محمد احمد کی تحریریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
محمد احمد کی تحریریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فنش باشندوں کی خوش باشی​

تحریر : محمد احمد​


فِن لینڈ کے باشندوں کو فنش یافنز کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ فن لینڈ ایسے ممالک میں سرِ فہرست ہے کہ جہاں لوگ خوش باش رہتے ہیں۔ اور فن لینڈ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ مسلسل پانچ سال خوش رہنے والے ممالک میں سرِ فہرست رہا ہے۔

فرینک مارٹیلا فِن لینڈ کے ایک ماہرِ نفسیات ہیں۔ ایک حالیہ آرٹیکل میں فرینک ہمیں بتاتے ہیں کہ اُن سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر فنش باشندوں کے خوش رہنے کی وجوہات کیا ہیں۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرینک کہتے ہیں کہ دراصل ہم فنش شہری تین کام کبھی نہیں کرتے۔

فنش لوگ کبھی اپنے پڑوسیوں سے مقابلہ نہیں کرتے

فن لینڈ میں ایک مشہور مقولہ ہے کہ کبھی بھی اپنی خوشی کا مقابلہ کسی اور سے نہ کرو اور نہ ہی اپنی خوشیوں کی شیخی مارو۔

حیرت انگیز بات ہے کہ فنش لوگ اس مقولے پر دِل سے عمل کرتے ہیں۔ بالخصوص وہ مادی اشیاء اور دولت کی نمائش سے بہت گریز کرتے ہیں۔ ایک انتہائی امیر شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرینک بتاتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنے بچے کو خود اسٹرولر (بچوں کی گاڑی) میں بٹھا کر لے جا رہا تھا۔ حالانکہ وہ اگر چاہتا تو اپنے بچے کے لیے قیمتی سے قیمتی گاڑی خرید سکتا تھا۔ یا اس کے لیے ڈرائیور رکھ سکتا تھا۔ لیکن اتنی دولت ہونے کے باوجود اس نے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو ترجیح دی۔ یہ چیز فنش باشندوں کو اور دُنیا سے ممتاز کرتی ہے۔

فِن لینڈ میں خوشی یہ ہے کہ آپ باقی سب جیسے لگیں۔ فرینک کہتے ہیں کہ ہمیں کامیابی سے زیادہ ان امور پر توجہ دینی چاہیے جو ہماری خوشی کا باعث بنتے ہیں۔

فنش باشندے فطرت کے ثمرات کو نظر انداز نہیں کرتے

87 فیصد فنش باشندے یہ سمجھتے ہیں کہ قدرتی مظاہر ان کے لیے اہم ہیں اور یہ انہیں ذہنی سکون، توانائی اور آرام پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ فِن لینڈ میں ملازمین کو گرمیوں میں چار ہفتوں کی رخصت ملتی ہے، جس میں زیادہ تر فنش باشندے دیہاتوں کا رخ کرتے ہیں حتیٰ کہ بہت سے لوگ ایسے علاقوں میں بھی جاتے ہیں جہاں بجلی بھی نہیں ہوتی۔ ان علاقوں میں جا کر یہ لوگ قدرت سے بہت قریب ہو جاتے ہیں اور یہاں انہیں بے پناہ سکون اور طمانیت حاصل ہوتی ہے۔

فرینک کہتے ہیں کہ قدرت سے قریب رہ کر آپ میں صحت، اطمینان اور ذاتی نمو کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جو بہت ہی انمول شے ہے۔

فنش لوگ اپنے سماج میں باہمی اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دیتے

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا بھروسہ اور اعتماد ایک ملک کے شہریوں کو ایک دوسرے پر ہوتا ہے اتنا ہی اس ملک کے باشندے خوش باش رہتے ہیں۔

2022 میں گم شدہ بٹووں کا ایک معاشرتی تجربہ (Lost wallet Experience)کیا گیا۔ اس تجربے میں دنیا بھر کے 16 شہروں میں 192 بٹوے دانستہ گرائے گئے کہ لوگوں کی دیانت داری کا اندازہ لگایا جا سکے۔ دیانت داری کے اس تجربے میں فن لینڈ کا دار الخلافہ ہیل سنکی پہلے نمبر پر رہا۔ اور ہیل سنکی میں پھینکے گئے بارہ میں سے گیارہ بٹوے واپس اُن کے مالک تک پہنچ گئے۔

فنش شہری ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور دیانت داری کو اہمیت دیتے ہیں۔ فنش باشندے اگر اپنا لیپ ٹاپ لائبریری میں بھول جائیں یا اگر ان کا فون ٹرین میں رہ جائے تو اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ اُن کی چیز اُنہیں واپس مل جائے گی۔

فن لینڈ میں اکثر بچے اسکول آنے جانے کے لیے پبلک بس استعمال کرتے ہیں اور بڑوں کی نگرانی کے بغیر ہی باہر کھیلتے ہیں۔

فرینک کہتے ہیں کہ معاشرے میں خوش باشی کو فروغ دینے کے لیے ہمیں چاہیے کہ باہمی اعتماد کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔

اگر آپ کو فن لینڈ کی یہ باتیں پڑھ کر ساٹھ ، ستر یا اسی کی دہائی کا پاکستان یاد آ گیا تو آپ واقعی ٹھیک پہنچے۔ دیکھا جائے تو معاشرتی سکون اور اطمینان کے حساب سے یہ پاکستان کا سنہری دور تھا۔ لوگ اپنے معاملات سے کسی حد تک خوش تھے اور ایک دوسرے سے بے حد قریب تھے۔ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک تھے اور ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ آج ہم سب ایک عجیب ہی افرا تفری کا شکار ہیں۔ ہر شخص کسی نہ کسی مسابقتی دوڑ کا گھوڑا بنا ہوا ہے۔ باہمی اعتماد اب ہم میں بالکل نہیں رہا۔ جرائم کی روک تھام کےلئے بنائے گئے ادارے اپنے مقاصد میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے بلکہ کچھ ادارے جرائم کی آبیاری کے لئے ممد و معاون بھی ثابت ہوئے۔ نتیجتاً آج ہمارے شہری اپنے ہی گلی محلوں میں عدم تحفظ کا شکار ہیں اور حد تو یہ ہے کہ وہ کسی اجنبی سے بات کرتے ہوئے بھی ڈرنے لگے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ آج کا پاکستان اچھے لوگوں سے بالکل ہی عاری ہو گیا ہے ۔ بلکہ آج بھی بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں جو گاہے گاہے ہمیں بتاتے ہیں کہ ابھی بھی کہیں نہ کہیں اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔

