افسانہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

افسانہ: سفرنامہ ٴ ابتلاء​

سفرنامہ ٴ ابتلاء​

از: محمد احمد​

afsana-safar-nama-e-ibtila

کبھی کبھی ہماری ترجیحات ہمیں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ عام زندگی میں اگر ہمیں موقع ملے تو ہم ایسا کبھی نہ کریں۔ مجھے ایک سفر درپیش تھا۔ ایک جنازے میں شرکت کے لئے میں ابھی ابھی بس میں سوار ہوا تھا۔ میرا مقامِ مقصود تین چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قریبی شہر تھا۔

مجھے نکلتے نکلتے دوپہر کا ایک بج چکا تھا اور میری کوشش تھی کہ جلد از جلد وہاں پہنچ جاؤں۔ ابھی اس بات کا تعین نہیں ہو سکا تھا کہ تدفین عصر میں ہوگی یا مغرب میں۔ جب میں بس اسٹاپ پر پہنچا تو مجھے متعلقہ بکنگ آفس میں براجمان شخص نے بتایا کہ کچھ دیر میں ایک کوچ (بس) آئے گی اس میں جگہ ہو تو آپ اس میں چلے جانا۔ ورنہ اگلی گاڑی ایک گھنٹے بعد آئے گی۔

جب بس پہنچی تو اُس میں سیٹ نہیں تھی۔ میں نے کنڈکٹر کو بتایاکہ مجھے یہ معاملہ درپیش ہے اور مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ تو اُس نے مجھے کہا کہ سب سیٹیں پہلے سے بک ہیں۔ آپ اسٹول پر بیٹھ جاؤ۔

ہمارے ہاں اندرونِ شہر چلنے والی بسوں میں سیٹوں کے درمیان راہ داری میں پلاسٹک کے اسٹول رکھ کر لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے اور جلدی پہنچنے کے لالچ یا مجبوری میں کئی ایک لوگ ان اسٹولوں پر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میں کبھی بھی اس بات کے لئے راضی نہیں ہوتا کہ میں اتنی دور کے سفر کے لئے ایسی غیر آرام دہ نشست کا انتخاب کروں۔ لیکن چونکہ وقت کا تقاضا تھا سو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں ایک اسٹول پر بیٹھنے پر راضی ہو گیا۔

یا تو یہ پچھلے دنوں کی بے انتہا مصروفیات کے باعث تھا یا اس ناپسندیدہ فیصلے کا اثر کہ مجھے بس میں بیٹھتے ہی کمر میں درد کا سا احساس ہو نے لگا۔ حالانکہ ابھی تو مجھے بس میں سوار ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے اور ابھی بس اسٹاپ سے چلی بھی نہیں تھی۔

ایک لمحے کے لئے خیال آیا کہ بس سے اُتر جاؤں اور اس کے بعد والی گاڑی میں سوار ہو جاؤں۔لیکن پھر یہی سوچ کر اس خیال کو جھٹک دیا کہ اس طرح کافی وقت ضائع ہو جائے گا۔ پھر جب کنڈکٹر کرایہ وصول کرنے آیا تو دل چاہا کہ اُس سے کہوں کہ اس انتہائی غیر آرام دہ سیٹ کے بھی اتنے ہی پیسے لے رہے ہو جتنے دوسری سیٹوں کے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر چپ رہا کہ یہ انتخاب تو میرا اپنا ہے اور پھر اس قسم کے پیشوں سے وابستہ لوگ کافی منہ پھٹ ہوا کرتے ہیں، سو خاموشی ہی بہترتھی۔

بس اب چل پڑی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ دعا کر رہا تھا کہ جلد از جلد یہ سفر تمام ہو۔ مجھ سمیت آٹھ لوگ اسٹول پر بیٹھے تھے۔ لیکن باقی لوگوں کی باڈی لینگویج سے بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی غیر آرام دہ نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مجھے لگا کہ شاید میں اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہا ہوں۔ تب مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کچھ لوگ تو اس سے بھی بُری حالت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن شکوہ لب پر نہیں لاتے۔ پھر خیال آیا کہ شاید یہ لوگ اس طرح کے سفر کے عادی ہیں، اور اس خیال سے میرے احساسِ ندامت میں کچھ کمی واقع ہوئی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ زندگی میں ایک دو بار پہلے بھی میں نے اس طرح سفر کیا ہے ۔ لیکن آج یہ بات کچھ زیادہ ہی کَھل رہی ہے۔ یا شاید ڈھلتی عمر کے ساتھ اب قوتِ برداشت کچھ کم ہوگئی ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی تکلیف سے گزر جانے کے بعد اُسے بھول جاتے ہیں اور شاید یہ بھی خدا کا ہم پر احسان ہے۔

میں اسٹول پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ میں نے اپنے جوتے اتار کر سائیڈ پر رکھ دیے اور اپنے پاؤں آگے والے اسٹول کے پائیدان پر ٹکا دیے۔ بے آرامی کے باعث میں مختلف انداز سے پہلو بدل بدل کر دیکھ رہا تھا کہ شاید کسی کل چین آ جائے لیکن ہر طرح سے ایک ہی جیسا حال تھا اور بے سہارا کمر بس کی رفتار کے باعث دباؤ اور تکلیف کا شکار تھی۔

بس اب اچھی خاصی رفتار سے چل رہی تھی۔ میرے دونوں اطراف کی سیٹوں پر موجود چاروں لوگ اونگھ رہے تھے۔بائیں طرف بیٹھے نوجوان نے اپنی پی کیپ کو اُتار کر گھمایا اور اُس کے پچھلے بند کو اپنی ٹھوڑی میں پھنسا کر اپنا منہ اور آنکھیں ڈھک لی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر کچھ ہنسی بھی آئی۔ لیکن اِس وقت ہنسنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔

کچھ لوگ ہینڈ فری لگائے بغیر سوشل میڈیا پر ویڈیوز وغیرہ دیکھ رہے تھے۔ اور طرح طرح کی آوازوں سے مجھے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی۔ کسی سونے والے نے ایک آدھ کی آواز کو کم بھی کروایا ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ آوازیں از خود ماند ہو گئیں، اور بس کے بیشتر مسافر اونگھنے لگے۔

کمر کا درد اب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا ۔ میں نے موبائل فون پر اپنی دلچسپی کا ایک آرٹیکل نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ لیکن میں بمشکل تمام آدھی ہی تحریر پڑھ پایا اور بے چینی کے عالم میں پڑھنا معطل کر دیا۔

تیز رفتار بس کی کھڑکی سے ویران پہاڑیاں اور کہیں کہیں سبزہ نظر آ رہا تھا ۔ میں اس وقت بالکل فارغ بیٹھا تھا۔ مجھے پچھلے دنوں پڑھی ہوئی ایک کتاب یاد آئی کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ تخلیقی کاموں سے وابستہ لوگوں کو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر روزانہ کچھ نہ کچھ وقت فارغ بیٹھنا چاہیے۔ تاکہ اُن کے ذہن کو ادھر اُدھر بھٹکنے کا موقع ملے۔ اور مشاہدے اور خیالات کے خمیر سے کوئی تخلیقی خیال جنم لے سکے۔

میرے لئے فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام تھا۔ جب کبھی تھوڑی سی بھی فراغت ملتی تو نہ جانے کس طرح موبائل فون جیب سے نکل کر ہاتھ میں پہنچ جاتا۔ اور میں مختلف لوگوں کے بے سروپا پیغامات دیکھنے لگ جاتا۔ سوشل میڈیا کی ایپس کب کُھل جاتیں اور نہ جانے کتنا وقت وہاں کھپ جاتا، پتہ ہی نہ چلتا۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ میں کسی کام سے موبائل فون نکالتا اور سوشل میڈیا کے کسی نوٹیفیکیشن کی اُنگلی پکڑ کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ۔ اور مجھے یاد بھی نہ رہتا کہ میں نے کس کام سے موبائل نکالا تھا۔

لیکن آج تو نہ کسی تحریر میں دل لگ رہا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر۔ آج تو بس یہی خیال تھا کہ کسی طرح یہ وقت کٹے اورمیں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں۔ بس اپنی رفتار سے چلی جا رہی تھی ۔میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ بس کی رفتار کم تھی۔ ہاں البتہ میرا انتظار کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔

مجھے یاد آیا کہ ماضی میں جب کبھی میں بس میں سفر کیا کرتا تھا تو میرے برابر بھی کوئی نہ کوئی شخص اسٹول پر آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ مجھے اُس سے ہمدردی ضرور ہوتی تھی لیکن کبھی اتنی اخلاقی جرات نہیں ہو سکی کہ اپنی سیٹ اُسے دے کر اُس کی جگہ بیٹھ جاؤں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے ، آپ کسی کی تکلیف اُس وقت تک کم نہیں کر سکتے ، جب تک کہ اُس کے حصے کی تکلیف برداشت کرنے پر راضی نہ ہو جائیں۔ مجھے اپنے پڑوسیوں سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ یہ آرام دہ سیٹ اُن کا حق تھی اور میں اپنے مقدر یا انتخاب پر قانع تھا۔

بس کسی چھوٹے سے اسٹاپ پر رُکی تو اچانک کہیں سے کچھ خوانچہ فروش بس میں در آئے اور چپس، پیٹیز اور کولڈ ڈرنک کی آواز لگانے لگے۔ کچھ لوگ اُن سے چپس اور بوتلیں خرید رہے تھے۔ بظاہر یہ چپس ایک معروف برانڈ کے معلوم ہوتے تھے لیکن اُن پر نام کچھ اور تھا۔ اسی طرح پانی کی بوتلیں بھی اچھے برانڈز کے ملتے جُلتے نام لئے ہوئے تھیں۔ لیکن سفر میں سب چلتا ہے۔ میں اپنی پانی کی بوتل اسٹاپ سے ہی لے چکا تھا ۔ سو مجھے ان خوانچہ فروشوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ تاہم چونکہ ہم اسٹول والے، راستے میں براجمان تھے سو مجھ سمیت سب اسٹول والوں کو خوانچہ فروشوں اور اصلی مسافروں کے درمیان وسیلے کا کام کرنا پڑ رہا تھا۔ ادھر سے چیز لے کر اُدھر پکڑاتے ، پھر اُدھر سے پیسے لے کر خوانچہ فروشوں کو دیتے ۔ پھر بقیہ پیسے اور نئی چیزوں کا تبادلہ ہوتا۔ اس سرگرمی سے کوئی فائدہ تو کیا پہنچتا البتہ کچھ دیر کے لئے درد کا احساس پس منظر میں چلا گیا۔ بس چلی تو کمر کی تکلیف نے واپس اپنی جگہ سنبھال لی اور پہلے سے زیادہ شدت سے اپنا احساس دلانے لگی۔

یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بس کا یہ سفر کوئی قید با مشقت ہو اور قید کا یہ دورانیہ کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہا تھا اور کمر کی تکلیف جبری مشقت کی طرح نا قابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ اس وقت زندگی اِس بس اور بس کے ماحول تک محدود ہو چکی تھی صرف ذہن کچھ کچھ آزاد تھا کہ ادھر اُدھر بھٹک سکے اور آنکھوں کو اجازت تھی کہ بس کی کھڑکیوں سے اُس طرف کے مناظر میں کوئی دلچسپی تلاش کر سکیں۔

بس کچھ نئے تعمیراتی پروجیکٹس کے پاس سے گزر رہی تھی۔ ایک قطعہِ زمین کو طرح طرح کے رنگا رنگ جھنڈوں اور بینرز سے سجایا گیا تھا ۔ ایک چھوٹی سی خوبصورت عمارت آفس کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہاں لگے بڑے بڑے بینرز بے گھر لوگوں کو اپنے گھر کے خواب دکھا رہے تھے۔ اس غیر آباد زمین میں عارضی طور پر جنگل میں منگل اس لئے برپا کیا گیا تھا کہ اپنے گھر کے خواہش مند لوگ اس رنگ و روپ اور چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنے پلاٹ بک کروا لیں۔

لیکن یہ سب گہما گہمی پروجیکٹ کے شروع میں ہی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب زیادہ تر پلاٹ فروخت ہو جاتے ہیں ۔ تب یہ سب رونق آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب یہ جگہ پھر سے بے آب و گیاہ ویرانے کی طرح نظر آتی ہے۔

ایسے میں اگر کوئی بھولا بھٹکا اپنا پلاٹ دیکھنے آ جائے تو وہ یہی سوچتا ہے کہ شاید یہاں یا شاید وہاں اُس کا پلاٹ تھا۔ حتیٰ کہ اُسے پلاٹ کا کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آتا ، اور وہ مخمصے اور شکوک شبہات میں گھرا واپس لوٹ جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے برسوں بعد قبرستان آنے والا اپنے کسی عزیز کی قبر ڈھونڈتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید یہاں تھی، یا شاید وہاں تھی۔ لیکن اسے یقین کی دولت میسر نہیں آتی۔

ایک آہ میرے منہ سے برآمد ہوئی۔ آہ کیا یہ تو ایک کراہ تھی۔ اُس شدید تکلیف کا احساس تھی جو بے آرامی کے باعث میری رگ رگ میں سرائیت کر چکی تھی۔ کاش میں کوئی درد کی گولی ہی کھالیتا۔ لیکن کیسے کھاتا۔ سفر میں نہ تو کوئی معالج تھا نہ کوئی دوا۔ یوں بھی یہ تکلیف کوئی تکلیف تھوڑی تھی۔ یہ تو بس بے آرامی کا روگ تھا اور اسے آرام سے ہی شفا ہونی تھی۔

اب تک غالباً دو تہائی سفر طے ہو چکا تھا۔ لیکن جیسے جیسے منزل قریب آ رہی تھی ۔ اسٹول پر بیٹھنا اور دشوار ہو رہا تھا ۔

مجھ سے آگے اسٹول پر بیٹھے آسمانی قمیض والے چاچا جی اب سو رہے تھے۔ ان کا کان مسلسل برابر والی سیٹ سے ٹکرا رہا رہا۔ لیکن انہیں کوئی ہو ش نہیں تھا۔ مجھے اُن پر اور خود پر حیرت ہوئی۔ شاید میرے محسوسات کچھ زیادہ ہی بڑھے ہوئے تھے۔ مجھ سے زیادہ عمر کے وہ بزرگ کس طرح اسٹول پر بیٹھے بیٹھے سو رہے تھے۔ اور میں تکلیف سے کراہ رہا تھا۔ پھر میں تو اس طرح سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگر میں کسی طرح سو بھی جاتا تو شاید تھوڑی ہی دیر میں کسی مسافر پر گر جاتا ۔ مجھے اپنی کم ہمتی پر افسوس بھی ہوا اور اس بات کا رشک بھی ہوا کہ میری ہی جیسی صورتِ حال میں میرے سے کہیں زیادہ عمر کا ایک شخص کتنے اطمینان سے سورہا ہے اور میں نہ جانے کیوں چھوئی موئی بنا ہوا ہوں۔

ایسا نہیں کہ میں نے اپنی توجہ ادھر اُدھر بانٹنے کی کوشش نہ کی ہو ۔ لیکن میرا دھیان کسی بھی جگہ نہ لگ سکا۔ مجھے اپنی خوراک بہتر کرنی چاہیے اور کچھ ورزش کو بھی معمول بنانا چاہیے،میں آگے کے لئے سوچنے لگا۔ انسان کو اتنا مضبوط تو ہونا چاہیے کہ مشکل وقت پڑنے پر با آسانی گزارا کر سکے اور چھوٹی چھوٹی تکالیف اُس کے لئے سوہانِ روح نہ بن جائیں۔ آج بھی میں ہمیشہ کی طرح ایک معمولی سا مشکل مرحلہ آنے پر آگے کے لئے خود سے عہد و پیمان کر رہا تھا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ سب عہد و پیمان مشکل کے رفع ہوتے ہی ذہن سے محو ہو جانے ہیں۔

باقی ماندہ مسافت مستقل کم ہو رہی تھی لیکن ساتھ ساتھ درد اب ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ درد کے ساتھ ساتھ مجھے بخار کی حرارت بھی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید تھکن اور شدید تکلیف کے باعث مجھے بخار ہو رہا تھا۔ دھیان بٹانے کے لئے میں نے پھر کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ بس ایک چنگی ناکہ پر رُکی ہوئی تھی۔ ڈرائیور چنگی کے پیسے دے کر رسید وصول کر رہا تھا۔ ہم دھیان دیں یا نہ دیں لیکن سرکار ہم سے کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس لے رہی ہوتی ہے۔ اور ہم ٹیکس دینے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم چینی، پتی گھی ، آٹا غرض ہر چیز خریدتے ہوئے سرکار کو خراج دے رہے ہوتے ہیں۔ اور بدلے میں سرکار ہمیں محض طفل تسلیاں دینے اور اچھے مستقبل کے خواب دکھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔

نہ جانے آج کیوں ہر بات مجھے منفیت کی طرف مائل کر رہی تھی حالانکہ میں خود اکثر لوگوں کو ہر بات کا مثبت پہلو تلاش کرنے کا مشورہ دیا کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بس کا یہ سفر شاید اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا مجھے محسوس ہو رہا تھا ۔ شاید ایک بات تو یہ تھی کہ یہ سفر خوشی کا نہیں بلکہ غمی کا تھا اور یہ بھی ہے کہ کچھ دن ہوتے ہی آزمائش کے لئے ہیں۔

بس کی کھڑکی سے اب ویران پہاڑوں اور جنگلی پودوں کے ساتھ ساتھ اِکی دُکی عمارتیں بھی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اور اِن عمارتوں اور چھوٹی چھوٹی دوکانوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھیں۔ ہم غالباً شہر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں بس سے اُترنے کے لئے کمر باندھنے لگا۔ لیکن تکلیف کے باعث محاورتاً کمر باندھنا بھی دشوار ہو رہا تھا ۔ بخار بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ بس سے اُتر کر فوراً ہی کوئی درد کش دوا لے کر کھاؤں گا۔

