افسانہ از محمد احمد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانہ از محمد احمد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

افسانہ: سفرنامہ ٴ ابتلاء​

سفرنامہ ٴ ابتلاء​

از: محمد احمد​

afsana-safar-nama-e-ibtila

کبھی کبھی ہماری ترجیحات ہمیں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ عام زندگی میں اگر ہمیں موقع ملے تو ہم ایسا کبھی نہ کریں۔ مجھے ایک سفر درپیش تھا۔ ایک جنازے میں شرکت کے لئے میں ابھی ابھی بس میں سوار ہوا تھا۔ میرا مقامِ مقصود تین چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قریبی شہر تھا۔

مجھے نکلتے نکلتے دوپہر کا ایک بج چکا تھا اور میری کوشش تھی کہ جلد از جلد وہاں پہنچ جاؤں۔ ابھی اس بات کا تعین نہیں ہو سکا تھا کہ تدفین عصر میں ہوگی یا مغرب میں۔ جب میں بس اسٹاپ پر پہنچا تو مجھے متعلقہ بکنگ آفس میں براجمان شخص نے بتایا کہ کچھ دیر میں ایک کوچ (بس) آئے گی اس میں جگہ ہو تو آپ اس میں چلے جانا۔ ورنہ اگلی گاڑی ایک گھنٹے بعد آئے گی۔

جب بس پہنچی تو اُس میں سیٹ نہیں تھی۔ میں نے کنڈکٹر کو بتایاکہ مجھے یہ معاملہ درپیش ہے اور مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ تو اُس نے مجھے کہا کہ سب سیٹیں پہلے سے بک ہیں۔ آپ اسٹول پر بیٹھ جاؤ۔

ہمارے ہاں اندرونِ شہر چلنے والی بسوں میں سیٹوں کے درمیان راہ داری میں پلاسٹک کے اسٹول رکھ کر لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے اور جلدی پہنچنے کے لالچ یا مجبوری میں کئی ایک لوگ ان اسٹولوں پر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میں کبھی بھی اس بات کے لئے راضی نہیں ہوتا کہ میں اتنی دور کے سفر کے لئے ایسی غیر آرام دہ نشست کا انتخاب کروں۔ لیکن چونکہ وقت کا تقاضا تھا سو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں ایک اسٹول پر بیٹھنے پر راضی ہو گیا۔

یا تو یہ پچھلے دنوں کی بے انتہا مصروفیات کے باعث تھا یا اس ناپسندیدہ فیصلے کا اثر کہ مجھے بس میں بیٹھتے ہی کمر میں درد کا سا احساس ہو نے لگا۔ حالانکہ ابھی تو مجھے بس میں سوار ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے اور ابھی بس اسٹاپ سے چلی بھی نہیں تھی۔

ایک لمحے کے لئے خیال آیا کہ بس سے اُتر جاؤں اور اس کے بعد والی گاڑی میں سوار ہو جاؤں۔لیکن پھر یہی سوچ کر اس خیال کو جھٹک دیا کہ اس طرح کافی وقت ضائع ہو جائے گا۔ پھر جب کنڈکٹر کرایہ وصول کرنے آیا تو دل چاہا کہ اُس سے کہوں کہ اس انتہائی غیر آرام دہ سیٹ کے بھی اتنے ہی پیسے لے رہے ہو جتنے دوسری سیٹوں کے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر چپ رہا کہ یہ انتخاب تو میرا اپنا ہے اور پھر اس قسم کے پیشوں سے وابستہ لوگ کافی منہ پھٹ ہوا کرتے ہیں، سو خاموشی ہی بہترتھی۔

بس اب چل پڑی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ دعا کر رہا تھا کہ جلد از جلد یہ سفر تمام ہو۔ مجھ سمیت آٹھ لوگ اسٹول پر بیٹھے تھے۔ لیکن باقی لوگوں کی باڈی لینگویج سے بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی غیر آرام دہ نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مجھے لگا کہ شاید میں اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہا ہوں۔ تب مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کچھ لوگ تو اس سے بھی بُری حالت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن شکوہ لب پر نہیں لاتے۔ پھر خیال آیا کہ شاید یہ لوگ اس طرح کے سفر کے عادی ہیں، اور اس خیال سے میرے احساسِ ندامت میں کچھ کمی واقع ہوئی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ زندگی میں ایک دو بار پہلے بھی میں نے اس طرح سفر کیا ہے ۔ لیکن آج یہ بات کچھ زیادہ ہی کَھل رہی ہے۔ یا شاید ڈھلتی عمر کے ساتھ اب قوتِ برداشت کچھ کم ہوگئی ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی تکلیف سے گزر جانے کے بعد اُسے بھول جاتے ہیں اور شاید یہ بھی خدا کا ہم پر احسان ہے۔

میں اسٹول پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ میں نے اپنے جوتے اتار کر سائیڈ پر رکھ دیے اور اپنے پاؤں آگے والے اسٹول کے پائیدان پر ٹکا دیے۔ بے آرامی کے باعث میں مختلف انداز سے پہلو بدل بدل کر دیکھ رہا تھا کہ شاید کسی کل چین آ جائے لیکن ہر طرح سے ایک ہی جیسا حال تھا اور بے سہارا کمر بس کی رفتار کے باعث دباؤ اور تکلیف کا شکار تھی۔

بس اب اچھی خاصی رفتار سے چل رہی تھی۔ میرے دونوں اطراف کی سیٹوں پر موجود چاروں لوگ اونگھ رہے تھے۔بائیں طرف بیٹھے نوجوان نے اپنی پی کیپ کو اُتار کر گھمایا اور اُس کے پچھلے بند کو اپنی ٹھوڑی میں پھنسا کر اپنا منہ اور آنکھیں ڈھک لی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر کچھ ہنسی بھی آئی۔ لیکن اِس وقت ہنسنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔

کچھ لوگ ہینڈ فری لگائے بغیر سوشل میڈیا پر ویڈیوز وغیرہ دیکھ رہے تھے۔ اور طرح طرح کی آوازوں سے مجھے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی۔ کسی سونے والے نے ایک آدھ کی آواز کو کم بھی کروایا ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ آوازیں از خود ماند ہو گئیں، اور بس کے بیشتر مسافر اونگھنے لگے۔

کمر کا درد اب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا ۔ میں نے موبائل فون پر اپنی دلچسپی کا ایک آرٹیکل نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ لیکن میں بمشکل تمام آدھی ہی تحریر پڑھ پایا اور بے چینی کے عالم میں پڑھنا معطل کر دیا۔

تیز رفتار بس کی کھڑکی سے ویران پہاڑیاں اور کہیں کہیں سبزہ نظر آ رہا تھا ۔ میں اس وقت بالکل فارغ بیٹھا تھا۔ مجھے پچھلے دنوں پڑھی ہوئی ایک کتاب یاد آئی کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ تخلیقی کاموں سے وابستہ لوگوں کو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر روزانہ کچھ نہ کچھ وقت فارغ بیٹھنا چاہیے۔ تاکہ اُن کے ذہن کو ادھر اُدھر بھٹکنے کا موقع ملے۔ اور مشاہدے اور خیالات کے خمیر سے کوئی تخلیقی خیال جنم لے سکے۔

میرے لئے فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام تھا۔ جب کبھی تھوڑی سی بھی فراغت ملتی تو نہ جانے کس طرح موبائل فون جیب سے نکل کر ہاتھ میں پہنچ جاتا۔ اور میں مختلف لوگوں کے بے سروپا پیغامات دیکھنے لگ جاتا۔ سوشل میڈیا کی ایپس کب کُھل جاتیں اور نہ جانے کتنا وقت وہاں کھپ جاتا، پتہ ہی نہ چلتا۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ میں کسی کام سے موبائل فون نکالتا اور سوشل میڈیا کے کسی نوٹیفیکیشن کی اُنگلی پکڑ کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ۔ اور مجھے یاد بھی نہ رہتا کہ میں نے کس کام سے موبائل نکالا تھا۔

لیکن آج تو نہ کسی تحریر میں دل لگ رہا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر۔ آج تو بس یہی خیال تھا کہ کسی طرح یہ وقت کٹے اورمیں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں۔ بس اپنی رفتار سے چلی جا رہی تھی ۔میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ بس کی رفتار کم تھی۔ ہاں البتہ میرا انتظار کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔

مجھے یاد آیا کہ ماضی میں جب کبھی میں بس میں سفر کیا کرتا تھا تو میرے برابر بھی کوئی نہ کوئی شخص اسٹول پر آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ مجھے اُس سے ہمدردی ضرور ہوتی تھی لیکن کبھی اتنی اخلاقی جرات نہیں ہو سکی کہ اپنی سیٹ اُسے دے کر اُس کی جگہ بیٹھ جاؤں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے ، آپ کسی کی تکلیف اُس وقت تک کم نہیں کر سکتے ، جب تک کہ اُس کے حصے کی تکلیف برداشت کرنے پر راضی نہ ہو جائیں۔ مجھے اپنے پڑوسیوں سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ یہ آرام دہ سیٹ اُن کا حق تھی اور میں اپنے مقدر یا انتخاب پر قانع تھا۔

بس کسی چھوٹے سے اسٹاپ پر رُکی تو اچانک کہیں سے کچھ خوانچہ فروش بس میں در آئے اور چپس، پیٹیز اور کولڈ ڈرنک کی آواز لگانے لگے۔ کچھ لوگ اُن سے چپس اور بوتلیں خرید رہے تھے۔ بظاہر یہ چپس ایک معروف برانڈ کے معلوم ہوتے تھے لیکن اُن پر نام کچھ اور تھا۔ اسی طرح پانی کی بوتلیں بھی اچھے برانڈز کے ملتے جُلتے نام لئے ہوئے تھیں۔ لیکن سفر میں سب چلتا ہے۔ میں اپنی پانی کی بوتل اسٹاپ سے ہی لے چکا تھا ۔ سو مجھے ان خوانچہ فروشوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ تاہم چونکہ ہم اسٹول والے، راستے میں براجمان تھے سو مجھ سمیت سب اسٹول والوں کو خوانچہ فروشوں اور اصلی مسافروں کے درمیان وسیلے کا کام کرنا پڑ رہا تھا۔ ادھر سے چیز لے کر اُدھر پکڑاتے ، پھر اُدھر سے پیسے لے کر خوانچہ فروشوں کو دیتے ۔ پھر بقیہ پیسے اور نئی چیزوں کا تبادلہ ہوتا۔ اس سرگرمی سے کوئی فائدہ تو کیا پہنچتا البتہ کچھ دیر کے لئے درد کا احساس پس منظر میں چلا گیا۔ بس چلی تو کمر کی تکلیف نے واپس اپنی جگہ سنبھال لی اور پہلے سے زیادہ شدت سے اپنا احساس دلانے لگی۔

یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بس کا یہ سفر کوئی قید با مشقت ہو اور قید کا یہ دورانیہ کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہا تھا اور کمر کی تکلیف جبری مشقت کی طرح نا قابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ اس وقت زندگی اِس بس اور بس کے ماحول تک محدود ہو چکی تھی صرف ذہن کچھ کچھ آزاد تھا کہ ادھر اُدھر بھٹک سکے اور آنکھوں کو اجازت تھی کہ بس کی کھڑکیوں سے اُس طرف کے مناظر میں کوئی دلچسپی تلاش کر سکیں۔

بس کچھ نئے تعمیراتی پروجیکٹس کے پاس سے گزر رہی تھی۔ ایک قطعہِ زمین کو طرح طرح کے رنگا رنگ جھنڈوں اور بینرز سے سجایا گیا تھا ۔ ایک چھوٹی سی خوبصورت عمارت آفس کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہاں لگے بڑے بڑے بینرز بے گھر لوگوں کو اپنے گھر کے خواب دکھا رہے تھے۔ اس غیر آباد زمین میں عارضی طور پر جنگل میں منگل اس لئے برپا کیا گیا تھا کہ اپنے گھر کے خواہش مند لوگ اس رنگ و روپ اور چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنے پلاٹ بک کروا لیں۔

لیکن یہ سب گہما گہمی پروجیکٹ کے شروع میں ہی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب زیادہ تر پلاٹ فروخت ہو جاتے ہیں ۔ تب یہ سب رونق آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب یہ جگہ پھر سے بے آب و گیاہ ویرانے کی طرح نظر آتی ہے۔

ایسے میں اگر کوئی بھولا بھٹکا اپنا پلاٹ دیکھنے آ جائے تو وہ یہی سوچتا ہے کہ شاید یہاں یا شاید وہاں اُس کا پلاٹ تھا۔ حتیٰ کہ اُسے پلاٹ کا کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آتا ، اور وہ مخمصے اور شکوک شبہات میں گھرا واپس لوٹ جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے برسوں بعد قبرستان آنے والا اپنے کسی عزیز کی قبر ڈھونڈتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید یہاں تھی، یا شاید وہاں تھی۔ لیکن اسے یقین کی دولت میسر نہیں آتی۔

ایک آہ میرے منہ سے برآمد ہوئی۔ آہ کیا یہ تو ایک کراہ تھی۔ اُس شدید تکلیف کا احساس تھی جو بے آرامی کے باعث میری رگ رگ میں سرائیت کر چکی تھی۔ کاش میں کوئی درد کی گولی ہی کھالیتا۔ لیکن کیسے کھاتا۔ سفر میں نہ تو کوئی معالج تھا نہ کوئی دوا۔ یوں بھی یہ تکلیف کوئی تکلیف تھوڑی تھی۔ یہ تو بس بے آرامی کا روگ تھا اور اسے آرام سے ہی شفا ہونی تھی۔

اب تک غالباً دو تہائی سفر طے ہو چکا تھا۔ لیکن جیسے جیسے منزل قریب آ رہی تھی ۔ اسٹول پر بیٹھنا اور دشوار ہو رہا تھا ۔

مجھ سے آگے اسٹول پر بیٹھے آسمانی قمیض والے چاچا جی اب سو رہے تھے۔ ان کا کان مسلسل برابر والی سیٹ سے ٹکرا رہا رہا۔ لیکن انہیں کوئی ہو ش نہیں تھا۔ مجھے اُن پر اور خود پر حیرت ہوئی۔ شاید میرے محسوسات کچھ زیادہ ہی بڑھے ہوئے تھے۔ مجھ سے زیادہ عمر کے وہ بزرگ کس طرح اسٹول پر بیٹھے بیٹھے سو رہے تھے۔ اور میں تکلیف سے کراہ رہا تھا۔ پھر میں تو اس طرح سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگر میں کسی طرح سو بھی جاتا تو شاید تھوڑی ہی دیر میں کسی مسافر پر گر جاتا ۔ مجھے اپنی کم ہمتی پر افسوس بھی ہوا اور اس بات کا رشک بھی ہوا کہ میری ہی جیسی صورتِ حال میں میرے سے کہیں زیادہ عمر کا ایک شخص کتنے اطمینان سے سورہا ہے اور میں نہ جانے کیوں چھوئی موئی بنا ہوا ہوں۔

ایسا نہیں کہ میں نے اپنی توجہ ادھر اُدھر بانٹنے کی کوشش نہ کی ہو ۔ لیکن میرا دھیان کسی بھی جگہ نہ لگ سکا۔ مجھے اپنی خوراک بہتر کرنی چاہیے اور کچھ ورزش کو بھی معمول بنانا چاہیے،میں آگے کے لئے سوچنے لگا۔ انسان کو اتنا مضبوط تو ہونا چاہیے کہ مشکل وقت پڑنے پر با آسانی گزارا کر سکے اور چھوٹی چھوٹی تکالیف اُس کے لئے سوہانِ روح نہ بن جائیں۔ آج بھی میں ہمیشہ کی طرح ایک معمولی سا مشکل مرحلہ آنے پر آگے کے لئے خود سے عہد و پیمان کر رہا تھا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ سب عہد و پیمان مشکل کے رفع ہوتے ہی ذہن سے محو ہو جانے ہیں۔

باقی ماندہ مسافت مستقل کم ہو رہی تھی لیکن ساتھ ساتھ درد اب ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ درد کے ساتھ ساتھ مجھے بخار کی حرارت بھی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید تھکن اور شدید تکلیف کے باعث مجھے بخار ہو رہا تھا۔ دھیان بٹانے کے لئے میں نے پھر کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ بس ایک چنگی ناکہ پر رُکی ہوئی تھی۔ ڈرائیور چنگی کے پیسے دے کر رسید وصول کر رہا تھا۔ ہم دھیان دیں یا نہ دیں لیکن سرکار ہم سے کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس لے رہی ہوتی ہے۔ اور ہم ٹیکس دینے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم چینی، پتی گھی ، آٹا غرض ہر چیز خریدتے ہوئے سرکار کو خراج دے رہے ہوتے ہیں۔ اور بدلے میں سرکار ہمیں محض طفل تسلیاں دینے اور اچھے مستقبل کے خواب دکھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔

نہ جانے آج کیوں ہر بات مجھے منفیت کی طرف مائل کر رہی تھی حالانکہ میں خود اکثر لوگوں کو ہر بات کا مثبت پہلو تلاش کرنے کا مشورہ دیا کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بس کا یہ سفر شاید اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا مجھے محسوس ہو رہا تھا ۔ شاید ایک بات تو یہ تھی کہ یہ سفر خوشی کا نہیں بلکہ غمی کا تھا اور یہ بھی ہے کہ کچھ دن ہوتے ہی آزمائش کے لئے ہیں۔

بس کی کھڑکی سے اب ویران پہاڑوں اور جنگلی پودوں کے ساتھ ساتھ اِکی دُکی عمارتیں بھی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اور اِن عمارتوں اور چھوٹی چھوٹی دوکانوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھیں۔ ہم غالباً شہر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں بس سے اُترنے کے لئے کمر باندھنے لگا۔ لیکن تکلیف کے باعث محاورتاً کمر باندھنا بھی دشوار ہو رہا تھا ۔ بخار بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ بس سے اُتر کر فوراً ہی کوئی درد کش دوا لے کر کھاؤں گا۔

لیکن جب بس رُکی تو میں بس سے اُتر کر رکشہ میں سوار ہوگیا ۔ اس دوران یہ اطلاع پہنچ چکی تھی کہ تدفین عصر کے وقت رکھی گئی ہے اور اس وقت عصر کا وقت اپنے آخر آخر پر تھا۔ میں نے فون کیا تو معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ ہو چکی ہے اور اب وہ لوگ قبرستان جا رہے ہیں۔ مجھے مشورہ ملا کہ میں براہِ راست قبرستان پہنچ جاؤں۔ میں نے رکشے والے کو مذکورہ قبرستان کا پتہ سمجھایا اور ہم تھوڑی ہی دیر میں قبرستان پہنچ گئے۔ رکشے والے کو فارغ کرکے جب میں قبرستان میں داخل ہوا تو مجھے نزدیک ہی تدفین کا عمل ہوتا دکھائی دیا۔

میں آگے بڑھ کر لوگوں میں شامل ہو گیا۔ بخار کی شدت اور تکلیف سے میری حالت غیر ہو رہی تھی۔ جنازے میں شریک کچھ شناسا چہروں سے آنکھوں ہی آنکھوں میں دعا سلام ہوئی تاہم میں نے فی الحال ملاقات کو موخر ہی رکھا۔

قبر کے اردگر دجمع لوگ ایک دوسرے کو احکامات و ہدایات دے رہے تھے کوئی کچھ منگوا رہا تھا تو کوئی احتیاط کی صدا لگا رہا تھا ۔ جب میّت کو قبر میں لٹایا جانے لگا تو میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میّت کی جگہ میں لیٹ جاؤں، چاہے اُس کے لئے مجھے قبر میں ہی لیٹنا پڑے۔ لیکن میں نے خود کو سنبھالا اور لواحقین میں سے ایک نڈھال شخص کو سہارا دینے کے لئے آگے بڑھ گیا۔

 

******

مختصر افسانہ:اتفاق

اتفاق

مختصر افسانہ از محمد احمد

وُہ مسکرا رہی تھی اور میں بھی مسکرا رہا تھا۔ وہ اپنے کسی خیال میں اور میں اپنے کسی خیال میں۔ دونوں ایک دوسرے سے بے خبر۔

اچانک دونوں کی نظریں ملیں۔ دونوں کی مسکراہٹیں فزوں تر ہو گئیں۔

"کیا ہوا؟" دونوں نے ایک ساتھ کہا۔

"کچھ نہیں!" ایک سے سوال کا ایک سا جواب تھا۔


یہ محض اتفاق تھا لیکن حسنِ اتفاق کی مکمل تعریف لیے ہوئے تھا۔

*****


 

افسانہ : روپ بہروپ

روپ بہروپ

از محمد احمد


"یہ عامر وسیم پاگل واگل تو نہیں ہے؟ "صدیقی صاحب کافی غصے میں نظر آ رہے تھے
لیکن میں اس لڑکے کی بات سن کر ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا تھا۔ میرا ذاتی خیال یہی تھا کہ کرکٹر وغیرہ کافی لا ابالی ہوتے ہیں۔ پھر یہ تو ابھی بالکل نوجوان ہی تھا۔ اکیس بائیس سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ ایسے میں اُس کی طرف سے اِس قسم کی بات کافی حیران کن تھی۔

"مجھے ایڈورٹزمنٹ کے شعبے میں 30 سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج تک ایسی بات کسی نے نہیں کی۔"
"اتنے بڑے بڑے ماڈلز، ایکٹرز، ایکٹریسز، حتیٰ کہ بڑے سے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ میں نے اشتہار کیے ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے ایسی بات نہیں کی۔" صدیقی صاحب اپنی دراز میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔

"اس کا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہو گیا ہے۔" انہوں نے دراز زور سے بند کرتے ہوئے کہا۔ شاید اُن کی مطلوبہ شے وہا ں نہیں تھی۔
"خیر ! میں کلائنٹ سے بات کرتا ہوں اور اُن سے کہتا ہوں کہ وہ اس کے بجائے شاہد کمال کو لے لیں۔ شاہد کمال کی ریٹنگ بہت اچھی ہے اوراس کے مقابلے میں یہ تو بالکل ہی نیا ہے۔ چار چھ میچز کی پرفارمنس کوئی پرفارمنس ہوتی ہے۔" صدیقی صاحب اپنی رو میں کہے جا رہے تھے۔

*****

میں اور صدیقی صاحب ایک ایڈورٹِزمنٹ ایجنسی میں ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہماری فرم ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے لئے اشتہارات بناتی ہے۔ ہم دونوں کا کام ایک طرح سے مارکیٹنگ اور کلائینٹ ہینڈلنگ ہے۔

ہمارے ایک کلائینٹ کی فرمائش ہے کہ وہ اپنے فوڈ سپلیمنٹ کے اشتہار میں نئے ابھرتے ہوئے کرکٹر عامر وسیم کو لیں ۔ عامر وسیم نے کچھ ہی ماہ قبل ایک مقامی لیگ میں ڈیبیو کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ اُس کے فوراً بعد ہی اُسے قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا اور اپنی پہلی ہی سیریز میں اس نے کئی نئے ریکارڈ بنا دیے۔

جب میں اور صدیقی صاحب اشتہار کے سلسلے میں عامر وسیم سے ملے تو وہ کافی خندہ پیشانی سے ملا لیکن اُس نے ایک عجیب بات کی۔

اُس کا کہنا ہے کہ وہ اشتہار میں کام کرنے سے پہلے اُن کی یہ پروڈکٹ استعمال کرکے دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر اسے سمجھ آئی تو اشتہار میں کام کرے گا، ورنہ معذرت کر لے گا۔ اُس نے فوڈ سپلیمنٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ اُس نے کہا کہ میں کسی غلط پروڈکٹ کا اشتہار نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے اللہ کو جواب دینا ہے۔

یہ بات واقعی عجیب ہے۔ آج تک کسی ماڈل نے ایسا نہیں کہا کہ وہ پروڈکٹ کو استعمال کیے بغیر اشتہار میں کام نہیں کرے گا۔ بلکہ ماڈلز کو تو اس بات سے غرض ہی نہیں ہوتی کہ وہ پروڈکٹ کیسی ہے، اچھی ہے یا بری ہے۔ اُن کو اپنے پیسوں سے غرض ہوتی ہے اور بس!

دیکھا جائے تو یہ لڑکا اشتہاروں سے اچھا خاصا کما سکتا ہے لیکن اس قسم کا رویّہ تو اپنے پیروں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ یقیناً وہ کسی اچھی تربیت کے زیرِ اثر پلا بڑھا ہے ورنہ آج کل تو لوگ مالی منفعت کے آگے کچھ بھی نہیں دیکھتے۔

*****

 
صدیقی صاحب جب کلائینٹ سے ملے تو خلافِ توقع کلائینٹ نے اُنہیں کہا کہ وہ ہر حال میں اپنا اشتہار عامر وسیم سے ہی کروانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پرانے چاولوں کے مقابلے میں نئے ٹیلینٹ اور نئے چہرے کے ساتھ اپنا اشتہار کروائیں۔ کلائینٹ نے کہا کہ وہ اپنی پروڈکٹ کے کچھ فریش سیمپل بھیج دے گا تاکہ وہ عامر وسیم کو بھیج دیے جائیں ۔ کلائینٹ نے صدیقی صاحب کی ذمہ داری لگائی کہ وہ کسی طرح عامر وسیم کو اس اشتہار کے لئے راضی کریں۔

صدیقی صاحب جتنا عامر وسیم سے چِڑ رہے تھے اُتنا ہی اُنہیں اُس سے واسطہ پڑ رہا تھا۔

*****

عامر وسیم سے ہماری اگلی ملاقات کم و بیش دو ہفتے بعد ہوئی۔

صدیقی صاحب نے کافی کوشش کے بعد اپنے موڈ کو خوشگوار بنایا اور عامر وسیم کو فوڈ سپلیمنٹ کے تازہ سیمپل دئیے جو کلائینٹ نے خاص طور پر عامر وسیم کے لئے بھیجے تھے۔

عامر وسیم حسبِ سابق بہت اچھی طرح ملا ۔ بظاہر یہ ایک کھلندڑا اور ہنس مکھ نوجوان تھا۔ عامر وسیم نے بتایا کہ ان سیمپلز کی اب ضرورت نہیں ہے۔ وہ مارکیٹ سے لے کر اس پروڈکٹ کو استعمال کرتا رہا ہے اور اس دوران اُس نے پروڈکٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ بھی کرو ا لیا ہے۔ اب وہ پروڈکٹ سے مطمئن تھا ۔

یوں صدیقی صاحب کی مشکل توقع سے کہیں پہلے آسان ہو گئی اور پھر وہ بھی خوش دلی سے باقی کے مراحل میں جُت گئے۔ 

*****


عامر وسیم ایک اچھا کرکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ خوش شکل اور جاذبِ ِ نظر بھی تھا۔ پھر ہماری فرم کا برسوں کا تجربہ بھی اشتہار سازی میں شامل رہا ۔ یوں یہ اشتہار کافی اچھا بنا ۔ اور لوگوں میں مقبول بھی بہت ہوا۔

کمپنی کے مالک نے ایک کام اوربھی کیا۔ اُس نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ایک کمپین چلائی ، جس میں ایمانداری اور سچی گواہی کے ہیش ٹیگز شامل کیے گئے اور اس میں بتایا گیا کہ کرکٹر نے اشتہار میں کام کرنے کی کیا شرط رکھی۔ یہ کمپین بظاہر کرکٹر کو سراہنے کے لئے تھی ۔ لیکن ضمنی طور پر یہ اس پروڈکٹ کی شہرت کا سبب بنی کہ ہر پوسٹ ہر ٹوٹئٹ میں اشتہار کی ویڈیو بھی شامل کی گئی۔

یوں عامر وسیم کی شہرت اور نیک نامی کو بھی چار چاند لگے ،لیکن اصل فائدہ کلائینٹ کو ہی ہوا۔

*****

آج اتوار کا دن تھا ۔ سہ پہر کے وقت میں اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر حالات حاضرہ کا کوئی پروگرام چل رہا تھا۔ ہم ادھر اُدھر کی باتیں بھی کر رہے تھے۔

اچانک ٹی وی اسکرین پر ایک اشتہار میں شاہد کمال نظر آیا۔
"میں کبھی کسی ایسے پروڈکٹ کے لئے کام نہیں کرتا جس کو میں نے خود نہ آزمایا ہو۔اور جب تک میں خود اس پروڈکٹ کی تحقیق نہ کر لوں۔ " شاہد کمال بڑے پر یقین لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
اُس کے ہاتھ میں ایک انرجی ڈرنک تھا اور وہ اُس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہا تھا۔

میں اس پروڈکٹ کو دیکھ کر چونکا۔ میں نے فوراً اس کا نام سرچ انجن پر ڈالا۔
میرا خدشہ بالکل درست نکلا۔ یہ تو اُن پروڈکٹس میں سے تھی جن کے استعمال پر وزارتِ صحت نے تنبیہ کی تھی اور مضرِ صحت مصنوعات کی فہرست میں اس کا نام شامل کیا تھا۔

غالب کا ایک شعر نہ جانے کہاں سے میرے حافظے میں نمودار ہوا۔

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی

اور میں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔

***-***-***

افسانہ - روپ بہروپ

مختصر افسانہ: اردو ہے کس کا نام؟

اردو ہے کس کا نام؟
مختصر افسانہ از محمد احمدؔ

"بس! یہاں سائڈ پر گاڑی روک دیجے۔"۔۔۔ایک نشست سے نسوانی آواز بلند ہوئی۔
"کیا نمبر ہے آپ کا؟"۔۔۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف روکتے ہوئے بورڈنگ پاس نمبر پوچھا۔
"تھرٹی تھری"۔۔۔ دوشیزہ نے موبائل ایپ پر دیکھتے ہوئے بتایا۔
"اردو میں بتاؤ۔ "۔۔۔سرحدی علاقے کا ڈرائیور انگریزی گنتی سے نابلد تھا۔
"تین تین "۔۔۔ لڑکی نے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا۔ وہ لفظ تینتیس سے واقف نہیں تھی۔
ڈبل تین؟ ڈرائیور نے اپنے انداز میں تصدیق چاہی۔
جی۔
اور اس طرح دو پاکستانی شہری ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔
نئی نسل کی اردو سے بے رغبتی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ "اِشو" بناتے ہیں۔ 

*****





افسانہ: فریاد کی لے​

فریاد کی لے​
از محمد احمدؔ​

وہ اِس وقت ذہنی اور جسمانی طور پر بالکل مستعد تھا۔ بس انتظار تھا کہ مولوی صاحب سلام پھیریں اور وہ نماز ختم کرکے اپنا کام شروع کر دے۔ اُس نے اپنے ذہن میں اُن لفظوں کو بھی ترتیب دے لیا تھا جو اُس نے حاضرینِ مسجد سے مخاطب ہو کر کہنا تھے۔ جیسے ہی مولوی صاحب نے سلام پھیر ااُس نے بھی تقریباً ساتھ ساتھ ہی سلام پھیرا اور ایک جھٹکے سے اُٹھا لیکن عین اُس وقت کہ جب اُس کو کھڑا ہو کر اپنی فریاد لوگوں تک پہنچانی تھی اُس کی قمیص کا دامن اُسی کے پاؤں تلے آ گیا اور ایک دم سے اُٹھنے کی کوشش کے باعث دامن چاک سے لے کر کافی اُوپر تک پھٹ گیا۔ ابھی وہ قمیص کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ ہال کے دوسرے کنارے سے ایک آواز سُنائی دی۔

"میرے بھائیو! میں اور میرے گھر والے تین روز سے ۔۔۔۔" رُندھی ہوئی آواز میں شروع ہوا یہ جملہ بیچ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اِس وقت کسی غیر متوقع "حریف" سے ٹکراؤ کا اُسے خیال تک نہیں تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے دروازے کے پاس ایک خستہ حال لڑکے نے حاضرین کو متوجہ کیا لیکن وہ جملہ مکمل کیے بغیر ہی رونے لگا ابھی وہ اس نئے سائل کی ڈرامے بازی کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک فریاد کرنے والا لڑکا جو اپنا جملہ مکمل کرنے کے بجائے رونے لگا تھا لوگوں کو پھلانگتے ہوئے بھاگنا شروع ہو گیا۔

نہ جانےاُسے کیا ہوا کہ اُس نے بھی نئے سائل کے پیچھے دوڑ لگا دی، کہ جیسے عین "دھندے" کے وقت پہنچ کر اُس کے حریف نے اُسے دعوتِ پیکار دے دی ہو اور پھر میدانِ جنگ سے فرنٹ ہو گیا ہو۔ اور جیسے اب اُس کی پہلی ذمہ داری ہی یہ ہو کہ پسپا ہوتے دشمن کو قریب ہی کہیں چھاپ لے اور پھر ایک ایک کرکے سارے بدلے چُکائے۔

صورتِ حال اب یہ تھی کہ آگے آگے خستہ حال نوجوان لڑکا روتا جاتا اور دوڑتا جاتا تھا اور وہ اُس کے پیچھے پیچھے ایک غیر ارادی تعاقب میں دوڑ رہا تھا ۔ دوڑتے دوڑتے اُس نے سوچا بھی کہ جب نیا لڑکا دوڑ ہی گیا تھا تو اُسے اپنا کام شروع کرنا چاہیے تھا بجائے اِس کے کہ وہ اُس کے پیچھے اپنا وقت برباد کرنے آگیا۔ لیکن یہ سوچ بھی اُس کے قدم روکنے کا حیلہ نہ بن سکی اور وہ اندھا دھند دوڑتا رہا۔

