پروین شاکر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پروین شاکر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

آنکھوں سے مِری کون مرے خواب لے گیا

غزل​

آنکھوں سے مِری کون مرے خواب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا

اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ
کِس دل زدہ کا گریہ خونناب لے گیا

کُچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا
کُچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا

واں شہر ڈُوبتے ہیں یہاں بحث کہ اُنہیں
خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا

کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا

طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا

غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا

اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
"مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا!"

پروین شاکر​

کچھ علاج اس کا بھی ۔۔۔۔



پروین شاکر نے کہا تھا :

ملنا، دوبارہ ملنے کا وعدہ، جدائیاں
اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے

واقعی جب وقت گذر جاتا ہے تو ایسا ہی لگتا ہے حالانکہ لمحہ موجود میں آنے والے سنگِ میل کے لئے سعی اور اس کا انتظار بہت کٹھن ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے سیاسی منظر نامے میں بھی ہوا اپنے مشرف صاحب وردی بلکہ عہدہ صدارت سے بھی عہدہ برا ہوگئے ، عدلیہ آزاد ہوگئی چیف جسٹس بھی بحال ہوگئے ، این آر او بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا، قومی مالیاتی ایوارڈ (عوامی پیسہ کی بندر بانٹ ) کا دیرینہ معاملہ بھی نمٹ گیا اور تو اور اٹھارویں ترمیم بھی اللہ اللہ کرکے پاس ہو ہی گئی جس کے تحت ہمارے صوبہ سرحد کو ایک کی جگہ دو نام مل گئے۔ گو کہ عرصہ دراز تک یہ تمام امور ناممکنات میں سے ہی نظر آتے تھے لیکن وقت آنے پر پایہ تکمیل تک پہنچ ہی گئے ۔

اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ جانے سے میڈیا والوں کے سر پر یہ سوال آ کھڑا ہوا کہ اب کیا کریں بالکل ایسے ہی جیسے ہر گھر میں روز یہ سوال ہوتا ہے کہ آج کیا پکائیں یا پھر ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں بچے امتحانات کے بعد کی فراغت کے بارے میں سوچتے ہیں کہ یہ سنہری لمحات کیسے گزارے جائیں ۔ امتحانات کے بعد بچوں کی فارغ البالی تو قابلِ دید ہوتی ہی ہے لیکن آج کل میڈیا والوں کی خوش دلی بھی دیدنی ہے۔ اپنی شادی کے سہرے کے علاوہ اس بات کا سہرا بھی شعیب ملک کے سر جائے گا کہ اُنہوں نے عین فراغت کے دنوں میں وہ گُل کھلائے کہ اُن کے ساتھ ساتھ میڈیا والوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے۔ اب دن ہو یا رات خبر نامہ انڈین گیتوں اور شعیب اور ثانیہ کی تصاویر اور ویڈیوز سے مزین نظر آتا ہے نہ جانے کہاں کہاں سے حسبِ حال فلمی گیت ڈھونڈے جا رہے ہیں اور ہر دوسری رپورٹ اس مستقبل کی شادی کی مُووی کا سماں پیش کرتی ہے۔

اسی پر بس نہیں ہے بلکہ ہمارے ایک اور"کھلاڑی" اور شو بز کی ایک حسینہ بھی میڈیا والوں کے بُرے وقت میں کام آرہے ہیں اور اپنے بُرے وقت کو دعوت دے رہیں ہیں۔ میڈیا والے بھی روز دونوں کو آن لائن لا کر مناظرے کا اہتمام کرتے ہیں۔اس قصے میں یہ بات بڑی عجیب ہے کہ کھلاڑی صاحب حسینہ کی محبت کے ساتھ ساتھ کچھ رقم کے بھی مقروض ہیں اور حسینہ اُن سے یہ رقم سرِ عام مانگ رہی ہیں۔ حسینہ کا کہنا ہے کہ کھلاڑی نے اُن کی دولت کے علاوہ اُن میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن حسینہ کے لئے کھلاڑی موصوف میں کوئی خاص دلچسپی کی بات نہیں ہے ۔ بغیر دلچسپی کے اتنی شاہ خرچیاں بھی کوئی کوئی ہی کرتا ہے۔