لیکن جب بس رُکی تو میں بس سے اُتر کر رکشہ میں سوار ہوگیا ۔ اس دوران یہ اطلاع پہنچ چکی تھی کہ تدفین عصر کے وقت رکھی گئی ہے اور اس وقت عصر کا وقت اپنے آخر آخر پر تھا۔ میں نے فون کیا تو معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ ہو چکی ہے اور اب وہ لوگ قبرستان جا رہے ہیں۔ مجھے مشورہ ملا کہ میں براہِ راست قبرستان پہنچ جاؤں۔ میں نے رکشے والے کو مذکورہ قبرستان کا پتہ سمجھایا اور ہم تھوڑی ہی دیر میں قبرستان پہنچ گئے۔ رکشے والے کو فارغ کرکے جب میں قبرستان میں داخل ہوا تو مجھے نزدیک ہی تدفین کا عمل ہوتا دکھائی دیا۔

میں آگے بڑھ کر لوگوں میں شامل ہو گیا۔ بخار کی شدت اور تکلیف سے میری حالت غیر ہو رہی تھی۔ جنازے میں شریک کچھ شناسا چہروں سے آنکھوں ہی آنکھوں میں دعا سلام ہوئی تاہم میں نے فی الحال ملاقات کو موخر ہی رکھا۔

قبر کے اردگر دجمع لوگ ایک دوسرے کو احکامات و ہدایات دے رہے تھے کوئی کچھ منگوا رہا تھا تو کوئی احتیاط کی صدا لگا رہا تھا ۔ جب میّت کو قبر میں لٹایا جانے لگا تو میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میّت کی جگہ میں لیٹ جاؤں، چاہے اُس کے لئے مجھے قبر میں ہی لیٹنا پڑے۔ لیکن میں نے خود کو سنبھالا اور لواحقین میں سے ایک نڈھال شخص کو سہارا دینے کے لئے آگے بڑھ گیا۔

 

******

افسانہ : روپ بہروپ

روپ بہروپ

از محمد احمد


"یہ عامر وسیم پاگل واگل تو نہیں ہے؟ "صدیقی صاحب کافی غصے میں نظر آ رہے تھے
لیکن میں اس لڑکے کی بات سن کر ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا تھا۔ میرا ذاتی خیال یہی تھا کہ کرکٹر وغیرہ کافی لا ابالی ہوتے ہیں۔ پھر یہ تو ابھی بالکل نوجوان ہی تھا۔ اکیس بائیس سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ ایسے میں اُس کی طرف سے اِس قسم کی بات کافی حیران کن تھی۔

"مجھے ایڈورٹزمنٹ کے شعبے میں 30 سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج تک ایسی بات کسی نے نہیں کی۔"
"اتنے بڑے بڑے ماڈلز، ایکٹرز، ایکٹریسز، حتیٰ کہ بڑے سے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ میں نے اشتہار کیے ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے ایسی بات نہیں کی۔" صدیقی صاحب اپنی دراز میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔

"اس کا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہو گیا ہے۔" انہوں نے دراز زور سے بند کرتے ہوئے کہا۔ شاید اُن کی مطلوبہ شے وہا ں نہیں تھی۔
"خیر ! میں کلائنٹ سے بات کرتا ہوں اور اُن سے کہتا ہوں کہ وہ اس کے بجائے شاہد کمال کو لے لیں۔ شاہد کمال کی ریٹنگ بہت اچھی ہے اوراس کے مقابلے میں یہ تو بالکل ہی نیا ہے۔ چار چھ میچز کی پرفارمنس کوئی پرفارمنس ہوتی ہے۔" صدیقی صاحب اپنی رو میں کہے جا رہے تھے۔

*****

میں اور صدیقی صاحب ایک ایڈورٹِزمنٹ ایجنسی میں ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہماری فرم ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے لئے اشتہارات بناتی ہے۔ ہم دونوں کا کام ایک طرح سے مارکیٹنگ اور کلائینٹ ہینڈلنگ ہے۔

ہمارے ایک کلائینٹ کی فرمائش ہے کہ وہ اپنے فوڈ سپلیمنٹ کے اشتہار میں نئے ابھرتے ہوئے کرکٹر عامر وسیم کو لیں ۔ عامر وسیم نے کچھ ہی ماہ قبل ایک مقامی لیگ میں ڈیبیو کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ اُس کے فوراً بعد ہی اُسے قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا اور اپنی پہلی ہی سیریز میں اس نے کئی نئے ریکارڈ بنا دیے۔

جب میں اور صدیقی صاحب اشتہار کے سلسلے میں عامر وسیم سے ملے تو وہ کافی خندہ پیشانی سے ملا لیکن اُس نے ایک عجیب بات کی۔

اُس کا کہنا ہے کہ وہ اشتہار میں کام کرنے سے پہلے اُن کی یہ پروڈکٹ استعمال کرکے دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر اسے سمجھ آئی تو اشتہار میں کام کرے گا، ورنہ معذرت کر لے گا۔ اُس نے فوڈ سپلیمنٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ اُس نے کہا کہ میں کسی غلط پروڈکٹ کا اشتہار نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے اللہ کو جواب دینا ہے۔

یہ بات واقعی عجیب ہے۔ آج تک کسی ماڈل نے ایسا نہیں کہا کہ وہ پروڈکٹ کو استعمال کیے بغیر اشتہار میں کام نہیں کرے گا۔ بلکہ ماڈلز کو تو اس بات سے غرض ہی نہیں ہوتی کہ وہ پروڈکٹ کیسی ہے، اچھی ہے یا بری ہے۔ اُن کو اپنے پیسوں سے غرض ہوتی ہے اور بس!

دیکھا جائے تو یہ لڑکا اشتہاروں سے اچھا خاصا کما سکتا ہے لیکن اس قسم کا رویّہ تو اپنے پیروں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ یقیناً وہ کسی اچھی تربیت کے زیرِ اثر پلا بڑھا ہے ورنہ آج کل تو لوگ مالی منفعت کے آگے کچھ بھی نہیں دیکھتے۔

*****

 
صدیقی صاحب جب کلائینٹ سے ملے تو خلافِ توقع کلائینٹ نے اُنہیں کہا کہ وہ ہر حال میں اپنا اشتہار عامر وسیم سے ہی کروانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پرانے چاولوں کے مقابلے میں نئے ٹیلینٹ اور نئے چہرے کے ساتھ اپنا اشتہار کروائیں۔ کلائینٹ نے کہا کہ وہ اپنی پروڈکٹ کے کچھ فریش سیمپل بھیج دے گا تاکہ وہ عامر وسیم کو بھیج دیے جائیں ۔ کلائینٹ نے صدیقی صاحب کی ذمہ داری لگائی کہ وہ کسی طرح عامر وسیم کو اس اشتہار کے لئے راضی کریں۔

صدیقی صاحب جتنا عامر وسیم سے چِڑ رہے تھے اُتنا ہی اُنہیں اُس سے واسطہ پڑ رہا تھا۔

*****

عامر وسیم سے ہماری اگلی ملاقات کم و بیش دو ہفتے بعد ہوئی۔

صدیقی صاحب نے کافی کوشش کے بعد اپنے موڈ کو خوشگوار بنایا اور عامر وسیم کو فوڈ سپلیمنٹ کے تازہ سیمپل دئیے جو کلائینٹ نے خاص طور پر عامر وسیم کے لئے بھیجے تھے۔

عامر وسیم حسبِ سابق بہت اچھی طرح ملا ۔ بظاہر یہ ایک کھلندڑا اور ہنس مکھ نوجوان تھا۔ عامر وسیم نے بتایا کہ ان سیمپلز کی اب ضرورت نہیں ہے۔ وہ مارکیٹ سے لے کر اس پروڈکٹ کو استعمال کرتا رہا ہے اور اس دوران اُس نے پروڈکٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ بھی کرو ا لیا ہے۔ اب وہ پروڈکٹ سے مطمئن تھا ۔

یوں صدیقی صاحب کی مشکل توقع سے کہیں پہلے آسان ہو گئی اور پھر وہ بھی خوش دلی سے باقی کے مراحل میں جُت گئے۔ 

*****


عامر وسیم ایک اچھا کرکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ خوش شکل اور جاذبِ ِ نظر بھی تھا۔ پھر ہماری فرم کا برسوں کا تجربہ بھی اشتہار سازی میں شامل رہا ۔ یوں یہ اشتہار کافی اچھا بنا ۔ اور لوگوں میں مقبول بھی بہت ہوا۔

کمپنی کے مالک نے ایک کام اوربھی کیا۔ اُس نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ایک کمپین چلائی ، جس میں ایمانداری اور سچی گواہی کے ہیش ٹیگز شامل کیے گئے اور اس میں بتایا گیا کہ کرکٹر نے اشتہار میں کام کرنے کی کیا شرط رکھی۔ یہ کمپین بظاہر کرکٹر کو سراہنے کے لئے تھی ۔ لیکن ضمنی طور پر یہ اس پروڈکٹ کی شہرت کا سبب بنی کہ ہر پوسٹ ہر ٹوٹئٹ میں اشتہار کی ویڈیو بھی شامل کی گئی۔

یوں عامر وسیم کی شہرت اور نیک نامی کو بھی چار چاند لگے ،لیکن اصل فائدہ کلائینٹ کو ہی ہوا۔

*****

آج اتوار کا دن تھا ۔ سہ پہر کے وقت میں اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر حالات حاضرہ کا کوئی پروگرام چل رہا تھا۔ ہم ادھر اُدھر کی باتیں بھی کر رہے تھے۔

اچانک ٹی وی اسکرین پر ایک اشتہار میں شاہد کمال نظر آیا۔
"میں کبھی کسی ایسے پروڈکٹ کے لئے کام نہیں کرتا جس کو میں نے خود نہ آزمایا ہو۔اور جب تک میں خود اس پروڈکٹ کی تحقیق نہ کر لوں۔ " شاہد کمال بڑے پر یقین لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
اُس کے ہاتھ میں ایک انرجی ڈرنک تھا اور وہ اُس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہا تھا۔

میں اس پروڈکٹ کو دیکھ کر چونکا۔ میں نے فوراً اس کا نام سرچ انجن پر ڈالا۔
میرا خدشہ بالکل درست نکلا۔ یہ تو اُن پروڈکٹس میں سے تھی جن کے استعمال پر وزارتِ صحت نے تنبیہ کی تھی اور مضرِ صحت مصنوعات کی فہرست میں اس کا نام شامل کیا تھا۔

غالب کا ایک شعر نہ جانے کہاں سے میرے حافظے میں نمودار ہوا۔

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی

اور میں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔

***-***-***

افسانہ - روپ بہروپ

افسانہ: فریاد کی لے​

فریاد کی لے​
از محمد احمدؔ​

وہ اِس وقت ذہنی اور جسمانی طور پر بالکل مستعد تھا۔ بس انتظار تھا کہ مولوی صاحب سلام پھیریں اور وہ نماز ختم کرکے اپنا کام شروع کر دے۔ اُس نے اپنے ذہن میں اُن لفظوں کو بھی ترتیب دے لیا تھا جو اُس نے حاضرینِ مسجد سے مخاطب ہو کر کہنا تھے۔ جیسے ہی مولوی صاحب نے سلام پھیر ااُس نے بھی تقریباً ساتھ ساتھ ہی سلام پھیرا اور ایک جھٹکے سے اُٹھا لیکن عین اُس وقت کہ جب اُس کو کھڑا ہو کر اپنی فریاد لوگوں تک پہنچانی تھی اُس کی قمیص کا دامن اُسی کے پاؤں تلے آ گیا اور ایک دم سے اُٹھنے کی کوشش کے باعث دامن چاک سے لے کر کافی اُوپر تک پھٹ گیا۔ ابھی وہ قمیص کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ ہال کے دوسرے کنارے سے ایک آواز سُنائی دی۔

"میرے بھائیو! میں اور میرے گھر والے تین روز سے ۔۔۔۔" رُندھی ہوئی آواز میں شروع ہوا یہ جملہ بیچ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اِس وقت کسی غیر متوقع "حریف" سے ٹکراؤ کا اُسے خیال تک نہیں تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے دروازے کے پاس ایک خستہ حال لڑکے نے حاضرین کو متوجہ کیا لیکن وہ جملہ مکمل کیے بغیر ہی رونے لگا ابھی وہ اس نئے سائل کی ڈرامے بازی کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک فریاد کرنے والا لڑکا جو اپنا جملہ مکمل کرنے کے بجائے رونے لگا تھا لوگوں کو پھلانگتے ہوئے بھاگنا شروع ہو گیا۔

نہ جانےاُسے کیا ہوا کہ اُس نے بھی نئے سائل کے پیچھے دوڑ لگا دی، کہ جیسے عین "دھندے" کے وقت پہنچ کر اُس کے حریف نے اُسے دعوتِ پیکار دے دی ہو اور پھر میدانِ جنگ سے فرنٹ ہو گیا ہو۔ اور جیسے اب اُس کی پہلی ذمہ داری ہی یہ ہو کہ پسپا ہوتے دشمن کو قریب ہی کہیں چھاپ لے اور پھر ایک ایک کرکے سارے بدلے چُکائے۔

صورتِ حال اب یہ تھی کہ آگے آگے خستہ حال نوجوان لڑکا روتا جاتا اور دوڑتا جاتا تھا اور وہ اُس کے پیچھے پیچھے ایک غیر ارادی تعاقب میں دوڑ رہا تھا ۔ دوڑتے دوڑتے اُس نے سوچا بھی کہ جب نیا لڑکا دوڑ ہی گیا تھا تو اُسے اپنا کام شروع کرنا چاہیے تھا بجائے اِس کے کہ وہ اُس کے پیچھے اپنا وقت برباد کرنے آگیا۔ لیکن یہ سوچ بھی اُس کے قدم روکنے کا حیلہ نہ بن سکی اور وہ اندھا دھند دوڑتا رہا۔

مختلف چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزر کر مفرور سائل ایک گھر کے دروازے میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ اُس نے اُسے جا ہی لیا ۔ اُس کی گرفت میں آکر مفرور لڑکا شدید پریشانی کا شکار نظر آتا تھا اور اُسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اُس کا اندھا دھند تعاقب کرنے والا یہ شخص کون تھا اور آخر اُس سے ایسا کیا قصور ہوا تھا کہ اُسے نجات ملنے کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا تھا۔
"کون ہے بے تو؟؟؟" اُس نے حقارت سے لڑکے سے پوچھا
"میں ! میں!" لڑکے کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد سے کیسے نمٹا جائے۔
پھر شاید اُسے ہی خیال آیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی جارح ہو رہا ہے تو اُس نے اپنے لہجے کو کچھ بہتر بناتے ہوئے پوچھا" مسجد میں کیا کرنے آیا تھا؟"
"وہ ، میں۔۔۔! مجھے پیسے چاہیےتھے" لڑکے نے ہکلاتے ہوئے بتانا شروع کیا۔
"ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کھانے کو ، پیسے بھی نہیں ہیں" وہ سسکتا جاتا اور بتاتا جاتا۔
"میں نے۔۔۔۔ میری امی نے، میرے بھائی نے ۔۔۔ ہم نے کچھ نہیں کھایا " رو رو کر لڑکے کا بُرا حال تھا اور اُس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ سوال جواب کیوں کر رہا ہے۔
"تین دن سے ہمیں پانی کے علاوہ کچھ نہیں ملا، میں نے سوچا مسجد میں جا کر ۔۔ جیسے دوسرے لوگ ۔۔۔ " لڑکا پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
اُس کے ہونٹوں سے سارے سوال غائب ہو گئے تھے اور آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
پھر اچانک اُس نے آگے بڑھ کر لڑکے کو گلے سے لگا لیا، اور پھر وہ دونوں رونے لگے ۔ جیسے جیسے اُن کا کوئی مر گیا ہو۔ لیکن اُن کا اس دنیا میں تھا ہی کون جو مرتا۔ اور اُن کا کوئی ہوتا تو کیا وہ اس طرح روتے؟
وہ روتے جاتے اور ایک دوسرے کو بھینچتے جاتے کہ جیسےکوئی سالوں برسوں بعد ملا ہو اور اس بات کا یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ ملن کا لمحہ واقعی آن پہنچا ہے۔
آس پاس جمع ہوتے بچوں کو دیکھ کر اُسے کچھ ہوش آیا۔ اُس نے لڑکے کو خود سے جدا کیا اور ہتھیلیوں کی پشت سے آنسو پوچھتے ہوئے بولا ۔ "میرے ساتھ آ" اور اُس کا ہاتھ پکڑکر چلنے لگا۔
سائل لڑکا میکانیکی انداز میں اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔ راستے میں وہ دونوں بالکل خاموش تھے۔کہتے بھی تو کیا۔
اُن کا یہ مختصر سفر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر ختم ہوا اور اُس نے لڑکے کو ہوٹل پر ایک تخت پر لا کر بٹھا دیا۔ ادھر اُدھر دیکھنے پر اُسے ایک پانی کا ڈرم نظر آیا۔ اُس نے ڈرم سے پانی جگ میں نکالا اور منہ دھونے لگا۔ منہ ہاتھ دھو کر اُس نے ایک جگ اور بھرا اور لڑکے کو بُلا کر اُس کا منہ بھی دھلوا دیا۔
کچھ تازہ دم ہو کر وہ پھر سے تخت پر بیٹھے تو بیرا اُن کے سر پر نازل ہو چکا تھا۔ "ہاں اُستاد ! کیا لاؤں؟"
"ایک دال فرائی لے آ اور روٹی گرم لانا ۔ " اُس نے بیرے کو دیکھا اور سوچتے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دیر میں بیرا کھانا لے آیا۔ کھجور کے پتوں سے بنی رکابی میں تندور کی تازہ روٹیاں اور اسٹیل کی پلیٹ میں چنے کی دال ، فرائی کی ہوئی۔ سائل لڑکے کے آنسو اب تک تھم گئے تھے لیکن اُس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اُس نے لڑکے کی طرف دیکھا اور کھانے کی طرف اشارہ کرکے کہا "گرو ، ہو جا شروع۔۔۔!"

