منتخب افسانے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
منتخب افسانے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

افسانہ : عجیب بادشاہ ۔ اشفاق احمد

عجیب بادشاہ
اشفاق احمد

دور جدید کے تیکھے افسانہ نگار اشفاق احمد سے جب پوچھا گیا کہ آپ کی نظر میں آپ کا بہترین افسانہ کون سا ہے تو انہوں نے جوابا لکھا۔ "اپنے افسانوں کے بارے میں کسی ایک کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ یہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے، ایک بہت ہی مشکل بات ہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اپنی ساری تحریریں لایعنی سی نظر آنے لگتی ہیں کہ وہ ایک ایک کر کے ماضی کے متعلق ہو چکی ہوتی ہیں اور ان کا ورود "حال" پر نہیں ہوتا بلکہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔ عجیب بادشاہ" ایک اچھا افسانہ ہے اور میری آرزو ہے کہ جس طرح اپنے زمانے میں ہم نے اسے پڑھ کر لطف لیا تھا آج کے قاری بھی اس سے لطف حاصل کریں۔ یہ میرے اس زمانے کے اچھے افسانوں میں شمار ہوتا تھا۔ آج کی بابت کچھ کہہ نہیں سکتا۔


کراچی کافی ہاوس کی سیڑھیاں اتر کر جب میں اپنی کرائے کی سائیکل کا تالا کھولنے لگا تو کسی نے پیچھے سے آ کر میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ سیدھے کھڑے ہو کر میں اس ہاتھ پر ہاتھ پھیرتا رہا لیکن پتا نہ چلا کہ کون ہے۔ لمبی لمبی مضبوط انگلیاں، پشتِ دست پر سخت بال، بڑھے ہوئے ناخن، سخت گرفت کی وجہ سے کلائی پر ابھری ہوئی نسیں اور سرسوں کے تیل کی سگریٹ میں ملی جلی خوشبو۔ "معظم؟" میں نے کہا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ "قمر؟" لیکن اس مرتبہ بھی کوئی نہ بولا۔ "ممتاز؟" اب بھی ہاتھ میری آنکھوں پر ہی رہا۔
ایک ایک کر کے میں نے اپنے تمام زندہ اور مردہ دوستوں کے نام گنوائے مگر میری آنکھوں سے وہ ہاتھ نہ ہٹھا پھر میں نے اپنا نام لے کر کہا۔ "اب چھوڑئیے صاحب! کہیں غلط فہمی میں تو میری آنکھیں بند نہیں کر رکھیں؟"
اس پر وہ ذرا سا ہنسا اور ہاتھ ہٹآ لیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ زماں میلی سی نیلے رنگ کی اچکن پہنے مسکرا رہا تھا۔ میں اپنی فائل زمین پر پھینک کر اس سے لپٹ گیا۔ پورے بارہ سال ایک دوسرے سے جدا رہنے کی مکافات ہم نے یوں کی کہ دیر تک ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور پڑیوں پر چلنے والے راہ گیر پیچھے مڑ مڑ کر دور تک ہمیں دیکھتے رہے۔ میں نے ٹھوڑی اس کے کندھے پر رگڑتے ہوئے پوچھا۔ "اتنا عرصہ کہاں رہے ظالم؟"
اس نے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ کر کہا۔ "آبادان"
"آبادان؟" میں نے ہٹ کر پوچھا۔
"ہوں۔" زماں نے اپنی اچکن کی جیبوں میں ہاتھ ڈال لئے اور بولا۔ "تم سے جدا ہو کر چند مہینے تو بمبئی میں گزارے۔ اس کے بعد اینگلو ایرانین آئل کمپنی میں ملازم ہو کر آبادان چلا گیا اور اتنا عرصہ وہیں رہا مجھے وہاں سے لوٹے ابھی پورا ایک مہینہ بھی نہیں ہوا۔"