مختلف چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزر کر مفرور سائل ایک گھر کے دروازے میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ اُس نے اُسے جا ہی لیا ۔ اُس کی گرفت میں آکر مفرور لڑکا شدید پریشانی کا شکار نظر آتا تھا اور اُسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اُس کا اندھا دھند تعاقب کرنے والا یہ شخص کون تھا اور آخر اُس سے ایسا کیا قصور ہوا تھا کہ اُسے نجات ملنے کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا تھا۔
"کون ہے بے تو؟؟؟" اُس نے حقارت سے لڑکے سے پوچھا
"میں ! میں!" لڑکے کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد سے کیسے نمٹا جائے۔
پھر شاید اُسے ہی خیال آیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی جارح ہو رہا ہے تو اُس نے اپنے لہجے کو کچھ بہتر بناتے ہوئے پوچھا" مسجد میں کیا کرنے آیا تھا؟"
"وہ ، میں۔۔۔! مجھے پیسے چاہیےتھے" لڑکے نے ہکلاتے ہوئے بتانا شروع کیا۔
"ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کھانے کو ، پیسے بھی نہیں ہیں" وہ سسکتا جاتا اور بتاتا جاتا۔
"میں نے۔۔۔۔ میری امی نے، میرے بھائی نے ۔۔۔ ہم نے کچھ نہیں کھایا " رو رو کر لڑکے کا بُرا حال تھا اور اُس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ سوال جواب کیوں کر رہا ہے۔
"تین دن سے ہمیں پانی کے علاوہ کچھ نہیں ملا، میں نے سوچا مسجد میں جا کر ۔۔ جیسے دوسرے لوگ ۔۔۔ " لڑکا پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
اُس کے ہونٹوں سے سارے سوال غائب ہو گئے تھے اور آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
پھر اچانک اُس نے آگے بڑھ کر لڑکے کو گلے سے لگا لیا، اور پھر وہ دونوں رونے لگے ۔ جیسے جیسے اُن کا کوئی مر گیا ہو۔ لیکن اُن کا اس دنیا میں تھا ہی کون جو مرتا۔ اور اُن کا کوئی ہوتا تو کیا وہ اس طرح روتے؟
وہ روتے جاتے اور ایک دوسرے کو بھینچتے جاتے کہ جیسےکوئی سالوں برسوں بعد ملا ہو اور اس بات کا یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ ملن کا لمحہ واقعی آن پہنچا ہے۔
آس پاس جمع ہوتے بچوں کو دیکھ کر اُسے کچھ ہوش آیا۔ اُس نے لڑکے کو خود سے جدا کیا اور ہتھیلیوں کی پشت سے آنسو پوچھتے ہوئے بولا ۔ "میرے ساتھ آ" اور اُس کا ہاتھ پکڑکر چلنے لگا۔
سائل لڑکا میکانیکی انداز میں اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔ راستے میں وہ دونوں بالکل خاموش تھے۔کہتے بھی تو کیا۔
اُن کا یہ مختصر سفر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر ختم ہوا اور اُس نے لڑکے کو ہوٹل پر ایک تخت پر لا کر بٹھا دیا۔ ادھر اُدھر دیکھنے پر اُسے ایک پانی کا ڈرم نظر آیا۔ اُس نے ڈرم سے پانی جگ میں نکالا اور منہ دھونے لگا۔ منہ ہاتھ دھو کر اُس نے ایک جگ اور بھرا اور لڑکے کو بُلا کر اُس کا منہ بھی دھلوا دیا۔
کچھ تازہ دم ہو کر وہ پھر سے تخت پر بیٹھے تو بیرا اُن کے سر پر نازل ہو چکا تھا۔ "ہاں اُستاد ! کیا لاؤں؟"
"ایک دال فرائی لے آ اور روٹی گرم لانا ۔ " اُس نے بیرے کو دیکھا اور سوچتے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دیر میں بیرا کھانا لے آیا۔ کھجور کے پتوں سے بنی رکابی میں تندور کی تازہ روٹیاں اور اسٹیل کی پلیٹ میں چنے کی دال ، فرائی کی ہوئی۔ سائل لڑکے کے آنسو اب تک تھم گئے تھے لیکن اُس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اُس نے لڑکے کی طرف دیکھا اور کھانے کی طرف اشارہ کرکے کہا "گرو ، ہو جا شروع۔۔۔!"

لڑکے نے جھجکتے ہوئے ایک نوالہ بنایا اور دال کی پلیٹ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ لیا۔ نوالے کے منہ میں جاتے ہی اُس کی ساری جھجک رُخصت ہوگئی اور وہ بے صبری سے کھانا کھانے لگا۔ اُسے کوئی خاص بھوک نہیں تھی لیکن لڑکے کا ساتھ دینے کے لئے وہ بھی چھوٹے چھوٹے نوالے لیتا رہا۔


کھانا ختم ہونے پر اُس نے بیرے کو آواز دے کر چائے منگوائی اور مسجد سے فرار اختیار کرنے والے سائل کی طرف متوجہ ہوا۔

"تم مسجد سے بھاگ کیوں گئے تھے۔ "وہ اب تو سے تم پر آ گیا۔
لڑکے نے اُس کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر کہا "مجھے شرم آگئی تھی۔ میں نے، میرے خاندان والوں نے کسی نے بھی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ اگر حالات اس قدر خراب نہ ہوتے تو شاید میں مسجد میں اس غرض سے آنے کی ہمت بھی نہ کر پاتا۔"
"شرم ! " اُس نے حیرت اور غصے سے لڑکے کی طرف دیکھا۔
"تمھیں کیوں شرم آ ئی!" اُس کی آواز غیض سے بھرّا رہی تھی۔
"شرم تو تمھارے پڑوسیوں کو آنی چاہیے، تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے کہ تمھارے ہاں تین روز سے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ بے خبر ہیں۔"
"تمھاری پڑوسی اپنی زندگی جی رہے ہیں، کھا رہے پی رہے ہیں عیش کر رہے ہیں۔ کیا اُن کا فرض نہیں کہ اڑوس پڑوس کا بھی حال پوچھیں۔ کس پر کیا گزر رہی ہے۔ کس پر کیا مصیبت آن پڑی ہے" ذرا توقف کے بعد وہ پھر شروع ہوا۔
"شرم تو تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے ۔ کوئی تمھیں پوچھنے نہیں آیا" اُس نے زور سے سر کو جھٹکا دیا۔
"کیسی رشتہ داری ہے آج کل کی۔ وقت اچھا ہو تو صبح شام چکر لگائیں اور جہاں بُرے دنوں نے رستہ دیکھاوہیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جائیں گے۔"
"لعنت ہے ایسی رشتہ داری پر اور لعنت ہےایسے پڑوسیوں پر۔" اُس نے زور سے چائے کا کپ تخت پر پٹخا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
اُس نے ہوٹل کے مالک سے کہہ کر کچھ کھانا لڑکے کے گھر والوں کے لئے بھی پیک کروایا اور بل ادا کرنے کے بعد کچھ پیسے لڑکے کی جیب میں بھی ٹھونس دیے۔

"میں اسی ہوٹل پر بیٹھتا ہوں شام کے بعد ، کبھی بھی کوئی مسئلہ ہو تو میرے پاس آ جانا۔ اور ویسے بھی ملتے رہنا " اُس نے لڑکے کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ " میں ویسے بھی چھڑا چھانٹ ہوں، میرا گزارا جیسے تیسے چل ہی جاتا ہے"۔ اب اُس کے چہرے پر مُسکراہٹ نے جگہ بنا لی تھی۔

*****

عصر کی نماز اُس نے ایک اور مسجد میں پڑھی ۔ یہ مسجد بازار کے بیچ و بیچ تھی اور اس میں نمازیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ نماز ختم ہوئی تو اُس نے اپنی درد ناک آواز میں فریاد شروع کر دی۔ آج اُس کی آواز میں الگ ہی کرب تھا۔ اُس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کے رٹے رٹے جملے آج تاثیر میں گُندھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پیروں میں بچھے رومال پر چھوٹے بڑے نوٹ جمع ہو رہے تھے۔ وہ مستقل رو رہا تھا اور اندر سے ایک اطمینان اُ س کے اندر اُتر رہا تھا کہ رومال پر جمع ہونے والے نوٹ اب اُس کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ اہم تھے ۔ اُس کی آنکھوں کے آنسو خوشی سے چمک رہے تھے اور اُس کا پھٹا ہوا دامن ہوا میں لہرا لہرا کر مسرت کا اظہار کر رہا تھا۔

*****

افسانہ : سفید بھیڑ

سفید بھیڑ
محمداحمد​

کلیِم کو نہ جانے کیا تکلیف ہے۔
وہ اُن لوگوں میں سے ہے جو نہ خود خوش رہتےہیں نہ دوسروں کو رہنے دیتے ہیں۔ 
18 تاریخ ہو گئی ہے اور مجھے ہر حال میں 25 سے پہلے پہلے احمر کی فیس جمع کروانی ہے۔ پیسوں کا بندوبست بھی سمجھو کہ ہوگیا ہے لیکن بس ایک کانٹا اٹکا ہوا ہے اور وہ ہے کلیم۔ 

امداد حسین کے روز فون آ رہے ہیں ۔ وہ ہر روز پوچھتا ہے کہ میرے کام کا کیا بنا ۔ اب میں اُسے کیا کہوں کہ کلیم اُس کی فائل پر سانپ بنا بیٹھا ہے۔ کم بخت نہ خود چین سے جیتا ہے اور نہ ہمیں جینے دیتا ہے۔


میں ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہوں ۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے۔ یہ تو وہ چادر ہے کہ سر پر اوڑھو تو پیر تو کیا گھٹنے تک کھل جاتے ہیں۔ اوپر سے یہ ایمانداری کا ٹھیکیدار ہم پر مسلط ہو گیا تھا ۔ بندہ آخر کرے تو کیا کرے۔ ارے بھئی اوپر تو بندہ جب جواب دے گا تب دے گا، یہاں تو سکون سے جینے دو۔ 

امداد حسین ایک کنٹریکٹر ہے ، جو سرکاری اداروں میں ٹھیکے پر محتلف نوعیت کے کام کرتا ہے۔ وہ اس میدان کا پرانا کھلاڑی ہے سو جانتا ہے کہ سرکاری محکمے سے کام کیسے لیا جاتا ہے اور کس طرح کا کام کرکے دیا جاتا ہے۔ افسر سے لے کر چپراسی تک سب کو کیسے خوش رکھا جائے یہ امداد حسین اچھی طرح سمجھتا ہے۔ پھر ہم تو کہتے ہیں کہ اچھا آدمی وہی ہوتا ہے جو مل مِلا کر کھائے اور امداد حسین سب کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ 

کلیم ہمارے ہاں بطور سروئیر کام کرتا ہے۔ بلکہ کام بھی کیا کرتا ہے اُلٹا کام روک کر بیٹھ جاتا ہے۔ میں تو ایک چھوٹا سا ملازم ہوں اُس سے تو بڑے بڑے افسر تنگ ہیں لیکن نہ جانے کیا اڑچن ہے کہ اُس کا پتّہ ابھی تک صاف نہیں کر سکے ۔ 

بہر حال ماجرہ کچھ یوں ہے کہ امداد حسین کے ایک بڑے پروجیکٹ کی ادائیگی ہمارے محکمے کی طرف سے ہونی ہے اور چونکہ یہ حتمی ادائیگی ہے سو اُس سے پہلے پروجیکٹ سروے رپورٹ اور سٹسفکشن نوٹ کا تیار ہونا ضروری ہے۔ یوں تو سب دستاویزات تیار ہیں لیکن کلیم بطور سروئیر اُس پر دستخط کرنے پر راضی نہیں ہے ۔ اُس کے حساب سے پروجیکٹ پر غیر معیاری مٹیریل استعمال کیا گیا ہے اور معاہدے کی بہت سی شقوں کو سراسر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ اس الو کے پٹھے سے کوئی یہ پوچھے کہ سرکاری محکمے میں کام ایسے نہیں ہوگا تو کیسے ہوگا۔ اب مسئلہ یہ آن کھڑا ہوا ہے کہ سروئیر کے دستخط کے بغیر ادائیگی ممکن نہیں ہے ۔ 

میں کلیم سے خود بھی ملا اور اُسے سمجھایا کہ بھائی تیرے باپ کا کیا جا رہا ہے اُلٹا کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا تیرے بچوں کے ہی کام آئے گا۔ لیکن اُس کی کھوپڑی میں بُھس بھرا ہے۔ سمجھنے کے بجائے وہ اُلٹا مجھے لیکچر دینے لگا۔ اُس کی بکواس سننے کی تاب مجھ میں نہیں تھی سو اُس پر لعنت بھیج کر چلا آیا لیکن یہ بات میرے دل میں پھانس کی طرح چبھ گئی ۔

جیسا کہ میں نے بتایا کہ مجھے ہر حال میں 25 تاریخ تک احمر کی فیس جمع کروانی ہے اور تنخواہ میں سے اتنی بڑی رقم نکالنا ممکن نہیں ہے۔ میں نے احمر کو ایک بہت ہائی اسٹینڈرڈ کے اسکول میں داخل کروایا ہے یہ شہر کی معروف اسکول چین ہے اور کیمبرج سسٹم سے وابستہ ہے۔ گو کہ اس کی فیس اور دیگر اخراجات میری آمدنی سے لگّا نہیں کھاتے لیکن بچوں کے مستقبل پر تو سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ۔ میں اپنے بیٹے کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں اور گلی محلے میں بنے دو دو ٹکے کے اسکول میں پڑھ کر تو یہ ممکن نہیں ہے۔ 

کلیم کو ہی دیکھ لو ، سالے نے مر کھپ کے انجینیرنگ کی ڈگری لی ۔ اس کا باپ اس کی فیس دے دے کر مر گیا ۔ اب وہی حرکت یہ بے وقوف بھی کر رہا ہے ۔ یعنی وہی تھرڈ کلاس نوکری اوپر سے ایمانداری کا بخار ۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب اس کے بچے دو کمرے کے اسکول میں پڑھ رہے ہیں ۔ اِن لوگوں کی نسلیں ایسے ہی ذلیل ہوتی رہیں گی لیکن عقل نہیں آئے گی۔ 

*****​

بہرحال حل تو ہر مسئلے کا موجود ہوتا ہے۔ بس تلاش کرنے والا ہونا چاہیے۔ سو میں نے کچھ ہمت کی اور حل نکل ہی آیا ۔
میرا پلان سادہ سا تھا۔ آج صبح میں گاڑی کے بجائے بائیک لے کر نکلا۔ دفتر آنے کے لئے میں گاڑی استعمال کرتا ہوں لیکن گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے بائیک استعمال کرتا ہوں۔ لیکن آج چونکہ 'اسپیشل ڈے' تھا سو آج بائیک پر آنا ضروری تھا ۔ ہاں البتہ کچھ جلدی نکلنا پڑا کہ 'شکار' پر جانے کے لئے جلدی ہی نکلنا ہی پڑتا ہے۔ 

سیاہ شیشے والے سُرخ ہیلمیٹ میں میری شناخت صرف ایک بائیکر کی حیثیت سے ہی ہو سکتی تھی۔ میرا وقت کا اندازہ بھی ٹھیک ہی نکلا۔ بامشکل دو چار منٹ انتظار کرنے پر مجھے وہ گھر سے نکلتا نظر آ یا ۔ اُس نے سفید قمیض پہنی ہوئی تھی اور اُس کا نیلا ہیلمیٹ بائیک کی ٹنکی پر رکھا ہوا تھا ۔ اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔ دو گلیاں کراس کرنے کے بعد ہم مین روڈ پر آگئے یہاں ٹریفک کی رفتار نسبتاً زیادہ تھی۔ میں اُس کی بائیک کے پیچھے تھا۔ موقع مناسب دیکھ کر میں نے ایکسیلریٹر پر دباؤ بڑھایا اور تیزی سے اُس کی بائیک کے عین پیچھے پہنچ کر اپنا اگلا وہیل اُس کے پچھلے وہیل پر ٹچ کرتے ہوئے بائیں طرف ہلکا سا جھٹکا دے دیا۔ 

وہ نہ جانے کن خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ میرا ہلکا سا اشارہ بھی اُس کے لئے کافی رہا۔ اُس کی گاڑی جھولتی ہوئی آگے چلتے چھوٹے ٹرک سے ٹکرائی اور اُس کا سر ٹرک کے دیسی ساختہ ڈھالے سے ٹکرا گیا۔ تاہم 'اس کام ' میں 'ناتجربے کاری ' کے باعث میں بھی سڑک پر گر گیا۔ یہ اچھا ہوا کہ میرا ہیلمیٹ نہیں اُترا۔ چونکہ میں باقاعدہ زخمی نہیں ہوا تھا سو آنے والے ہمدردوں اور تماش بینوں کی ساری توجہ 'اُس' کی طرف ہی تھی اور یہ موقع میرے لئے غنیمت تھا۔ میں لنگڑاتا ہوا اُٹھا اور کپڑے جھاڑنے کے بجائے بائیک پر بیٹھ کر تقریباً اُڑنے کی رفتار سے نکل گیا۔ شاید کچھ لوگ مجھے آواز دے رہے تھے لیکن میں نے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ یوں ہمارے ہاں اس صورتحال میں یہ سب کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کسے پتہ تھا کہ یہ ایکسیڈینٹ اتفاقی نہیں تھا۔ میری بائیک کی چھوٹی سی نمبر پلیٹ پر لتھڑی مٹی بھی کسی کے لئے نئی بات نہیں ہوگی کہ موٹر سائیکل کا نمبر پڑھ لینا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ 