لڑکے نے جھجکتے ہوئے ایک نوالہ بنایا اور دال کی پلیٹ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ لیا۔ نوالے کے منہ میں جاتے ہی اُس کی ساری جھجک رُخصت ہوگئی اور وہ بے صبری سے کھانا کھانے لگا۔ اُسے کوئی خاص بھوک نہیں تھی لیکن لڑکے کا ساتھ دینے کے لئے وہ بھی چھوٹے چھوٹے نوالے لیتا رہا۔


کھانا ختم ہونے پر اُس نے بیرے کو آواز دے کر چائے منگوائی اور مسجد سے فرار اختیار کرنے والے سائل کی طرف متوجہ ہوا۔

"تم مسجد سے بھاگ کیوں گئے تھے۔ "وہ اب تو سے تم پر آ گیا۔
لڑکے نے اُس کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر کہا "مجھے شرم آگئی تھی۔ میں نے، میرے خاندان والوں نے کسی نے بھی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ اگر حالات اس قدر خراب نہ ہوتے تو شاید میں مسجد میں اس غرض سے آنے کی ہمت بھی نہ کر پاتا۔"
"شرم ! " اُس نے حیرت اور غصے سے لڑکے کی طرف دیکھا۔
"تمھیں کیوں شرم آ ئی!" اُس کی آواز غیض سے بھرّا رہی تھی۔
"شرم تو تمھارے پڑوسیوں کو آنی چاہیے، تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے کہ تمھارے ہاں تین روز سے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ بے خبر ہیں۔"
"تمھاری پڑوسی اپنی زندگی جی رہے ہیں، کھا رہے پی رہے ہیں عیش کر رہے ہیں۔ کیا اُن کا فرض نہیں کہ اڑوس پڑوس کا بھی حال پوچھیں۔ کس پر کیا گزر رہی ہے۔ کس پر کیا مصیبت آن پڑی ہے" ذرا توقف کے بعد وہ پھر شروع ہوا۔
"شرم تو تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے ۔ کوئی تمھیں پوچھنے نہیں آیا" اُس نے زور سے سر کو جھٹکا دیا۔
"کیسی رشتہ داری ہے آج کل کی۔ وقت اچھا ہو تو صبح شام چکر لگائیں اور جہاں بُرے دنوں نے رستہ دیکھاوہیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جائیں گے۔"
"لعنت ہے ایسی رشتہ داری پر اور لعنت ہےایسے پڑوسیوں پر۔" اُس نے زور سے چائے کا کپ تخت پر پٹخا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
اُس نے ہوٹل کے مالک سے کہہ کر کچھ کھانا لڑکے کے گھر والوں کے لئے بھی پیک کروایا اور بل ادا کرنے کے بعد کچھ پیسے لڑکے کی جیب میں بھی ٹھونس دیے۔

"میں اسی ہوٹل پر بیٹھتا ہوں شام کے بعد ، کبھی بھی کوئی مسئلہ ہو تو میرے پاس آ جانا۔ اور ویسے بھی ملتے رہنا " اُس نے لڑکے کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ " میں ویسے بھی چھڑا چھانٹ ہوں، میرا گزارا جیسے تیسے چل ہی جاتا ہے"۔ اب اُس کے چہرے پر مُسکراہٹ نے جگہ بنا لی تھی۔

*****

عصر کی نماز اُس نے ایک اور مسجد میں پڑھی ۔ یہ مسجد بازار کے بیچ و بیچ تھی اور اس میں نمازیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ نماز ختم ہوئی تو اُس نے اپنی درد ناک آواز میں فریاد شروع کر دی۔ آج اُس کی آواز میں الگ ہی کرب تھا۔ اُس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کے رٹے رٹے جملے آج تاثیر میں گُندھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پیروں میں بچھے رومال پر چھوٹے بڑے نوٹ جمع ہو رہے تھے۔ وہ مستقل رو رہا تھا اور اندر سے ایک اطمینان اُ س کے اندر اُتر رہا تھا کہ رومال پر جمع ہونے والے نوٹ اب اُس کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ اہم تھے ۔ اُس کی آنکھوں کے آنسو خوشی سے چمک رہے تھے اور اُس کا پھٹا ہوا دامن ہوا میں لہرا لہرا کر مسرت کا اظہار کر رہا تھا۔

*****

افسانہ : عجیب بادشاہ ۔ اشفاق احمد

عجیب بادشاہ
اشفاق احمد

دور جدید کے تیکھے افسانہ نگار اشفاق احمد سے جب پوچھا گیا کہ آپ کی نظر میں آپ کا بہترین افسانہ کون سا ہے تو انہوں نے جوابا لکھا۔ "اپنے افسانوں کے بارے میں کسی ایک کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ یہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے، ایک بہت ہی مشکل بات ہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اپنی ساری تحریریں لایعنی سی نظر آنے لگتی ہیں کہ وہ ایک ایک کر کے ماضی کے متعلق ہو چکی ہوتی ہیں اور ان کا ورود "حال" پر نہیں ہوتا بلکہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔ عجیب بادشاہ" ایک اچھا افسانہ ہے اور میری آرزو ہے کہ جس طرح اپنے زمانے میں ہم نے اسے پڑھ کر لطف لیا تھا آج کے قاری بھی اس سے لطف حاصل کریں۔ یہ میرے اس زمانے کے اچھے افسانوں میں شمار ہوتا تھا۔ آج کی بابت کچھ کہہ نہیں سکتا۔


