ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

نطم : گومگو ۔۔۔ گلزار

گَومَگو

نہ جانے کیا تھا، جو کہنا تھا آج مل کے تجھے
تجھے ملا تھا مگر جانے کہا میں نے
وہ ایک بات جو سوچی تھی تجھ سے کہہ دوں گا
تجھے ملا تو لگا، وہ بھی کہہ چکا ہوں کبھی
کچھ ایسی باتیں جو تجھ سے کہی نہیں ہیں مگر
کچھ ایسا لگتا ہے تجھ سے کبھی کہی ہوں گی
عجیب ہے یہ خیال و جنوں کی کیفیت
ترے خیال سے غافل نہیں ہوں تیری قسم
ترے خیالوں میں کچھ بھول بھول جاتا ہوں

گلزار


گلزار
Gulzar - Urdu Poet

غزل: کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا؟۔۔۔ قمر جلال آبادی

یہ دنیا بڑی رنگ برنگی ہے اور انسان کے لئے بڑی کشش رکھتی ہے۔ دنیا کی رونقیں ہمہ وقت انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ، لیکن کبھی کبھی انسان کی نظر دنیا کے اُس دوسرے رُخ پر بھی پڑتی ہےجہاں سے اس کی رونقیں بالکل ماند نظر آتی ہیں اور انسان ا س دنیا کی بے ثباتی پر سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ زیرِ نظر غزل میں محترم قمر جلال آبادی نے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور بہت خوبی سے کیا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا؟
لے لوں گا شاندار سا گھر ، اُس کے بعد کیا؟

مے کی طلب جو ہوگی تو بن جاؤں گا میں رِند
کر لوں گا میکدوں کا سفر ، اُس کے بعد کیا؟

ہوگا جو شوق حُسن سے راز و نیاز کا
کرلوں گا گیسوؤں میں سحر، اُس کے بعد کیا؟

شعر و سُخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں
دُنیا میں ہوگا نام مگر، اُس کے بعد کیا ؟

موج آئے گی تو سارے جہاں کی کروں گا سیر
واپس وہی پرانا نگر ، اُس کے بعد کیا؟

اِک روز موت زیست کا در کھٹکھٹائے گی
بُجھ جائے گا چراغِ قمر ، اُس کے بعد کیا؟

اُٹھی تھی خاک، خاک سے مل جائے گی وہیں
پھر اُس کے بعد کس کو خبر ، اُس کے بعد کیا؟

قمر جلال آبادی

مشاعرہ، تہذیب اور انڈے ٹماٹر

مشاعرہ ہماری تہذیبی روایت ہے۔ یعنی روایت ہے کہ مشاعرہ ہماری تہذیب کا علمبردار ہوا کرتا تھا۔ یہاں دروغ بر گردن راوی کا گھسا پٹا جملہ شاملِ تحریر کر دینا خلاف عقل نہ ہوگا کہ راوی کے نامہٴ سیاہ میں جہاں معصیت کے اتنے انبار لگے ہیں، وہاں ایک اور سہی۔

بھلے وقتوں میں مشاعروں میں جو کلام پڑھا جاتا تھا اس کی کچھ یادگار یوٹیوب پر نہیں ملتی۔ نہ ہی متشاعروں کے دیوان ہی چھپ کر آج کی نسل تک پہنچ سکے۔ رہ گیا استاد شعراء کا کلام تو ایک مشاعرے میں ایک آدھ ہی استاد شاعر (دوسرے اساتذہ سے کرسیِ صدارت کی جنگ جیت کر) جگہ بنا پاتے ہوں گے۔ ایسے میں انسان شاعر کم اور صدر زیادہ بن جاتا ہے سو ایسے استادوں کی استادی یعنی ایسے شعراء کے کلام کو مشاعرے کا نمائندہ کلام سمجھنا دانشمندانہ فعل نہیں معلوم ہوتا۔

یہ البتہ ہم نے ضرور سن رکھا ہے کہ بھلے وقتوں میں بڑے بڑے کامیاب مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے یا وہ منعقد ہونے کے بعد کامیاب قرار پاتے تھے۔

کجھ راویانِ مشاعرہ تو اس قدر دیدہ دلیر واقع ہوئے ہیں کہ اکثر و بیشتر مشاعرہ گاہ کی چھت بِنا ڈائنامائٹ کے اُڑاتے ہوئے پکڑے گئے! البتہ دوسرے طبقہ کا خیال ہے کہ کھلے میدان میں ہونے والے مشاعروں کے شامیانے عاجزی برتتے ہوئے زمیں بوس ہو جاتے تھے اور شعراء کے پروموٹر اسے چھت اُڑ جانے سے تعبیر کرتے تھے۔

بھلے وقتوں میں مشاعرے میں شعراء کی بڑی عزت ہوا کرتی تھی یہاں تک کہ کھاتے پیتے گھرانوں کے خوش ذوق قارئین شعراء کو داد دیتے ہوئے انڈے اور ٹماٹر جیسی نادر اشیاء نظم و ضبط کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ارسال کر دیتے تھے۔

انڈے ٹماٹروں پر اگرچہ نیک خواہشات لکھنے کا وقت نہیں ہوتا تھا تاہم ہمیں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہی سمجھنا چاہیے کہ سامعین یہ سوغات گراں مایہ نیک خواہشات کے ساتھ ہی ارسال کرتے ہوں گے۔

اب آپ ذرا چشمِ تصور وا کرتے ہوئے فرض کیجے کہ آپ مشاعرے میں موجود ہیں اور شاعر نے ایسی غزل سنائی کہ آپ عش عش کر اُٹھے لیکن کیا سر سے پاؤں تک سرشار ہونے کے بعد بھی آپ انڈے اور ٹماٹر جیسی نادر الوجود چیزیں شاعر کو بطور ہدیہ و تحفہ دے سکیں گے؟

آپ واہ واہ واہ کرکے اپنا گلا تو سکھا لیں گے لیکن دمڑی کو چمڑی پر اور غزل کو انڈے ٹماٹر پر فوقیت نہیں دے سکیں گے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ شعراء کو انڈے ٹماٹر ارسال کرنے والے سامعین مشاعرہ ذوق سے عاری اور جذبہ فلاح و بہبود سے سرشار ہوا کرتے تھے۔ سو وہ یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ شاعر جو یہاں بیٹھا اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہا ہے اور یقیناً اس سے پیشتر بھی یہ مشق سخن کے نام پر اپنا پورا دن برباد کرتا رہا ہوگا اور اسے اپنے اہل و عیال کے لیے روزی روٹی کمانے کی فرصت و توفیق ہی نہیں مل سکی ہوگی۔ سو وہ خیال کرکے شعراء کی سمت میں انڈے ٹماٹر پھینکا کرتے تھے تاکہ کسی نہ کسی طرح ان کے گھر کا چولہا بھی جلتا رہے۔

کسی شاعر نے اس خوبصورت منظر کو شاعرانہ رنگ دے کر کچھ یوں کہا ہے:

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

کچھ لوگ ٹماٹر کو پھلوں میں شمار کرتے ہیں شاعر نے شاید اسی رعایت سے کام لیا ہے۔ رہی بات انڈے کو گُل سے تشبیہ دینے کی تو اسے آپ المعنی فی بطنِ الشاعر سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ انڈے نے بھی آخر کار وہیں پہنچنا ہے۔

بہر کیف! آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح کسی کی عزت نفس مجروح کیے بغیر ہمارے اسلاف ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے اور نکھٹو سے نکھٹو شخص کو بھی نکھٹو نہیں کہا کرتے تھے بلکہ انڈے ٹماٹر جیسی نادر اشیاء سے ان کی تواضع کیا کرتے تھے۔

جن سے مل کر زندگی سے عشق (شاعری سے بیر) ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

اندرونی حلقوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کے شعراء مشاعرے سے پہلے شاعری کی مشق کم کیا کرتے تھے اور انڈے ٹماٹروں کو بنا گزند ہر دو فریق کیچ کرنے کی پریکٹس زیادہ کرتے تھے۔

ممکن ہے بعد میں انہی انڈے ٹماٹروں کی تعداد کو گن کر مشاعرے کے کامیاب ترین شاعر کا فیصلہ ہوتا ہو۔ لیکن راوی یہاں خاموش ہے اور راوی کی خاموشی کافی پراسرار معلوم ہوتی ہے۔

بہرکیف یہ تو بھلے وقتوں کی باتیں ہیں۔ اب وہ پہلے جیسی قدریں کہاں رہیں۔ بد ذوقی کا عالم یہ ہے کہ اب تو مشاعرے میں بے چارے شاعر واہ واہ کرنے کے لیے دو چار ہمنوا ساتھ لے کر جاتے ہیں جو پہلے مصرع سے ہی غزل اٹھانے کے کام پر مامور ہوتے ہیں تاکہ مشاعرے کے انجام پر شاعر کے ساتھ چکن بریانی کھا سکیں اور سوشل میڈیا پر شاعر کو ٹیگ کرکے تصاویر لگا سکیں۔ رہا شاعر تو وہ لفافے میں ملفوف کاغذات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں انڈے ٹماٹروں کا کہیں دخل نہیں ہے اور انڈے ٹماٹر آج کل محض ٹی وی کی خبروں اور ٹاک شوز میں ہی پائے جاتے ہیں۔


 محمد احمد

*****

 


 

تبصرہ ٴکُتب | سرگزشت از سید ذوالفقار علی بخاری

سرگزشت

سید ذوالفقار علی بخاری
 
23 مارچ 2020ء کو سندھ حکومت نے صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا اور سب لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھیں تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکے ۔ آج اپریل کی چار تاریخ ہے اور تا حال لاک ڈاؤن جاری ہے ۔

نہ جانے اس لاک ڈاؤن سے کتنے فائدے اور کتنے نقصانات ہوئے تاہم اس سے قطع نظر ذاتی حیثیت میں ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ کچھ رُکے ہو ئے کام جو عدم فرصت کے باعث التویٰ کا شکار تھے، ہمارے کان میں کہنےلگے کہ اب تمہارے پاس کوئی بہانہ نہیں بچا۔

انہی بہت سے کاموں میں ایک کام وہ بھی تھا کہ جس کی تلقین ہم سارے زمانے کو کیا کرتے ہیں، یعنی کتب بینی۔ گو کہ ہم نے اب بھی اپنا تما م تر وقت کتب بینی کو نہیں دیا تاہم کچھ نہ کچھ آنسو پوچھنے کا سامان ہو ہی گیا۔

قصہ مختصر ، سید ذوالفقار علی بخاری کی آپ بیتی "سرگزشت" جو ہمارے زیرِ مطالعہ تھی اور جسے ہم مزے لے لے کر آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے، اُسے کچھ زیادہ وقت ملا اور ہم مکمل کتاب پڑھنے میں کامیاب ہو گئے، یا کتاب ہم سے جان چھرانے میں کامیاب ہو گئی۔

سرگزشت نہایت دلچسپ کتاب ہے ۔ فاضل مصنف نے یہ آپ بیتی بالکل غیر رسمی انداز میں لکھی ہے اور اس میں بے ساختگی کمال کی ہے ۔ تاہم غیر رسمی ہونے کے باوجود کتاب کے تمام تر مضامین باہم مربوط نظر آتے ہیں۔

اسے ان کتابوں کی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے کہ جو ختم ہونے کے قریب آئیں تو دل میں ملال سا ہوا کہ یہ دلچسپ کتاب اب ختم ہو جائے گی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب "غبارِ خاطر" اور کچھ دیگر کتابوں کے اختتام پر بھی ہماری ایسی ہی کچھ کیفیت تھی۔ غبارِ خاطر میں اور اس کتاب میں ایک اور قدرِ مشترک باموقع فارسی اشعار کی شمولیت بھی ہے۔ فارسی اشعار ہماری سمجھ میں بامشکل ہی آتے ہیں ۔ لیکن مقامِ شکریہ رہا کہ غبارِ خاطر کی طرح اس کتاب کے آخر میں فارسی اشعار کی تشریح موجود نہیں تھی ورنہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے بھی ہم نفسِ مضمون اور تفہیمِ شعر کی حسرت کے درمیان ہی معلق رہتے۔

مجھے اعتراف ہے کہ میں نے کافی عرصے بعد ایک بہت دلچسپ کتاب پڑھی اور اپنے وقت کا زیاں ہرگز محسوس نہیں ہوا۔

بخاری صاحب نے مضامین کو کوئی عنوان نہیں دیا بلکہ اُنہیں شمار کیا ہے اور اس اعتبار سے کتاب میں کل 55 مضامین ہیں۔ کتاب کے مضامین گو کہ کہانی کی صنف سے علاقہ نہیں رکھتے تاہم بخاری صاحب ہر مضمون کو نکتہ عروج یعنی کلائمیکس تک لے جاتے ہیں اور اکثر مضامین کا انجام افسانوں کے انجام کی طرح ہوتا ہے اور قاری کتاب ہاتھ میں لیے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ مضامین فکشن نہیں ہیں تاہم فکشن سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ خاکسار کی رائے میں ایسا طرزِ تحریر قسمت والوں کو ہی میسر آتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کتاب میں شاذ ہی یہ گمان ہوتا ہے کہ کوئی بات دُہرائی جا رہی ہے۔ ورنہ اکثر آپ بیتیاں مکر ر ارشاد سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ لوگ اُلٹ پھیر کر وہی مضامین بیان کرتے چلتے جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ بخاری صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزار ی ہے اور ریڈیو جیسے محکمے میں جو اُس وقت بے حد اہمیت کا حامل تھا ایک اہم عہدے پر فائز رہے اور سرگرم طبعیت کے باعث ہمہ وقت پر عزم اور مصروف عمل رہے ۔

بہرکیف کتاب انتہائی پرلطف ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ اپنا قیمتی وقت اس کے لئے نکالا جائے۔


*****

تبصرہ ٴکُتب | بیراگ (ناول)

بیراگ

بیراگ سنہالی ادب کا ایک ناول ہے جسے مارٹن وکرما سنگھے نے تحریر کیا ہے ۔ اس ناول کا اردو ترجمہ مصطفیٰ نذیر احمد صاحب نے کیا ہے اور اس کے ناشر مشعل لاہور ہیں۔ بنیادی طور پر اس ناول کا پس منظر سری لنکا کا دیہی علاقہ ہے اور ناول میں سنہالی ثقافت رچی بسی ہے۔




اس ناول کی طرز ایک آپ بیتی کی سی ہے ۔ لیکن اس سے پیشتر راوی نے اختتامیہ پیش کیا ہے کہ جو ہمیں ناول کے کردار و واقعات سے آگہی دیتا ہے۔ گو کہ ناول کا پلاٹ سیدھا سادھا ہے لیکن پھر بھی یہ کسی عام ناول سے بہت مختلف ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ کہانی دلچسپ ہے لیکن زیادہ دلچسپ انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں الجھتے بل کھاتے وہ مظاہر ہیں جو اس ناول میں بین السطور پیش کیے گئے ہیں۔ اگر آپ کسی شاندار پلاٹ اور کہانی میں ٹوئسٹ کے متلاشی ہیں تو یہ ناول آپ کے لئے نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ انسان کی گوناگوں درونی کیفیات اور نفسیات سے دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو یہ ناول کو ضرور پڑھنا چاہیے۔

تبصرہ ٴکُتب | ہدایت نامہ شاعر از ساقی فاروقی


ہدایت نامہ شاعر، ساقی فاروقی کی کتاب ہے۔

یہ ساقی فاروقی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جسے سنگ میل پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔ شاعری پر تنقید کے حوالے سے یہ ایک بہت اچھی کتاب ہے۔ مصنف ادبی تنقید میں کافی درک رکھتے ہیں ۔ اپنی تحریر میں بڑے کھرے ہیں اور جس بات کو جیسا سمجھتے ہیں ویسا ہی بیان کرتے ہیں۔ اور یہی اُن کی خوبی ہے۔

ساقی صاحب نے اپنی کتاب میں جہاں جہاں تنقید کے باب رقم کیے ہیں وہاں وہاں اُنہوں نے اُنہیں حوالوں سے مشاہیر و معاصر شعراء کے بہترین اشعار کا انتخاب بھی پیش کیا ہے اور ساقی بہرکیف سچے اور اچھے شعر سے محبت کرنے والے ہیں۔

ساقی کلیشے زدہ اشعار و عبارت سے سخت خائف ہیں اور وہ چاہتے کہ ہر شخص جو لکھے وہ نیا ہو اور اوریجنل ہو۔ خاکسار اُن کی اس بات سے صد فی صد متفق ہے ۔ جب ہم کسی نئے شاعر کا کلام پڑھیں تو ہمیں لگے کہ ہم کچھ نیا پڑھ رہے ہیں اور یہ شاعری مشاہیر کے کلام کا نیا جنم نہیں ہے۔

