shairy لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
shairy لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سلیم کوثر کی دو خوبصورت غزلیں


سلیم کوثر شہرِ کراچی کے معروف شاعر ہیں اور اپنا منفرد اسلوب رکھتے ہیں۔  اُن کی شاعری  گہری فکر اور  بسیط خیالات  پر مبنی ہے۔ سلیم کوثر کی شاعری اثر انگیزی  اور غنائیت کا حسین امتزاج ہے یوں تو غزل ہی  سلیم کوثر کی پہچان ہے لیکن اُن کے ہاں نظم بھی بڑے سلیقے سے کہی گئی ہے۔  

آج اُن کے شعری مجموعے "محبت اک شجر ہے" سے دو خوبصورت غزلیں  آپ کی  نظر۔


دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر
دیکھ اب وہ بھی اُتر آیا اداکاری پر

میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر

آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر

کبھی اِس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے
اب تو انعام دیا جاتا ہے غدّاری پر

تیری قربت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے مجھ میں
اس قدر سہل نہ ہو تو مری دشواری پر

مجھ میں یوں تازہ ملاقات کے موسم جاگے
آئینہ ہنسنے لگا ہے مری تیاری پر

کوئی دیکھے بھرے بازار کی ویرانی کو
کچھ نہ کچھ مفت ہے ہر شے کی خریداری پر

بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اُتر آئے ہیں ظالم کی طرف داری پر


اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے  رُت بدلنی تو ہے
خیمہء خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے  رُت بدلنی تو ہے

کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں
بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

دامنِ دل ہو یا سایہ ء چشم و لب، دونوں بارش کی طرح برستے ہوں جب
ایسے عالم میں پھر بھیگ جانے کی  خواہش مچلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

ابر کے سلسلے اور پیاسی زمیں ، آگ بجھتی ہے پانی سے سورج نہیں
کہساروں پہ جمتی ہوئی برف اک دن پگھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

عشق ایجاد ہم سے ہوا ہے سو ہم، اس کے رمز و کنایہ سے واقف بھی ہیں
تیرے بیمار کی یہ جو حالت ہے آخر سنبھلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے

سلیم کوثر

جو سنتا ہوں کہوں گا میں ۔ انور شعورؔ کی دو غزلیں


انور شعور ؔ عہدِ حاضر کے اُن  شعراء میں سے ہیں جن کا کلام اُن کو بہت سے دوسرے ہم عصر شعراء  سے ممتاز کرتا ہے۔ انور شعور کے ہاں جو  بے ساختگی اور  بے باکی ہمیں ملتی ہے وہ دیگر  شعراء میں شاذ ہی نظر آتی ہے ۔ بے باکی کو  اشعار  میں برتنا ، وہ بھی ایسے کہ شعر کا فطری حسن  ، نزاکتِ خیال اور  نغمگی  متاثر نہ ہو، آسان ہرگز نہیں ہے لیکن انور شعور کے ہاں ایسے اشعار جا بجا نظر آتے ہیں اور اُن کی قادر الکلامی پر دلالت کرتے ہیں۔   اُن کی دو خوبصورت غزلیں اہلِ  ذوق کی نذر کی جا رہی ہیں  جو  اپنی مثال آپ ہیں اور انور شعور کی  دل پزیر  شاعری کی  تمثیل بھی ہیں۔


غزل

توفیقِ علم و حلم و شرافت نہیں مجھے
حاصل کسی طرح کی سعادت نہیں مجھے

جب سے سنی ہیں متّقیوں کی کرامتیں
اپنے کیے پہ کوئی ندامت نہیں مجھے

دل چاہتا تو ہے کہ ہَوس کاریاں کروں
لیکن یہ استطاعت و ہمّت نہیں مجھے

خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے

تا حشر حاسدوں کو سلامت رکھے خدا
ان کے طفیل کون سی راحت نہیں مجھے

درپے ہُوا ہی کرتے ہیں کج فہم و کم نظر
ان احمقوں سے کوئی شکایت نہیں مجھے

لکھّی گئی ہیں نامہ ء اعمال میں مرے
جن لغزشوں سے دور کی نسبت نہیں مجھے

کیا کیا ہُوئیں نہ حوصلہ افزائیاں کہ اب
زنہار صبر و ضبط کی طاقت نہیں مجھ

چُپ ہوں کہ بارگاہِ حقیقت پناہ سے
اسرار کھولنے کی اجازت نہیں مجھے

انور شعورؔ

*******

جو سنتا ہوں کہوں گا میں، جو کہتا ہوں سنوں گا میں
ہمیشہ مجلسِ نطق و سماعت میں رہوں گا میں

