انتخاب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
انتخاب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

نو برس - ایک نثری نظم

 آج ہم نے اپنے عزیز دوست اور اُستاد فلک شیر بھائی کی ایک نثری نظم دیکھی جو ہمیں بہت بھائی! سو ہم کمالِ اپنائیت سے یہ نظم بغیر اجازت اپنے بلاگ پر چسپاں کر رہے ہیں۔ آپ کو ضرور پسند آئے گی۔

نو برس

نو برس ہوتے ہیں
ہر کسی کے اپنے نو برس ہوتے ہیں
سیرِ صحرا سے لبِ دریا تک
عمر کوٹ سے بھٹ جو گوٹھ تک
سسی کی پیاس سے خضر کے گھڑے تک
بے انت بے سمتی سے یکسوئی کی مٹھاس تک
کانٹوں کے عرق سے ترتراتے پراٹھےسے....
شکرگزاری کی سوکھی روٹی تک
بے مصرف بنجر دنوں سے موتیوں جیسے لمحوں کے ڈھیر تک
واقف انجانوں کی بھیڑ سے دل میں اترے اجنبیوں کی مجلس تک

اور

کسی بربادکوزہ گر، جو اپنے ہی کوزوں سے رنجور ہو....
کوپھر سے اپنے چاک پہ شرابور ہونے تک
نو برس درکار ہوتے ہیں
پر یہ نو برس ہمیشہ سو سے آٹھ زیادہ مہینوں کے نہیں ہوتے
یہ نو لمحوں سے نو دہائیوں کے ہو سکتے ہیں

کیونکہ

نو برس ہر کسی کے اپنے ہوتے ہیں


فلک شیر



عرضِ شاعرمن و عن: کل ن م راشد کا یوم پیدائش تھا، راشد کی حسن کوزہ گر کا ایک تھیمیٹک حوالہ مندرجہ بالا نثری نظم میں قارئین محسوس کر سکتے ہیں، یہ تککفاً در نہیں آیا، یہی عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں۔

تو مِرا انتخاب ہے شاید


ایک شخص نے کسی بزرگ سے پوچھا کہ اگر سب کچھ تقدیر میں ہی لکھا ہے تو پھر انسان کا اختیار کیا معنی رکھتا ہے۔ بزرگ نے اُس شخص سے کہا کہ تم اپنا ایک پیر اوپر اُٹھاؤ۔ تو اُس نے پیر اوپر اُٹھا لیا، پھر بزرگوار نے فرمایا کہ اب دوسرا پیر بھی اُٹھا لو تو وہ شخص ہڑبڑا گیا اور کہنے لگا دوسرا پیر کیسے اُٹھاؤں۔ بزرگ نے کہا بس یہی تیرا اختیار ہے یعنی ایک پیر تو اپنی مرضی سے اُٹھا سکتا ہے اور تجھ سے اس ایک قدم کی بابت ہی پرسش ہونی ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ یہ نصف اختیار تو اُس مالک نے دیا ہے کہ جو اپنے بندے پر مہربان ہے۔ لیکن ہمارے ظالم اور جابر سیاسی اور نام نہاد جمہوری نظام نے لوگوں کو اتنا اختیار بھی نہیں دیا۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں اور عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اگلے پانچ سال کے لئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد پولنگ اسٹیشن پر جاتی بھی ہے اور اُن میں سے کچھ اپنی مرضی کے نمائندوں کو ووٹ ڈالنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔ تاہم یہ اُن کی خام خیالی ہی ہوتی ہے کہ اُن کے ووٹ سے آئندہ سیٹ اپ میں کوئی خاص فرق پڑے گا۔

ہمارے سیاسی و انتخابی نظام میں بہت سی خامیاں ہیں۔ اور اکثر خامیاں ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے انتخابات کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

جمہور کا انتخابی شعور

جمہوریت گنتی جانتی ہے یعنی جمہوریت کی نظر میں دس ہاتھی اور دس لگڑ بگے ایک برابر ہیں ۔ جہاں عدد ہی سب کچھ ہے اور عددی برتری چیونٹیوں کو چیتوں پر حکمران ٹھہرا سکتی ہے وہاں کیا حکومت بنے گی اور کیسے چلے گی سب سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے میں جس ملک کی شرحِ خواندگی شرمناک حد تک کم ہو وہاں ووٹ دینے والے کی اپنی قابلیت پر ہی سوال اُٹھتا ہے کہ وہ کسے منتخب کرے گا اور انتخاب کرتے وقت اُس کی ترجیحات کیا ہوں گی۔

اگر آپ کو اس بات کی حقانیت پر یقین نہ ہو تو ذرا پاکستانیوں کا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیجے جہاں بیشتر ووٹ تعصب کی بنیاد پر پڑتے ہیں۔ جہاں کہیں ہماری برادری کا آدمی، ہماری زبان بولنے والا یا ہمارے شہر کا بندہ کھڑا ہو تو پھر ووٹ اُسی کا ہے۔ اُس شخص کی قابلیت کیا ہے ، کردار کیسا ہے اور اُس کی اگلی پچھلی کارکردگی کیسی ہے سب باتیں پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ پھر تعصب تو رہا ایک طرف یہاں تو ایک پلیٹ بریانی ہی ووٹ کا فیصلہ کرنے میں قاطع بُرہان ثابت ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں میں طاقت کے استعمال کا رجحان

ہمارے ہاں کم و بیش ہر سیاسی جماعت کے پاس اپنا کرمنل ونگ ہوتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے غنڈے، اپنے لٹھیت رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جو ہر تنازعہ کا فیصلہ اسلحہ اور زورِ بازو پر کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی طرف سے آنکھ بند کیے رکھنے کو ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً کوئی شریف آدمی انتخابات لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بافرض محال اگر کوئی شخص ان زور آور جماعتوں کی مخالفت میں کمر بستہ ہو ہی جائے تو پھر اُسے ان سیاسی جماعتوں کے بد فطرت غنڈے نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں ۔ آپ خود بتائیے کہ ایسی سیاسی جماعتیں انتخابات جیت کر کون سا کارنامہ سر انجام دیتی ہیں۔ 

انتخابی مہمات میں دھن دولت کا بے تحاشا استعمال

ہمارے ہاں انتخابی مہم چلانے کے لئے تمام تر جماعتیں لاکھوں نہیں کروڑوں، اربوں روپے خرچ کرتی ہیں ۔ ایک ایک جلسے پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پوسٹرز ، بینرز، جلسے کے انتظامات، ٹرانسپورٹ، بریانی کی دیگیں اور لفافے۔ یہی سب کچھ ریلیوں اور دھرنوں میں ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ آخر اتنا پیسہ ان جماعتوں کے پاس سے آتا کہاں سے ہے کہ ان لوگوں کےٹیکس گوشوارے تو اُنہیں سفید پوش ثابت کرنے میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔

پھر دوسری بات یہ ہے کہ پانی کی طرح پیسہ بہا کر اقتدار میں آنے والوں کا مطمحِ نظر آخر ہوتا کیا ہے۔ کیا یہ سب اتنے ہی سیدھے ہیں کہ عوام کی خدمت کے لئے مرے جا رہےہیں یا پھر اقتدار ان کی "سرمایہ کاری" کا پھل کھانے کا نام ہے۔

اب آپ بتائیے کیا کوئی غریب آدمی اپنی پارٹی بنانے یا انتخابات لڑنے کا سوچ بھی سکتا ہے ۔ یقینا ً نہیں۔ جب تک یہی نظام ہے اُسے سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

