رعنائی خیال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
رعنائی خیال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

افسانہ: سفرنامہ ٴ ابتلاء​

سفرنامہ ٴ ابتلاء​

از: محمد احمد​

afsana-safar-nama-e-ibtila

کبھی کبھی ہماری ترجیحات ہمیں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ عام زندگی میں اگر ہمیں موقع ملے تو ہم ایسا کبھی نہ کریں۔ مجھے ایک سفر درپیش تھا۔ ایک جنازے میں شرکت کے لئے میں ابھی ابھی بس میں سوار ہوا تھا۔ میرا مقامِ مقصود تین چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قریبی شہر تھا۔

مجھے نکلتے نکلتے دوپہر کا ایک بج چکا تھا اور میری کوشش تھی کہ جلد از جلد وہاں پہنچ جاؤں۔ ابھی اس بات کا تعین نہیں ہو سکا تھا کہ تدفین عصر میں ہوگی یا مغرب میں۔ جب میں بس اسٹاپ پر پہنچا تو مجھے متعلقہ بکنگ آفس میں براجمان شخص نے بتایا کہ کچھ دیر میں ایک کوچ (بس) آئے گی اس میں جگہ ہو تو آپ اس میں چلے جانا۔ ورنہ اگلی گاڑی ایک گھنٹے بعد آئے گی۔

جب بس پہنچی تو اُس میں سیٹ نہیں تھی۔ میں نے کنڈکٹر کو بتایاکہ مجھے یہ معاملہ درپیش ہے اور مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ تو اُس نے مجھے کہا کہ سب سیٹیں پہلے سے بک ہیں۔ آپ اسٹول پر بیٹھ جاؤ۔

ہمارے ہاں اندرونِ شہر چلنے والی بسوں میں سیٹوں کے درمیان راہ داری میں پلاسٹک کے اسٹول رکھ کر لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے اور جلدی پہنچنے کے لالچ یا مجبوری میں کئی ایک لوگ ان اسٹولوں پر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میں کبھی بھی اس بات کے لئے راضی نہیں ہوتا کہ میں اتنی دور کے سفر کے لئے ایسی غیر آرام دہ نشست کا انتخاب کروں۔ لیکن چونکہ وقت کا تقاضا تھا سو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں ایک اسٹول پر بیٹھنے پر راضی ہو گیا۔

یا تو یہ پچھلے دنوں کی بے انتہا مصروفیات کے باعث تھا یا اس ناپسندیدہ فیصلے کا اثر کہ مجھے بس میں بیٹھتے ہی کمر میں درد کا سا احساس ہو نے لگا۔ حالانکہ ابھی تو مجھے بس میں سوار ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے اور ابھی بس اسٹاپ سے چلی بھی نہیں تھی۔

ایک لمحے کے لئے خیال آیا کہ بس سے اُتر جاؤں اور اس کے بعد والی گاڑی میں سوار ہو جاؤں۔لیکن پھر یہی سوچ کر اس خیال کو جھٹک دیا کہ اس طرح کافی وقت ضائع ہو جائے گا۔ پھر جب کنڈکٹر کرایہ وصول کرنے آیا تو دل چاہا کہ اُس سے کہوں کہ اس انتہائی غیر آرام دہ سیٹ کے بھی اتنے ہی پیسے لے رہے ہو جتنے دوسری سیٹوں کے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر چپ رہا کہ یہ انتخاب تو میرا اپنا ہے اور پھر اس قسم کے پیشوں سے وابستہ لوگ کافی منہ پھٹ ہوا کرتے ہیں، سو خاموشی ہی بہترتھی۔

بس اب چل پڑی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ دعا کر رہا تھا کہ جلد از جلد یہ سفر تمام ہو۔ مجھ سمیت آٹھ لوگ اسٹول پر بیٹھے تھے۔ لیکن باقی لوگوں کی باڈی لینگویج سے بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی غیر آرام دہ نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مجھے لگا کہ شاید میں اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہا ہوں۔ تب مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کچھ لوگ تو اس سے بھی بُری حالت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن شکوہ لب پر نہیں لاتے۔ پھر خیال آیا کہ شاید یہ لوگ اس طرح کے سفر کے عادی ہیں، اور اس خیال سے میرے احساسِ ندامت میں کچھ کمی واقع ہوئی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ زندگی میں ایک دو بار پہلے بھی میں نے اس طرح سفر کیا ہے ۔ لیکن آج یہ بات کچھ زیادہ ہی کَھل رہی ہے۔ یا شاید ڈھلتی عمر کے ساتھ اب قوتِ برداشت کچھ کم ہوگئی ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی تکلیف سے گزر جانے کے بعد اُسے بھول جاتے ہیں اور شاید یہ بھی خدا کا ہم پر احسان ہے۔

میں اسٹول پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ میں نے اپنے جوتے اتار کر سائیڈ پر رکھ دیے اور اپنے پاؤں آگے والے اسٹول کے پائیدان پر ٹکا دیے۔ بے آرامی کے باعث میں مختلف انداز سے پہلو بدل بدل کر دیکھ رہا تھا کہ شاید کسی کل چین آ جائے لیکن ہر طرح سے ایک ہی جیسا حال تھا اور بے سہارا کمر بس کی رفتار کے باعث دباؤ اور تکلیف کا شکار تھی۔

بس اب اچھی خاصی رفتار سے چل رہی تھی۔ میرے دونوں اطراف کی سیٹوں پر موجود چاروں لوگ اونگھ رہے تھے۔بائیں طرف بیٹھے نوجوان نے اپنی پی کیپ کو اُتار کر گھمایا اور اُس کے پچھلے بند کو اپنی ٹھوڑی میں پھنسا کر اپنا منہ اور آنکھیں ڈھک لی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر کچھ ہنسی بھی آئی۔ لیکن اِس وقت ہنسنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔

کچھ لوگ ہینڈ فری لگائے بغیر سوشل میڈیا پر ویڈیوز وغیرہ دیکھ رہے تھے۔ اور طرح طرح کی آوازوں سے مجھے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی۔ کسی سونے والے نے ایک آدھ کی آواز کو کم بھی کروایا ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ آوازیں از خود ماند ہو گئیں، اور بس کے بیشتر مسافر اونگھنے لگے۔

کمر کا درد اب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا ۔ میں نے موبائل فون پر اپنی دلچسپی کا ایک آرٹیکل نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ لیکن میں بمشکل تمام آدھی ہی تحریر پڑھ پایا اور بے چینی کے عالم میں پڑھنا معطل کر دیا۔

تیز رفتار بس کی کھڑکی سے ویران پہاڑیاں اور کہیں کہیں سبزہ نظر آ رہا تھا ۔ میں اس وقت بالکل فارغ بیٹھا تھا۔ مجھے پچھلے دنوں پڑھی ہوئی ایک کتاب یاد آئی کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ تخلیقی کاموں سے وابستہ لوگوں کو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر روزانہ کچھ نہ کچھ وقت فارغ بیٹھنا چاہیے۔ تاکہ اُن کے ذہن کو ادھر اُدھر بھٹکنے کا موقع ملے۔ اور مشاہدے اور خیالات کے خمیر سے کوئی تخلیقی خیال جنم لے سکے۔