نہیں ہے تلخ گوئی شیوہ ء سنجیدگاں لیکن
مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں

کم از کم گھر تو اپنا ہے، اگر ویران بھی ہوگا
تو دہلیز و در و دیوار سے باتیں کروں گا میں

یہی احساس کافی ہے کہ کیا تھا اور اب کیا ہوں
مجھے بالکل نہیں تشویش آگے کیا بنوں گا میں

مری آنکھوں کا سونا چاہے مٹی میں بکھر جائے
اندھیری رات! تیری مانگ میں افشاں بھروں گا میں

تساہل ایک مشکل لفظ ہے، اس لفظ کا مطلب
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں، کسی سے پوچھ لوں گا میں

حصول آگہی کے وقت کاش اتنی خبر ہوتی
کہ یہ وہ آگ ہے جس آگ میں زندہ جلوں گا میں

اُداسی کی ہوائیں آج پھر چلنے لگیں؟ اچھا
تو بس آج اور پی لوں، کل سے قطعا` چھوڑ دوں گا میں

کوئی اک آدھ تو ہوگا مجھے جو راس آجائے
بساطِ وقت پر ہیں جس قدر مہرے چلوں گا میں

نہ لکھ پایا ترے دل میں اگر تحریرِ غم اپنی
تری ماتھے پہ اک گہری شکن ہی کھینچ دوں گا میں

کیا ہے گردشوں سے تنگ آ کر فیصلہ میں نے
کہ محنت کے علاوہ چاپلوسی بھی کروں گا میں

اگر اس مرتبہ بھی آرزو پوری نہیں ہوگی
تو اس کے بعد آخر کس بھروسے پر جیوں گا میں

یہی ہوگا، کسی دن ڈوب جاؤں گا سمندر میں
تمناؤں کی خالی سیپیاں کب تک چنوں گا میں

انور شعورؔ



غزل



کوئی مہرباں نہیں ساتھ میں، کوئی ہاتھ بھی نہیں ہات میں
ہیں اداسیاں مری منتظر سبھی راستوں میں جِہات میں

ہے خبر مجھے کہ یہ تم نہیں، کسی اجنبی کو بھی کیا پڑی
سبھی آشنا بھی ہیں روبرو، تو یہ کون ہے مری گھات میں

یہ اداسیوں کا جو رنگ ہے، کوئی ہو نہ ہو مرے سنگ ہے
مرے شعر میں، مری بات میں، مری عادتوں میں، صفات میں

کریں اعتبار کسی پہ کیا کہ یہ شہر شہرِ نفاق ہے
جہاں مسکراتے ہیں لب کہیں، وہیں طنز ہے کسی بات میں

چلو یہ بھی مانا اے ہمنوا کہ تغیّرات کے ماسوا
نہیں مستقل کوئی شے یہاں، تو یہ ہجر کیوں ہے ثبات میں

مری دسترس میں بھی کچھ نہیں ، نہیں تیرے بس میں بھی کچھ نہیں
میں اسیرِ کاکلِ عشق ہوں، مجھے کیا ملے گا نجات میں


محمد احمدؔ

چشمِ خوش خواب، فہمِ رسا چاہیے

غزل

چشمِ خوش خواب، فہمِ رسا چاہیے
اک دریچہ دُروں میں کھلا چاہیے

سر میں سودا بھی ہے، دل میں وحشت بھی ہے
رختِ صحرا نوردی کو کیا چاہیے

ہم ہی دیکھیں کہاں تک تجھے آئینے
اب تجھے بھی ہمیں دیکھنا چاہیے

عیب کیوں ہو گئے میرے سارے ہُنر
اُن کو ساتھی نہیں ، ہمنوا چاہیے

منتظر ریت بھی، بادِ صر صر بھی ہے
بس تماشے کو اک نقشِ پا چاہیے

خامشی ایک دن مجھ سے کہنے لگی
کم سخن ہو بہت، بولنا چاہیے

میں نے سوچا ہے میں ہی وفا کیوں کروں
کیا مجھے اس طرح سوچنا چاہیے؟

محمد احمدؔ

اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے

غزل

اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے
مگر ہم زندگی سے کب لڑے تھے

