ایک شاعر دو غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ایک شاعر دو غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فاطمہ حسن کی دو خوبصورت غزلیں

غزل

زمیں سے رشتۂ دیوار و در بھی رکھنا ہے
سنوارنے کے لیے اپنا گھر بھی رکھنا ہے

ہوا سے آگ سے پانی سے متصل رہ کر
انہیں سے اپنی تباہی کا ڈر بھی رکھنا ہے

مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے

یہ کیا سفر کے لیے ہجرتیں جواز بنیں
جو واپسی کا ہو ایسا سفر بھی رکھنا ہے

ہماری نسل سنورتی ہے دیکھ کر ہم کو
سو اپنے آپ کو شفاف تر بھی رکھنا ہے

ہوا کے رخ کو بدلنا اگر نہیں ممکن
ہوا کی زد پہ سفر کا ہنر بھی رکھنا ہے

نشان راہ سے بڑھ کر ہیں خواب منزل کے
انہیں بچانا ہے اور راہ پر بھی رکھنا ہے

جواز کچھ بھی ہو اتنا تو سب ہی جانتے ہیں
سفر کے ساتھ جواز سفر بھی رکھنا ہے

****
 

کہو تو نام میں دے دوں اسے محبت کا
جو اک الاؤ ہے جلتی ہوئی رفاقت کا

جسے بھی دیکھو چلا جا رہا ہے تیزی سے
اگرچہ کام یہاں کچھ نہیں ہے عجلت کا

دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا

یقین کرنے لگے لوگ رت بدلتی ہے
مگر یہ سچ بھی کرشمہ نہ ہو خطابت کا

سنوارتی رہی گھر کو مگر یہ بھول گئی
کہ مختصر ہے یہ عرصہ یہاں سکونت کا

چلو کہ اس میں بھی اک آدھ کام کر ڈالیں
جو مل گیا ہے یہ لمحہ ذرا سی مہلت کا

فاطمہ حسن


رئیس فروغ کی دو خوبصورت غزلیں

غزل

سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے، ہم اپنے کام سے

نشّے میں ڈگمگا کے نہ چل، سیٹیاں بجا
شاید کوئی چراغ اُتر آئے بام سے

غصّے میں دوڑتے ہیں ٹرک بھی لدے ہوئے
میں بھی بھرا ہُوا ہوں بہت انتقام سے

دشمن ہے ایک شخص بہت، ایک شخص کا
ہاں عشق ایک نام کو ہے ایک نام سے

میرے تمام عکس مرے کرّ و فر کے ساتھ
میں نے بھی سب کو دفن کیا دھوم دھام سے

مجھ بے عمل سے ربط بڑھانے کو آئے ہو
یہ بات ہے اگر، تو گئے تم بھی کام سے

ڈر تو یہ ہے ہوئی جو کبھی دن کی روشنی
اُس روشنی میں تم بھی لگو گے عوام سے

جس دن سے اپنی بات رکھی شاعری کے بیچ
میں کٹ کے رہ گیا شعرائے کرام سے

****

پھول زمین پر گرا، پھر مجھے نیند آگئی
دُور کسی نے کچھ کہا، پھر مجھے نیند آگئی

ابر کی اوٹ سے کہیں، نرم سی دستکیں ہوئیں
ساتھ ہی کوئی در کُھلا، پھر مجھے نیند آگئی

رات بہت ہوا چلی، اور شجر بہت ڈرے
میں بھِی ذرا ذرا ڈرا، پھر مجھے نیند آگئی

اور ہی ایک سمت سے، اور ہی اک مقام پر
گرد نے شہر کو چُھوا، پھر مجھے نیند آ گئی

اپنے ہی ایک رُوپ سے، تازہ سخن کے درمیاں
میں کسی بات پر ہنسا، پھر مجھے نیند آگئی

تُو کہیں آس پاس تھا، وہ ترا التباس تھا
میں اُسے دیکھتا رہا، پھر مجھے نیند آگئی

ایک عجب فراق سے، ایک عجب وصال تک
اپنے خیال میں چلا، پھر مجھے نیند آگئی

رئیس فروغ

چراغ حسن حسرت کی دو خوبصورت غزلیں


اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے چراغ حسن حسرت کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ حسرت طرح دار شاعر و ادیب تھے، آپ کا بنیادی شعبہ صحافت تھا اور مزاح نگاری میں بھی کمال انداز رکھتے تھے۔

ایک بار حسرت سے مشاعرے میں ماہیا سنانے کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے یہ ماہیا سُنایا۔

باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے

بقول راوی مشاعرے میں داد و تحسین سے چھت کا اُڑ جانا کیا ہوتا ہے وہ ہم نے آج دیکھا۔