کراچی کافی ہاوس کی سیڑھیاں اتر کر جب میں اپنی کرائے کی سائیکل کا تالا کھولنے لگا تو کسی نے پیچھے سے آ کر میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ سیدھے کھڑے ہو کر میں اس ہاتھ پر ہاتھ پھیرتا رہا لیکن پتا نہ چلا کہ کون ہے۔ لمبی لمبی مضبوط انگلیاں، پشتِ دست پر سخت بال، بڑھے ہوئے ناخن، سخت گرفت کی وجہ سے کلائی پر ابھری ہوئی نسیں اور سرسوں کے تیل کی سگریٹ میں ملی جلی خوشبو۔ "معظم؟" میں نے کہا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ "قمر؟" لیکن اس مرتبہ بھی کوئی نہ بولا۔ "ممتاز؟" اب بھی ہاتھ میری آنکھوں پر ہی رہا۔
ایک ایک کر کے میں نے اپنے تمام زندہ اور مردہ دوستوں کے نام گنوائے مگر میری آنکھوں سے وہ ہاتھ نہ ہٹھا پھر میں نے اپنا نام لے کر کہا۔ "اب چھوڑئیے صاحب! کہیں غلط فہمی میں تو میری آنکھیں بند نہیں کر رکھیں؟"
اس پر وہ ذرا سا ہنسا اور ہاتھ ہٹآ لیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ زماں میلی سی نیلے رنگ کی اچکن پہنے مسکرا رہا تھا۔ میں اپنی فائل زمین پر پھینک کر اس سے لپٹ گیا۔ پورے بارہ سال ایک دوسرے سے جدا رہنے کی مکافات ہم نے یوں کی کہ دیر تک ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور پڑیوں پر چلنے والے راہ گیر پیچھے مڑ مڑ کر دور تک ہمیں دیکھتے رہے۔ میں نے ٹھوڑی اس کے کندھے پر رگڑتے ہوئے پوچھا۔ "اتنا عرصہ کہاں رہے ظالم؟"
اس نے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ کر کہا۔ "آبادان"
"آبادان؟" میں نے ہٹ کر پوچھا۔
"ہوں۔" زماں نے اپنی اچکن کی جیبوں میں ہاتھ ڈال لئے اور بولا۔ "تم سے جدا ہو کر چند مہینے تو بمبئی میں گزارے۔ اس کے بعد اینگلو ایرانین آئل کمپنی میں ملازم ہو کر آبادان چلا گیا اور اتنا عرصہ وہیں رہا مجھے وہاں سے لوٹے ابھی پورا ایک مہینہ بھی نہیں ہوا۔"
"مگر تم نے آج تک مجھے کوئی خط کیوں نہ لکھا؟" میں نے پوچھا۔
"خط!" اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ یار میں نے لکھا ہی نہیں، کسی کو بھی نہیں لکھا۔ تمہیں معلوم ہے یار! مجھے خط لکھنے کی عادت ہی نہیں۔"
میں نے کہا۔ "یہ کوئی بات نہیں۔ عادت نہیں تو نہ سہی مجھے تو لکھا ہوتا۔"
اس پر وہ مسکرانے لگا اور بولا۔ "اب جو مل گئے ہو تو سارے خط زبانی سنا دوں گا لیکن اس وقت مجھے دیر ہو رہی ہے مجھے اسٹرپٹومائی سین کا پرمٹ لینا ہے اور دفتر ابھی بند ہو جائیں گے۔"
"اسٹرپٹو مائی سین کا پرمٹ؟" میں نے حیرت سے کہا۔
"ہاں!" وہ آہستہ سے بولا ۔ "ڈاکٹر نے یہی دوا تجویز کی ہے۔ اور یار! اچھا بھئی مجھے دیر ہو رہی ہے مجھے اپنا پتہ بتا دو۔"
میں نے ڈائری سے ایک ورق پھاڑ کر اس پر اپنا پتہ لکھ دیا اور اس کے دوسری طرف ایک چھوٹا سا نقشہ بنا کر بھی اسے سمجھا دیا کہ صدر ٹرم جنکشن کے سامنے جو کھلی سڑک ہے اس کے پہلے بائیں موڑ پر ایک مسجد ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک لائبریری ہے اور لائبریری سے چند قدم کے فاصلے پر دائیں ہاتھ کو بنجارا ہوٹل ہے۔ میں اس کے آٹھویں کمرے میں رہتا ہوں۔ زماں چلنے لگا تو میں نے کہا۔ "یار تمہارے چلے جانے کے بعد سیما بھی اچانک غائب ہو گئی اور آج تک اس کا پتہ نہیں چل سکا۔"
"اچھا۔" اس نے بےپروائی سے کہا اور بولا۔ یار یہ لڑکیاں بھی عجیب بادشاہ ہوتی ہیں کہ وقتے یہ سلامے برنجز گاہے بدشنامے خلعت و ہند، لیکن یار! اب مجھے دیر ہو رہی ہے۔ میں شام کو آؤں گا۔ پانچ چھ بجے میرا انتظار کرنا۔"
وہ چلا گیا میں نے سائیکل کا تالا کھولتے ہوئے سوچا۔ اسٹرپٹومائی سین، بادشاہ، لڑکیاں، یہ کیا بات ہوئی؟
زماں اور میں تین سال تک اکٹھے ایک ہی کالج اور ہوسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہے تھے۔ تین سال کی اس چھوٹی سی مدت میں اس نے مجھے کس کس طرح تنک کیا میں بیان نہیں کر سکتا۔ ظالم کا ذہن اچھا تھا امتحان کے قریب آ کر چند دن پڑھائی کرتا تھا اور پاس ہو جاتا تھا۔ مجھے شروع سے رٹنے کی عادت تھی۔ لنگر لنگوٹے کس کے آدھی آدھی رات تک رٹا لگایا کرتا۔ وہ اپنے بستر میں لیٹے لیٹے سگریٹ پیتے ہوئے مجھے اس طرح جاپ کرتے دیکھ کر بہت ہنستا اور اونچے اونچے پشتو کے شعر گانے لگتا۔ بے حد ضدی اور سرپھرا قسم کا آدمی واقع ہوا تھا۔ جو بات جی میں آتی بےسوچے سمجھے کہہ دیتا۔ تمیز کے نام سے بہت چڑتا تھا۔ مانگنا اس کے مذہب میں حرام تھا۔ کسی بات پر منہ سے نہ نکل گئی تو اس کا ہاں میں تبدیل ہونا ممکنات میں سے نہیں تھا تاش کبھی شرط بدے بغیر نہیں کھیلتا تھا اور اگر ہارنے والے کے پاس پیسے نہ ہوئے تو یا تو اس کی کتابیں ضبط ہیں یا پتلون۔ اپنے پاس رقم نہیں تو کھیل میں شریک ہی نہیں ہوتا تھا۔ سگریٹ سلگانے کو ماچس نہیں تو مجھ سے کبھی نہیں مانگی۔ منہ میں سگریٹ دبائے چوس رہا ہے اور سر ہلا رہا ہے میں نے چائے کی دو پیالیاں بنا کر کہا۔ "زماں بھائی! چائے پیو۔"
اس نے آئینے میں اپنا مہاسا بلیڈ سے چھیلتے ہوئے کہا۔ "نہیں۔"
میں نے کہا۔ "تھوڑی سی۔"
اس نے جواب دیا۔ "بھئی نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "بھئی نہیں کا کیا مطلب؟"
جھلا کر بولا۔ "بھئی نہیں کا مطلب یہ کہ نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "وجہ؟"
بولا۔ "نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "نہیں کیا؟"
کہنے لگا۔ "نہیں ہوتی ہے کہ بس نہیں۔"
ایسے آدمی کے ساتھ تین سال گزارنے جہنم ہیں کہ نہیں؟ باکسنگ میں یونیورسٹی چیمئین شپ کا انعام ملا تو اس بات پر اڑ گیا کہ انعام دینے والے سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ اپنی ہمت سے کپ لیا ہے، ہاتھ کیوں ملاؤں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔"
انعام لے کر ہاتھ ملائے بغیر واپس آ گیا۔ ڈاکیے نے ایک بیرنگ خط لا کر کہا۔ "دو آنے دیجیے۔"
اس نے لفافہ دیکھے بغیر جواب دیا۔ "خط واپس کر دو میں نہیں لیتا۔" میں نے پوچھا تو بولا دو آنے نہیں ہیں۔"
میں نے کہا۔ "یار مجھ سے لے لو، پھر لوٹا دینا۔"
پوچھنے لگا ۔ "کیوں لوں؟"
میں نے کہا۔ "اس لئے کہ خط لے سکو۔"
بولا۔ "نہیں میں نہیں لیتا۔"
میں نے نہیں کا لفظ سن کر کہا۔ "ٹھیک ہے شیروں کے پسر شیر ہی ہوتے ہیں جہاں میں۔ بھلا قبلہ گاہی کی طبیعت بھی ایسی ہی ہے؟ اس پر وہ ہنسنے لگا تو میں نے شیر ہو کر کہا۔ "بلاؤں ڈاکئے کو؟" اس نے نفی میں سر ہلایا اور تاش پھینٹنے لگا۔"
کالج میں جب فیس جمع کرانے کا دن آتا دفتر میں ہنگامہ بپا ہو جاتا۔ لڑکیاں اس دھکم پیل میں فیس دینے سے گھبراتی تھیں۔ ان کی فیس لڑکے جا کر داخل کرواتے تھے۔ اس طح ایک مہینے بعد ان کے کھل کر گفتگو کرنے کا اچھا خاصا موقع مل جاتا تھا۔ وہ اپنے پرس سے روپے نکالتیں اور گن کر کسی کلاس فیلو کو دیتیں۔ وہ انہیں گنتا اور یہ ضرور کہتا کہ ایک روپیہ کم ہے۔ اس طرح لڑکی اور لڑکے کے چہرے پر ایک ساتھ ایک سی دو مسکراہٹیں پھیل جاتیں فیس ادا کر کے پھر انہیں حساب دیا جاتا۔ ایک آدھ آنہ یہ کہہ کر رکھ لیا جاتا کہ یہ ہماری سگریٹ کے لئے ہے۔ پھر وہ اکنی کئی دنوں تک اس لڑکی کے سفید چھلے کی طرح دکھائی دیتی رہتی۔ ہاسٹل میں کئی ایسے بامذاق لڑکے بھی تھے جس کے پاس بہت سی ایسی انگوٹھیاں جمع ہو گئیں تھیں۔ ہماری کلاس میں ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی کہ اس مرتبہ سیما اسے فیس لے جانے کے لئے منتخب کرے مگر وہ صرف سلیم کے ہاتھ اپنی فیس دفتر بھجواتی۔ ایک مرتبہ سلیم نہیں تھا تو سیما نے زماں کو ستر روپے دے کر کہا۔ میری فیس داخل کروا دیجئے۔ زماں کچھ کہے بغیر روپے لئے اور سیدھا ہوسٹل چلا آیا۔ سیما برآمدے میں گھنٹے بھر تک رسید کا انتظار کرتی رہی مگر رسید لانے والا تو اپنے کمرے میں گہری نیند سو رہا تھا۔ دوسرے دن زماں نے اکہتر روپے سیما کے ہاتھ پر رکھ کر کہا۔ کل مجھے نیند آ گئی اور میں فیس داخل نہ کروا سکا۔ آپ اپنے روپے لیجیے اور ایک روپیہ فیس کا جرمانہ ہے۔ سیما نے کھینچ کر روپیہ دیوار سے دے مارا۔ زماں نے کہا۔ ایسے تو نہیں ٹوٹے گا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
کالج میں پروفیسر راج سے اس کی جان جاتی تھی یہ پرانی وضع کے معمر پروفیسر تھے۔ چست پاجامہ اچکن پہنے ململ کی پگڑی باندھ کر کالج آتے ایک ہاتھ میں بورڈ صاف کرنے کا ڈسٹر ہوتا اور دوسرے میں چاکوں کا ڈبا۔ دونوں ہاتھ چاک کی سفیدی سے بھرے ہوتے اور اچکن پر بھی جگہ جگہ ان ہاتھوں کے نشان ہوتے۔ زماں کو وہ ہینگ والا کہا کرتے تھے اور یہ انہیں بجائے پروفیسر صاحب کے باباجی کہا کرتا۔ باباجی کے سامنے اس نے کبھی سگریٹ نہیں پیا، اونچے نہیں بولا، ضد نہیں کی اور کسی بات سے انکار نہیں کیا۔
ڈائی نمیکس کی کاپیاں دیکھتے ہوئے وہ زماں کو بلاتے اور اس کا کان پکڑ کر آہستہ آہستہ مسلتے جاتے اور کہتے جاتے۔ "یہ کیا کیا ہینگ والے! یہ کیا کیا۔" زماں کے منہ میں گھنگھنیاں بھری ہیں، آنکھیں نیچی ہیں، جواب دینے کی سکت نہیں۔ اسی طرح کمان بنا کھڑا ہے۔ اگلا صفحہ پلٹ کر باباجی اس کا کان چھوڑ کر پیٹھ ٹھونکتے اور خوش ہو کر کہتے۔ "میرا ہینگ والا ہے لائق، لیکن پاپی پڑھتا نہیں مکے بازی پر جان دیتا ہے۔" پھر اس کی کاپی بند کر کے کہتے۔ "جا میرے لئے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس لا۔" اور زماں فخر سے سر اونچا کر کے دروازے کی طرف یوں بڑھتا جیسے کسی نے دوجہان کی دولت اسے بخش دی ہو۔
ایک مرتبہ سیما اور ساوتری پتہ نہیں کون سی کتاب لائبریری سے لینے گئیں تو لائبریرین نے انہیں بتایا کہ وہ کتاب تو دیر سے زماں صاحب کے پاس ہے۔ وہ سیدھی ہاسٹل پہنچیں میں رٹا لگانے میں مصروف تھا اور زماں حسبِ معمول رضائی چوڑائی کے رخ اوڑھے یوں ہی آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔ سیما نے اندر آ کر کہا۔ "زماں صاحب! وہ کتاب آپ کے پاس ہے؟"
زماں نے آنکھیں کھول کر جواب دیا۔ "اس میز پر پڑی ہے۔" اور پھر کروٹ بدل کر دیوار کی طرف منہ کر لیا۔ میں اپنی چارپائی سے اٹھ کر ان کے ساتھ کتاب تلاش کرنے لگا لیکن وہ نہ ملی۔ سیما نے پھر کہا۔ "مسٹر زماں! کتاب تو یہاں نہیں ہے؟"
زماں نے اسی طرح لیٹے لیٹے جواب دیا۔ "یہیں کہیں ہو گی۔ پرسوں تواسی میز پر پڑی تھی۔" سیما اور ساوتری نے اس بدتمیزی پر احتجاجا تلاش بند کر دی اور منہ پھلائے چلی گئیں۔
میں نے کہا۔ "یار عجیب احمق ہو۔"
اس نے کہا۔ "ہوں۔" اور پھر سو گیا۔
ایک مرتبہ جب کالج میں ڈرامے کی ریہرسل ہو رہی تھی تو زماں بھی وہاں پہنچ گیا۔ سیما پانی کے جگ کے پاس کھڑی تھی سلیم اپنا مکالمہ بول کر پانی سے حلق تر کرنے آیا تو سیما نے گلاس پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ "اوں ہوں، باہر نل پر جا کر پانی پیجئے، پتہ نہیں کیسے کیسے لوگ ایک ہی گلاس میں پانی پیتے گئے ہیں۔" سلیم اس کی ہمدردی سے بے حد مرعوب ہوا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں شکریہ ادا کر کے باہر نکل گیا۔
زماں نے کہا۔ "مجھے بھی پیاس لگی ہے۔ سیما نے پھر گلاس پر ہاتھ رکھ کر یہی کہا۔ زماں نے گلاس اس کے ہاتھ سے کھینچ کر جگ سے پانی انڈیلا اور غٹ غٹ پی گیا۔ سیما نے کہا۔ "ضدی کہیں کا۔"
زماں نے کہا۔ "وہمی کہیں کی۔" اور ایک مصنوعی ڈکار لے کر ہال سے باہر آ گیا۔ وائی ایم سی اے میں باکسنگ کا مقابلہ ہوا۔ ہمارے کالج کے علاوہ دوسرے کالجوں کے طلبہ بھی یہ مقابلہ دیکھنے آئے۔ زماں کا مقابلہ پنجاب رجمنٹ کے ایک کپتان سے ہوا۔ زماں ہار گیا رنگ سے باہر نکل کر اس نے سیما اور سلیم کو آپس میں باتیں کرتے دیکھا۔ ان کے قریب جا کر زماں نے سیما سے پوچھا۔ "مقابلہ پسند آیا؟"
"بہت!" سیما نے مسکرا کر کہا۔ "مان ٹوٹا! میں کوئی ہارا ہوں؟" اس نے اپنے خون آلود منہ اور چہرے پر پڑے ہوئے نیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "یہ تمغے کامیابی کے بغیر تو نہیں ملتے نا سلیم صاحب!" سلیم صاحب کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ وہ سیما کو لے کر جلدی جلدی سیڑھیاں اتر گیا۔
سردیوں کی ایک تیرہ و تاہ رات کو بارہ بجے کے قریب وہ کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے سر اور بازو پر پٹیاں بندھی تھیں اور ان سے خون رس رہا تھا۔ بتی جلنے سے میں جاگ اٹھا اور اسے اس حالت میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ "کیا ہوا؟" میں نے رضائی پرے پھینک کر پوچھا۔
"کچھ نہیں یار!" اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر منہ میں دبائی اور ماچس میز پر پہلو کے بل کھڑی کر کے دائیں ہاتھ سے اس پر دیا سلائی رگڑنے لگا۔
میں نے کہا۔ "میں جلائے دیتا ہوں۔"
اس نے جھلا کر کہا۔ "آخر کیوں؟ کیا میں اپنی سگریٹ بھی خود نہیں سلگا سکتا؟"
میں نے پھر پوچھا۔ "تم زخمی کیسے ہو گئے؟"
اس نے ہنس کر کہا۔ "جیسے ہوا کرتے ہیں۔ میں حملے کے جواب کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ مجھ پر ایک دم پل پڑا اور چاقو سے کھچاک کھچاک کئی زخم لگا دئیے۔ پھر میں پٹی کروانے اسپتال چلا گیا۔ اسی لئے تو مجھے دیر ہو گئی اور یار! آج دیر سے آنے پر جواب طلبی بھی ہو گی اور جرمانہ بھی۔"
میں نے پوچھا۔ "مگر وہ تھا کون؟"
"مجھے کیا خبر۔" اس نے بستر پر لیٹتے ہوئے کہا۔ "ایسی تاریک رات میں کہیں شکل پہچانی جاتی ہے۔"
"وہ کچھ بولا نہیں؟" میں نے پوچھا۔
"بولا تھا۔"
"کیا کہتا تھا؟"
"میں نہیں بتاتا۔"
میں نے گالی دے کر کہا۔ "تو جا جہنم میں، تجھ سے پوچھتا ہی کون ہے۔"
اس پر وہ ہنسنے لگا اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دیر تک ہنستا رہا۔ بتی بجھا کر اور اپنے بستر میں منہ سر لپیٹ کر میں جی ہی جی میں اسے گالیاں دیتا رہا۔ پھر میں نے رضائی سے منہ نکال کر پوچھا۔ "یار! تم نے اس کی آواز نہیں پہچانی؟"
اس نے جھلا کر کہا۔ "چاچا! میں نے پہلے کبھی اس کی آواز سنی ہوتی تو پہچانتا۔" پھر ہم میں سے کوئی نہ بولا۔
جب دوسرے دن کالج میں ہر ایک نے بار بار اس سے رات کے حادثہ کے متعلق پوچھنا شروع کیا تو اس نے تنگ آ کر ایک نوٹس لگا دیا کہ "پچھلی رات کسی شخص نے مجھے گھائل کیا۔ میں مقابلے کے لئے تیار نہیں تھا اس لئے گہرے زخم آئے پٹی اسی وقت کرائی گئی، اب روبصحت ہوں۔ براہِ کرم کوئی صاحب میری روداد نہ پوچھیں۔ میں اپنی داستان سنا سنا کر تھک گیا ہوں۔" اس کے نیچے اس نے موٹے حروف میں زماں خاں بقلم خود لکھ دیا۔
اس شام میں اسے سائیکل پر بٹھا کر پٹی کروانے اسپتال لے جا رہا تھا کہ راستے میں سیما مل گئی۔ اس نے ہمیں روک لیا اور زماں سے کہنے لگی۔ "مسٹر زماں! میں نے آج آپ کو پٹی بندھے دیکھا تھا لیکن اس کے متعلق پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ کالج سے گھر لوٹتے ہوئے آپ کا اعلان پڑھا تو میرا جی بھی آپ کو تھکا دینے کو چاہا۔ بتائیے کیا ہوا تھا؟"
زماں نے سائیکل کی گدی پر ٹیک لگا کر کہا۔ "کوئی گیارہ بجے کے قریب جب میں اپنے کالج کے پچھواڑے آموں والی سڑک پر جا رہا تھا تو کسی نے میرا نام لے کر پکارا۔ میں رک گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ متوسط قد کا ایک آدمی کمبل پہنے میرے پاس آیا۔ ذرا سی دیر رکا اور پھر ایک دم خنجر سے مجھ پر وار کیا جو میرے بائیں کندھے میں لگا۔ میں نے اس کی ٹھوڑی کو ہٹ کیا مگر چونکہ میرا کندھا زخمی ہو گیا تھا۔ اس لئے ضرب ٹھیک سے نہیں لگی۔ اس نے مجھے نیچے گرا لیا اور پوچھا۔ کیا تم سیما سے محبت کرتے ہو؟ میں نے کہا۔ "ہاں۔"
سیما نے تنک کر پوچھا۔ "آپ نے یہ کیوں کہا؟"
"وہ اس لئے" زماں نے گھنٹی پر انگلی بجاتے ہوئے کہا۔ "کہ اگر میں نہیں کہہ دیتا تو وہ چھوڑ دیتا اور سمجھتا کہ میں نے صرف جان بچانے کے لئے ایسا کیا ہے پھر اس نے خنجر اوپر اٹھا کر کہا۔ اس کا خیال چھوڑ دو نہیں تو تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔ میں نے جواب دیا کہ میں جان سے جائے بغیر اس کا خیال کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ یہ کہتے ہی میں نے پوری طاقت سے اسے پرے دھکیلا اور وہ دور جا گرا۔ سامنے کے چوبارے کی بتی جلی اور وہ بھاگ گیا۔
سیما اس کا جواب دئیے بغیر تیز تیز آنکھوں سے اسے گھورتی ہوئی آگے چلی گئی۔
راستے میں میں نے اس سے پوچھا۔ "تم نے یہ بات مجھے کیوں نہ بتائی؟"
اس نے جواب دیا۔ "چونکہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس لئے۔"
اس واقعے کے تھوڑے عرصے بعد مارچ کے مہینے میں ایک اور عجیب واقعہ رونما ہوا۔ اس وقت ہم لوگ اپنے کمروں کے دروازے کھلے چھوڑ کر اندر ہی سوتے تھے۔ آدھی رات کو کسی نے ہمارے کمرے کے دروازے سے لگ کر سوتے ہوئے زماں پر پستول کے دو فائر کئے۔ ٹیبل لیمپ کا شیڈ ٹوٹ گیا اور میز پر پڑی آکسفورڈ کی ڈکشنری کے بہت سے اوراق گولی چاٹ کر نکل گئی۔
چند دن بعد زماں ہوسٹل سے چلا گیا۔ پھر اس نے کالج آنا بند کر دیا اور مجھے اکیلا چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں چلا گیا آج پورے بارہ سال اسی زماں نے کافی ہاؤس کی سیڑھیوں کے نیچے میری آنکھیں ہاتھ سے ڈھانپ کر گویا پوچھا تھا۔ "میں کون ہوں؟"
میں بنجارہ ہوٹل میں دیر تک اس کا انتظار کرتا رہا۔ سات بج گئے مگر وہ نہ آیا۔ میں اپنے کمرے سے باہر نکل کر برآمدے میں ٹہلنے لگا ہوٹل کے پھاٹک پر زماں ایک بیرے سے میرا پتہ پوچھ رہا تھا۔ میں لپک کر اس کے پاس پہنچا اور اسے اپنے کمرے میں لے آیا۔
گھنٹی بجا کر میں نے بیرے کو بلایا اور زماں سے پوچھا۔ "چائے پیو گے؟"
"نہیں۔" اس نے منہ پھاڑ کر جواب دیا۔
"آخر کیوں؟"
"بس نہیں۔"
جب اس نے "بس نہیں۔" کہا تو میں نے بیرے سے کہا۔ "جاؤ کوئی کام نہیں۔"
میں نے زماں کے قریب کرسی کھینچ کر اسے وہی خبر سنائی کے اس کے چلے جانے کے بعد سیما بھی کہیں روپوش ہو گئی اور آج تک اس کا کوئی کھوج نہ مل سکا۔
"لیکن وہ گئی کہاں یار؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔ "اس کے ماں باپ نے تلاش بھی نہ کی؟"
"کی بھائی! بہت کی، مگر اس کا پتہ ہی نہ چلا۔"
"کمال ہے۔" اس نے اپنے کرتے کی جیب سے ایک بیڑی نکالی اور چوسنے لگا۔ میری طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھ کر کہنے لگا۔ جس رات مجھ پر کسی نے گولی چلائی۔ اس سے اگلے دن سیما مجھے لائبریری میں ملی۔ اس نے مجھے کہا کہ میں شام کو اسے آرام باغ میں ملوں۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے اتنا کہا کہ شام کو بتاؤں گی۔ شام کو ہم کرکٹ گراؤنڈ سے پرے درختوں کے ایک جھنڈ میں بیٹھ گئے۔ سیما نے کہا۔ "زماں! اگر میں تم سے ایک چیز مانگوں تو دو گے؟" میرے منہ سے پتا نہیں کیوں "ضرور" نکل گیا۔ اس نے روہانسی ہو کر کہا۔ مجھے اپنی زندگی دے دیجئے۔ میں نے بازو پھیلا کر جواب دیا۔ "لے لو" تو اس نے کہا۔ "میں اسے لے جا کر جہاں چاہوں رکھوں؟" میں نے کہا۔ "جو چیز تمہاری ہے اس کے رکھ رکھاؤ میں داخل والا میں کون؟" پھر اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور وہ ہاتھ باندھ کر بولی۔ یہاں سے چلے جائیے اپنے گاؤں یا کہیں اور وہ لوگ آپ کو مار ڈالیں گے۔۔۔۔۔۔ آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ سسکیاں بھر کر رونے لگی۔ میں نے کہا۔ "یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا۔ میرے حملہ آور سمجھیں گے میں ڈر کر بھاگ گیا ہوں، میرے دوست کہیں گے میں بزدل تھا اور باکسنگ میں مجھ سے ہارے ہوئے حریف کہیں گے۔ وہ اب ہوتا تو۔۔۔۔۔۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا سیما! خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے تم مجھے اس بات پر مجبور نہ کرو۔" اس نے کہا۔ "تم نے وعدہ کیا تھا اور میں اس کی شہ پر اتنی سی چیز کی فرمائش کی ہے۔ اب تم اس چیز پر اپنا وعدہ قربان کر رہے ہو؟ میں نے تو سنا تھا کہ تمہارے وعدے کبھی نہیں ٹوٹتے۔" میں نے سیما سے وعدہ کر لیا تھا کہ اپنے گاؤں تو نہ جاؤں گا پر بمبئی چلا جاؤں گا۔ وہاں میری برادری کے چند افراد سودی روپے کا لین دین کرتے تھے۔ میں تمہیں بتائے بغیر ان کے پاس پہنچ گیا۔ دن رات مجھے ایک یہی خیال کھائے جا رہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ موت سی چیز سے ڈر کر بھاگ گیا۔ میں نے سیما کو ایک خط لکھا کہ بمبئی کی زندگی سے تنگ آ گیا چکا ہوں اور واپس آنا چاہتا ہوں۔ اب مجھے وعدے کا ذرا بھی پاس نہیں۔ اگر زندگی میں ایک وعدہ ایفا نہ ہو سکا تو کون سی قیامت آ جائے گی۔ میں تمہارے خط کا ایک ہفتے تک انتظار کروں گا اور اس کے بعد میں پھر تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا۔ چار دن گزر گئے خط نہ آنا تھا نہ آیا۔ پانچویں دن سیما خود میرے پاس پہنچ گئی۔ اس نے مجھے کالج کی کتنی ہی دلچسپ خبریں سنائیں۔ تمہارے متعلق بتایا کہ تم نے ایک نیولا پال لیا ہے اور اسے چھپا کر کلاس میں لے آتے ہو۔ باباجی کے بارے میں بتایا کہ میرا نام لے کر بار بار کہتے ہیں کہ وہ پاپی بہت یاد آتا ہے۔ پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ خدا جانے ہم کو یاد بھی کرتا ہے یا نہیں۔ پھر سیما نے کہا کہ میں اس لئے آئی ہوں کہ تم اپنا وعدہ نبھا سکو۔ اب میں عمر بھر تمہارے ساتھ رہوں گی اور تمہیں اپنے قول پر قائم رکھوں گی۔"
"مجھے کسٹم میں ایک معمولی سی نوکری مل گئی اور بھنڈی بازار کی اسی گلی میں ہماری شادی ہو گئی لیکن یار وہ بجھی بجھی سی رہتی اور جب میں دفتر میں ہوتا تو روتی بھی رہتی۔ شام کو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی ہوتیں اور وہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹیں پھیلا پھیلا کر مجھ سے باتیں کرتی۔ پھر ایک دن پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا کہ میرے پیچھے پڑ گئی کہ بمبئی چھوڑ کر کہیں اور دور نکل چلو۔ یوں تو یار میں رات کو اس کے ساتھ تاش کھیل کر اس کے سارے روپے جیت لیا کرتا تھا اور کبھی واپس نہ کرتا۔ پر مجھے اس کے دل کا بڑا خیال تھا۔ اینگلو ایرانین آئل کمپنی میں مستریوں کی جگہ خالی تھی۔ میں نے عرضی دے دی۔ انتخاب ہوا اور ہم آبادان پہنچ گئے اور یار! اب آبادان کی باتیں سناؤں گا تو رات بیت جائے گی مگر کہانی ختم نہ ہو گی۔ وہاں باکسنگ اور ڈائی نمیکس نے بڑا کام دیا۔ مائیکل صاحب ہر مہینے باکسنگ کا ایک مقابلہ کراتے اور میری گیم ضرور دیکھتے۔ ایک سال کے اندر اندر میں ڈپٹی انجینئر ہو گیا۔ سیما کے بڑے ٹھاٹ تھے۔ اس نے ساری ہندوستانی اخباریں اور رسالے اپنے نام جاری کرا رکھے تھے۔ اپنے بنگلے کے باغیچے میں بید کی کرسی ڈال کر دیر تک مطالعہ کرتی رہتی۔ مستریوں اور فٹروں کی بیویاں اور بچے اس کے گرد گھیرا ڈالے اسے طرح طرح کی باتیں سنایا کرتے۔ اس دوران میں ہم نے شاید ہی کوئی فلم چھوڑی ہو۔ ہر روز سینما کا چکر ہو جاتا تھا۔ کبھی کبھار ہم ناراض بھی ہو جاتے تھے لیکن ہر بار میں ہی اسے مناتا۔ وہ اپنے ابا اور امی کو یاد کر کے بہت رویا کرتی تھی۔ مجھ سے یہ بات پتا نہیں کیوں برداشت نہ ہوتی اور یہیں سے جھگڑا شروع ہو جاتا۔ آبادان کی زندگی میں صرف ایک بار اس نے مجھے منایا وہ بھی غیر ارادی طور پر۔ تمہاری تصویر اخباروں میں چھپی تھی وہ اس کی بھی نظر پڑی۔ میں اس وقت ریفائنری کے ایک ہزار فٹ اونچے کولنگ ٹینک پر بیٹھا سرکٹ دیکھ رہا تھا، کہ سیما ٹرالی پر چڑھ کر اوپر میرے پاس پہنچ گئی۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ ان دنوں روٹھی ہوئی تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ وہ بنگلے سے ریفائنری اور پھر فرش سے اتنی اونچی چوٹی پر چڑھ آئی تھی۔ میں سرکٹ کا معائنہ مستریوں پر چھوڑ کر اس کے ساتھ سوار ہو گیا۔ ٹرالی آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگی۔ میں جنگلے کے ایک کنارے بیٹھ گیا تو اس نے میری آستین پکڑ کر کھینچی۔ میں کچھ بولا نہیں۔ پھر اس نے میری کلائی پکڑ لی۔ مجھے اپنی طرف کھینچا اور بولی۔ یہاں نہ بیٹھو۔ میں نے کہا۔ تم تو مجھ سے بولنا ہی نہیں چاہتیں یہاں سے کیوں اٹھاتی ہو؟ اس نے میری دونوں کلائیاں پکڑ کر اپنی طرف کھینچیں اور میرے ساتھ چمٹ کر بولی۔ تم سے نہ بولوں گی تو اور کس کے ساتھ بولوں گی۔ ٹرالی زمین پر پہنچ گئی اور سارے مستریوں اور مزدوروں سے بے خبر وہ مجھ سے اسی طرح چمٹی رہی۔
"ہماری شادی کے پورے چھ سال بعد سہیل پیدا ہوا اور سیما کا اس سے دل لگ گیا۔ اس کے بعد شاید ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ اور یار! میں نے تم سے کہا نا کہ یہ لڑکیاں عجیب بادشاہ ہوتی ہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "سیما اب کہاں ہے؟"
زماں نے جواب دیا۔ پچھلے دسمبر کی ایک شام سہیل اپنے کونونٹ سے ڈرامہ دیکھ کر آیا تو راستے میں اسے بڑی سردی لگی۔ گھر آ کر اس نے اپنی ممی سے کہا مجھے گرم دودھ پلاؤ تو اس نے یہ سوچ کر کہ باورچی دیر لگائے گا خود ہی ایک پیالے میں دودھ ڈال کر اسے اپنے ہیٹر پر رکھ کر پلگ جو لگایا تو اسے شدید برقی صدمہ پہنچا۔ رات تک سارے ڈاکٹر اس کے گرد جمع رہے لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکی۔ سہیل کو اپنی ممی کی موت کا بہت صدمہ ہوا۔ وہ اسی دن سے بیمار ہے کہ سیما کی موت کے بعد مجھے اپنے معاہدے کے مطابق ایک سال اور وہیں رہنا پڑا اور اس عرصے میں سہیل کی حالت بد سے بدتر ہو گئی اور سچی بات تو یہ ہے کہ سیما کے بعد میں اس پر پوری توجہ نہ دے سکا۔ اس دوران میں خوب جی بھر کر برج کھیلی اور سیما کا جمع کیا ہوا روپیہ ہارتا رہا اور اب مجھے یہاں آئے پورا ایک مہینہ بھی نہیں ہوا۔ سہیل کی حالت اب بالکل بگڑ چکی ہے۔ ڈاکٹر نے اسٹرپٹومائی سین کے ٹیکے تجویز کئے ہیں اور آج دوپہر میں اسی کا پرمٹ لینے جا رہا تھا کہ تم مل گئے۔"
"میں نے پوچھا۔ "پرمٹ مل گیا؟"
"ہاں۔" اس نے اپنے کرتے کی بغلی جیب میں ہاتھ ڈال کر خاکی رنگ کا ایک کاغذ نکال کر دکھایا اور بولا۔ "اب تو دکانیں بند ہو گئی ہوں گی صبح ٹیکے خریدوں گا۔"
میں نے کہا۔ "الفنسٹن اسٹریٹ میں ابھی بہت سی دکانیں کھلی ہوں گی۔ ابھی چل کر کیوں نہ لے لیں۔"
زماں نے کہا۔ "اب کل ہی لوں گا۔"
"کل کیوں؟" میں نے پوچھا۔
"بس یار! آج نہیں لوں گا۔"
"نہیں کیوں؟"
"نہیں لوں گا یار! کیوں کیا؟"
"پیسے نہیں؟" میں نے پوچھا۔
"ہیں۔" اس نے خوف زدہ ہو کر کہا۔
"دکھاؤ۔"
"نہیں دکھاتا۔"
میں نے کہا۔ "اچھا تمہاری مرضٰ، یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ تم ہمیشہ سے ضدی اور اپنی ہٹ کے پکے رہے ہو۔ بچے کی جان کے لالے پڑے ہیں اور تم اپنی وضعداری نبھا رہے ہو۔"
اس نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اور بولا۔ "اچھا اب چلتا ہوں کل تم سے ملوں گا۔ دس گیارہ بجے کے قریب۔"
وہ چلا گیا تو میں نے اپنے بٹوے سے سو روپے کا ایک نوٹ نکالا اور پڑیا بنا کر مٹھی میں چھپا لیا۔ پھر میں تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ وہ ہوٹل کے پھاٹک کے پاس ایک دیا سلائی خرید رہا تھا۔ میں نے کہا۔ "ظالم! اتنی لمبی رات درمیان میں ہے۔ گلے تو مل لو۔" جب وہ مجھ سے بغل گیر ہوا تو میں نے سو روپے کا نوٹ چپکے سے اس کی بغلی جیب میں ڈال دیا۔
تھوڑی دور اس کے ساتھ چل کر میں واپس اپنے ہوٹل میں آ گیا اور بیرے سے کہا کہ اگر کوئی صاحب مجھ سے ملنے آئیں تو انہیں کہہ دینا کہ میں یہ ہوٹل چھوڑ کر چلا گیا ہوں اور دیکھو صبح سات بجے ایک وکٹوریا لا کر مجھے جگا دینا میں صبح کی گاڑی سے واپس جا رہا ہوں۔" یہ کہہ کر میں اپنے کمرے میں آیا زماں کے نام ایک خط لکھا اور اسے میز میں ڈال کر سو گیا۔
صبح ساتھ بجے بیرے نے دروازہ کھٹ کھٹانا شروع کر دیا میں نے کہا۔ "جاگ گیا ہوں بھئی تم جاؤ۔"
مگر بیرے نے شاید میری آواز نہیں سنی۔ اسی طرح دروازہ پیٹے چلا گیا۔ جھلا کر میں بستر سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے زماں کھڑا بیڑی پی رہا تھا۔ اس نے ہنس کر کہا۔ "یار عجیب گھوڑے بیچ کر سوتے ہو۔ اس عمر میں ایسی نیند اچھی نہیں ہوتی۔ بھلے مانس صبح اٹھ کر اللہ کا نام لیا کرو۔"
میں نے خفت مٹاتے ہوئے کہا۔ "بھائی! رات کو دیر تک جاگتا رہا۔ اسی لئے آج دیر سے اٹھا ہوں ورنہ اب تو کالج کا وہ لونڈا نہیں رہا۔ "پھر میں نے اس کے ہاتھ سے بیڑی لے کر یوں ہی ایک دو کش لگائے اور پوچھا۔ "سہیل کیسا ہے؟"
اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ "یار! وہ بھی اپنی ممی سے جا ملا۔" پھر اس نے اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور دامن الٹ کر کہا۔ "یار! ذرا دیکھنا۔ کل رات یہاں سے جاتے ہوئے کسی صاحب زادے نے ہماری جیب کاٹ لی جیسے ہم جیبوں میں نوٹ ہی تو ڈالے پھرتے ہیں۔ سالے کو اسٹرپٹومائی سین کے پرمٹ اور تین آنے کے سوا کیا ملا ہوگا۔" کٹی ہوئی جیب سے اس کی زرد زرد انگلیاں چھپکلیوں کے سروں کی طرح باہر جھانک رہی تھیں۔