کتاب کا پہلا اور شاید سب سے طویل باب اُنہوں نے وزیر آغا صاحب کی شاعری پر لکھا ہے بلکہ اُنہیں ٹھیک ٹھاک آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اور وزیر آغا کے کلام میں ایسے اسقام کی نشاندہی کی ہے کہ جن سے مبتدی شعراء بھی با آسانی بچ جاتے ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مصنف کافی زیادہ منہ پھٹ اور کسی حد تک بد تمیز واقع ہوئے ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فن شعر اور تنقید میں اُن کی فہم و فراست اور اعلیٰ ذوق کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں۔

اس کتاب کو اردو شعری تنقید کی اچھی کتابوں میں چُنا جا سکتا ہے تاہم اب صرف یہ خواہش ہی کی جا سکتی ہے کہ مصنف نے تنقید کرتے ہوئے نرم رویّہ اختیار کیا ہوتا اور زیرِ گفتگو متن کو معروضی انداز میں دیکھا ہوتا۔

بہر کیف یہ ایک اچھی کتاب ہے اور شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں اور بالخصوص شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔



غزل: آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند

غزل

آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند
تھی ہماری بھی کیا کمال پسند

حیف! بد صورتی رویّوں کی
ہائے دل تھا مرا جمال پسند

کیوں بنایا تھا ٹِھیکرا دل کو
کیوں کیا ساغرِ سفال پسند

ٹھیک ہے میں نہیں پسند اُنہیں
لیکن اس درجہ پائمال پسند

سچ نہ کہیے کہ سچ ہے صبر طلب
لوگ ہوتے ہیں اشتعال پسند

ہاں مجھے آج بھی پسند ہے وہ
اس کو کہتے ہیں لازوال پسند

حلم ہے اہلِ علم کا شیوہ
جاہ والوں کو ہے جلال پسند

وصل کو ہجر ، ناگہانی موت
ہجر کو موسمِ وصال پسند
 

فکرِ دنیا نہیں! مجھے احمدؔ
اپنی مستی اور اپنی کھال پسند

محمد احمدؔ​

افسانہ: فریاد کی لے​

فریاد کی لے​
از محمد احمدؔ​

وہ اِس وقت ذہنی اور جسمانی طور پر بالکل مستعد تھا۔ بس انتظار تھا کہ مولوی صاحب سلام پھیریں اور وہ نماز ختم کرکے اپنا کام شروع کر دے۔ اُس نے اپنے ذہن میں اُن لفظوں کو بھی ترتیب دے لیا تھا جو اُس نے حاضرینِ مسجد سے مخاطب ہو کر کہنا تھے۔ جیسے ہی مولوی صاحب نے سلام پھیر ااُس نے بھی تقریباً ساتھ ساتھ ہی سلام پھیرا اور ایک جھٹکے سے اُٹھا لیکن عین اُس وقت کہ جب اُس کو کھڑا ہو کر اپنی فریاد لوگوں تک پہنچانی تھی اُس کی قمیص کا دامن اُسی کے پاؤں تلے آ گیا اور ایک دم سے اُٹھنے کی کوشش کے باعث دامن چاک سے لے کر کافی اُوپر تک پھٹ گیا۔ ابھی وہ قمیص کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ ہال کے دوسرے کنارے سے ایک آواز سُنائی دی۔

"میرے بھائیو! میں اور میرے گھر والے تین روز سے ۔۔۔۔" رُندھی ہوئی آواز میں شروع ہوا یہ جملہ بیچ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اِس وقت کسی غیر متوقع "حریف" سے ٹکراؤ کا اُسے خیال تک نہیں تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے دروازے کے پاس ایک خستہ حال لڑکے نے حاضرین کو متوجہ کیا لیکن وہ جملہ مکمل کیے بغیر ہی رونے لگا ابھی وہ اس نئے سائل کی ڈرامے بازی کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک فریاد کرنے والا لڑکا جو اپنا جملہ مکمل کرنے کے بجائے رونے لگا تھا لوگوں کو پھلانگتے ہوئے بھاگنا شروع ہو گیا۔

نہ جانےاُسے کیا ہوا کہ اُس نے بھی نئے سائل کے پیچھے دوڑ لگا دی، کہ جیسے عین "دھندے" کے وقت پہنچ کر اُس کے حریف نے اُسے دعوتِ پیکار دے دی ہو اور پھر میدانِ جنگ سے فرنٹ ہو گیا ہو۔ اور جیسے اب اُس کی پہلی ذمہ داری ہی یہ ہو کہ پسپا ہوتے دشمن کو قریب ہی کہیں چھاپ لے اور پھر ایک ایک کرکے سارے بدلے چُکائے۔

صورتِ حال اب یہ تھی کہ آگے آگے خستہ حال نوجوان لڑکا روتا جاتا اور دوڑتا جاتا تھا اور وہ اُس کے پیچھے پیچھے ایک غیر ارادی تعاقب میں دوڑ رہا تھا ۔ دوڑتے دوڑتے اُس نے سوچا بھی کہ جب نیا لڑکا دوڑ ہی گیا تھا تو اُسے اپنا کام شروع کرنا چاہیے تھا بجائے اِس کے کہ وہ اُس کے پیچھے اپنا وقت برباد کرنے آگیا۔ لیکن یہ سوچ بھی اُس کے قدم روکنے کا حیلہ نہ بن سکی اور وہ اندھا دھند دوڑتا رہا۔

مختلف چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزر کر مفرور سائل ایک گھر کے دروازے میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ اُس نے اُسے جا ہی لیا ۔ اُس کی گرفت میں آکر مفرور لڑکا شدید پریشانی کا شکار نظر آتا تھا اور اُسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اُس کا اندھا دھند تعاقب کرنے والا یہ شخص کون تھا اور آخر اُس سے ایسا کیا قصور ہوا تھا کہ اُسے نجات ملنے کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا تھا۔
"کون ہے بے تو؟؟؟" اُس نے حقارت سے لڑکے سے پوچھا
"میں ! میں!" لڑکے کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد سے کیسے نمٹا جائے۔
پھر شاید اُسے ہی خیال آیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی جارح ہو رہا ہے تو اُس نے اپنے لہجے کو کچھ بہتر بناتے ہوئے پوچھا" مسجد میں کیا کرنے آیا تھا؟"
"وہ ، میں۔۔۔! مجھے پیسے چاہیےتھے" لڑکے نے ہکلاتے ہوئے بتانا شروع کیا۔
"ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کھانے کو ، پیسے بھی نہیں ہیں" وہ سسکتا جاتا اور بتاتا جاتا۔
"میں نے۔۔۔۔ میری امی نے، میرے بھائی نے ۔۔۔ ہم نے کچھ نہیں کھایا " رو رو کر لڑکے کا بُرا حال تھا اور اُس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ سوال جواب کیوں کر رہا ہے۔
"تین دن سے ہمیں پانی کے علاوہ کچھ نہیں ملا، میں نے سوچا مسجد میں جا کر ۔۔ جیسے دوسرے لوگ ۔۔۔ " لڑکا پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
اُس کے ہونٹوں سے سارے سوال غائب ہو گئے تھے اور آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
پھر اچانک اُس نے آگے بڑھ کر لڑکے کو گلے سے لگا لیا، اور پھر وہ دونوں رونے لگے ۔ جیسے جیسے اُن کا کوئی مر گیا ہو۔ لیکن اُن کا اس دنیا میں تھا ہی کون جو مرتا۔ اور اُن کا کوئی ہوتا تو کیا وہ اس طرح روتے؟
وہ روتے جاتے اور ایک دوسرے کو بھینچتے جاتے کہ جیسےکوئی سالوں برسوں بعد ملا ہو اور اس بات کا یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ ملن کا لمحہ واقعی آن پہنچا ہے۔
آس پاس جمع ہوتے بچوں کو دیکھ کر اُسے کچھ ہوش آیا۔ اُس نے لڑکے کو خود سے جدا کیا اور ہتھیلیوں کی پشت سے آنسو پوچھتے ہوئے بولا ۔ "میرے ساتھ آ" اور اُس کا ہاتھ پکڑکر چلنے لگا۔
سائل لڑکا میکانیکی انداز میں اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔ راستے میں وہ دونوں بالکل خاموش تھے۔کہتے بھی تو کیا۔
اُن کا یہ مختصر سفر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر ختم ہوا اور اُس نے لڑکے کو ہوٹل پر ایک تخت پر لا کر بٹھا دیا۔ ادھر اُدھر دیکھنے پر اُسے ایک پانی کا ڈرم نظر آیا۔ اُس نے ڈرم سے پانی جگ میں نکالا اور منہ دھونے لگا۔ منہ ہاتھ دھو کر اُس نے ایک جگ اور بھرا اور لڑکے کو بُلا کر اُس کا منہ بھی دھلوا دیا۔
کچھ تازہ دم ہو کر وہ پھر سے تخت پر بیٹھے تو بیرا اُن کے سر پر نازل ہو چکا تھا۔ "ہاں اُستاد ! کیا لاؤں؟"
"ایک دال فرائی لے آ اور روٹی گرم لانا ۔ " اُس نے بیرے کو دیکھا اور سوچتے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دیر میں بیرا کھانا لے آیا۔ کھجور کے پتوں سے بنی رکابی میں تندور کی تازہ روٹیاں اور اسٹیل کی پلیٹ میں چنے کی دال ، فرائی کی ہوئی۔ سائل لڑکے کے آنسو اب تک تھم گئے تھے لیکن اُس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اُس نے لڑکے کی طرف دیکھا اور کھانے کی طرف اشارہ کرکے کہا "گرو ، ہو جا شروع۔۔۔!"

لڑکے نے جھجکتے ہوئے ایک نوالہ بنایا اور دال کی پلیٹ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ لیا۔ نوالے کے منہ میں جاتے ہی اُس کی ساری جھجک رُخصت ہوگئی اور وہ بے صبری سے کھانا کھانے لگا۔ اُسے کوئی خاص بھوک نہیں تھی لیکن لڑکے کا ساتھ دینے کے لئے وہ بھی چھوٹے چھوٹے نوالے لیتا رہا۔


کھانا ختم ہونے پر اُس نے بیرے کو آواز دے کر چائے منگوائی اور مسجد سے فرار اختیار کرنے والے سائل کی طرف متوجہ ہوا۔

"تم مسجد سے بھاگ کیوں گئے تھے۔ "وہ اب تو سے تم پر آ گیا۔
لڑکے نے اُس کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر کہا "مجھے شرم آگئی تھی۔ میں نے، میرے خاندان والوں نے کسی نے بھی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ اگر حالات اس قدر خراب نہ ہوتے تو شاید میں مسجد میں اس غرض سے آنے کی ہمت بھی نہ کر پاتا۔"
"شرم ! " اُس نے حیرت اور غصے سے لڑکے کی طرف دیکھا۔
"تمھیں کیوں شرم آ ئی!" اُس کی آواز غیض سے بھرّا رہی تھی۔
"شرم تو تمھارے پڑوسیوں کو آنی چاہیے، تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے کہ تمھارے ہاں تین روز سے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ بے خبر ہیں۔"
"تمھاری پڑوسی اپنی زندگی جی رہے ہیں، کھا رہے پی رہے ہیں عیش کر رہے ہیں۔ کیا اُن کا فرض نہیں کہ اڑوس پڑوس کا بھی حال پوچھیں۔ کس پر کیا گزر رہی ہے۔ کس پر کیا مصیبت آن پڑی ہے" ذرا توقف کے بعد وہ پھر شروع ہوا۔
"شرم تو تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے ۔ کوئی تمھیں پوچھنے نہیں آیا" اُس نے زور سے سر کو جھٹکا دیا۔
"کیسی رشتہ داری ہے آج کل کی۔ وقت اچھا ہو تو صبح شام چکر لگائیں اور جہاں بُرے دنوں نے رستہ دیکھاوہیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جائیں گے۔"
"لعنت ہے ایسی رشتہ داری پر اور لعنت ہےایسے پڑوسیوں پر۔" اُس نے زور سے چائے کا کپ تخت پر پٹخا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
اُس نے ہوٹل کے مالک سے کہہ کر کچھ کھانا لڑکے کے گھر والوں کے لئے بھی پیک کروایا اور بل ادا کرنے کے بعد کچھ پیسے لڑکے کی جیب میں بھی ٹھونس دیے۔

"میں اسی ہوٹل پر بیٹھتا ہوں شام کے بعد ، کبھی بھی کوئی مسئلہ ہو تو میرے پاس آ جانا۔ اور ویسے بھی ملتے رہنا " اُس نے لڑکے کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ " میں ویسے بھی چھڑا چھانٹ ہوں، میرا گزارا جیسے تیسے چل ہی جاتا ہے"۔ اب اُس کے چہرے پر مُسکراہٹ نے جگہ بنا لی تھی۔

*****

عصر کی نماز اُس نے ایک اور مسجد میں پڑھی ۔ یہ مسجد بازار کے بیچ و بیچ تھی اور اس میں نمازیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ نماز ختم ہوئی تو اُس نے اپنی درد ناک آواز میں فریاد شروع کر دی۔ آج اُس کی آواز میں الگ ہی کرب تھا۔ اُس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کے رٹے رٹے جملے آج تاثیر میں گُندھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پیروں میں بچھے رومال پر چھوٹے بڑے نوٹ جمع ہو رہے تھے۔ وہ مستقل رو رہا تھا اور اندر سے ایک اطمینان اُ س کے اندر اُتر رہا تھا کہ رومال پر جمع ہونے والے نوٹ اب اُس کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ اہم تھے ۔ اُس کی آنکھوں کے آنسو خوشی سے چمک رہے تھے اور اُس کا پھٹا ہوا دامن ہوا میں لہرا لہرا کر مسرت کا اظہار کر رہا تھا۔

*****

غزل : تو اور ترے ارادے

غزل 

تو اور ترے ارادے
چل چھوڑ مسکرا دے

دل کون دیکھتا ہے
پھولوں سے گھر سجا دے

میں خود کو ڈھونڈتا ہوں
مجھ سے مجھے چھپا دے

سُن اے فریبِ منزل
رستہ نیا سُجھا دے

سوچوں نہ  پھر وفا کا
ایسی کڑی سزا دے

مرتا ہوں پیاس سے میں
تو زہر ہی پلا دے

منظر یہ ہو گیا بس
پردے کو اب گر ادے

نامہ فراق کا ہے
لا! وصل کا پتہ دے

پھر مائلِ یقیں ہوں
پھر سے مجھے دغا دے

احمدؔ غزل کہی ہے
جا بزم میں سنا دے

محمد احمدؔ

پاپ کورن کی خوشبو


ابھی میں مغرب پڑھ کر مسجد سے نکلا ہی تھا کہ چند قدم چلنے کے بعد پاپ کورن کی بھینی بھینی خوشبو آنے لگی۔ پاپ کورن چاہے آپ کو کھانے میں اتنے اچھے نہ لگیں لیکن اس کی خوشبو ایسی ہوتی ہے کہ یہ دور سے ہی آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے یا شاید ہر اچھی خوشبو کا یہی حال ہوتا ہے۔

میں کچھ کھانے پینے کے موڈ میں تو نہیں تھا لیکن پھر بھی بے اختیار پاپ کورن والے کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے دس روپے نکال کر اُس کی طرف بڑھائے تو مجھے خیال آیا کہ شاید یہ پاپ کارن والا کہے کہ بھائی کم از کم بیس روپے کے لو۔ لیکن اُس نے ایسا کچھ نہیں کہا اور ایک کاغذ کا لفافہ نکال کر اُس میں پاپ کورن ڈالنے لگا۔ لفافہ زیادہ چھوٹا نہیں تھا بلکہ دس روپے کے اعتبار سے کافی مناسب ہی تھا۔ اُس نے دو تین بار لفافے میں پاپ کورن ٹُھونسنے کی کوشش کی اور اُوپر تک بھرنے لگا۔