"مگر تم نے آج تک مجھے کوئی خط کیوں نہ لکھا؟" میں نے پوچھا۔
"خط!" اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ یار میں نے لکھا ہی نہیں، کسی کو بھی نہیں لکھا۔ تمہیں معلوم ہے یار! مجھے خط لکھنے کی عادت ہی نہیں۔"
میں نے کہا۔ "یہ کوئی بات نہیں۔ عادت نہیں تو نہ سہی مجھے تو لکھا ہوتا۔"
اس پر وہ مسکرانے لگا اور بولا۔ "اب جو مل گئے ہو تو سارے خط زبانی سنا دوں گا لیکن اس وقت مجھے دیر ہو رہی ہے مجھے اسٹرپٹومائی سین کا پرمٹ لینا ہے اور دفتر ابھی بند ہو جائیں گے۔"
"اسٹرپٹو مائی سین کا پرمٹ؟" میں نے حیرت سے کہا۔
"ہاں!" وہ آہستہ سے بولا ۔ "ڈاکٹر نے یہی دوا تجویز کی ہے۔ اور یار! اچھا بھئی مجھے دیر ہو رہی ہے مجھے اپنا پتہ بتا دو۔"
میں نے ڈائری سے ایک ورق پھاڑ کر اس پر اپنا پتہ لکھ دیا اور اس کے دوسری طرف ایک چھوٹا سا نقشہ بنا کر بھی اسے سمجھا دیا کہ صدر ٹرم جنکشن کے سامنے جو کھلی سڑک ہے اس کے پہلے بائیں موڑ پر ایک مسجد ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک لائبریری ہے اور لائبریری سے چند قدم کے فاصلے پر دائیں ہاتھ کو بنجارا ہوٹل ہے۔ میں اس کے آٹھویں کمرے میں رہتا ہوں۔ زماں چلنے لگا تو میں نے کہا۔ "یار تمہارے چلے جانے کے بعد سیما بھی اچانک غائب ہو گئی اور آج تک اس کا پتہ نہیں چل سکا۔"
"اچھا۔" اس نے بےپروائی سے کہا اور بولا۔ یار یہ لڑکیاں بھی عجیب بادشاہ ہوتی ہیں کہ وقتے یہ سلامے برنجز گاہے بدشنامے خلعت و ہند، لیکن یار! اب مجھے دیر ہو رہی ہے۔ میں شام کو آؤں گا۔ پانچ چھ بجے میرا انتظار کرنا۔"
وہ چلا گیا میں نے سائیکل کا تالا کھولتے ہوئے سوچا۔ اسٹرپٹومائی سین، بادشاہ، لڑکیاں، یہ کیا بات ہوئی؟
زماں اور میں تین سال تک اکٹھے ایک ہی کالج اور ہوسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہے تھے۔ تین سال کی اس چھوٹی سی مدت میں اس نے مجھے کس کس طرح تنک کیا میں بیان نہیں کر سکتا۔ ظالم کا ذہن اچھا تھا امتحان کے قریب آ کر چند دن پڑھائی کرتا تھا اور پاس ہو جاتا تھا۔ مجھے شروع سے رٹنے کی عادت تھی۔ لنگر لنگوٹے کس کے آدھی آدھی رات تک رٹا لگایا کرتا۔ وہ اپنے بستر میں لیٹے لیٹے سگریٹ پیتے ہوئے مجھے اس طرح جاپ کرتے دیکھ کر بہت ہنستا اور اونچے اونچے پشتو کے شعر گانے لگتا۔ بے حد ضدی اور سرپھرا قسم کا آدمی واقع ہوا تھا۔ جو بات جی میں آتی بےسوچے سمجھے کہہ دیتا۔ تمیز کے نام سے بہت چڑتا تھا۔ مانگنا اس کے مذہب میں حرام تھا۔ کسی بات پر منہ سے نہ نکل گئی تو اس کا ہاں میں تبدیل ہونا ممکنات میں سے نہیں تھا تاش کبھی شرط بدے بغیر نہیں کھیلتا تھا اور اگر ہارنے والے کے پاس پیسے نہ ہوئے تو یا تو اس کی کتابیں ضبط ہیں یا پتلون۔ اپنے پاس رقم نہیں تو کھیل میں شریک ہی نہیں ہوتا تھا۔ سگریٹ سلگانے کو ماچس نہیں تو مجھ سے کبھی نہیں مانگی۔ منہ میں سگریٹ دبائے چوس رہا ہے اور سر ہلا رہا ہے میں نے چائے کی دو پیالیاں بنا کر کہا۔ "زماں بھائی! چائے پیو۔"