******
ٹائپنگ:  ملک بلال بھائی - اردو محفل
بشکریہ : اردو محفل

افسانہ : سفید بھیڑ

سفید بھیڑ
محمداحمد​

کلیِم کو نہ جانے کیا تکلیف ہے۔
وہ اُن لوگوں میں سے ہے جو نہ خود خوش رہتےہیں نہ دوسروں کو رہنے دیتے ہیں۔ 
18 تاریخ ہو گئی ہے اور مجھے ہر حال میں 25 سے پہلے پہلے احمر کی فیس جمع کروانی ہے۔ پیسوں کا بندوبست بھی سمجھو کہ ہوگیا ہے لیکن بس ایک کانٹا اٹکا ہوا ہے اور وہ ہے کلیم۔ 

امداد حسین کے روز فون آ رہے ہیں ۔ وہ ہر روز پوچھتا ہے کہ میرے کام کا کیا بنا ۔ اب میں اُسے کیا کہوں کہ کلیم اُس کی فائل پر سانپ بنا بیٹھا ہے۔ کم بخت نہ خود چین سے جیتا ہے اور نہ ہمیں جینے دیتا ہے۔


میں ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہوں ۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے۔ یہ تو وہ چادر ہے کہ سر پر اوڑھو تو پیر تو کیا گھٹنے تک کھل جاتے ہیں۔ اوپر سے یہ ایمانداری کا ٹھیکیدار ہم پر مسلط ہو گیا تھا ۔ بندہ آخر کرے تو کیا کرے۔ ارے بھئی اوپر تو بندہ جب جواب دے گا تب دے گا، یہاں تو سکون سے جینے دو۔ 

امداد حسین ایک کنٹریکٹر ہے ، جو سرکاری اداروں میں ٹھیکے پر محتلف نوعیت کے کام کرتا ہے۔ وہ اس میدان کا پرانا کھلاڑی ہے سو جانتا ہے کہ سرکاری محکمے سے کام کیسے لیا جاتا ہے اور کس طرح کا کام کرکے دیا جاتا ہے۔ افسر سے لے کر چپراسی تک سب کو کیسے خوش رکھا جائے یہ امداد حسین اچھی طرح سمجھتا ہے۔ پھر ہم تو کہتے ہیں کہ اچھا آدمی وہی ہوتا ہے جو مل مِلا کر کھائے اور امداد حسین سب کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ 

کلیم ہمارے ہاں بطور سروئیر کام کرتا ہے۔ بلکہ کام بھی کیا کرتا ہے اُلٹا کام روک کر بیٹھ جاتا ہے۔ میں تو ایک چھوٹا سا ملازم ہوں اُس سے تو بڑے بڑے افسر تنگ ہیں لیکن نہ جانے کیا اڑچن ہے کہ اُس کا پتّہ ابھی تک صاف نہیں کر سکے ۔ 

بہر حال ماجرہ کچھ یوں ہے کہ امداد حسین کے ایک بڑے پروجیکٹ کی ادائیگی ہمارے محکمے کی طرف سے ہونی ہے اور چونکہ یہ حتمی ادائیگی ہے سو اُس سے پہلے پروجیکٹ سروے رپورٹ اور سٹسفکشن نوٹ کا تیار ہونا ضروری ہے۔ یوں تو سب دستاویزات تیار ہیں لیکن کلیم بطور سروئیر اُس پر دستخط کرنے پر راضی نہیں ہے ۔ اُس کے حساب سے پروجیکٹ پر غیر معیاری مٹیریل استعمال کیا گیا ہے اور معاہدے کی بہت سی شقوں کو سراسر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ اس الو کے پٹھے سے کوئی یہ پوچھے کہ سرکاری محکمے میں کام ایسے نہیں ہوگا تو کیسے ہوگا۔ اب مسئلہ یہ آن کھڑا ہوا ہے کہ سروئیر کے دستخط کے بغیر ادائیگی ممکن نہیں ہے ۔ 

میں کلیم سے خود بھی ملا اور اُسے سمجھایا کہ بھائی تیرے باپ کا کیا جا رہا ہے اُلٹا کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا تیرے بچوں کے ہی کام آئے گا۔ لیکن اُس کی کھوپڑی میں بُھس بھرا ہے۔ سمجھنے کے بجائے وہ اُلٹا مجھے لیکچر دینے لگا۔ اُس کی بکواس سننے کی تاب مجھ میں نہیں تھی سو اُس پر لعنت بھیج کر چلا آیا لیکن یہ بات میرے دل میں پھانس کی طرح چبھ گئی ۔

جیسا کہ میں نے بتایا کہ مجھے ہر حال میں 25 تاریخ تک احمر کی فیس جمع کروانی ہے اور تنخواہ میں سے اتنی بڑی رقم نکالنا ممکن نہیں ہے۔ میں نے احمر کو ایک بہت ہائی اسٹینڈرڈ کے اسکول میں داخل کروایا ہے یہ شہر کی معروف اسکول چین ہے اور کیمبرج سسٹم سے وابستہ ہے۔ گو کہ اس کی فیس اور دیگر اخراجات میری آمدنی سے لگّا نہیں کھاتے لیکن بچوں کے مستقبل پر تو سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ۔ میں اپنے بیٹے کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں اور گلی محلے میں بنے دو دو ٹکے کے اسکول میں پڑھ کر تو یہ ممکن نہیں ہے۔ 

کلیم کو ہی دیکھ لو ، سالے نے مر کھپ کے انجینیرنگ کی ڈگری لی ۔ اس کا باپ اس کی فیس دے دے کر مر گیا ۔ اب وہی حرکت یہ بے وقوف بھی کر رہا ہے ۔ یعنی وہی تھرڈ کلاس نوکری اوپر سے ایمانداری کا بخار ۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب اس کے بچے دو کمرے کے اسکول میں پڑھ رہے ہیں ۔ اِن لوگوں کی نسلیں ایسے ہی ذلیل ہوتی رہیں گی لیکن عقل نہیں آئے گی۔ 

*****​

بہرحال حل تو ہر مسئلے کا موجود ہوتا ہے۔ بس تلاش کرنے والا ہونا چاہیے۔ سو میں نے کچھ ہمت کی اور حل نکل ہی آیا ۔
میرا پلان سادہ سا تھا۔ آج صبح میں گاڑی کے بجائے بائیک لے کر نکلا۔ دفتر آنے کے لئے میں گاڑی استعمال کرتا ہوں لیکن گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے بائیک استعمال کرتا ہوں۔ لیکن آج چونکہ 'اسپیشل ڈے' تھا سو آج بائیک پر آنا ضروری تھا ۔ ہاں البتہ کچھ جلدی نکلنا پڑا کہ 'شکار' پر جانے کے لئے جلدی ہی نکلنا ہی پڑتا ہے۔ 

سیاہ شیشے والے سُرخ ہیلمیٹ میں میری شناخت صرف ایک بائیکر کی حیثیت سے ہی ہو سکتی تھی۔ میرا وقت کا اندازہ بھی ٹھیک ہی نکلا۔ بامشکل دو چار منٹ انتظار کرنے پر مجھے وہ گھر سے نکلتا نظر آ یا ۔ اُس نے سفید قمیض پہنی ہوئی تھی اور اُس کا نیلا ہیلمیٹ بائیک کی ٹنکی پر رکھا ہوا تھا ۔ اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔ دو گلیاں کراس کرنے کے بعد ہم مین روڈ پر آگئے یہاں ٹریفک کی رفتار نسبتاً زیادہ تھی۔ میں اُس کی بائیک کے پیچھے تھا۔ موقع مناسب دیکھ کر میں نے ایکسیلریٹر پر دباؤ بڑھایا اور تیزی سے اُس کی بائیک کے عین پیچھے پہنچ کر اپنا اگلا وہیل اُس کے پچھلے وہیل پر ٹچ کرتے ہوئے بائیں طرف ہلکا سا جھٹکا دے دیا۔ 

