ایک بحر دو غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ایک بحر دو غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

دو شاعر ایک ترنگ ۔ ۲

ایک ہی زمین میں دو معروف شعراء، جاں نثآر اخترؔ اور احمد فرازؔ کی غزلیات پیشِ خدمت ہیں۔ دونوں ہی خوب ہیں اور اپنی مثال آپ ہیں۔

غزلیات

زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں، ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خونِ شہیداں ہم نہ کہتے تھے

علاجِ چاکِ پیراہن ہوا تو اِس طرح ہوگا
سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے

ترانے، کچھ دبے لفظوں میں خود کو قید کرلیں گے
عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے

کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جا کے دفنا دے
اِنھیں سڑکوں پر مرجائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے

نظر لپٹی ہے شعلوں میں، لہو تپتا ہے آنکھوں میں
اُٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے

چھلکتے جام میں بھیگی ہوئی آنکھیں اُتر آئیں
ستائے گی کسی دن یادِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی
اُجڑ جائے گا یہ شہرِ غزالاں ہم نہ کہتے تھے

جاں نثار اخترؔ

******

اماں مانگو نہ اُن سے جاں فگاراں ہم نہ کہتے تھے
غنیمِ شہر ہیں چابک سواراں ہم نہ کہتے تھے

خزاں نے تو فقط ملبوس چھینے تھے درختوں سے
صلیبیں بھی تراشے گی بہاراں ہم نہ کہتے تھے

ترس جائیں گی ہم سے بے نواؤں کو تری گلیاں
ہمارے بعد اے شہرِ نگاراں ہم نہ کہتے تھے

جہاں میلہ لگا ہے ناصحوں کا، غمگساروں کا
وہی ہے کوچۂ بے اعتباراں ہم نہ کہتے تھے

کوئی دہلیزِ زنداں پر کوئی دہلیزِ مقتل پر
بنے گی اس طرح تصویرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

فرازؔ اہلِ ریا نے شہر دشمن ہم کو ٹھہرایا
بس اس کارن کہ مدحِ شہرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

احمد فرازؔ

دو شاعر ایک ترنگ



ایک خوبصورت بحر میں دو بہت اچھی غزلیں آپ کے ذوق کی نظر۔


پہلی غزل سلیم کوثر کی


غزل

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا

اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا

اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کارِ ثواب نہیں ہوتا

مرے چار طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بے تاب نہیں ہوتا

یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا کبھی سچّا خواب نہیں ہوتا

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

مری باتیں جیون سپنوں کی مرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا مجھ سے آداب نہیں ہوتا

سلیم کوثر


اور دوسری غزل جمال احسانی کی

غزل

کب پاؤں فگار نہیں ہوتے، کب سر پر دھول نہیں ہوتی
تری راہ میں چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی

سرِ کوچۂ عشق آ پہنچے ہو لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہاں
کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی

ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کارِ محبت میں
کوئی پل بے کار نہیں جاتا، کوئی بات فضول نہیں ہوتی

ترے وصل کی آس بدلتے ہوئے ترے ہجر کی آگ میں جلتے ہوئے
کب دل مصروف نہیں رہتا، کب جاں مشغول نہیں ہوتی

ہر رنگِ جنوں بھرنے والو، شب بیداری کرنے والو
ہے عشق وہ مزدوری جس میں محنت بھی وصول نہیں ہوتی

جمال احسانی


اور یہ بحر کون سی ہے یہ تو وارث بھائی ہی بتا سکیں گے۔ :)
۔