یہ پچھلے محرم الحرام کی بات ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ حیدرآباد گیا تھا۔ وہاں میرا والٹ (بٹوا) بس میں گر گیا۔ اور مجھے اس بات کا احساس تک نہ ہوا۔ یہ والٹ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو ملا۔ اور اُس نے والٹ میں موجود ایک ڈپازٹ سلپ سے میرا نمبر لے کر مجھ سے رابطہ کیا اور وہ والٹ مجھ تک پہنچانے کا بندو بست کیا۔ مجھے اس نوجوان سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔ اگر وہ نوجوان میرا والٹ مجھ تک نہ پہنچاتا تو مجھے اپنا شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، اور بہت سے دیگر کارڈز بنوانے میں بہت دقت کا سامنا ہوتا۔ لیکن الحمدللہ ، اس نوجوان کے طفیل میں ان سب پریشانیوں سے بچ گیا۔

سو آج بھی بہت سے لوگ ہمارے ہاں موجود ہیں۔ اور کچھ لوگ آج بھی بے غرض ہو کر بہت سے نیک کام کر رہے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام ٹھیک طرح سے کرتے رہیں تو راہِ راست سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا قبلہ بھی بہت جلدی درست ہو جائے۔ اسی طرح عام لوگ بھی مقابلے بازی سے ہٹ کر اپنے ذاتی اہداف کے لئے محنت کریں اور ساتھ ساتھ انسانی اقدارکی پاسداری کرنا نہ بھولیں تو ہمارے معاشرہ بھی سکون اور آشتی کا گہوارہ بن جائے اور مجموعی سطح پر آسودگی اور طمانیت کو فروغ ملے۔

حوالہ: ربط

بلا ضرورتِ رشتہ

بلا ضرورتِ رشتہ
از محمد احمد


آج وہ کافی موڈ میں تھا۔

سامنے سے آنے کے باوجود اُس نے گھوم کر میری کمر پر ہاتھ مارا ۔
"او یار !میں نے تیرے لیے ایک رشتہ دیکھا ہے۔" وہ ایسا خوش تھا کہ جیسے ایسا پہلی بار ہوا ہو۔
"سچی! "میں نے ہمیشہ کی طرح حیرانی کا اظہار کیا۔
"ہاں یار!" بڑی خوبصورت لڑکی ہے۔
"اچھا! "

"ہاں بڑی خوبصورت ہے بھئ۔۔!" اُس کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔
"صراحی دار گردن ہے ۔" رنگ چھوڑ کر گردن سے بات شروع کرکے شاید وہ خود کو دیگر پاکستانیوں سے ممتاز کرنا چاہ رہا تھا۔
"صراحی دار گردن" میں نے خیالیہ انداز میں دُہرایا۔
"پھرتو میں ایک ہاتھ سے اُس کی گچی دبا سکوں گا۔" میں نے مُٹھی بھینچتے ہوئے کہا۔

"ہرنی جیسی آنکھیں۔" اُس کی مشین چل پڑی تھی۔
"پھر تو بہت تیز دوڑتی ہوگی۔ " میں نے حیرت سے کہا
"ارے میں آنکھوں کی بات کر رہا ہوں۔" وہ جھنجلا کر بولا۔
"ہاں تو ہرنی تیز ہی دوڑتی ہے۔ اب میں اتنا بھی پاگل نہیں ہوں ۔" 


"تمہیں پتہ ہے ! بچپن میں میرے نانا کہتے تھے کہ میں بڑا ذہین ہوں۔" میں نے اُسے کچھ باور کروانے کی ضرورت محسوس کی۔
"یار ایک بار تمہارے نانا نے میرے ناناسے اردو لغت اُدھار مانگی تھی جو میرے نانا نے دی نہیں تھی۔ اگر لغت مل جاتی تو شاید وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔"

"اچھا فضول باتیں چھوڑو یہ بتاؤ کہ اُس کی زلفیں ناگن کی طرح تو نہیں ہیں؟ " میں نے موضوع پر واپس آتے ہوئے پوچھا۔
"زلفیں اسپرنگ والی ہیں اُس کی۔ اکثر چمٹا پکڑ کر سیدھی کرتی نظر آتی ہے۔ "
"چل شکر ہے ناگن سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں تو ناگن چورنگی سے بھی ڈرتے ڈرتے گزرتا ہوں۔" میری آنکھوں میں خوف کے سائے لہرانے کے بجائے ساکت و صامت تھے۔

"رنگ تو بتایا نہیں تم نے اُس، کا گندمی ہے یا چقندر جیسا ہے؟ " مجھے رنگ کی پڑی تھی۔
"اب تو بہت گوری ہو گئی ہے، لیکن بچپن میں کھڑی مسور کی دال جیسا رنگ تھا اس کا" اُس نے کچھ سوچتے ہوئے بتایا۔
"یار چیک کر لینا تھا، کہیں پندرہ منٹ بعد پھر سے فائزہ کی طرح ہو جائے۔" فکر مندی میرے چہرے سے عیاں تھی۔

"اچھا بات سُنو! تم نے اسے بتا تو دیا ہے نا کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں۔ " میں نے ڈیل کلوز کرتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں میں نے اُسے کہہ دیا ہے کہ تم اُسے رانی کی طرح رکھو گے۔"
"ارے بے وقوف! ہو سکتا ہے اُس نے یہ لطیفہ پڑھا ہوا ہو" میں نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
"پڑھا تو ضرور ہو گا لیکن سمجھی نہیں ہوگی۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
"کیوں نہیں سمجھی ہوگی بھلا؟" مجھے بڑا تعجب ہوا۔
"خوبصورت ہونے کی ناطے وہ کافی غبّی ہے۔" اُس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔

"چلو خوبصورت تو ہے نا! میری طرف سے ہاں ہے۔" میں کافی خوش تھا۔
"ہاں! لیکن ایک مسئلہ ہے!" اُس نے ہینڈ گرنیڈ کی پن نکال پھینکی۔
"اب کیا مسئلہ ہے یار؟" مجھے طیش آ گیا؟
"وہ پاکستان میں نہیں رہنا چاہتی!" اُس نے بم پھاڑ ہی دیا۔
"اگر تم کسی طرح کسی مغربی ملک کی شہریت حاصل کر لو تو وہ اُسی وقت دو بول پڑھانے پر راضی ہو جائے گی"۔

"تمہیں پتہ ہے، میں بہت ضروری کام کر رہا تھا۔" میری یاد داشت واپس آنے لگی۔
"یار تم کوشش تو کرو!" اُس نے اپنے جوتوں کے لیس باندھتے ہوئے کہا۔
"مجھے کل تک یہ پروجیکٹ فائنل کرنا ہے۔ " میں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔

"اچھا! چلو شام کو چائے پر ملتے ہیں!" اُس نے الوداعی جملہ پھینکا۔
"ٹھیک ہے، لیکن چائے سے پہلے میں چپلی کباب بھی کھاؤں گا۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اچھا بابا ٹھیک ہے، ویسے بھی کچھ کھائے بغیر تمہارا غم کیسے غلط ہو سکتا ہے۔" وہ مُسکراتے ہوئے اُٹھا اور لہراتے ہوئے نکل گیا۔

*****

گو ذرا سی بات پر آئینہ ٴ چینی شکست



حاضر جوابی ، بذلہ سنجی اور خوش ذوقی جیسی اعلیٰ صفات بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں ۔ ایسے اوصاف کے حامل افراد بہت جلد لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیتے ہیں۔ آج ہم آپ کو دو حکایتیں سنا رہے ہیں جو حاضر جوابی اور خوش ذوقی کی مثال ہیں۔


پہلی حکایت


 گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

یہ خوبصورت اور سدا بہار شعر خاطر غزنوی کا ہے ۔ کہتے ہیں کہ شاعر صاحب کسی محفل میں اپنا یہ سدا بہار شعر سنا رہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے کہ اچانک محفل میں موجود کسی شخص نے اُن کے مصرع پر گرہ لگائی اور یہ شعر کچھ اس طرح پڑھا:

یہ تو خیر اچھا ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
وہ ذرا سی بات کیا تھی جس پہ یارانے گئے؟

اب نہ جانے اس شعر کو سُن کر محفل کشتِ زعفران بنی یا نہیں ۔ بلکہ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اِس جواب کو سُن کر خاطر غزنوی نے خاطر جمع رکھی یا غزنوی بن کر گرہ لگانے والے حضرت پر لگاتار سترہ حملے کرنے کا قصد کیا۔


دوسری حکایت


 اَز قضا آئینہ ٴ چینی شکست
خُوب شُد، سامانِ خُود بِینی شکست

زیب النساء ایک ملکہ گزری ہے۔ وہ بہت خوبصورت تھی، اس کو ایک نہایت قیمتی چینی آئینہ تحفے میں ملا تھا۔ زیب النساء نے اپنی لونڈی سے کہا کہ ذرا وہ آئینہ لے کر آؤ، میں بھی تو دیکھوں کہ میرا حسن کس قدر ہے، اور اس قیمتی آئینے میں میرا حسن کتنا نکھر کر سامنے آتا ہے۔ لونڈی آئینہ لے کر آرہی تھی کہ رستے میں اُسے ٹھوکر لگی اور وہ گر گئی اور ساتھ ہی وہ آئینہ بھی ٹوٹ گیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں واپس آتی ہے ۔ ملکہ زیب النسا پوچھتی ہے کہ آیئنہ کدھر ہے؟۔تو اس موقع پر بھی وہ لونڈی مصرع کہتی ہے۔

اَز قضا آئینہ ٴ چینی شکست

اس کی یہ بات سن کر ملکہ کو تو یہ چاہیئے تھا کہ اس کو سزا دیتی اور غصہ کرتی کہ تم نے اس قدر قیمتی آیئنہ ٹوڑ دیا۔ لیکن اُس کے فن زبان و بیان کو دیکھتے ہوئے ملکہ نے بھی مصرع کہا اور اسی وزن میں اس قدر خوبصورتی سے کہا کہ شعر نہ صرف مکمل ہوا بلکہ ایک شہرہ آفاق شعر بنا۔ ملکہ نے جواب میں کہا۔

خُوب شُد، سامانِ خُود بِینی شکست

ملکہ نے کہاکہ اچھا ہوا کہ وہ ٹوٹ گیا، ورنہ اگر میں اس کو دیکھتی تو اپنے حسن و جمال کو دیکھ کر غرور میں مبتلا ہو جاتی۔

ہم سوچتے ہیں کہ مذکورہ ملازمہ ایسی خوش ذوق خاتون بھی ہزاروں میں ایک ہی ہوتی ہوگی۔ ورنہ ہمارے ہاں اگر اس قسم کا واقعہ پیش آ جاتا تو فوراً جواب ملتا کہ بی بی جی چائنہ کی چیزیں ایسی ہی ہوتی ہیں ان کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ یا اگر ملازمہ کی جگہ کوئی شاعر ہوتا تو وہ کہتا کہ اتنا دل پر نہ لیجے

اِک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

سہرا:


پہلی حکایت ہمیں ہمارے پیارے بھائی ریاض الحبیب کے دوست اختر علی مغل صاحب سے سُننے کو ملی ۔ اختر بھائی خوش ذوق واقع ہوئے ہیں اور شعر و ادب سے شغف رکھتے ہیں۔ اختر بھائی نے ایک دن گفتگو کے دوران یہ حکایت ہمیں سنائی تھی۔ تاہم اس بات کو اب کئی برس گزر چکے ہیں، اور عین ممکن ہے کہ یہ بات اُن کی یادداشت سے محو ہو چکی ہو۔

دوسری حکایت ہمیں وٹس ایپ پر ایک خوش ذوق رُکن سعید احمد صاحب کے توسط سے ملی۔ تاہم جناب نے اسے کتابوں سے متعلق ایک ایسے گروپ میں ارسال کیا تھا جہاں کتابوں کے علاوہ کوئی اور بات کرنے کی اجازت نہیں ہے سو گروپ قوانین کے باعث ہم اُنہیں اس انتخاب کی قرار واقعی داد نہیں دے سکے، لیکن دل سے اُن کے ذوق کے قدر دان ہیں۔