میرے لئے فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام تھا۔ جب کبھی تھوڑی سی بھی فراغت ملتی تو نہ جانے کس طرح موبائل فون جیب سے نکل کر ہاتھ میں پہنچ جاتا۔ اور میں مختلف لوگوں کے بے سروپا پیغامات دیکھنے لگ جاتا۔ سوشل میڈیا کی ایپس کب کُھل جاتیں اور نہ جانے کتنا وقت وہاں کھپ جاتا، پتہ ہی نہ چلتا۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ میں کسی کام سے موبائل فون نکالتا اور سوشل میڈیا کے کسی نوٹیفیکیشن کی اُنگلی پکڑ کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ۔ اور مجھے یاد بھی نہ رہتا کہ میں نے کس کام سے موبائل نکالا تھا۔

لیکن آج تو نہ کسی تحریر میں دل لگ رہا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر۔ آج تو بس یہی خیال تھا کہ کسی طرح یہ وقت کٹے اورمیں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں۔ بس اپنی رفتار سے چلی جا رہی تھی ۔میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ بس کی رفتار کم تھی۔ ہاں البتہ میرا انتظار کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔

مجھے یاد آیا کہ ماضی میں جب کبھی میں بس میں سفر کیا کرتا تھا تو میرے برابر بھی کوئی نہ کوئی شخص اسٹول پر آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ مجھے اُس سے ہمدردی ضرور ہوتی تھی لیکن کبھی اتنی اخلاقی جرات نہیں ہو سکی کہ اپنی سیٹ اُسے دے کر اُس کی جگہ بیٹھ جاؤں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے ، آپ کسی کی تکلیف اُس وقت تک کم نہیں کر سکتے ، جب تک کہ اُس کے حصے کی تکلیف برداشت کرنے پر راضی نہ ہو جائیں۔ مجھے اپنے پڑوسیوں سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ یہ آرام دہ سیٹ اُن کا حق تھی اور میں اپنے مقدر یا انتخاب پر قانع تھا۔

بس کسی چھوٹے سے اسٹاپ پر رُکی تو اچانک کہیں سے کچھ خوانچہ فروش بس میں در آئے اور چپس، پیٹیز اور کولڈ ڈرنک کی آواز لگانے لگے۔ کچھ لوگ اُن سے چپس اور بوتلیں خرید رہے تھے۔ بظاہر یہ چپس ایک معروف برانڈ کے معلوم ہوتے تھے لیکن اُن پر نام کچھ اور تھا۔ اسی طرح پانی کی بوتلیں بھی اچھے برانڈز کے ملتے جُلتے نام لئے ہوئے تھیں۔ لیکن سفر میں سب چلتا ہے۔ میں اپنی پانی کی بوتل اسٹاپ سے ہی لے چکا تھا ۔ سو مجھے ان خوانچہ فروشوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ تاہم چونکہ ہم اسٹول والے، راستے میں براجمان تھے سو مجھ سمیت سب اسٹول والوں کو خوانچہ فروشوں اور اصلی مسافروں کے درمیان وسیلے کا کام کرنا پڑ رہا تھا۔ ادھر سے چیز لے کر اُدھر پکڑاتے ، پھر اُدھر سے پیسے لے کر خوانچہ فروشوں کو دیتے ۔ پھر بقیہ پیسے اور نئی چیزوں کا تبادلہ ہوتا۔ اس سرگرمی سے کوئی فائدہ تو کیا پہنچتا البتہ کچھ دیر کے لئے درد کا احساس پس منظر میں چلا گیا۔ بس چلی تو کمر کی تکلیف نے واپس اپنی جگہ سنبھال لی اور پہلے سے زیادہ شدت سے اپنا احساس دلانے لگی۔

یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بس کا یہ سفر کوئی قید با مشقت ہو اور قید کا یہ دورانیہ کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہا تھا اور کمر کی تکلیف جبری مشقت کی طرح نا قابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ اس وقت زندگی اِس بس اور بس کے ماحول تک محدود ہو چکی تھی صرف ذہن کچھ کچھ آزاد تھا کہ ادھر اُدھر بھٹک سکے اور آنکھوں کو اجازت تھی کہ بس کی کھڑکیوں سے اُس طرف کے مناظر میں کوئی دلچسپی تلاش کر سکیں۔

بس کچھ نئے تعمیراتی پروجیکٹس کے پاس سے گزر رہی تھی۔ ایک قطعہِ زمین کو طرح طرح کے رنگا رنگ جھنڈوں اور بینرز سے سجایا گیا تھا ۔ ایک چھوٹی سی خوبصورت عمارت آفس کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہاں لگے بڑے بڑے بینرز بے گھر لوگوں کو اپنے گھر کے خواب دکھا رہے تھے۔ اس غیر آباد زمین میں عارضی طور پر جنگل میں منگل اس لئے برپا کیا گیا تھا کہ اپنے گھر کے خواہش مند لوگ اس رنگ و روپ اور چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنے پلاٹ بک کروا لیں۔

لیکن یہ سب گہما گہمی پروجیکٹ کے شروع میں ہی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب زیادہ تر پلاٹ فروخت ہو جاتے ہیں ۔ تب یہ سب رونق آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب یہ جگہ پھر سے بے آب و گیاہ ویرانے کی طرح نظر آتی ہے۔

ایسے میں اگر کوئی بھولا بھٹکا اپنا پلاٹ دیکھنے آ جائے تو وہ یہی سوچتا ہے کہ شاید یہاں یا شاید وہاں اُس کا پلاٹ تھا۔ حتیٰ کہ اُسے پلاٹ کا کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آتا ، اور وہ مخمصے اور شکوک شبہات میں گھرا واپس لوٹ جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے برسوں بعد قبرستان آنے والا اپنے کسی عزیز کی قبر ڈھونڈتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید یہاں تھی، یا شاید وہاں تھی۔ لیکن اسے یقین کی دولت میسر نہیں آتی۔

ایک آہ میرے منہ سے برآمد ہوئی۔ آہ کیا یہ تو ایک کراہ تھی۔ اُس شدید تکلیف کا احساس تھی جو بے آرامی کے باعث میری رگ رگ میں سرائیت کر چکی تھی۔ کاش میں کوئی درد کی گولی ہی کھالیتا۔ لیکن کیسے کھاتا۔ سفر میں نہ تو کوئی معالج تھا نہ کوئی دوا۔ یوں بھی یہ تکلیف کوئی تکلیف تھوڑی تھی۔ یہ تو بس بے آرامی کا روگ تھا اور اسے آرام سے ہی شفا ہونی تھی۔

اب تک غالباً دو تہائی سفر طے ہو چکا تھا۔ لیکن جیسے جیسے منزل قریب آ رہی تھی ۔ اسٹول پر بیٹھنا اور دشوار ہو رہا تھا ۔

