امجد اسلام امجد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
امجد اسلام امجد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بے وفائی کی مشکلیں

یوں تو امجد اسلام امجد صاحب کی سب نظمیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن آپ کی یہ نظم بہت دلچسپ ہے اور روایتی شاعری سے کچھ مختلف ہے۔ اس میں امجد صاحب نے بے وفائی کی مشکلوں کا احاطہ کیا ہے کہ بے وفائی بھی اتنی آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے پہلے سے کچھ باتیں سوچ سمجھ لی جائیں۔ 😀


بے وفائی کی مشکلیں

 
 جو تم نے ٹھان ہی لی ہے
ہمارے دل سے نکلو گے
تو اتنا جان لو پیارے
وفا کی سیڑھیوں پر ہر قدم پھیلا ہوا
یہ آرزوؤں کا لہو ضائع نہ جائے گا
سمندر سامنے ہوگا اگر ساحل سے نِکلو گے!
سِتارے، جن کی آنکھوں نے ہمیں اِک ساتھ دیکھا تھا،
گواہی دینے آئیں گے!
پرانے کاغذوں کی بالکونی سے بہت سے لفظ جھانکیں گے
تمہیں واپس بلائیں گے،
کئی وعدے، فسادی قرض خواہوں کی طرح رستے میں روکیں گے
تمہیں دامن سے پکڑیں گے،
تمہاری جان کھائیں گے!
چُھپا کر کس طرح چہرہ
بھری محفل سے نکلو گے!
ذرا پھر سوچ لو جاناں!
نکل تو جاؤگے شاید
مگر مشکل سے نکلو گے!
 
امجد اسلام امجد
  
Amjad Islam Amjad
Amjad Islam Amjad


کھلونے


کھلونوں کی دکانوں میں کھلونے ہی کھلونے ہیں
ہزاروں رنگ ہیں انکے ، ہزاروں روپ ہیں انکے
کبھی ہنستے، کبھی روتے، کبھی نغمے سناتے ہیں
چمکتی موٹروں میں آنے والے خوش لباس و خوش نما بچے
جدھر دیکھیں جہاں پر ہاتھ رکھ دیں ، ان کھلونوں کے
وہی مالک، وہی قابض، وہی آقا ٹھرتے ہیں
وہ چاہیں تو کسی لمحے
جسے چاہیں اٹھائیں اور چکنا چور کر ڈالیں


کھلونوں کی دکانوں میں وہ گڈّے اور گڑیاں اب نہیں  ملتے
کے جو پھٹتے لحافوں سے روئی کے گچھوں
پرانی دھجیوں سے مل کے بنتے تھے
محلے بھر کے بچے جن کی شادی میں باراتی بن کے آتے تھے
تو ایسی ہی مسرت سے بھری دنیا کی بانہوں میں
جواں ہوتے تھے وہ لاکھوں، کروڑوں خوش نظر بچے
کے جو اپنے انہی خود ساختہ ، بھدے نہایت ان گھڑے
سستے کھلونوں کو متاعِ جاں سمجھتے تھے
انہیں اپنے شکستہ گھر کے طاقوں ، کھڑکیوں، الماریوں
میں یوں سجاتے تھے
کے جیسے ان سے بہتر چیز دنیا میں کہاں ہوگی
یہی بچے جو اب حسرت بھری دزدیدہ نظروں سے
کھلونوں کی دکانوں میں کبھی جو جھانکنا چاہیں
تو انکو ایسا کرنے کی اجازت ہی نہیں ملتی
کے شیلفوں میں سجا اک بھی کھلونا انکے وارے میں نہیں ہوتا
یہ دنیا ایسی منڈی ہے
بلا قیمت جہاں انسان بیچے جا تو سکتے ہیں
کھلونوں کا مگر سودا خسارے میں نہیں ہوتا
زمانے بھر کے بچوں کا یہ مشترکہ وتیرہ ہے
کھلونے جب ملیں انکو تو وہ خوش ہو کے ہنستے ہیں
مگر جب ان کھلونوں سے بھری اونچی دکانوں سے
پلٹتے پھول سے بچے ، تہی دامان آتے ہیں
نم آنکھوں میں ، بھرے آنسو، بہ صد مشکل چھپاتے ہیں
تو لگتا ہے
کہ بچے اب نہیں ہنستے
کھلونے ان پہ ہنستے ہیں

امجد اسلام امجد

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ گردِ سفر میں بُھول کے منزل کی راہ تک ۔ امجد اسلام امجدؔ