باقی 'سیٹنگ' مشکل نہیں ہے۔ کلیم کی غیر موجودگی میں الطاف صاحب کسی نہ کسی طرح ایڈیشنل چارج لے ہی لیں گے اور پھر امداد حسین سمیت ہم سب کا ہی بیڑہ پار لگ جائے گا کہ اصل کانٹا تو نکل ہی گیا ہے۔ 

*****​

آپ سوچتے ہوں گے کہ میں بھی کیسا سفاک ہوں، کتنا ظالم ہوں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں اتنا بُرا بھی نہیں ہوں۔ اگر کلیم اتنی ہٹ دھرمی نہیں دکھاتا تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔ کلیم کے ساتھ جو بھی ہوا اُس کا دکھ مجھے بھی تھا تاہم اس میں قصور سراسر کلیم ہی کا تھا۔ ایکسیڈینٹ کے دوسرے دن اپنا فرض سمجھتے ہوئے میں نے اُس کے لئے ایک قیمتی اور حسین پھولوں کا گلدستہ بنوایا اور کلیم سے ملنے ہسپتال پہنچا ۔ آخر کو وہ میرا دفتری ساتھی تھا ۔ 

میں پہنچا تو کلیم دواؤں کے زیرِ اثر سویا ہوا تھا۔ یہ اچھا ہی ہوا کہ شاید اُس وقت کلیم سے آنکھیں ملانا اور بات کرنا میرے لئے اتنا آسان نہیں ہوتا۔ میں نے کلیم کی اہلیہ سے اُس کی خیریت پوچھی۔ اُس کے صرف سر پر ہی چوٹ لگی تھی اور کچھ ٹانکے وغیرہ آئے تھے ۔ باقی جسم متاثر نہیں ہوا تھا۔ 

رسمی کلمات کے بعد میں نے اجازت چاہی اور چلتے وقت ایک معقول رقم کا لفافہ اُس کی اہلیہ کے ہاتھ میں تھما دیا کہ کلیم کے علاج معالجے میں خرچ کر لیں اور اُسے کچھ کہنے کی مہلت دیے بغیر نیچے اُتر آیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے وقت پر مالی سہارا بڑا اہم ہوتا ہے۔ یہ بات البتہ دگر ہے کہ مجھے بھی یہ کام کرکے کافی سہارا ملا اور اگر مجھے کوئی پچھتاوا تھا بھی تو وہ رفع ہو گیا۔ 

ہسپتال کے مین گیٹ سے نکل کر میں باہر آیا تو امداد حسین گاڑی میں میرا منتظر تھا۔ امداد حسین کو تو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ کلیم کے اس حال پر پہنچنے کی ایک وجہ وہ بھی ہے۔ تاہم کلیم کے ایکسیڈینٹ کا سُن کر امداد حسین نے پیشگی ہی وہ پیسے دے دیے تھے، جو اگر کلیم کو دیے جاتے تو وہ کبھی نہ لیتا۔ بے وقوف جو ہوا۔ 

ویسے میں سوچتا ہوں کہ کلیم خوش قسمت ہی تھا ورنہ ایکسیڈینٹ میں تو لوگ جان سے بھی چلے جاتے ہیں۔

*****​

افسانہ : سلسلہ تکّلم کا

سلسلہ تکّلم کا
محمد احمدؔ
کِسی کی آواز پر اُس نے چونک کر دیکھا ۔ 
اُسے بھلا کون آواز دے سکتا ہے، وہ بھی اِ س محلے میں جہاں اُسے کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
اُسے دور دور تک کوئی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا ۔ ایک جگہ کچھ بچے بیٹھے ہنس رہے تھے اور اس سے کچھ آگے ہوٹل پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ پھر اُسے اس بات کا بھی یقین نہیں تھا کہ پکارنے والے نے اُسی کا نام پکارا ہے۔
یہ سوچتے ہوئے کہ شاید پکارنے والے نے اُس کے بجائے کسی اور کو پکارا ہے وہ آگے بڑھ گیا۔
باتوں کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہاں سے تو نہیں جُڑ سکا کہ اس صوتی مداخلت نے اُس کے ذہن کی کئی پرتیں اُلٹ پلٹ کر رکھ دیں اور وہ باوجود کوشش کے یہ یاد نہ کر سکا کہ اس بے جا مداخلت سے پیشتر کیا بات ہو رہی تھی۔ تاہم چار چھ قدم آگے بڑھاتے ہی ذہن کے کسی گوشے سے ایک اور تصفیہ طلب معاملہ گفتگو کے دائرے میں آ دھمکا اور وہ اُس نئے موضوع کے ساتھ جھوجنے لگا۔

گفتگو کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا ۔ گفتگو کے اس سلسلے کا صدا کار بھی وہی تھا اور سامع بھی خود ہی تھا۔ یعنی گفتگو کے مخاطب اور خطیب کم از کم دو کرداروں کی شرط بھی پوری نہیں کرتے تھے۔ باہر کی دنیا شاید اس سلسلے کو خود کلامی پر محمول کرتی تاہم اُسے خود کلامی کی اصطلاح کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔

خود سے بات کرنے کی عادت اُسے کب پڑی اُسے یاد بھی نہیں تھا۔ ایک زمانے تک یہ عادت خود اُس سے بھی حجاب میں رہی لیکن پھر رفتہ رفتہ فطرتِ ثانی کی طرح عیاں ہونے لگی اور اُس نے جان لیا کہ اب اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔

وہ کوئی الگ تھلگ رہنے والا آدمی نہیں تھا ۔ مجلسی طبیعت کا نہ سہی لیکن دوست احباب میں اُس کی موجودگی بہت اہم گردانی جاتی تھی۔ وہ ہر طرح کے موضوع پر بات کر سکتا تھا۔ ہنسی مذاق سے لے کر سنجیدہ مذاکرے تک وہ کئی ایک موضوع پر ٹھیک ٹھاک درک رکھتا تھا اور بوقت ضرورت گفتگو میں شریک بھی رہتا تھا۔ جب تک یہ گفتگو مذہب سے سیاست اور حالاتِ حاضرہ سے کھیل کے میدانوں میں فراٹے بھرتی رہتی اُس کی ہر بات میں ایک رنگ ہوتا اور ہر تاثر بھرپور ہوتا ۔ تاہم گفتگو کے یہ رنگ اچانک ہی پھیکے پڑ جاتے جب موضوعات کے سیارچے اپنے مدار سے ہٹ کر اُس کی ذات کے مرکزے میں گھسنے کی کوشش کرتے۔اپنی ذات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ ایک دم عربی سے عجمی ہو جاتا۔
گفتگو کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا ۔ گفتگو کے اس سلسلے کا صدا کار بھی وہی تھا اور سامع بھی خود ہی تھا۔ یعنی گفتگو کے مخاطب اور خطیب کم از کم دو کرداروں کی شرط بھی پوری نہیں کرتے تھے۔ باہر کی دنیا شاید اس سلسلے کو خود کلامی پر محمول کرتی تاہم اُسے خود کلامی کی اصطلاح کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ اُس کی ذات کی گپھا میں اندھیرے ہی اندھیرے ہوں یا ہمہ وقت کربناک ماضی کی چمگادڑیں یہاں سے وہاں اُڑتی اور ٹکراتی پھرتی ہوں۔ تاہم وہ اپنے من کی باتیں ہر کسی سے نہیں کر سکتا تھا۔ اِ سے آپ اُس کی عادت کہیں یا کچھ اور لیکن وہ اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اپنی ذات سے متعلق بہت کم ہی باتیں کرتا اور اُس کے قریب ترین لوگ بھی اُس کے احساسات سے بہت کم ہی واقف ہو پاتے۔

یوں تو وہ شروع ہی سے اپنے دل کی باتیں اپنے تک ہی رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن جلد ہی وہ جان گیا کہ چڑھے ہوئے نالوں کو راستہ نہ ملے تو وہ آبادی میں در آتے ہیں اور پھر وہ تباہی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اُس کے احساسات اور اُس کے غم جب اُسے اندر ہی اندر جلانے لگتے تو کچھ باتیں بھانپ کی طرح اوپر اُٹھتی اور اُس کے لبوں کے روشن دان سے ہوتی ہوئی خود کو آزاد کرا لیتی۔ روشن دان سے اُٹھتی ہوئی یہ صوتی بھانپ جب باہر کی تازہ ہوا سے گلے ملتی تو تازگی کے جھرنے اُس کا لباس ہو جاتے اور نطق سے سماعت کا مختصر دورہ طے کرکے وہ پھر سے ایوانِ سماعت پر دستک دے دیتی ۔ یوں یہ صرصر اُس کے کانوں سے گزر کرجب ایک بار پھر سے اُس کے دل تک پہنچتی تو صبا کا روپ دھار چکی ہوتی۔ اس ان چاہے عمل سے جاگنے والا طمانیت کا احساس اُسے رفتہ رفتہ باقاعدہ خود کلامی کی دنیا میں لے آیا۔ تاہم اس کے لئے سب سے اہم شرط تنہائی تھی۔

شروع شروع میں جب وہ خود کلامی کرتے ہوئے دیکھا گیا تو لوگ حسبِ توقع حیران ہوئے اور بات استفسار تک بھی آئی ۔ تاہم وہ جلد ہی سنبھل گیا اور خودکلامی کو تنہائی سے مشروط کردیا۔ رفتہ رفتہ شہرِ ذات سے ملاقات کا یہ وقفہ مختصر ہوتے ہوتے رات کے کھانے کے بعد مختصر گشت تک محدود ہو گیا ۔ تاہم اُس نے اپنے لئے اس چہل قدمی کو لازمی کر لیا کہ اندر کی دنیا کو باہر کی دنیا کی سیر کرانا اُس کے لئے باعثِ طمانیت ہی نہ تھا ، نا گزیر بھی تھا۔

اگلے روز یہ معمہ بھی حل ہو گیا کہ گذشتہ دن اُسے پکارنے والا کون تھا۔ وہ کوئی شناسا نہیں تھا نہ ہی اُسے نام لے کر پکارا گیا تھا لیکن مخاطب کوئی اور نہیں صرف وہ ہی تھا۔

آج وہ اپنے اور صالحہ کے مابین کشیدگی کے بارے میں محوِ گفتگو تھا۔ اُس کے سامنے کٹہرے میں وہ خود کھڑا تھا اور کٹہرے میں کھڑے شخص کے سامنے بیٹھے منصف کی نشست بھی اُسی نے سنبھالی ہوئی تھی۔ عدالت کے اس ماحول میں کٹہرے میں کھڑے شخص پر سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور کٹہرے میں کھڑا شخص اپنے دفاع میں دلائل دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ جج صاحب کافی غصے میں نظر آتے تھے اور کٹہرے میں کھڑا شخص مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی ندامت میں ڈوبا نظر آتا تھا۔ قریب تھا کہ جج صاحب اپنا فیصلہ سناتے اور ملزم پر فردِ جرم عائد کرتے کہیں سے کسی نے اُسے پکارا۔ اِس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد نے راہ چلتی عدالت کو منصف و ملزم سمیت یکایک ہوا میں تحلیل کر دیا اور وہ چونک کر آواز کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک طرف کچھ بچے بیٹھے ہنس رہے تھے اور اس سے کچھ آگے ہوٹل پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اُسے پکارنے والے شاید اُس کے نام سے واقف نہیں تھے یا شاید اُنہیں اُس کے نام سے غرض ہی نہیں تھی۔ اُس کے ذہن کی اُلٹتی پلٹتی پرتوں میں جو آخری لفظ اُس کی شعوری سطح سے زائل ہوتا نظر آیا وہ قابلِ غور تھا۔ اور وہ لفظ تھا "پاگل!"۔ دور کہیں بچوں کے ہنسنے کی آواز آ رہی تھی۔

اُس شام وہ نہ جانے کیسے گھر پہنچا ۔ نہ جانے کتنے لفظ سینے میں ہی گھٹ کر مر گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُس کے دل میں مدفون ہو گئے۔ اُس کی حالت اس قدر غیر ہو رہی تھی کہ ناراض صالحہ اپنے ناراضگی تک بھول گئی اور اُس سے پوچھنے لگی۔ کیا ہوا ؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ 

ہاں ٹھیک ہے۔ اُس نے چہرے پر مسکراہٹ کا تار تار ماسک لگانے کی کوشش کی لیکن کلی طور پر ناکام رہا۔ وہ تو یوں بھی کچھ نہیں بتا پا تا تھا ۔ پھر آج کی بات۔
ہاں ٹھیک ہوں۔ اُس نے ایک بار پھر اضطراری حالت میں کہا۔ حالانکہ صالحہ کمرے سے کب کی جا چکی تھی اور کچن میں موجود فرج سے اُس کے لئے پانی نکال رہی تھی۔

اگلے دو چار دن وہ چہل قدمی کو نہیں گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ خود سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اُس کے پاس تو ڈھیروں باتیں تھیں لیکن وہ اپنوں کی نظروں سے بچ کر غیروں کی نظروں میں تماشا نہیں بننا چاہتا تھا۔

پھر ایک دن ، اُسے ایک خیال سوجھا اور اس خیال کے آتے ہی وہ جیسے نہال ہو گیا۔ اُس روز دفتر سے واپسی پر وہ سیدھا موبائل مارکیٹ گیا اور وہاں سے ایک بلیو ٹوتھ ائیر پیس خریدا ۔ اور شام کے کھانے کے بعد جب وہ چہل قدمی کرنے نکلا تو اُس کے دائیں کان میں نیا بلیو ٹوتھ ائیر پیس جگمگا رہا تھا اور اُس کا موبائل سیٹ گھر پر تاروں سے جُڑا بجلی مستعار لے رہا تھا۔ اُس نے آج ایک نیا راستہ اختیار کیا اور انتہائی ذاتی نشریاتی رابطے پر دل سے منسلک ہو گیا۔ 

گھر سے کچھ دور آتے آتے عدالت کی کاروائی شروع ہو گئی تھی۔ آج بھی وہ کٹہرے میں کھڑا تھا اور جج صاحب کے سوالات کا جواب دے رہا تھا۔ آج البتہ جج صاحب اُس کے دلائل بغور سن رہے تھے اور زور زور سے سر ہلا رہے تھے۔ پھر جج صاحب مسکرائے اور اُسے با عزت بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اُس کی انا اور خودداری کمرہ عدالت سے باہر اُس کے لئے پھول ہار لئے کھڑے تھے۔

"یہ آدمی خود سے باتیں کر رہا ہے؟" اچانک کہیں سے ایک آواز آئی۔
ارے "پاگل" یہ موبائل پر بات کر رہا ہے۔ دوسری آواز میں لاپرواہی تھی۔
آج اُسے لفظ پاگل کا استعمال بہت اچھا لگا۔
وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔ اگلا زیرِ گفتگو سوال یہ تھا کہ صالحہ کے لئے کیا گفٹ خریدا جائے؟

******​

افسانہ : مہربانی

مہربانی ​
محمداحمدؔ​

آج میں نے پوری سترہ گیندیں بیچیں۔ ایک دو نہیں ۔ پوری سترہ۔ جب سے اسکولوں کی چھٹیاں ہوئی ہیں آٹھ دس گیندیں بیچنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن آج ہم گھومتے گھومتے ایک بڑے سے پارک تک پہنچ گئے۔ اب پتہ چلا کہ اسکول بند ہو تو بچے کہاں جاتے ہیں۔

میں اور مُنی پارک کے دروازے پر ہی کھڑے ہوگئے۔ پارک میں آتے جاتے بچوں کو رنگ برنگی گیندیں اچھی لگتی تو اُن کے ماں باپ اُن کو خرید ہی دیتے۔ جب پوری سترہ گیندیں بِک گئیں تو منی نے کہا کہ اب چلتے ہیں۔ اُسے بھوک لگی تھی۔ بھوک تو مجھے بھی بہت لگی تھی لیکن میں چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر اور رُک جائیں کیا پتہ دو چار گیندیں اور بِک جائیں۔ لیکن پھر مُنی نے بار بار کہا تو میں نے سوچا کہ اب پارک تو دیکھ ہی لیا ہے کل صبح سے یہیں آ جائیں گے۔

گیندوں کا تھیلہ اُٹھا کر میں اور مُنی سڑک پار آ گئے۔ یہاں سے کچھ دور وہ ہوٹل تھی جہاں سے ہم روٹی کھاتے تھے۔ میں نے ہوٹل والے چاچا سے چار روٹیاں (چپاتی) لیں اور سالن والے چاچا سے کہہ کر روٹی پر تھوڑا سا سالن ڈلوالیا۔ روٹی پر سالن ڈالنے سے ساری روٹی ٹھنڈی اور گیلی ہو جاتی تھی لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ الگ سے سالن خرید سکیں۔ میرے کہنے پر مُنی نے بھی اپنی روٹی پر سالن ڈلوالیا۔ روٹی لے کر ہم باہر رکھی میز کُرسی پر بیٹھ گئے۔ یہ میز کُرسی باہر بیٹھے دوکان والے کی تھی۔

