مرتضیٰ برلاس لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مرتضیٰ برلاس لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​ ۔ مرتضیٰ برلاس


غزل

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا​

وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے​
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا​

سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں​
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا​

سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو​
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا​

نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے​
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا​


مرتضٰی برلاس​

شکرقندی کا المیہ

شکرقندی کا المیہ
مرتضیٰ برلاس سے معذرت کے ساتھ

سبزیوں کے حلقے میں، ہم وہ کج مقدر ہیں
گاجروں میں مولی ہیں، مولیوں میں گاجر ہیں




سرگوشی: شعر جو تختہء مشق بنا :)

دوستوں کے حلقے میں ہم و کج مقدر ہیں
افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں مرتضیٰ برلاس

غزل ۔ بے حس و کج فہم و لاپروا کہے ۔ مرتضی برلاس

غزل

بے حس و کج فہم و لاپروا کہے
کل مورّخ جانے ہم کو کیا کہے

اس طرح رہتے ہیں اس گھر کے مکیں
جس طرح بہرہ سُنے، گونگا کہے

راز ہائے ضبطِ غم کیا چھپ سکیں
ہونٹ جب خاموش ہوں چہرہ کہے

اس لئے ہر شخص کو دیکھا کیا
کاش کوئی تو مجھے اپنا کہے

ہے تکلّم آئینہ احساس کا
جس کی جیسی سوچ ہو ، ویسا کہے

پڑھ چکے دریا قصیدہ ابر کا
کیا زبانِ خشک سے صحرا کہے

بدگمانی صرف میری ذات سے
میں تو وہ کہتا ہوں جو دنیا کہے

مرتضیٰ برلاس

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ عشّاق کو وہ کوھکنی یاد نہیں کیا ۔ مرتضیٰ برلاس

غزل

عشّاق کو وہ کوھکنی یاد نہیں کیا
اس شہر میں اب کوئی بھی فرہاد نہیں کیا

ملبوس جدا کیوں ہیں ، زبانیں ہیں جدا کیوں
ہم ایک قبیلے کے سب افراد نہیں کیا

ناداں، تُو ہمیں دیکھ کے گرداب میں خوش ہے
سیلاب کی زد پر تری بنیاد نہیں کیا

آنکھیں مری صدیوں سے کرن ڈھونڈ رہی ہیں
اِس ظلمتِ شب کی کوئی معیاد نہیں کیا

اُڑنے کے لئے کر دیا سمتوں کا تعیّن
زنجیر کٹی، پھر بھی ہم آزاد نہیں کیا

پھر جادہ ء پُر پیچ پہ لغزیدہ خرامی
ٹھوکر جو ابھی کھائی تھی وہ یاد نہیں کیا

مرتضیٰ برلاس

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح ۔ مرتضیٰ برلاس

آج کی معروف غزل 

آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح 
جسم سُلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح

لوریاں دی ہیں کسی قُرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح

اس بلندی سے مجھے تونے نوازا کیوں تھا
گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

مجھ سے ملتے ہوئے  یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سما جاؤں گا دھڑکن کی طرح

اب زلیخا کو نہ بدنام کرے گا کوئی 
اس کا دامن بھی دریدہ مرے دامن کی طرح

منتظر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لئے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح

مرتضیٰ برلاس

اپنا تو بس کام یہی ہے سب کے غم اپناتے رہنا ۔ مرتضیٰ برلاس

غزل

اپنا تو بس کام یہی ہے سب کے غم اپناتے رہنا 
اپنے ناخن زخمی کرنا اور گتھی سلجھاتے رہنا

لوگ جو تم کو بادل سمجھیں، بارش کی اُمید کریں 
اور تمھارا کام ہمیشہ  پتّھر ہی برساتے رہنا

ہم ہیں وہ آواز جو گُھٹ کے ساری فضا میں گونج رہے ہیں
بعد ہمارے، آوازوں کو زنجیریں پہناتے رہنا

آج یہ جن دیواروں کے تم روزن بند کیے جاتے ہو
کل کو ان دیواروں سے پھر اپنا سر ٹکراتے رہنا

ہم تو چراغِ اوّلِ شب ہیں، اوّل  بجھ جائیں گے ہم
تم ہی یارو! آخرِ شب تک دیپ سے دیپ جلاتے رہنا


مرتضیٰ برلاس