فرارِ زیست ممکن ہی نہیں تھا
شجر کے پاؤں مٹی میں گڑے تھے

محبت بھی وہی، دنیا وہی تھی
وہی دریا، وہی کچے گھڑے تھے

وہ کب کا جا چکا تھا زندگی سے
مگر ہم بانہیں پھیلائے کھڑے تھے

اور اب تو موم سے بھی نرم ہیں ہم
کوئی دن تھے کہ ہم ضد پر اڑے تھے

رہا سر پر سلامت غم کا سورج
کم از کم اپنے سائے سے بڑے تھے

سراسیمہ سی کیوں تھی ساری بستی
بھنور تو دور دریا میں پڑے تھے

ملا وہ، کہہ رہا تھا خوش بہت ہوں
مگر آنکھوں تلے حلقے پڑے تھے

تو کیا تم نے ہمیں دھوکے میں رکھا
وفا بھی تھی یا افسانے گھڑے تھے

خزاں پہلے پہل آئی تھی اُس دن
وہ بچھڑا تو بہت پتے جھڑے تھے

وفا، مہر و مروت اور یہ دنیا
ہماری عقل پر پتھر پڑے تھے

شبِ فرقت ستارے تھے کہ آنسو
نگینے خلعتِ شب میں جڑے تھے

ہمیں احمد صبا نے پھر نہ دیکھا
کہ ہم برگِ خزاں آسا پڑے تھے

محمداحمد

صحرا صحرا دوپہریں ہیں، بادل بادل شام

خاکسار کی ایک غزل۔ ۔ ۔

غزل

صحرا صحرا دوپہریں ہیں، بادل بادل شام
دل نگری کی رات اداسی، چنچل چنچل شام

ڈالی ڈالی پھول ہیں رقصاں، دریا دریا موج
تتلی تتلی نقش ہیں رنگیں، کومل کومل شام

رنگِ جنوں دل دیوانے پر دید کے پیاسے نین
تیری گلی، تیری دہلیزیں، پاگل پاگل شام

نین ہیں کس کے، یاد ہے کس کی، کس کے ہیں آنسو
کس کی آنکھوں کا تحفہ ہیں، کاجل کاجل شام

رات کی رانی، اوس کا پانی، جگنو ، سرد ہوا
مُسکاتی، خوشبو مہکاتی، جنگل جنگل شام

ڈوبتا سورج، سونا رستہ، آس کے بجھتے دیپ
مایوسی کی گرد میں لپٹی اُتری پل پل شام

رنگ سنہرا، دھوپ سا اُس کا، گیسو جیسے رات
چاند سا اُجلا اُجلا چہرہ، اُس کا آنچل شام

خواب میں جب سے آیا ہے وہ، سوچوں میں گم ہوں
کیا ہو جو تعبیر بتانے آجائے کل شام

احمد کوئی نظم سُناؤ کچھ تو وقت کٹے
تنہا تنہا دل بھی ہے اور بوجھل بوجھل شام

دریا ملے ، شجر ملے ، کوہِ گراں ملے

غزل

دریا ملے ، شجر ملے ، کوہِ گراں ملے
بچھڑے مسافروں کا بھی کوئی نشاں ملے

یہ وصل بھی فریبِ نظر کے سوا نہیں
ساحل کے پار دیکھ زمیں آسماں ملے

ایسی جگر خراش کہاں تھیں کہانیاں
راوی کے رنج بھی تو پسِ داستاں ملے

جانے مسافروں کے مقّدر میں کیا رہا
کشتی کہیں ملی تو کہیں بادباں ملے

جس کو جنوں کی زرد دوپہروں نے چُن لیا
شامِ سکوں ملی ، نہ اُسے سائباں ملے

بارش میں بھیگتی رہی تتلی تمام شب
آئی سحر تو رنگ دھنک میں عیاں ملے

پختہ چھتیں بھی اب کے یقیں سے تہی ملیں
پکے گھروں میں خوف کے کچے مکاں ملے

احمدؔ یہ دل کا شہر تو حیران کر گیا
جھرنے کہیں ملے ، کہیں آتش فشاں ملے

یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید

غزل

یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید
تشنگی بھی سراب ہے شاید

کچھ کسی کو نظر نہیں آتا
روشنی بے حساب ہے شاید

میں سزا ہوں تری خطاؤں کی
تو مرا انتخاب ہے شاید

یہ جسے ہم سکون کہتے ہیں
باعثِ اضطراب ہے شاید

اُس کا لہجہ گلاب جیسا ہے
طنز خارِ گلاب ہے شاید

ہر نئی بار اک نیا پن ہے
وہ غزل کی کتاب ہے شاید

کیا محبت اُسے بھی ہے مجھ سے
مختصر سا جواب ہے "شاید"

میں بھی محرومِ خواب ہوں احمد
وہ بھی زیرِ عتاب ہے شاید