مجھ سے آگے اسٹول پر بیٹھے آسمانی قمیض والے چاچا جی اب سو رہے تھے۔ ان کا کان مسلسل برابر والی سیٹ سے ٹکرا رہا رہا۔ لیکن انہیں کوئی ہو ش نہیں تھا۔ مجھے اُن پر اور خود پر حیرت ہوئی۔ شاید میرے محسوسات کچھ زیادہ ہی بڑھے ہوئے تھے۔ مجھ سے زیادہ عمر کے وہ بزرگ کس طرح اسٹول پر بیٹھے بیٹھے سو رہے تھے۔ اور میں تکلیف سے کراہ رہا تھا۔ پھر میں تو اس طرح سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگر میں کسی طرح سو بھی جاتا تو شاید تھوڑی ہی دیر میں کسی مسافر پر گر جاتا ۔ مجھے اپنی کم ہمتی پر افسوس بھی ہوا اور اس بات کا رشک بھی ہوا کہ میری ہی جیسی صورتِ حال میں میرے سے کہیں زیادہ عمر کا ایک شخص کتنے اطمینان سے سورہا ہے اور میں نہ جانے کیوں چھوئی موئی بنا ہوا ہوں۔

ایسا نہیں کہ میں نے اپنی توجہ ادھر اُدھر بانٹنے کی کوشش نہ کی ہو ۔ لیکن میرا دھیان کسی بھی جگہ نہ لگ سکا۔ مجھے اپنی خوراک بہتر کرنی چاہیے اور کچھ ورزش کو بھی معمول بنانا چاہیے،میں آگے کے لئے سوچنے لگا۔ انسان کو اتنا مضبوط تو ہونا چاہیے کہ مشکل وقت پڑنے پر با آسانی گزارا کر سکے اور چھوٹی چھوٹی تکالیف اُس کے لئے سوہانِ روح نہ بن جائیں۔ آج بھی میں ہمیشہ کی طرح ایک معمولی سا مشکل مرحلہ آنے پر آگے کے لئے خود سے عہد و پیمان کر رہا تھا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ سب عہد و پیمان مشکل کے رفع ہوتے ہی ذہن سے محو ہو جانے ہیں۔

باقی ماندہ مسافت مستقل کم ہو رہی تھی لیکن ساتھ ساتھ درد اب ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ درد کے ساتھ ساتھ مجھے بخار کی حرارت بھی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید تھکن اور شدید تکلیف کے باعث مجھے بخار ہو رہا تھا۔ دھیان بٹانے کے لئے میں نے پھر کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ بس ایک چنگی ناکہ پر رُکی ہوئی تھی۔ ڈرائیور چنگی کے پیسے دے کر رسید وصول کر رہا تھا۔ ہم دھیان دیں یا نہ دیں لیکن سرکار ہم سے کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس لے رہی ہوتی ہے۔ اور ہم ٹیکس دینے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم چینی، پتی گھی ، آٹا غرض ہر چیز خریدتے ہوئے سرکار کو خراج دے رہے ہوتے ہیں۔ اور بدلے میں سرکار ہمیں محض طفل تسلیاں دینے اور اچھے مستقبل کے خواب دکھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔

نہ جانے آج کیوں ہر بات مجھے منفیت کی طرف مائل کر رہی تھی حالانکہ میں خود اکثر لوگوں کو ہر بات کا مثبت پہلو تلاش کرنے کا مشورہ دیا کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بس کا یہ سفر شاید اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا مجھے محسوس ہو رہا تھا ۔ شاید ایک بات تو یہ تھی کہ یہ سفر خوشی کا نہیں بلکہ غمی کا تھا اور یہ بھی ہے کہ کچھ دن ہوتے ہی آزمائش کے لئے ہیں۔

بس کی کھڑکی سے اب ویران پہاڑوں اور جنگلی پودوں کے ساتھ ساتھ اِکی دُکی عمارتیں بھی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اور اِن عمارتوں اور چھوٹی چھوٹی دوکانوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھیں۔ ہم غالباً شہر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں بس سے اُترنے کے لئے کمر باندھنے لگا۔ لیکن تکلیف کے باعث محاورتاً کمر باندھنا بھی دشوار ہو رہا تھا ۔ بخار بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ بس سے اُتر کر فوراً ہی کوئی درد کش دوا لے کر کھاؤں گا۔

لیکن جب بس رُکی تو میں بس سے اُتر کر رکشہ میں سوار ہوگیا ۔ اس دوران یہ اطلاع پہنچ چکی تھی کہ تدفین عصر کے وقت رکھی گئی ہے اور اس وقت عصر کا وقت اپنے آخر آخر پر تھا۔ میں نے فون کیا تو معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ ہو چکی ہے اور اب وہ لوگ قبرستان جا رہے ہیں۔ مجھے مشورہ ملا کہ میں براہِ راست قبرستان پہنچ جاؤں۔ میں نے رکشے والے کو مذکورہ قبرستان کا پتہ سمجھایا اور ہم تھوڑی ہی دیر میں قبرستان پہنچ گئے۔ رکشے والے کو فارغ کرکے جب میں قبرستان میں داخل ہوا تو مجھے نزدیک ہی تدفین کا عمل ہوتا دکھائی دیا۔

میں آگے بڑھ کر لوگوں میں شامل ہو گیا۔ بخار کی شدت اور تکلیف سے میری حالت غیر ہو رہی تھی۔ جنازے میں شریک کچھ شناسا چہروں سے آنکھوں ہی آنکھوں میں دعا سلام ہوئی تاہم میں نے فی الحال ملاقات کو موخر ہی رکھا۔

قبر کے اردگر دجمع لوگ ایک دوسرے کو احکامات و ہدایات دے رہے تھے کوئی کچھ منگوا رہا تھا تو کوئی احتیاط کی صدا لگا رہا تھا ۔ جب میّت کو قبر میں لٹایا جانے لگا تو میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میّت کی جگہ میں لیٹ جاؤں، چاہے اُس کے لئے مجھے قبر میں ہی لیٹنا پڑے۔ لیکن میں نے خود کو سنبھالا اور لواحقین میں سے ایک نڈھال شخص کو سہارا دینے کے لئے آگے بڑھ گیا۔

 

******

غزل : کسی سے کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی - حنیف اسعدی

غزل

کسی سے کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی
نہ دل نے دل کو ٹٹولا فضا ہی ایسی تھی

زبانِ درد سے لیکر دہانِ زخم تلک
کوئی بھی کھل کے نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

سُکوں کے در پئے آزار سب ہوئے لیکن
جنوں سے کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

ہوا چلی بھی تو ماحول کے رگ و پے میں
ہوا نے زہر ہی گھولا فضا ہی ایسی تھی

کہیں قریب مکانوں سے اُٹھ رہا تھا دھواں
دریچہ پھر بھی نہ کھولا فضا ہی ایسی تھی

برستی آنکھوں نے آنکھوں سے کچھ سوال کئے
کوئی بھی منہ سے نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