وہ نہ جانے کن خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ میرا ہلکا سا اشارہ بھی اُس کے لئے کافی رہا۔ اُس کی گاڑی جھولتی ہوئی آگے چلتے چھوٹے ٹرک سے ٹکرائی اور اُس کا سر ٹرک کے دیسی ساختہ ڈھالے سے ٹکرا گیا۔ تاہم 'اس کام ' میں 'ناتجربے کاری ' کے باعث میں بھی سڑک پر گر گیا۔ یہ اچھا ہوا کہ میرا ہیلمیٹ نہیں اُترا۔ چونکہ میں باقاعدہ زخمی نہیں ہوا تھا سو آنے والے ہمدردوں اور تماش بینوں کی ساری توجہ 'اُس' کی طرف ہی تھی اور یہ موقع میرے لئے غنیمت تھا۔ میں لنگڑاتا ہوا اُٹھا اور کپڑے جھاڑنے کے بجائے بائیک پر بیٹھ کر تقریباً اُڑنے کی رفتار سے نکل گیا۔ شاید کچھ لوگ مجھے آواز دے رہے تھے لیکن میں نے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ یوں ہمارے ہاں اس صورتحال میں یہ سب کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کسے پتہ تھا کہ یہ ایکسیڈینٹ اتفاقی نہیں تھا۔ میری بائیک کی چھوٹی سی نمبر پلیٹ پر لتھڑی مٹی بھی کسی کے لئے نئی بات نہیں ہوگی کہ موٹر سائیکل کا نمبر پڑھ لینا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ 

باقی 'سیٹنگ' مشکل نہیں ہے۔ کلیم کی غیر موجودگی میں الطاف صاحب کسی نہ کسی طرح ایڈیشنل چارج لے ہی لیں گے اور پھر امداد حسین سمیت ہم سب کا ہی بیڑہ پار لگ جائے گا کہ اصل کانٹا تو نکل ہی گیا ہے۔ 

*****​

آپ سوچتے ہوں گے کہ میں بھی کیسا سفاک ہوں، کتنا ظالم ہوں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں اتنا بُرا بھی نہیں ہوں۔ اگر کلیم اتنی ہٹ دھرمی نہیں دکھاتا تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔ کلیم کے ساتھ جو بھی ہوا اُس کا دکھ مجھے بھی تھا تاہم اس میں قصور سراسر کلیم ہی کا تھا۔ ایکسیڈینٹ کے دوسرے دن اپنا فرض سمجھتے ہوئے میں نے اُس کے لئے ایک قیمتی اور حسین پھولوں کا گلدستہ بنوایا اور کلیم سے ملنے ہسپتال پہنچا ۔ آخر کو وہ میرا دفتری ساتھی تھا ۔ 

میں پہنچا تو کلیم دواؤں کے زیرِ اثر سویا ہوا تھا۔ یہ اچھا ہی ہوا کہ شاید اُس وقت کلیم سے آنکھیں ملانا اور بات کرنا میرے لئے اتنا آسان نہیں ہوتا۔ میں نے کلیم کی اہلیہ سے اُس کی خیریت پوچھی۔ اُس کے صرف سر پر ہی چوٹ لگی تھی اور کچھ ٹانکے وغیرہ آئے تھے ۔ باقی جسم متاثر نہیں ہوا تھا۔ 

رسمی کلمات کے بعد میں نے اجازت چاہی اور چلتے وقت ایک معقول رقم کا لفافہ اُس کی اہلیہ کے ہاتھ میں تھما دیا کہ کلیم کے علاج معالجے میں خرچ کر لیں اور اُسے کچھ کہنے کی مہلت دیے بغیر نیچے اُتر آیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے وقت پر مالی سہارا بڑا اہم ہوتا ہے۔ یہ بات البتہ دگر ہے کہ مجھے بھی یہ کام کرکے کافی سہارا ملا اور اگر مجھے کوئی پچھتاوا تھا بھی تو وہ رفع ہو گیا۔ 

ہسپتال کے مین گیٹ سے نکل کر میں باہر آیا تو امداد حسین گاڑی میں میرا منتظر تھا۔ امداد حسین کو تو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ کلیم کے اس حال پر پہنچنے کی ایک وجہ وہ بھی ہے۔ تاہم کلیم کے ایکسیڈینٹ کا سُن کر امداد حسین نے پیشگی ہی وہ پیسے دے دیے تھے، جو اگر کلیم کو دیے جاتے تو وہ کبھی نہ لیتا۔ بے وقوف جو ہوا۔ 

ویسے میں سوچتا ہوں کہ کلیم خوش قسمت ہی تھا ورنہ ایکسیڈینٹ میں تو لوگ جان سے بھی چلے جاتے ہیں۔

*****​

افسانہ : موم کی مریم ۔ جیلانی بانو

موم کی مریم

جیلانی بانو


"موم کی مریم" جیلانی بانو ہی کا نہیں، اردو افسانے کا بھی ایک آبرو مند نمائندہ ہے۔ جیلانی بانو 1935ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے والد شاعر حیرت بدایونی بہ سلسلۂِ ملازمت مقیم تھے۔ دسمبر 1953ء میں پہلا افسانہ لکھا۔ اس کے بعد سے آج تک مسلسل لکھ رہی ہیں اور پاکستان اور بھارت کے معروف ادبی رسائل لے لئے لکھتی ہیں۔ افسانوں کا پہلا مجموعہ "روشنی کے مینار" 1958ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دو اور مجموعے "نروان" اور نغمے کا سفر" شائع ہوئے۔ تین ناولٹ "جگنو اور ستارے" 1964ء میں اور ایک ناول "ایوانِ غزل" 1977ء میں شائع ہوا۔ متعدد ڈرامے بھی لکھے۔ "موم کی مریم" پہلی مرتبہ رسالہ اور ادب لطیف (لاہور) میں چھپا تھا۔


آج بھی اندھیرے میں لیٹا میں خیالی ہیولوں سے کھیل رہا تھا۔

اور جب بھی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ تم نہ جانے کہاں سے نکل آتی ہو۔ جیسے تم نے تاریکی کی کھوکھ سے ہی جنم لیا ہو۔ اور مجبورا مجھے جلے ہوئے سگریٹ کی راکھ کی طرح تمہیں بھی زمین پر جھٹک دینا پڑتا ہے۔

میں نے کبھی تمہارے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ کبھی تمہارے اوپر نظمیں نہیں لکھیں۔ کبھی تمہاری یاد میں تارے نہیں گنے۔ پھر کیوں تمہیں یاد کئے جاؤں۔۔۔۔۔؟

زندگی میں تم سے اتنی دور رہا کہ کبھی اس رنگ و بو کے سیلاب میں غرق نہ ہو سکا جو تمہارے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ ہمارے بیچ میں جھوٹی عقیدت اور مضحکہ خیز احترام کی خلیج حائل رہی۔ پھر آج تم اپنی آہوں اور سسکیوں سے کون سے دبے ہوئے جذبے جگانا چاہتی ہو۔۔۔۔۔؟

آج صبح عائشہ کے خط سے مجھے تمہاری موت کی خبر مل چکی ہے مگر میں اس موت پر اظہار افسوس نہ کر سکا۔ روزانہ جانے کتنے بادل بنا برسے گزر جاتے ہیں۔ کتنے نغے ساز کے اندر ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کتنے انسان ایک لمحہ کی خوشی ڈھونڈتے ڈھونڈتے مر جاتے ہیں۔ پھر تمہاری موت تو میرے سامنے کتنی بار ہو چکی ہے۔ اگر مادی طور پر تم چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آج میرے کمرے میں آ بیٹھی ہو۔

جب سے عائشہ کا خط پڑھا ہے میرے خیالات کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈولتے پھرتے ہیں اور نہ جانے کیوں بہت سی دھندلی دھندلی یادیں جھلملانے لگی ہیں اور اندھیرے اجالے میں بہت سے چہرے غلط ملط ہو گئے ہیں۔

مگر اس وقت تمہارے خیالی وجود سے باتیں نہیں کر رہا ہوں کیوں کہ تمہاری جانی پہچانی سسکیاں مجھ کو تمہاری موجودگی کا یقین دلا رہی ہیں تو میں اسے واہمہ کیسے تصور کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔؟

تمہارا اور اندھیرے کا ہمیشہ کا ساتھ رہا ہے۔ تم زندگی بھر جہاں جہاں بھی گئیں چراغ گل ہوتے گئے۔ تاریکی کے حلقے تمہیں اپنے گھیرے میں اسیر کئے رہے۔ جس طرح مریم کی تصویر کے گرد مصور نے نورل کا ہالہ کھینچ دیا ہے۔ عصمت، تقدس اور معصومیت کی لکیریں جن کے اندر پاک مریم کی روح کو محصور کر دیا گیا ہے۔
اس وقت بھی جب تمہارے سیاہ مستقبل کی طرح کمرے میں تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ تمہارے آنسو یوں چمک رہے ہیں۔ جیسے پر پرامید بحرین نے دریا کی سطح پر چراغوں کی قطار چھوڑ دی ہو۔ میرے کمرے میں تمہارے آنسوؤں نے اجالے کی امید قائم کر رکھی ہے۔۔۔۔۔ ہم مشرق کے مرد صدیوں سے اپنی عیش گاہوں میں تمہارے اشکوں سے چراغاں مناتے آئے ہیں۔۔۔۔۔

تمہارے متعلق لوگوں نے جو کہانیاں مشہور کر رکھی تھیں وہ بالکل سطحی تھیں اور اسی لئے میں نے حقیقت کی سطح پر اتر کر تمہیں سمجھنا چاہا تھا۔۔۔۔۔ تم کیا تھیں! اماوس کی رات کو ٹوٹنے والا ایک ستارہ جو اپنی آخری جھلک سے بہت سے دلوں میں امید کی کرن چمکا کر غائب ہو جائے۔۔۔۔۔ ایک تند لہر جو اپنے زعم میں ساحل کے پرخچے اڑا دینے کے ساتھ خود بھی مٹ گئی ہو۔

آج جب تم اپنے گناہوں کی لمبی فہرست سمیت خود ہی میرے کمرے میں آ گئی ہو۔ تو مجھے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تم ایک عام سی لڑکی ہونے کے باوجود دوسروں سے کس قدر مختلف تھیں۔ تم ایک مسحور کرنے والا جادو بن گئیں تھیں۔ جو کتنے ہی خریداروں کو خرید لایا۔ مگر سونگھا ہوا پھول سمجھ کر سب واپس چلے گئے۔

دوکان دار کے نزدیک وہ چیز کتنی حقیر ہو جاتی ہے جسے گاہک الٹ پلٹ کر پھر دوکان پر رکھ جائے۔۔۔۔۔ شیشے کے کیس میں بند رہنے والی گڑیا۔۔۔۔۔ آج تم اتنی صاف صاف باتیں سن کر حیران کیوں ہو رہی ہو۔ جبکہ تم نے اپنے آس پاس کے شیش محل چکنا چور کر ڈالے تھے۔ اور سماج کی کھینچی ہوئی لکیروں پر چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک بار تم سب لڑکیوں کو آنگن میں دھماچوکڑی مچاتے دیکھ کر امی نے کہا تھا۔

"اونہہ، مت روکو نگوڑی ماریوں کو۔۔۔۔۔ کنواری لڑکیاں برساتی چڑیاں ہوتی ہیں۔ کون جانے کل کس کا ڈولا دروازے پر کھڑا ہو گا۔۔۔۔۔"

اس وقت اخبار پڑھتے پڑھتے میں نے تمہاری زندگی کا پورا فلم دیکھ ڈالا تھا۔ جب تم کسی ناصر یا شاہد کلرک سے بیاہی جاؤ گی اور آنسو پونچھتی ڈولے میں سوار کرائی جاؤ گی۔ پھر ہر سال ایک نئے منے کی پیدائش میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور ساتویں یا آٹھویں ننھے کی پیدائش پر تپ دق کا شکار ہو کر مر جاؤ گی۔ ہر لڑکی انہی لکیروں پر دوڑتی آئی ہے۔ مگر تم نے اپنی انفرادیت کا ایک دوسرا راستہ ڈھونڈنا چاہا جس کی سزا میں موت اور زندگی تم پر حرام ہو گئی۔

تم منجھلے چچا کی دسویں یا گیارہویں اولاد تھیں۔۔۔۔۔ پھر نامراد لڑکی۔۔۔۔۔

"اونہہ، لڑکی ہے تو کیا ہوا نصیب اچھے ہوں۔ لڑکے کون سا فیض پہنچاتے ہیں۔۔۔۔۔ ماں باپ کی موت پر آنسو بہانے والی بیٹی ہی تو ہوتی ہے۔"

اور اپنی موت کے نوحہ گر کے پیدا ہوتے ہی کسی نے تمہیں خوش آمدید نہ کہا۔

اپنے ارد گرد کے اس ماحول نے تمہیں زیادہ حساس بنا دیا۔ حقارت کی نظروں نے خودی کا احساس بیدار کیا اور تم نے کچھ کرنے اور کچھ پانے کی قسم کھا لی۔ تمہارے متعلق بدنامیاں اور سرگوشیاں بڑھتی چلی گئیں۔ جاہل، بددماغ، بدصورت اور مغرور۔ دن بھر تمہیں انہی خطابوں سے یاد کیا جاتا ہے مگر تم ایک ننھی چڑیا کی طرح اترا اترا کر کہتی رہیں۔۔۔۔۔ جو میرے پاس ہے وہ رانی کے محل میں بھی نہیں۔

اسی انانیت پسندی سے تم ایک ایسا شعر بن گئیں جس کے غالب کے شارحین کی طرح ہر ایک نے الگ معنی نکالنے چاہے مگر پھر بھی بہت کم حقیقت کی تہہ تک پہنچ سکے۔

اور میں نے بہت دور ہو کر بھی تمہیں سمجھنا چاہا۔ یہ سچ ہے کہ میں نے دوسرے مردوں کی طرح تمہاری دوشیزگی کی جانب ہاتھ نہیں بڑھایا۔ کبھی اس قدر نزدیک نہیں آیا کہ تمہارے تنفس کی رفتار سے کوئی راز پا سکوں۔ پھر بھی میں نے اس شعر پر کافی ریسرچ کی۔ دماغی لیبارٹی میں دو سال تک تجربے کئے مگر کچھ بھی سمجھ نہ سکا۔

ایک بار مجھے اپنی جانب جھکتے دیکھ کر تم تنے کہا تھا۔

"احمد بھائی! میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں اور یہ نہیں چاہتی کہ کوئلوں کی دلالی میں آپ بھی اپنے ہاتھ کالے کر بیٹھیں۔۔۔۔۔" مگر یہ کتنا بڑا خزینہ ہے کہ تم نے بہت سوں کو کوئلوں کی دلالی سے بچانے کی خاطر اپنے منہ پر کالک مل لی تھی تاکہ ان کے سفید دامن سیاہی سے ملوث نہ ہوں۔۔۔۔۔ تم میری بہت عزت کرتی تھیں۔۔۔۔۔ ایک نوجوان مرد کی، جو تمہارے ذرا سے سہارے پر آگے بڑھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ جس نے تمہاری اٹھارہ سال کی زندگی میں مسلسل فریب دئیے تھے، جس نے تمہیں منزل کے قریب لا کر بھٹکا تھا۔ بدنامی کی کوٹھڑی میں دھکیل کر ہر دروازہ بند کر دیا تھا۔ پھر تم نے اپنی رہی سہی عزت کی دھجیاں بکھیر ڈالیں اور بیچ چوراہے، اپنے سب ظاہری لباس اتار ڈالے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ تم میری عزت کرتی رہیں اور میں تمہیں سمجھنے میں اتنا منہمک ہو گیا کہ جذبات کے انجکشن قطعی بے اثر ہو گئے ورنہ ممکن تھا ایک دن میری خودداری اور عزت تمہارے قدموں میں پڑی بخشش کی طلبگار ہوتی اور تم اطہر کی طرح مجھے ایک چٹان پر چھوڑ کر کہتیں۔

"میں نے تمہیں پانے کے لئے بہت سی ٹھوکریں کھائیں مگر تمہارے چھونے سے پہلے اتنی بلندی پر پہنچ گئی کہ جب تم وہاں پہنچے میں سراب بن چکی تھی۔"

گھبراؤ نہیں۔ تم نے یہ الفاظ اطہر یا ریاض سے خود نہیں کہے۔ مگر آج تک تم نے کون کون سی باتیں زبان سے ادا کی ہیں، تم تو اس گونگی کی طرح ہو جسے اپنا مفہم ہمیشہ عملی طور پر سمجھانا پڑتا ہے۔

صرف اٹھارہ سال کی زندگی میں تم نے اتنی باتیں کیسے کہہ لیں!