غیر شفاف انتخابی عمل

پاکستان وہ ملک ہے کہ جہاں ووٹر کے ہاتھ سے بیلٹ پرچی لے کر اُسے کہا جاتا ہے کہ آپ آرام سے گھر جائیے آپ کا ووٹ ڈل جائے گا۔ چلیے یہ ایک انتہائی مثال ہے لیکن افسانوی ہر گز نہیں ہے۔ پاکستان میں حلقہ بندی سے لے کر انتخابی فہرستوں تک ہر ہر موڑ پر بے ایمانی ہوتی ہے ۔ ایک طرف ایک شخص اپنا جائز ووٹ ڈالنے کے لئے بھی سارا دن خوار ہوتا رہتا ہے تو دوسری طرف انتخابی جماعتوں کے ہرکارے اُن لوگوں کے ووٹ بھی اپنے نام کر لیتے ہیں کہ جنہیں مرے ہوئے کئی کئی سال ہو جاتے ہیں۔

عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف بہت طویل مہم چلائی اور بایو میٹرک سسٹم نافذ کرنے پر زور دیا ۔ لیکن عمران خان کی دھاندلی کے خلاف مہم بھی صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہی ثابت ہوئی اور اُنہوں نے بائیو میٹرک نظام کے نفاظ کے لئے کوئی ایماندارانہ کوشش کی ہی نہیں۔ باقی جماعتیں تو خیر چاہتی ہی نہیں ہیں کہ انتخابات میں شفافیت کے امکانات فزوں تر ہوں۔

غیر سیاسی عناصر کی مداخلت

ہمارےہاں سیاست میں غیر سیاسی عناصر کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ برسوں سے یہ لوگ سیاسی معاملات میں کبھی بلواسطہ اور کبھی بلاواسطہ دخل اندازی کرتے رہے ہیں ۔ اور پہلے جو بات ڈھکی چھپی ہوتی تھی وہ اب ویسی ڈھکی چھپی بھی نہیں رہی۔ غیر سیاسی عناصر کی بے جا مداخلت، مختلف سیاسی تنظیموں کا قیام اور اُن کی دانستہ ترقی و ترویج ہی وہ عمل ہے کہ جس کے باعث پاکستان میں فطری سیاسی نظام پنپ ہی نہیں سکا اور ہر آنے والی سیاسی جماعت کو اسی بے ساکھی کا سہارا لینا پڑا ۔ بے ساکھی کے سہارے آنے والے کسی اور کا کیا سہارا بنیں گے اس بات کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔

ان سب باتوں کے باوجود جب ہمارے منتخب حکمران ہمیں آکر کہتے ہیں کہ ہم ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے ۔ اور میں سوچتا ہوں کہ اگر موجودہ سیاسی نظام میں مجھے پوری طرح ایک پیر اُٹھانے کا اختیار حاصل ہوتا تو میرا یہی پیر میرے ممدوح کے حق میں فلائنگ کک ثابت ہوتا۔ لیکن:


ع ۔ حسرت اُن غنچوں پہ ہے

اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں ۔ قمر جمیل

غزل

اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ پھول کھلا رکھے ہیں آئینے میں

تم بھی دنیا کو سناتے ہو کہانی جھوٹی
میں نے بھی پردے گرا رکھے ہیں آئینے میں

پھر نکل آئے گی سورج کی سنہری زنجیر
ایسے موسم بھی اُٹھا رکھے ہیں آئینے میں

میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیل
اور کچھ لوگ چھپارکھے ہیں آئینے میں

قمر جمیلؔ

قمر جمیل کی دو خوبصورت غزلیں


قمر جمیل پاکستان کے معروف نقاد، ادیب، شاعر اور اردو ادب میں جدید رجحانات کے بانی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے "خواب نما" اور "چہار خواب" شائع ہوئے ۔ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ "جدید ادب" کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا ۔ انہوں نے "دریافت" کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ وہ ایک طویل عرصہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ انہوں نے کراچی سے نثری نظم کی تحریک کا آغاز کیا اور ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیا۔

قارئینِ بلاگ کے ذوق کے لئے قمر جمیل کی دو غزلیں پیشِ خدمت ہے۔

ایک پتھر کہ دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے

اپنی ناکامیوں پہ آخر کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے

ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے
دن قیامت کے انتظار میں ہے

اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں
اور آئینہ انتظار میں ہے

کچھ ستارے ہیں اور ہم ہیں جمیلؔ
روشنی جن سے رہ گزار میں ہے

✿✿✿✿✿✿✿

خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے

اس کے قدم سے پھول کھلے ہیں میں نے سنا ہے چار طرف
ویسے اس ویران سرا میں پھول کھلانا مشکل ہے

تنہائی میں دل کا سہارا ایک ہوا کا جھونکا تھا
وہ بھی گیا ہے سوئے بیاباں اس کا آنا مشکل ہے

شیشہ گروں کے گھر میں سنا ہے ایک پری کل آئی تھی
ویسے خیال و خواب ہیں پریاں ان کا آنا مشکل ہے

قمر جمیل

افتخار عارف کی دو خوبصورت غزلیں

افتخار عارف کی دو خوبصورت غزلیں

قِصّہ ٴاہلِ جنُوں کوئی نہیں لِکّھے گا
جیسے ہم لِکھتے ہیں، یُوں کوئی نہیں لِکّھے گا

وَحشتِ قلبِ تپاں کیسے لکھی جائے گی!
حالتِ سُوزِ دَرُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

کیسے ڈھہ جاتا ہے دل، بُجھتی ہیں آنکھیں کیسے؟؟
سَر نوِشتِ رگِ خُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

کوئی لِکّھے گا نہیں ، کیوں بڑھی، کیسے بڑھی بات؟؟
کیوں ہُوا درد فزُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا

خلقتِ شہر سَر آنکھوں پہ بِٹھاتی تھی جنہیں 
کیوں ہُوئے خوار و زبُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا

عرضیاں ساری نظر میں ہیں رَجَز خوانوں کی
سب خبر ہے ہمیں، کیُوں کوئی نہیں لِکّھے گا

شہر آشُوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
مَیں ہی لِکُّھوں تو لکُھوں، کوئی نہیں لِکّھے گا! 

بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسِم میں 
کیا کہُوں،کس سے کہُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

✿✿✿✿✿✿✿

دل کو دِیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
خاک ہو جائیں جو رُسوائی کو شُہرت کریں ہم

اِک قیامت کہ تُلی بیٹھی ہے پامالی پر
یہ گُزرلےتوبیانِ قد وقامت کریں ہم

حرف ِ تردید سے پڑ سکتے ہیں سَو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عُمرکے دِن
شام آئی ہے تو کیا ترکِ محُبت کریں ہم

اک ہماری بھی امانت ہے تہ ِ خاک یہاں
کیسے ممکن ہے کہ اس شہر سے ہِجرت کریں ہم

دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دُنیا
صُبح سے پہلے ہر اِک خواب کو رُخصت کریں

شوق ِآرائش ِ گل کایہ صلہ ہے کہ صبا
کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم

عُمر بھر دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ
کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم


افتخار عارف

ٰImage Credit : Urdu Mehfil

ضرورت ہے ایک مشترکہ ووٹر کی



مئی 2013 میں خاکسار نے ایک پوسٹ انتخابی اتحاد کی اخلاقی حیثیت تحریر کی تھی اور اس میں اس حیرانی کا اظہار مقصود تھا کہ صرف انتخاب میں فتح کے حصول کے لئے علیحدہ علیحدہ نظریات کی حامل دو سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کیونکر ہو سکتا ہے اورووٹر کے استفسار پر اُن کے پاس اس طرح کے اتحاد کا کیا جواز رہ جاتا ہے کہ جہاں سیٹ کی بات ہو نظریات کو گٹھری میں بند کرکے اسٹور میں پھینک دیا جائے۔

آج بھی دو پمفلیٹ ایسے ملے ہیں جن میں ایک ن۔ لیگ اور پی پی پی کے مشترکہ اُمیدوار کی طرف سے ہے تو دوسرا تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے اُمید وار کے وقتی اتحاد کی داستان لئے ہوئے ہے۔