رسائی ہو بھی گئی وقت کی عدالت تک
وہاں بھی کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

عجب ستم ہے کہ میزان خیر و شر میں‌ حنیفؔ
یقیں کو وہم میں تولا فضا ہی ایسی تھی

حنیف اسعدی

 

Hanif Asadi
حنیف اسعدی مشاعرہ پڑھتے ہوئے

مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے۔ سدھرشن فاکر

سدھرشن فاکر صاحب ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے ایک بہت اچھے شاعر ہیں۔ آپ نے کئی ایک فلمی گیت لکھے ہیں تاہم آپ کے لکھے فلمی گیت بھی محض عامیانہ اور سوقیانہ نہیں ہیں بلکہ آپ کی شاعری میں جذبات و احساسات کی گہرائی موجود ہے اور آپ کے ہاں اظہار کا سلیقہ موجود ہے۔

سدھرشن فاکر صاحب کا ایک گیت جو میں نے بچپن میں سنا تھا اور مجھے پسند بھی رہا ہے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اُمید ہے آپ کو پسند آئے گا۔ ممکن ہے کہ یہ شاعری آپ کو قنوطیت زدہ لگے، تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان زندگی میں طرح طرح کی کیفیات و احساسات سے گزرتا ہے۔ زندگی کے ہر احساس ہر کیفیت کو سجا سنوار کر شاعری میں پیش کردینا بہرکیف ایک ہنر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سدھرشن فاکر صاحب نے اس گیت میں اپنے ہنر کا حق ادا کردیا ہے۔ گیت ملاحظہ فرمائیے۔


مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے
تجھے وہ دل سے بھلا دے تو انتظار کرے

تو پوچھتا پھرے اُس کا پتہ بہاروں سے
جواب تک نہ ملے تجھ کو رہ گزاروں سے
ہر ایک موڑ پہ وہ تجھ کو بے قرار کرے

تو دشمنوں کی محبت میں دوستی ڈھونڈے
غموں کے شہر میں جیسے کوئی خوشی ڈھونڈے
ترا ستم کبھی تجھ کو بھی اشکبار کرے

ترے غرور کی نظریں جھکی جھکی سی رہیں
تیری اُمید کی شمعیں بُجھی بُجھی سی رہیں
اُسے تو پا نہ سکے کوششیں ہزار کرے

مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے
تجھے وہ دل سے بھلا دے تو انتظار کرے

سدھرشن فاکر

*****
 
سدھرشن فاکر
Sudharshan Faakir

 

اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے ۔ اسلم انصاری

 غزل
 
اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے
اے دل طلسم گنبد شب میں صدا نہ دے

دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے

گل کر نہ دے چراغ وفا ہجر کی ہوا
طول شب الم مجھے پتھر بنا نہ دے

ہم سب اسیر دشت ہویدا ہیں دوستو
ہم میں کوئی کسی کو کسی کا پتا نہ دے

سب محو نقش پردۂ رنگیں تو ہیں مگر
کوئی ستم ظریف یہ پردہ ہٹا نہ دے

اک زندگی گزیدہ سے یہ دشمنی نہ کر
اے دوست مجھ کو عمر ابد کی دعا نہ دے

ڈرتا ہوں آئنہ ہوں کہیں ٹوٹ ہی نہ جاؤں
اک لو سی ہوں چراغ کی کوئی بجھا نہ دے

ہاں مجھ پہ فیض میرؔ و فراقؔ و ندیمؔ ہے
لیکن تو ہم سخن مجھے اتنی ہوا نہ دے

 اسلم انصاری
 
Aslam Ansari
Aslam Ansari

 
 بشکریہ ذوالقرنین بھائی 


بنا حُسنِ تکلّم، حُسنِ ظن آہستہ آہستہ ۔ شاذ تمکنت

  شاذ تمکنت صاحب کی ایک خوبصورت غزل ہم نے سن 2013ء میں رعنائی خیال پر پر لگائی تھی۔ آج شاذ صاحب کی ایک اور غزل قارئینِ بلاگ کے عمدہ ذوق کی نذر کی جا رہی ہے۔ اُمید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی۔

غزل

بنا حُسنِ تکلّم، حُسنِ ظن آہستہ آہستہ
بہر صورت کُھلا، اِک کم سُخن آہستہ آہستہ

مُسافر راہ میں ہے شام گہری ہوتی جاتی ہے
سُلگتا ہے تِری یادوں کا بن آہستہ آہستہ

دُھواں دل سے اُٹھے چہرے تک آئے نور ہو جائے
بڑی مشکل سے آتا ہے یہ فَن، آہستہ آہستہ

ابھی تو سنگِ طفلاں کا ہدف بننا ہے کوچوں میں
کہ راس آتا ہے یہ دیوانہ پن آہستہ آہستہ

ابھی تو امتحانِ آبلہ پا ہے بیاباں میں
بنیں گے کُنجِ گل، دشت و دمن آہستہ آہستہ

ابھی کیوں کر کہوں زیرِ نقابِ سُرمگیں کیا ہے
بدلتا ہے زمانے کا چلن آہستہ آہستہ

میں اہلِ انجمن کی خلوتِ دل کا مغنی ہوں
مجھے پہچان لے گی انجمن آہستہ آہستہ

دلِ ہر سنگ گویا شمعِ محرابِ تمنّا ہے
اثر کتی ہے ضربِ کوہکن آہستہ آہستہ

کسی کافر کی شوخی نے کہلوائی غزل مجھ سے
کھلے گا شاذؔ اب رنگِ سخن آہستہ آہستہ

شاذ تمکنت

شاذ تمکنت
Shaz Tamkanat

 


 

غزل: کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا؟۔۔۔ قمر جلال آبادی

یہ دنیا بڑی رنگ برنگی ہے اور انسان کے لئے بڑی کشش رکھتی ہے۔ دنیا کی رونقیں ہمہ وقت انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ، لیکن کبھی کبھی انسان کی نظر دنیا کے اُس دوسرے رُخ پر بھی پڑتی ہےجہاں سے اس کی رونقیں بالکل ماند نظر آتی ہیں اور انسان ا س دنیا کی بے ثباتی پر سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ زیرِ نظر غزل میں محترم قمر جلال آبادی نے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور بہت خوبی سے کیا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا؟
لے لوں گا شاندار سا گھر ، اُس کے بعد کیا؟

مے کی طلب جو ہوگی تو بن جاؤں گا میں رِند
کر لوں گا میکدوں کا سفر ، اُس کے بعد کیا؟

ہوگا جو شوق حُسن سے راز و نیاز کا
کرلوں گا گیسوؤں میں سحر، اُس کے بعد کیا؟

شعر و سُخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں
دُنیا میں ہوگا نام مگر، اُس کے بعد کیا ؟