*****

تنقید علی التحریص برائے دلفریب و دلنشین و لیکن مہمل اسمائے اطفال

تنقید علی التحریص برائے دلفریب و دلنشین و لیکن مہمل اسمائے اطفال

ویسے تو آپ عنوان دیکھ کر ہی سمجھ گئے ہوں گے اور تحریر لکھنا محض وقت کا زیاں ہی ہو گا ۔ تاہم فالتو کی تحریریں لکھنے کی چاٹ ہے کہ کہتی ہے کہ محض عنوان کافی نہ ہوگا بلکہ اچھا خاصا ٹھوک بجا کر تحریر لکھنا اوراُسے جا بجا چھاپنا اور ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو جبراً پڑھوانا انتہائی ضروری ہے۔ چھپوانا ہم نے اس لئے نہیں لکھا کہ ہم اُس کٹھن دور میں پیدا نہیں ہوئے کہ جب تحریریں چھپوانے کے لئے ہفتوں پہلے سے رسالے کے مُدیران کو روزانہ پان کی گلوریاں بھجوانی پڑتی تھیں اور پان کی گلوریوں کی عدم موجودگی میں تحریر غیر معیاری قرار پا کر ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتی تھی۔

خیر! موضوع پر تو ہم اتنی جلدی نہیں آنے کے، فی الحال کچھ عنوان کی خبر لے لیں۔

ہمارے ہاں دفتری زبان میں جو خطوط لکھے جاتے ہیں خصوصاً سرکاری محکموں میں ، اُن میں کم و بیش سارا ہی معاملہ خط کے عنوان میں ہی لکھ دیا جاتا ہے اور پھر پورے خط میں عنوان کے حوالے دے دے کر ناک میں دم کیا جاتا ہے۔ یعنی بین السطور یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اگر ایک بار ڈھنگ سے عنوان پڑھ لیا ہوتا تو یوں خط کی گلیوں یعنی سطور میں خاک نہیں چھاننا پڑتی۔

لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لینے والے سرکاری دفتروں میں بیٹھے کہنہ سال گھاگ افسران بھی محض لفافے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ خط کا عنوان پڑھ کر ہی ضروری ہدایات اور غیر ضروری طعنے اپنے ماتحتوں کو دیا کرتے ہیں اور اکثر خط کے عنوان کے جواب میں ایک اور عنوان لکھ کر ماتحتوں کو اُس عنوان کے تحت خط لکھنے کی ہدایت بھی جاری کر دیتے ہیں۔

اکثر خطوط کے عنوان ایسے ہوتے ہیں جو سالوں برسوں چلتے رہتے ہیں اور لکھنے والے ہر بار اُنہی کے حوالے دے دے کر ساری دفتری زندگی گزار دیتے ہیں۔ یعنی:

ع- خط لکھیں گے چاہے مطلب کچھ نہ ہو

خیر بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں آگئی، بلکہ یوں کہیے کہ بات تو ابھی تک چلی ہی نہیں اور اب تک ہم قاری کی استعداد و فہم و اداراک پر ہی گزارا چلاتے آ رہے ہیں کہ وہ عنوان دیکھ کر ہی نصیحت پکڑیں اور مذکورہ و غیر مذکورہ بد عنوانی سے باز آنے کا اصولی فیصلہ کریں۔ 

تاہم سچی بات یہ ہے کہ ہم قاری کی فہم پر کامل بھروسہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے اور عنوان کے تحت چار چھ سطریں گھسیٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔



سب سے پہلے تو ہم عنوان میں دی گئ مشکل اصطلاحات کی فرہنگ پیش کر دیں۔

تنقید: یہ ہمیشہ دوسروں پر کی جاتی ہے اور جب کوئی آپ سے بڑھ کر نکتہ چینی کرنے والا مل جائے اور آپ کی ذات کو ہدفِ تنقید بنائے تو اُسے تنقید کے لغوی معنی بتا کر مرغیوں کے خاک سے دانے علیحدہ کرنے کی مثال میں اُلجھایا جا سکتا ہے ، اور یہ بھی باور کروایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر حقیر کام میں اپنا وقت خراب کر رہا ہے۔ پھر بھی نہ مانے تو نو نقد نہ تیرہ اُدھار کی دو دھاری تلوار سے محارب کی زبان درازی کو لگام دی جا سکتی ہے۔ البتہ تنقید کا نقد سے اُتنا ہی تعلق ہے جتنا ہمارے ہاں تنقید نگاروں کا مالی خوشحالی اور فارغ البالی سے ہوا کرتا ہے۔

تحریص: تحریص کا لفظ لکھنے کی حرص بخدا ہمیں ہرگز نہیں تھی اور ہم تو انگریزی کا لفظ (Temptation) لکھنا چاہ رہے تھے لیکن اپنے ہی فرمودات ِ عبث سے خوف کھا کر اردو میں انگریزی ملانے سے گریز کیا۔ تحریص کا مطلب وہی ہے جو آپ پہلے سے جانتے ہیں، ہم اسے کوئی نئے معنی پہنانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

دلفریب: یہ ایک مرکب اصطلاح ہے اور بہتر یہ ہے کہ اسے مرکب صورت میں ہی فرہنگ کے حوالے کیا جائے ورنہ دل کے اپنے سو ڈرامے ہیں اور فریب تو ہے ہی فریبیوں سے ملاقات کی سبیل۔ دل فریب سے مراد دل کو لبھانے والا۔ اور دل بقول شٰخصے بچہ ہوتا ہے یا بچے کی مانند ہوتا ہے اور ظاہری چمک دمک پر ہی فریفتہ ہو جاتا ہے۔

دل نشین: دل میں رہنے والا یا دل میں اُتر جانے والا۔ بقول شاعر: شاید کے تیرے دل میں اُتر جائے مری بات (یعنی عنوانی نصیحت)۔۔۔! اور بقول دوسرے شاعر:

نصیحت دل نشیں رکھتا ہوں اُن خاموش آنکھوں کی
مگر بندہ بشر ہوں رفتہ رفتہ بھول جاتا ہوں