مجھے حیرت ہوئی کہ آج کل تو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ بس پیسے لے لیں اور چیز ہی نہ دیں یا دیں بھی تو کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار دیں۔ پھل والے اور سبزی والے اس زور سے تھیلی ترازو میں پھینکتے ہیں کہ ترازو کا پلڑ ا جھکنے کے بعد اُٹھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتا اور اکثر دوکاندار ترازو کے قرار میں آنے سے پہلے ہی تھیلی اُٹھا کر آپ کے ہاتھ میں پکڑ ا دیتے ہیں۔ حد تو یہ کہ کچھ بے ایمان لوگ تو ترازو میں ہی کچھ نہ کچھ ایسی ترتیب کرتے ہیں کہ وزن میں کمی کی جا سکے۔ پھر چیز کے معیار میں بھی ہیر پھیر کرتے ہیں آگے والی ڈھیری میں تر و تازہ پھل لگا دیتے ہیں اور پیچھے سے گلے سڑے اُٹھا کر تولنا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی اگر آپ خریداری کرتے ہوئے ہوشیار نہیں ہیں تو زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ آپ خراب چیزیں اُٹھا کر گھر لے آتے ہیں۔

بہرکیف میں نے پاپ کورن والے سے کہا کہ "بھائی ! زیادہ مت بھرو مجھے اکیلے ہی کھانا ہے" تو وہ کہنے لگا کہ " اللہ کا فرمان ہے کہ پورا تولو!" اور پھراُس نے لفافہ اوپر تک بھر کر مجھے تھما دیا۔ مجھے بڑی خوش گوار حیرت ہوئی۔ آج کل کہاں ملتے ہیں ایسے لوگ۔

مجھے لگا کہ جیسے پاپ کورن کی خوشبو کے ساتھ اُس کے اخلاص کی خوشبو بھی فضا میں پھیلی ہوئی تھی جو لوگوں کو ہاتھ پکڑ کر اُس تک کھینچ لاتی تھی۔

انور شعور کا شعر یاد آگیا:

براہِ راست اثر ڈالتے ہیں سچے لوگ
کسی دلیل سے منوانے تھوڑی ہوتے ہیں


از محمد احمدؔ

باقی صدیقی کی سدا بہار غزل

غزل

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے 
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے 

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم 
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے 

یہی رستہ ہے اب یہی منزل 
اب یہیں دل کسی بہانے لگے 

خود فریبی سی خود فریبی ہے 
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے 

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں 
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے 

اس بدلتے ہوئے زمانے میں 
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے 

رخ بدلنے لگا فسانے کا 
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے 

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے 
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے 

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو 
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے 

ہم تک آئے نہ آئے موسم گل 
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے 

شام کا وقت ہو گیا باقیؔ 
بستیوں سے شرار آنے لگے 

باقیؔ صدیقی

ستارے مُڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا

غزل 

ستارے مُڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا
کہ دل، یہ پھول ہمیشہ سے کب کِھلا ہوا تھا

کسی غزال کا نام و نشان پوچھنا ہے
تو پوچھیے، میں اُسی دشت میں بڑا ہوا تھا

کمال ہے کہ مِرے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے
وہ شخص جیسے کہیں اور بھی گیا ہوا تھا

ہنسی خوشی سبھی رہنے لگے، مگر کب تک
میں پوچھتا ہوں کہانی کے بعد کیا ہوا تھا

پھر ایک دن مجھے اپنی کتاب یاد آئی 
تو وہ چراغ وہیں تھا، مگر بجھا ہوا تھا

خوشی سے اُس کو سہارا نہیں دیا میں نے
مگر وہ سب سے اکیلا تھا، ڈوبتا ہوا تھا

کہ جیسے آنکھ جہانِ دگر میں وا ہوگی
بتا رہے ہیں کہ میں اِس قدر تھکا ہوا تھا

ادریس بابر

بشکریہ : فلک شیربھائی

جائے گا دل کہاں، ہوگا یہیں کہیں

غزل


جائے گا دل کہاں، ہوگا یہیں کہیں
جب دل کا ہم نشیں ملتا نہیں کہیں

یوں اُس کی یاد ہے دل میں بسی ہوئی
جیسے خزانہ ہو زیرِ زمیں کہیں

ہم نے تمھارا غم دل میں چھپایا ہے
دیکھا بھی ہے کبھی ایسا امیں کہیں

میری دراز میں، ہے اُس کا خط دھرا
اٹکا ہوا نہ ہو، دل بھی وہیں کہیں

ہے اُس کا خط تو بس سیدھا سپاٹ سا
ہاں دل لگی بھی ہے اس میں کہیں کہیں

جتنا وہ دل رُبا ، اُتنا ہی بے وفا
دل کو ملا ہی کیوں ایسا حسیں کہیں

احمدؔ یہ دل مِرا ،کیوں ہے بجھا بجھا
دل سے خفا نہ ہو، دل کا مکیں کہیں

محمد احمدؔ​

ایک 'جُوں' کا کھلا خط (اردو دان طبقے کے نام ​)

ایک 'جُوں' کا کھلا خط
اردو دان طبقے کے نام ​

اس کھلے خط کی وساطت سے میں مسمات "جُوں" بقائمی ہوش و حواس اردو دان طبقے کے آگے چند حقائق رکھنا چاہتی ہوں تاکہ میرے متعلق ایک گمراہ کن محاورے اور کچھ دیگر قبیح غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے اور آئندگان کی اصلاح کا بندوبست بھی۔

دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مخالفین کی بے حسی کا ذکر کرتے ہوئے اُ ن کے کانوں پر جوں کےرینگنے یا نہ رینگنے کا ذکر کرتے ہیں اور اس طرح پوائنٹ اسکورنگ کرکے اپنے نمبر بڑھانے اور دوسروں کے نمبر گھٹانے کا قومی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہےکہ جوں رینگنے کا محاورہ زیادہ تر اُن لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ جن کے سر پر بال ہی نہیں ہوتے یا ہوتے بھی ہیں تو اتنے سرسری کہ جوؤں کی رہائش تو کجا خیمہ گاہ کا کام بھی نہیں کر سکتے۔ اب ان بے انصاف لوگوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جب سر میں ہی جوؤں کے معقول قیام و طعام کا بندوبست نہ ہو تو وہ کانوں پر کیونکر رینگنے لگی۔ پھر یہ بھی ہے کہ جوئیں کسی سیاست دان کی فرزندِ ارجمند تو ہیں نہیں کہ جنہیں براہِ راست ہیلی کاپٹر کے ذریعے کان پر لانچ کر دیا جائے کہ جناب رینگیے ۔


چلیے فرض کرلیا کہ مذکورہ بے حس شخص کے سر پر بال بھی ہیں اور اُس میں کسی حد تک جوؤں کی رہائش کا انتظام بھی ہے تب بھی جوؤں کو کیا پڑی کہ وہ اتنے بڑے سر کو چھوڑ کر کانوں پر آ کر رینگنا شروع کردیں۔ جو ناعاقبت اندیش اس قسم کی لغو باتیں کرتے ہیں اُنہیں شاید کانوں کی بناوٹ ، بے قرینہ اُتار چڑھاؤ اور دُشوار گزار گھاٹیوں کا اندازہ ہی نہیں ہے ۔ کیا جوئیں بے چاری جو پہلے ہی نہ جانے کیسے عسرت میں گزارا کر رہی ہوتی ہیں اس بات کی متحمل ہوسکتی ہیں کہ کان جیسی ناگفتہ بہ جگہ پر اسکیٹ بورڈنگ اور آئس سلائڈنگ قسم کے غیر سود مند کھیل کھیلیں اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بے حسوں کو گوش کے بل گوشہء احساس میں داخل کرنے کی سعی ِ لاحاصل کریں۔

پھر رینگنے کی ہی کیا تُک ہے۔ جوں بے چاری چل بھی سکتی ہے اور بوقتِ ضرورت دوڑ بھی سکتی ہے۔ آپ نے کبھی وہ منظر دیکھا ہے کہ جب کوئی حسینہ اپنے بالوں میں کیٹر پلر کی دہشتناک مشنری ٹائپ چیز یعنی کنگھی گھماتی ہے۔ اُس وقت دیکھنے کی ہوتی ہے جوؤں کی برق رفتاری۔ لیکن افسوس کے وہاں دیکھنے والی بھی صرف جوئیں ہی ہوتی ہیں اور اُنہیں اس وقت دیکھنے کی فرصت نہیں ہوتی ۔ سو یہ رینگنے والی بات پر سوچیں اور محاورے کو تازہ کریں۔ کان پر جوں رینگنے کے بجائے چلنا ہی کردیں۔ اور کان ہی کیوں ناک پر بھی جوں رینگ سکتی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ مو صوف تو ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے تو ٹھیک ہے ۔ مکھی کو کان پربٹھا دیں اور جوں کو ناک پر رینگوادیں۔ آپ کے کون سے پیسے لگیں گے۔ دو نئے اور تازہ محاورے ہاتھ آ جائیں گے۔

بہرکیف ، میری تمام متعلقین سے درخواست ہے کہ تھوڑے کہے کو بہت جانیں اور فوراً سے پیشتر اِس سلسلے میں معقول اقدامات کیے جائیں۔ آپ لوگ خود بھی اپنی حرکتیں ٹھیک کریں اور بے حسی کو صرف دوسروں کی جاگیر نہ قرار دیں اور اپنے دل میں بھی درد مندی کا احساس پیدا کریں۔ مزید یہ کہ بے حسوں کے کانوں پر جوں رینگوانے کے بجائے اُن کے کان کے نیچے محبت نامے بھی رسید کیے جا سکتے ہیں ، یہ کافی ساری بیماریوں کے لئے شافی نسخہ ہے۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

والسلام

خیر اندیش

آپ کی 'اپنی'
جُوں

افسانہ : عجیب بادشاہ ۔ اشفاق احمد

عجیب بادشاہ
اشفاق احمد

دور جدید کے تیکھے افسانہ نگار اشفاق احمد سے جب پوچھا گیا کہ آپ کی نظر میں آپ کا بہترین افسانہ کون سا ہے تو انہوں نے جوابا لکھا۔ "اپنے افسانوں کے بارے میں کسی ایک کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ یہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے، ایک بہت ہی مشکل بات ہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اپنی ساری تحریریں لایعنی سی نظر آنے لگتی ہیں کہ وہ ایک ایک کر کے ماضی کے متعلق ہو چکی ہوتی ہیں اور ان کا ورود "حال" پر نہیں ہوتا بلکہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔ عجیب بادشاہ" ایک اچھا افسانہ ہے اور میری آرزو ہے کہ جس طرح اپنے زمانے میں ہم نے اسے پڑھ کر لطف لیا تھا آج کے قاری بھی اس سے لطف حاصل کریں۔ یہ میرے اس زمانے کے اچھے افسانوں میں شمار ہوتا تھا۔ آج کی بابت کچھ کہہ نہیں سکتا۔