آپ بھی درشن کیجے:


مکمل تصویر دیکھنے کے لئے کلک کیجے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن ۔ لیگ اور پی پی پی نے تو مشترکہ اُمیدوار کھڑا کر دیا لیکن ان دونوں کا مشترکہ ووٹر کہاں سے آئے گا۔ ن ۔ لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں ہیں سمجھ نہیں آتا کہ ووٹر کس دل سے اس اُمیدوار کو ووٹ دے گا۔

دوسری طرف جماعتِ اسلامی ہے کہ جو اسپیکر کے انتخاب میں تو اپنا ووٹ ن ۔ لیگ کے حق میں استعمال کرتی ہے اور کراچی میں تحریکِ انصاف کے ساتھ مشترکہ اُمیدوار کھڑے کر دیتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ جماعتِ اسلامی کا سیاسی قبلہ کہاں ہے۔ اور مفادات کی سیاست میں نظریاتی سیاست کہاں رہ گئی ہے۔

پاکستان میں انقلاب اور نئے پاکستان کی باتیں کرنے والے تو بہت ہیں لیکن دیکھا جائے تو یہ سب نظریاتی سیاست بس نام کی ہی ہے۔ ہاں ایک نظریہ ہے جو ہمہ وقت کارفرما نظر آتا ہے اور وہ ہے نظریہ ء ضرورت۔ 

حسرت موہانی کی دو خوبصورت غزلیں

حسرت موہانی کی دو خوبصورت غزلیں

ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے
محبت میں بتا اے ضبط غم ایسا بھی ہوتا ہے

بھلا دیتی ہیں سب رنج و الم حیرانیاں میری
تری تمکین بے حد کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے

جفائے یار کے شکوے نہ کر اے رنج ناکامی
امید و یاس دونوں ہوں بہم ایسا بھی ہوتا ہے

مرے پاس وفا کی بدگمانی ہے بجا تم سے
کہیں بے وجہ اظہار کرم ایسا بھی ہوتا ہے

تری دل داریوں سے صورت بیگانگی نکلی
خوشی ایسی بھی ہوتی ہے الم ایسا بھی ہوتا ہے

وقار صبر کھویا گریہ ہائے بے قراری نے
کہیں اے اعتبار چشم نم ایسا بھی ہوتا ہے

بدعوائے وفا کیوں شکوہ سنج جور ہے حسرتؔ
دیار شوق میں اے محو غم ایسا بھی ہوتا ہے

*******

ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے

ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا مجھے

ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے

رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے

رکھیے نہ مجھ پہ ترک محبت کی تہمتیں
جس کا خیال تک بھی نہیں ہے روا مجھے

کافی ہے ان کے پائے حنابستہ کا خیال
ہاتھ آئی خوب سوز جگر کی دوا مجھے

کیا کہتے ہو کہ اور لگا لو کسی سے دل
تم سا نظر بھی آئے کوئی دوسرا مجھے

بیگانۂ ادب کیے دیتی ہے کیا کروں
اس محو ناز کی نگۂ آشنا مجھے

اس بے نشاں کے ملنے کی حسرتؔ ہوئی امید
آبِ بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے

مولانا حسرت موہانی

تمھارا نام بھی سُن لوں تو روشنی ہو جائے ۔ شہزاد احمد

غزل 

غبارِ طبع میں تھوڑی بہت کمی ہو جائے
تمھارا نام بھی سُن لوں تو روشنی ہو جائے

ذرا خیال کرو، وقت کس قدر کم ہے
میں جو قدم بھی اُٹھا لوں ، وہ آخری ہو جائے

قیامتیں تو ہمیشہ گزرتی رہتی ہیں
عذاب اُس کے لئے جس کو آگہی ہو جائے

گزر رہے ہیں مرے رات دن لڑائی میں
میں سوچتا ہوں کہ مجھ کو شکست  ہی ہو جائے

عجیب شخص ہے تبدیل ہی نہیں ہوتا
جو اُس کے ساتھ رہے چند دن وہی ہو جائے

مرا نصیب کنارہ ہو یا سمندر ہو
جو ہو گئی ہے، تو لہروں سے دشمنی ہو جائے

تمام عمر تو دوری میں کٹ گئی میری
نہ جانے کیا ہو؟ اگر اس سے دوستی ہو جائے

بس ایک وقت میں ساری بلائیں ٹوٹ پڑیں
اگر سفر یہ کٹھن ہے تو رات بھی ہو جائے

میں سو نہ جاؤں جو آسانیاں میسر ہوں
میں مر نہ جاؤں اگر ختم تشنگی ہو جائے

نہیں ضرور کہ اونچی ہو آسمانوں سے
یہی بہت ہے زمیں پاؤں پر کھڑی ہو جائے

تمام عمر سمٹ آئے ایک لمحے  میں
میں چاہتا ہوں کہ ہونا ہے جو ابھی  ہو جائے

وہی ہوں میں وہی امکاں کے کھیل ہیں شہزادؔ 
کبھی فرار بھی ممکن نہ ہو، کبھی ہو جائے

شہزادؔ احمد

تیرہواں کھمبا


تیرہواں کھمبا

منشا یاد /  محمد ابراہیم جمالی


پاکستان میں بولی جانے والی تقریباً تمام ہی زبانیں ادبی سرمائے سے مالا مال رہیں ہیں۔ ان زبانوں میں بلا شبہ بہترین ادب تخلیق ہوتا  رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ پنجابی ادب کا دامن بھی ایسی تحریروں سے خالی نہیں ہے۔ اسی ادب سے منتخب کردہ ایک شہ پارہ۔

محبت کبھی نہیں مرتی کی جیتی جاگتی عملی تصویر

گاڑی نے وسل دے کر سبز جھنڈی لہرا دی۔ 
ریل کار روانہ ہونے والی تھی۔ عین آخری لمحات میں ایک نو بیاہتا جوڑا اس کے سامنے والی سیٹوں پر آکر بیٹھ گیا۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے وہ ریل کی نرم اور آرام دہ سیٹ پر نہیں بیٹھا بلکہ ریل کی تپتی ہوئی آہنی پٹری پر اوندھے منہ پڑا ہے۔ 

لڑکی اسے دیکھ کر یوں ٹھٹک گئی جیسے وہ راولپنڈی جانے والی ریل کار کے بجائے غلطی سے ملتان جانے والی گاڑی میں سوار ہو گئی ہو۔ اس کے شوہر نے آگے بڑھ کر اپنے رومال سے سیٹ صاف کرتے ہوئے محبت سے کہا "بیٹھو انجی!" 
"انجی۔۔۔ انجی۔۔۔ انجی۔۔۔!" گویا اس پر چاروں طرف سے اس نام کے پتھر برسنے لگے۔ اس کا پوار وجود لہولہان ہوگیا۔ اسے یوں لگا جیسے تیز رفتار ریل کا انجن اس کے اوپر سے گزر گیا ہو اور اس کا جسم لوتھڑوں کی صورت ہوا میں منتشر ہو گیا ہو۔ 

لڑکی اپنی سیٹ پر کھڑکی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئی اور اس سے نظریں چرانے لگی۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کی موجودگی سے وہ پریشان ہوگئی ہے۔ اس نے وہاں سے اٹھ جانا چاہا اور اسی خیال سے کسی خالی سیٹ کے لئے اِ‌دھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں لیکن تمام سیٹوں پر مسافر بیغھے ہوئے تھے۔ کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ اتنا طویل سفر، لاہور سے راولپنڈی تک۔۔۔ وہ کھڑے ہوکر کیسے گزار سکتا تھا؟

