنرل راجہ بھگوان داس نے حیلے و بہانے سے فتح کیا تھا کیونکہ دوسری صورت میں پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے اس ملک کو فتح کرنا آسان نہ تھا۔

کشمیر میں پھلوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ جیسے سیب، ناشپاتی اور اخروٹ وغیرہ لیکن ذائقہ میں یہ ایران و کابل کے پھلوں کے مقابلہ میں کم تر ہیں۔ دسمبر جنوری اور فروری میں‌یہاں سخت سردی ہوتی ہے۔ ان مہینوں‌میں‌بارش اور برف باری ہوتی ہے اور پہاڑ برف کی وجہ سے سفید نظر آتے ہیں۔ جب گرمی میں سورج چمکتا ہے تو اس وقت برف پگھلنے سے دریاؤں میں‌سیلاب آجاتا ہے۔

بادشاہ کشمیر کو اس لئے پسند کرتا ہے کہ جب ہندوستان میں گرمیوں کا موسم آتا ہے تو اس کا جسم کثرت سے شراب پینے اور افیم کھانے کی وجہ سے جلنے لگتا ہے۔ اس لئے وہ مارچ یا اپریل میں لاہور سے کشمیر کے لئے روانہ ہوجاتا ہے۔ مئی کے مہینے میں‌یہاں پہنچ جاتا ہے۔ یہ سفر انتہائی دشوار اور خطرناک ہے۔ پہاڑی راستوں کی وجہ سے جانوروں کے لئے سامان اُٹھا کر چلنا مشکل ہوتا ہے اس لئے بادشاہ اور اُمراء کا سامان مزدور اپنے سروں پر اُٹھا کر لاتے ہیں۔ بادشاہ کے کیمپ کے تمام لوگ اس سفر کو اپنے لئے عذابِ الہٰی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس میں امیر لوگ غریب ہو جاتے ہیں اور غریبوں کو کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں کیونکہ یہاں ہر چیز انتہائی مہنگی ہے۔ مگر بادشاہ ان سب باتوں سے بے پرواہ ہو کر اپنی آسائش و آرام کو دیکھتا ہے اور عوام کی تکلیف کا اسے خیال تک نہیں آتا۔



گذشتہ حوالہ: جہانگیر کا ہندوستان-۱


جہانگیر کا ہندوستان


جہانگیر کا ہندوستان




"جہانگیر کا ہندوستان" پیلسے ئرٹ (پیل سارٹ) کا سفرنامہ ہندوستان ہے۔ پیلسے ئرٹ نے یہ کتاب (سفرنامہ) ڈچ زبان میں1626ء میں لکھی جس کا انگریزی ترجمہ ڈبلیو ۔ ایچ۔ مورلینڈ نے 1925ء میں کیا ۔ اس انگریزی ترجمہ سے اردو ترجمہ کا کام ڈاکٹر مبارک علی نے 1997ء میں انجام دیا۔

پیلسے ئرٹ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اور زیرِ نظر تحریر اُس نے اپنی کمپنی کے لئے بطور تجارتی رپورٹ لکھی تھی جس میں تجارتی معاملات کے ساتھ ساتھ اُس نے اُس وقت کے ہندوستان کے انتظامی امور، عوامی مزاج ا ور معاشرتی و ثقافتی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ تاریخ کے سنجیدہ قارئین کے ساتھ ساتھ اس تحریر میں عام لوگوں کے لئے بھی دلچسپی کا سامان ہے کہ اُس وقت کے ہندوستان کا عکس ہمارے آج کے منظرنامے سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ احباب کو شاملِ مطالعہ کرنے کے لئے اس کتاب سے چیدہ چیدہ اقتباسات درج کئے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی کی اس کتاب کا انتساب بھی قابلِ ذکر ہے۔ انتساب کے عنوان کے تحت ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں " محترم عبدالعزیز کے نام ۔ جنہوں نے سیاسی مسائل پر ملک کے نامور دانشوروں اور سیاست دانوں سے بحث کی اور پھر اُن سے مایوس ہوکر اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے مسائل کا حل ہمیں ہی تلاش کرنا ہے"۔

دیباچہ میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

تاریخ اس وقت ہی سمجھ آتی ہے جب بنیادی ماخذوں کا مطالعہ کیا جائےاس لئے پیلسے ئرٹ کی کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ جہانگیر کے ہندوستان سے آگہی ہو۔کتاب کا ترجمہ کرتے وقت اس چیز کو مدِّ نظر رکھا گیا ہے کہ اسے عام فہم زبان میں کیا جائے اس لئے وہ حصے شامل نہیں کئے گئے جن کا مقصد ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کو تجارتی معلومات فراہم کرنا تھا۔

نوٹ: ڈاکٹر مبارک علی نے جہانگیر کے بارےمیں مختصر تعارف بھی لکھا ہے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے مغل تاریخ نہیں پڑی ہے وہ اس حکمران کے بارے میں جا ن سکیں بوجہ طوالت یہ تعارف اس مضمون میں شامل نہیں ہے اگر آپ یہ تعارف پڑھنا چاہیں تو یہاں سے اسکیننگ ڈاؤن لوڈ کرلیں۔