موج آئے گی تو سارے جہاں کی کروں گا سیر
واپس وہی پرانا نگر ، اُس کے بعد کیا؟

اِک روز موت زیست کا در کھٹکھٹائے گی
بُجھ جائے گا چراغِ قمر ، اُس کے بعد کیا؟

اُٹھی تھی خاک، خاک سے مل جائے گی وہیں
پھر اُس کے بعد کس کو خبر ، اُس کے بعد کیا؟

قمر جلال آبادی

مختصر افسانہ:اتفاق

اتفاق

مختصر افسانہ از محمد احمد

وُہ مسکرا رہی تھی اور میں بھی مسکرا رہا تھا۔ وہ اپنے کسی خیال میں اور میں اپنے کسی خیال میں۔ دونوں ایک دوسرے سے بے خبر۔

اچانک دونوں کی نظریں ملیں۔ دونوں کی مسکراہٹیں فزوں تر ہو گئیں۔

"کیا ہوا؟" دونوں نے ایک ساتھ کہا۔

"کچھ نہیں!" ایک سے سوال کا ایک سا جواب تھا۔


یہ محض اتفاق تھا لیکن حسنِ اتفاق کی مکمل تعریف لیے ہوئے تھا۔

*****


 

دنیا کو ریشہ ریشہ اُدھیڑیں، رفو کریں - راجیش ریڈی

راجیش ریڈی صاحب پڑوسی ملک ہندوستان کے معروف شاعر ہیں۔ اُن کی زیرِ نظر غزل اچھی لگی، سو خیال آیا کہ بلاگ کے قارئین کے ساتھ شریک کی جائے۔ اس غزل کا مطلع مجھے خاص طور پر پسند آیا۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

غزل

دنیا کو ریشہ ریشہ اُدھیڑیں، رفو کریں
آ بیٹھ تھوڑی دیر ذرا گفتگو کریں

جس کا وجود ہی نہ ہو دونوں جہان میں
اُس شے کی آرزو ہی نہیں جستجو کریں

دنیا میں اِک زمانے سے ہوتا رہا ہے جو
دنیا یہ چاہتی ہے وہی ہُو بہ ہُو کریں

ان کی یہ ضد کہ ایک تکلف بنا رہے
اپنی تڑپ کہ آپ کو تم، تم کو تو کریں

ان کی نظر میں آئے گا کس دن ہمارا غم
آخر ہم اپنے اشکوں کو کب تک لہو کریں

دل تھا کسی نے توڑ دیا کھیل کھیل میں
اتنی ذرا سی بات پہ کیا ہاؤ ہُو کریں

دل پھر بضد ہے پھر اسی کوچے میں جائیں ہم
پھر ایک بار وہ ہمیں بے آبرو کریں

راجیش ریڈی


راجیش ریڈی
راجیش ریڈی ۔ دنیا کو ریشہ۔ ریشہ اُدھیڑیں ، رفو کریں

افسانہ : روپ بہروپ

روپ بہروپ

از محمد احمد


"یہ عامر وسیم پاگل واگل تو نہیں ہے؟ "صدیقی صاحب کافی غصے میں نظر آ رہے تھے
لیکن میں اس لڑکے کی بات سن کر ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا تھا۔ میرا ذاتی خیال یہی تھا کہ کرکٹر وغیرہ کافی لا ابالی ہوتے ہیں۔ پھر یہ تو ابھی بالکل نوجوان ہی تھا۔ اکیس بائیس سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ ایسے میں اُس کی طرف سے اِس قسم کی بات کافی حیران کن تھی۔

"مجھے ایڈورٹزمنٹ کے شعبے میں 30 سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج تک ایسی بات کسی نے نہیں کی۔"
"اتنے بڑے بڑے ماڈلز، ایکٹرز، ایکٹریسز، حتیٰ کہ بڑے سے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ میں نے اشتہار کیے ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے ایسی بات نہیں کی۔" صدیقی صاحب اپنی دراز میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔

"اس کا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہو گیا ہے۔" انہوں نے دراز زور سے بند کرتے ہوئے کہا۔ شاید اُن کی مطلوبہ شے وہا ں نہیں تھی۔
"خیر ! میں کلائنٹ سے بات کرتا ہوں اور اُن سے کہتا ہوں کہ وہ اس کے بجائے شاہد کمال کو لے لیں۔ شاہد کمال کی ریٹنگ بہت اچھی ہے اوراس کے مقابلے میں یہ تو بالکل ہی نیا ہے۔ چار چھ میچز کی پرفارمنس کوئی پرفارمنس ہوتی ہے۔" صدیقی صاحب اپنی رو میں کہے جا رہے تھے۔

*****

میں اور صدیقی صاحب ایک ایڈورٹِزمنٹ ایجنسی میں ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہماری فرم ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے لئے اشتہارات بناتی ہے۔ ہم دونوں کا کام ایک طرح سے مارکیٹنگ اور کلائینٹ ہینڈلنگ ہے۔

ہمارے ایک کلائینٹ کی فرمائش ہے کہ وہ اپنے فوڈ سپلیمنٹ کے اشتہار میں نئے ابھرتے ہوئے کرکٹر عامر وسیم کو لیں ۔ عامر وسیم نے کچھ ہی ماہ قبل ایک مقامی لیگ میں ڈیبیو کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ اُس کے فوراً بعد ہی اُسے قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا اور اپنی پہلی ہی سیریز میں اس نے کئی نئے ریکارڈ بنا دیے۔

جب میں اور صدیقی صاحب اشتہار کے سلسلے میں عامر وسیم سے ملے تو وہ کافی خندہ پیشانی سے ملا لیکن اُس نے ایک عجیب بات کی۔

اُس کا کہنا ہے کہ وہ اشتہار میں کام کرنے سے پہلے اُن کی یہ پروڈکٹ استعمال کرکے دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر اسے سمجھ آئی تو اشتہار میں کام کرے گا، ورنہ معذرت کر لے گا۔ اُس نے فوڈ سپلیمنٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ اُس نے کہا کہ میں کسی غلط پروڈکٹ کا اشتہار نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے اللہ کو جواب دینا ہے۔

یہ بات واقعی عجیب ہے۔ آج تک کسی ماڈل نے ایسا نہیں کہا کہ وہ پروڈکٹ کو استعمال کیے بغیر اشتہار میں کام نہیں کرے گا۔ بلکہ ماڈلز کو تو اس بات سے غرض ہی نہیں ہوتی کہ وہ پروڈکٹ کیسی ہے، اچھی ہے یا بری ہے۔ اُن کو اپنے پیسوں سے غرض ہوتی ہے اور بس!