وہ سیٹ پر بیٹھا رہا۔ تاہم تہ کیا ہوا اخبار کھول کر اپنے سامنے کر لیا تھا۔ وہ اس کی اوٹ میں خود کو چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ 
ریل کار حرکت میں آگئی۔ وہ کھڑکی سے لگی، گردن جھکائے شوہر سے سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگی۔ وہ بظاہر اخبار پڑھ رہا تھا لیکن اس کے اندر کوئی دیو ہیکل انجن جلدی جلدی پٹریاں بدل رہا تھا۔ آخرکار اس نے اخبار چھوڑ کر کھڑکی سے باہر کے مناظر میں پناہ لی۔ ہر طرف ریل کی پٹریوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ریل کے خالی اور ناکارہ ڈبے اِ دھر سے اُدھر خاموشی سے کھڑے ہوئے تھے اور کانٹے بدلتی، فاصلہ طے کرتی ریل کا رکو رشک بھری نظروں‌سے دیکھ رہے تھے۔ 
ریل کی بے شمار پٹریاں دیکھ کر اسے خیال آیا ، اگر وہ ریل کا انجن ہوتا تو بوکھلا جاتا اور ضرور کسی غلط پٹری پر جا کر کسی دوسرے انجن سے جا ٹکراتا۔

تصادم کے خیال سے اسے عجیب خوشی اور لذت محسوس ہوئی۔ اس کا جی چاہا کہ کاش وہ واقعی کوئی طاقتور ریل کا انجن ہی ہوتا جو سیٹیاں بجاتا، شور مچاتا، دھول مٹی اُڑاتا، دندناتا ہوا کسی دوسرے انجن سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتا۔ کسی انجن کے نیچے آکر ٹکڑے ٹکڑئ ہوجانے اور خود انجن بن کر کسی دوسرے انجن سے ٹکرا کر منتشر ہوجانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ 
ریل کار اب راوی پر سے گزر رہی تھی۔ 
بوٹنگ کرتے ہوئیے لوگ نظر آئے تو اس نے تڑپ کر انجم کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ دونوں تو ایک دوسرے میں گم تھے۔ انجم اپنے شوہر سے سرگوشیوں میں میٹھی میٹھی باتیں کر رہی تھی۔ شوہر بڑے انہماک کے ساتھ شیریں لبوں سے جھڑنے والے پھول چن رہا تھا۔

راوی کسی حسین لمحے کی طرح جلدی سے گزر گیا۔ 
اس کے دل پر دیر تک چپو چلتے رہے۔ سینے میں مقید سرد آہ گویا حلق میں آکر اٹک گئی۔ اچانک کھڑکی سے باہر کچھ فاصلے پر کھجور کے درختوں کے عقب میں چھپی ہوئی مقبروں کی عمارتیں کسی حسین سپنے کی طرح دکھائی دینے لگیں۔ جہانگیر اور نور جہاں کے مقبرے قریب قریب تھے لیکن ان کے درمیان ریل کی پٹریاں حائل ہوگئی تھیں۔ وہ زنجیر کھینچے بغیر چلتی ہوئی تیز رفتار ریل کار سے اتر گیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا پانچ برس کا طویل سفر طے کرنے لگا۔

پانچ برس قبل ایبٹ آباد میں ایک شام اسے انجم کا تار ملا تھا "فوراً  لاہور پہنچو۔"" 
اس نے لباس تک تبدیل نہیں کیا اور تار ملتے ہی لاہور کے لیے روانہ ہوگیا۔ اگلے دن علی الصباح خیبر میل سے اتر کر منہ ہاتھ دھوئے بغیر گرد آلود کپڑوں میں ہی بھاگم بھاگ گرلز ہاسٹل پہنچا۔ وہ اندر ہی اندر سخت پریشان تھا کہ انجم نے اسے کیوں بلوایا ہے۔ وہ اس کی خیریت کی دعائیں مانگتا ہوا منزل پر پہنچا لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ انجم کی آج چھٹی تھی اور وہ اس کے ساتھ سیر کی غرض سے کہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔ تو اس کی تمام تھکن دور ہو گئی۔ اس کا وجود خوشی اور چاہت سے سرشار ہوگیا۔

ایبٹ آباد سے لاہور تک کا سفر سمٹ کر ایک نقطہ بن گیا۔ سفر کی تکان ہوا ہوگئی۔ بس اور ٹرین کا طویل سفر اسے پھولوں کی ایک پینگ محسوس ہوا۔ اسے یوں لگا جیسے اس نے کسی فلم میں‌ہیرو کا بہروپ بھرنے کے لئے یہ گیٹ اَپ کیا تھا۔۔۔ یعنی شکن آلود لباس اور گرد میں اٹے بال۔

انجم سچ مچ نگاہوں کے کیمرے سے اس کی تصویریں اتار رہی تھی۔ پھر جب وہ ایبٹ آباد واپس چلا جائے گا تو فراق کے لمحات میں میں، تنہا اور تاریک کمرے میں بیٹھ کر آنکھوں کے کیمرے کی اس فلم کو اپنے آنسوؤں سے دھوئے گی اور تمام نیگیٹیوز کو یادوں کی کسی دو چھتی میں چھپا دے گی۔ پھر وہ لاکھ سر پٹختا رہے، اس کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ 
وہ بہت حیران ہوا۔ انجم یکایک اس پر اتنی مہربان کس طرح ہوگئی تھی۔ وہ تو ہمیشہ اس سے ہر تصویر چھپا کر رکھتی تھی لیکن آج۔۔۔؟ شاید وہ آج تک اسے آزما رہی تھی۔ شاید آج وہ اس کانٹے کا بھی ذکر کردے جو اسے اندر ہی اندر لہولہان کرتا رہتا تھا لیکن وہ بظاہر ہنستی، مسکراتی نظر آئی تھی۔ کوئی انجانا اندیشہ اسے ہر وقت روگی بنائے رکھتا تھا مگر وہ کچھ بتاتی نہ تھی۔ پوچھنے پر ہنس دیتی تھی۔

دونوں ایک دوسرے کی قربت سے مسرور ہنستے مسکراتے ایک ہوٹل میں چلے گئے۔ وہ چائے پینے سے پہلے اٹھ کر غسل خانے میں چلا گیا۔ منہ ہاتھ دھو کر بال درست کیے۔ پھر دونوں ناشتا کرنے لگے۔ وہ خوشی سے کھلی جا رہی تھی ۔ کہنے لگی

مجھے یقین تھا  تم ضرور آؤگے۔۔۔ میرا اندازہ تھا کہ تم خیبر میل سے پہنچو گے۔۔۔ مجھے معلوم تھا تم ناشتا بھی میرے ساتھ کروگے۔۔۔ میں‌جانتی تھی، تم ٹرین سے اتر کر سیدھے میرے پاس آؤگے۔۔۔ مجھے پتا تھا۔۔۔ مجھے یقین تھا۔۔۔ میں جانتی تھی۔۔۔ میں جانتی تھی۔۔۔

"تم نہیں جانتی انجی! میں نے تمھارے بغیر ولایت میں اتنا عرصہ کس طرح گزارا" اس کے شوہر نے کہا۔

"میں جانتی ہوں۔۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔" وہ مزید کچھ بھی نہ کہہ سکی ۔ ریل کار دوڑتی رہی ۔ مڑ کر دیکھے بغیر۔۔۔۔ وہ مڑکر دیکھ بھی نہیں سکتی تھی۔