کراچی کافی ہاوس کی سیڑھیاں اتر کر جب میں اپنی کرائے کی سائیکل کا تالا کھولنے لگا تو کسی نے پیچھے سے آ کر میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ سیدھے کھڑے ہو کر میں اس ہاتھ پر ہاتھ پھیرتا رہا لیکن پتا نہ چلا کہ کون ہے۔ لمبی لمبی مضبوط انگلیاں، پشتِ دست پر سخت بال، بڑھے ہوئے ناخن، سخت گرفت کی وجہ سے کلائی پر ابھری ہوئی نسیں اور سرسوں کے تیل کی سگریٹ میں ملی جلی خوشبو۔ "معظم؟" میں نے کہا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ "قمر؟" لیکن اس مرتبہ بھی کوئی نہ بولا۔ "ممتاز؟" اب بھی ہاتھ میری آنکھوں پر ہی رہا۔
ایک ایک کر کے میں نے اپنے تمام زندہ اور مردہ دوستوں کے نام گنوائے مگر میری آنکھوں سے وہ ہاتھ نہ ہٹھا پھر میں نے اپنا نام لے کر کہا۔ "اب چھوڑئیے صاحب! کہیں غلط فہمی میں تو میری آنکھیں بند نہیں کر رکھیں؟"
اس پر وہ ذرا سا ہنسا اور ہاتھ ہٹآ لیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ زماں میلی سی نیلے رنگ کی اچکن پہنے مسکرا رہا تھا۔ میں اپنی فائل زمین پر پھینک کر اس سے لپٹ گیا۔ پورے بارہ سال ایک دوسرے سے جدا رہنے کی مکافات ہم نے یوں کی کہ دیر تک ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور پڑیوں پر چلنے والے راہ گیر پیچھے مڑ مڑ کر دور تک ہمیں دیکھتے رہے۔ میں نے ٹھوڑی اس کے کندھے پر رگڑتے ہوئے پوچھا۔ "اتنا عرصہ کہاں رہے ظالم؟"
اس نے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ کر کہا۔ "آبادان"
"آبادان؟" میں نے ہٹ کر پوچھا۔
"ہوں۔" زماں نے اپنی اچکن کی جیبوں میں ہاتھ ڈال لئے اور بولا۔ "تم سے جدا ہو کر چند مہینے تو بمبئی میں گزارے۔ اس کے بعد اینگلو ایرانین آئل کمپنی میں ملازم ہو کر آبادان چلا گیا اور اتنا عرصہ وہیں رہا مجھے وہاں سے لوٹے ابھی پورا ایک مہینہ بھی نہیں ہوا۔"
"مگر تم نے آج تک مجھے کوئی خط کیوں نہ لکھا؟" میں نے پوچھا۔
"خط!" اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ یار میں نے لکھا ہی نہیں، کسی کو بھی نہیں لکھا۔ تمہیں معلوم ہے یار! مجھے خط لکھنے کی عادت ہی نہیں۔"
میں نے کہا۔ "یہ کوئی بات نہیں۔ عادت نہیں تو نہ سہی مجھے تو لکھا ہوتا۔"
اس پر وہ مسکرانے لگا اور بولا۔ "اب جو مل گئے ہو تو سارے خط زبانی سنا دوں گا لیکن اس وقت مجھے دیر ہو رہی ہے مجھے اسٹرپٹومائی سین کا پرمٹ لینا ہے اور دفتر ابھی بند ہو جائیں گے۔"
"اسٹرپٹو مائی سین کا پرمٹ؟" میں نے حیرت سے کہا۔
"ہاں!" وہ آہستہ سے بولا ۔ "ڈاکٹر نے یہی دوا تجویز کی ہے۔ اور یار! اچھا بھئی مجھے دیر ہو رہی ہے مجھے اپنا پتہ بتا دو۔"
میں نے ڈائری سے ایک ورق پھاڑ کر اس پر اپنا پتہ لکھ دیا اور اس کے دوسری طرف ایک چھوٹا سا نقشہ بنا کر بھی اسے سمجھا دیا کہ صدر ٹرم جنکشن کے سامنے جو کھلی سڑک ہے اس کے پہلے بائیں موڑ پر ایک مسجد ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک لائبریری ہے اور لائبریری سے چند قدم کے فاصلے پر دائیں ہاتھ کو بنجارا ہوٹل ہے۔ میں اس کے آٹھویں کمرے میں رہتا ہوں۔ زماں چلنے لگا تو میں نے کہا۔ "یار تمہارے چلے جانے کے بعد سیما بھی اچانک غائب ہو گئی اور آج تک اس کا پتہ نہیں چل سکا۔"
"اچھا۔" اس نے بےپروائی سے کہا اور بولا۔ یار یہ لڑکیاں بھی عجیب بادشاہ ہوتی ہیں کہ وقتے یہ سلامے برنجز گاہے بدشنامے خلعت و ہند، لیکن یار! اب مجھے دیر ہو رہی ہے۔ میں شام کو آؤں گا۔ پانچ چھ بجے میرا انتظار کرنا۔"
وہ چلا گیا میں نے سائیکل کا تالا کھولتے ہوئے سوچا۔ اسٹرپٹومائی سین، بادشاہ، لڑکیاں، یہ کیا بات ہوئی؟
زماں اور میں تین سال تک اکٹھے ایک ہی کالج اور ہوسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہے تھے۔ تین سال کی اس چھوٹی سی مدت میں اس نے مجھے کس کس طرح تنک کیا میں بیان نہیں کر سکتا۔ ظالم کا ذہن اچھا تھا امتحان کے قریب آ کر چند دن پڑھائی کرتا تھا اور پاس ہو جاتا تھا۔ مجھے شروع سے رٹنے کی عادت تھی۔ لنگر لنگوٹے کس کے آدھی آدھی رات تک رٹا لگایا کرتا۔ وہ اپنے بستر میں لیٹے لیٹے سگریٹ پیتے ہوئے مجھے اس طرح جاپ کرتے دیکھ کر بہت ہنستا اور اونچے اونچے پشتو کے شعر گانے لگتا۔ بے حد ضدی اور سرپھرا قسم کا آدمی واقع ہوا تھا۔ جو بات جی میں آتی بےسوچے سمجھے کہہ دیتا۔ تمیز کے نام سے بہت چڑتا تھا۔ مانگنا اس کے مذہب میں حرام تھا۔ کسی بات پر منہ سے نہ نکل گئی تو اس کا ہاں میں تبدیل ہونا ممکنات میں سے نہیں تھا تاش کبھی شرط بدے بغیر نہیں کھیلتا تھا اور اگر ہارنے والے کے پاس پیسے نہ ہوئے تو یا تو اس کی کتابیں ضبط ہیں یا پتلون۔ اپنے پاس رقم نہیں تو کھیل میں شریک ہی نہیں ہوتا تھا۔ سگریٹ سلگانے کو ماچس نہیں تو مجھ سے کبھی نہیں مانگی۔ منہ میں سگریٹ دبائے چوس رہا ہے اور سر ہلا رہا ہے میں نے چائے کی دو پیالیاں بنا کر کہا۔ "زماں بھائی! چائے پیو۔"
اس نے آئینے میں اپنا مہاسا بلیڈ سے چھیلتے ہوئے کہا۔ "نہیں۔"
میں نے کہا۔ "تھوڑی سی۔"
اس نے جواب دیا۔ "بھئی نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "بھئی نہیں کا کیا مطلب؟"
جھلا کر بولا۔ "بھئی نہیں کا مطلب یہ کہ نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "وجہ؟"
بولا۔ "نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "نہیں کیا؟"
کہنے لگا۔ "نہیں ہوتی ہے کہ بس نہیں۔"
ایسے آدمی کے ساتھ تین سال گزارنے جہنم ہیں کہ نہیں؟ باکسنگ میں یونیورسٹی چیمئین شپ کا انعام ملا تو اس بات پر اڑ گیا کہ انعام دینے والے سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ اپنی ہمت سے کپ لیا ہے، ہاتھ کیوں ملاؤں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔"
انعام لے کر ہاتھ ملائے بغیر واپس آ گیا۔ ڈاکیے نے ایک بیرنگ خط لا کر کہا۔ "دو آنے دیجیے۔"
اس نے لفافہ دیکھے بغیر جواب دیا۔ "خط واپس کر دو میں نہیں لیتا۔" میں نے پوچھا تو بولا دو آنے نہیں ہیں۔"
میں نے کہا۔ "یار مجھ سے لے لو، پھر لوٹا دینا۔"
پوچھنے لگا ۔ "کیوں لوں؟"
میں نے کہا۔ "اس لئے کہ خط لے سکو۔"
بولا۔ "نہیں میں نہیں لیتا۔"
میں نے نہیں کا لفظ سن کر کہا۔ "ٹھیک ہے شیروں کے پسر شیر ہی ہوتے ہیں جہاں میں۔ بھلا قبلہ گاہی کی طبیعت بھی ایسی ہی ہے؟ اس پر وہ ہنسنے لگا تو میں نے شیر ہو کر کہا۔ "بلاؤں ڈاکئے کو؟" اس نے نفی میں سر ہلایا اور تاش پھینٹنے لگا۔"
کالج میں جب فیس جمع کرانے کا دن آتا دفتر میں ہنگامہ بپا ہو جاتا۔ لڑکیاں اس دھکم پیل میں فیس دینے سے گھبراتی تھیں۔ ان کی فیس لڑکے جا کر داخل کرواتے تھے۔ اس طح ایک مہینے بعد ان کے کھل کر گفتگو کرنے کا اچھا خاصا موقع مل جاتا تھا۔ وہ اپنے پرس سے روپے نکالتیں اور گن کر کسی کلاس فیلو کو دیتیں۔ وہ انہیں گنتا اور یہ ضرور کہتا کہ ایک روپیہ کم ہے۔ اس طرح لڑکی اور لڑکے کے چہرے پر ایک ساتھ ایک سی دو مسکراہٹیں پھیل جاتیں فیس ادا کر کے پھر انہیں حساب دیا جاتا۔ ایک آدھ آنہ یہ کہہ کر رکھ لیا جاتا کہ یہ ہماری سگریٹ کے لئے ہے۔ پھر وہ اکنی کئی دنوں تک اس لڑکی کے سفید چھلے کی طرح دکھائی دیتی رہتی۔ ہاسٹل میں کئی ایسے بامذاق لڑکے بھی تھے جس کے پاس بہت سی ایسی انگوٹھیاں جمع ہو گئیں تھیں۔ ہماری کلاس میں ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی کہ اس مرتبہ سیما اسے فیس لے جانے کے لئے منتخب کرے مگر وہ صرف سلیم کے ہاتھ اپنی فیس دفتر بھجواتی۔ ایک مرتبہ سلیم نہیں تھا تو سیما نے زماں کو ستر روپے دے کر کہا۔ میری فیس داخل کروا دیجئے۔ زماں کچھ کہے بغیر روپے لئے اور سیدھا ہوسٹل چلا آیا۔ سیما برآمدے میں گھنٹے بھر تک رسید کا انتظار کرتی رہی مگر رسید لانے والا تو اپنے کمرے میں گہری نیند سو رہا تھا۔ دوسرے دن زماں نے اکہتر روپے سیما کے ہاتھ پر رکھ کر کہا۔ کل مجھے نیند آ گئی اور میں فیس داخل نہ کروا سکا۔ آپ اپنے روپے لیجیے اور ایک روپیہ فیس کا جرمانہ ہے۔ سیما نے کھینچ کر روپیہ دیوار سے دے مارا۔ زماں نے کہا۔ ایسے تو نہیں ٹوٹے گا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
کالج میں پروفیسر راج سے اس کی جان جاتی تھی یہ پرانی وضع کے معمر پروفیسر تھے۔ چست پاجامہ اچکن پہنے ململ کی پگڑی باندھ کر کالج آتے ایک ہاتھ میں بورڈ صاف کرنے کا ڈسٹر ہوتا اور دوسرے میں چاکوں کا ڈبا۔ دونوں ہاتھ چاک کی سفیدی سے بھرے ہوتے اور اچکن پر بھی جگہ جگہ ان ہاتھوں کے نشان ہوتے۔ زماں کو وہ ہینگ والا کہا کرتے تھے اور یہ انہیں بجائے پروفیسر صاحب کے باباجی کہا کرتا۔ باباجی کے سامنے اس نے کبھی سگریٹ نہیں پیا، اونچے نہیں بولا، ضد نہیں کی اور کسی بات سے انکار نہیں کیا۔
ڈائی نمیکس کی کاپیاں دیکھتے ہوئے وہ زماں کو بلاتے اور اس کا کان پکڑ کر آہستہ آہستہ مسلتے جاتے اور کہتے جاتے۔ "یہ کیا کیا ہینگ والے! یہ کیا کیا۔" زماں کے منہ میں گھنگھنیاں بھری ہیں، آنکھیں نیچی ہیں، جواب دینے کی سکت نہیں۔ اسی طرح کمان بنا کھڑا ہے۔ اگلا صفحہ پلٹ کر باباجی اس کا کان چھوڑ کر پیٹھ ٹھونکتے اور خوش ہو کر کہتے۔ "میرا ہینگ والا ہے لائق، لیکن پاپی پڑھتا نہیں مکے بازی پر جان دیتا ہے۔" پھر اس کی کاپی بند کر کے کہتے۔ "جا میرے لئے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس لا۔" اور زماں فخر سے سر اونچا کر کے دروازے کی طرف یوں بڑھتا جیسے کسی نے دوجہان کی دولت اسے بخش دی ہو۔
ایک مرتبہ سیما اور ساوتری پتہ نہیں کون سی کتاب لائبریری سے لینے گئیں تو لائبریرین نے انہیں بتایا کہ وہ کتاب تو دیر سے زماں صاحب کے پاس ہے۔ وہ سیدھی ہاسٹل پہنچیں میں رٹا لگانے میں مصروف تھا اور زماں حسبِ معمول رضائی چوڑائی کے رخ اوڑھے یوں ہی آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔ سیما نے اندر آ کر کہا۔ "زماں صاحب! وہ کتاب آپ کے پاس ہے؟"
زماں نے آنکھیں کھول کر جواب دیا۔ "اس میز پر پڑی ہے۔" اور پھر کروٹ بدل کر دیوار کی طرف منہ کر لیا۔ میں اپنی چارپائی سے اٹھ کر ان کے ساتھ کتاب تلاش کرنے لگا لیکن وہ نہ ملی۔ سیما نے پھر کہا۔ "مسٹر زماں! کتاب تو یہاں نہیں ہے؟"
زماں نے اسی طرح لیٹے لیٹے جواب دیا۔ "یہیں کہیں ہو گی۔ پرسوں تواسی میز پر پڑی تھی۔" سیما اور ساوتری نے اس بدتمیزی پر احتجاجا تلاش بند کر دی اور منہ پھلائے چلی گئیں۔
میں نے کہا۔ "یار عجیب احمق ہو۔"
اس نے کہا۔ "ہوں۔" اور پھر سو گیا۔
ایک مرتبہ جب کالج میں ڈرامے کی ریہرسل ہو رہی تھی تو زماں بھی وہاں پہنچ گیا۔ سیما پانی کے جگ کے پاس کھڑی تھی سلیم اپنا مکالمہ بول کر پانی سے حلق تر کرنے آیا تو سیما نے گلاس پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ "اوں ہوں، باہر نل پر جا کر پانی پیجئے، پتہ نہیں کیسے کیسے لوگ ایک ہی گلاس میں پانی پیتے گئے ہیں۔" سلیم اس کی ہمدردی سے بے حد مرعوب ہوا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں شکریہ ادا کر کے باہر نکل گیا۔
زماں نے کہا۔ "مجھے بھی پیاس لگی ہے۔ سیما نے پھر گلاس پر ہاتھ رکھ کر یہی کہا۔ زماں نے گلاس اس کے ہاتھ سے کھینچ کر جگ سے پانی انڈیلا اور غٹ غٹ پی گیا۔ سیما نے کہا۔ "ضدی کہیں کا۔"
زماں نے کہا۔ "وہمی کہیں کی۔" اور ایک مصنوعی ڈکار لے کر ہال سے باہر آ گیا۔ وائی ایم سی اے میں باکسنگ کا مقابلہ ہوا۔ ہمارے کالج کے علاوہ دوسرے کالجوں کے طلبہ بھی یہ مقابلہ دیکھنے آئے۔ زماں کا مقابلہ پنجاب رجمنٹ کے ایک کپتان سے ہوا۔ زماں ہار گیا رنگ سے باہر نکل کر اس نے سیما اور سلیم کو آپس میں باتیں کرتے دیکھا۔ ان کے قریب جا کر زماں نے سیما سے پوچھا۔ "مقابلہ پسند آیا؟"
"بہت!" سیما نے مسکرا کر کہا۔ "مان ٹوٹا! میں کوئی ہارا ہوں؟" اس نے اپنے خون آلود منہ اور چہرے پر پڑے ہوئے نیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "یہ تمغے کامیابی کے بغیر تو نہیں ملتے نا سلیم صاحب!" سلیم صاحب کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ وہ سیما کو لے کر جلدی جلدی سیڑھیاں اتر گیا۔
سردیوں کی ایک تیرہ و تاہ رات کو بارہ بجے کے قریب وہ کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے سر اور بازو پر پٹیاں بندھی تھیں اور ان سے خون رس رہا تھا۔ بتی جلنے سے میں جاگ اٹھا اور اسے اس حالت میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ "کیا ہوا؟" میں نے رضائی پرے پھینک کر پوچھا۔
"کچھ نہیں یار!" اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر منہ میں دبائی اور ماچس میز پر پہلو کے بل کھڑی کر کے دائیں ہاتھ سے اس پر دیا سلائی رگڑنے لگا۔
میں نے کہا۔ "میں جلائے دیتا ہوں۔"
اس نے جھلا کر کہا۔ "آخر کیوں؟ کیا میں اپنی سگریٹ بھی خود نہیں سلگا سکتا؟"
میں نے پھر پوچھا۔ "تم زخمی کیسے ہو گئے؟"
اس نے ہنس کر کہا۔ "جیسے ہوا کرتے ہیں۔ میں حملے کے جواب کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ مجھ پر ایک دم پل پڑا اور چاقو سے کھچاک کھچاک کئی زخم لگا دئیے۔ پھر میں پٹی کروانے اسپتال چلا گیا۔ اسی لئے تو مجھے دیر ہو گئی اور یار! آج دیر سے آنے پر جواب طلبی بھی ہو گی اور جرمانہ بھی۔"
میں نے پوچھا۔ "مگر وہ تھا کون؟"
"مجھے کیا خبر۔" اس نے بستر پر لیٹتے ہوئے کہا۔ "ایسی تاریک رات میں کہیں شکل پہچانی جاتی ہے۔"
"وہ کچھ بولا نہیں؟" میں نے پوچھا۔
"بولا تھا۔"
"کیا کہتا تھا؟"
"میں نہیں بتاتا۔"
میں نے گالی دے کر کہا۔ "تو جا جہنم میں، تجھ سے پوچھتا ہی کون ہے۔"
اس پر وہ ہنسنے لگا اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دیر تک ہنستا رہا۔ بتی بجھا کر اور اپنے بستر میں منہ سر لپیٹ کر میں جی ہی جی میں اسے گالیاں دیتا رہا۔ پھر میں نے رضائی سے منہ نکال کر پوچھا۔ "یار! تم نے اس کی آواز نہیں پہچانی؟"
اس نے جھلا کر کہا۔ "چاچا! میں نے پہلے کبھی اس کی آواز سنی ہوتی تو پہچانتا۔" پھر ہم میں سے کوئی نہ بولا۔
جب دوسرے دن کالج میں ہر ایک نے بار بار اس سے رات کے حادثہ کے متعلق پوچھنا شروع کیا تو اس نے تنگ آ کر ایک نوٹس لگا دیا کہ "پچھلی رات کسی شخص نے مجھے گھائل کیا۔ میں مقابلے کے لئے تیار نہیں تھا اس لئے گہرے زخم آئے پٹی اسی وقت کرائی گئی، اب روبصحت ہوں۔ براہِ کرم کوئی صاحب میری روداد نہ پوچھیں۔ میں اپنی داستان سنا سنا کر تھک گیا ہوں۔" اس کے نیچے اس نے موٹے حروف میں زماں خاں بقلم خود لکھ دیا۔