*****​

مغرب کی نماز پڑھ کر میں اپنے پسندیدہ فاسٹ فوڈ ڈھابے پر آ گیا۔ تھی تو یہ فُٹ پاتھ پر لگی ایک چھوٹی سی ہوٹل لیکن یہاں کے چکن رول اور بوٹی کے رول کا ذائقہ کسی بھی اچھے فاسٹ فوڈ ریستوران سے کم نہیں تھا۔ جب کبھی میرا یا میرے دوستوں کا کچھ کھانے پینے کا موڈ ہوتا تو ہم یہاں آ جاتے۔ رول، تِکّوں کے علاوہ یہاں کچھ دیگر ڈشز بھی بڑی لاجواب ہوتی تھیں۔ آج میں یہاں اکیلا ہی چلا آیا تھا۔ بھوک تو مجھے نہیں تھی لیکن زبان کا چسکہ البتہ ضرور درکار تھا۔ میں نے اپنے لئے رول کا آرڈر دیا اور انتظار کرنے لگا۔

کچھ ہی دیر میں چکن رول معہ رائتہ اور ٹماٹر کی چٹنی میرے سامنے لا کر رکھ دیا گیا۔ گرم گرم رول کھانے کا الگ ہی مزہ ہے۔ میں نے بسمہ اللہ کرنے میں دیر نہیں لگائی رول کا لطف لیتے ہوئے گرد و پیش کا جائزہ لینے لگا۔ میں جس میز پر بیٹھا تھا وہ پلاسٹک کی تھی ایسی میزیں آج کل گھروں میں لان وغیرہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ میز سڑک کے کنارے فُٹ پاتھ پر لگی ہوئی تھی اس سے ذرا سا آگے ایسی ہی ایک میز اور بھی تھی۔ دونوں میزوں کے ساتھ چار چار کُرسیاں تھیں۔

میرے سامنے والی میز پر ایک بچہ کہیں سے تیز تیز چلتا ہوا آیا اور اپنے ہاتھ میں موجود چیز میز پر رکھ دی اور تیزی کے ساتھ کُرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ کہیں سے اخبار میں لپٹی چپاتیاں لایا تھا جس پر چنے کا سالن لتھڑا ہوا تھا۔ سالن میں موجود روغن کو گرنے سے بچانے کے لئے وہ کبھی روٹی کو ایک طرف سے اُٹھا تا تو کبھی دوسری طرف سے۔ یا شاید وہ اس طرح ساری روٹی کو سالن سے تر کرنا چاہ رہا تھا۔ سالن بھی کیا تھا کہ اُس میں بامشکل چار چھ چنے کے دانے تھے اور باقی روغن تھا۔ شاید اس بچے نے سالن مفت میں روٹی پر ڈلوا لیا تھا۔ ابھی میں بچے کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ اُس بچے کے سامنے ایک اور چھوٹی بچی آ کر بیٹھ گئی۔ اُس کے ہاتھ میں بھی ایسی ہی روٹی تھی جس پر سالن لتھڑا ہوا تھا اور وہ بھی سالن روٹی کے ساتھ کافی اُلجھن کا شکار نظر آ رہی تھی۔ دونوں بچوں کی عمریں گیارہ بارہ سال سے زیادہ نہیں تھیں۔ اب بچے بڑی انہماک کے ساتھ کھانے میں لگے ہوئے تھے۔ بچوں کی میز کے ساتھ ایک بڑا سا شفاف تھیلا رکھا تھا جس میں رنگ برنگی گیندیں تھیں۔

اب سمجھ میں آ رہا تھا کہ کھیلنے کی عمر میں یہ بچے اتنی ساری گیندیں لیے کیوں مارے مارے پھر رہے تھے اور رنگ برنگی گیندوں کے انبار کے باوجود اُن کی ساری دلچسپی روغن میں لپٹی چپاتیوں میں کیوں تھی۔

مجھے اُن بچوں پر بڑا ترس آیا کہ بے چارے کس کسمپرسی کی حالت میں جی رہے ہیں۔ نہ جانے ان کے ماں باپ کون ہیں۔ ہیں بھی یا نہیں؟ شاید ان کا باپ کہیں نشے میں دُھت پڑا ہو اور معصوم بچے اس کم عمری میں بھوک کے عفریت سے لڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔

میں اپنا کھانا پورا کر کے اُٹھا تو پیسے دیتے ہوئے میں نے اُسے دو رول اور بنانے کو کہا۔ اُس نے دو چار منٹ میں ہی دو رول تیار کر دیے۔ بچوں کی روٹی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ فاسٹ فوڈ والے نے اُنہیں میز پر سے اُٹھا دیا، وہ نئے آنے والے گاہکوں کے لئے جگہ بنا رہا تھا۔ بچے ایک بند دوکان کے چبوترے پر جا کر بیٹھ گئے۔ میں نے باقی بچنے والے پیسے جیب میں رکھے اور آگے بڑھ کر دونوں بچوں کو ایک ایک رول تھما دیا۔ بچوں کے چہرے پر شکر گزاری نہیں تھی۔ بلکہ وہاں حیرت تھی۔ صرف حیرت۔

*****​

کل بھائی نے سترہ گیندیں بیچیں تھیں۔ پوری سترہ۔
ہم نے ایک پارک دیکھا تھا۔ بہت بڑا پارک۔ اندر بہت بڑے بڑے جھولے تھے۔ اور بھی بہت کچھ ہوگا لیکن ہم اندر نہیں گئے۔ ہمیں نیلے کپڑوں والے چاچا نے اندر جانے ہی نہیں دیا۔ پارک میں اتنے لوگ، اتنے بچے آ جا رہے تھے کہ ہماری سترہ گیندیں بِک گئیں۔
پھر ہم کھانے کی ہوٹل پر گئے تو ہمیں ایک آدمی نے دو روٹیاں دیں۔ یہ تلی ہوئی روٹیاں تھیں اور اس کے اندر بوٹیاں بھی تھیں۔
میں تو ڈر رہی تھی۔ میں نے بھائی سے کہا مت کھاؤ۔ پتہ نہیں اس نے کیا ملایا ہوگا۔ لیکن بھائی فوراً ہی کھانا شروع ہو گیا۔ پھر میں نے بھی کھائیں۔ یہ بہت مزے کی تھیں۔ اُس دن بھائی بہت خوش تھا اور میں بھی۔ ہم اتنے خوش تھے کہ اماں کے لئے روٹی لے جانا بھی بھول گئے اور ہمیں آدھے راستے سے واپس آنا پڑا۔ وہ بھی میں نے ہی بھائی کو یاد دلایا۔
آج بھی ہم اُسی پارک گئے تھے۔ لیکن آج صرف بارہ گیندیں بِکیں۔
آج بھائی نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ وہ تو بس باہر والی ہوٹل پر آنے جانے والوں کو دیکھے جا رہا تھا۔
میں نے اُسے کہا ۔" بھائی کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟"
وہ مجھ پر ہی غصہ ہوگیا اور بولا "مجھے نہیں اچھے لگتی یہ گیلی روٹی اور چنے کا سالن!"
پھر وہ روٹی چھوڑ کر ہی ہوٹل سے اُٹھ گیا۔
لیکن میں نے روٹی اُٹھا لی۔ مجھے پتہ تھا گھر پر اماں بھوکی ہوگی۔

  *****​
 

 

افسانہ : مفت ہوئے بدنام

مفت ہوئے بدنام
محمد احمد​


پہلی بار جب یہ بات میڈیا پر نشر ہوئی تو میں بھی دہل کر رہ گیا کہ اب نہ جانے کیا ہوگا ۔ مجھے تو یہ بھی خوف ہو گیا تھا کہ طفیل صاحب سارا معاملہ میرے ہی سر نہ تھوپ دیں ۔ اُن سے بعید بھی نہیں تھی بعد میں شاید وہ مجھ سے اکیلے میں معافی مانگ لیتے لیکن تب تک ہونی ہو چکی ہوتی۔

طفیل صاحب ٹیکنیکل بورڈ میں اسسٹنٹ کنٹرولر ایگزیمینیشن ہیں اور میری بد قسمتی دیکھیے کہ میں اُن کا بھی اسسٹنٹ ہوں۔ تین سال قبل جب میں اس پوسٹ پر تعینات ہو ا تو ان دنوں طفیل صاحب بھی اس عہدے پر نئے نئے ہی تھے۔ کچھ عرصہ کام سمجھنے میں لگا پھر اُس کے بھی کافی بعد یہ سمجھ آیا کہ اصل کام یہ نہیں ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ کنٹرولر صاحب کو یہ بات پتہ تھی یا نہیں لیکن میں اور طفیل صاحب یہ بات اچھی طرح جان گئے تھے کہ بہت کم بچے محنت کرکے پاس ہوتے ہیں۔ باقی بچے یا تو فیل ہو جاتے ہیں یا پھر اُن کا پاس ہونا دوسروں کی محنت کے مرہونِ منت ہوتا ہے۔ میں اور طفیل صاحب یہی محنت کرتے تھے بلکہ یوں کہیے کہ اس محنت میں طفیل صاحب کا کردار مستری اور میرا مزدور والا تھا۔اُجرت کا حساب بھی اسی طرح تھا یعنی مستری کم محنت کرکے زیادہ اُجرت لیتا تھا اور مزدور گدھے کی طرح محنت کرکے بھی مستری کی اُجرت کا ایک تہائی بھی نہیں سمیٹ پاتا تھا۔ بہرکیف بڑی مچھلیوں کے پیٹ بھی بڑے ہوتے ہیں اس لئے مجھے زیادہ شکایت نہیں تھی۔

یوں تو ہم مختلف 'پیکیجز آفر' کرتے تھے کہ جس میں امتحانی کمرے میں حل شدہ مواد بھجوانے سے لے کر امتحانی کاپی میں موجود سپلیوں کی رد و بدل تک شامل تھی تاہم چونکہ روشنی کا فائدہ بھی آنکھ والے ہی اُٹھا سکتے ہیں سو کچھ لوگوں کے حق میں حل شدہ پرچہ جات بھی بے کار جاتے تھے۔ اُن کے لئے اسپیشل پیکیج تھا اور وہی ہماری صنعت کی کیش کاؤ تھی۔ ہم اپنے "ماہرین" سے اپنی نگرانی میں پرچے حل کرواتے اور اپنے "کسٹمرز" کے پرچے کی جگہ ماہرین کی تیار کردہ کاپی لگا دیتے۔ یہ کام کرنے کی اجرت اتنی معقول تھی کہ اس اُجرت سے پلے توانا بدن کے لئے نحیف و نزار ضمیر سے لڑنا مشکل نہیں رہتا۔

مجھے تو یہ ضمیر نام کی چیز یاد بھی نہیں رہتی لیکن بیڑہ غرق ہو خلیق بھائی کا کہ وہ ہر ملاقات پر نہ جانے کون کون سی دلیلیں گھڑ کر لے آتے اور جس دن خلیق بھائی سے ملاقات ہوتی اُس رات نیند کی رانی کے نخرے بڑھ جاتے ۔ خلیق بھائی کا بیڑہ غرق ہونے کی بات میں اکثر کہا کرتا تھا بلکہ ایک آدھ بار تو میں نے اُن کے منہ پر بھی یہ بات کہدی ۔ اُن کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا لیکن پھر وہ مُسکرانے لگے اور میں دوسری طرف دیکھنے لگا۔ ویسے میں دلی طور پر مطمئن تھا کہ خلیق بھائی کا تو سمندری سفر سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے سو اُن کا بیڑہ کیا غرق ہونا ہے ہاں میرے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اس طرح۔ خلیق بھائی میرے دوست نہیں تھے لیکن دوستوں کی طرح ہی تھے۔ جس زمانے میں میں ناظم آباد میں رہا کرتا تھا یہ میرے فلیٹ کے اوپر والے فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُن دنوں ایک دو بار اُن سے اتفاقی ملاقات ہو گئی تو ہم دونوں ساتھ اُٹھنے بیٹھنے لگے کہ میرا بھی اُس علاقے میں کوئی جان پہچان والا نہیں تھا اور وہ بھی تقریباً ایسے ہی تھے لیکن تب وہ اتنے سنجیدہ مزاج نہیں تھے ورنہ اُن سے ربط و ضبط شاید ہی استوار ہوتا۔ اب بھی ہم اچھے دنوں کی دوستی ہی نبھا رہے تھے ورنہ اب تو اکثر ہماری ملاقاتوں میں بدمزگی ہو جاتی ہے۔ خلیق بھائی ضرورت سے زیادہ اصول پسند واقع ہوئے ہیں اور میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہوں۔

جس طرح خلیق بھائی میری ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اُسی طرح وہ میری اس کہانی میں بھی گُھس آئے۔ بہرحال ہوا کچھ یوں کہ ایک دن، رات کے وقت طفیل صاحب کی کال آئی مجھے اُن کا نمبر دیکھ کر ہی پریشانی سی ہوئی کیونکہ دفتری اوقات کے بعد وہ مجھے انتہائی ضروری کام کے لئے ہی فون کرتے تھے۔

ذرا "اطلاع" تو لگاؤ ۔ طفیل صاحب نے بڑی عجلت اور گھبراہٹ میں بس اتنا کہا اور فون بند کردیا۔
"اطلاع" ایک نیوز چینل تھا جو سنسی خیز خبروں کے لئے مشہور تھا۔ اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ اُس روز بجلی بھی موجود تھی۔ میں نے ٹی وی کھول کر مذکورہ چینل لگایا تو وہاں نیوز اینکر بڑی ہیجانی آواز میں کچھ کہہ رہا تھا اور ٹی وی اسکرین پر مارک شیٹ قسم کا کوئی ڈاکیومنٹ دکھایا جا رہا تھا جس میں ہائی لائیٹر سے مختلف سطور کو جگہ جگہ سے رنگین کیا ہوا تھا۔ وقفےوقفے سے مختلف دستاویزات دکھا کر نیوز اینکر پوری شد و مد سے رواں تبصرہ پیش کر ہا تھا۔ جیسے جیسے بات سمجھ آ رہی تھی میرا رنگ فق ہوتا جا رہا تھا۔ نیوز اینکر ایک ہی بات کو کم از کم پچیس تیس بار دہرا رہا تھا ۔

"یہ ڈاکیومنٹ ان تک کیسے پہنچے ؟" میں نے خود کلامی کی کیفیت میں خود سے ہی سوال جواب شروع کر دیے۔ ٹی وی پر دکھائے جانے والے کچھ ڈاکیومنٹ واقعی اس بات کا ثبوت تھےکہ بڑے پیمانے پر گڑبڑ ہوئی ہے لیکن بہت سے بے ضرر ڈاکیومنٹس بھی اس طرح لال پیلے کرکے دکھائے جا رہے تھے کہ جیسے وہ چارج شیٹ کا اہم ترین حصہ ہو۔

چار چھ منٹ اس خبر کے چھ آٹھ فقروں کو یکے بعد دیگرے دہرانے کے بعد نیوز اینکر نے وعید سُنائی کہ دس بجے کے بلیٹن میں اس سلسلے میں خصوصی رپورٹ پیش کی جائے گی اس کے بعد دوسری خبریں شروع ہو گئیں۔ میں اس اچانک آنے والی اُفتاد سے پریشان تھا کہ یہ سب اس قدر اچانک کس طرح سے ہو گیا اور اتنے اہم دستاویزات نیوز چینل کے ہاتھ کیسے لگ گئے۔ اسی اُدھیڑ بُن میں مجھے خیال آیا کہ طفیل صاحب سے بات کی جائے۔ لیکن طفیل صاحب کا نمبر مستقل مصروف مل رہا تھا۔ میں اندازہ کر سکتا تھا کہ اُن کا نمبر اس وقت کیوں مصروف ہے۔

صدمے اور خوف کی ملی جلی کیفیات لئے میں آگے کے خدشات کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ نہ جانے اس سب معاملے کا کیا نتیجہ نکلے ۔ لیکن فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ انہی سوچوں میں دس بھی بج گئے۔ نیوز چینل والوں نے وہی خبر کچھ بہتر انداز میں رپورٹ کی شکل میں پیش کر دی۔ رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔

اگلے چار چھ دن بہت پریشانی میں گزرے۔ دوسرے دن ہی میں طفیل صاحب کے ساتھ کنٹرولر ایگزیمنیشن کے روم میں بیٹھا ہوا تھا یہ وہی روم تھا جہاں کبھی سالوں برسوں میں ایک آدھ منٹ کے لئے جانا ہوتا تھا۔ کنٹرولر صاحب کا کمرہ تجدیدِ آرائش کے باعث جگمگا رہا تھا لیکن میرا ذہن اس قابل نہیں تھا کہ نئی آرائش کو سراہ سکوں۔ کم بولنے والے کنٹرولر صاحب اس ملاقات میں سب سے زیادہ بول رہے تھے یہ البتہ شکر ہے کہ اُن کا روئے سُخن میرے بجائے طفیل صاحب کی طرف تھا۔ طفیل صاحب اپنی کچھ باتوں کی تائید کے لئے گاہے گاہے مجھ سے بھی مخاطب ہو رہے تھے اور میں ذہن پر زور دیے بغیر طفیل صاحب کی تائید میں ہی بہتری سمجھ رہا تھا۔ پھر یہ میٹنگز صبح شام ہوئیں اور نہ جانے کون کون سے افسران کنٹرولر صاحب سے ملاقات کے لئے آ تے رہے۔ یہ البتہ شکر ہے کہ پہلی بار کے بعد مجھے ان میٹنگز میں نہیں بُلایا گیا۔

چھٹے دن اُسی ٹی وی چینل سے اطلاع ملی کہ ٹیکنیکل بورڈ کی انتظامیہ نے اس معاملے کی مکمل تحقیق تک محکمے کے دو افراد کو معطل کر دیا ہے ۔ چشمِ تخیل کے زور پر میں دیکھ سکتا تھا کہ ان دو افراد کے سانچوں میں سے پھنسا ہوا ایک سر میرا ہی تھا اور تنگ سانچے سے بامشکل گردن گھما کر دیکھنے پر دوسرے سانچے میں طفیل صاحب کی گردن بھی نظر آ رہی تھی۔ میرے چہرہ فق ہو گیا تھا اور میں صدمے کی کیفیت میں اُس دن کو کوس رہا تھا جب میں نے طفیل صاحب کے ساتھ مل کر اس کام کا آغاز کیا تھا۔

سوچتے سوچتے مجھے خیال آیا کہ اگر مجھے معطل کیا گیا ہے تو مجھ تک اطلاع کیوں نہیں پہنچی ابھی تک۔
" شاید کل تک سسپنشن لیٹر کل تک مل جائے" میں نے سوچا ۔

آج بھی طفیل صاحب کا نمبر مستقل مصروف مل رہا تھا ۔ چار چھ دفعہ کوشش کرکے میں نے فون ایک طرف پٹخ دیا۔

ٹی وی پر کرکٹ میچ میں کامیابی پر ماہرین کھلاڑیوں کوقومی ہیرو قرار دے رہے تھے ۔ یہ وہی ہیروز تھے کہ پچھلی سیریز میں شکست کے بعد ماہرین کا خیال تھا کہ ان کی تو ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی۔ پھر اچا نک ٹی وی اسکرین سُرخ ہو گئی اور بریکنگ نیوز کی وعید سُنائی جا رہی تھی۔
"ٹیکنیکل بورڈ واقعے کے ذمہ داران کی معطلی کے خط کی نقل "اطلاع" کو موصول ہو گئی ہے" نیوز اینکر گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ بات دُہرائے جا رہا تھا ۔ اور اسکرین پر جھماکوں کے درمیان دھندلا دھندلا اسکین ہوا خط دکھایا جا رہا تھا۔
میری آنکھیں پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں اور میں بے جا اینی میشن میں لپٹی بریکنگ نیوز کے چوکھٹے میں اپنا نام پڑھنے کی کوشش کر نے لگا۔ کافی کوشش کے باوجود وہ نام تو مجھ سے نہیں پڑھے گئے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہو گیا کہ ان دونوں ناموں میں میرا نام کہیں نہیں تھا بلکہ طفیل صاحب کا بھی کہیں ذکر نہیں تھا۔ خوشی کے ساتھ ساتھ مجھے حیرت بھی ہو رہی تھی۔ عارضی ہی سہی دل کو کچھ قرار آ ہی گیا تھا۔ طفیل صاحب سے آج بھی بات نہیں ہو سکی ۔ میں نے بھی زیادہ کوشش نہیں کی۔ اگلے دن پتہ چل ہی جانا تھا کہ کیا معاملہ ہے۔

ابھی میں اس کیفیت سے باہر نہیں آیا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجنے کی آواز آئی اور چند ہی لمحوں کے بعد بچوں نے بتایا کہ خلیق انکل آئے ہیں۔ میری خوشی ایک دم ہی جیسے ہرن ہو گئی ۔ میں ان دنوں خلیق بھائی سے نہیں ملنا چاہ رہا تھا ۔ دو دن پہلے میں اُن کے محلے میں گیا بھی تو اُن سے نہیں ملا بلکہ آج صبح اُن کی فون کال بھی میں نے جانتے بوجھتے موصول نہیں کی۔

لیکن شاید یہی تو وقت تھا کہ جب خلیق بھائی مجھ سے ملنے کو بے چین ہوں گے تاکہ وہ مجھے بتا سکیں کہ وہ ٹھیک تھے اور میں غلط تھا۔ وہ مجھے سمجھاتے تھے اور میں مانتا نہیں تھا۔ شاید وہ مجھے یہی جتانے آئے ہوں کہ میری بات نہیں مانی تو اب بھگتو۔ مجھے اُس لمحے پر ایک بار پھر افسوس ہوا جب پہلی بار میں نے اُن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔

چونکہ بچے بتا چکے تھے کہ میں گھر پر موجود ہوں سو اب اُن سے نہ ملنا انتہائی بے مروتی کی بات ہوتی ۔ سو برسوں پرانی دوستی کا پاس ایک بار پھر مجھے مجبور کر گیا اور میں چار و ناچار ڈرائنگ روم میں پہنچا۔

خلیق بھائی مجھے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔
"ارے بھائی کہاں غائب ہو؟ فون بھی ریسیو نہیں کر رہے؟" وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
"کہیں نہیں! آپ کی مس کال بعد میں دیکھی" میں نے کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے جھوٹ بولا اور مسکرانے کی کوشش بھی کی۔
خیر خیریت کے بعد خلیق بھائی نے اِ دھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں۔
میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ نہ جانے کب وہ اپنا پینترا بدلیں اور اگلے پچھلے تمام بدلے نکالنا شروع کر دیں۔
لیکن توقع کے برخلاف وہ کافی اچھے موڈ میں نظر آ رہے تھے ۔
"آج تو اپنے کھلاڑیوں نے کمال ہی کردیا ۔ خوب اچھی کارکردگی دکھائی ۔ حد تو یہ ہے کہ اوپنرز نے بھی کافی اچھا کھیلا۔" خلیق بھائی مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔
"خوشی ہوئی کہ کوئی نہ کوئی تو ملک کا نام روشن کر رہا ہے۔"
آج وہ الگ ہی جون میں نظر آ رہے تھے ورنہ کرکٹ سے ان کی دلچسپی واجبی سی ہی تھی۔
"تو کیا آج کل آپ بھی ٹی وی دیکھ رہے ہیں؟" میں نے ایک اچانک خیال آنے پر پوچھا۔
"نہیں ! نہیں تو! " خلیق بھائی نہ جانے کیوں گڑ بڑا سے گئے۔ "بس کرکٹ کی اپڈیٹس دیکھی تھی"۔ مسکرا وہ اب بھی رہے تھے لیکن اب کی بار مسکراہٹ کافی پھیکی ہو چلی تھی۔
خلیق بھائی باقی سب چیزوں کی طرح ٹی وی میں بھی کیڑے نکالنے کے پرانے عادی تھے، اُنہیں ہر پروگرام میں کوئی نہ کوئی قابلِ اعتراض نکتہ مل ہی جاتا ۔ سو اُنہوں نے ٹی وی دیکھنا ہی تقریباً ختم کر دیا تھا۔
"یار کافی پلواؤ ! اچھی سی" خلیق بھائی نے ایک دم ہی فرمائش کردی حالانکہ ابھی چائے کے کپ بھی میز پر ہی رکھے تھے۔ لیکن چونکہ وہ شاذ ہی کبھی کوئی فرمائش کرتے تھے سو میں کافی کا کہنے اندر چلا گیا۔
کافی کا کہہ کر میں واپس آیا تو خلیق بھائی اپنے بیگ میں کچھ ٹٹول رہے تھے۔ پھر اُنہوں نے ایک کتاب میری طرف بڑھائی۔
"بہت عرصے بعد مشتاق احمد یوسفی کی نئی کتاب آئی ہے۔ ہمت کرکے لے ہی لی میں نے ۔ " اُنہوں نے مسکرا کر کہا۔
مشتاق احمد یوسفی کو میں بھی شوق سے پڑھتا تھا اور یہ بات خلیق بھائی اچھی طرح جانتے تھے۔
"آپ نے پڑھ لی؟" میں نے کتاب کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں میں نے کافی پڑھ لی ہے لیکن آج کل زیادہ وقت نہیں مل رہا سو تمھارے پاس لے آیا۔ "
کچھ دیر بعد وہ اس کتاب میں سے اپنی پسندیدہ حصے پڑھ کر سنانے لگے ۔ کافی ، مشتاق احمد یوسفی اور خلیق بھائی کی خوش مزاجی تینوں چیزوں نے مل کر ایسا خوشگوار ماحول بنا دیا کہ میں اپنی تمام تر فکر اور شرمندگی بھول گیا۔
اُس رات خلیق بھائی ساڑھے بارہ بجے تک بیٹھے رہے اور جاتے ہوئے یوسفی صاحب کی کتاب چھوڑ گئے۔
میں تقریباً دو بجے تک کتاب ادھر اُدھر سے پڑھتا رہا اور پھر سو گیا۔ آج تقریباً ایک ہفتے کے بعد مجھے ایسی پرسکون نیند آئی تھی۔

دوسرے دن دفتر پہنچنے پر پتہ چلا کہ جن دو لوگوں کو معطّل کیا گیا ہے وہ ہمارے ہی ڈپارٹمنٹ میں تھے لیکن صرف تنخواہ وغیرہ لینے آتے تھے اور اُن کی نوکری تعلقات اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چل رہی تھی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں اور اِس حساب سے دیکھا جائے تو ہم تو ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں۔ کم از کم محنت تو کرتے ہیں اور اپنی تنخواہ حرام تو نہیں کرتے۔

دو چار دن مزید افرا تفری رہی لیکن پھر آہستہ آہستہ دفتر کے معاملات معمول پر آگئے۔ میں بھی کافی 'ریلیکس' ہو گیا۔ خلیق بھائی دو چار دن بعد چلے آتے اور بہت اچھا وقت گزرتا۔ پھر شاید اُن کی مصروفیات بڑھ گئیں تو ملاقاتوں کا درمیانی وقفہ بڑھ گیا۔

اسی طرح کرتے کرتے چھ آٹھ ماہ بیت گئے۔ ایک دن طفیل صاحب چھٹی کے بعد میرے پاس آئے اور کہنے لگے
"بھئی عاطف میاں اب کمر کس لو کام شروع ہونے والا ہے۔ " وہ مسکرا تے ہوئے میری میز کے سامنے رکھی کُرسی پر بیٹھ گئے۔
"کون سا کام؟" میں نے اُن کی طرف حیرت سے دیکھا ۔
"ارے بھئی اپنا کام ، اور کونسا کام۔ اس بار کافی زیادہ 'کسٹمرز' آ رہے ہیں بس اب تم تیار ہو جاؤ۔" وہ بدستور مسکرا رہے تھے۔
"نہ جانے میڈیا والوں نے کس نیت سے یہ سب کیا لیکن اس سب کاروائی سے یہ ہوا کہ ہماری مارکیٹنگ اچھی ہوگئی ۔ ورنہ تو بے چارے لوگ ڈر ڈر کر پوچھتے پھاچھتے بڑی مشکل سے ہم تک پہنچتے تھے"۔ اُن کی مسکراہٹ گہری ہو چلی تھی۔
طفیل صاحب کی بات کچھ کچھ میری سمجھ آ رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اب کی بار کچھ اس ترتیب و انتظام سے کام کیا جائے کہ بعد میں 'مشکل' نہ ہو۔ آخر کو یہ ایک اہم کام تھا اور اس سے بچوں کا مستقبل وابستہ تھا۔قریب قریب طفیل صاحب جیسی مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر بھی آ چلی تھی۔


******

افسانہ : جامِ سفال


جامِ سفال
محمد احمدؔ​

شاید کوئی اور دن ہوتا تو حنیف بس میں بیٹھا سو رہا ہوتا۔لیکن قسمت سے دو چھٹیاں ایک ساتھ آ گئیں تھیں ۔ پہلا دن تو کچھ گھومنے پھرنے میں گزر گیا ، دوسرا پورا دن اُس نے تقریباً سوتے جاگتے گزارا ۔ آج بس میں وہ ہشاش بشاش بیٹھا تھا اور بس کی کھڑکی سے لگا باہر کے نظارے دیکھ رہا تھا۔ باہر کے مناظر وہی روز والے تھے۔ وہی افرا تفری، وہی لوگوں کی بے چینی اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ان تھک دوڑ ۔

اُس کی سیٹ کے بالکل سامنے بس میں وہ جنگلہ لگا ہوا تھا جو بس کے زنانہ اور مردانہ حصے میں حدِ فاصل کا کام کرتا تھا ۔ صنفِ نازک کے لئے مختص حصے میں اس وقت صرف دو خواتین موجود تھیں۔ ایک کچھ عمر رسیدہ سیاہ برقعے میں ملبوس ، اور دوسری ایک نوجوان لڑکی۔ حنیف بے خیالی میں لڑکی کا جائزہ لینے لگا۔ وہ ایک عام سی لڑکی تھی، جو شاید اپنے موبائل میں کوئی گیم کھیل رہی تھی ۔ رنگت مناسب تھی اور ناک نقشہ بھی ٹھیک ہی تھا ۔ اُسے پہلی نظر میں وہ لڑکی اچھی لگی۔ شاید وہ لڑکی واقعی اچھی تھی یا پھر یہ جاذبیت محض صنفِ مخالف کے لئے فطری کشش کے باعث تھی۔ بہرکیف وہ گاہے گاہے اُسے دیکھ رہا تھا اور نظارہ تسلسل اور تعطل کی کڑیوں سے مل کر قسط وار ڈرامے کی تمثیل ہوا جاتا تھا۔

بس سُست رفتاری سے رواں دواں تھی اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود بس اسٹاپ پر لوگ بس میں اُتر اور چڑھ رہے تھے۔ ایسے ہی کسی اسٹاپ پر بس رُکی تو خواتین کے حصے میں دو نئے مسافر سوار ہوئے۔ ایک نوجوان لڑکی اور شاید اُس کا کمسن بھائی ۔ حنیف کے پاس تو یوں بھی کوئی مشغولیت نہیں تھی سو اُس نے نگاہوں نگاہوں میں اس نئی آنے والی ہستی کا بھی استقبال کیا اور کمسن بھائی پر بھی اچٹتی سے نظریں ڈالی۔ نئی آنے والی لڑکی خوش شکل تھی۔ رنگ گندمی اور آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی۔ پہلے سے موجود لڑکی کی طرح نئی آنے والی لڑکی کی نشست بھی کچھ اس طرح تھی کہ جیسے وہ حنیف سے ہی مخاطب ہوں تاہم ایک کی دلچسپی موبائل اور دوسری کی چھوٹے بھائی کی طرف ہی نظر آتی تھی۔ نئی آنے والی لڑکی بڑی ادا سے اپنے بھائی سے ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھی اور اُس کے صبیح چہرے پر مسکراہٹ ایسے ہی آویزاں تھی جیسے چودھویں کا چاند آسمان پر ٹکا نظر آتا ہے۔

حنیف بڑی محویت سے نئی آنے والی لڑکی کو دیکھ رہا تھا کہ اُسے خیال آیا کہ اس طرح ایک ٹُک کسی لڑکی کی طرف دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ اُس نے ادھر اُدھر دیکھا تو اُسے وہ لڑکی نظر آئی جو پہلے سے بس میں موجود تھی اور اپنے موبائل گیم میں کسی مرحلے میں ناکام ہونے پر جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آ رہی تھی۔

پہلے والی لڑکی کو پھر سے دیکھنے پر اُسے احساس ہوا کہ اس کی رنگت کافی گہری ہے اور اس سانولے پن کے باوجود اُس نے گہرے رنگ کا ہی لباس پہنا ہوا ہے۔ یہ خیال شاید اُسے اس لئے بھی آیا کہ اب اس کے سامنے نووارد خوش شکل لڑکی بھی موجود تھی اور اس دانستہ یا نادانستہ تقابلی جائزے میں حنیف کی مددگار ثابت ہو رہی تھی۔ سانولی لڑکی کا ناک نقشہ بھی ایسا نہیں تھا کہ جسے قابلِ ستائش کہا جا سکے ۔ ناک متناسب تھی البتہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں چہرے کے حساب سے کچھ عجیب سی لگ رہی تھیں۔ اس کے برعکس نوارد لڑکی، ہر لحاظ سے خوبصورتی کی مثال تھی۔ رنگت نکھری ہوئی، چہرہ صباحبت سے بھرپور، سیاہ آنکھیں ایسی با رونق کہ ایک دنیا ان میں آباد نظر آتی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ لباس بھی دیدہ زیب اور سلیقے سے زیب تن کیا ہوا۔
"ان دونوں کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ۔" حنیف نے دل میں سوچا۔
ابھی وہ اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ بس ایک اسٹاپ پر رُکی اور خوبرو لڑکی اپنے بھائی کو لئے بس سے اُتر گئی اور بس رُکے بغیر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی ۔
اگر وہ بس ڈرائیور ہوتا تو یقیناً رُک کر اُس لڑکی کو جاتا ہوا دیکھتا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتی ۔ یہ بس والے شاید ان چیزوں سے اسی لئے بے نیاز ہوتے ہیں کہ اگر وہ ایسے نہ ہوں تو ڈرائیونگ کرنا ہی مشکل ہو جائے۔ اپنی سوچ پر وہ خود ہی مسکر ادیا۔

