برسات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
برسات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

میٹر شارٹ



آج کی صبح بڑی خوشگوار تھی، مطلع ابر آلود  تھا اور ہلکی ہلکی پھوار دھرتی کے دکھتے سینے  پر پھائے رکھ رہی تھی۔  جب میں دفتر جانے کے لئے نکلا تو ایک بہت خوبصورت گیت لبوں پر تھا۔ ہوا میں رقص کرتی بارش کی چھوٹی چھوٹی سی بوندوں میں بلا کا  ترنم تھا بالکل ایسے ہی جیسے گیتوں میں نغمگی ہوتی  ہے۔ الفاظ اور احساسات جس قدر ہم آہنگ ہو جائیں گیتوں کی چاشنی اُتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی شرارتی بوندیں  ہوا میں اور گیت کے مسکراتے مصرعے میرے ہونٹوں پر رقصاں تھے (جنہیں صرف میں ہی سُن سکتا تھا)۔ کسی نے صحیح کہا  ہے کہ خوشی ایک احساس کا نام ہے چاہو تو اُسے محسوس کرو اور چاہو  تو اس احساس سے اجنبی ہو جاؤ۔ 

بارش بڑی عجیب شے ہوتی ہے یہ ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔  آپ خوش ہوں تو بارش آپ کی خوشی کو سرخوشی میں بدل سکتی ہے اور آپ غمگین ہوں تو یہی بارش کے قطرے آپ کے آنسو بن کر ساری دنیا بھگونے پر تُل جاتے ہیں۔ غمگساری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔  تاہم  ایسے ہمدم اور ایسے غمگسار صرف احساس رکھنے والوں کے ہی نصیب میں آتے ہیں۔  یوں تو سبھی  لوگ کسی نہ کسی حد تک حساس ہوتے ہیں لیکن  کچھ لوگ اپنی خوشیوں اور غم کو سیلیبریٹ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔   اگر آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں۔  زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔ 

بہرکیف ، آج  اس اچھے موسم کے طفیل  خیال آیا کہ شعر و نغمہ  سے ہماری  وابستگی کی بابت  کچھ باتیں ہی ہو جائیں۔ اسے اتفاق ہی کہیے کہ اوائل عمری میں ہی  کافی گیت اور نغمے  سُنے ۔ یہ نغمے زیادہ تر اِدھر اُدھر سنے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مونگ پھلی والا بھی ٹیپ ریکارڈ  چلائے بغیر آگے نہیں بڑھتا تھا۔ پھر شوق ہو چلا تو خود سے بھی ریکارڈڈ گیت سننے کا اہتمام کیا۔ ہندوستانی (اردو یا ہندی  جو بھی آپ کہنا پسند کریں) اور پاکستانی گیت سنے۔ فلمی اور غیر فلمی ہر طرح کے۔  غزلیات بھی بہت سنیں،  انوپ جلوٹا  سے جگجیت سنگھ تک،  مہدی حسن  سے غلام علی  تک، اقبال بانو سے گلبہار بانو تک ،  نیرہ نور سے ٹینا ثانی تک، یہاں تک کہ سلمان علوی اور  سجاد علی کی غزلیات بھی۔  وقت  گزرنے کے ساتھ ساتھ  احساس ہو ا کہ  ہمیں موسیقی سے زیادہ شاعری سے اُنسیت ہے ۔ اکثر پورے پورے نغمے یاد ہو گئے،  کئی کئی  غزلیں ازبر ہو گئیں۔ جب  کبھی ساز و آواز کا سامان ناپید  ہوتا  تب بھی   ذہن میں موجود  ریکارڈ   سے محظوظ  ہونے کا موقع ہمہ وقت موجود رہتا۔  پھر شاعری پڑھنے کا شوق بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس قدر شاعری سننے اور پڑھنے سے  ذہن کی  غنائیت اورنغمگی سے شناسائی سی ہو گئی اور شاعری کے لئے درکار "میٹر" ذہن میں استوار ہو  گیا۔  سو جب کبھی کسی نغمے کا آہنگ متاثر ہوتا نظر آتا  تو اندازہ ہو جاتا۔  شاید یہی وجہ رہی کہ جب ہم نے شاعری کی کوشش کی تو بہت زیادہ دشواری پیش نہیں آئی اور آہنگ سے متعلق معاملات باآسانی نمٹ گئے ۔ اگر غلطیاں ہوئی بھی تو تکنیکی لاعلمی یا تلفظ کی غلطیوں کے باعث۔  اور ان دو چیزوں کا سیکھنا تو عمر بھر چلتا ہی رہتا ہے۔ 

اس سلسلے میں ہم اس لئے بھی خوش نصیب رہے کہ جب ہم نے گیت سماعت کرنے شروع کیے توعہدِ حاضر سے زیادہ عہدِ قدیم میں دلچسپی لی سو بہت اعلیٰ پائے کے شعراء کو اس میدان میں مصروفِ عمل پایا۔ ان گیت نگاروں کے گیت عمومی شاعری کے معیار کے نہیں تو اُن سے کم تر بھی نہیں تھے۔  ان اعلیٰ گیت نگاروں میں مجروح سلطان پوری، مجاز، ساحر لدھیانوی،  اندیور، حسرت جے پوری، شکیل بدایونی، کیفی اعظمی، آنند بخشی، انجان، جاں نثار اختر، ندا فاضلی اور آگے چل کر گلزار اور جاوید اختر جیسے قادر الکلام لوگ شامل رہے۔ پاکستانی گیت کم اورغزلیں زیادہ سُنی جو زیادہ تر معروف شعراء کے کلام سے انتخاب کی گئیں تھیں۔ پاکستانی  پرانے گیت بھی سنے جو اپنی مثال آپ تھے۔  پھر گانے والوں نے تو میر وغالب کے کلام کو بھی نہیں بخشا اور اکثر نے حق بھی ادا کیا۔