بظاہر تم کتنی معمولی لڑکی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کاندھوں تک لہراتے ہوئے بال جن کی باریک باریک آوارہ لٹیں چہرے کے گرد ہالہ سا بنائے کانپتی رہتیں۔ معمولی سا قد، دبلا پتلا دھان پان جسم جیسے تیز ہوا کے جھونکے بھی تمہیں اڑا کر لے جائیں گے۔ جیسے تمہاری جانب ہاتھ بھی بڑھایا تو چھوئی موئی کی طرح کملا جاؤ گی۔ ایک واہمہ سی، ایک ادھورا خاکہ۔ کتنے ہلکے ہلکے تھے تمہارے خد و خال۔ پتلے خمیدہ لب، جو ہمیشہ سرمہری سے بند رہتے۔ ہر چیز کو تجسس سے دیکھنے والی ہمدرد آنکھیں جو اپنے سارے گناہ آشکار کرنے کو تیار رہتیں اور اسی خیال سے بات کرتے وقت بار بار بند ہو جاتیں تا کہ ان کی گہرائیوں کا کوئی پتہ نہ لگا سکے اور لمحہ لمحہ بدلنے والا رنگ، جو کبھی شعلے کی طرح دہکنے لگتا، کبھی راکھ کی طرح سیلا پڑ جاتا۔

اور جب باتیں کرتیں تو تمہارے خدوخال میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ کتنی مشکل بات تھی تمہارے چہرے سے کسی بات کا اندازہ لگانا۔

اس معمولی شکل و صورت ہی نے تو تمہیں گھر میں ایک ناقابل التفات چیز بنا دیا تھا۔ اپنی خوبصورت سعادت مند بہنوں کے مقابلے میں تمہاری کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ خرید و فروخت کے اس بازار میں صرف اچھی صورت والی لڑکی ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔۔۔۔۔ اور یہ خیال چچا اور چچی کے لئے سوہانِ روح تھا۔

مجھے آج سے تین سال پہلے والی جاڑوں کی ایک صبح یاد آ رہی ہے۔

تم اس وقت نہا کر آئی تھیں۔ نسرین اور عائشہ کے ساتھ صحن میں بیٹھی، سویئٹر کا ایک نمونہ بنا بنا کر ادھیڑ رہی تھیں۔ نومبر کی لطیف دھوپ آنگن میں بکھری ہوئی تھی۔ چچی نیچے بیٹھی نئے لحافوں میں دھاگے پرو رہی تھی۔ اس وقت تمہارے گلابی ڈوپٹے، بھیگے بال اور نکھرے ہوئے رنگ کو دیکھ کر بھی مجھے کوئی شعر یاد نہیں آیا، کوئی تشبیہ دماغ میں نہیں ابھری۔ عائشہ، نسرین اور فرزانہ کے فروزاں حسن نے وہاں تمہارے چراغ کو ٹمٹمانے نہیں دیا۔۔۔۔۔ کتنی کمتر تھیں تم اپنی مغرور اور اپنے حسن پر خود ہی مر مٹنے والی بہنوں کے حلقے میں۔۔۔۔۔ اس وقت میں نے سوچا تھا کہ حسن کے اس جھمگٹ میں تمہاری کہانی کتنی مختصر اور پھیکی ہو گی۔

انہی دنوں میں مسلسل بیکاری نے مجھے نئی نئی راہوں سے واقف کر دیا تھا۔ اور گھر سے بہت دور ایک ہڑتال کے سلسلے میں گرفتار ہوا تھا۔ تو عائشہ کا خط پڑھ کر پہلی دفعہ تمہاری جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔۔ تم لڑکیوں کو خط لکھنے کو بھی تو کوئی بات نہیں ملتی۔ عائشہ کے خط بھی اسی کی طرح خوبصورت اور معصوم ہوتے جن میں وہ ابا کی ناراضگی سے لے کر خاندان کی اہم تقریبوں میں آنے والی عورتوں کے کپڑے، زیوروں کے ڈیزائن اور اسکول کی سہیلیوں کے رومان تک۔۔۔۔۔ سب کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتی۔ ساتھ ہی وہ مجھے بھی ایسا ہی مزیدار لمبا خط لکھنے کی ہدایت کرتی۔۔۔۔۔ میری بےوقوف بہن نہیں جانتی تھی کہ میں رومانوں، سرگوشیوں اور رنگینیوں کی دنیا سے کتنی دور تھا۔ مگر وہ میری مسلسل خاموشی کے باوجود ایک ہنگامہ پرور گھر کے کمرے میں بیٹھی، باربار منہ پر جھک آنے والے لٹوں کو پیچھے جھٹک کر لکھتی رہی۔۔۔۔۔ آپ نے ایک اور خبر سنی بھائی جان؟ قدسیہ کے یہاں چھوٹی خالہ امجد بھائی کا پیغام لے کر گئیں تو قدسیہ نے خود آ کر ان سے کہہ دیا کہ وہ امجد سے شادی نہیں کرے گی۔

سنا ہے چچا ابا زہر کھانے والے ہیں اور سارے خاندان میں تھو تھو ہو رہی ہے۔

اس دن بہت دنوں کے بعد جیل کی تنہا کھوٹڑی میں مسکرا سکا۔ اس دلیرانہ جرات پر میں نے غائبانہ طور پر تمہاری پیٹھ ٹھونکی تھی اور کہا تھا کہ جس خول میں ہم اپنے آپ کو لپیٹے ہوئے ہیں وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ رہا ہے۔ جی چاہا کہ فورا چچا ابا کو زہر کی ایک شیشی بھیج دوں تاکہ وہ صرف ارادہ کر کے ہی نہ رہ جائیں۔ تم پھر ایک بار میرے سامنے آئی تھیں۔ جھنجھلا کر سویئٹر ادھیڑتی ہوئی۔

پھر میں اس واقعے کو بھول گیا۔ عائشہ اپنے خطوں میں لکھتی رہی کہ تمہارا اور ریاض کا رومان چل رہا ہے۔۔۔۔۔ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی کوشش مت کرو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے اپنی محبت کو کامیاب بنانے کی کتنی کوشش کی۔ لیکن ریاض تمہارے ہاں کا لے پالک تھا۔ تمہارے دسترخوان کے جھوٹے ٹکڑوں پر پلا تھا۔ پھرچچا ابا کو اس کی سن گن ملی تو ریاض گھر ہی سے نہیں شہر ہی سے نکال دیا گیا۔ اور تم نے بڑے تحمل سے محبت کی اس لاش کو دل کے قبرستان میں دفن کر دینا چاہا۔۔۔۔۔ لیکن شاید ایسا نہ ہو سکا۔ کیوں کہ مردار کھانے والے گدھ، جو ایسے موقعوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، اس لاش کو باہر کھینچ لائے۔ جی بھر کے اس سے لطف اٹھایا اور پھر اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ تمہاری بیماری کو بڑے خوفناک معنی پہنائے گئے۔ یعنی یہ سب ریاض کی امانت کو ٹھکانے لگانے کے بہانے ہیں اور تم اپنے کمرے ہی میں نہیں پڑی رہتیں بلکہ ریاض کے ساتھ فرار ہو چکی ہو۔

یہ باتیں میں نے بہت دور بیٹھ کر سنیں اور ہر بات کو یقین کے خانے میں ڈالتا گیا۔ یہ کوئی ناقابل یقین بات بھی تو نہ تھی۔ بقول عائشہ کے تم اپنی اہمیت کا احساس دلانے کا فیصلہ کر چکی تھیں اور تم نے ساری دنیا کو ٹھکرا کے اپنی من مانی کرنے کا عزم کر لیا تھا۔۔۔۔۔ پھر تم جیسی محبت کی ماری لڑکیاں اس سے زیادہ اپنی اہمیت کا کیا ثبوت دے سکتی ہیں۔۔۔۔۔؟

اس کے بعد جب میں رہا ہو کر گھر آیا تو تم وقت کا ایک اہم موضوع بن چکی تھیں یا عائشہ کے الفاظ میں کچھ کر دکھانے کی دھن میں اپنا رہا سہا وقار بھی کھو بیٹھی تھیں۔

اس دوران میں تم اپنے ماسٹر سے بھی محبت کر چکی تھیں جو تمہیں پڑھانے آتا تھا۔ ایک سیدھا سادھا، خطرناک حد تک شریف انسان، جو اپنی مظلومی اور بےچارگی ظاہر کر کے دوسروں سے رحم کی بھیک مانگتا تھا۔

پہلے اس نے تمہیں شرافت اور عزت کے سبق پڑھائے۔ اپنی بےچارگی اور دکھ کے افسانے سنائے۔ اس کی محبوبہ نے اسے دھوکہ دیا تھا۔ محض غربت کی وجہ سے اسے ٹھکرا دیا تھا (یہ محبوباؤں کے دھوکہ دینے کا دکھڑا بھی کتنا فرسودہ ہو چکا۔) پھر اس کی پیاسی دنیا میں تم نے اپنی ہمدردی کے چند قطرے برسانے چاہے۔ اپنے طرزِ عمل سے اس کا دکھ کم کرنا چاہا۔ اپنے غم کی کہانی بھی اسے سنا ڈالی۔۔۔۔۔ پھر کورس کی کتابوں کو ایک جانب سمیٹ کر تسلی اور تسکین کے سبق پڑھائے جانے لگے۔

پھر تمہارا ماسٹر بیمار ہو گیا اور چچا ابا نے دوسرا ماسٹر رکھنا چاہا تو تم نے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ تم اس ماسٹر سے پڑھنا چاہتی تھیں اور اس کی مزاج پرسی کے لئے اس کے گھر جانے پر مصر تھیں۔

یہ ساری باتیں گھر کے چھوٹے بچوں تک نے مجھے سنائیں۔ میں کیسے یقین کر لوں کہ تمہیں اس ماسٹر سے محبت نہیں تھی، صرف ہمدردی تھی۔ یہ انسانیت کا جذبہ ہی تھا جو تمہیں ایک رات چپکے سے اٹھا کر ماسٹر کے گھر لے گیا اور جب تم ابھی دروازہ ہی کھٹکٹھا رہی تھیں کہ چچا ابا کے ڈنڈے کی ضرب سے بےہوش ہو گئیں۔

پھر مہینوں گھر والے تمہارے سائے سے بھی اچھوتوں کی طرح بچتے پھرے۔ گھر کی لمبی لمبی ناک والی عورتوں نے خاندان میں نکلنا چھوڑ دیا۔ چچا ابا نے وقت سے پہلے پنشن لے لی اور سارے خاندان میں کھڑی ہو کر تم نے اپنی ماں سے کہا کہ امی جو میرا جی چاہے گا کروں گی یا پھر آپ لوگ مجھے مار ڈالئے۔ پھر سب نے دوسری بات سے اتفاق کر لیا۔ یعنی تم مار ڈالی گئیں۔ سب نے تم پر فاتحہ پڑھا۔ لیکن شمیم ماموں اس فاتحے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ دوسرا زخم بھی بھرنے لگا پھر شمیم ماموں کی نازبرداریوں نے اسے مٹا ڈالا تھا۔۔۔۔۔ وہ تم پر بے حد مہربان تھے۔ عائشہ کہتی تھی۔

"شمیم ماموں کی عذرا تو قدسیہ کی کلاس فیلو ہے۔ جیسی ان کی لڑکی ویسی قدسیہ، پھر کیسے ایک لڑکی کو گھل گھل کر مر جانے دیں۔" شمیم ماموں مدتوں سے اپنی بیوی بچوں سے قطع تعلق کر کے اکیلی زندگی گزار رہے تھے۔ صرف اتنی سی بات پر کہ ان کی بیوی کبھی اچھی طرح ساڑھی نہ باندھ سکیں۔

ایک بار مجھے عائشہ نے لکھا تھا کہ تم بہترین ساڑھی باندھنے پر اسکول میں انعام لے چکی ہو۔ وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر تمہیں سیر کرانے لئے جاتے، تمہارے صدقے میں سارا گھر سینما دیکھتا، پکنک پر جاتا۔ تم کوئی اعلیٰ ڈگری لینا چاہتی تھیں اور چچا ابا تمہیں تنہا ہاسٹل میں چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ اس لئے بیچارے شمیم، اپنی وکالت کے بےشمار اہم کام چھوڑ کے، بارہ بارہ بجے رات تک فارسی اور اردو شاعروں کا کلام پڑھاتے اور عشق و تصوف میں ڈوبے ہوئے اشعار کا مطلب تم سے پوچھتے۔

سب کے ٹھکرائے جانے سے پہلے تم خود ہی کسی سے بات کرنا پسند نہ کرتی تھیں۔ دن بھر پلنگ پر اوندھی پڑی نہ جانے کیا سوچا کرتیں۔ کوئی بات نہ کرتا تو شکایت نہ کرتیں۔ شمیم ماموں سر پر ہاتھ پھیرتے تو منع نہ کرتیں۔ ہاتھ پکڑ کے موٹر میں بٹھا دیتے تو بیٹھ جاتیں۔ ممکن ہے تم سے ان کی ویران زندگی نہ دیکھی گئی ہو اور انسانیت کے تقاضے نے مجبور کر دیا ہو۔ مگر تمہاری یہ روش کتنی تعجب خیز تھی۔ ممانی کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا اور سب کی سوالیہ نگاہیں پھر تمہارے چہرے پر گڑ گئیں۔۔۔۔۔ ایک رات جب شمیم ماموں تمہیں پڑھا رہے تھے۔ کمرے میں کچھ شور سا ہوا پھر پھر تم بغیر ڈوپٹے کے بھاگتی ہوئی کمرے میں آئیں اور پلنگ پر گر کر رونے لگیں۔

چچی نے تمہارے کمزور جسم پر اپنی دانست میں بڑے زوردار دھموکے رسید کئے اور بہت سی مرغیاں کڑکڑانے لگیں۔ جواب میں سسکیاں روک کے تم نے بڑی مشکل سے کہا۔

"میں دھر بھی جاؤں سب مجھی کو برا کہتے ہیں۔ مجھے کیا معلوم تھا وہ اتنا کمینہ۔"
اور مجھے ہنسی آ گئی۔۔۔۔۔ کوئی مرد ماموں نہیں ہوتا، ماسٹر نہیں ہوتا، شریف نہیں ہوتا، صرف کمینہ ہوتا ہے۔ جو عورت سے سب کچھ لینے کے بعد بھی اسے جھلملاتے آنسوؤں کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔

شمیم ماموں نے سوچا ہو گا کہ اگر ریاض یا ماسٹر تمہیں کوئی امانت نہ دے سکے تو وہ کیوں نہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ جبکہ وہ کسی رشتے ناتے سے تمہارے فرضی ماموں بھی بنے ہوئے تھے۔

پھر تو ان کی بیوی نے شہر بھر میں یہ خبر عام کر دی کہ تم چاہو تو بیوی بچوں والے بوڑھے مردوں کو بھی بھٹکا سکتی ہو۔ پھر کسی میوزیم میں رکھی ہوئی لاکھوں سال پرانی ممی کی طرح تم ایک نمائش کی چیز بن گئیں۔ لمبی لمبی چھتوں کو پھلانگتی ہوئی یہ بات سارے شہر کا گشت لگا کر تمہارے ماتھے پر چپ گئی۔ عورتیں اور لڑکیاں دور دور سے بچے کولھوں پر ٹکاتے، ناک پر انگلیاں رکھے تمہیں دیکھنے کو آتیں۔ مردوں کی محفلوں میں بلند قہقہوں اور فحش گالیوں کے درمیان تمہارا نام آ جاتا تو خود بھی اس لٹنے والے باغ میں جانے کو طبیعت مچل اٹھتی۔

اطہر اسی مالِ غنیمت کی امید میں آیا تھا۔

میرا چھوٹا بھائی جو اپنی آوارگی کے سبب حوالات تک ہو آیا تھا۔ کالج سے نکال دیا گیا تھا۔ اور متفقہ طور پر یہ طے ہو گیا تھا کہ اسے کوئی اپنی بیٹی نہ دے گا۔ متوسط طبقے کا ایک بےکار نوجوان جس سے لب لوگ مایوس ہو گئے تھے۔

باہر کی تفریحوں کے علاوہ اور بھی کئی لڑکیوں کو جھانسہ دے چکا تھا بلکہ راحت کے متعلق تو مشہور ہے کہ صرف اطہر کی وجہ سے اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے اور ہو میکے میں دن گزار رہی ہے۔

مگر اتنے سیاہ کارناموں کے باوجود تمہاری جانب سے مایوس نہ لوٹا۔

ساری دنیا سے دھتکارا ہوا بےرحم، منہ پھٹ، چیخ چیخ کر باتیں کرنے والا اطہر، جسے ابا روز گھر سے نکال دیتے، امی کوسنے دیتی اور عائشہ اپنی قسمت پر صبر کر کے بیٹھ جاتی۔۔۔۔۔ اگر بہنوں کے بھائی قابل فخر نہ ہوں تو وہ کتنی بدنصیب نظر آتی ہیں۔ خوبصورت کماؤ بھائیوں کے بھروسے پر ہی تو وہ کتنی ہی ناکوں کو اپنے سامنے رگڑوا سکتی ہیں۔ عائشہ کی ساری توجہ مجھ پر مرکوز ہو گئی تھی۔ لڑکیوں کے لئے میری خشک اور بےربط زندگی میں بھی کوئی کشش نہ تھی۔ مگر پھر بھی میری شخصیت کو گھر میں کافی اہمیت دی جاتی تھی۔

تمہاری بارگاہ میں اطہر کو کیسے شرفِ نیاز بخشا گیا۔ یہ بات سب کے لئے حیران کن تھی۔ وہ تو صرف اپنے خوبصورت جسم اور بےباک لہجے سے معرکے سر کرتا تھا اور تم نے ہمیشہ بجھے ہوئے دل اور بیمار ذہن تلاش کئے تھے۔

یہاں پر مجھے اپنی پچھلی ریسرچ بیکار معلوم ہوئی اور اسے اٹھا کر پھینکنے سے پہلے میں نے تم سے راہ رسم بڑھانا چاہی۔ مجھے گھر میں رہنے کا اتفاق بہت کم ہوتا۔ خصوصاً تم سے تو کبھی بےتکلفی سے بات بھی نہ کر سکا تھا۔ اس لئے ایک گھر میں رہنے کے باوجود ہم بہت دور رہتے تھے۔ تم ہمیشہ مجھ سے چھپنا چاہتیں کیوں کہ پہلے دن ہماری ملاقات نے بڑی تلخ فضا پیدا کر دی تھی۔ اس دن ہماری ملاقات ناشتے کی میز پر ہوئی تھی۔ تم شاید میری سنجیدگی کی بات عائشہ سے پہلے ہی سن چکی تھیں اور مجھ تک اپنے کارنامے پہنچانے سے گریز کر رہی تھیں۔ احتیاط سے سر پر پلو ڈالے، نظریں جھکائے یوں بیٹھی تھیں جیسے کسی پادری کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے آئی ہو۔ عائشہ نے میری جانب بڑی بامعنی نظروں سے دیکھ کر کہا تھا۔

"بھائی جان! دیکھیے یہ ہیں قدسیہ۔۔۔۔۔ عائشہ کی طنزیہ نظروں کو تم نے بیچ میں سے ہی پکڑ لیا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر شکستہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔ "تو احمد بھائی جان مجھے پہلے سے ہی جانتے ہیں؟"

اور تم چائے کی پیالی رکھ کر اٹھ گئی تھیں۔

پھر برسات کی ایک شام کو ہلکی ہلکی رم جھم نے موسم بڑا پرکیف بنا دیا تھا۔ بہت دیر تک فیض کی "نقشِ فریادی" پڑھنے کے بعد میں حسبِ عادت سگریٹ کے دھوئیں سے خیالی ہیولے بنا رہا تھا۔

عائشہ، پروین، چھوٹی بھابی اور فرزانہ قریب بیٹھی کیرم کھیل رہی تھیں اور کسی فلم پر زوردار بحث کر رہی تھیں۔ جس میں ایک ہیرو دو لڑکیوں سے محبت کرتا ہے اور ڈائریکٹر ہر بار اس محبت کو سچی محبت بنانے پر مصر ہے۔ عائشہ کے خیال میں یہ محبت کی توہین تھی یا ہیرو کی ابوالہوسی۔

تم ان کے قریب والی کرسی پر بیٹھی، سیاہ ساٹن کے ایک ٹکڑے پر ننھے ننھے آئینے ٹانک رہی تھیں۔ جن کی بہت سی شعاعوں نے مل کر تمہارے چہرے پر مشعلیں سی جلا دی تھیں۔

اپنی رائے کو زیادہ وزنی بنانے کے لئے عائشہ نے مجھ سے پوچھا۔

"آپ بتائیے بھائی جان! کیا محبت ایک بار سے زیادہ کی جا سکتی ہے۔؟"

اور میں نے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا "قدسیہ سے پوچھو۔"

تمہارے ہاتھ کام کرتے کرتے رک گئے۔ چہرے پر جلتی ہوئی مشعلیں بجھ گئیں اور تم گہری شکایت آمیز نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں۔ بھابی اور پروین آہستہ آہستہ ہنسنے لگیں۔ فرزانہ بات کو ٹالنے کے لئے گنگنانے لگی اور عائشہ نے داد طلب نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ پھر میں نے اس خوبصورت شام کا زرتار لباس نوچ کر پھینک دیا۔ رم جھم کا شور مچانے والی بوندیں آنسوؤں کے دھارے بن گئیں فیض کے دل نشیں شعر ہاتھ ملا کر مجھ سے رخصت ہو گئے اور کمرے میں اندھیرا بڑھنے لگا۔

"آج موسم کتنا خوشگوار ہے۔!"