کتاب کے تعارف میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

ڈچ ہندوستان میں 1602 ء میں بغرضِ تجارت آئے۔ جب ہندوستان میں کپڑے کی زیادہ مانگ ہوئی تو انہوں نے کھمبے، بھڑوچ اور آگرہ میں اپنی تجارتی کوٹھیاں (فیکٹریاں) قائم کیں کہ جہاں کپڑا تیار ہوتا تھا ۔ آگرہ کی فیکٹری ہی میں ڈچ فیکٹر پیلسے ئرٹ آیا تھا۔ اُس کی آمد کا مقصد ڈچ تجارت کو فروغ دینا تھا۔ ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران اس نے جو رپورٹ لکھی اگرچہ اس کا تعلق تجارتی معاملات سے ہے مگر اس میں جہانگیر کے عہد کے بہت سے واقعات ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ اس نےاس وقت کی سماجی زندگی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کی تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت ہے۔

چونکہ درباری مورخ اور واقعہ نویس صرف تعریفیں لکھتے ہیں اس لئے پیلسے ئرٹ کے مشاہدات میں جو عام لوگوں کی زندگی کے بارے میں مواد ملتا ہے اس سے ہماری تاریخیں خالی ہیں۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کا معاشرہ بھی آج کی طرح امیر و غریب کے طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ رشوت، بدعنوانیاں، ناجائز طریقوں سے دولت اکھٹی کرنا اس وقت بھی حکمران طبقوں کا کام تھا۔ غریبوں کے طرزِ زندگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغل سلطنت کی شان و شوکت اور دولت محلات و حویلیوں سے اُتر کر جھونپڑیوں تک نہیں آئی تھی۔

یہ ظاہر ہے کہ جس معاشرہ میں غربت، مفلسی اور محرومی ہوگی وہ محروم لوگ توہمات میں پناہ لیں گے، اس لئے آج کی طرح ماضی میں بھی مزار لوگوں کی زیارت کا مرکز تھے کہ جہاں وہ نہ پوری ہونے والی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے منتیں مانتے تھے۔

اس لئے ذہن میں یہ سوال بھی آتا ہے کہ کیا ہماری تاریخ کا یہ تسلسل آج بھی اسی طرح سے برقرار ہے کہ جیسا یہ ماضی میں تھا؟ اس رپورٹ کے بہت سے حصوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باتیں جہانگیر کے عہد کی نہیں بلکہ ہمارے زمانے کی ہیں۔ تو کیا تاریخ کے اس پورے سفر میں ہمارا معاشرہ ایک ہی جگہ ٹھہرا رہا ہے یا اس میں کوئی تبدیلی بھی آئی ہے؟ اس میں امراء کی دولت مندی، دولت کی دکھاوٹ کے طریقے، رعونت، اور بدعنوانیوں کے جو تذکرے ہیں، دیکھا جائے تو آج کے حالات میں صرف ماحول بدلا ہے، ورنہ فرق کوئی نظر نہیں آتا ہے۔

اس رپورٹ سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جس وقت اہلِ یورپ ہمارے معاشرہ کو جاننے اور سمجھنے میں مصروف تھے، اس وقت بھی ہم یورپ اور اس کے معاشرے سے ناواقف تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یورپی علماء و فضلاء آکر ہمیں ہماری تاریخ اور روایات و اداروں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ ہم اہلِ یورپ کو ان کے بارے میں کچھ بتائیں ۔ اکثر تو ہم اس پر بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ "تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی" اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہ کب اس خود کشی کی خبر آتی ہے۔
اب چونکہ یورپ جانا زیادہ مشکل نہیں رہا ہے۔ اس لئے لوگ یورپ کے سفر نامے بہت لکھنے لگے ہیں، مگر ذرا مقابلہ کیجئے اس سترہویں صدی کے یورپی مسافر کے مشاہدات اور تاثرات کا اور ہمارے آج کے سیاحوں کا کہ جنہیں یورپ میں سوائے لڑکیوں اور محبوباؤں کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ ان سفرناموں کو پڑھ کر نہ تو یورپ کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے اور نہ ان کے معاشرے کے بارے میں۔ یہ سفرنامے پیسہ کمانے کے لئے ہوتےہیں۔ علم دینے کے لئے نہیں۔

غیر ملکی سیاحوں کے بیانات کو آنکھیں بند کرکے قبول بھی نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سیاح اپنے ملک کی تہذیب و روایات کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ انہیں دوسرے معاشروں میں یہ اجنبی اور بری لگتی ہے۔ ان کے اپنے تعصبات اپنی جگہ، مگر ان کے ہاں وہ مشاہدات بھی مل جاتے ہیں کہ جنہیں ہماری نظریں نہیں دیکھتی ہیں۔

پیلسےئرٹ کے یہ مشاہدات نہ صرف ماضی کو بلکہ ہمارے حال کو بھی سمجھنے میں مدد دیں گے۔