ہندوستانی شعراء لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ہندوستانی شعراء لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

غزل: زندگی یوں ہوئی بسر تنہا ۔۔۔ گلزار

غزل

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا

رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا

ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا

دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا

ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا

گلزار

 

گلزار ۔ شاعر از ہندوستان

 

نطم : گومگو ۔۔۔ گلزار

گَومَگو

نہ جانے کیا تھا، جو کہنا تھا آج مل کے تجھے
تجھے ملا تھا مگر جانے کہا میں نے
وہ ایک بات جو سوچی تھی تجھ سے کہہ دوں گا
تجھے ملا تو لگا، وہ بھی کہہ چکا ہوں کبھی
کچھ ایسی باتیں جو تجھ سے کہی نہیں ہیں مگر
کچھ ایسا لگتا ہے تجھ سے کبھی کہی ہوں گی
عجیب ہے یہ خیال و جنوں کی کیفیت
ترے خیال سے غافل نہیں ہوں تیری قسم
ترے خیالوں میں کچھ بھول بھول جاتا ہوں

گلزار


گلزار
Gulzar - Urdu Poet

مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے۔ سدھرشن فاکر

سدھرشن فاکر صاحب ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے ایک بہت اچھے شاعر ہیں۔ آپ نے کئی ایک فلمی گیت لکھے ہیں تاہم آپ کے لکھے فلمی گیت بھی محض عامیانہ اور سوقیانہ نہیں ہیں بلکہ آپ کی شاعری میں جذبات و احساسات کی گہرائی موجود ہے اور آپ کے ہاں اظہار کا سلیقہ موجود ہے۔

سدھرشن فاکر صاحب کا ایک گیت جو میں نے بچپن میں سنا تھا اور مجھے پسند بھی رہا ہے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اُمید ہے آپ کو پسند آئے گا۔ ممکن ہے کہ یہ شاعری آپ کو قنوطیت زدہ لگے، تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان زندگی میں طرح طرح کی کیفیات و احساسات سے گزرتا ہے۔ زندگی کے ہر احساس ہر کیفیت کو سجا سنوار کر شاعری میں پیش کردینا بہرکیف ایک ہنر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سدھرشن فاکر صاحب نے اس گیت میں اپنے ہنر کا حق ادا کردیا ہے۔ گیت ملاحظہ فرمائیے۔


مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے
تجھے وہ دل سے بھلا دے تو انتظار کرے

تو پوچھتا پھرے اُس کا پتہ بہاروں سے
جواب تک نہ ملے تجھ کو رہ گزاروں سے
ہر ایک موڑ پہ وہ تجھ کو بے قرار کرے

تو دشمنوں کی محبت میں دوستی ڈھونڈے
غموں کے شہر میں جیسے کوئی خوشی ڈھونڈے
ترا ستم کبھی تجھ کو بھی اشکبار کرے

ترے غرور کی نظریں جھکی جھکی سی رہیں
تیری اُمید کی شمعیں بُجھی بُجھی سی رہیں
اُسے تو پا نہ سکے کوششیں ہزار کرے

مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے
تجھے وہ دل سے بھلا دے تو انتظار کرے

سدھرشن فاکر

*****
 
سدھرشن فاکر
Sudharshan Faakir

 

غزل ۔ اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں ۔ ندا فاضلی

غزل

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رُخ ہواؤں کا جِدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں

پہلے ہر چیز تھی اَپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کِسی دُوسرے گھر کے ہم ہیں

وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کِس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں

چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مُسافر کا نصیب
سوچتے رہتے ہیں کِس راہ گزر کے ہم ہیں

ہم وہاں ہیں جہاں کچھ بھی نہیں رستہ نہ دیار
اپنے ہی کھوئے ہوئے شام و سحر کے ہم ہیں

گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم
ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں

ندا فاضلی


تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے۔ ندا فاضلی

ندا فاضلی ہندوستان کے مشہور معروف شاعرگزرے ہیں۔ اُنہوں نے عمومی غزلیات کے علاوہ فلمی گیت بھی بہت خوب لکھے اور سننے والوں سے خوب خوب داد پائی۔ اُن کی تصنیفات میں "لفظوں کے پھول"، "مور ناچ"، "آنکھ اور خواب کے درمیان میں"، " سفر میں دھوپ تو ہوگی" اور "کھویا ہوا سا کچھ" شامل ہیں۔آج ندا فاضلی کا ایک انتہائی خوبصورت گیت بلاگ پر شامل کر رہا ہوں۔ یہ گیت اپنے بطورِ گیت تو ہر طرح سے لاجواب ہے ہی لیکن اس کی شاعری اس کا اصل گوہر ہے۔

گیت

تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے

یہ آسمان، یہ بادل، یہ راستے، یہ ہوا
ہر ایک چیز ہے اپنی جگہ ٹھکانے سے
کئی دنوں سے شکایت نہیں زمانے سے
یہ زندگی ہے سفر، تُو سفر کی منزل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے

تیرے بغیر جہاں میں کوئی کمی سی تھی
بھٹک رہی تھی جوانی اندھیری راہوں میں
سکون دل کو ملا آ کے تیری بانہوں میں
میں ایک کھوئی ہوئی موج ہوں تُو ساحل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے

تیرے جمال سے روشن ہے کائنات مِری
میری تلاش تیری دل کشی رہے باقی
خدا کرے کہ یہ دیوانگی رہے باقی
تیری وفا ہی میری ہر خوشی کا حاصل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے

ہر ایک شے ہے محبت کے نور سے روشن
یہ روشنی جو نہ ہو زندگی ادھوری ہے
رہِ وفا میں کوئی ہمسفر ضروری ہے
یہ راستہ کہیں تنہا کٹے تو مشکل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہیں

ندا فاضلی

nida Fazli
Nida Fazli


اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا ۔ اُمید فاضلی

غزل

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اُڑانوں سے کٹ گیا

وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا

پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

ڈوبا ہُوا ملا ہے مکینوں کے خون سے 
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا

مل کر جدا ہوا تھا کوئی اور  اُس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا

اُمید فاضلی