اس شام میں اسے سائیکل پر بٹھا کر پٹی کروانے اسپتال لے جا رہا تھا کہ راستے میں سیما مل گئی۔ اس نے ہمیں روک لیا اور زماں سے کہنے لگی۔ "مسٹر زماں! میں نے آج آپ کو پٹی بندھے دیکھا تھا لیکن اس کے متعلق پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ کالج سے گھر لوٹتے ہوئے آپ کا اعلان پڑھا تو میرا جی بھی آپ کو تھکا دینے کو چاہا۔ بتائیے کیا ہوا تھا؟"
زماں نے سائیکل کی گدی پر ٹیک لگا کر کہا۔ "کوئی گیارہ بجے کے قریب جب میں اپنے کالج کے پچھواڑے آموں والی سڑک پر جا رہا تھا تو کسی نے میرا نام لے کر پکارا۔ میں رک گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ متوسط قد کا ایک آدمی کمبل پہنے میرے پاس آیا۔ ذرا سی دیر رکا اور پھر ایک دم خنجر سے مجھ پر وار کیا جو میرے بائیں کندھے میں لگا۔ میں نے اس کی ٹھوڑی کو ہٹ کیا مگر چونکہ میرا کندھا زخمی ہو گیا تھا۔ اس لئے ضرب ٹھیک سے نہیں لگی۔ اس نے مجھے نیچے گرا لیا اور پوچھا۔ کیا تم سیما سے محبت کرتے ہو؟ میں نے کہا۔ "ہاں۔"
سیما نے تنک کر پوچھا۔ "آپ نے یہ کیوں کہا؟"
"وہ اس لئے" زماں نے گھنٹی پر انگلی بجاتے ہوئے کہا۔ "کہ اگر میں نہیں کہہ دیتا تو وہ چھوڑ دیتا اور سمجھتا کہ میں نے صرف جان بچانے کے لئے ایسا کیا ہے پھر اس نے خنجر اوپر اٹھا کر کہا۔ اس کا خیال چھوڑ دو نہیں تو تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔ میں نے جواب دیا کہ میں جان سے جائے بغیر اس کا خیال کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ یہ کہتے ہی میں نے پوری طاقت سے اسے پرے دھکیلا اور وہ دور جا گرا۔ سامنے کے چوبارے کی بتی جلی اور وہ بھاگ گیا۔
سیما اس کا جواب دئیے بغیر تیز تیز آنکھوں سے اسے گھورتی ہوئی آگے چلی گئی۔
راستے میں میں نے اس سے پوچھا۔ "تم نے یہ بات مجھے کیوں نہ بتائی؟"
اس نے جواب دیا۔ "چونکہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس لئے۔"
اس واقعے کے تھوڑے عرصے بعد مارچ کے مہینے میں ایک اور عجیب واقعہ رونما ہوا۔ اس وقت ہم لوگ اپنے کمروں کے دروازے کھلے چھوڑ کر اندر ہی سوتے تھے۔ آدھی رات کو کسی نے ہمارے کمرے کے دروازے سے لگ کر سوتے ہوئے زماں پر پستول کے دو فائر کئے۔ ٹیبل لیمپ کا شیڈ ٹوٹ گیا اور میز پر پڑی آکسفورڈ کی ڈکشنری کے بہت سے اوراق گولی چاٹ کر نکل گئی۔
چند دن بعد زماں ہوسٹل سے چلا گیا۔ پھر اس نے کالج آنا بند کر دیا اور مجھے اکیلا چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں چلا گیا آج پورے بارہ سال اسی زماں نے کافی ہاؤس کی سیڑھیوں کے نیچے میری آنکھیں ہاتھ سے ڈھانپ کر گویا پوچھا تھا۔ "میں کون ہوں؟"
میں بنجارہ ہوٹل میں دیر تک اس کا انتظار کرتا رہا۔ سات بج گئے مگر وہ نہ آیا۔ میں اپنے کمرے سے باہر نکل کر برآمدے میں ٹہلنے لگا ہوٹل کے پھاٹک پر زماں ایک بیرے سے میرا پتہ پوچھ رہا تھا۔ میں لپک کر اس کے پاس پہنچا اور اسے اپنے کمرے میں لے آیا۔
گھنٹی بجا کر میں نے بیرے کو بلایا اور زماں سے پوچھا۔ "چائے پیو گے؟"
"نہیں۔" اس نے منہ پھاڑ کر جواب دیا۔
"آخر کیوں؟"
"بس نہیں۔"
جب اس نے "بس نہیں۔" کہا تو میں نے بیرے سے کہا۔ "جاؤ کوئی کام نہیں۔"
میں نے زماں کے قریب کرسی کھینچ کر اسے وہی خبر سنائی کے اس کے چلے جانے کے بعد سیما بھی کہیں روپوش ہو گئی اور آج تک اس کا کوئی کھوج نہ مل سکا۔
"لیکن وہ گئی کہاں یار؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔ "اس کے ماں باپ نے تلاش بھی نہ کی؟"
"کی بھائی! بہت کی، مگر اس کا پتہ ہی نہ چلا۔"
"کمال ہے۔" اس نے اپنے کرتے کی جیب سے ایک بیڑی نکالی اور چوسنے لگا۔ میری طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھ کر کہنے لگا۔ جس رات مجھ پر کسی نے گولی چلائی۔ اس سے اگلے دن سیما مجھے لائبریری میں ملی۔ اس نے مجھے کہا کہ میں شام کو اسے آرام باغ میں ملوں۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے اتنا کہا کہ شام کو بتاؤں گی۔ شام کو ہم کرکٹ گراؤنڈ سے پرے درختوں کے ایک جھنڈ میں بیٹھ گئے۔ سیما نے کہا۔ "زماں! اگر میں تم سے ایک چیز مانگوں تو دو گے؟" میرے منہ سے پتا نہیں کیوں "ضرور" نکل گیا۔ اس نے روہانسی ہو کر کہا۔ مجھے اپنی زندگی دے دیجئے۔ میں نے بازو پھیلا کر جواب دیا۔ "لے لو" تو اس نے کہا۔ "میں اسے لے جا کر جہاں چاہوں رکھوں؟" میں نے کہا۔ "جو چیز تمہاری ہے اس کے رکھ رکھاؤ میں داخل والا میں کون؟" پھر اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور وہ ہاتھ باندھ کر بولی۔ یہاں سے چلے جائیے اپنے گاؤں یا کہیں اور وہ لوگ آپ کو مار ڈالیں گے۔۔۔۔۔۔ آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ سسکیاں بھر کر رونے لگی۔ میں نے کہا۔ "یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا۔ میرے حملہ آور سمجھیں گے میں ڈر کر بھاگ گیا ہوں، میرے دوست کہیں گے میں بزدل تھا اور باکسنگ میں مجھ سے ہارے ہوئے حریف کہیں گے۔ وہ اب ہوتا تو۔۔۔۔۔۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا سیما! خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے تم مجھے اس بات پر مجبور نہ کرو۔" اس نے کہا۔ "تم نے وعدہ کیا تھا اور میں اس کی شہ پر اتنی سی چیز کی فرمائش کی ہے۔ اب تم اس چیز پر اپنا وعدہ قربان کر رہے ہو؟ میں نے تو سنا تھا کہ تمہارے وعدے کبھی نہیں ٹوٹتے۔" میں نے سیما سے وعدہ کر لیا تھا کہ اپنے گاؤں تو نہ جاؤں گا پر بمبئی چلا جاؤں گا۔ وہاں میری برادری کے چند افراد سودی روپے کا لین دین کرتے تھے۔ میں تمہیں بتائے بغیر ان کے پاس پہنچ گیا۔ دن رات مجھے ایک یہی خیال کھائے جا رہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ موت سی چیز سے ڈر کر بھاگ گیا۔ میں نے سیما کو ایک خط لکھا کہ بمبئی کی زندگی سے تنگ آ گیا چکا ہوں اور واپس آنا چاہتا ہوں۔ اب مجھے وعدے کا ذرا بھی پاس نہیں۔ اگر زندگی میں ایک وعدہ ایفا نہ ہو سکا تو کون سی قیامت آ جائے گی۔ میں تمہارے خط کا ایک ہفتے تک انتظار کروں گا اور اس کے بعد میں پھر تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا۔ چار دن گزر گئے خط نہ آنا تھا نہ آیا۔ پانچویں دن سیما خود میرے پاس پہنچ گئی۔ اس نے مجھے کالج کی کتنی ہی دلچسپ خبریں سنائیں۔ تمہارے متعلق بتایا کہ تم نے ایک نیولا پال لیا ہے اور اسے چھپا کر کلاس میں لے آتے ہو۔ باباجی کے بارے میں بتایا کہ میرا نام لے کر بار بار کہتے ہیں کہ وہ پاپی بہت یاد آتا ہے۔ پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ خدا جانے ہم کو یاد بھی کرتا ہے یا نہیں۔ پھر سیما نے کہا کہ میں اس لئے آئی ہوں کہ تم اپنا وعدہ نبھا سکو۔ اب میں عمر بھر تمہارے ساتھ رہوں گی اور تمہیں اپنے قول پر قائم رکھوں گی۔"
"مجھے کسٹم میں ایک معمولی سی نوکری مل گئی اور بھنڈی بازار کی اسی گلی میں ہماری شادی ہو گئی لیکن یار وہ بجھی بجھی سی رہتی اور جب میں دفتر میں ہوتا تو روتی بھی رہتی۔ شام کو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی ہوتیں اور وہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹیں پھیلا پھیلا کر مجھ سے باتیں کرتی۔ پھر ایک دن پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا کہ میرے پیچھے پڑ گئی کہ بمبئی چھوڑ کر کہیں اور دور نکل چلو۔ یوں تو یار میں رات کو اس کے ساتھ تاش کھیل کر اس کے سارے روپے جیت لیا کرتا تھا اور کبھی واپس نہ کرتا۔ پر مجھے اس کے دل کا بڑا خیال تھا۔ اینگلو ایرانین آئل کمپنی میں مستریوں کی جگہ خالی تھی۔ میں نے عرضی دے دی۔ انتخاب ہوا اور ہم آبادان پہنچ گئے اور یار! اب آبادان کی باتیں سناؤں گا تو رات بیت جائے گی مگر کہانی ختم نہ ہو گی۔ وہاں باکسنگ اور ڈائی نمیکس نے بڑا کام دیا۔ مائیکل صاحب ہر مہینے باکسنگ کا ایک مقابلہ کراتے اور میری گیم ضرور دیکھتے۔ ایک سال کے اندر اندر میں ڈپٹی انجینئر ہو گیا۔ سیما کے بڑے ٹھاٹ تھے۔ اس نے ساری ہندوستانی اخباریں اور رسالے اپنے نام جاری کرا رکھے تھے۔ اپنے بنگلے کے باغیچے میں بید کی کرسی ڈال کر دیر تک مطالعہ کرتی رہتی۔ مستریوں اور فٹروں کی بیویاں اور بچے اس کے گرد گھیرا ڈالے اسے طرح طرح کی باتیں سنایا کرتے۔ اس دوران میں ہم نے شاید ہی کوئی فلم چھوڑی ہو۔ ہر روز سینما کا چکر ہو جاتا تھا۔ کبھی کبھار ہم ناراض بھی ہو جاتے تھے لیکن ہر بار میں ہی اسے مناتا۔ وہ اپنے ابا اور امی کو یاد کر کے بہت رویا کرتی تھی۔ مجھ سے یہ بات پتا نہیں کیوں برداشت نہ ہوتی اور یہیں سے جھگڑا شروع ہو جاتا۔ آبادان کی زندگی میں صرف ایک بار اس نے مجھے منایا وہ بھی غیر ارادی طور پر۔ تمہاری تصویر اخباروں میں چھپی تھی وہ اس کی بھی نظر پڑی۔ میں اس وقت ریفائنری کے ایک ہزار فٹ اونچے کولنگ ٹینک پر بیٹھا سرکٹ دیکھ رہا تھا، کہ سیما ٹرالی پر چڑھ کر اوپر میرے پاس پہنچ گئی۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ ان دنوں روٹھی ہوئی تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ وہ بنگلے سے ریفائنری اور پھر فرش سے اتنی اونچی چوٹی پر چڑھ آئی تھی۔ میں سرکٹ کا معائنہ مستریوں پر چھوڑ کر اس کے ساتھ سوار ہو گیا۔ ٹرالی آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگی۔ میں جنگلے کے ایک کنارے بیٹھ گیا تو اس نے میری آستین پکڑ کر کھینچی۔ میں کچھ بولا نہیں۔ پھر اس نے میری کلائی پکڑ لی۔ مجھے اپنی طرف کھینچا اور بولی۔ یہاں نہ بیٹھو۔ میں نے کہا۔ تم تو مجھ سے بولنا ہی نہیں چاہتیں یہاں سے کیوں اٹھاتی ہو؟ اس نے میری دونوں کلائیاں پکڑ کر اپنی طرف کھینچیں اور میرے ساتھ چمٹ کر بولی۔ تم سے نہ بولوں گی تو اور کس کے ساتھ بولوں گی۔ ٹرالی زمین پر پہنچ گئی اور سارے مستریوں اور مزدوروں سے بے خبر وہ مجھ سے اسی طرح چمٹی رہی۔
"ہماری شادی کے پورے چھ سال بعد سہیل پیدا ہوا اور سیما کا اس سے دل لگ گیا۔ اس کے بعد شاید ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ اور یار! میں نے تم سے کہا نا کہ یہ لڑکیاں عجیب بادشاہ ہوتی ہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "سیما اب کہاں ہے؟"
زماں نے جواب دیا۔ پچھلے دسمبر کی ایک شام سہیل اپنے کونونٹ سے ڈرامہ دیکھ کر آیا تو راستے میں اسے بڑی سردی لگی۔ گھر آ کر اس نے اپنی ممی سے کہا مجھے گرم دودھ پلاؤ تو اس نے یہ سوچ کر کہ باورچی دیر لگائے گا خود ہی ایک پیالے میں دودھ ڈال کر اسے اپنے ہیٹر پر رکھ کر پلگ جو لگایا تو اسے شدید برقی صدمہ پہنچا۔ رات تک سارے ڈاکٹر اس کے گرد جمع رہے لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکی۔ سہیل کو اپنی ممی کی موت کا بہت صدمہ ہوا۔ وہ اسی دن سے بیمار ہے کہ سیما کی موت کے بعد مجھے اپنے معاہدے کے مطابق ایک سال اور وہیں رہنا پڑا اور اس عرصے میں سہیل کی حالت بد سے بدتر ہو گئی اور سچی بات تو یہ ہے کہ سیما کے بعد میں اس پر پوری توجہ نہ دے سکا۔ اس دوران میں خوب جی بھر کر برج کھیلی اور سیما کا جمع کیا ہوا روپیہ ہارتا رہا اور اب مجھے یہاں آئے پورا ایک مہینہ بھی نہیں ہوا۔ سہیل کی حالت اب بالکل بگڑ چکی ہے۔ ڈاکٹر نے اسٹرپٹومائی سین کے ٹیکے تجویز کئے ہیں اور آج دوپہر میں اسی کا پرمٹ لینے جا رہا تھا کہ تم مل گئے۔"
"میں نے پوچھا۔ "پرمٹ مل گیا؟"
"ہاں۔" اس نے اپنے کرتے کی بغلی جیب میں ہاتھ ڈال کر خاکی رنگ کا ایک کاغذ نکال کر دکھایا اور بولا۔ "اب تو دکانیں بند ہو گئی ہوں گی صبح ٹیکے خریدوں گا۔"
میں نے کہا۔ "الفنسٹن اسٹریٹ میں ابھی بہت سی دکانیں کھلی ہوں گی۔ ابھی چل کر کیوں نہ لے لیں۔"
زماں نے کہا۔ "اب کل ہی لوں گا۔"
"کل کیوں؟" میں نے پوچھا۔
"بس یار! آج نہیں لوں گا۔"
"نہیں کیوں؟"
"نہیں لوں گا یار! کیوں کیا؟"
"پیسے نہیں؟" میں نے پوچھا۔
"ہیں۔" اس نے خوف زدہ ہو کر کہا۔
"دکھاؤ۔"
"نہیں دکھاتا۔"
میں نے کہا۔ "اچھا تمہاری مرضٰ، یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ تم ہمیشہ سے ضدی اور اپنی ہٹ کے پکے رہے ہو۔ بچے کی جان کے لالے پڑے ہیں اور تم اپنی وضعداری نبھا رہے ہو۔"
اس نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اور بولا۔ "اچھا اب چلتا ہوں کل تم سے ملوں گا۔ دس گیارہ بجے کے قریب۔"
وہ چلا گیا تو میں نے اپنے بٹوے سے سو روپے کا ایک نوٹ نکالا اور پڑیا بنا کر مٹھی میں چھپا لیا۔ پھر میں تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ وہ ہوٹل کے پھاٹک کے پاس ایک دیا سلائی خرید رہا تھا۔ میں نے کہا۔ "ظالم! اتنی لمبی رات درمیان میں ہے۔ گلے تو مل لو۔" جب وہ مجھ سے بغل گیر ہوا تو میں نے سو روپے کا نوٹ چپکے سے اس کی بغلی جیب میں ڈال دیا۔
تھوڑی دور اس کے ساتھ چل کر میں واپس اپنے ہوٹل میں آ گیا اور بیرے سے کہا کہ اگر کوئی صاحب مجھ سے ملنے آئیں تو انہیں کہہ دینا کہ میں یہ ہوٹل چھوڑ کر چلا گیا ہوں اور دیکھو صبح سات بجے ایک وکٹوریا لا کر مجھے جگا دینا میں صبح کی گاڑی سے واپس جا رہا ہوں۔" یہ کہہ کر میں اپنے کمرے میں آیا زماں کے نام ایک خط لکھا اور اسے میز میں ڈال کر سو گیا۔
صبح ساتھ بجے بیرے نے دروازہ کھٹ کھٹانا شروع کر دیا میں نے کہا۔ "جاگ گیا ہوں بھئی تم جاؤ۔"
مگر بیرے نے شاید میری آواز نہیں سنی۔ اسی طرح دروازہ پیٹے چلا گیا۔ جھلا کر میں بستر سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے زماں کھڑا بیڑی پی رہا تھا۔ اس نے ہنس کر کہا۔ "یار عجیب گھوڑے بیچ کر سوتے ہو۔ اس عمر میں ایسی نیند اچھی نہیں ہوتی۔ بھلے مانس صبح اٹھ کر اللہ کا نام لیا کرو۔"
میں نے خفت مٹاتے ہوئے کہا۔ "بھائی! رات کو دیر تک جاگتا رہا۔ اسی لئے آج دیر سے اٹھا ہوں ورنہ اب تو کالج کا وہ لونڈا نہیں رہا۔ "پھر میں نے اس کے ہاتھ سے بیڑی لے کر یوں ہی ایک دو کش لگائے اور پوچھا۔ "سہیل کیسا ہے؟"
اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ "یار! وہ بھی اپنی ممی سے جا ملا۔" پھر اس نے اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور دامن الٹ کر کہا۔ "یار! ذرا دیکھنا۔ کل رات یہاں سے جاتے ہوئے کسی صاحب زادے نے ہماری جیب کاٹ لی جیسے ہم جیبوں میں نوٹ ہی تو ڈالے پھرتے ہیں۔ سالے کو اسٹرپٹومائی سین کے پرمٹ اور تین آنے کے سوا کیا ملا ہوگا۔" کٹی ہوئی جیب سے اس کی زرد زرد انگلیاں چھپکلیوں کے سروں کی طرح باہر جھانک رہی تھیں۔