ہم نے چراغ حسن حسرت کی  دو خوبصورت غزلیں آپ کے لئے منتخب کی ہیں ملاحظہ فرمائیے:



یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا

اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا

ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

****



یہ مایوسی کہیں وجہ سکون دل نہ بن جائے
غم بے حاصلی ہی عشق کا حاصل نہ بن جائے

مدد اے جذب دل راہ محبت سخت مشکل ہے
خیال دورئ منزل کہیں منزل نہ بن جائے

نہیں ہے دل تو کیا پہلو میں ہلکی سی خلش تو ہے
یہ ہلکی سی خلش ہی رفتہ رفتہ دل نہ بن جائے

ہجوم شوق اور راہ محبت کی بلا خیزی
کہیں پہلا قدم ہی آخری منزل نہ بن جائے

چراغ حسن حسرت

جون ایلیا کی دو خوبصورت غزلیں

غزل

زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کُوچ کر گیا کب کا

دکھ کا لمحہ ازل ابد لمحہ
وقت کے پار اتر گیا کب کا

اپنا منہ اب تو مت دکھاؤ مجھے
ناصحو، میں سُدھر گیا کب کا

نشہ ہونے کا بےطرح تھا کبھی
پر وہ ظالم اتر گیا کب کا

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں؟
دل میری جاں، مر گیا کب کا

*****

اے صبح! میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں

کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں

میں جُرم کا اعتراف کر کے
کچھ اور ہے جو چھُپا گیا ہوں

میں اور فقط اسی کی تلاش
اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں

رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں

اے شخص! میں تیری جستجو میں
بےزار نہیں ہوں، تھک گیا ہوں
 
جون ایلیا

واجدہ تبسم کی دو خوبصورت غزلیں


واجدہ تبسم کا نام شاید آپ نے بطورِ افسانہ نگار سنا ہو لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے شعر بھی کہےہیں ۔ تاہم ان کی شاعری انٹرنیٹ پر نظر نہیں آتی۔ واجدہ تبسم اپنے زمانے کی بہت معروف افسانہ نگار رہی ہیں اور انہوں نے کئی ایک معروف افسانے رقم کیے ہیں اور وہ افسانہ نگاروں میں ایک مخصوص مزاج کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ اُن کی کتابوں میں اترن، بند دروازے ، پھول کھلنے دو، جیسے دریا، ساتواں پھیر، اور شہر ممنوع شامل ہیں۔ ذیل میں اُن کی دو غزلیں قارئین کے ذوق کے لئے پیش کی جا رہی ہیں۔


کیسے کیسے حادثے سہتے رہے
پھر بھی ہم جیتے رہے ہنستے رہے

اس کے آ جانے کی امیدیں لیے
راستہ مڑ مڑ کے ہم تکتے رہے

وقت تو گزرا مگر کچھ اس طرح
ہم چراغوں کی طرح جلتے رہے

کتنے چہرے تھے ہمارے آس پاس
تم ہی تم دل میں مگر بستے رہے

****

یا تو مٹ جائیے یا مٹا دیجیے
کیجیے جب بھی سودا کھرا کیجیے

اب جفا کیجیے یا وفا کیجیے
آخری وقت ہے بس دعا کیجیے

اپنے چہرے سے زلفیں ہٹا دیجیے
اور پھر چاند کا سامنا کیجیے

ہر طرف پھول ہی پھول کھل جائیں گے
آپ ایسے ہی ہنستے رہا کیجیے

آپ کی یہ ہنسی جیسے گھنگھرو بجیں
اور قیامت ہے کیا یہ بتا دیجیے

واجدہ تبسم

احسان دانش کی دو خوبصورت غزلیں

احسان دانش کی دو خوبصورت غزلیں

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے

بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لئے

کوئی نسیم کا نغمہ کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لئے

خدا نہ کردہ زمیں پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کے لئے

اتر پڑے ہیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس
سمندروں سے جزیرے نکالنے کے لئے

ترے سلیقۂ ترتیب نو کا کیا کہنا
ہمیں تھے قریۂ دل سے نکالنے کے لئے

کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لئے

یہ شعبدے ہی سہی کچھ فسوں گردوں کو بلاؤ
نئی فضا میں ستارے اچھالنے کے لئے

ہے صرف ہم کو ترے خال و خد کا اندازہ
یہ آئنے تو ہیں حیرت میں ڈالنے کے لئے

نہ جانے کتنی مسافت سے آئے گا سورج
نگار شب کا جنازہ نکالنے کے لئے

میں پیش رو ہوں اسی خاک سے اگیں گے چراغ
نگاہ و دل کے افق کو اجالنے کے لئے

فصیل شب سے کوئی ہاتھ بڑھنے والا ہے
فضا کی جیب سے سورج نکالنے کے لئے

کنوئیں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں اے دانشؔ
کمند تھی جو مناروں پر ڈالنے کے لئے