بہر کیف وقت گزاری کے لئے میڈیا کے یہ مشاغل واقعی بہت اچھے ہیں اور اس ضمن میں میڈیا کی کارکردگی بھی لائقِ صد ستائش ہے۔ لیکن کچھ دیر سستا لینے کے بعد میڈیا کو پھر سے کمر باندھنی ہوگی تاکہ عوامی مسائل کی نمائندگی کا فریضہ بہتر سے بہتر طور پر ادا کیا جاسکے کہ یہی حالات کا اولین تقاضہ بھی ہے۔



....بارشوں کے موسم میں

کئی دنوں کے حبس کے بعد آج کراچی بھی جل تھل ہو ہی گیا، صبح صبح بارش ہوگئی ۔ موسم اچھا ہو جائے تو سب کچھ اچھا لگتا ہے ۔ پھر خاص طور پر بارش تو اپنا الگ ہی رنگ رکھتی ہے۔ قطعِ نظر اس بات کے کہ بارش سے کیا کیا مسائل اور پریشانیاں جنم لیتی ہیں یہ بات بھی بالکل بجا ہے بارش دلوں کے اندر تک سرائیت کرنا جانتی ہے ۔ دل میں پہنچنے کے بعد اس کا پہلا حدف دل میں موجود یادوں کی لائیبریری ہوتا ہے ۔بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ گزارا ہوا خوبصورت وقت ، بہت اچھی اچھی باتیں اور یادیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نہ جانے کون کون سے دکھ بھی خود رو پودوں کی طرح نکل آتے ہیں اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی پھیلا دیتے ہیں ۔ یہ ہریالی اور نیلا دُھلا دُھلایا آسمان جو منظر پیش کرتا ہے وہ اُداس تو ضرور کرتا ہے لیکن اُس کا بھی اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔

بارشوں میں کھانے پینے کا بھی الگ ہی مزہ ہے ۔ لوگ طرح طرح کے اہتمام کرتے ہیں، مجھے آج تک یاد ہے آج سے ایک آدھ سال اُدھر میں ایک مقامی پارک میں دوستوں کے ساتھ موجود تھا اور چائے سے شغل میں مصروف تھا کہ اچانک بارش ہو گئی اور بارش بھی ٹھیک ٹھاک، اس بارش کے طفیل اُس چائے میں اچھی خاصی برکت ہوگئی لیکن پھر بھی میں نے اُ س چائے کو چھوڑا نہیں اور اُس چائے نے اتنا لطف دیا کہ آج بھی یاد آتی ہے۔

خوبصورت موسم اور برکھا برسات شعر و سخن کے لئے بھی بہت ہی ساز گار ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو خیالات بارش کی بوندوں سے بھی تیز تر ہو جاتے ہیں ، اور ان میں سے بھی اکثر خیالات شاعرانہ قالب میں ڈھلے ڈھلائے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی شاذ ہی ہوتا ہے کہ اگر یہ سارے لوازمات میسّر آبھی جائیں تو بھی فرصت کی کمی ضرور رہتی ہے۔

بہر کیف، اس طرح کا موسم جب بھی ہوتا ہے ، مجھے پروین شاکر کی یہ خوبصورت نظم ضرور یاد آتی ہے۔

پیشکش


اتنے اچھے موسم میں
روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں
کل پہ ہم اُٹھا رکھیں
آج دوستی کرلیں

پروین شاکر۔

اور ایک یہ قطعہ بھی ۔

موسم تھا بے قرار، تمھیں سوچتے رہے
کل رات بار بار، تمھیں سوچتے رہے
بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہم
چُپ چاپ ، سوگوار تمھیں سوچتے رہے

شاعرنامعلوم

اگر آپ بھی کراچی میں ہیں تو بارش کے لطف کو شکائتوں میں مت گنوائیے گا۔