"ہونہہ۔"

"جی چاہ رہا ہے کہیں باہر گھومنے جاؤں۔"

"تو جائیے۔۔۔۔۔" تم حسبِ عادت مختصر جواب دے رہی تھیں۔

"مگر کوئی ساتھ چلنے والا جو نہیں۔ اطہر نے وعدہ کیا تھا مگر نہیں آیا۔ کتنا غیر ذمہ دار اور جھوٹا ہو گیا ہے یہ لڑکا۔"

جان بوجھ کر اطہر کی برائی کر کے میں نے تمہارے چہرے پر کچھ ڈھونڈا۔ تمہاری آنکھیں سامنے کھلی ہوئی کتاب پر تھیں اور ہاتھ ٹیبل کلاتھ کی شکنیں درست کرنے میں مصروف۔ پھر بڑے طنز کے ساتھ تم نے کہا۔

"اتنے سہانے موسم میں تو وہ کسی بار میں بےہوش پڑے ہوں گے۔ آپ لوگ تو انہیں اچھی طرح جانتے ہیں نا۔"

یہ تم کہہ رہی تھیں۔ تم، جس کے متعلق مشہور تھا کہ سارے خاندان کی عزت جوتے کی ناک پر اچھال کر تم اطہر سے شادی کرو گی، سب سے چھپا کر اسے روپے دیتی ہو۔ وہ شراب پی کر آتا ہے تو اس کی پردہ پوشی کرتی ہو۔ اتنے برے انسان پر تمہاری یہ عنایتیں کیوں تھیں جبکہ پچھلی زندگی میں کئی قابلِ اعتبار مرد تمہیں دھوکا دے چکے تھے۔

تمہارے متعلق پھیلی ہوئی بدنامیوں کے درمیان مجھے اپنی یہ رائے بڑی مضحکہ خیز لگی، اسے میں نے اپنے دماغ سے کھرچ دیا۔ تم سب کے لئے ناقابلِ فہم بن گئی تھیں۔ بھول بھلیوں کے پیچیدہ راستوں کی طرح تم نے اپنے گرد مکر و فریب کے جو جال بچھا رکھے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے تم سے نفرت ہو تئی۔ پھر ایک دن بڑی سوچ بچار کے بعد میں کچھ حواس باختہ سا تمہارے کمرے میں آیا۔

"میں تمہارے متعلق کچھ جاننا چاہتا ہوں قدسیہ، اگر تم مجھے اجازت دو تو۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔" اپنی گھبراہٹ پر میں خود متعجب تھا۔ اس دن تمہارے چہرے پر پہلی بار میں نے ڈر کی پرچھائیاں دیکھیں۔ جن پر حیرانی غالب تھی۔ تم یوں کھڑی ہو گئیں جیسے شمیم ماموں تم پر جھپٹنا چاہتے ہیں۔ تم نے ڈوپٹے کو سینے پر سنبھال کر کہا۔

"آپ بھی مجھے جاننا چاہتے ہیں احمد بھائی! میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں۔ پھر آپ کیوں کوئلوں کی دلالی میں اپنے ہاتھ کالے کرنا چاہتے ہیں۔" اور تم پیچھے دیکھے بغیر باہر بھاگ گئیں تھیں۔

ان ہی دنوں اتفاق سے مجھے ایک خط ہاتھ لگا جو تم نے ریاض کو لکھا تھا مگر اسے بھیج نہ سکی تھیں یا شاید اسے بھیجنے کو لکھا ہی نہ ہو۔ کیوں کہ یہ صرف تمہاری روح کی پکار تھی، جس کو ریاض جیسا بےوقوف انسان کبھی نہ سمجھ سکتا۔ اس کی محبت میں تمہاری برتری اور پرستش کا جذبہ غالب تھا۔ اور تم اسے روح کی بلندی کبھی نہ دے سکتی تھیں۔ بارش بہت زوروں کی ہو رہی تھی۔ اور دریچوں سے نیچے گرنے والے قطروں کو بچے ہاتھوں میں روک کر بہت خوش ہو رہے تھے۔ اتنے میں بھابی کا چھوٹا بچہ راشد ناؤ بنوانے کے لئے ایک کاغذ لے کر آیا۔ یہ نیلے کاغذ پر لکھا ہوا ایک لمبا چوڑا خط تھا۔ نیچے تمہارے بہت ہی بگڑے ہوئے دستخط۔ وہ خط راشد تمہاری اٹیچی نے نکال کر لایا تھا۔ اپنی شرافت کا ثبوت دینے کے لئے میں نے اسے واپس رکھوانا چاہا مگر ایک بار پڑھنے سے باز نہ رہ سکا۔

میری جانب ملامت آمیز نظروں سے نہ دیکھو۔۔۔۔۔ ان دنوں میں تم پر ریسرچ کر رہا تھا۔ بیسویں صدی کا ایک نکما انٹلیکچوئل۔۔۔۔۔ تمہارا یہ خط بہت سی ڈھکی چھپی باتوں کو سامنے لے آیا اور میری رائے پھر ڈگمگانے لگی۔

اس خط میں ریاض کو لکھا تھا کہ بچپن سے تم نے ہر دل میں اپنے لئے حقارت اور نفرت پائی اور صرف کسی کی نظر میں برتری حاصل کرنے کا یہ جذبہ ہی تمہیں ریاض کی جانب لے گیا۔ جو تمہاری طرح سب کی جانب سے دھتکارا ہوا دوسرا فرد تھا۔ ریاض کی نیازمندی اور احساس کمتری نے اسے گہرا کر دیا۔ اور گھروالوں کی مخالفت نے اسے جنگل میں لگی ہوئی آگ کی طرح بھڑکا دیا۔ پھر تم نے ہر قیمت ادا کر کے ریاض کو پا لینے کا تہیہ کر لیا۔ مگر ریاض کے قدم اس دشوار راستے پر لڑکھڑا گئے۔ ابا کی ایک ڈانٹ پر محبت اچھل کر دور جا پڑی اور وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ گیا۔

خط کے آخر میں تم نے اسے خوب ذلیل کیا تھا۔۔۔۔۔ بزدل، تو سمجھتا ہے اس طرح تو نے اپنی محبت کو رسوائی سے بچا کر میری لاج رکھ لی۔ مگر ابھی ہماری محبت شروع ہی کہاں ہوئی تھی، پہلے ہی میری عزت کون سے جھنڈے پر چڑھی بیٹھی تھی۔ میں وہ دے ہی نہ سکی جو میری زندگی کا بلند ترین آدرش ہے۔۔۔۔۔ کاش میں تجھے اس بلندی پر پہنچا سکتی جہاں تک خود میرا ہاتھ بھی نہ جا سکا۔ اب میری روح اس وسیع سمندر میں اس تنکے کو تلاش کرتی پھرے گی۔

تو اب تم اس تنکے کی تلاش میں خوفناک چٹانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ تم۔۔۔۔۔ جو موم کی مورتی کی طرح اپنے خالق کے تخیل کی گرمی سے پگھل سکتی تھیں کسی کی تیز نگاہوں سے سلگ سکتی تھیں، پھر اپنے چاروں طرف چھائی ہوئی بھیانک آگ میں تمہارے قدم کیسے نہیں ڈگمگاتے۔۔۔۔۔؟

دوسرے دن میں نے اطہر کو تمہارے سامنے خوب ڈانٹا۔

"کل تم مجھ سے وعدہ کرنے کے بعد کیوں نہیں آئے؟ کبھی تو تمہیں اپنے وعدے کا خیال کرنا چاہیے۔ میں یہاں انتظار میں بیٹھا رہا اور بقول قدسیہ جناب کسی بار میں پڑے رہے۔"

اطہر کے بیساختہ قہقہے رک گئے اور وہ یوں خاموش ہو گیا جیسے میں نے اسے پھانسی کا حکم سنایا ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بڑا پشیمان سا میرے پاس آیا۔

"اور اس نے میرے متعلق کیا کہا؟ اسے میری عادتوں کی خبر ہے؟ کیا اس نے میری شکایت کی تھی؟ وہ بہت رنجیدہ ہو گی۔۔۔۔۔؟" زندگی میں آج پہلی بار میں نے اطہر کو شرمندہ دیکھا تھا تو وہ بھی کسی کی شکایت سننے تیار تھا اس سے متاثر ہو سکتا تھا۔

"یہ تو نئی نئی بات ہے۔ جبکہ تم ہمیشہ سے فریب دیتے آئے ہو اور قدسیہ ہمیشہ سے فریب کھاتی آئی ہے۔"

"آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں بھائی جان!" اس نے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔

قدسیہ کے بگڑنے میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے وہ بہت بدنصیب لڑکی ہے لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر اسے کچھ نہ دے سکوں تو اس کی بدنامیوں میں اضافے کا سبب بھی نہ بنوں۔ میں سچ مچ بہت برا ہوں اور قدسیہ کو فریب دے کر بھی نقصان ہی میں رہوں گا۔"

وہ باہر چلا گیا اور ایک بار پھر تم میرے سامنے نئی گتھیاں لئے آ گئیں اطہر کون سا راستہ اختیار کر رہا تھا!

وہ بے رحم انسان جو اپنے مفاد کے آگے کسی پر رحم نہ کر سکتا تھا۔۔۔۔۔ تم مجھے ایک کسوٹی نظر آئیں جس پر سونا اور پیتل دونوں واضح شکل میں چمک اٹھتے ہیں۔

دو گناہوں کے اتصال سے اتنا پاک جذبہ بھی وجود میں آتا ہے۔"

پھر تمہاری کہانی کا باقی حصہ میں خود نہ دیکھ سکا، میری مصروفیتیں مجھے کلکتہ کھینچ کر لے گئیں اور وہاں مجھے آندھیرا کے علاقوں میں جانا پڑا اور آندھیرا کی بیدار زندگی اور پرجوش سرگرمیوں نے تمہاری محبت کی نیم مردہ رینگتی ہوئی کہانی بھلا دی اور گھر میں ہونے والے یہ چھوٹے چھوٹے حادثے ذہن کے کسی کونے تھک کر سو گئے۔

ایک بار عائشہ نے لکھا کہ اطہر کی مسلسل نافرمانیوں کے سبب ابا نے اسے عاق کر دیا ہے اور وہ گھر سے چلا گیا ہے اور معلوم ہوا کہ تم اچانک گھر سے غائب ہو گئیں اور کسی نے ایک بار مجھے بتایا کہ تم دونوں اب لکھنؤ میں رہتے ہو۔ چچا ابا اب تمہیں گھر بلانے پر تیار نہیں ہیں۔

اس سے آگے کی کہانی مجھے کسی نے نہیں سنائی مگر اس بات کا منتظر رہا کہ اب اطہر اپنا الو سیدھا کرنے ممبئی لے جائے گا۔ جہاں کئی برسوں تک ٹھوکریں کھانے کے بعد میں تمہیں ایک دن کسی فلم میں دیکھوں گا۔ ہیروئن کے پیچھے، ایکسٹراؤں میں کولھے مٹکاتے ہوئے کوئی آوارہ سا گیت تمہارے لبوں پر ہو گا، جو تمہارے مصنوعی چہرے، چھاتیوں، پنڈلیوں اور کمر کی نمائش کرے گا۔ تم ایک جھوٹ کا خول ہو گی۔ سولائڈ کی گڑیا جس کی ہر جنبش دوسروں کے تابع ہوتی ہے اور تم اپنی خودداری کی لاش پر ناچ رہی ہو گی۔

ایک حد سے زیادہ جذباتی لڑکی کے تخیل کی اڑآن ہمیشہ یوں ہی کھائیوں میں گر کے دم توڑ دیتی ہے۔

مجھے تم دونوں کے نام سے نفرت ہو گئی۔ عائشہ نے ایک بار لکھا بھی تھا کہ قدسیہ وہاں کسی پرائیویٹ اسکول میں نوکر ہو گئی ہے۔ اطہر بیمار ہے اور وہ دونوں بڑی تکلیف کے دن گزار رہے ہیں۔

لیکن میں نے بڑی سختی سے اسے لکھ دیا کہ میں اب قدسیہ کے متعلق کچھ سننا نہیں چاہتا۔

اطہر کی تبدیلی جتنی نفرت انگیز تھی اتنی ہی حیرت انگیز بھی تھی۔۔۔۔۔ وہ کسی کی شادی کی خبر سن کر مذاق اڑایا کرتا تھا۔ ایک ہی راگ مسلسل لوگ کیسے سنے جاتے ہیں۔ میں تو دو ہی دن میں پاگل ہو جاؤں گا۔"

پھر اس نے دو سال تک اس راگ کو کیسے سنا!

امی اپنی قسمت کو رو کر بیٹھ رہیں۔ ان کی زندگی کے دونوں کڑوے پھل گئے۔ میں تو خیر اپنی خطرناک زندگی سے کوئی فیض نہ پہنچا سکتا تھا۔

مگر ابا بھی یہ برداشت نہ کر سکے کہ اطہر کی قسمت اچانک پلٹا کھائے اور وہ کوئی اچھی ملازمت حاصل کر لے۔

پھر امی کے آنسوؤں نے ابا سے خط لکھوا ہی دئیے جس میں اطہر کو اپنی خاندانی عزت اور بےشمار دولت کا واسطہ دیا گیا تھا اور تمہیں اطہر کی محبت کا۔۔۔۔۔ اور آج عائشہ نے لکھا ہے۔

بھائی جان! آپ قدسیہ سے نفرت کرتے ہے۔ آئندہ اس کے متعلق کوئی بات نہیں ہو گی جو میں آپ کو سناؤں گی آج اطہر بھائی کو ابا تنہا گھر لے آئے ہیں۔ قدسیہ معمولی بیماری سے مر چکی ہے۔"

تم زندگی بھر میری عزت کرتی رہیں اور میں تم سے نفرت کرتا رہا۔ یہ ہم دونوں کی اپنی ذہنیت کا قصور ہے۔ ادھر منہ کرو۔۔۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں چمکتے ہوئے آنسو کیا کہہ رہے ہیں؟

کیا سچ مچ تم کسی معمولی بیماری سے مر گئیں! اس چھوٹی سی بیماری کو اپنے نازک جسم پر نہ سہہ سکیں اور اس بیماری کا علاج کسی سے نہ ہو سکا، اطہر سے بھی نہیں۔ مجھ سے بھی نہیں جو تم سے نفرت کرتا رہا۔

تمہیں اپنی شکست پر آنسو نہیں بہانا چاہیئں کیوں کہ تم نے اطہر کو وہ تحفہ دے دیا۔ جس کے لئے تم زندگی بھر سرگرداں رہیں اور چپ چاپ اندھیرے میں کھو گئیں۔۔۔۔۔ اور اب تمہاری روندی ہوئی سسکیاں اور جھلملاتے آنسو ہی مجھے تمہاری موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔۔۔۔۔ تم آج گھٹی گھٹی آہوں اور پیتے ہوئے آنسوؤں سے اس کمرے میں میرے لئے اپنی عزت کا تحفہ لے کر آئی ہو۔۔۔۔۔ مگر میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا کہ جلے ہوئے سگریٹ کو ایش ٹرے میں پھینک کر تمہارے خیال کو بھی ذہن سے جھٹک دوں۔۔۔۔۔

******

ٹائپنگ:  ملک بلال بھائی - اردو محفل
بشکریہ : اردو محفل