****

پُرسشِ غم کا شکریہ، کیا تجھے آگہی نہیں
تیرے بغیر زندگی، درد ہے زندگی نہیں

دور تھا اک گزر گیا، نشہ تھا اک اُتَر گیا
اب وہ مقام ہے جہاں شکوہٴ بے رُخی نہیں

تیرے سوا کروں پسند، کیا تیری کائنات میں
دونوں جہاں کی نعمتیں، قیمتِ بندگی نہیں

لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے، وقت نہ وہ خدا دکھائے
جب مجھے ہو یقیں کہ تُو، حاصلِ زندگی نہیں

دل کی شگفتگی کے ساتھ، راحتِ مےکدہ گئی
فرصتِ مہ کشی تو ہے، حسرتِ مہ کشی نہیں

زخم پہ زخم کھا کے جی، اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر، لبوں کو سی، عشق ہے دل لگی نہیں

دیکھ کے خشک و زرد پھول، دل ہے کچھ اس طرح ملول
جیسے تری خزاں کے بعد، دورِ بہار ہی نہیں

احسان دانش

قمر جمیل کی دو خوبصورت غزلیں


قمر جمیل پاکستان کے معروف نقاد، ادیب، شاعر اور اردو ادب میں جدید رجحانات کے بانی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے "خواب نما" اور "چہار خواب" شائع ہوئے ۔ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ "جدید ادب" کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا ۔ انہوں نے "دریافت" کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ وہ ایک طویل عرصہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ انہوں نے کراچی سے نثری نظم کی تحریک کا آغاز کیا اور ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیا۔

قارئینِ بلاگ کے ذوق کے لئے قمر جمیل کی دو غزلیں پیشِ خدمت ہے۔

ایک پتھر کہ دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے

اپنی ناکامیوں پہ آخر کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے

ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے
دن قیامت کے انتظار میں ہے

اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں
اور آئینہ انتظار میں ہے

کچھ ستارے ہیں اور ہم ہیں جمیلؔ
روشنی جن سے رہ گزار میں ہے

✿✿✿✿✿✿✿

خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے

اس کے قدم سے پھول کھلے ہیں میں نے سنا ہے چار طرف
ویسے اس ویران سرا میں پھول کھلانا مشکل ہے

تنہائی میں دل کا سہارا ایک ہوا کا جھونکا تھا
وہ بھی گیا ہے سوئے بیاباں اس کا آنا مشکل ہے

شیشہ گروں کے گھر میں سنا ہے ایک پری کل آئی تھی
ویسے خیال و خواب ہیں پریاں ان کا آنا مشکل ہے

قمر جمیل

افتخار عارف کی دو خوبصورت غزلیں

افتخار عارف کی دو خوبصورت غزلیں

قِصّہ ٴاہلِ جنُوں کوئی نہیں لِکّھے گا
جیسے ہم لِکھتے ہیں، یُوں کوئی نہیں لِکّھے گا

وَحشتِ قلبِ تپاں کیسے لکھی جائے گی!
حالتِ سُوزِ دَرُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

کیسے ڈھہ جاتا ہے دل، بُجھتی ہیں آنکھیں کیسے؟؟
سَر نوِشتِ رگِ خُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

کوئی لِکّھے گا نہیں ، کیوں بڑھی، کیسے بڑھی بات؟؟
کیوں ہُوا درد فزُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا

خلقتِ شہر سَر آنکھوں پہ بِٹھاتی تھی جنہیں 
کیوں ہُوئے خوار و زبُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا

عرضیاں ساری نظر میں ہیں رَجَز خوانوں کی
سب خبر ہے ہمیں، کیُوں کوئی نہیں لِکّھے گا

شہر آشُوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
مَیں ہی لِکُّھوں تو لکُھوں، کوئی نہیں لِکّھے گا! 

بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسِم میں 
کیا کہُوں،کس سے کہُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

✿✿✿✿✿✿✿

دل کو دِیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
خاک ہو جائیں جو رُسوائی کو شُہرت کریں ہم

اِک قیامت کہ تُلی بیٹھی ہے پامالی پر
یہ گُزرلےتوبیانِ قد وقامت کریں ہم

حرف ِ تردید سے پڑ سکتے ہیں سَو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عُمرکے دِن
شام آئی ہے تو کیا ترکِ محُبت کریں ہم

اک ہماری بھی امانت ہے تہ ِ خاک یہاں
کیسے ممکن ہے کہ اس شہر سے ہِجرت کریں ہم

دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دُنیا
صُبح سے پہلے ہر اِک خواب کو رُخصت کریں

شوق ِآرائش ِ گل کایہ صلہ ہے کہ صبا
کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم

عُمر بھر دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ
کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم


افتخار عارف

ٰImage Credit : Urdu Mehfil

حسرت موہانی کی دو خوبصورت غزلیں

حسرت موہانی کی دو خوبصورت غزلیں

ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے
محبت میں بتا اے ضبط غم ایسا بھی ہوتا ہے

بھلا دیتی ہیں سب رنج و الم حیرانیاں میری
تری تمکین بے حد کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے

جفائے یار کے شکوے نہ کر اے رنج ناکامی
امید و یاس دونوں ہوں بہم ایسا بھی ہوتا ہے

مرے پاس وفا کی بدگمانی ہے بجا تم سے
کہیں بے وجہ اظہار کرم ایسا بھی ہوتا ہے

تری دل داریوں سے صورت بیگانگی نکلی
خوشی ایسی بھی ہوتی ہے الم ایسا بھی ہوتا ہے

وقار صبر کھویا گریہ ہائے بے قراری نے
کہیں اے اعتبار چشم نم ایسا بھی ہوتا ہے

بدعوائے وفا کیوں شکوہ سنج جور ہے حسرتؔ
دیار شوق میں اے محو غم ایسا بھی ہوتا ہے

*******

ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے

ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا مجھے

ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے

رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے

رکھیے نہ مجھ پہ ترک محبت کی تہمتیں
جس کا خیال تک بھی نہیں ہے روا مجھے

کافی ہے ان کے پائے حنابستہ کا خیال
ہاتھ آئی خوب سوز جگر کی دوا مجھے

کیا کہتے ہو کہ اور لگا لو کسی سے دل
تم سا نظر بھی آئے کوئی دوسرا مجھے

بیگانۂ ادب کیے دیتی ہے کیا کروں
اس محو ناز کی نگۂ آشنا مجھے

اس بے نشاں کے ملنے کی حسرتؔ ہوئی امید
آبِ بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے

مولانا حسرت موہانی

اجمل سراج کی دو خوبصورت غزلیں



کیا ضروری ہے یہی نالہ و فریاد رہے
ہم تجھے بھول بھی سکتے ہیں،تجھے یاد رہے

یہ خوبصورت شعر اجمل سراج کا ہے۔ اجمل سراج شہرِ کراچی کے خوش فکر سخنور ہیں اور شاعری میں اپنا نمایاں اسلوب رکھتے ہیں۔ اُن کی شاعری  کی کھیتی معنی آفرینی اور تازہ کاری سے  لہلہاتی نظر آتی ہے۔  چھوٹی چھوٹی باتوں کو  بڑا بنا دینے کا فن اُنہیں خوب آتا ہے۔ اُن کا مشہورِ زمانہ شعر دیکھیے:

اُس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا۔۔۔


اجمل سراج کی دو خوبصورت غزلیں آج احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نظر کی جا رہی ہیں۔ 

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں

نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے
ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں

جو دیکھتا ہے ،کسی کو نظر نہیں آتا
جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں

نظر جہان پہ ٹھہرے تو کس طرح ٹھہرے
اس آئنے میں کوئی عکسِ دل رُبا  ہی نہیں

لئے پھرا ہوں نہ جانے کہاں کہاں اِس کو
مگر یہ دل ہے کہ وہ راہ بھولتا ہی نہیں

وہ خواب ہوں جو کسی کو نظر نہیں آتا
وہ آئنہ ہوں جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں

سُنا ہے ہجر بہت بے قرار کرتا ہے
ہمارے ساتھ تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں

******
یہ خطّہء  آراستہ، یہ شہرِ جہاں تاب
آ جائے گا ایک روز یہ ساحل بھی تہہِ آب

تصویرِ عمل، ذوقِ سفر، شوقِ فنا دیکھ
اک موج کہ ساحل کی طلب میں ہوئی سیماب

شاید یہ کوئی ریز ہ ٴ دل ہے کہ سرِ چشم
مانندِ مہ وہ مہر چمکتا ہے تہہِ آب

اک عمر ہوئی پستیِ ظلمت میں پڑا ہوں
دیکھو مجھے میں  ہوں وہی ہم قریہ ٴ مہتاب

دنیا تو نہیں ہے مگر آغوشِ طلب میں
اک بھولی ہوئی  شکل ہے کچھ ٹوٹے ہوئے خواب

جُز دیدہ ٴ دل کون تجھے دیکھ سکے ہے
محروم تری دید سے ہے منبر و محراب

اے ناظرِ ہر ذرّہ تری ایک نظر کو
آنکھیں ہیں سو بے نور ہیں، دل ہے سو ہے بے تاب

اجمل سراج

پیرزادہ قاسم کی دو خوبصورت غزلیں



سفر نصیب ہیں ہم کو سفر میں رہنے دو
سفالِ جاں کو کفِ کوزہ گر میں رہنے دو

ہمیں خبر ہے کسے اعتبار کہتے ہیں
سخن گروں کو صفِ معتبر میں رہنے دو

تمھاری خیرہ سری بھی جواز ڈھونڈے گی
بلا سے کوئی بھی سودا ہو سر میں رہنے دو

یہ برگ و بار بھی لے جاؤ چُوبِ جاں بھی مگر
نمو کی ایک رمق تو شجر میں رہنے دو

اسیر کب یہ قفس ساتھ لے کے اُڑتے ہیں
رہے جو حسرتِ پرواز پر میں رہنے دو

----

میں سمجھا مری گھٹن مٹانے آیا تھا
وہ جھونکا تو دیا بجھانے آیا تھا

موسمِ گل اُس بار بھی آیا تھا لیکن
کیا آیا بس خاک اُڑانے آیا تھا

چشم زدن میں ساری بستی ڈوب گئی
دریا کس کی پیاس بجھانے آیا تھا

مہر نشاں، زرکار قبا، وہ یار مرا
مجھ کو سنہرے خواب دکھانے آیا تھا

خالی چھتری دیکھ فسردہ لوٹ گیا
بچھڑا پنچھی اپنے ٹھکانے آیا تھا


پیرزادہ قاسم

عبید الرحمٰن عبیدؔ کی دو خوبصورت غزلیں

عبید الرحمٰن عبیدؔ کی دو خوبصورت غزلیں

عبید الرحمٰن عبیدؔ بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ میرے بہت ہی عزیز بھائی بھی ہیں اور میرے شفیق اُستاد بھی ۔ اگر آج میں کچھ ٹوٹے پھوٹے شعر نظم کر لیتا ہوں تو اس کے پیچھے اُنہی کا ہاتھ ہے۔ سچ پوچھیے تو شاعری کی الف ب سے واقفیت مجھے عبید بھائی نے ہی کروائی اور فن ِ شاعری کے رموز اورباریکیوں کو سمجھنے میری ہر ممکن رہنمائی کی۔

شاعری کے علاوہ خاکسار ایک عرصے اُن کے ساتھ مقیم رہا اور اس دوران اُن سے جو شفقت اور محبت  میسر آئی وہ میری زندگی میں کسی نعمت سے کم نہیں ہے اور اگر میں چاہوں بھی تو اُن کی محبتوں کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔

عبید الرحمٰن عبیدؔ کا شعری مجموعہ "جب زرد ہو موسم اندر کا" کے عنوان سے  شائع ہوا۔ جس میں موصوف کی شاعری اور مصوری کے کمالات جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کتاب کا عنوان اس شعر سے اخذ کیا گیا ہے:

جب خواب ہی ساری جھوٹے ہوں ، اور برگِ تمنّا سوکھے ہوں
جب زرد ہو موسم اندر کا ، کیا پھول کھلائیں چہرے پر



منتخب کلام کے سلسلے میں آج محترم عبید الرحمٰن عبیدؔ صاحب کی دو خوبصورت غزلوں کے ساتھ حاضر ہوا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے۔