******
ٹائپنگ:  ملک بلال بھائی - اردو محفل
بشکریہ : اردو محفل

افسانہ : موم کی مریم ۔ جیلانی بانو

موم کی مریم

جیلانی بانو


"موم کی مریم" جیلانی بانو ہی کا نہیں، اردو افسانے کا بھی ایک آبرو مند نمائندہ ہے۔ جیلانی بانو 1935ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے والد شاعر حیرت بدایونی بہ سلسلۂِ ملازمت مقیم تھے۔ دسمبر 1953ء میں پہلا افسانہ لکھا۔ اس کے بعد سے آج تک مسلسل لکھ رہی ہیں اور پاکستان اور بھارت کے معروف ادبی رسائل لے لئے لکھتی ہیں۔ افسانوں کا پہلا مجموعہ "روشنی کے مینار" 1958ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دو اور مجموعے "نروان" اور نغمے کا سفر" شائع ہوئے۔ تین ناولٹ "جگنو اور ستارے" 1964ء میں اور ایک ناول "ایوانِ غزل" 1977ء میں شائع ہوا۔ متعدد ڈرامے بھی لکھے۔ "موم کی مریم" پہلی مرتبہ رسالہ اور ادب لطیف (لاہور) میں چھپا تھا۔


آج بھی اندھیرے میں لیٹا میں خیالی ہیولوں سے کھیل رہا تھا۔

اور جب بھی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ تم نہ جانے کہاں سے نکل آتی ہو۔ جیسے تم نے تاریکی کی کھوکھ سے ہی جنم لیا ہو۔ اور مجبورا مجھے جلے ہوئے سگریٹ کی راکھ کی طرح تمہیں بھی زمین پر جھٹک دینا پڑتا ہے۔

میں نے کبھی تمہارے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ کبھی تمہارے اوپر نظمیں نہیں لکھیں۔ کبھی تمہاری یاد میں تارے نہیں گنے۔ پھر کیوں تمہیں یاد کئے جاؤں۔۔۔۔۔؟

زندگی میں تم سے اتنی دور رہا کہ کبھی اس رنگ و بو کے سیلاب میں غرق نہ ہو سکا جو تمہارے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ ہمارے بیچ میں جھوٹی عقیدت اور مضحکہ خیز احترام کی خلیج حائل رہی۔ پھر آج تم اپنی آہوں اور سسکیوں سے کون سے دبے ہوئے جذبے جگانا چاہتی ہو۔۔۔۔۔؟

آج صبح عائشہ کے خط سے مجھے تمہاری موت کی خبر مل چکی ہے مگر میں اس موت پر اظہار افسوس نہ کر سکا۔ روزانہ جانے کتنے بادل بنا برسے گزر جاتے ہیں۔ کتنے نغے ساز کے اندر ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کتنے انسان ایک لمحہ کی خوشی ڈھونڈتے ڈھونڈتے مر جاتے ہیں۔ پھر تمہاری موت تو میرے سامنے کتنی بار ہو چکی ہے۔ اگر مادی طور پر تم چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آج میرے کمرے میں آ بیٹھی ہو۔

جب سے عائشہ کا خط پڑھا ہے میرے خیالات کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈولتے پھرتے ہیں اور نہ جانے کیوں بہت سی دھندلی دھندلی یادیں جھلملانے لگی ہیں اور اندھیرے اجالے میں بہت سے چہرے غلط ملط ہو گئے ہیں۔

مگر اس وقت تمہارے خیالی وجود سے باتیں نہیں کر رہا ہوں کیوں کہ تمہاری جانی پہچانی سسکیاں مجھ کو تمہاری موجودگی کا یقین دلا رہی ہیں تو میں اسے واہمہ کیسے تصور کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔؟

تمہارا اور اندھیرے کا ہمیشہ کا ساتھ رہا ہے۔ تم زندگی بھر جہاں جہاں بھی گئیں چراغ گل ہوتے گئے۔ تاریکی کے حلقے تمہیں اپنے گھیرے میں اسیر کئے رہے۔ جس طرح مریم کی تصویر کے گرد مصور نے نورل کا ہالہ کھینچ دیا ہے۔ عصمت، تقدس اور معصومیت کی لکیریں جن کے اندر پاک مریم کی روح کو محصور کر دیا گیا ہے۔
اس وقت بھی جب تمہارے سیاہ مستقبل کی طرح کمرے میں تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ تمہارے آنسو یوں چمک رہے ہیں۔ جیسے پر پرامید بحرین نے دریا کی سطح پر چراغوں کی قطار چھوڑ دی ہو۔ میرے کمرے میں تمہارے آنسوؤں نے اجالے کی امید قائم کر رکھی ہے۔۔۔۔۔ ہم مشرق کے مرد صدیوں سے اپنی عیش گاہوں میں تمہارے اشکوں سے چراغاں مناتے آئے ہیں۔۔۔۔۔

تمہارے متعلق لوگوں نے جو کہانیاں مشہور کر رکھی تھیں وہ بالکل سطحی تھیں اور اسی لئے میں نے حقیقت کی سطح پر اتر کر تمہیں سمجھنا چاہا تھا۔۔۔۔۔ تم کیا تھیں! اماوس کی رات کو ٹوٹنے والا ایک ستارہ جو اپنی آخری جھلک سے بہت سے دلوں میں امید کی کرن چمکا کر غائب ہو جائے۔۔۔۔۔ ایک تند لہر جو اپنے زعم میں ساحل کے پرخچے اڑا دینے کے ساتھ خود بھی مٹ گئی ہو۔

آج جب تم اپنے گناہوں کی لمبی فہرست سمیت خود ہی میرے کمرے میں آ گئی ہو۔ تو مجھے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تم ایک عام سی لڑکی ہونے کے باوجود دوسروں سے کس قدر مختلف تھیں۔ تم ایک مسحور کرنے والا جادو بن گئیں تھیں۔ جو کتنے ہی خریداروں کو خرید لایا۔ مگر سونگھا ہوا پھول سمجھ کر سب واپس چلے گئے۔

دوکان دار کے نزدیک وہ چیز کتنی حقیر ہو جاتی ہے جسے گاہک الٹ پلٹ کر پھر دوکان پر رکھ جائے۔۔۔۔۔ شیشے کے کیس میں بند رہنے والی گڑیا۔۔۔۔۔ آج تم اتنی صاف صاف باتیں سن کر حیران کیوں ہو رہی ہو۔ جبکہ تم نے اپنے آس پاس کے شیش محل چکنا چور کر ڈالے تھے۔ اور سماج کی کھینچی ہوئی لکیروں پر چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک بار تم سب لڑکیوں کو آنگن میں دھماچوکڑی مچاتے دیکھ کر امی نے کہا تھا۔

"اونہہ، مت روکو نگوڑی ماریوں کو۔۔۔۔۔ کنواری لڑکیاں برساتی چڑیاں ہوتی ہیں۔ کون جانے کل کس کا ڈولا دروازے پر کھڑا ہو گا۔۔۔۔۔"

اس وقت اخبار پڑھتے پڑھتے میں نے تمہاری زندگی کا پورا فلم دیکھ ڈالا تھا۔ جب تم کسی ناصر یا شاہد کلرک سے بیاہی جاؤ گی اور آنسو پونچھتی ڈولے میں سوار کرائی جاؤ گی۔ پھر ہر سال ایک نئے منے کی پیدائش میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور ساتویں یا آٹھویں ننھے کی پیدائش پر تپ دق کا شکار ہو کر مر جاؤ گی۔ ہر لڑکی انہی لکیروں پر دوڑتی آئی ہے۔ مگر تم نے اپنی انفرادیت کا ایک دوسرا راستہ ڈھونڈنا چاہا جس کی سزا میں موت اور زندگی تم پر حرام ہو گئی۔

تم منجھلے چچا کی دسویں یا گیارہویں اولاد تھیں۔۔۔۔۔ پھر نامراد لڑکی۔۔۔۔۔

"اونہہ، لڑکی ہے تو کیا ہوا نصیب اچھے ہوں۔ لڑکے کون سا فیض پہنچاتے ہیں۔۔۔۔۔ ماں باپ کی موت پر آنسو بہانے والی بیٹی ہی تو ہوتی ہے۔"

اور اپنی موت کے نوحہ گر کے پیدا ہوتے ہی کسی نے تمہیں خوش آمدید نہ کہا۔

اپنے ارد گرد کے اس ماحول نے تمہیں زیادہ حساس بنا دیا۔ حقارت کی نظروں نے خودی کا احساس بیدار کیا اور تم نے کچھ کرنے اور کچھ پانے کی قسم کھا لی۔ تمہارے متعلق بدنامیاں اور سرگوشیاں بڑھتی چلی گئیں۔ جاہل، بددماغ، بدصورت اور مغرور۔ دن بھر تمہیں انہی خطابوں سے یاد کیا جاتا ہے مگر تم ایک ننھی چڑیا کی طرح اترا اترا کر کہتی رہیں۔۔۔۔۔ جو میرے پاس ہے وہ رانی کے محل میں بھی نہیں۔

اسی انانیت پسندی سے تم ایک ایسا شعر بن گئیں جس کے غالب کے شارحین کی طرح ہر ایک نے الگ معنی نکالنے چاہے مگر پھر بھی بہت کم حقیقت کی تہہ تک پہنچ سکے۔

اور میں نے بہت دور ہو کر بھی تمہیں سمجھنا چاہا۔ یہ سچ ہے کہ میں نے دوسرے مردوں کی طرح تمہاری دوشیزگی کی جانب ہاتھ نہیں بڑھایا۔ کبھی اس قدر نزدیک نہیں آیا کہ تمہارے تنفس کی رفتار سے کوئی راز پا سکوں۔ پھر بھی میں نے اس شعر پر کافی ریسرچ کی۔ دماغی لیبارٹی میں دو سال تک تجربے کئے مگر کچھ بھی سمجھ نہ سکا۔

ایک بار مجھے اپنی جانب جھکتے دیکھ کر تم تنے کہا تھا۔

"احمد بھائی! میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں اور یہ نہیں چاہتی کہ کوئلوں کی دلالی میں آپ بھی اپنے ہاتھ کالے کر بیٹھیں۔۔۔۔۔" مگر یہ کتنا بڑا خزینہ ہے کہ تم نے بہت سوں کو کوئلوں کی دلالی سے بچانے کی خاطر اپنے منہ پر کالک مل لی تھی تاکہ ان کے سفید دامن سیاہی سے ملوث نہ ہوں۔۔۔۔۔ تم میری بہت عزت کرتی تھیں۔۔۔۔۔ ایک نوجوان مرد کی، جو تمہارے ذرا سے سہارے پر آگے بڑھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ جس نے تمہاری اٹھارہ سال کی زندگی میں مسلسل فریب دئیے تھے، جس نے تمہیں منزل کے قریب لا کر بھٹکا تھا۔ بدنامی کی کوٹھڑی میں دھکیل کر ہر دروازہ بند کر دیا تھا۔ پھر تم نے اپنی رہی سہی عزت کی دھجیاں بکھیر ڈالیں اور بیچ چوراہے، اپنے سب ظاہری لباس اتار ڈالے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ تم میری عزت کرتی رہیں اور میں تمہیں سمجھنے میں اتنا منہمک ہو گیا کہ جذبات کے انجکشن قطعی بے اثر ہو گئے ورنہ ممکن تھا ایک دن میری خودداری اور عزت تمہارے قدموں میں پڑی بخشش کی طلبگار ہوتی اور تم اطہر کی طرح مجھے ایک چٹان پر چھوڑ کر کہتیں۔

"میں نے تمہیں پانے کے لئے بہت سی ٹھوکریں کھائیں مگر تمہارے چھونے سے پہلے اتنی بلندی پر پہنچ گئی کہ جب تم وہاں پہنچے میں سراب بن چکی تھی۔"

گھبراؤ نہیں۔ تم نے یہ الفاظ اطہر یا ریاض سے خود نہیں کہے۔ مگر آج تک تم نے کون کون سی باتیں زبان سے ادا کی ہیں، تم تو اس گونگی کی طرح ہو جسے اپنا مفہم ہمیشہ عملی طور پر سمجھانا پڑتا ہے۔

صرف اٹھارہ سال کی زندگی میں تم نے اتنی باتیں کیسے کہہ لیں!

بظاہر تم کتنی معمولی لڑکی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کاندھوں تک لہراتے ہوئے بال جن کی باریک باریک آوارہ لٹیں چہرے کے گرد ہالہ سا بنائے کانپتی رہتیں۔ معمولی سا قد، دبلا پتلا دھان پان جسم جیسے تیز ہوا کے جھونکے بھی تمہیں اڑا کر لے جائیں گے۔ جیسے تمہاری جانب ہاتھ بھی بڑھایا تو چھوئی موئی کی طرح کملا جاؤ گی۔ ایک واہمہ سی، ایک ادھورا خاکہ۔ کتنے ہلکے ہلکے تھے تمہارے خد و خال۔ پتلے خمیدہ لب، جو ہمیشہ سرمہری سے بند رہتے۔ ہر چیز کو تجسس سے دیکھنے والی ہمدرد آنکھیں جو اپنے سارے گناہ آشکار کرنے کو تیار رہتیں اور اسی خیال سے بات کرتے وقت بار بار بند ہو جاتیں تا کہ ان کی گہرائیوں کا کوئی پتہ نہ لگا سکے اور لمحہ لمحہ بدلنے والا رنگ، جو کبھی شعلے کی طرح دہکنے لگتا، کبھی راکھ کی طرح سیلا پڑ جاتا۔

اور جب باتیں کرتیں تو تمہارے خدوخال میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ کتنی مشکل بات تھی تمہارے چہرے سے کسی بات کا اندازہ لگانا۔

اس معمولی شکل و صورت ہی نے تو تمہیں گھر میں ایک ناقابل التفات چیز بنا دیا تھا۔ اپنی خوبصورت سعادت مند بہنوں کے مقابلے میں تمہاری کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ خرید و فروخت کے اس بازار میں صرف اچھی صورت والی لڑکی ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔۔۔۔۔ اور یہ خیال چچا اور چچی کے لئے سوہانِ روح تھا۔

مجھے آج سے تین سال پہلے والی جاڑوں کی ایک صبح یاد آ رہی ہے۔

تم اس وقت نہا کر آئی تھیں۔ نسرین اور عائشہ کے ساتھ صحن میں بیٹھی، سویئٹر کا ایک نمونہ بنا بنا کر ادھیڑ رہی تھیں۔ نومبر کی لطیف دھوپ آنگن میں بکھری ہوئی تھی۔ چچی نیچے بیٹھی نئے لحافوں میں دھاگے پرو رہی تھی۔ اس وقت تمہارے گلابی ڈوپٹے، بھیگے بال اور نکھرے ہوئے رنگ کو دیکھ کر بھی مجھے کوئی شعر یاد نہیں آیا، کوئی تشبیہ دماغ میں نہیں ابھری۔ عائشہ، نسرین اور فرزانہ کے فروزاں حسن نے وہاں تمہارے چراغ کو ٹمٹمانے نہیں دیا۔۔۔۔۔ کتنی کمتر تھیں تم اپنی مغرور اور اپنے حسن پر خود ہی مر مٹنے والی بہنوں کے حلقے میں۔۔۔۔۔ اس وقت میں نے سوچا تھا کہ حسن کے اس جھمگٹ میں تمہاری کہانی کتنی مختصر اور پھیکی ہو گی۔