اس کا جی چاہا کہ وہ اپنی انگلیوں کو چبا ڈالے تاکہ اسے معلوم ہو کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ اس نے اسی خیال کے تحت اپنے ہاتھ کو جنبش دی تاکہ انگلیوں پر دانت گاڑ کر اس اذیت ناک خواب سے جاگ جائے لیکن۔۔۔۔ اس کے تو دونوں ہاتھ ہی موجود نہیں تھے پھر اس نے دیکھ کہ اس  کی دونوں ٹانگیں بھی غائب ہیں۔ گویا اس کا وجود ہوا میں تحلیل ہوگیا تھا۔ اس نے گھبرا کر اپنے جسم کو ٹٹوولا مگر وہ سیٹ جو اس نے اپنے لئے ریزرو کرائی تھی۔۔۔۔ اب خالی پڑی تھی۔ 
اسی وقت ، عین اسی لمحے جب وہ خود کو تلاش کر رہا تھا، اچانک اس کے قریب جیسے کوئی کلی چٹخی۔ جانی پہچانی خوشبو کا ایک ہلکا سا جھونکا آیا ۔ اس نے سکون کا سانس لیا۔ یہ جان کر کہ وہ مطمئن ہوگیا کہ جسم کے بغیر بھی وہ سونگھ سکتا ہے۔ سن سکتا ہے، سوچ سکتا ہے، رو سکتا ہے  اور گا سکتا ہے۔ وہ گانے لگا۔
"ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں
مینوں لے چلے بابلا لے چلے"

وہ گاتا رہا۔ درخت ، گاؤں، کچے پکے راستے، کھیت اور ریلوے اسٹیشن یکے بعد دیگرے گزرتے رہے۔ اسے ہیر وارث شاہ کے کئی اشعار ازبر تھے۔ ایک بند ختم ہوا تو اس نے دوسرا شروع کردیا۔ 
"وارث رن، فقیر، تلوار، گھوڑا 
چارے تھوک ایہہ کسے دے یار ناہیں"

اس کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ اس کی آواز میں بڑا درد اور سوز تھا۔ مگر پوری بوگی میں کسی نے بھی اس کے گانے پر توجہ نہ دی جیسے تمام لوگ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر بیٹھے ہوں۔ وہ دونوں بدستور سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ وہ اس کے گانے سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے تھے۔ وہ خود ہی چپ ہو گیا۔ اس کا دل بیٹھ گیا اور مقدر سوگیا۔ 

بوگی میں کہیں ویت نام اور امریکا پر تو کہیں سوشلزم پر گفتگو ہو رہی تھی۔ کوئی ہنی مون اور مری کے نظاروں کا ذکر کر رہا تھا۔ اسے ڈائننگ کار کے بیرے پر بڑا ترس آیا۔  اس بے چارے کی بات کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ ڈائننگ کار کے بیرے کو بلا کر اپنے قریب بٹھائے اور اسے ہیر وارث شاہ کے اشعار سنائے۔ اسی وقت مری، سوات اور ہنی مون کے الفاظ کا شور اس قدر پھیل گیا کہ ویت نام،  امریکا، سوشلزم اور ڈائننگ کار کے بیرے کی آواز اس میں دب کر رہ گئی ۔

اس نے بڑے شور سے  بچنے کے لئے اپنے کانوں میں گاڑی کا شور بھر لیا۔ پھر وہ کھڑکی سے باہر ٹیلی فون کے لائن کے تار  اور کھمبے گننے لگا۔ ابھی وہ بارہ ہی کھمبے گن پایا تھا کہ ایک کھمبے کا فرق آگیا۔"  نہ جانے یہ تیرہواں کھمبا تھا یا چودھواں۔ وہ اسی الجھن میں تھا کہ دو تین کھمبے اور گزر گئے۔ اب جو کھمبا سامنے تھا جانے یہ سولہواں تھا یا سترہواں؟ اگر چودھواں  اصل میں تیرہواں تھا تو پھر یہ پندرہواں  ہونا چاہیے۔ یا شاید سولہواں تھا۔۔۔ لیکن پندرہواں تو اصل میں چودہواں تھا اور اس حساب سے۔۔۔"

"میری صرف پندرہ  چھٹیاں باقی رہ گئی ہیں ۔انجی!"
"اور ۔۔۔ اس حساب سے بیسواں اصل میں پندرہواں ۔۔۔ نہیں انیسواں ۔۔۔ سولہواں تو بالکل غلط گن گیا۔ وہ دراصل پندرہواں کھمبا تھا۔ اصل میں کھمبے صرف پندرہ ہی تھے۔ ہر پندرہویں کھمبے کے بعد پہلا کھمببا شروع ہوچاتا ہے لیکن وہ تمام کھمبوں کو گن گن کر پندرہ پر تقسیم بھی تو کر سکتا ہے۔ اسے یاد آیا کہ اس نے بچپن میں میں بہت سی چیزیں سیکھی تھی۔  ستاروں کی تعداد تو اب اسے  یاد نہیں رہی تھی لیکن ایک میل کے درمیان سترہ کھمبے تھے۔ اس نے سترہ کھمبوں سے ایک سو پچھتر میلوں کو ضرب دیا۔ دس میل لمبی  اس ضرب میں بے شمار چیزیں شامل ہو گئیں ۔ درخت، کھیت، چلتے پھرتے دیہاتی لوگ، جانور، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور ریلوے لائن کے متوازی جاتی ہوئی شاہراہ اعظم کی بسیں، ٹرک، کاریں، ریڑھے اور ٹاہلی کے بے شمار درخت!
اس حساب سے نہ جانے کتنی بھیڑیں، کتنے ٹرک، درخت اور کھمبے حاصل ضرب تھے۔ اب معلوم نہیں اس ضرب کو پندرہ میلوں پر تقسیم کرنا تھا یا پندرہ بکیروں پر؟ لیکن وہ تو کھمبے گن رہا تھا۔ بارہ کھمبے اس نے صحیح سالم گن لئے تھے۔ تیرہویں کھمبے کا گھپلا ہوگیا تھا۔ اسے اپنے حساب  میں  نہ آنے والا تیرہواں کھمبا شدت سے یاد آتا تھا۔
بے چارہ تیرہواں کھمبا !
"بارہ برس بعد تو رُوڑی کے دن بھی پھر جاتے ہیں" یہ مثل اس نے سنی ہوئی تھی۔ 
پھر یہ تیرہواں کھمبا کس طرح گنتی میں آنے سے رہ گیا؟ 
نہ جانے کس  ویران جگہ پر خاموش اور تنہا کھڑا ہوگا بے چارہ ۔۔۔۔! نہ جانے کیا سوچ رہا ہوگا۔"
پھر اسے "تیرہ" کے محاورے یاد آنے لگے۔
"نہ تین میں نہ تیرہ میں۔"
"نو نقد نہ تیرہ ادھار۔"
"چناب آگیا انجی!" اس کے شوہر نے کہا " اور یہ لو چائے، چکن سلائس اور شامی کباب۔"
اس نے ناک سکوڑ کر کہا "میں نہیں کھاتی یہ کباب، اس میں سے کیسی بو آرہی ہے۔"
"انجی ! یہ مچھلی کے کباب ہیں۔ آج گوشت کا ناغہ ہے نا۔"
"شاید باسی مچھلی تھی۔۔۔ بڑی خراب بو آرہی ہے۔" انجم نے بدستور  ناگواری سے کہا۔ 
اس کی رانوں میں درد ہونے لگا۔ اس کے دل میں آیا کہ زخمی ران سے تمام پٹیاں نوچ کر اسے دکھائے اور بتائے " آج طورفان  اور بارش کی وجہ سے مجھے کوئی مچھلی نہ مل سکی اس لئے میں نے اپنی رانیں چیر کر تمھارے لئے کباب تلے ہیں۔۔۔ مگر تمھیں ان میں سے بو  آ رہی ہے۔! تم انہیں باسی کہتی ہو؟"
لیکن وہ یہ سب کچھ کہہ نہ سکا اور سگریٹ سلگا کر پینے لگا۔ وہ چکن سلائس کھاتے ہوئے چائے پیتی رہی ۔اس کے شوہر نے کہا "انجی! مجھے ستار بہت پسند ہے۔ میرا ایک دوست بہترین ستار نواز ہے۔ کبھی سنیں گے۔"
اس نے ریل کار میں بیٹھے بیٹھے ٹیلی فون لائن کے کھمبے اکھاڑے اور پھر ان کو آگے پیچھے کر کے گاڑ دیا۔ اس طرح ڈھیلے تار تن گئے۔ اس نے کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر بازو  دراز   کیا اور ستار بجانے لگا۔ ستار بجاتے بجاتے اس کی  انگلیاں لہولہان ہو گئیں۔ گجرات سے جہلم تک ٹیلی فون لائن کی تمام تاریں سرخ ہوگئیں مگر اسے کسی نے داد نہ دی۔ جہلم اسٹیشن پر ریل کار رکی اور اس کا شوہر کسی کام سے نیچے اترا تو اس کا جی چاہا کہ وہ آگے بڑھ کے انجم کا ہاتھ تھام لے اور مخالف سمت کے دروازے سے نیچے اتر جائے۔ اور واپس لے جاکر اس وہ سارے تار دکھائے جو اس کی انگلیوں کے لہو سے سرخ ہوگئے تھے۔ پھر وہ دونوں پٹری کے ساتھ ساتھ چلتے  وارث شاہ  کے بکھرے  ہوئے مصرعے چنیں ۔۔ ۔ اور گنتی سے رہ جانے والے تنہا، اداس اور ویران تیرہویں کھمبے سےجا کر لپٹ جائیں۔ پھر وہ اتنا روئیں کہ اس کھمبے کے ارد گرد اور کچھ نہیں تو  کم سے کم گھاس ہی اُگ آئے۔ پھر اس نے سوچا کہ وہ کوئی ایسی بات کہے کہ انجم ایک بار اس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جائے مگر اسے کوئی جملہ نہ سوجھ سکا۔ وہ خاموش رہا۔ وہ بار بار اس دروازے کی طر ف بے چینی سے دیکھ رہی تھی جہاں سے اس کا شوہر اترا تھا۔ 
ایک بار اسے یہ خیال بھی آیا کہ وہ اس لڑکی کو بالکل نہیں پہچانتا ۔ نہ جانے کون ہے؟
اس کا شوہر آیا تو وہ اس سے جھگڑنے لگی " آپ نے اتنی دیر کیوں لگا دی؟"
وہ ہنس دیا، کہنے لگا "تم تو بچوں کی طرح گھبرا جاتی ہو انجی!"
شام ہوگئی وہ کھڑکی کے شیشے میں اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے کے پس منظر میں ٹیڑھے میڑھے درخت، اداس کھمبے اور خشک پہاڑیاں تھیں۔ تاریک بڑھتی جا رہی تھی ۔ جس قدر اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا، شیشے میں اس کی تصویر شوخ اور واضح ہوتی جا رہی تھی۔ وہ اس اندھیرے کو دعائیں دینے لگا۔ 
لیکن وہ اس اندھیرے سے سہم  گئی تھی۔ جیسے اس کے ارد گرد انسان نہیں چڑیلیں شور مچا رہی ہوں۔ وقت ایک سیاہ عفریت کی طرح  اس کے چہرے کے پس منظر میں ساتھ ساتھ  بھاگا جا رہا تھا۔ وہ اس قدر ڈر گئی تھی کہ وہ بھی اسے دیکھ کر سہم گیا۔ کھڑکی کے شیشے میں وقت کا عفریت تھا جسے وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اٹھا اور بوگی کے  دروازے پر آن کھڑا ہوا۔ 