مسکراہٹ نے آنکھیں میچیں تو اُسے بس میں کچھ اندھیرے کا سا احساس ہوا۔ صبح صبح جب سورج چڑھ رہا ہوتو اندھیرے کا احساس کیسا ؟ یقیناً بس میں اندھیرا نہیں تھا ۔ البتہ وہ روشنی اب بس میں نہیں تھی جس میں وہ کچھ دیر پہلے دیدہ زیب مناظر دیکھ رہا تھا۔ اگر ویرانی کے لفظ کی شدت کو دس گنا بڑھا دیا جائے تو کہا جا سکتا تھا کہ بس اب ویران تھی اور شاید صرف اُس کے لئے ہی ویران تھی۔ اُس نے گھبرا کر بس کی کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ منظر ایک کے پیچھے ایک بھاگے جا رہے تھے ۔ گویا بارہا دیکھی ہوئی کوئی فلم پردہ ء سیمیں پر دکھائی جا رہی ہو۔ سارے منظر رٹے رٹائے ، دیکھے بھالے۔ وہی لوگ ، وہی افراتفریح اور وہی روز کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے۔ اگر اس فلم کا کوئی نام ہوتا تو یقیناً "یکسانیت" ہی ہوتا ۔ وہی یکسانیت کہ جس کے ہاتھوں بیزار ہو کر انسان کہہ اُٹھتا ہے کہ تنوع ہی زندگی کا اصل لطف ہے۔

کچھ دیر بعد یہی رہوارِ تنوع اُسے پھر بس میں لے آیا۔ بس میں در آنے والا اندھیرا اب کافی حد تک معدوم ہو چُکا تھا اور دھیمے سُروں کے نغمے سماعت میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ اُس نے سامنے دیکھا تو پہلے سے موجود موبائل سے اُلجھتی لڑکی اب مسکرا رہی تھی ۔ شاید موبائل گیم کا وہ سانپ جو اپنی ہی دم سے متصادم ہو کر فنا کے لمحے سے جا ملتا تھا ، اُسے کامیابی کے مزید ایک زینے تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ چھوٹی سی کامیابی اُس کے چہرے پر بڑی مسکراہٹ لے آئی تھی اور اس مسکراہٹ نے اس کا چہرہ پُر نور کر دیا تھا۔ شاید کوئی بد ذوق ہوتا تو کہتا کہ یہ تو موبائل کی روشنی ہے جو اُس کے چہرے پر منعکس ہو رہی ہے لیکن کوئی کہتا بھی تو حنیف مشکل ہی اُس کی بات ماننے پر آمادہ ہوتا۔ عام سے خد و خال والی وہی لڑکی اب حنیف کو بہت اچھی لگ رہی تھی ۔ گویا وہ خود بھی سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں سو کے خانے میں آ موجود ہوا ہو۔
"چلنا بھئی ۔۔۔ ! نصیر آباد والے" بس کنڈکٹر کرخت آواز میں اُس کے اسٹاپ پر پہنچنے کی اطلاع دے رہا تھا ۔ لیکن کنڈکٹر کی یہ پُکار صدا بہ صحرا ہوئی جاتی تھی ۔

ناصح (ایک افسانہ)

ناصح 

 از محمداحمدؔ
بات مولوی صاحب کی بھی ٹھیک تھی۔ واقعی کم از کم ایک بار تو سمجھانا چاہیے ایسے لوگوں کو جو دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں یا دوسروں کا مال ناحق کھاتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ مولوی صاحب یہ بات خطبے میں کبھی نہیں کہتے تھے ہاں جب کبھی بیٹھے بیٹھے کسی چوری چکاری کا ذکر آئے تب وہ یہ بات ضرور کہتے ۔ خطبے میں تو وہ ایسی مشکل مشکل باتیں کرتے کہ اُس کے تو سر پر سے ہی گزر جاتیں اور وہ گردن ہلا کر رہ جاتا کہ مولوی صاحب جو بھی کہہ رہے ہیں ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے آخر کو اتنا علم ہے اُن کے پاس۔

وہ سوچتا کہ ایسے لوگوں کو کیسے سمجھایا جاسکتا ہے جو اچانک سے آ دھمکتے ہیں اور بندوق کے زور پر لوگوں کی نقدی اور قیمتی اشیاء لے کر یہ جا اور وہ جا ہوجاتے ہیں۔ اب بھلا اُن سے کون کہے کہ بھیا ذرا دو گھڑی رُک کر ہماری بات ہی سُن لو۔ اور جب شیطان اُن کے دماغ میں گھسا ہوا ہو تو اُنہیں اچھے بھلے کی کیا خاک سمجھ آئے گی۔ 

اُسے پچھلے مہینے کا وہ واقعہ یاد آیا جب ایک دن اُس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ رات ساڑھے دس گیارہ بجے وہ اپنی موٹر بائیک پر گھر جا رہا تھا کہ دو لڑکے ایک موٹر سائیکل پر آئے اور اُس کا راستہ روک دیا۔ لامحالہ اُسے رُکنا پڑا ۔وہ بھی سمجھ گیا کہ یہ کیا معاملہ ہو سکتا ہے اور ہوا بھی وہی۔ اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں پستول تھا اور وہی دیرینہ مطالبہ ہونٹوں پر، گالیوں کی بوچھار اپنی جگہ تھی۔ اُس نے جھٹ موبائل فون اور جیب میں جتنے بھی پیسے تھے وہ نکال کر اُن کے ہاتھ پر رکھ دیے ۔ جان ہے تو جہان ہے۔ اُسے گھی کے اشتہار والی وہی بات یاد آگئی جو پہلی بار دادی جان کے منہ سے سُنی تھی۔ بکتا جھکتا گھر آگیا ۔ 

پھر چار چھ دن میں زندگی معمول پر آگئی۔ اب کے اُس نے پہلے سے بھی سستا موبائل خریدا تھا ۔ وہ راستہ البتہ اُس نے چھوڑ دیا ۔اب وہ دوسرے راستے سے آیا جایا کرتا ، یہ راستہ کچھ طویل تھا لیکن پر رونق تھا ۔ حالانکہ اُسے معلوم تھا کہ رونق اور ویرانی سے بھی ان لُٹیروں کو کوئی سرو کار نہیں تھا۔ اُنہیں کون سے کوئی روکنے ٹوکنے والا تھا جو وہ بارونق اور سنسان علاقوں میں تمیز کرتے۔

اب بھلا میں اُنہیں کیسے سمجھا سکتا ہوں ۔ اُس نے تصور میں مولوی صاحب سے کہا ۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مولوی صاحب تو مسجد میں رہ گئے اور وہ سوچتے سوچتے گھر تک پہنچ گیا ۔ سب باتیں اپنی جگہ لیکن مولوی صاحب کی بات اُس کے دل کو لگی تھی۔ واقعی جب تک کسی کو سمجھانے والا کوئی نہ ہو، وہ راہِ راست پر کیسے آئے گا۔ پھر چور ڈاکو کون سے سب کے سامنے اپنے کارناموں کا اقرار کرتے پھرتے ہیں کہ اُن کا ماجرہ سن کر اُن کو سمجھا یا جائے۔ 

سوچتے سوچتے نہ جانے کیسے اُس کے دماغ میں ایک ترکیب آ ہی گئی۔ وہ اس وقت کا انتظار کرنے لگا کہ جب اگلے روز ظہر کے درس کے بعد اُس کی مولوی صاحب سے ملاقات ہونی تھی۔ وہ اپنے ذہن میں ان باتوں کو ترتیب دے رہا تھا ۔ آخر کو مولوی صاحب کو سمجھانا بھی تو تھا۔

اللہ اللہ کرکے وہ وقت بھی آ ہی گیا جب اُس نے مولوی صاحب کو اپنی تجویز پیش کرنی تھی۔ نماز ہوئی پھر درس شروع ہوا۔ مولوی صاحب روز کی طرح کسی کتاب میں سے کچھ واقعات سُنا رہے تھے اور لوگ سر جھکائے سُن رہے تھے۔ نہ جانے سُن رہے تھے یا باقی لوگ بھی اُس کی طرح اپنی اپنی سوچوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ درس ختم ہوا تو دعا ہوئی ۔ دعا بھی وہی روز والی ہی تھی شاید یہ دعائیں پوری ہوتیں تو نئی دعائیں مانگی جاتیں۔ 

جب سب لوگ مولوی صاحب سے مصافحہ کرکے چلے گئے تو وہ ذرا کھسک کر مولوی صاحب کے قریب ہو گیا۔ اور تھوڑا سا ہمت کرکے کہنے لگا۔
"مولوی صاحب کل آپ بات کر رہے تھے نا کہ لوگوں کو سمجھانا چاہیے ۔خاص طور پر اُن کو جو چوری چکاری کرتے ہیں اور لوگوں کی حق تلفی کرتے ہیں۔ " ہلکی سے ہکلاہٹ کے بعد وہ روانی سے بولنے لگا۔
"ہاں ہاں" ۔ مولوی صاحب کے لہجے میں تحیّر نمایا ں تھا۔
"تو مولوی صاحب میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔ " اُس کی آنکھیں مولوی صاحب کے چہرے پر ٹکی تھیں۔ اور مولوی صاحب ایسے حیران ہوئے جا رہے تھے کہ جیسے طلسم ہوش ربا کا کوئی منظر اُن کے سامنے زندہ ہو گیا ہو۔
"ہاں بولو! " مولوی صاحب نے کھر کھراتی آواز میں کہا۔
"مولوی صاحب! میں چاہتا ہوں کہ آپ ان چوروں کے نام ایک خط لکھ دیں اور اُس خط میں اُن کو سمجھائیں کہ یہ چوری اور ڈکیتی وغیرہ بہت ہی بُری بات ہے۔ اور جوبھی اس بارے میں اللہ رسول کا حکم ہے وہ سب خط میں لکھ دیں۔ " مولوی صاحب کچھ حیرانی اور کچھ مسکراہٹ کے ساتھ اُس دیکھ رہے تھے۔
"اچھا ! لیکن یہ خط اُنہیں پہنچائے گا کون؟" مولوی صاحب نے اپنی دانست میں بڑا اچھا نکتہ اُٹھایا۔
"آپ ایسا کریں کہ ایک دفعہ اُن کے نام خط لکھ لیں۔" اُس نے اپنا سوچا ہوا منصوبہ آشکار کرنا شروع کیا۔ "پھر ہم اُس خط کی بہت ساری کاپیاں کروا کر جمعے کے دن بانٹ دیں گے۔ جس جس کو یہ کاپی ملے وہ مزید دس کاپیاں کروا کر اپنے جاننے والے لوگوں میں بانٹ دے۔ " وہ سانس لینے کو رُکا۔
"پھر جب خدانخواستہ کسی کے ساتھ چوری ڈکیتی کا واقعہ پیش آئے تو وہ یہ خط اُن ڈاکوؤں کو تھما دے۔" اُس نے ایک گہری سانس لی۔
مولوی صاحب تحیر اور تبسم کے ہنڈولے پر جھول رہے تھے۔
کچھ توقف کے بعد مولوی صاحب نے بامشکل اپنی مسکراہٹ پر قابو پایا اور اُسے خط لکھنے کی یقین دہانی کروا دی۔ آج وہ کافی مطمئن تھا۔

اگلے دو چار دن وہ کسی کام سے شہر سے باہر رہا سو مولوی صاحب سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ اس دوران جمعہ بھی آ کر گزر گیا۔ اتوار والے روز وہ پھر مولوی صاحب کے سامنے بیٹھا تھا ۔
"مولوی صاحب ! وہ خط لکھ دیا آپ نے؟" مولوی صاحب نے اُس کی طرف ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیا واقعی لکھنا تھا۔
"اگر نہیں لکھا تو اب لکھ دیں۔" یہاں خامشی کا مطلب نیم رضا مندی سمجھنا اُس کے لئے دشوار ہو رہا تھا۔
"اچھا !!! چلو آج رات کو لکھ دوں گا۔" مولوی صاحب نے ہار مانتے ہوئے کہا۔

اگلے روز مولوی صاحب نے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اپنے منصوبے کو مجسم ہوتا دیکھ کر اُسے بڑی خوشی ہوئی اور وہ اس خوشی میں یہ بھی پوچھنا بھول گیا کہ جمعے کے روز اس خط کی کاپیاں تقسیم کرنے کے لئے مولوی صاحب نے کیا اقدام کیا اور کیا اسے بھی اس سلسلے میں کچھ کرنا ہوگا۔

بہرکیف اپنی حد تک آج وہ مطمئن تھا ۔ مولوی صاحب کا چوروں کے نام لکھا خط اُس کی جیب میں تھا اب جیسے ہی کبھی اُس کی اس قماش کے لوگوں سے ملاقات ہوتی باقی کا کام آسان ہی تھا۔ جمعے کے روز علاقے کے بیشتر لوگوں تک یہ خط پہنچ ہی جانا تھا۔ 

دو چار روز ایسے ہی گزر گئے ۔ اس جمعے مولوی صاحب کسی اور مسجد میں خطبہ دینے گئے تھے اور یہاں کی ذمہ داری موذّن صاحب کی تھی۔ سو اُس دن خط کی تقسیم کی اُمید رکھنا بے کار تھی ۔ بہرکیف وہ تو اس بات پر ہی مطمئن تھا کہ اب وہ اپنے حصے کا فرض نبھا سکتا ہے۔ رہے علاقے کے باقی لوگ ۔ تو وہ جانیں اور مولوی صاحب جانیں۔

جب سے خط اُس کی جیب میں آیا تھا اُس کے طور اطوار بدل گئے تھے۔ اب اگر رات گئے بھی اُسے کہیں جانا پڑتا تو وہ گھبراتا نہیں تھا ۔ بلکہ اب تو اکثر وہ گھر واپسی پر اُس رستے کا انتخاب کرتا جو سنسان اور چھوٹا تھا۔ اُسے اندازہ بھی نہیں ہوا کہ کب اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ جلد سے جلد کوئی بد قماش شخص اُس سے ٹکرائے تو وہ اُسے خط تھما سکے اور اپنا فرض پورا کر سکے۔ وہ رات گئے تاریک راستوں میں نکل جاتا۔ جہاں کہیں اُسے کوئی مشکوک شخص نظر آتا وہ اپنی رفتار ہلکی کر لیتا ۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ چوروں ڈکیتوں نے تو اُس کی طرف دیکھنا بند ہی کر دیا تھا۔ خط اُس کی جیب میں ہمہ وقت موجود رہتا اور وہ دھڑلے سے پورے شہر میں گھومتا رہتا۔

پھر ایک روز اُس کی یہ تمنا بھی پوری ہوگئی لٹیروں نے آخر اُسے روک ہی لیا۔ اُس کے چہرے پر عجیب سی خوشی تھی ۔ اُس نے اپنے جیب سے پیسے نکالتے ہوئے نوٹوں کے بیچ خط اس طرح اٹکا دیا کہ منتقلی میں خط کے گرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ گھر پہنچا تو بہت مطمئن تھا۔ دل میں یہی خیال تھا کہ کل سویرے ہی مولوی صاحب کو بتاؤں گا کہ اُس نے اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے۔

اگلی صبح جب وہ گھر سے نکلا تو ایک عجیب سا خوف اُ سے محسوس ہوا ، جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکا۔ جب وہ اُس مقام پر پہنچا جہاں کل رات اُس کی لٹیروں سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ ایک لمحے کے لئے رُکا۔ سڑک کے کنارے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ پڑا ہوا تھا ۔ وہ بہت تیزی سے موٹر سائکل سے اُترا اور کاغذ اُٹھا کر جھاڑنے لگا۔ اگلے ہی لمحوں میں وہ کا غذ اُس کی جیب میں تھا ،اپنی مستقل جگہ پر۔ اب وہ پھر سے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا ، اُسے مختصر اور سنُسان راستوں کی عادت جو ہو گئی تھی۔