انہی دنوں میں مسلسل بیکاری نے مجھے نئی نئی راہوں سے واقف کر دیا تھا۔ اور گھر سے بہت دور ایک ہڑتال کے سلسلے میں گرفتار ہوا تھا۔ تو عائشہ کا خط پڑھ کر پہلی دفعہ تمہاری جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔۔ تم لڑکیوں کو خط لکھنے کو بھی تو کوئی بات نہیں ملتی۔ عائشہ کے خط بھی اسی کی طرح خوبصورت اور معصوم ہوتے جن میں وہ ابا کی ناراضگی سے لے کر خاندان کی اہم تقریبوں میں آنے والی عورتوں کے کپڑے، زیوروں کے ڈیزائن اور اسکول کی سہیلیوں کے رومان تک۔۔۔۔۔ سب کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتی۔ ساتھ ہی وہ مجھے بھی ایسا ہی مزیدار لمبا خط لکھنے کی ہدایت کرتی۔۔۔۔۔ میری بےوقوف بہن نہیں جانتی تھی کہ میں رومانوں، سرگوشیوں اور رنگینیوں کی دنیا سے کتنی دور تھا۔ مگر وہ میری مسلسل خاموشی کے باوجود ایک ہنگامہ پرور گھر کے کمرے میں بیٹھی، باربار منہ پر جھک آنے والے لٹوں کو پیچھے جھٹک کر لکھتی رہی۔۔۔۔۔ آپ نے ایک اور خبر سنی بھائی جان؟ قدسیہ کے یہاں چھوٹی خالہ امجد بھائی کا پیغام لے کر گئیں تو قدسیہ نے خود آ کر ان سے کہہ دیا کہ وہ امجد سے شادی نہیں کرے گی۔

سنا ہے چچا ابا زہر کھانے والے ہیں اور سارے خاندان میں تھو تھو ہو رہی ہے۔

اس دن بہت دنوں کے بعد جیل کی تنہا کھوٹڑی میں مسکرا سکا۔ اس دلیرانہ جرات پر میں نے غائبانہ طور پر تمہاری پیٹھ ٹھونکی تھی اور کہا تھا کہ جس خول میں ہم اپنے آپ کو لپیٹے ہوئے ہیں وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ رہا ہے۔ جی چاہا کہ فورا چچا ابا کو زہر کی ایک شیشی بھیج دوں تاکہ وہ صرف ارادہ کر کے ہی نہ رہ جائیں۔ تم پھر ایک بار میرے سامنے آئی تھیں۔ جھنجھلا کر سویئٹر ادھیڑتی ہوئی۔

پھر میں اس واقعے کو بھول گیا۔ عائشہ اپنے خطوں میں لکھتی رہی کہ تمہارا اور ریاض کا رومان چل رہا ہے۔۔۔۔۔ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی کوشش مت کرو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے اپنی محبت کو کامیاب بنانے کی کتنی کوشش کی۔ لیکن ریاض تمہارے ہاں کا لے پالک تھا۔ تمہارے دسترخوان کے جھوٹے ٹکڑوں پر پلا تھا۔ پھرچچا ابا کو اس کی سن گن ملی تو ریاض گھر ہی سے نہیں شہر ہی سے نکال دیا گیا۔ اور تم نے بڑے تحمل سے محبت کی اس لاش کو دل کے قبرستان میں دفن کر دینا چاہا۔۔۔۔۔ لیکن شاید ایسا نہ ہو سکا۔ کیوں کہ مردار کھانے والے گدھ، جو ایسے موقعوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، اس لاش کو باہر کھینچ لائے۔ جی بھر کے اس سے لطف اٹھایا اور پھر اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ تمہاری بیماری کو بڑے خوفناک معنی پہنائے گئے۔ یعنی یہ سب ریاض کی امانت کو ٹھکانے لگانے کے بہانے ہیں اور تم اپنے کمرے ہی میں نہیں پڑی رہتیں بلکہ ریاض کے ساتھ فرار ہو چکی ہو۔

یہ باتیں میں نے بہت دور بیٹھ کر سنیں اور ہر بات کو یقین کے خانے میں ڈالتا گیا۔ یہ کوئی ناقابل یقین بات بھی تو نہ تھی۔ بقول عائشہ کے تم اپنی اہمیت کا احساس دلانے کا فیصلہ کر چکی تھیں اور تم نے ساری دنیا کو ٹھکرا کے اپنی من مانی کرنے کا عزم کر لیا تھا۔۔۔۔۔ پھر تم جیسی محبت کی ماری لڑکیاں اس سے زیادہ اپنی اہمیت کا کیا ثبوت دے سکتی ہیں۔۔۔۔۔؟

اس کے بعد جب میں رہا ہو کر گھر آیا تو تم وقت کا ایک اہم موضوع بن چکی تھیں یا عائشہ کے الفاظ میں کچھ کر دکھانے کی دھن میں اپنا رہا سہا وقار بھی کھو بیٹھی تھیں۔

اس دوران میں تم اپنے ماسٹر سے بھی محبت کر چکی تھیں جو تمہیں پڑھانے آتا تھا۔ ایک سیدھا سادھا، خطرناک حد تک شریف انسان، جو اپنی مظلومی اور بےچارگی ظاہر کر کے دوسروں سے رحم کی بھیک مانگتا تھا۔

پہلے اس نے تمہیں شرافت اور عزت کے سبق پڑھائے۔ اپنی بےچارگی اور دکھ کے افسانے سنائے۔ اس کی محبوبہ نے اسے دھوکہ دیا تھا۔ محض غربت کی وجہ سے اسے ٹھکرا دیا تھا (یہ محبوباؤں کے دھوکہ دینے کا دکھڑا بھی کتنا فرسودہ ہو چکا۔) پھر اس کی پیاسی دنیا میں تم نے اپنی ہمدردی کے چند قطرے برسانے چاہے۔ اپنے طرزِ عمل سے اس کا دکھ کم کرنا چاہا۔ اپنے غم کی کہانی بھی اسے سنا ڈالی۔۔۔۔۔ پھر کورس کی کتابوں کو ایک جانب سمیٹ کر تسلی اور تسکین کے سبق پڑھائے جانے لگے۔

پھر تمہارا ماسٹر بیمار ہو گیا اور چچا ابا نے دوسرا ماسٹر رکھنا چاہا تو تم نے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ تم اس ماسٹر سے پڑھنا چاہتی تھیں اور اس کی مزاج پرسی کے لئے اس کے گھر جانے پر مصر تھیں۔

یہ ساری باتیں گھر کے چھوٹے بچوں تک نے مجھے سنائیں۔ میں کیسے یقین کر لوں کہ تمہیں اس ماسٹر سے محبت نہیں تھی، صرف ہمدردی تھی۔ یہ انسانیت کا جذبہ ہی تھا جو تمہیں ایک رات چپکے سے اٹھا کر ماسٹر کے گھر لے گیا اور جب تم ابھی دروازہ ہی کھٹکٹھا رہی تھیں کہ چچا ابا کے ڈنڈے کی ضرب سے بےہوش ہو گئیں۔

پھر مہینوں گھر والے تمہارے سائے سے بھی اچھوتوں کی طرح بچتے پھرے۔ گھر کی لمبی لمبی ناک والی عورتوں نے خاندان میں نکلنا چھوڑ دیا۔ چچا ابا نے وقت سے پہلے پنشن لے لی اور سارے خاندان میں کھڑی ہو کر تم نے اپنی ماں سے کہا کہ امی جو میرا جی چاہے گا کروں گی یا پھر آپ لوگ مجھے مار ڈالئے۔ پھر سب نے دوسری بات سے اتفاق کر لیا۔ یعنی تم مار ڈالی گئیں۔ سب نے تم پر فاتحہ پڑھا۔ لیکن شمیم ماموں اس فاتحے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ دوسرا زخم بھی بھرنے لگا پھر شمیم ماموں کی نازبرداریوں نے اسے مٹا ڈالا تھا۔۔۔۔۔ وہ تم پر بے حد مہربان تھے۔ عائشہ کہتی تھی۔

"شمیم ماموں کی عذرا تو قدسیہ کی کلاس فیلو ہے۔ جیسی ان کی لڑکی ویسی قدسیہ، پھر کیسے ایک لڑکی کو گھل گھل کر مر جانے دیں۔" شمیم ماموں مدتوں سے اپنی بیوی بچوں سے قطع تعلق کر کے اکیلی زندگی گزار رہے تھے۔ صرف اتنی سی بات پر کہ ان کی بیوی کبھی اچھی طرح ساڑھی نہ باندھ سکیں۔

ایک بار مجھے عائشہ نے لکھا تھا کہ تم بہترین ساڑھی باندھنے پر اسکول میں انعام لے چکی ہو۔ وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر تمہیں سیر کرانے لئے جاتے، تمہارے صدقے میں سارا گھر سینما دیکھتا، پکنک پر جاتا۔ تم کوئی اعلیٰ ڈگری لینا چاہتی تھیں اور چچا ابا تمہیں تنہا ہاسٹل میں چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ اس لئے بیچارے شمیم، اپنی وکالت کے بےشمار اہم کام چھوڑ کے، بارہ بارہ بجے رات تک فارسی اور اردو شاعروں کا کلام پڑھاتے اور عشق و تصوف میں ڈوبے ہوئے اشعار کا مطلب تم سے پوچھتے۔

سب کے ٹھکرائے جانے سے پہلے تم خود ہی کسی سے بات کرنا پسند نہ کرتی تھیں۔ دن بھر پلنگ پر اوندھی پڑی نہ جانے کیا سوچا کرتیں۔ کوئی بات نہ کرتا تو شکایت نہ کرتیں۔ شمیم ماموں سر پر ہاتھ پھیرتے تو منع نہ کرتیں۔ ہاتھ پکڑ کے موٹر میں بٹھا دیتے تو بیٹھ جاتیں۔ ممکن ہے تم سے ان کی ویران زندگی نہ دیکھی گئی ہو اور انسانیت کے تقاضے نے مجبور کر دیا ہو۔ مگر تمہاری یہ روش کتنی تعجب خیز تھی۔ ممانی کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا اور سب کی سوالیہ نگاہیں پھر تمہارے چہرے پر گڑ گئیں۔۔۔۔۔ ایک رات جب شمیم ماموں تمہیں پڑھا رہے تھے۔ کمرے میں کچھ شور سا ہوا پھر پھر تم بغیر ڈوپٹے کے بھاگتی ہوئی کمرے میں آئیں اور پلنگ پر گر کر رونے لگیں۔

چچی نے تمہارے کمزور جسم پر اپنی دانست میں بڑے زوردار دھموکے رسید کئے اور بہت سی مرغیاں کڑکڑانے لگیں۔ جواب میں سسکیاں روک کے تم نے بڑی مشکل سے کہا۔

"میں دھر بھی جاؤں سب مجھی کو برا کہتے ہیں۔ مجھے کیا معلوم تھا وہ اتنا کمینہ۔"
اور مجھے ہنسی آ گئی۔۔۔۔۔ کوئی مرد ماموں نہیں ہوتا، ماسٹر نہیں ہوتا، شریف نہیں ہوتا، صرف کمینہ ہوتا ہے۔ جو عورت سے سب کچھ لینے کے بعد بھی اسے جھلملاتے آنسوؤں کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔

شمیم ماموں نے سوچا ہو گا کہ اگر ریاض یا ماسٹر تمہیں کوئی امانت نہ دے سکے تو وہ کیوں نہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ جبکہ وہ کسی رشتے ناتے سے تمہارے فرضی ماموں بھی بنے ہوئے تھے۔

پھر تو ان کی بیوی نے شہر بھر میں یہ خبر عام کر دی کہ تم چاہو تو بیوی بچوں والے بوڑھے مردوں کو بھی بھٹکا سکتی ہو۔ پھر کسی میوزیم میں رکھی ہوئی لاکھوں سال پرانی ممی کی طرح تم ایک نمائش کی چیز بن گئیں۔ لمبی لمبی چھتوں کو پھلانگتی ہوئی یہ بات سارے شہر کا گشت لگا کر تمہارے ماتھے پر چپ گئی۔ عورتیں اور لڑکیاں دور دور سے بچے کولھوں پر ٹکاتے، ناک پر انگلیاں رکھے تمہیں دیکھنے کو آتیں۔ مردوں کی محفلوں میں بلند قہقہوں اور فحش گالیوں کے درمیان تمہارا نام آ جاتا تو خود بھی اس لٹنے والے باغ میں جانے کو طبیعت مچل اٹھتی۔

اطہر اسی مالِ غنیمت کی امید میں آیا تھا۔

میرا چھوٹا بھائی جو اپنی آوارگی کے سبب حوالات تک ہو آیا تھا۔ کالج سے نکال دیا گیا تھا۔ اور متفقہ طور پر یہ طے ہو گیا تھا کہ اسے کوئی اپنی بیٹی نہ دے گا۔ متوسط طبقے کا ایک بےکار نوجوان جس سے لب لوگ مایوس ہو گئے تھے۔

باہر کی تفریحوں کے علاوہ اور بھی کئی لڑکیوں کو جھانسہ دے چکا تھا بلکہ راحت کے متعلق تو مشہور ہے کہ صرف اطہر کی وجہ سے اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے اور ہو میکے میں دن گزار رہی ہے۔

مگر اتنے سیاہ کارناموں کے باوجود تمہاری جانب سے مایوس نہ لوٹا۔

ساری دنیا سے دھتکارا ہوا بےرحم، منہ پھٹ، چیخ چیخ کر باتیں کرنے والا اطہر، جسے ابا روز گھر سے نکال دیتے، امی کوسنے دیتی اور عائشہ اپنی قسمت پر صبر کر کے بیٹھ جاتی۔۔۔۔۔ اگر بہنوں کے بھائی قابل فخر نہ ہوں تو وہ کتنی بدنصیب نظر آتی ہیں۔ خوبصورت کماؤ بھائیوں کے بھروسے پر ہی تو وہ کتنی ہی ناکوں کو اپنے سامنے رگڑوا سکتی ہیں۔ عائشہ کی ساری توجہ مجھ پر مرکوز ہو گئی تھی۔ لڑکیوں کے لئے میری خشک اور بےربط زندگی میں بھی کوئی کشش نہ تھی۔ مگر پھر بھی میری شخصیت کو گھر میں کافی اہمیت دی جاتی تھی۔

تمہاری بارگاہ میں اطہر کو کیسے شرفِ نیاز بخشا گیا۔ یہ بات سب کے لئے حیران کن تھی۔ وہ تو صرف اپنے خوبصورت جسم اور بےباک لہجے سے معرکے سر کرتا تھا اور تم نے ہمیشہ بجھے ہوئے دل اور بیمار ذہن تلاش کئے تھے۔

یہاں پر مجھے اپنی پچھلی ریسرچ بیکار معلوم ہوئی اور اسے اٹھا کر پھینکنے سے پہلے میں نے تم سے راہ رسم بڑھانا چاہی۔ مجھے گھر میں رہنے کا اتفاق بہت کم ہوتا۔ خصوصاً تم سے تو کبھی بےتکلفی سے بات بھی نہ کر سکا تھا۔ اس لئے ایک گھر میں رہنے کے باوجود ہم بہت دور رہتے تھے۔ تم ہمیشہ مجھ سے چھپنا چاہتیں کیوں کہ پہلے دن ہماری ملاقات نے بڑی تلخ فضا پیدا کر دی تھی۔ اس دن ہماری ملاقات ناشتے کی میز پر ہوئی تھی۔ تم شاید میری سنجیدگی کی بات عائشہ سے پہلے ہی سن چکی تھیں اور مجھ تک اپنے کارنامے پہنچانے سے گریز کر رہی تھیں۔ احتیاط سے سر پر پلو ڈالے، نظریں جھکائے یوں بیٹھی تھیں جیسے کسی پادری کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے آئی ہو۔ عائشہ نے میری جانب بڑی بامعنی نظروں سے دیکھ کر کہا تھا۔

"بھائی جان! دیکھیے یہ ہیں قدسیہ۔۔۔۔۔ عائشہ کی طنزیہ نظروں کو تم نے بیچ میں سے ہی پکڑ لیا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر شکستہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔ "تو احمد بھائی جان مجھے پہلے سے ہی جانتے ہیں؟"

اور تم چائے کی پیالی رکھ کر اٹھ گئی تھیں۔

پھر برسات کی ایک شام کو ہلکی ہلکی رم جھم نے موسم بڑا پرکیف بنا دیا تھا۔ بہت دیر تک فیض کی "نقشِ فریادی" پڑھنے کے بعد میں حسبِ عادت سگریٹ کے دھوئیں سے خیالی ہیولے بنا رہا تھا۔

عائشہ، پروین، چھوٹی بھابی اور فرزانہ قریب بیٹھی کیرم کھیل رہی تھیں اور کسی فلم پر زوردار بحث کر رہی تھیں۔ جس میں ایک ہیرو دو لڑکیوں سے محبت کرتا ہے اور ڈائریکٹر ہر بار اس محبت کو سچی محبت بنانے پر مصر ہے۔ عائشہ کے خیال میں یہ محبت کی توہین تھی یا ہیرو کی ابوالہوسی۔

تم ان کے قریب والی کرسی پر بیٹھی، سیاہ ساٹن کے ایک ٹکڑے پر ننھے ننھے آئینے ٹانک رہی تھیں۔ جن کی بہت سی شعاعوں نے مل کر تمہارے چہرے پر مشعلیں سی جلا دی تھیں۔

اپنی رائے کو زیادہ وزنی بنانے کے لئے عائشہ نے مجھ سے پوچھا۔

"آپ بتائیے بھائی جان! کیا محبت ایک بار سے زیادہ کی جا سکتی ہے۔؟"

اور میں نے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا "قدسیہ سے پوچھو۔"

تمہارے ہاتھ کام کرتے کرتے رک گئے۔ چہرے پر جلتی ہوئی مشعلیں بجھ گئیں اور تم گہری شکایت آمیز نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں۔ بھابی اور پروین آہستہ آہستہ ہنسنے لگیں۔ فرزانہ بات کو ٹالنے کے لئے گنگنانے لگی اور عائشہ نے داد طلب نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ پھر میں نے اس خوبصورت شام کا زرتار لباس نوچ کر پھینک دیا۔ رم جھم کا شور مچانے والی بوندیں آنسوؤں کے دھارے بن گئیں فیض کے دل نشیں شعر ہاتھ ملا کر مجھ سے رخصت ہو گئے اور کمرے میں اندھیرا بڑھنے لگا۔

"آج موسم کتنا خوشگوار ہے۔!"