غزل

اک تھکا ماندہ مسافر، وہی صحرا، وہی دھوپ
پھر وہی آبلہ پائی، وہی رستہ، وہی دھوپ

میں وہی رات، بہ عنوانِ سکوں، سازِ خاموش
تو وہی چاند سراپا، ترا لہجہ وہی دھوپ

پھر کتابوں کی جگہ بھوک، مشقت، محنت
پھر وہی ٹاٹ بچھونا، وہی بچہ، وہی دھوپ

میں شجر سایہ فگن سب پہ عدو ہوں کہ سجن
میرا ماضی بھی کڑی دھوپ تھی فردا، وہی دھوپ

پھر کوئی شیریں طلب، سر میں جنوں کا سودا
وہی سنگلاخ چٹانیں، وہی تیشہ، وہی دھوپ

آسماں چھونے کی خواہش پہ ہے طائر نادم
پھر وہی قیدِ مسلسل، وہی پنجرہ، وہی دھوپ

پھر وہی جلتے مکاں، پھر وہی رقصِ بسمل
اور سورج کا عبیدؔ اب بھی تماشا وہی دھوپ

******
غزل

شب گزیدوں پہ عنایت کی نظر مت کیجے
آپ مختار اگر ہیں تو سحر مت کیجے

ایک دوشیزہ تھکن نام تھا جس کا شاید
کہتی ہی رہ گئی مجھ سے کہ سفر مت کیجے

اَجر دیتے ہُوئے چہرے پہ غرورِ احساں
دیکھیے اتنی بھی توہینِ ہُنر مت کیجے

آگ بھڑکے تو نہیں دیکھتی، گھر کس کا ہے
مانیے میری تو یہ شوقِ شرر مت کیجے

نامناسب ہیں یہ پہرے بھی فصیلِ جاں پر
شاید آجائے کوئی، بند یہ در مت کیجے

میں نے مانا کہ ہے نفرت ہی بدل نفرت کا 
آپ کرسکتے ہیں نفرت بھی مگر، مت کیجے

عبید الرحمٰن عبیدؔ

لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا
ایک  گھر تھا ٹُوٹا پُھوٹا جل گیا

گھر کی دیواریں ہیں آئنہ بدست
خوبرُو لڑکی کا چہرہ جل گیا

شہر والوں نے کبھی پُوچھا نہیں
جل گئی کشتی کہ دریا جل گیا

حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گُل سے دریچہ جل گیا

اُس طرف کی بھی خبر لیجے کبھی
ابر بتلاتے ہیں صحرا جل گیا

آتشِ نا دیدہ ہے یہ ہجر بھی
یُوں بُجھا یہ دل کہ گویا جل گیا

کشتیوں میں آگ لے آئے تھے ہم
اِس لئے عاصمؔ جزیرہ جل گیا 


******

کشتِ اُمّید بارور نہ ہُوئی
لاکھ سورج اُگے سحر نہ ہُوئی

ہم مُسافر تھے دھوپ کے ہم سے
ناز برداریِ شجر نہ ہُوئی

مُجھ کو افسوس ہے کہ تیری طرف 
سب نے دیکھا مِری نظر نہ ہُوئی

گھر کی تقسیم کے سِوا  اب تک 
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہُوئی

نام میرا تو تھا سرِ فہرست 
اتفاقاً مجھے خبر نہ ہُوئی

جانے کیا اپنا حال کر لیتا
خیر گُزری اُسے خبر نہ ہُوئی

لیاقت علی عاصم 

ادا جعفری کی دو خوبصورت غزلیں

ادا جعفری کی دو خوبصورت غزلیں

گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید

اِک ہتھیلی پہ دیا ہے اب تک
ایک سورج نہ بجھا تھا شاید

اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کِھلا تھا شاید

لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہُوا تھا شاید

خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید

تجھ کو بُھولے تو دعا تک بُھولے
اور وہی وقتِ دعا تھا شاید

موجہ ٴ رنگ بیاباں سے چلا
یا کوئی آبلہ پا تھا شاید

رُت کا ہر آن بدلتا لہجہ
ہم سے کچھ پوچھ رہا تھا شاید

کیوں ادا ؔ کوئی گریزاں لمحہ 
شعر سننے کو رُکا تھا شاید


******

حال کُھلتا نہیں جبینوں سے
رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے

رات آہستہ گام اُتری ہے
درد کے ماہتاب زینوں سے

ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے
دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے

کون لے گا شرارِ جاں کا حساب
دشتِ امروز کے دفینوں سے

تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے

آشنا آشنا پیام آئے
اجنبی اجنبی زمینوں سے

جی  کو آرام آ گیا ہے  اداؔ
کبھی طوفاں، کبھی سفینوں سے

اداؔ جعفری

نور بجنوری کی دو خوبصورت غزلیں



روح چٹخی ہوئی، جسم دُرکا ہوا
دستِ سائل بھی، کاسہ بھی ٹوٹا  ہُوا

میرے باہر زمان و مکاں نوحہ گر
میرے اندر کوئی مجھ پہ ہنستا  ہُوا

ہر نظر نیم جاں عقل کے زہر سے
ہر صحیفے میں اک سانپ بیٹھا  ہُوا

وحشیوں کو بگولے اُڑا لے گئے
شہر کی طرح صحرا بھی سُونا  ہُوا

ایک اندھی کرن بین کرنے لگی
قریہ ٴ دل میں شاید سویرا  ہُوا

کوہکن، تیشہ و سنگ سے بے نیاز
قیس، پھولوں کے بستر پہ سویا  ہُوا

اس جنم میں بھی جسموں کی منڈی لگی
اس جنم میں بھی چاہت کا سودا ہُوا

تیر بن کر لگا آج احساس پر
ایک پتّہ ہواؤں میں اُڑتا ہوا


******

سر وہی، سنگ وہی، لذّتِ آزار وہی
ہم وہی، لوگ وہی، کوچہء دلدار وہی

اک جہنّم سے دھکتا ہُوا، تاحدِّ نظر
وقت کی آگ وہی شعلہء رفتار وہی

شیشہ ٴ  چشم  پہ چھایا ہُوا اک زلف کا عکس
قریہ ٴ دار وہی، سایہ ٴ دیوار وہی

عرصہ ٴ  حشر کبھی ختم بھی ہوگا کہ نہیں
وہی انصاف کی میزان، گناہگار وہی

تم سلامت رہو ، یوسف کی ضرورت کیسی
اہلِ فن! آج بھی ہے رونقِ بازار وہی

میں بھی زندہ ہوں ، ترا حُسن بھی تابندہ ہے
چاند سے زخم  وہی، پھول سی مہکار وہی

نورؔ میں اب بھی محبّت کو عبادت جانوں
ہے مرے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار وہی

نور بجنوری

رضی اختر شوق کی دو خوبصورت غزلیں



رضی اختر شوق کی دو خوبصورت غزلیں


ایک ہی  آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ 
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ

وہی میں ہوں، وہی آسودہ خرامی میری
اور ہر سمت وہی دام بچھائے ہوئے لوگ

خواب کیسے کہ اب آنکھیں ہی سلامت رہ جائیں
وہ فضا ہے کہ رہیں خود کو بچائے ہوئے لوگ

تیرے محرم تو نہیں اے نگہِ ناز مگر
ہم کو پہچان کہ ہیں تیرے بُلائے ہوئے لوگ

زندگی دیکھ یہ انداز تری چاہت کا
کن صلیبوں کو ہیں سینے سے لگائے ہوئے لوگ

پھر وہی ہم ہیں وہی حلقہ ٴ یاراں بھی ہے شوقؔ
پھر وہی شہر، وہی سنگ اُٹھائے ہوئے لوگ


******


اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے

خلقتِ شہر یونہی خو ش ہے تو پھر یوں ہی سہی
ان کو پتّھر دے ، مجھے ظرفِ پذیرائی دے 

جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے

تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
کوئی اتنا بھی نہیں طعنہ ٴ رسوائی دے

بارِ دنیا نہ سہی، بارِ صداقت اُٹھ جائے
ناتواں جسم کو اتنی تو توانائی دے

مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے

رضی اختر شوق

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا ۔ رسا چغتائی

شہرِ کراچی کے صاحب ِ طرز شاعر رسا چغتائی کی دو غزلیں آپ کے ذوق کی نظر کی جارہی ہیں۔  رسا کے شعری مجموعوں میں"تیرے آنے کا انتظار رہا" سب سے آخر میں شائع ہوئی  ہے جبکہ اس سے پہلے ان کے چار شعری مجموعے ریختہ، زنجیرِ ہمسائیگی، تصنیف اور چشمہ ٹھنڈے پانی کا کے نام سے آ چکے ہیں۔ 

رسا چغتائی کا مختصر سا تعارف محترم  قمر جمیل کی زبانی بھی  نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔  

رسا چغتائی سید ابو العلا ابولعلائی  سلسلے کے ایک بزرگ عارفی سے بیت ہے۔ والد کا نام مرزا محمود علی بیگ  اور خود اُس کا نام مرزا محتشم علی بیگ ہے۔ یگانہ کی طرح یہ بھی چنگیزی ہے۔ مگر لہجہ میں کڑوا پن نہیں ۔ سوائی ۔ مادھوپور کا رہنے والا یہ شخص ۔ چاروں طرف پہاڑ اور بیچ میں اس کا قصبہ تھا۔ آج بھی  اس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں اور بیچ میں اس کا قصبہ ہے۔ اس کی شاعری قصبے سے طلوع ہونے والے  غمزدہ چاند کی طرح ہے جس کے سامنے ایک بیکراں رات ہے۔ شاعرانہ علم کی بیکراں رات! جس میں اس کے دکھوں کے داغ چاند کے داغوں کی طرح چمکتے ہیں اور چمکتے ہیں نہیں ، ہمارے آس پاس گھومنے لگتے ہیں! اور اندھیروں میں شاعری کی نئی روشنی جنم لیتی ہے۔ شاعری کی نئی روشنی رسا چغتائی کے چہرے پر بھی پڑ رہی ہے۔ 

 پہلی غزل

کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے

نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے

کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی
ہم طرف دار ہوائے راہگُزر کیسے ہوئے

حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے

ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے

**** 

دوسری غزل

خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے

زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے

تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی
جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے

یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے

زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے

قرض ہو تو کوئی ادا کردے
ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جائے

دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے

خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے

میں غریب الدّیار، میرا کیا
موج لے جائے یا ہَوا لے جائے

خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے

**** 

عبیداللہ علیم کی دو خوبصورت غزلیں


عبیداللہ علیم کی دو خوبصورت غزلیں

وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی
عجیب ہی تھی وہ شب، پھر وہ شب نہیں  آئی

جو جسم و جاں سے چلی جسم و جاں تلک پہنچی
وہ موجِ گرمیٔ    رخسار و لب نہیں  آئی

تو پھر چراغ تھے ہم بے چراغ راتوں کے
پلٹ کے گزری ہوئی رات جب نہیں آئی

عجب تھے حرف  کی لذت میں جلنے والے لوگ
کہ خاک ہوگئے خوئے ادب نہیں آئی

جو ابر بن کے برستی ہے روحِ ویراں پر
بہت دنوں سے وہ آوازِ رب نہیں آئی

صدا لگائیں اور اپنا مذاق اُڑوائیں
یہ اہلِ درد پہ اُفتاد کب نہیں آئی

کیا ہے اپنے ہی قدموں نے پائمال بہت 
یہ ہم میں کج کلہی بے سبب نہیں آئی

*******

ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے 
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے

ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارہ کرتے

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دُور آگئے دُنیا سے کنارہ کرتے

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارہ کرتے

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے

جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لئے 
پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارہ کرتے

ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حُسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے


عبید اللہ علیمؔ


شہزاد احمد صاحب کی دو خوبصورت غزلیں


شہزاد احمد صاحب کی دو خوبصورت غزلیں

حال اس کا ترے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے ترا کیا لگتا ہے

یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے

یوں تو ہر چیز سلامت ہے مری دنیا میں
اک تعلق ہے کہ جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے

اے مرے جذبِ دروں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے

جانے میں کون سی پستی میں گرا ہوں شہزاد 
اس قدر دور ہے سورج کہ دیا لگتا ہے۔

***********

جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی

تاروں کی ضیا دل میں اک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی

راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دل میرا
بے حس ہیں تمنائیں، نیند آئی کہ موت آئی

اب دل کو کسی کروٹ آرام نہیں ملتا
اک عمر کا رونا ہے، دو دن کی شناسائی

اک شام وہ آئے تھے، اک رات فروزاں تھی
وہ شام نہیں لوٹی وہ رات نہیں آئی

شہزادؔ احمد

سلیم کوثر کی دو خوبصورت غزلیں


سلیم کوثر شہرِ کراچی کے معروف شاعر ہیں اور اپنا منفرد اسلوب رکھتے ہیں۔  اُن کی شاعری  گہری فکر اور  بسیط خیالات  پر مبنی ہے۔ سلیم کوثر کی شاعری اثر انگیزی  اور غنائیت کا حسین امتزاج ہے یوں تو غزل ہی  سلیم کوثر کی پہچان ہے لیکن اُن کے ہاں نظم بھی بڑے سلیقے سے کہی گئی ہے۔  

آج اُن کے شعری مجموعے "محبت اک شجر ہے" سے دو خوبصورت غزلیں  آپ کی  نظر۔


دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر
دیکھ اب وہ بھی اُتر آیا اداکاری پر

میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر

آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر

کبھی اِس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے
اب تو انعام دیا جاتا ہے غدّاری پر

تیری قربت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے مجھ میں
اس قدر سہل نہ ہو تو مری دشواری پر

مجھ میں یوں تازہ ملاقات کے موسم جاگے
آئینہ ہنسنے لگا ہے مری تیاری پر

کوئی دیکھے بھرے بازار کی ویرانی کو
کچھ نہ کچھ مفت ہے ہر شے کی خریداری پر

بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اُتر آئے ہیں ظالم کی طرف داری پر


اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے  رُت بدلنی تو ہے
خیمہء خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے  رُت بدلنی تو ہے

کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں
بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

دامنِ دل ہو یا سایہ ء چشم و لب، دونوں بارش کی طرح برستے ہوں جب
ایسے عالم میں پھر بھیگ جانے کی  خواہش مچلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

ابر کے سلسلے اور پیاسی زمیں ، آگ بجھتی ہے پانی سے سورج نہیں
کہساروں پہ جمتی ہوئی برف اک دن پگھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

عشق ایجاد ہم سے ہوا ہے سو ہم، اس کے رمز و کنایہ سے واقف بھی ہیں
تیرے بیمار کی یہ جو حالت ہے آخر سنبھلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے

سلیم کوثر