*******​

محرومِ تماشا​

محرومِ تماشا​

از محمد احمد​


شام ڈھل چکی تھی ۔ چائے کی ہوٹل پر حسبِ معمول رونق میں اضافہ ہو چکا تھا ۔ لوگ مختلف ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھےاور دن بھر کی تھکن کے مارے دکھتے بدن پر ذائقہ اور تراوت کے پھائے رکھ رہے تھے۔ یہ شہر کا ایک متوسط علاقہ تھا اور سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں کےلوگ بھی چائے کے رسیا تھے۔ باہر والے لڑکے ادھر سے اُدھر کسی کو چائے اور کسی کو دلاسہ دیتے نظر آتے اور اپنے تئیں آرڈر اور چائے کی ترسیل میں توازن رکھنے کی کوشش کرتے ۔ 

نیلی گاہے گاہے مختلف میزوں پر جا رہی تھی ۔ اُسے ان میزوں کی ترتیب اور راستوں میں آنے والی تمام رکاوٹیں ازبر ہوگئیں تھیں۔ نیلی کے شانوں پر دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ بڑی مضبوطی سے جمے ہوئے تھے جو اُسے رُکنے اور چلنے کی ہدایات دے رہے تھے ، ہدایات کیا دے رہے تھے یہ ہاتھ کسی کہنہ مشق ڈرائیور کے ہاتھوں کی طرح تھے جو گاڑی کے اسٹیرنگ پر مضبوطی سے جمے گاڑی کو یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں موڑنے کا کام کرتے ہیں ۔ نیلی کو روکتے ، بڑھاتے یہ ہاتھ پرویز کے تھے۔ پرویز نیلی سے بڑا تھا ۔ بڑا بھی کیا تھا کہ پرویز اور نیلی کی عمروں میں سال دو سال کا ہی فرق ہوگا سو دونوں بہن بھائی تقریباً ہم عمر ہی نظر آتے تھے۔ 

نیلی دیکھ نہیں سکتی تھیں کہ اُس کی آنکھوں کی پُتلیاں پیدائش کے وقت سے ہی نہ جانے کس انجانے خوف سے گدلائی ہوئی سفید جھلیوں کے پیچھے جا چھپی تھیں۔ پرویز اور نیلی چائے کی ہوٹل پر موجود ہر میز پر جاتے اور اُن کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھتے۔ پرویز کا کام نیلی کو میز کرسیوں پر براجمان لوگوں کے احاطہ ء نظر میں لاکر ختم ہوجاتا ۔ لوگ نیلی کی بے نور آنکھوں کو دیکھتے اور دو روپے ، پانچ روپے اور دس روپے نیلی کے ہاتھ پر رکھ دیتے ۔ جو لوگ کچھ نہ بھی دیتے وہ دل ہی دل میں ترس کھا کر رہ جاتے۔ ایک میز سے دوسری میز تک جاتے ہوئے ملنے والے سکے اور نوٹ پرویز کی جیب میں منتقل ہوجاتے۔ 

..............​

باقی سب ملازموں کی طرح الیاس بھی فیکٹری کے مالک ارشاد نواز سے خوش نہیں تھا۔ لیکن فیکٹری مزدوروں کے خوش ہونے نہ ہونے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے اُنہیں پیسے چاہیے تو کام تو کرنا پڑے گا ،جب اور جس طرح بھی ملے۔ تیار شدہ ملبوسات کے اس ادارے میں بے شمار مزدور دن اور رات کی شفٹوں میں کام کرتے لیکن اُن کو اتنا ہی ملتا کہ وہ بامشکل گزارا کر لیں ، وہ جو بھی کماتے راشن کی نظر ہوجاتا۔ کبھی کھانے پینے یا پہنے اوڑھنے میں ہاتھ کی گرہ کھل جاتی تو قرض کی رسی زیبِ گلو ہو جاتی ۔ مزدوری ہر ہفتے کے دن تقسیم ہوتی اور اُس دن مزودر وں کی کیفیت اُس گرسنہ بلی کی سی ہوتی جو ڈھونڈ ڈھانڈ کر کچرے سے ہڈی تو برامد کر لیتی لیکن اُس ہڈی سے غذائیت نچوڑنے کا عمل گلے اور تالوؤں کو اُدھیڑ کر رکھ دیتا۔ گو کہ مزدوری وقت پر ملتی لیکن کسی نہ کسی بہانے مزدوری میں کٹوتی ہو جاتی۔ کبھی کپڑا رنگنے کے عمل میں خرابی ہو جاتی تو اس کا خمیازہ مزدوروں کو بھی بھگتنا پڑتا اور کبھی کوئی برامدی ترسیل خریدار کی طرف سے رد کردی جاتی تو بھی مزدوروں کی دھاڑی سے ہی نقصان پورا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ 
"بھئی اپنی جیب سے تو نقصان پورا کرنے سے رہے، ایسے تو فیکٹری بند ہو جائے گی۔ پھر کہاں مزدوری ملے گی تم سب کو" ارشاد نواز خود کو حق بجانب سمجھتے۔ 
ہاں البتہ جب کبھی اُنہیں نسبتاً زیادہ منافع ہوتا تو اُنہیں کبھی وہ مزدور یاد نہ آتے جو خسارے میں اُن کے شریک ہوتے۔ 

زندگی بڑی عجیب چیز ہے رو دھو کر بھی چلتی رہتی ہے۔ الیاس بھی جیسے تیسے دن کاٹ رہا تھا، چھوٹے سے گھر میں وہ اور اُس کی بیوی تبسم، تنگی ترشی کی دن گزار رہے تھے۔ اُن کی تمام تر خوشی ننھے منے پرویز تک ہی محدود تھی کہ جسے دیکھ کر وہ مسرور ہوجاتے لیکن غربت کے باعث وہ اُس کے لئے بھی کچھ نہیں کر پاتے اور یہ خیال اُن کے مسرور چہرے سے اُجالا نوچ کر پھینک دیتا۔ پھر جب نیلی کی پیدائش ہوئی تو جیسے اُن کی رہی سہی خوشیوں کو بھی نظر لگ گئی۔ الیاس کا دل اُس چراغ کی طرح بجھ گیا جو طاق سے پختہ فرش پر گر کر ٹوٹ گیا ہو۔ تبسم صرف نام کی تبسم رہ گئی اور اُس کے چہرے سے مسکراہٹ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئی۔ نیلی پیدائشی طور پر نابینا تھی۔ اُس کا ناک نقشہ بہت خوب تھا لیکن اُس کی آنکھیں ۔ اُس کی آنکھوں کو دیکھ دیکھ کر ماں باپ کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے۔ انہوں نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اگر لڑکی ہوئی تو اُس کا نام نیلم رکھیں گے لیکن یہ بات اُن کے وہم و خیال میں بھی نہیں تھی کہ اُن کی نیلی، نیلم کی طرح پیاری ہونے کے ساتھ ساتھ پتھر کی طرح اُن سے بیگانی بھی ہوگی۔ غربت کے آنگن میں پلنے والے بچوں کی قسمت میں پیار کہاں ہوتا ہے پھر بھی نیلم کو پیار سے نیلی کہا جانے لگا۔ شاید یہ نام پیار سے زیادہ بولنے والوں کی آسانی کا مظہر تھا۔ 

..............​

"لگتا ہے تم مجھے بیمار کرکے ہی چھوڑو گے" عاصم نے متذبذب انداز میں ایک کرسی گھسیٹتے ہوئے اسماعیل سے کہا۔ 
"ارے سر! کچھ نہیں ہوتا! کبھی کبھی ہم غریبوں کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کریں"۔ اسماعیل بھی ایک کرسی پر براجمان ہو چکا تھا۔ 
"سینکڑوں لوگ دن بھر میں یہاں سے چائے پیتے ہیں، سب بیمار تھوڑی ہوتے ہیں۔ یہ تو چند ایک نصیبوں جلے ہی آپ ڈاکٹروں کی روزی روٹی کا سبب بن جاتے ہیں" اسماعیل نے مسکراتے ہوئے عاصم پہ طنز کیا۔ 
"ہاں ! وہ تو ٹھیک ہے لیکن دیکھو نا ۔۔۔ ۔! یہ لوگ صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ایسے میں ڈر تو لگتا ہے نا!" عاصم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ 

عاصم اُسی ہسپتال میں سینیر ڈاکٹر تھا جس میں اسماعیل بطور میل نرس کام کیا کرتا تھا۔ اسپتال کے عملے سے عاصم کا سلوک دوستانہ تھا ۔ آج اتفاق سے وہ اسماعیل کو گھر تک چھوڑنے آ گیا تو اسماعیل اُسے ضد کرکے مشہورِ زمانہ کوئٹہ ہوٹل پر چائے پلانے لے آیا۔ 
عاصم بغور چائے بنانے والے اور برتن اُٹھانے رکھنے والے لڑکوں کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ لوگ اپنے طور پر صفائی کا خیال بھی رکھ رہے تھے لیکن عاصم کے خیال میں یہ نا کافی تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ تھوڑی سی کوشش کرکے ممکنات کی سرحدوں کو توسیع دی جا سکتی ہے۔ 

..............​

غربت کے دن بھی انسان جیسے تیسے کاٹ ہی لیتا ہے لیکن کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جو اُسے اندر سے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ نیلی کا دُکھ الیاس کے لئے ایسا ہی تھا۔ وہ ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا کبھی خدا سے بھی شکوہ کرتا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا۔ کیوں اُس کی چاند سی پیاری بیٹی کی ساتھ ہی ایسا ہوا کہ دنیا اُسے دیکھ کر ترس کھاتی اور وہ دنیا کو دیکھ بھی نہ پاتی۔ اُس نے اپنے طور پر نیلی کا علاج کرانے کی بھی کوشش کی لیکن نہ تو اس پسماندہ علاقے میں علاج کی اچھی سہولتیں تھیں اور نہ ہی اُس کی جیب اجازت دیتی کہ وہ آگے بڑھ کر کچھ کر سکے۔ پھر زیادہ تر ڈاکٹر اُس کی غربت کو دیکھتے ہوئے کوئی مہنگی اُمید اُس کی جھولی میں ڈالنے سے کتراتے اور نتیجتاً اُس کی مایوسی دو چند ہوجاتی۔ سوائے کُڑھنے کے اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ 
ہر وقت کی یہ تکلیف الیاس کے لئے دن بدن سوہانِ روح ہوتی جا رہی تھی۔ پھر فیکٹری کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اُسے نشے کی عادت نے آ لیا۔ وہ روزانہ رات نشہ کرکے خود کو ادھر اُدھر کی سوچوں سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا۔ نشے سے جُز وقتی سکون تو اُسے مل گیا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل میں پھنس گیا ہے۔ 
پھر ایک روز جب وہ نشے کی حالت میں گھر جا رہا تھا تو ایک انجانی گاڑی نے اُس کی سب مشکلیں آسان کردیں۔ 

جو گھرانہ الیاس کے دم قدم سے جیسے تیسے چل رہا تھا ، اُ س کے بعد تو جیسے وہاں برے وقت نے ڈیرے ہی ڈال لئے۔ مرنے والے کا کفن دفن تو کسی نہ کسی طرح ہو ہی جاتا ہے لیکن زندگی کہاں پیچھا چھوڑتی ہے ، زندہ لوگوں کو تو بہرکیف جینے کا تاوان دینا ہی پڑتا ہے۔ تنگی تُرشی فاقوں کی شکل اختیار کرنے لگی تو محلے پڑوس والے بھی کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گئے۔ کہتے ہیں بھوک بڑی سفاک ہوتی ہے۔ اور واقعی بھوک نے اُنہیں اُس مقام تک پہنچا دیا جس کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ شاید الیاس بہت خود غرض تھا کہ قبر میں جا سویا۔ اب اُس کے لختِ جگر راہوں کی دھول ہوتے رہیں اُسے ہرگزپرواہ نہیں تھی۔ 

..............​

نیلی اور پرویز آدھے ایک منٹ ہر میز پر رُکتے اور اگر کوئی اُنہیں کچھ دینے پر آمادہ نہ ہوتا تو وہ آگے چل دیتے۔ کبھی کبھی کچھ لوگ متوجہ ہونے یا جوابی ردِ عمل ظاہر کرنے میں زیادہ دیر لگاتے تو کچھ ثانیے اور رُک جاتے۔ ابھی مایوسی کے مہمیز کرنے پر وہ ایک میز سے مُڑے ہی تھے کہ کسی کی آواز سنائی دی۔ 
"بات سنو ! ادھر آؤ ذرا۔۔۔ ۔! " یہ عاصم کی آواز تھی۔ 

..............​

ڈاکٹر عاصم اُس کی زندگی میں فرشتہ بن کر آئے تھے۔ شروع شروع میں تو اُسے یقین ہی نہیں آیا کہ چائے کی ہوٹل پر بیٹھا کوئی شخص اُسے بھیک دینے کے بجائے ایک ایسی بات کہہ رہا ہے جو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اُس نے تو اندھیروں کو ہی اپنا مقدر سمجھ لیا تھا لیکن جب اُسے یقین آیا کہ اُس کی آنکھیں بھی دنیا دیکھ سکیں گی اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ عاصم ایک تجربہ کار ڈاکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ اُس کی رسائی ایک ایسے ادارے تک بھی تھی جو راہِ خدا مستحق لوگوں کی آنکھوں کا علاج کرتاتھا۔ عاصم کی تجربہ کار آنکھیں پہلی نظر میں ہی بھانپ گئیں تھیں کہ نیلی کی مشکل کا حل ناممکن نہیں ہے۔ 

خوشی اور اُمید روز و شب کے حساب کو گھٹا دیتے ہیں۔ پتہ بھی نہ چلا کہ کب کاغذی کاروائیاں پوری ہوئیں اور کب وہ دن آ پہنچا کہ نیلی دن اور رات میں تمیز کرنے لگی۔ اب نیلی بے حد خوش تھی۔ وہ ایک ایک چیز کو دیکھتی اور حیران ہوتی۔ وہ اپنے تخیل کی دنیا کی ساری تصویریں حقیقی دنیا سے ملاتی اور مسکراتی ۔ اُس کا تخیل کمزور نہیں تھا لیکن مکمل تصویر کاری کے لئے روشنی کتنی ضروری ہے اُسے اب اس بات کا احساس ہورہا تھا۔ 

....................​

پھر آہستہ آہستہ جب روشنی کی چکاچوند کچھ کم ہوئی اور زندگی معمولات کی طرف لوٹنے لگی تو اُس پر زندگی کے خدو خال آشکار ہونے لگے۔ زندگی کی رنگا رنگی رفتہ رفتہ عمومیت کی دھند میں اپنی جاذبیت کھو رہی تھی۔ نیلی کو اکثر زندگی کی بدصورتی کا احساس ہونے لگا۔ خیراتی ادارے "نورِ اُمید" سے آپریشن کے بعد جو رقم نیلی کے گھرانے کو دی گئی تھی وہ بھی اب ختم ہو رہی تھی، اُسے اور پرویز کو لامحالہ اپنے معمول پر لوٹنا تھا کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ 

..............​

دوکانیں وہی تھیں، ہوٹلوں اور رہگزاروں پر موجود لوگ بھی کم و بیش وہی تھے لیکن اب پہلے والی بات نہیں رہی تھی۔ ایک دو دن میں ہی نیلی اور پرویز کو یہ احساس ہوگیا کہ گھر لوٹتے ہوئے اب اتنے پیسے اُن کے پاس نہیں ہوتے کہ وہ ٹھیک سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکیں۔ آج تیسرا دن تھا کہ وہ دونوں بہن بھائی شہر بھر میں مارے مارے پھر رہے تھے لیکن کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں تھا ۔ کوئی نہیں تھا جو پوچھتا کہ دووقت روٹی نہ ملے تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ زیادہ دکھ کی بات یہ تھی کہ اب نیلی اُن لوگوں کو دیکھ سکتی تھی جو اُنہیں دیکھ کر منہ بناتے تھے، نفرت اور کراہیت کا اظہار کرتے۔ شاید یہ لوگ پہلے بھی ایسے ہی کرتے ہوں لیکن تب نیلی کو یہ بدصورت مناظر نظر نہیں آتے تھے۔ پھر سب سے بڑی بات اب نیلی کے چہرے پر وہ بے نور آنکھیں نہیں تھیں کہ جنہیں دیکھ کر لوگوں کا دل پسیج جاتا اور نوٹ اور سکے ان کی جیبوں سے نکل کر نیلی کے ہاتھ میں پہنچ جاتے۔ نیلی کے لئے یہ کرب کسی طرح کم نہیں تھا اور ستم ظریفی یہ تھی کہ اب وہ یہ سب چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ 

نیلی نے ایک بار کہیں سنا تھا کہ خدا کسی سے ناانصافی نہیں کرتا، لیکن تب یہ بات اُس کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ جب اُس کی آنکھوں میں بینائی نہیں تھی تو وہ سوچتی تھی کہ خدا نے سب کو آنکھیں دی تو مجھے کیوں نہیں دیں۔ لیکن اب اُسے احساس ہو رہا تھا کہ خدا نے جنہیں آنکھیں دی ہیں وہ صرف ظاہر کو ہی دیکھتے ہیں ، وہ آنکھوں پر ہی اعتبار کرتے ہیں اُنہیں شاید خدا نے دل نہیں دیے ۔ 

.............​