لیکن: لیکن کا مطلب ہے ٹانگ اڑانا۔ جیسے آپ نے اکثر لوگوں کو کہتے سُنا ہوگا کہ بھئی بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن ۔۔۔ یعنی بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن ہم اپنی ٹانگ اڑائے بغیر باز نہیں آئیں گے۔

مُہمل: اگر ہم مُہمل کے لئے لغت میں موجود سارے معنی لکھ ماریں تو آپ یقیناً ہماری لغت نگاری بلکہ لغت نقالی سے عاجز آ جائیں گے، اس لئے سب معنی رہنے دیتے ہیں بس اتنا سمجھ لیجے کہ قاعدے کی رو سے ایسے الفاظ جن کے کوئی معنی نہ ہوں اُنہیں مُہمل کہا جاتا ہے۔

اسماء: اسم یعنی نام کی جمع ۔ اب یہ بھی میں بتاؤں۔

اطفال: اطفال وہی ، جن کی بابت حکومت دو سے زیادہ کی اجازت دینے پر راضی نہیں ہے اور عوام دو پر اکتفا کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔اب بھی اگر نہیں سمجھ آیا تو غالب کے بازیچہء اطفال میں سے بازیچے کو دیس نکالا دے کر باقیات کی واحد بنائیں اور طفل تسلیوں سے دل بہلائیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فرہنگ ختم ہوتے ہی آپ واپس عنوان پر جاتے اور اُسے اپنے تئیں سمجھنے کی کوشش کرتے۔ لیکن ہم آپ کو جانتے ہیں ۔ آپ ایسے نہیں مانیں گے۔ کیونکہ آپ ویسے بھی نہیں مانتے۔

اور جب آپ ایسے بھی نہیں مانتے اور ویسے بھی نہیں مانتے تو پھر اتنے بڑے ناصحانہ کھٹراگ کا فائدہ ہی کیا ہے؟

آپ شاید بھول گئے، وہی فالتو کی تحریریں لکھنے کی چاٹ اور ان چاہی نصیحتوں کے طومار باندھنا اور جا بے جا حظ اُٹھانا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدا نے آپ کو اولاد دے ہی دی ہے تو آلتو فالتو ویب سائٹس پر جا کر چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے بے مطلب ناموں کو اپنے بچوں پر تھوپ دینے کی ہرگز کوشش نہ کریں بلکہ ہمیشہ اچھے اور باقاعدہ معنوں والے احسن نام اپنے بچوں کے لئے منتخب کریں۔

تاکہ کل کو جب آپ کے بچے کسی کو اپنے نام کا مطلب بتائیں تو کوئی سنکی لغت آشنا اُن کے ڈھائی گھنٹے خراب نہ کرے۔ 

***** 

عربی آسان ہے

عربی آسان ہے
از محمد احمد

کہا جاتا ہے کہ ہر چیز آسان ہونے سے پہلے مشکل ہی ہوتی ہے۔ ایسے ہی جیسے نومولود بچے کے لئے اُٹھ کر بیٹھنا بھی دشوار ہوتا ہے، پھر وہ بیٹھنا سیکھ لیتا ہے تو کھڑا ہونا دشوار ہوتا ہے اور جب کھڑے ہونا سیکھ لیتا ہے تو چلنا دشوار ہوتا ہے اور جب وہ چلنا سیکھ لیتا ہے تو اُسے روکنا دشوار ہو جاتا ہے۔ 😊

بالکل اسی طرح عربی زبان ہم غیر عرب لوگوں کو دشوار لگتی ہے باوجود اس کے کہ ہم مسلمانوں کااس زبان سے قلبی اور روحانی رشتہ ہے۔ لیکن درحقیقت عربی اتنی مشکل زبان نہیں ہے جتنی کہ ہم سمجھتے ہیں۔ بس محنت اور لگن درکار ہے جو ہر اچھی چیز یا مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہوا کرتی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ماحول نہ ہونے کی وجہ سے عربی بول چال ہم غیر عرب لوگوں کے لئے دشوار ہے لیکن وہ عربی جو کہ اسلامی تعلیمات کے ماخذ ات (قران و احادیث) میں ہمیں ملتی ہے اتنی مشکل نہیں ہے کہ جتنی سمجھی جاتی ہے۔ بالخصوص اگر ہم بات کریں عربی برائے قران فہمی کی تو اُس کا سیکھنا اُتنا زیادہ دشوار نہیں ہے کہ جتنا عموماً سمجھا جاتا ہے۔

ہمیں پہلے سے کیا آتا ہے؟

ہم پاکستانی جو اردو زبان سے بخوبی آشنا ہیں اُن کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ اردو کے 60 سے 70 فیصد الفاظ عربی الاصل ہیں اور وہ ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ جیسے قلم، کتاب، باب، ارض، شمس، اولاد، طفل، فقیر، مسکین، مدرسہ ، مسجد، صالح، صغیر، طویل، خلق، علم، رحم، ظلم، عدل اور اس جیسے بے شمار اردو کے الفاظ ،عربی الاصل ہیں اور ہمارے لئے اجنبی نہیں ہیں۔

پھر مسلمان ہونے کے ناطے بے شمار اسلامی اصطلاحات، جیسا کہ صوم و صلوۃ، خیرات و زکوۃ ، حج عمرہ، جنت، جہنم، دنیا، آخرت، قیامت، ایمان، کفر، نفاق، فسق، عمل وغیرہ بھی ہمارے لئے نئی نہیں ہیں۔

مزید یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اسلامی تاریخ اور قرانی واقعات سے واقف ہیں، قصص النبین کچھ لوگوں نے پڑھ رکھے ہیں۔ کچھ نے ادھر اُدھر محفلوں میں کہیں کہیں سے سُن رکھے ہیں۔ اصحابِ کہف کون تھے، ان کا کیا ماجرہ تھا۔ ہم جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ابراہیم اور موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں کو تو جانتے ہی ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم لوگ فرعون ، ہامان، قارون ، طالوت ، جالوت اور ہاروت ماروت کے نام بھی کہیں نہ کہیں سن رکھے ہیں۔ 