اس کی طرف دونوں کی پشت تھی۔ وہ دونوں کے چہرے تو نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ سامنے والی سیٹ خالی ہوتے ہی کھڑکی سے باہر والا عفریت کسی کھمبے سے ٹکرا کر مر گیا ہوگا۔ اس نے خالی سیٹ پر اپنے مہندی سے رچے  ہوئے پاؤں رکھ لئے ہوں گے اور بڑے سکون سے پہلے کی طرح دوبارہ اپنے شوہر سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگی ہوگی۔ 
اسے ایک بار پھر تیرہواں کھمبا یاد آیا۔ نہ جانے کس ویران جگہ پر اداس کھڑا ہوگا اور نہ جانے کیا سوچ رہا ہوگا۔ بے چارہ۔۔۔ گنتی میں آجاتا تو کتنا خوش ہوتا۔ 
پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ کھمبا پیچھے نہیں رہ گیا بلکہ  ساتھ ساتھ ہی دوڑا چلا آرہا ہے ۔ اس نے تاریکی میں آنکھیں پھاڑ کر گھورا اور حیران رہ گیا۔ "یہ تو وہی تیرہواں کھمبا ہے جو بار بار نظر آرہا ہے۔"
بارہ تک اس نے گنتی صحیح گنی تھی۔ جب تک وہ اس  تیرہویں کھمبے کو شمار نہیں کرلے گا یہ ساتھ ساتھ دوڑتا رہے گا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ چھلانگ مار کر اس کھمبے سے لپٹ جائے لیکن اسی لمحے ہوا کا ایک جھونکا اس سے لپٹ کر کہنے لگا ۔ 
"باہر مت جانا، بہت اندھیرا ہے۔"
اس نے دروازہ بند کرنا چاہا تو سرد ہوا کے بے شمار جھونکے دروازے پر دستک دینے لگے۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔ ہوا کے جھونکے  سسکتے ہوئے اندر آنے لگے ۔ اس نے تاریکی سے خوف زدہ اور سہمے ہوئے ہوا کے جھونکوں  کو اپنے سلگتے ہوئے وجود میں پناہ دی۔ اس طرح اسے بہت سکون محسوس ہوا پھر اس نے اپنے جلتے ہوئے بدن سے سگریٹ سلگایا۔ چنگاریاں اُڑیں اور اپنے ہی سگریٹ کا دھواں اس کی آنکھوں میں گھس گیا۔
ہوا کے سرد جھونکے اس کے جسم کے گرد لپٹے جا رہے تھے اور ریل کار پہاڑیوں کے درمیان بھاگی جا رہی تھی ۔ چہار سو تاریکی پھیلی  ہوئی تھی۔ کبھی کبھی کسی پہاڑی گاؤں میں روشن کوئی دیا ٹمٹماتا نظر آجاتا۔ ریل کار تیزی سے فاصلے سمیٹ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اسے کے پہیوں  کے نیچے خوفناک عفریت کٹتے جا رہے تھے۔ وسل دیتی،  سرنگیں پار کرتی، ریل کار اڑی چلی جارہی تھی۔ بوگی میں اب شور بہت کم ہوگیا تھا۔ ہر شخص اونگھ رہا تھا ۔ کچھ لوگ تھکے تھکے سے انداز میں اپنے ساتھیوں سے باتیں کر رہے تھے۔ مسافروں کے چہروں پر تھکاوٹ اور بیزاری عیاں تھی۔ 
اچانک ریل کار کی رفتار گھٹنے لگی اور ایک جھٹکے سے رک  گئی۔ لوگ ایک دوسرے پر گر گئے۔ "کیا ہوا؟"
"سگنل ڈاؤن نہیں ہوگا۔"
بھائی کوئی  نیچے تو نہیں آگیا۔"
کسی کے نیچے آجانے کی بات سن کر وہ لرز گئی۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کے اوپر سے ریل کار گزر گئی ۔ اس کا رنگ  فق ہوگیا اور چیخ کر بولی " ہائے میں مر گئی۔۔۔۔ اس نے خود کشی کر لی ہوگی۔" 
"کس نے  خود کشی کر لی ہوگی۔۔۔ اور تمھیں کیا ہوگیا انجی!"
"اس نے ۔۔۔" وہ سسکتی ہوئی سامنے کی خالی سیٹ کی طرف دیکھ کر بولی " جو یہاں۔۔۔ سامنے کی سیٹ پر بیٹھا تھا۔"
اس کے شوہر نے پلٹ کر دروازے  کی طرف دیکھا۔ وہ دروازے پر کھڑا سگریٹ کے کش لیتا ہوا، ہوا کے جھونکوں سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ جیسے اس کے کھمبوں کی گنتی درست ہو گئی ہو۔ 

