معروف غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
معروف غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

غزل

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

منیر نیازی

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے ۔ خواجہ حیدر علی آتش

آج کی معروف غزل

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے

پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے

لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے

ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارہء سحری تکمہء گلُو کرتے

یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے

سکھاتے نالہء شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے

خواجہ حیدر علی آتش

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہوا نے باندھ دیا رات سلسلہ ایسے

آج کی معروف غزل

ہوا نے باندھ دیا رات سلسلہ ایسے
بلا رہا ہے کوئی دور سے لگا ایسے

جہاں بھی دیکھو وہاں پھول کھلنے لگتے ہیں
زمیں پہ چھوڑ گیا کوئی نقشِ  پا ایسے

ہمیں لگا کہ کوئی شعر کہہ لیا ہم  نے
ذرا سی دیر کہیں کوئی مل گیا ایسے

سکوت ایسا کہ اب خاک تک نہیں اڑتی
ہوائیں بھول بھی سکتی ہیں راستہ ایسے

- نامعلوم -

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے ۔ احمد فراز

آج کی معروف غزل

پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے
جسے قرار نہ آیا کہیں بھلا کے مجھے

جدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ ملیں
فریب دو تو ذرا سلسلے بڑھا کے مجھے

نشے سے کم تو نہیں یادِ یار کا عالم
کہ لے اُڑا ہے کوئی دوش پر ہوا کے مجھے

میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گے آئینہ دکھا کے مجھے

تمہارے بام سے اب کم نہیں ہے رفعتِ دار
جو دیکھنا ہو تو دیکھو نظر اٹھا کے مجھے

کھنچی ہوئی ہے مرے آنسوؤں میں اک تصویر
فراز دیکھ رہا ہے وہ مسکرا کے مجھے

احمد فراز

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح ۔ مرتضیٰ برلاس

آج کی معروف غزل 

آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح 
جسم سُلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح

لوریاں دی ہیں کسی قُرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح

اس بلندی سے مجھے تونے نوازا کیوں تھا
گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

مجھ سے ملتے ہوئے  یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سما جاؤں گا دھڑکن کی طرح

اب زلیخا کو نہ بدنام کرے گا کوئی 
اس کا دامن بھی دریدہ مرے دامن کی طرح

منتظر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لئے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح

مرتضیٰ برلاس

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ کچھ دن تو بسو مِری آنکھوں میں ۔ عبید اللہ علیم

آج کی معروف غزل

کچھ دن تو بسو مِری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو مِرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا

اِک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے اگر  شرماؤ تو کیا

تم آس بندھانے والے تھے
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

اِک وہم ہے یہ دُنیا اس  میں
کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا

ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

عبید اللہ علیم