عربی سیکھنے میں آسان کیوں ہے؟

سب سے پہلے تو درج بالا دو باتیں یعنی ہم اردو اور اسلام کی نسبت سے بہت سے عربی الفاظ اور اصطلاحات پہلے سے جانتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ عربی ایک منظم و مربوط (Systematic) زبان ہے۔ اس کی گرامر کے اصول گو کہ پیچیدہ ہیں لیکن ایک بار سمجھنے کے بعد وہ ہمارے لئے ہمیشہ کام آتے ہیں۔

مزید یہ کہ عربی زبان کے 99 فیصد الفاظ کسی نہ کسی تین حروف کو بنیاد بنا کر تشکیل دیے جاتے ہیں۔ ان تین حرفوں کو لفظ کا مادہ (Origin of word) کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عربی زبان میں مختلف قسم کے سانچے (Dies) استعمال ہوتے ہیں جو مادے کے حروف و حرکات کو استعمال کرتے ہوئے مختلف لفظ بناتے ہیں۔ ان سانچوں کو وزن کہا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر لفظ "علم" تین حرفی مادے پر مشتمل ہے اسے مختلف سانچوں سے گزار کر متعدد الفاظ تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ سو اس طرح اصل مادے "علم" سے ہم ، عالم، معلوم، معلّم، معلّمہ، علوم، تعلیم،اعلام، علامہ، علماء، علیم اور اس کے علاوہ کئی ایک الفاظ حاصل کر لیتے ہیں۔ یعنی ایک مادے اور اُس کے اوزان (Patterns) کے بارے میں سیکھ لینے سے ہمارے اوپر ایک جہان معنی کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ ہے نا آسانی؟

مزید میّسر آسانیاں کیا ہیں؟

پھر اگر بات کی جائے "عربی برائے قران فہمی" کی، تو جناب ہم سب کے پاس غلطیوں سے پاک قرآن کا متن موجود ہے۔ اور کئی ایک تراجم بھی دستیاب ہیں۔ لفظ بہ لفظ تراجم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مفسرین کی کتابیں بھی ہیں۔ اگر آپ کے پاس یہ کتابیں نہیں ہیں تو آپ سرچ قران ڈاٹ کام سے تراجم دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈرائڈ فونز کے لئے اسلام 360 کی ایپ ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں ، جس میں نا صرف کئی ایک تراجم و تفاسیر موجود ہیں بلکہ لفظ بہ لفظ ترجمہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ قران فہمی کی بات کی جائے تو نہ تو ہمیں عربی بولنے کی ضرورت ہے اور نہ لکھنے کی۔ لکھا ہوا مواد ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم نے بس اُسے پڑھنا ہے اور سمجھنا ہے۔

انٹرنیٹ پر عربی گرامر کی کئی ایک کتابیں با آسانی مل جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر عربی گرامر کے حوالے سے کئی ایک سیریز موجود ہیں ۔ بالخصوص جناب عامر سہیل صاحب کے ویڈیو لیکچرز موجود ہیں ۔ جنہوں نے عربی گرامر کو بہت ہی آسان کرکے سمجھایا ہے۔

اگر آپ میں عربی سیکھنے کی لگن پیدا ہو جائے تو آپ کے علاقے میں بھی آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا ادارہ ضرور مل جائے گا کہ جہاں مختصر وقت لگا کر آپ عربی سیکھ سکیں گے۔

اگر گرامر طبعاً آپ کے لئے دشوار چیز ہے تو آپ یوٹیوب پر موجود عبد الرحیم صاحب کے لیکچرز بہ عنوان "آؤ قران سمجھیں" دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں صرف و نحو کی تفصیلات میں پڑے بغیر قران کریم میں زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ و تراکیب سکھائے گئے ہیں اور یہ ایک بہت اچھی سیریز ہے۔ اسی طرز پر فہم القران کورس کے نام سے ایک کتاب موجود ہے جس میں 1100 سے زائد کلمات و آیاتِ قرانی کا ذخیرہ موجود ہے جو قران میں بار ہا استعمال ہوئیں ہیں۔ اس کتاب میں ان کلمات و آیات کا اردو اور انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔

الغرض اگر آپ سیکھنا چاہیں تو بے شمار سہولتیں آپ کی منتظر ہیں۔ بہ شرطِ عزمِ مصمم آزمائش شرط ہے۔

شروعات کیسے کریں؟

اتنا کچھ پڑھ لینے کے بعد اب ایک بار اس بات کا تعیّن کریں کہ آپ عربی برائے قران فہمی سیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر آپ واقعتاً اس بات کا تعین کر لیتے ہیں کہ آپ عربی سیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز ہیں:

ترجیحات

اب جب آپ عربی سیکھنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں تو سب سے پہلے اس بات کا تعیّن کریں کہ آپ کی ترجیحات میں عربی کے لئے کون سی جگہ ہے۔ اس طرح ترجیحات طے کرنے سے عربی آپ کے ضروری و بنیادی کاموں میں رُکاوٹ نہیں بنے گی اور نہ ہی کوئی دوسری عبث سرگرمی عربی سیکھنے کی راہ میں حائل ہوگی۔

وقت

پھر آپ عربی سیکھنے کے لئے ایک خاص وقت کا تعیّن کریں جو آپ اس کام کو پابندی سے دیں گے۔ یہ روزانہ کا ایک گھنٹہ بھی ہو سکتا ہے اور پندرہ منٹ بھی۔ یا ہفتے کے دو گھنٹے بھی۔ اس کا تعیّن بھی آپ اپنی مصروفیات اور آسانی کے حساب سے کریں گے۔

رہنمائی کیسے حاصل کریں

سب سے پہلے تو آپ اللہ سے دعا کیجے کہ آپ خالص اللہ کی رضا کے حصول کے لئے قرانِ کریم سمجھنا اور اس سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ آپ کے لئے راستے کھو ل دے گا۔ کہ اللہ نے خود بارہا فرمایا ہے کہ ہم نے اس قران کو سمجھنے کے لئے اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کر دیا ہے۔