غزل

گردِ سفر میں بُھول کے منزل کی راہ تک
پھر آ گئے ہیں لوگ نئی قتل گاہ تک

اِک بے کسی کا جال ہے پھیلا چہار سُو
اِک بے بسی کی دُھند ہے دل سے نگاہ تک

بالائے سطحِ آب تھے جتنے، تھے بے خبر
اُبھرے نہیں ہیں وہ کہ جو پہنچے ہیں تھاہ تک

اِک دُوسرے پہ جان کا دینا تھا جس میں کھیل
اب رہ گیا ہے صرف وہ رشتہ نباہ تک

اہلِ نظر ہی جانے ہیں کیسے اُفق مثال!
حدِّ ثواب جاتی ہے حدِّ گناہ تک

زنجیرِ عدل اب نہیں کھینچے گا کوئی ہاتھ
رُلنے ہیں اب تو پاؤں میں تاج و کُلاہ تک

پُھولوں سے اِک بھری ہوئی بستی یہاں پہ تھی
اب دل پہ اُس کا ہوتا نہیں اشتباہ تک

آتی ہے جب بہار تو آتی ہے ایک ساتھ
باغوں سے لے کے دشت میں اُگتی گیاہ تک

جانا ہے ہم کو خواب کی کشتی میں بیٹھ کر
کاجل سے اِک بھری ہُوئی چشمِ سیاہ تک

جذبات بجھ گئے ہوں تو کیسے جلے یہ دل
میرِ سپہ کا نام  ہے اُس کی سپاہ تک

امجدؔ اب اس زمین پہ آنے کو ہے وہ دن
عالم کے ہاتھ پہنچیں گے عالم پناہ تک

امجد اسلام امجدؔ


[ہفتہ ٴ غزل] ۔ اہلِ نظر کی آنکھ میں تاج وہ کلاہ کیا ۔ امجد اسلام امجد

غزل

اہلِ نظر کی آنکھ میں تاج وہ کلاہ کیا
سایا ہو جن پہ درد کا، اُن کو پناہ کیا؟

ٹھہرا ہے اِک نگاہ پہ سارا مقدّمہ
کیسے وکیل! کون سا مُنصف! گواہ کیا!

کرنے لگے ہو آٹھوں پہر کیوں خدا کو یاد؟
اُس بُت سے ہو گئی ہے کوئی رسم و راہ کیا ؟

اے ربِّ عدل تُو مری فردِ عمل کو چھوڑ
بس یہ بتا کہ اِس میں ہے میرا گُناہ کیا؟

سارے فراق سال دُھواں بن کے اُڑ گئے
ڈالی ہمارے حال پہ اُس نے نگاہ کیا

کیا دل کے بعد آبروئے دل بھی رول دیں
دکھلائیں اُس کو جاکے کہ یہ حالِ تباہ کیا؟

جو جِتنا کم بساط ہے، اُتنا ہے معتبر
یارو یہ اہلِ فقر کی ہے بارگاہ ، کیا!

کیسے کہیں کہ کر گئی اِک سانحے کے بیچ
جادُو بھری وہ آنکھ، وہ جھکتی نگاہ کیا؟

(ق)

وہ بر بنائے جبر ہو یا اقتضائے صبر
ہر بُو لہوس سے کرتے رہو گے نباہ کیا

ہر شے کی مثل ہوگی،  کوئی بے کَسی کی حد؟
اس شہرِ بے ہُنر کا ہے دِن بھی سیاہ کیا

رستے میں تھیں غنیم کے پُھولوں کی پتّیاں
سالار بِک گئے تھے تو کرتی سپاہ کیا!

دل میں کوئی اُمّید نہ آنکھوں میں روشنی
نکلے گی اس طرح کوئی جینے کی راہ کیا؟

امجدؔ نزولِ شعر کے کیسے بنیں اُصول!
سیلاب کے لئے کوئی ہوتی ہے راہ کیا

امجد اسلام امجد


سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو 
راہ سے ہٹانے میں 
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں 
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں 
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں 
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں 
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ہیں 

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا 
کچھ صلہ نہیں ملتا 
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا 

زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں 
سب ہی ہاتھ آتی ہیں 
سب ہی مل بھی جاتی ہیں 
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں 

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے 
لیکن اس طرح جیسے 
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے 
اصل جو عبارت ہو ۔ ۔ پسِ نوشت ہو جائے 

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں 
ان کے صحن میں سورج  دیر سے نکلتے ہیں

امجد اسلام امجد