"ہونہہ۔"

"جی چاہ رہا ہے کہیں باہر گھومنے جاؤں۔"

"تو جائیے۔۔۔۔۔" تم حسبِ عادت مختصر جواب دے رہی تھیں۔

"مگر کوئی ساتھ چلنے والا جو نہیں۔ اطہر نے وعدہ کیا تھا مگر نہیں آیا۔ کتنا غیر ذمہ دار اور جھوٹا ہو گیا ہے یہ لڑکا۔"

جان بوجھ کر اطہر کی برائی کر کے میں نے تمہارے چہرے پر کچھ ڈھونڈا۔ تمہاری آنکھیں سامنے کھلی ہوئی کتاب پر تھیں اور ہاتھ ٹیبل کلاتھ کی شکنیں درست کرنے میں مصروف۔ پھر بڑے طنز کے ساتھ تم نے کہا۔

"اتنے سہانے موسم میں تو وہ کسی بار میں بےہوش پڑے ہوں گے۔ آپ لوگ تو انہیں اچھی طرح جانتے ہیں نا۔"

یہ تم کہہ رہی تھیں۔ تم، جس کے متعلق مشہور تھا کہ سارے خاندان کی عزت جوتے کی ناک پر اچھال کر تم اطہر سے شادی کرو گی، سب سے چھپا کر اسے روپے دیتی ہو۔ وہ شراب پی کر آتا ہے تو اس کی پردہ پوشی کرتی ہو۔ اتنے برے انسان پر تمہاری یہ عنایتیں کیوں تھیں جبکہ پچھلی زندگی میں کئی قابلِ اعتبار مرد تمہیں دھوکا دے چکے تھے۔

تمہارے متعلق پھیلی ہوئی بدنامیوں کے درمیان مجھے اپنی یہ رائے بڑی مضحکہ خیز لگی، اسے میں نے اپنے دماغ سے کھرچ دیا۔ تم سب کے لئے ناقابلِ فہم بن گئی تھیں۔ بھول بھلیوں کے پیچیدہ راستوں کی طرح تم نے اپنے گرد مکر و فریب کے جو جال بچھا رکھے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے تم سے نفرت ہو تئی۔ پھر ایک دن بڑی سوچ بچار کے بعد میں کچھ حواس باختہ سا تمہارے کمرے میں آیا۔

"میں تمہارے متعلق کچھ جاننا چاہتا ہوں قدسیہ، اگر تم مجھے اجازت دو تو۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔" اپنی گھبراہٹ پر میں خود متعجب تھا۔ اس دن تمہارے چہرے پر پہلی بار میں نے ڈر کی پرچھائیاں دیکھیں۔ جن پر حیرانی غالب تھی۔ تم یوں کھڑی ہو گئیں جیسے شمیم ماموں تم پر جھپٹنا چاہتے ہیں۔ تم نے ڈوپٹے کو سینے پر سنبھال کر کہا۔

"آپ بھی مجھے جاننا چاہتے ہیں احمد بھائی! میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں۔ پھر آپ کیوں کوئلوں کی دلالی میں اپنے ہاتھ کالے کرنا چاہتے ہیں۔" اور تم پیچھے دیکھے بغیر باہر بھاگ گئیں تھیں۔

ان ہی دنوں اتفاق سے مجھے ایک خط ہاتھ لگا جو تم نے ریاض کو لکھا تھا مگر اسے بھیج نہ سکی تھیں یا شاید اسے بھیجنے کو لکھا ہی نہ ہو۔ کیوں کہ یہ صرف تمہاری روح کی پکار تھی، جس کو ریاض جیسا بےوقوف انسان کبھی نہ سمجھ سکتا۔ اس کی محبت میں تمہاری برتری اور پرستش کا جذبہ غالب تھا۔ اور تم اسے روح کی بلندی کبھی نہ دے سکتی تھیں۔ بارش بہت زوروں کی ہو رہی تھی۔ اور دریچوں سے نیچے گرنے والے قطروں کو بچے ہاتھوں میں روک کر بہت خوش ہو رہے تھے۔ اتنے میں بھابی کا چھوٹا بچہ راشد ناؤ بنوانے کے لئے ایک کاغذ لے کر آیا۔ یہ نیلے کاغذ پر لکھا ہوا ایک لمبا چوڑا خط تھا۔ نیچے تمہارے بہت ہی بگڑے ہوئے دستخط۔ وہ خط راشد تمہاری اٹیچی نے نکال کر لایا تھا۔ اپنی شرافت کا ثبوت دینے کے لئے میں نے اسے واپس رکھوانا چاہا مگر ایک بار پڑھنے سے باز نہ رہ سکا۔

میری جانب ملامت آمیز نظروں سے نہ دیکھو۔۔۔۔۔ ان دنوں میں تم پر ریسرچ کر رہا تھا۔ بیسویں صدی کا ایک نکما انٹلیکچوئل۔۔۔۔۔ تمہارا یہ خط بہت سی ڈھکی چھپی باتوں کو سامنے لے آیا اور میری رائے پھر ڈگمگانے لگی۔

اس خط میں ریاض کو لکھا تھا کہ بچپن سے تم نے ہر دل میں اپنے لئے حقارت اور نفرت پائی اور صرف کسی کی نظر میں برتری حاصل کرنے کا یہ جذبہ ہی تمہیں ریاض کی جانب لے گیا۔ جو تمہاری طرح سب کی جانب سے دھتکارا ہوا دوسرا فرد تھا۔ ریاض کی نیازمندی اور احساس کمتری نے اسے گہرا کر دیا۔ اور گھروالوں کی مخالفت نے اسے جنگل میں لگی ہوئی آگ کی طرح بھڑکا دیا۔ پھر تم نے ہر قیمت ادا کر کے ریاض کو پا لینے کا تہیہ کر لیا۔ مگر ریاض کے قدم اس دشوار راستے پر لڑکھڑا گئے۔ ابا کی ایک ڈانٹ پر محبت اچھل کر دور جا پڑی اور وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ گیا۔

خط کے آخر میں تم نے اسے خوب ذلیل کیا تھا۔۔۔۔۔ بزدل، تو سمجھتا ہے اس طرح تو نے اپنی محبت کو رسوائی سے بچا کر میری لاج رکھ لی۔ مگر ابھی ہماری محبت شروع ہی کہاں ہوئی تھی، پہلے ہی میری عزت کون سے جھنڈے پر چڑھی بیٹھی تھی۔ میں وہ دے ہی نہ سکی جو میری زندگی کا بلند ترین آدرش ہے۔۔۔۔۔ کاش میں تجھے اس بلندی پر پہنچا سکتی جہاں تک خود میرا ہاتھ بھی نہ جا سکا۔ اب میری روح اس وسیع سمندر میں اس تنکے کو تلاش کرتی پھرے گی۔

تو اب تم اس تنکے کی تلاش میں خوفناک چٹانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ تم۔۔۔۔۔ جو موم کی مورتی کی طرح اپنے خالق کے تخیل کی گرمی سے پگھل سکتی تھیں کسی کی تیز نگاہوں سے سلگ سکتی تھیں، پھر اپنے چاروں طرف چھائی ہوئی بھیانک آگ میں تمہارے قدم کیسے نہیں ڈگمگاتے۔۔۔۔۔؟

دوسرے دن میں نے اطہر کو تمہارے سامنے خوب ڈانٹا۔

"کل تم مجھ سے وعدہ کرنے کے بعد کیوں نہیں آئے؟ کبھی تو تمہیں اپنے وعدے کا خیال کرنا چاہیے۔ میں یہاں انتظار میں بیٹھا رہا اور بقول قدسیہ جناب کسی بار میں پڑے رہے۔"

اطہر کے بیساختہ قہقہے رک گئے اور وہ یوں خاموش ہو گیا جیسے میں نے اسے پھانسی کا حکم سنایا ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بڑا پشیمان سا میرے پاس آیا۔

"اور اس نے میرے متعلق کیا کہا؟ اسے میری عادتوں کی خبر ہے؟ کیا اس نے میری شکایت کی تھی؟ وہ بہت رنجیدہ ہو گی۔۔۔۔۔؟" زندگی میں آج پہلی بار میں نے اطہر کو شرمندہ دیکھا تھا تو وہ بھی کسی کی شکایت سننے تیار تھا اس سے متاثر ہو سکتا تھا۔

"یہ تو نئی نئی بات ہے۔ جبکہ تم ہمیشہ سے فریب دیتے آئے ہو اور قدسیہ ہمیشہ سے فریب کھاتی آئی ہے۔"

"آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں بھائی جان!" اس نے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔

قدسیہ کے بگڑنے میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے وہ بہت بدنصیب لڑکی ہے لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر اسے کچھ نہ دے سکوں تو اس کی بدنامیوں میں اضافے کا سبب بھی نہ بنوں۔ میں سچ مچ بہت برا ہوں اور قدسیہ کو فریب دے کر بھی نقصان ہی میں رہوں گا۔"

وہ باہر چلا گیا اور ایک بار پھر تم میرے سامنے نئی گتھیاں لئے آ گئیں اطہر کون سا راستہ اختیار کر رہا تھا!

وہ بے رحم انسان جو اپنے مفاد کے آگے کسی پر رحم نہ کر سکتا تھا۔۔۔۔۔ تم مجھے ایک کسوٹی نظر آئیں جس پر سونا اور پیتل دونوں واضح شکل میں چمک اٹھتے ہیں۔

دو گناہوں کے اتصال سے اتنا پاک جذبہ بھی وجود میں آتا ہے۔"

پھر تمہاری کہانی کا باقی حصہ میں خود نہ دیکھ سکا، میری مصروفیتیں مجھے کلکتہ کھینچ کر لے گئیں اور وہاں مجھے آندھیرا کے علاقوں میں جانا پڑا اور آندھیرا کی بیدار زندگی اور پرجوش سرگرمیوں نے تمہاری محبت کی نیم مردہ رینگتی ہوئی کہانی بھلا دی اور گھر میں ہونے والے یہ چھوٹے چھوٹے حادثے ذہن کے کسی کونے تھک کر سو گئے۔

ایک بار عائشہ نے لکھا کہ اطہر کی مسلسل نافرمانیوں کے سبب ابا نے اسے عاق کر دیا ہے اور وہ گھر سے چلا گیا ہے اور معلوم ہوا کہ تم اچانک گھر سے غائب ہو گئیں اور کسی نے ایک بار مجھے بتایا کہ تم دونوں اب لکھنؤ میں رہتے ہو۔ چچا ابا اب تمہیں گھر بلانے پر تیار نہیں ہیں۔

اس سے آگے کی کہانی مجھے کسی نے نہیں سنائی مگر اس بات کا منتظر رہا کہ اب اطہر اپنا الو سیدھا کرنے ممبئی لے جائے گا۔ جہاں کئی برسوں تک ٹھوکریں کھانے کے بعد میں تمہیں ایک دن کسی فلم میں دیکھوں گا۔ ہیروئن کے پیچھے، ایکسٹراؤں میں کولھے مٹکاتے ہوئے کوئی آوارہ سا گیت تمہارے لبوں پر ہو گا، جو تمہارے مصنوعی چہرے، چھاتیوں، پنڈلیوں اور کمر کی نمائش کرے گا۔ تم ایک جھوٹ کا خول ہو گی۔ سولائڈ کی گڑیا جس کی ہر جنبش دوسروں کے تابع ہوتی ہے اور تم اپنی خودداری کی لاش پر ناچ رہی ہو گی۔

ایک حد سے زیادہ جذباتی لڑکی کے تخیل کی اڑآن ہمیشہ یوں ہی کھائیوں میں گر کے دم توڑ دیتی ہے۔

مجھے تم دونوں کے نام سے نفرت ہو گئی۔ عائشہ نے ایک بار لکھا بھی تھا کہ قدسیہ وہاں کسی پرائیویٹ اسکول میں نوکر ہو گئی ہے۔ اطہر بیمار ہے اور وہ دونوں بڑی تکلیف کے دن گزار رہے ہیں۔

لیکن میں نے بڑی سختی سے اسے لکھ دیا کہ میں اب قدسیہ کے متعلق کچھ سننا نہیں چاہتا۔

اطہر کی تبدیلی جتنی نفرت انگیز تھی اتنی ہی حیرت انگیز بھی تھی۔۔۔۔۔ وہ کسی کی شادی کی خبر سن کر مذاق اڑایا کرتا تھا۔ ایک ہی راگ مسلسل لوگ کیسے سنے جاتے ہیں۔ میں تو دو ہی دن میں پاگل ہو جاؤں گا۔"

پھر اس نے دو سال تک اس راگ کو کیسے سنا!

امی اپنی قسمت کو رو کر بیٹھ رہیں۔ ان کی زندگی کے دونوں کڑوے پھل گئے۔ میں تو خیر اپنی خطرناک زندگی سے کوئی فیض نہ پہنچا سکتا تھا۔

مگر ابا بھی یہ برداشت نہ کر سکے کہ اطہر کی قسمت اچانک پلٹا کھائے اور وہ کوئی اچھی ملازمت حاصل کر لے۔

پھر امی کے آنسوؤں نے ابا سے خط لکھوا ہی دئیے جس میں اطہر کو اپنی خاندانی عزت اور بےشمار دولت کا واسطہ دیا گیا تھا اور تمہیں اطہر کی محبت کا۔۔۔۔۔ اور آج عائشہ نے لکھا ہے۔

بھائی جان! آپ قدسیہ سے نفرت کرتے ہے۔ آئندہ اس کے متعلق کوئی بات نہیں ہو گی جو میں آپ کو سناؤں گی آج اطہر بھائی کو ابا تنہا گھر لے آئے ہیں۔ قدسیہ معمولی بیماری سے مر چکی ہے۔"

تم زندگی بھر میری عزت کرتی رہیں اور میں تم سے نفرت کرتا رہا۔ یہ ہم دونوں کی اپنی ذہنیت کا قصور ہے۔ ادھر منہ کرو۔۔۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں چمکتے ہوئے آنسو کیا کہہ رہے ہیں؟

کیا سچ مچ تم کسی معمولی بیماری سے مر گئیں! اس چھوٹی سی بیماری کو اپنے نازک جسم پر نہ سہہ سکیں اور اس بیماری کا علاج کسی سے نہ ہو سکا، اطہر سے بھی نہیں۔ مجھ سے بھی نہیں جو تم سے نفرت کرتا رہا۔

تمہیں اپنی شکست پر آنسو نہیں بہانا چاہیئں کیوں کہ تم نے اطہر کو وہ تحفہ دے دیا۔ جس کے لئے تم زندگی بھر سرگرداں رہیں اور چپ چاپ اندھیرے میں کھو گئیں۔۔۔۔۔ اور اب تمہاری روندی ہوئی سسکیاں اور جھلملاتے آنسو ہی مجھے تمہاری موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔۔۔۔۔ تم آج گھٹی گھٹی آہوں اور پیتے ہوئے آنسوؤں سے اس کمرے میں میرے لئے اپنی عزت کا تحفہ لے کر آئی ہو۔۔۔۔۔ مگر میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا کہ جلے ہوئے سگریٹ کو ایش ٹرے میں پھینک کر تمہارے خیال کو بھی ذہن سے جھٹک دوں۔۔۔۔۔

******

ٹائپنگ:  ملک بلال بھائی - اردو محفل
بشکریہ : اردو محفل