نیز اگر آپ کسی باقاعدہ ادارے میں داخلہ لیتے ہیں تو آپ کو وہاں اساتذہ کی رہنمائی مل جائے گی۔ اسی طرح اگر آپ کسی ویڈیو سیریز کو فالو کرتے ہیں تو بھی آپ کو ویڈیو میں ہدایات ملتی رہیں گی ۔ اس کے علاوہ آپ کی مدد کے لئے ذکر کردہ موبائل ایپس، کتابیں اور لغات میسر ہیں۔ مزید اپنے اردگرد تلاش کیجے جو اس سفر میں ہو اور آپ سے کچھ آگے ہو اُن سے بھی آپ کو رہنمائی مل جائے گی۔ مساجد مدرسے کےعلماء اور مدرسین سے رابطہ کرنا بھی ہمارے ہاں دشوار نہیں ہیں۔ یعنی اگر آپ رہنمائی کے لئے اپنا ہاتھ بڑھائیں گے تو ان شاءاللہ ، اللہ آپ کا ہاتھ تھام لے گا۔

خود سے پڑھنا چاہیں تو کیا کریں

اگر آپ باقاعدہ کلاسیں لینے کا وقت نہیں نکال سکتے تو پہلی ترجیح یہ ہے کہ آپ ویڈیو سیریز سے سیکھیں۔ اگر گرامر کی طرف آپ کا رجحان ہے تو بہتر ہے کہ آپ عامر سہیل صاحب کی بیسک عربی گرامر کے اسباق سے آغاز کریں۔ اگر گرامر سے طبعاً آپ گھبراتے ہیں تو ڈاکٹر عبدالعزیز عبدالرحیم صاحب کی ویڈیو سیریز آؤ قران سمجھیں سے آغاز کریں۔ اگر ویڈیو سیریز فالو کرنے میں کچھ قباحت ہے تو کتابیں موجود ہیں۔ آپ عربی زبان کے بنیادی قاعدے "لغۃ العربیہ لغیر ناطقین بہا" سے آغاز کر سکتے ہیں، یہ غیر عرب لوگوں کے لئے بہت اچھا قاعدہ ہے اور اس کی کلید بھی اس مضمون کے ساتھ نتھی کتابوں میں شامل ہے۔ نیز اگر آپ عربی گرامر کتابوں سے پڑھنا چاہیں تو گرامر کی بہت سے کتابیں نیچے دیئے گئے روابط پر موجود ہیں۔

اُمید ہے کہ درج بالا گذارشات آپ کا حوصلہ بڑھانے میں اور عربی برائے قران فہمی کے مبارک سلسلے کا آغاز کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔

جزاک اللہ خیر

وسائل و حوالہ جات

سرچ قران ڈاٹ
اسلام 360 ۔ اینڈراوئڈ ایپ

بیسیک عربی گرامر کورس از جناب عامر سہیل صاحب
آؤ قران سمجھیں ۔ ویڈیو لیکچرز ۔ از ڈاکٹر عبدالعزیز عبدالرحیم
کورپس قران

جناب مزمل احمد صاحب کی The Arabic Guide  یوٹیوب سلسلہ
(بشکریہ سیما آفتاب)

(قران کی لسانیات کے حوالے سے یہ ایک اچھی ویب سائٹ ہے، لیکن اس کی بنیادی زبان انگریزی ہے۔)


عربی گرامر کی دستیاب کتابیں

بنیادی قواعد

دارالعلم : اقراء
مدینہ : لغۃ العربیہ لغیر ناطقین بہا ۔ جلد اول، دوم، اور سوم
مدینہ : لغۃ العربیہ لغیر ناطقین بہا ۔ کلید اردو ۔ جلد اول، دوم، اور سوم
مدینہ : لغۃ العربیہ لغیر ناطقین بہا ۔ کلید انگریزی ۔ جلد اول، دوم، اور سوم

عربی بول چال

دارالسلام : آئیے عربی سیکھیں
دارالاشاعت : عربی گفتگو نامہ

عمومی کتب

قرطاس : اردو عربی کے لسانی رشتے
دارالہدیٰ : صرف پانچ منٹ کا مدرسہ۔ جلد اول اور دوم
گوشہ علم و فکر : قران پڑھیے

قران فہمی

پیس ٹی وی : آؤ قران سمجھیں
قرانک ایجوکیشنل پبلیکیشنز : فہم القران کورس


گرامر

دارالسلام : ابتدائی قواعد الصرف
دارالسلام : ابتدائی قواعد النحو۔ جلد اول اور دوم
دارالسلام : ابواب الصرف
مکتبہ محمدیہ : ابواب الصرف
خدام القران : آسان عربی گرامر ۔ حصہ اول دوم سوم
مکتبہ قرانیات : آسان قرانی عربی
عطا الرحمٰن ثاقب : آسان قرانی گرامر
ضیاءالقران : تسھیل النحو
اردو نیوز : عربی اسباق
الہدیٰ : عربی گرامر
خدام القران : عربی گرامر برائے قران فہمی
مکتبہ اہلِ حدیث : علم الصرف
دارالکتاب سلفیہ : علم النحو
دارالسلام : قواعد الصرف
دارالسلام : قواعد النحو
خلیل الرحمٰن : قواعد عربی ایک مبتدی کی نظر سے
دارالسلام : کتاب الصرف جدید
قران اکیڈمی : لسان القران
دارلاشاعت : مسائل النحو و الصرف
دارالقدس : نحو میر
دار القدس : ھدایۃ النحو

لغات

پاک مسلم : جدید عربی لغت
مقتدرہ قومی زبان : قران مجید کا عربی اردو لغت
الکہتاب دہلی : لغات القران جلد اول اور دوم

یہ تمام کتابیں اس ربط پر دستیاب ہیں۔
فہرست کتب کا ربط یہ ہے۔ 

آپ یہ مضمون پی ڈی ایف شکل میں بھی ڈاؤنلوڈ کیجے

جزاک اللہ!