دیکھا جائے تو یہ لڑکا اشتہاروں سے اچھا خاصا کما سکتا ہے لیکن اس قسم کا رویّہ تو اپنے پیروں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ یقیناً وہ کسی اچھی تربیت کے زیرِ اثر پلا بڑھا ہے ورنہ آج کل تو لوگ مالی منفعت کے آگے کچھ بھی نہیں دیکھتے۔

*****

 
صدیقی صاحب جب کلائینٹ سے ملے تو خلافِ توقع کلائینٹ نے اُنہیں کہا کہ وہ ہر حال میں اپنا اشتہار عامر وسیم سے ہی کروانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پرانے چاولوں کے مقابلے میں نئے ٹیلینٹ اور نئے چہرے کے ساتھ اپنا اشتہار کروائیں۔ کلائینٹ نے کہا کہ وہ اپنی پروڈکٹ کے کچھ فریش سیمپل بھیج دے گا تاکہ وہ عامر وسیم کو بھیج دیے جائیں ۔ کلائینٹ نے صدیقی صاحب کی ذمہ داری لگائی کہ وہ کسی طرح عامر وسیم کو اس اشتہار کے لئے راضی کریں۔

صدیقی صاحب جتنا عامر وسیم سے چِڑ رہے تھے اُتنا ہی اُنہیں اُس سے واسطہ پڑ رہا تھا۔

*****

عامر وسیم سے ہماری اگلی ملاقات کم و بیش دو ہفتے بعد ہوئی۔

صدیقی صاحب نے کافی کوشش کے بعد اپنے موڈ کو خوشگوار بنایا اور عامر وسیم کو فوڈ سپلیمنٹ کے تازہ سیمپل دئیے جو کلائینٹ نے خاص طور پر عامر وسیم کے لئے بھیجے تھے۔

عامر وسیم حسبِ سابق بہت اچھی طرح ملا ۔ بظاہر یہ ایک کھلندڑا اور ہنس مکھ نوجوان تھا۔ عامر وسیم نے بتایا کہ ان سیمپلز کی اب ضرورت نہیں ہے۔ وہ مارکیٹ سے لے کر اس پروڈکٹ کو استعمال کرتا رہا ہے اور اس دوران اُس نے پروڈکٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ بھی کرو ا لیا ہے۔ اب وہ پروڈکٹ سے مطمئن تھا ۔

یوں صدیقی صاحب کی مشکل توقع سے کہیں پہلے آسان ہو گئی اور پھر وہ بھی خوش دلی سے باقی کے مراحل میں جُت گئے۔ 

*****


عامر وسیم ایک اچھا کرکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ خوش شکل اور جاذبِ ِ نظر بھی تھا۔ پھر ہماری فرم کا برسوں کا تجربہ بھی اشتہار سازی میں شامل رہا ۔ یوں یہ اشتہار کافی اچھا بنا ۔ اور لوگوں میں مقبول بھی بہت ہوا۔

کمپنی کے مالک نے ایک کام اوربھی کیا۔ اُس نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ایک کمپین چلائی ، جس میں ایمانداری اور سچی گواہی کے ہیش ٹیگز شامل کیے گئے اور اس میں بتایا گیا کہ کرکٹر نے اشتہار میں کام کرنے کی کیا شرط رکھی۔ یہ کمپین بظاہر کرکٹر کو سراہنے کے لئے تھی ۔ لیکن ضمنی طور پر یہ اس پروڈکٹ کی شہرت کا سبب بنی کہ ہر پوسٹ ہر ٹوٹئٹ میں اشتہار کی ویڈیو بھی شامل کی گئی۔

یوں عامر وسیم کی شہرت اور نیک نامی کو بھی چار چاند لگے ،لیکن اصل فائدہ کلائینٹ کو ہی ہوا۔

*****

آج اتوار کا دن تھا ۔ سہ پہر کے وقت میں اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر حالات حاضرہ کا کوئی پروگرام چل رہا تھا۔ ہم ادھر اُدھر کی باتیں بھی کر رہے تھے۔

اچانک ٹی وی اسکرین پر ایک اشتہار میں شاہد کمال نظر آیا۔
"میں کبھی کسی ایسے پروڈکٹ کے لئے کام نہیں کرتا جس کو میں نے خود نہ آزمایا ہو۔اور جب تک میں خود اس پروڈکٹ کی تحقیق نہ کر لوں۔ " شاہد کمال بڑے پر یقین لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
اُس کے ہاتھ میں ایک انرجی ڈرنک تھا اور وہ اُس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہا تھا۔

میں اس پروڈکٹ کو دیکھ کر چونکا۔ میں نے فوراً اس کا نام سرچ انجن پر ڈالا۔
میرا خدشہ بالکل درست نکلا۔ یہ تو اُن پروڈکٹس میں سے تھی جن کے استعمال پر وزارتِ صحت نے تنبیہ کی تھی اور مضرِ صحت مصنوعات کی فہرست میں اس کا نام شامل کیا تھا۔

غالب کا ایک شعر نہ جانے کہاں سے میرے حافظے میں نمودار ہوا۔

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی

اور میں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔

***-***-***

افسانہ - روپ بہروپ

غزل: اول اول کی دوستی ہے ابھی - احمد فراز


اول اول کی دوستی ہے ابھی
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی

میں بھی شہر وفا میں نو وارد
وہ بھی رک رک کے چل رہی ہے ابھی

میں بھی ایسا کہاں کا زود شناس
وہ بھی لگتا ہے سوچتی ہے ابھی

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی

گرچہ پہلا سا اجتناب نہیں
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھلتا
بوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی

خود کلامی میں کب یہ نشہ تھا
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

فصل گل میں بہار پہلا گلاب
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی

مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر
وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی


فراز

تبصرہ ٴکُتب | عکسِ فریادی - نصیر ترابی

نصیر ترابی شہرِ کراچی کے منفرد، طرح دار اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ محبت، تعلق، سماجی مسائل اور انسانی روئیے آپ کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں۔

عکس فریادی نصیر ترابی کی غزلیات کا مجموعہ ہے۔ آپ کی غزلیات شعری روایات کی علمبردار ہیں تاہم آپ کے موضوعات بہ یک وقت جدید بھی ہیں اور دورِ حاضر سے علاقہ رکھتے ہیں۔

نصیر ترابی کی معروف غزل "وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی" بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔

کتاب کے آخر میں شاعر کے فارسی اشعار بھی موجود ہیں تاہم راقم الحروف اپنی علمی بے بضاعتی کے باعث ان پر رائے دینے سے قاصر ہے۔

بحیثیتِ مجموعی یہ ایک اچھی کتاب ہے اور شعر و ادب کے قارئین کا اسے پڑھنا باعثِ زحمت نہیں ہوگا۔

نصیر ترابی کے کچھ اشعار آپ کے ذوق کی نذر

 

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا
یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا
اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا
ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے
سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا
کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے
پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا
کچھ روز نصیرؔ آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا

*****

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے
شہر بے مہر! کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے
ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
اس کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے

*****

مثل صحرا ہے رفاقت کا چمن بھی اب کے
جل بجھا اپنے ہی شعلوں میں بدن بھی اب کے
ہم تو وہ پھول جو شاخوں پہ یہ سوچیں پہروں
کیوں صبا بھول گئی اپنا چلن بھی اب کے
منزلوں تک نظر آتا ہے شکستوں کا غبار
ساتھ دیتی نہیں ایسے میں تھکن بھی اب کے