بشکریہ: سسپنس ڈائجسٹ۔

دستِ عصائے معجزہ گر بھی اُسی کا ہے



دستِ عصائے معجزہ گر بھی اُسی کا ہے
گہرے سمندروں کا سفر بھی اُسی کا ہے

میرے جہاز اسی کی ہواؤں سے ہیں رواں
میری شناوری کا ہنر بھی اسی کا ہے

لشکر زمیں پہ جس نے اتارے ہیں رات کے
کھلتا ہوا نشانِ قمر بھی اسی کا ہے

آب رواں اسی کے اشارے سے ہے سراب
بادل کے پاس گنجِ گہر بھی اسی کا ہے

جو خشک ٹہنیوں سے اگاتا ہے برگ و بار
موسم تمام اس کے شجر بھی اسی کا ہے

منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں
حیرانیوں میں ذوقِ نظر بھی اسی کا ہے

بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ
ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے

تیغِ ستم کو جس نے عطا کی ہیں مہلتیں
فریادِ کشتگاں میں اثر بھی اسی کا ہے

تیرا یقین سچ ہے مری چشمِ اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے

مجرم ہوں اور خرابہء جاں میں اماں نہیں
اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے

خود کو چراغ راہ گزر جانتا ہوں میں
لیکن چراغِ راہ گزر بھی اسی کا ہے

عرفان صدیقی

کھڑکی ۔ اسد محمد خان

کھڑکی
اسد محمد خان

دوسروں کو بہادری کا سبق دینے والوں پر بھی کبھی ایسا وقت آ جاتا ہے ۔ ایک کھڑکی کی کہانی جس کے پار بحران کے ایک لمحے کا حل تھا۔ افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، شاعر اور کہانی کار اسد محمد خان کی کہانی ۔جسے صرف وہی لکھ سکتے تھے۔ آپ کے اعلٰی ذوق کی نذر:

میں نے پہلی بار اسے اپنے محلے کے ایک کلینک میں دیکھا تھا مجھے ڈاکٹر سے کسی قسم کا سرٹیفیکیٹ لینا تھا اور وہ انجکشن لگوانے آئی تھی۔ آئی کیا بلکہ لائی گئی تھی۔ ایک نوجوان جو شاید چچا یا ماموں ہوگا اسے گود میں اُٹھائے سمجھا رہا تھا کہ سوئی لگوانے میں زیادہ تکلیف تو نہیں ہوتی البتہ ٹافی کھانے کو ملتی ہے اور امی پر اور دوسرے لوگوں پر رعب الگ پڑتا ہے۔ بات یقینا اس کی سمجھ میں آ رہی تھی۔ رعب شاید سمجھ میں نہ آ رہا ہوگا لیکن ٹافی کا سن کر ذرا حوصلہ مند دکھائی دی تھی پھر تھوڑی دیر بعد وہ فکر مند اور خوف زدہ ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگتی تھی جدھر سے کمپاؤنڈر کو سوئی لے کر آنا تھا۔

چچا ماموں کی نشست ایسی تھی کہ وہ میری طرف پیٹھ کئے بیٹھا تھا اس کے پہلو اور بانہوں سے جیسے کھڑکی سی بن گئی تھی اور اس کھڑکی میں سے اس کا پورا چہرہ، اس کا ایک ایک تاثر مجھے صاف نظر آ رہا تھا۔ کھڑکی سے دیکھتے ہوئے ایک بار میری نظریں اس سے ملیں۔ اس وقت چچا ماموں اُسے سمجھا رہا تھا کہ تیرا بھائی جان تو انجکشن لگواتے ہوئے روتا ہے۔ ڈرتا ہے نا! اس لئے روتا ہے۔ تو بالکل نہیں ڈرتی، بڑی بہادر ہے۔

جس وقت چچے ماموں نے یہ بات کہی ٹھیک اس وقت منی بانہوں کی کھڑکی سے جھانک کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔ اس بات سے اتفاق کیا۔ منی نے جب دیکھا کہ چچا ماموں کے علاوہ دوسرا کوئی اسے بہادر سمجھ رہا ہے تو وہ ہولے سے مسکرادی۔ میں نے دیکھا کہ وہ اترا کر مسکرائی تھی۔ جیسے مجھے اپنی بہادری کے رعب میں لے رہی ہو۔ جتنی دیر میں کمپاؤنڈر آیا اتنی دیر میں منی اشاروں میں مجھے سمجھا چکی تھی کہ اصل میں وہ بڑی بہادر ہے۔ انجکشن ونجکشن سے بالکل نہیں ڈرتی۔

میں نے بھی بانہوں کی کھڑکی سے رازدارانہ دیکھتے ہوئے سر ہلا ہلا کر اس بات سے اتفاق کیا اور بتا دیا کہ میں پوری طرح اس کی بہادری کے رعب میں آگیا ہوں۔ منی نے اپنی نو دریافت دلیری کے غرور میں ذرا سر اٹھایا تھا کہ سامنے سوئی اُٹھائے کمپاؤنڈر آن کھڑا ہوا۔ بہادری اور خوف کی کسی درمیانی کیفیت میں اس نے ہلکی سی آواز نکالی اور گھبرا کر بانہوں کی کی کھڑکی کے پار شاید مدد کے کے لئے میری طرح دیکھا۔ اس وقت کمپاؤنڈر نے اس کے بازو پر اسپرٹ میں بھیگی روئی ملنا شروع کردی تھی۔ منی متوقع تکلیف کے خیال سے منہ بسورنے لگی ٹھیک اس وقت جب کہ وہ آواز سے رو سکتی تھی میری نظریں اسکی نظریں پھر ملیں۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی مٹّھیاں بنا کر ہمت والوں کی سی شکل بنائی اور مسکرا کر شاید آنکھوں کے کسی اشارے سے اسے یاد دلایا کہ وہ تو بڑی بہادر ہے۔

بحران کے اس لمحے میں بھی منی نے میری بات سمجھ لی۔ اس نے منہ بسورنا بند کردیا اور آواز نکالے بغیر انجکشن لگوالیا۔ میں نے اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھا ملا کر تعریف کا اشارہ دیا۔ اور منی اپنے اس چچا یا ماموں کی گود میں چڑھی ہوئی کلینک سے چلی گئی۔

کمپاؤنڈر اور منی کا چچا یا ماموں حیران تھے مگر مجھ کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی منی واقعی بہادر تھی۔

اس بات کو بہت دن ہوگئے ۔ میں یہ واقعہ اور منی کا چہرہ کچھ کچھ بھول چلا تھا۔ باہر کڑواہٹ اور دکھ ہو تو میٹھے چہرے اور بھولی باتیں کب تک یاد رہ سکتی ہیں۔ میں خود ایک بحران سے گزر رہا تھا میرے والد دماغ کی رگ پھٹ جانے پر طویل بے ہوشی میں تھے۔ وہ ملک سے باہر تھے میں اپنے سفری کاغذات کی تیاری میں مصروف تھا۔ ساتھ ہی دن میں کئی کئی بار ان کے تیمارداروں سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنا چاہتا تھا تھا مگر مجھے ناکامی ہورہی تھی۔ کاغذات بننے میں دیر تھی۔ نہ وہاں جا سکتا تھا نہ کسی سے بات کر سکتا تھا۔ عجیب بے بسی کا عالم تھا۔ تیسرے چوتھے دن عزیزوں کی طرف سے ایک تار آجاتا تھا۔ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی دعا کیجے۔ پھر آخری تار آیا کہ خدا مغفرت کرے وہ گزر گئے۔