کتاب پڑھنا کیوں ضروری ہے؟​


ہم حیران ہوتے ہیں ، ہم سے مراد وہ لوگ جنہوں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو اپنی آنکھوں کے سامنے نمو پاتے ہوئے دیکھا ہے اور جن لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے میں اچھی خاصی جگہ بنا لی ، بلکہ یوں کہیے کہ یہ ہم میں سے بیشتر کے حواس پر چھا گیا۔

ہم سب حیران ہوتے ہیں اور اکثر حیران ہوتے ہیں کہ ہم اِس زلفِ گرہ گیر کے اسیر کیسے ہو گئے۔ ہم جو ایک زمانے میں کتابوں سے جڑے رہتے تھے، کتابیں پڑھتے پڑھتے نیند کی آغوش میں چلے جاتے اور صبح اُٹھتے ساتھ ہی تکیے کی نیچے سے پھر کتاب نکال کر وہیں سے شروع ہو جاتے ، ہم کس طرح انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے چُنگل میں اس بُری طرح پھنس گئے کہ اِس سے اب جان چھوٹتی نظر نہیں آتی۔

ہم میں سے بیشتر نے اس کا شکوہ بھی کیا، گلزار صاحب نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم "کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے " لکھی اور بھی کئی لوگوں نے گاہے گاہے اس موضوع پر اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن یہ سب اظہاریے اور شکوے ، شکوے کم اور اپنی بے بسی کا اظہار زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جو کتابیں پڑھنے والے لوگ تھے، اب ہماری اکثریت سوشل میڈیا پر موجود تحریریں پڑھنے تک محدود کیوں ہو گئی ہے؟

شاید آپ یہ کہیں کہ بیشتر لوگ جو دن میں ایک صفحہ بھی نہیں پڑھتے تھے اب ان جانے میں کئی کئی صفحات کے برابر مواد سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر پڑھ لیتے ہیں۔ اور یہ سوشل میڈیا کی خوبی ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگوں کی حد تک تو یہ واقعی ایک اچھی بات ہے۔ لیکن اگر اُن سنجیدہ قارئین کو دیکھا جائے جو پہلے کُتب بینی کے عادی تھے اور اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی تحریروں تک محدود ہو گئے ہیں تو اُن کے لئے یہ بہت بڑے نقصان کا سودا ہے۔

ذیل میں ہم سوشل میڈیا پر ملنے والے تحریری مواد اور باقاعدہ کتب کا ایک مختصر موازنہ کریں گے۔ باقاعدہ کتب سے مراد وہ کتابیں ہیں جو لکھی گئی اور شائع کی گئی، ان میں ای بکس وغیر ہ بھی شامل ہیں۔

کتابیں (کاغذ پر چھپی کتابیں اور ای بُکس وغیرہ)
سوشل میڈیا تحریریں
باقاعدہ کتابیں (اب سے ہم صرف کتابیں کہیں گے) باقاعدہ مصنفین کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جو کہ ناصرف پڑھنے لکھنے کے ہنر سے واقف ہوتے ہیں ۔ بلکہ اُن میں سے بیشتر اوسط علم و ذہانت سے زیادہ ذہین و فطین ہوتے ہیں، اور اپنے وسیع مطالعے کے باعث زیادہ علم والے بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ اُن میں سے کچھ تو عبقری اذہان کے حامل نابغہ روزگار شخصیات ہوتی ہیں۔
سوشل میڈیا پرلکھنے والے ہمارے آپ کے جیسے اوسط علم و ذہانت کے حامل ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو محض پروپیگنڈہ کے لئے لکھ رہے ہوتے ہیں کافی پست ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔
یوں تو بہت سی کتابیں بھی اتفاقاً ہمارے پاس چلی آتی ہیں لیکن زیادہ تر کُتب کی اصناف و مضامین کا انتخاب ہمارے پاس ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر موضوعات اکثر ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں اور ہم اپنے انتخاب کا اختیار کسی حد تک دوسروں کو دے دیتے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی بہ نسبت ، کتابوں میں ہمیں زیادہ موضوعات اور تنوع مل سکتا ہے کہ اکثر یہ ہمارا اپنا انتخاب ہوتی ہیں اورکسی پروپیگنڈے کے تحت ہم پر مسلط نہیں کی جاتیں۔
سوشل میڈیا پر موضوعات میں تنوع بہت کم ہوتا ہے اور اکثر تحریریں محض بہاؤ میں بہنے والے مضامین لیے ہوتی ہیں ۔
سوشل میڈیا کی بہ نسبت ، کتابوں میں ہمارے لئے اثر پذیری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور اِن میں سے اچھی کتابوں کی رسائی ہماری درونی کیفیات تک ہوجاتی ہے، کہ جس تجربے سے گزرنا بڑے نصیب کی بات ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا مضامین کے پیچھے اکثر سطحی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے اور ہمیں عموماً ایسی تحاریر پڑھنے کو نہیں ملتی جن میں واقعتاً گہرائی اور گیرائی کا عنصر موجود ہو۔
کتاب اپنے موضوعات کا احاطہ بڑی جامعیت کے ساتھ کرتی ہیں، اور ان میں فصاحت و بلاغت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
جبکہ سوشل میڈیا تحریر عموماً یک تہی اور اکثر ناقص الخیال ہوتی ہیں۔


مزے کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایجاد کرنے والے امریکیوں کی ایک غالب اکثریت اب بھی کتابیں پڑھتی ہے۔ جن میں طبع شدہ کتابوں کا تناسب اب بھی ای بکس اور آڈیو بکس سے زائد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تہتر فیصد بالغ افراد اب بھی امریکہ میں کتابیں پڑھتے ہیں۔ اور بیشتر لوگوں کے ریڈرز، ٹیب اور فونز میں ہمہ وقت کتابیں موجود رہتی ہیں۔


اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر محض چھوٹی چھوٹی مجہول تحریریں پڑھتے رہنا آپ کے مطالعے کے شوق اور ضرورت کو اُسی طرح پورا کرتی ہیں کہ جیسے پہلے کبھی کتابیں کیا کرتیں تھیں تو پھر آپ کو ایک بار پھر سے اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکی مصنف اور مزاح نگار مارک ٹوئین کا کہنا ہے کہ جو شخص کتابیں نہیں پڑھتا ، اُس شخص سے کسی طرح بہتر نہیں ہے جو پڑھنا ہی نہیں جانتا۔ اسی بات کو اردو میں پڑھ لکھ کر گھاس کاٹنا کہا جاتا ہے۔

ہمارا یہ کہنا ہے کہ کتابوں کے لئے اپنے وسائل بالخصوص وقت میں سے کچھ حصہ ضرور صرف کریں یہ یقیناً آپ کے اور آپ کی آنے والی نسل کے مستقبل کے لئے بہترین سرمایہ کاری ثابت ہوگی۔

تحریر: محمد احمد​



***

Why Book Reading is important?