*****




تبصرہ ٴکُتب | روشن دان - جاوید صدیقی

روشن دان جاوید صدیقی کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ جاوید صدیقی ہندوستان کے ادیب ہیں اور اُن کا سابقہ بہ یک وقت صحافت اور فلمی دنیا سے رہا ہے۔ یہ خاکے زیادہ تر اُن لوگوں کے ہیں جن سے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں جاوید صدیقی صاحب کا واسطہ رہا۔ ان میں کچھ معروف لوگوں کے خاکے بھی ہیں اور کچھ مصنف کے قریبی لوگوں کے بھی ۔

جاوید صدیقی زبان و بیان پر گرفت رکھتے ہیں۔ اچھا لکھتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ لکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ قاری کو اپنے جذبات میں شریک کر لینا جاوید صدیقی کے لئے مشکل نہیں ہے۔ ان کے بعض خاکوں میں تو افسانوں کا سا رنگ ہے کہ پڑھنے والا اُس کے سحر میں کھو جاتا ہے آخر تک مصنف کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔

کہیں کہیں البتہ منظر نگاری کو کچھ ضرورت سے زیادہ طول دے دیتے ہیں۔ یا اپنے ممدوح (یا شاذ معاملات میں مذموم) کے بارے میں غیر دلچسپ تفصیلات بھی شامل کر دیتے ہیں۔

بہرکیف، یہ ایک اچھی کتاب ہے اور اسے وقت گزاری کے لئے پڑھا جا سکتا ہے۔ 

 


 

غزل : وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا - حنیف اسعدی

آج بہت دنوں بعد کوئی غزل ایسی سنی کے طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ساتھ ساتھ کلامِ شاعر بزبانِ شاعر سے بھی حظ اُٹھائیے۔

غزل

وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا
وطن کی خاطر جیے مریں گے یہ طے ہو ا تھا

بوقتِ ہجرت قدم اُٹھیں گے جو سوئے منزل
تو بیچ رستے میں دَم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا

چہار جانب بہار آئی ہوئی تھی لیکن
بہار کو اعتبار دیں گے یہ طے ہوا تھا

تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کرکے
نئے وطن کو وطن کہیں گے ، یہ طے ہوا تھا

خدا کے بندے خدا کی بستی بسانے والے
خدا کے احکام پر چلیں گے یہ طے ہوا تھا

بغیرِ تخصیص پست و بالا ہر اک مکاں میں
دیئے مساوات کے جلیں گے، یہ طے ہوا تھا

کسی بھی اُلجھن میں رہبروں کی رضا سے پہلے
عوام سے اذنِ عام لیں گے، یہ طے ہوا تھا

تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے
جو طے نہیں ہے، وہ طے کریں گے، یہ طے ہوا تھا

حنیف اسعدی

ویڈیو بشکریہ خورشید عبداللہ

غزل: اِس قدر اضطراب دیوانے؟

غزل

اِس قدر اضطراب دیوانے؟
تھا جُنوں ایک خواب دیوانے!

ہم ہیں آشفتہ سر ہمیشہ سے
ہم تو ہیں بے حساب دیوانے

فاتر العقل ہیں نہ مجنوں ہیں
ہم ہیں عزت مآب دیوانے

آئے نکہت فشاں چمن میں وہ
ہو رہے ہیں گلاب دیوانے

ہیں خرد مند فیس بک پر خوش
پڑھ رہے ہیں کتاب دیوانے

سب ہیں ہشیار اگر بکار خویش
نام کے ہیں جناب دیوانے

نام اللہ کا لے، بھٹکنا چھوڑ
تھام لے اِک طناب دیوانے

خاک مسجد بنے گی شب بھر میں
اب نہیں دستیاب دیوانے

روز مڈ بھیڑ اہلِ دانش سے
روز زیرِ عتاب دیوانے

سر کھپاتے ہو فکرِ دنیا میں
تم ہو احمدؔ خراب دیوانے

محمد احمدؔ

مختصر افسانہ: اردو ہے کس کا نام؟

اردو ہے کس کا نام؟
مختصر افسانہ از محمد احمدؔ

"بس! یہاں سائڈ پر گاڑی روک دیجے۔"۔۔۔ایک نشست سے نسوانی آواز بلند ہوئی۔
"کیا نمبر ہے آپ کا؟"۔۔۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف روکتے ہوئے بورڈنگ پاس نمبر پوچھا۔
"تھرٹی تھری"۔۔۔ دوشیزہ نے موبائل ایپ پر دیکھتے ہوئے بتایا۔
"اردو میں بتاؤ۔ "۔۔۔سرحدی علاقے کا ڈرائیور انگریزی گنتی سے نابلد تھا۔
"تین تین "۔۔۔ لڑکی نے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا۔ وہ لفظ تینتیس سے واقف نہیں تھی۔
ڈبل تین؟ ڈرائیور نے اپنے انداز میں تصدیق چاہی۔
جی۔
اور اس طرح دو پاکستانی شہری ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔
نئی نسل کی اردو سے بے رغبتی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ "اِشو" بناتے ہیں۔ 

*****





ذہانت یا خیانت

ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں جگہ جگہ پر بھانت بھانت کی چورنگیاں ہوا کرتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ سڑکیں تنگ ہوتی گئیں اور چورنگیاں سُکڑتی گئیں۔ اب حال یہ ہے کہ کراچی میں بڑی بڑی چورنگیاں دو ایک ہی رہ گئی ہیں۔

مشہورِ زمانہ فور کے چورنگی کے چرچے تو آپ نے سنے ہی ہوں گے لیکن آج کا قصہ پاور ہاؤس چورنگی سے متعلق ہے۔ پاور ہاؤس چورنگی فور کے چورنگی سے کچھ فاصلے پر ہے اس کے قریب بجلی بنانے والی کمپنی کا پاور ہاؤس ہے اور اسی نسبت سے یہ پاور ہاوس چورنگی کہلاتی ہے۔ اس پر ایک سفید رنگ کا ماڈل جہاز لگا ہوا ہے اور اس کی دیواریں سُرخ رنگ کی جالی دار اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ چورنگی کی دیوار کا ایک بڑا حصہ کچھ عرصہ قبل ٹوٹ گیا تھا اور یہ کافی بدنما معلوم ہوتا تھا۔ کل پرسوں میں نے دیکھا کہ کسی نے اس دیوار کے ٹوٹے ہوئے حصے کو پینا فلیکس شیٹ سے بند کر دیا تھا۔ اور پینا فلیکس پر بعینہ چورنگی کی اینٹوں کی سی دیوار کا ڈیزائن پرنٹ کیا گیا تھا۔ پہلی نظر میں پتہ نہیں چلتا تھا کہ دیوار کا یہ حصہ اصلی نہیں بلکہ دیوار کی پینافلیکس نقل ہے۔ مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا کہ چورنگی کی بدنمائی اس سے چھپ گئی اور خرچہ بھی اس میں کم آیا ہوگا۔

تاہم اگلے دن جب میں نے اس کا تفصیلی جائزہ لیا تو دیکھا کہ ماڈل جہاز کے عین سامنے ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا تھا کہ جس میں ایک تعمیراتی ادارے جی ایف ایس بلڈر زکی طرف سے ضلع کی تزین و آرائش کا بلند و بانگ دعویٰ کیا گیا تھا۔