گو کہ یہ شوق یقیناً وقت کے زیاں کا باعث بھی رہا ہوگا تاہم کچھ نہ کچھ تو سیکھ ہی لیا۔لیکن اب کبھی شومیء قسمت سے نئے ہندی گیت سننے کا اتفاق ہو جائے تو خیال  آتا ہے کہ یہ کس قسم کے گانے ہیں اور یہ کون سے گیت نگار ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ فلمی گیتوں کو غیر اخلاقی اور سوقیانہ خیال کیا جاتا تھا اور کسی حد تک یہ بات درست بھی تھی۔ تاہم  آج کل کے گانوں  کے لئے غیراخلاقی اورسوقیانہ قسم کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو بھی "حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا"  والی بات ہوگی۔  نہ آوازیں اچھی ہیں  نہ شاعری۔ بلکہ اُسے شاعری کہنا بھی شاعری کی سخت توہین ہے۔ یہی گلہ ایک بار ہم نے اپنے ایک دوست سے کیا تو کہنے لگے کہ یہ گانے سننے والے نہیں دیکھنے والے ہیں۔ اس بات کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ صد شکر کہ ہم نے یہ گانے نہیں سُنے ورنہ اگر ہم نے یہ گانے سُنے ہوتے تو یقیناً ہمارا ہی نہیں شاعری کا بھی "میٹر شارٹ" ہو جاتا۔

 نوٹ: گیت نگاروں کو یاد کرنے کے لئے ویب سرچ سے مدد لی گئی ہے۔  نیز یہ کہ  ناموں میں تقدیم و تاخیر و مرتبہ وغیرہ کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جا سکا ہے۔

....بارشوں کے موسم میں

کئی دنوں کے حبس کے بعد آج کراچی بھی جل تھل ہو ہی گیا، صبح صبح بارش ہوگئی ۔ موسم اچھا ہو جائے تو سب کچھ اچھا لگتا ہے ۔ پھر خاص طور پر بارش تو اپنا الگ ہی رنگ رکھتی ہے۔ قطعِ نظر اس بات کے کہ بارش سے کیا کیا مسائل اور پریشانیاں جنم لیتی ہیں یہ بات بھی بالکل بجا ہے بارش دلوں کے اندر تک سرائیت کرنا جانتی ہے ۔ دل میں پہنچنے کے بعد اس کا پہلا حدف دل میں موجود یادوں کی لائیبریری ہوتا ہے ۔بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ گزارا ہوا خوبصورت وقت ، بہت اچھی اچھی باتیں اور یادیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نہ جانے کون کون سے دکھ بھی خود رو پودوں کی طرح نکل آتے ہیں اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی پھیلا دیتے ہیں ۔ یہ ہریالی اور نیلا دُھلا دُھلایا آسمان جو منظر پیش کرتا ہے وہ اُداس تو ضرور کرتا ہے لیکن اُس کا بھی اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔

بارشوں میں کھانے پینے کا بھی الگ ہی مزہ ہے ۔ لوگ طرح طرح کے اہتمام کرتے ہیں، مجھے آج تک یاد ہے آج سے ایک آدھ سال اُدھر میں ایک مقامی پارک میں دوستوں کے ساتھ موجود تھا اور چائے سے شغل میں مصروف تھا کہ اچانک بارش ہو گئی اور بارش بھی ٹھیک ٹھاک، اس بارش کے طفیل اُس چائے میں اچھی خاصی برکت ہوگئی لیکن پھر بھی میں نے اُ س چائے کو چھوڑا نہیں اور اُس چائے نے اتنا لطف دیا کہ آج بھی یاد آتی ہے۔

خوبصورت موسم اور برکھا برسات شعر و سخن کے لئے بھی بہت ہی ساز گار ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو خیالات بارش کی بوندوں سے بھی تیز تر ہو جاتے ہیں ، اور ان میں سے بھی اکثر خیالات شاعرانہ قالب میں ڈھلے ڈھلائے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی شاذ ہی ہوتا ہے کہ اگر یہ سارے لوازمات میسّر آبھی جائیں تو بھی فرصت کی کمی ضرور رہتی ہے۔

بہر کیف، اس طرح کا موسم جب بھی ہوتا ہے ، مجھے پروین شاکر کی یہ خوبصورت نظم ضرور یاد آتی ہے۔

پیشکش


اتنے اچھے موسم میں
روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں
کل پہ ہم اُٹھا رکھیں
آج دوستی کرلیں

پروین شاکر۔

اور ایک یہ قطعہ بھی ۔

موسم تھا بے قرار، تمھیں سوچتے رہے
کل رات بار بار، تمھیں سوچتے رہے
بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہم
چُپ چاپ ، سوگوار تمھیں سوچتے رہے

شاعرنامعلوم

اگر آپ بھی کراچی میں ہیں تو بارش کے لطف کو شکائتوں میں مت گنوائیے گا۔