میں بچپن کے ایک دوست کے ہمراہ تار گھر پہنچا اور جیسے ہوش و حواس سے عاری کوئی شخص ہوتا ہے بالکل اسی طرح بلند آواز میں لوگوں کو اپنے ذاتی نقصان کے بارے میں بتانے لگا پھر وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے چھوٹوں کے نام ایک تار لکھا جس میں انہیں تسلّی دینے کے بجائے یہ لکھا کہ سفر کا ارادہ میں نے ترک کردیا ہے کیونکہ اب کوئی فائدہ نہیں۔ جس کے لئے سفر کرتا وہی نہ رہے۔

میں یہ سب کچھ کر رہا تھا اور اس بات سے بے خبر تھا کہ تار گھر کی بنچ پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کے شانے سے لگی کوئی بچی اچک اچک کر مجھے دیکھنے یا متوجہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لوگ سامنے سے ہٹے تو دیکھنے کے لئے ایک کھڑکی سی بن گئی۔ میں نے اس کھڑکی میں سے پہچان لیا۔ یہ منی تھی۔ منی مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ اس کے چھوٹے سے ذہن نے اسے بتا دیا تھا کہ مجھے ضرور کوئی پریشانی ہے یا شاید میں ڈرا ہوا ہوں۔ اس لئے وہ مسکرائی اور اس نے ننھی ہتھیلیاں اپنی آنکھوں پر ملیں جیسے مجھے آنسو پونچھ لینے کی ترغیب دے رہی ہو پھر اس نے دونوں ہاتھوں کی مٹّھیاں بنا کر ہمت والوں کی سی شکل بنائی اور مسکرانے لگی۔ بالکل اسی طرح جیسے مہینوں پہلے میں اسے ہمت دلا کر مسکرایا تھا۔

میں نے دکھ بڑھانے والا وہ تار پھاڑ کر پھینک دیا اور نئے تار میں اپنے چھوٹوں کو لکھا کہ حوصلہ رکھو، میں آ رہا ہوں۔


بشکریہ ۔ روزنامہ اُمت



زبیر رضوی کی چار نظمیں

زبیر رضوی کی چار نظمیں

صفا اور صدق کے بیٹے

پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
سوادِ شرق کا اک شہر
تاریکی میں ڈوبا تھا
اچانک شور سا اُٹھا
زمیں جیسے تڑخ جائے
ندی میں باڑھ آجائے
کوئی کوہِ گراں جیسے
جگہ سے اپنی ہٹ جائے
بڑا کہرام تھا
خلقت
متاع و مال سے محروم، ننگے سر
گھروں سے چیخ کر نکلی
مگر آلِ صفا و صدق کے خیمے نہیں اُکھڑے
وہ اپنی خواب گاہوں سے نہیں نکلے
روایت ہے
صفا و صدق کے بیٹے
ہمیشہ رات آتے ہی
حصارِ حمد
اپنے چار جانب کھینچ لیتے تھے
مقدس آیتوں کو اپنے پہ
دم کرکے سوتے تھے
روایت ہے
بلائیں اُن کے دروازوں سے
واپس لوٹ جاتی تھیں
سوادِ شرق کا وہ شہر
اُس شب ڈھیر تھا لیکن
صفا و صدق کی اولاد کے خیمے نہیں اُکھڑے!



بنی عمران کے بیٹے

پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
بنی عمران کے بیٹوں کی
شادابی کا عالم تھا
امارت اور ثروت
ان کو ورثے میں ملی تھی
اُن کے تہہ خانے جواہر سے بھرے ہوتے
کنیزیں، داشتائیں
جسم کی انمول سوغاتیں لئے
کھل کھیلتی رہتیں
مصاحب رات بھر دیوان خانوں میں
بنی عمران کی عیّاشیوں کی
داستاں کہتے
رو پہلی صحبتوں کا تذکرہ کرتے
اچانک مخملیں پردے سرکتے
اک پری چہرہ
الف لیلیٰ کے سب سے خوبصورت
جسم کی صورت
تھرکتی ، دف بجاتی
خواہشوں کو دعوتیں دیتی
بنی عمران کے بیٹے
اشارہ کرتے اور سارے مصاحب
سر جھکائے ، تخلیہ کرتے
بنی عمران کے بیٹے
نشے میں چُور
اپنی خواب گاہوں سے نکلتے
صبح سے پہلے
سپیروں کو بُلاتے
اور الف لیلیٰ کے
سب سے خوبصورت جسم کو
سانپوں سے ڈسواتے
مصاحب داخلہ پاتے
بنی عمران کی بدکاریوں کو
نیچے تہ خانے میں جاکر دفن کر آتے!




قصہ گورکنوں کا

پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سے لگتی ہے
وہ ایسے گورکن تھے
چار، چھ قبریں
ہمیشہ مرنے والوں کے لئیے تیار رکھتے تھے
کوئی مرتا
تو وہ روتے
سیہ چادر لپیٹے مرنے والے کی
بہت سی خوبیوں کا تذکرہ کرتے
اعزّا، اقربا سے تعزیت کرتے
جنازہ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے
اور دفناتے ہوئے ہر رسم کی تکمیل کرواتے
وہ ایسے گورکن
چالیسویں دن تک
سبھی تازہ بنی قبروں پہ
ہر شب روشنی کرتے
جمعہ کے دن
سپارے پڑھ کے
مرحومین کے حق میں
دعائے مغفرت کرتے
مگر اک دن کہ جب
قبریں پُرانی اور خستہ ہو چکی تھیں
اُن کی اولادوں نے
قبروں پر لگی لوحیں اُکھاڑیں
تازہ قبروں کے لئے ہر سو
زمیں ہموار کی
وہ بھی
بزرگوں کی طرح روتے
سیہ چادر لپیٹے مرنے والے کے
اعزّا، اقربا سے تعزیت کرتے
جنازہ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے
اور دفناتے ہوئے ہر رسم کی تکمیل کرواتے
مگر جب رات آتی تو
وہ قبریں کھودتے
اور تازہ دفنائی ہوئی لاشوں کو
لاوارث بنا کر
شہر کے مردہ گھروں کو بیچ آتے تھے۔





انجام قصّہ گو کا

پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
وہ شب وعدے کی شب تھی
گاؤں کی چوپال
پوری بھر چکی تھی
تازہ حقّے ہر طرف رکھے ہوئے تھے
قصّہ گو نے
ایک شب پہلے کہا تھا
صاحبو!
تم اپنی نیندیں بستروں پر چھوڑ کر آنا
میں کل کی شب تمھیں
اپنے سلف کا
آخری قصّہ سناؤں گا
جگر کو تھام کر کل رات تم چوپال میں آنا
وہ شب وعدے کی شب تھی
گاؤں کی چوپال پوری بھر چکی تھی
رات گہری ہو چلی تھی
حقّے ٹھنڈے ہوگئے تھے
لالٹینیں بجھ گئی تھیں
گاؤں کے سب مرد و زن
اُس قصّہ گو کی راہ تکتے تھک گئے تھے
دُور تاریکی میں گیدڑ اور کتے
مل کے نوحہ کر رہے تھے
دفعتاً بجلی سی کوندی
روشنی میں سب نے دیکھا
قصّہ گو برگد تلے
بے حس پڑا تھا
اُس کی آنکھیں
آخری قصّہ سنانے کی تڑپ میں جاگتی تھی
پر زباں اُس کی کٹی تھی
قصّہ گو کا، ان کہا
اپنے سلف کا
آخری قصّہ لبوں پر کانپتا تھا!








بشکریہ:

مکالمہ ۶۔ کراچی
جون ۔۔۔ ستمبر ۲۰۰۰