مجھے اس بات پر اچھی خاصی حیرت ہوئی، اور حیرت بھی اشتعال آمیز ۔ اگر پینافلیکس لگانے کا کام کسی چھوٹی موٹی این جی او نے کیا ہوتا تو یقیناً لائقِ ستائش ہوتا۔ لیکن ایک تعمیراتی ادارہ جو کہ اس مشہورِ زمانہ چورنگی کو اپنی تشہیر کے لئے بھی استعمال کر رہا ہے ، اس سے یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ وہ چند سو اینٹیں لگانے کے بجائے پینافلیکس کی دیوار بنا کر اپنے تئیں ضلع مکینوں پر احسان جتائے۔

یقیناً اس مہم کو اُنہوں نے سرکاری محکمہ کی باقاعدہ اجازت کے بعد ہی شروع کیا ہوگا تو ایسے میں سرکاری عہدے دار بھی اس بات کے قصور وار ہیں کہ اُنہوں نے اتنی ارزاں قیمت پر اتنی بڑی چورنگی کو اشتہار ی مہم کے استعمال کے لئے دے دیا۔

چورنگی کی کنکریٹ کی دیوار میں پینا فلیکس کا پیوند لگانے کا خیال یقیناً تعمیراتی ادارے کے پیچھے کارفرما افراد کی ذہانت کا کمال ہے تاہم ایک تعمیراتی ادارے کو اس قسم کی حرکت ہرگز زیب نہیں دیتی۔ وہ بھی تب کہ جب وہ اس چورنگی کو اپنے کاروباری مقاصد کے لئے بھی استعمال کر رہے ہوں۔
پاور ہاؤس چورنگی

تصویر بغیر رُکے لی گئی ہے معیار کے لئے معذرت

تبصرہ ٴکُتب | جپسی - مستنصر حسین تارڑ

 

تارڑ صاحب کا ناول جپسی مجھے اچھا لگا، شاید اس لئے کہ مجھے کافی دن بعد فکشن پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

ناول کا شروع کا حصہ پڑھ کر مجھ جیسے کولہو کے بیل کو اپنے شب و روز میں مقید ہونے کا کافی قلق ہوا۔ اور یہ خیال جاگا کہ کچھ نہ کچھ سیاحتی سرگرمیاں زندگی میں ہونی چاہیے۔ تاہم بہت جلد ہی ہم سنبھل گئے اور قفس کو پھر سے آشیاں سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔

اصلی ناول کافی دیر بعد شروع ہوا۔ یعنی ناول بھی اپنے مرکزی کردار کی طرح کچھ آوارہ گرد ثابت ہوا۔ جپسی کی محبت خانہ بدوشوں کی سی تھی۔ سادہ اور الہڑ ۔ اور کچھ اکھڑ بھی۔ جیسے خانہ بدوشوں کے ہاں سفر اور قیام کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا۔ بعینہ و ہی حال یہاں بھی تھا۔

یوں تو ناول میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انسان عش عش کر اُٹھے لیکن وقت گزاری کے لئے اور اپنے شب و روز سے کٹنے کے لئے یہ ایک اچھا ناول ہے۔

پسِ نوشت: ویسے جپسی سے مجھے طارق عزیز یاد آتے ہیں جو اپنے مشہورِ زمانہ پروگرام میں جپسی امیزنگ کریم کی تشہیر اپنے مخصوص انداز میں کیا کرتے تھے۔



میر کی غزل کہوں تجھے میں؟

شعر اور رومان کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ انسان کو جب کسی شے کی تعریف کے لئے لفظ ناکافی معلوم ہوتے ہیں تو وہ اپنے لفظوں میں، لگاوٹ اور محبت کے ساتھ ساتھ نغمگی بھی شامل کر دیتا ہے۔ نغمگی اور آہنگ بھاری بھرکم تعریفی کلمات کو بھی ایسا ہلکا پھلکا کر دیتے ہیں کہ پڑھنے سننے والا مخمور سا ہو جاتا ہے۔ گو کہ فی نفسہ مجھے رومانوی شاعری سے کچھ خاص اُنسیت نہیں ہے لیکن کچھ گیت البتہ ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی باذوق شخص، اگر انہیں سُنے تو داد دیے بغیر نہ رہے۔ ایسا ہی ایک گیت آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اسے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نے لکھا ہے اور معروف گلوکار محمد رفیع نے گایا ہے۔ اس سے آپ کو انداز ہو گیا ہوگا کہ یہ کوئی آج کے زمانے کا گیت نہیں ہے۔ سو آپ یہ سمجھ لیجے کہ یہ قدیم دوستوں کے لئے شرابِ کہنہ ہے! گیت ملاحظہ فرمائیے۔


میں نے پوچھا چاند سے
کہ دیکھا ہے کہیں، میرے یار سا حسیں
چاند نے کہا، چاندنی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

میں نے یہ حجاب تیرا ڈھونڈا
ہر جگہ شباب تیرا ڈھونڈا
کلیوں سے مثال تیری پوچھی
پھولوں میں جواب تیرا ڈھونڈا
میں نے پوچھا باغ سے ، فلک ہو یا زمیں
ایسا پھول ہے کہیں؟
باغ نے کہا، ہر کلی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

چال ہے کہ موج کی روانی
زُلف ہے کہ رات کی کہانی
ہونٹ ہیں کہ آئینے کنول کے
آنکھ ہے کہ مے کدوں کی رانی
میں نے پوچھا جام سے فلک ہو یازمیں
ایسی مے بھی ہے کہیں؟
جام نے کہا، مے کشی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

خوبصورتی جو تونے پائی
لُٹ گئی خدا کی بس خدائی
میر کی غزل کہوں تجھے میں
یا کہوں خیام کی رباعی
میں نے پوچھا شاعروں سے
ایسا دل نشیں
کوئی شعر ہے کہیں؟
شاعر کہیں، شاعری کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

میں نے پوچھا چاند سے
کہ دیکھا ہے کہیں، میرے یار سا حسیں
چاند نے کہا، چاندنی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

 

نغمہ نگار: آنند بخشی


 

بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا ۔ منیر نیازی

غزل

بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا
اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا

شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس
آب سادہ کو حریف رنگ بادہ کر لیا

ہجرتوں کا خوف تھا یا پر کشش کہنہ مقام
کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کر لیا

ایک ایسا شخص بنتا جا رہا ہوں میں منیرؔ
جس نے خود پر بند حسن و جام و بادہ کر لیا

منیر نیازی

غزل ۔ چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں ۔ قتیل شفائی

غزل

چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں، مِرے خواب کہاں آتے ہیں

مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں

میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو، اب خواب کہاں آتے ہیں

تنہا رہتا ہُوں میں دِن بھر، بھری دُنیا میں قتؔیل
دِن بُرے ہوں، تو پھر احباب کہاں آتے ہیں

قتیل شفائی