اس نے آئینے میں اپنا مہاسا بلیڈ سے چھیلتے ہوئے کہا۔ "نہیں۔"
میں نے کہا۔ "تھوڑی سی۔"
اس نے جواب دیا۔ "بھئی نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "بھئی نہیں کا کیا مطلب؟"
جھلا کر بولا۔ "بھئی نہیں کا مطلب یہ کہ نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "وجہ؟"
بولا۔ "نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "نہیں کیا؟"
کہنے لگا۔ "نہیں ہوتی ہے کہ بس نہیں۔"
ایسے آدمی کے ساتھ تین سال گزارنے جہنم ہیں کہ نہیں؟ باکسنگ میں یونیورسٹی چیمئین شپ کا انعام ملا تو اس بات پر اڑ گیا کہ انعام دینے والے سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ اپنی ہمت سے کپ لیا ہے، ہاتھ کیوں ملاؤں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔"
انعام لے کر ہاتھ ملائے بغیر واپس آ گیا۔ ڈاکیے نے ایک بیرنگ خط لا کر کہا۔ "دو آنے دیجیے۔"
اس نے لفافہ دیکھے بغیر جواب دیا۔ "خط واپس کر دو میں نہیں لیتا۔" میں نے پوچھا تو بولا دو آنے نہیں ہیں۔"
میں نے کہا۔ "یار مجھ سے لے لو، پھر لوٹا دینا۔"
پوچھنے لگا ۔ "کیوں لوں؟"
میں نے کہا۔ "اس لئے کہ خط لے سکو۔"
بولا۔ "نہیں میں نہیں لیتا۔"
میں نے نہیں کا لفظ سن کر کہا۔ "ٹھیک ہے شیروں کے پسر شیر ہی ہوتے ہیں جہاں میں۔ بھلا قبلہ گاہی کی طبیعت بھی ایسی ہی ہے؟ اس پر وہ ہنسنے لگا تو میں نے شیر ہو کر کہا۔ "بلاؤں ڈاکئے کو؟" اس نے نفی میں سر ہلایا اور تاش پھینٹنے لگا۔"
کالج میں جب فیس جمع کرانے کا دن آتا دفتر میں ہنگامہ بپا ہو جاتا۔ لڑکیاں اس دھکم پیل میں فیس دینے سے گھبراتی تھیں۔ ان کی فیس لڑکے جا کر داخل کرواتے تھے۔ اس طح ایک مہینے بعد ان کے کھل کر گفتگو کرنے کا اچھا خاصا موقع مل جاتا تھا۔ وہ اپنے پرس سے روپے نکالتیں اور گن کر کسی کلاس فیلو کو دیتیں۔ وہ انہیں گنتا اور یہ ضرور کہتا کہ ایک روپیہ کم ہے۔ اس طرح لڑکی اور لڑکے کے چہرے پر ایک ساتھ ایک سی دو مسکراہٹیں پھیل جاتیں فیس ادا کر کے پھر انہیں حساب دیا جاتا۔ ایک آدھ آنہ یہ کہہ کر رکھ لیا جاتا کہ یہ ہماری سگریٹ کے لئے ہے۔ پھر وہ اکنی کئی دنوں تک اس لڑکی کے سفید چھلے کی طرح دکھائی دیتی رہتی۔ ہاسٹل میں کئی ایسے بامذاق لڑکے بھی تھے جس کے پاس بہت سی ایسی انگوٹھیاں جمع ہو گئیں تھیں۔ ہماری کلاس میں ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی کہ اس مرتبہ سیما اسے فیس لے جانے کے لئے منتخب کرے مگر وہ صرف سلیم کے ہاتھ اپنی فیس دفتر بھجواتی۔ ایک مرتبہ سلیم نہیں تھا تو سیما نے زماں کو ستر روپے دے کر کہا۔ میری فیس داخل کروا دیجئے۔ زماں کچھ کہے بغیر روپے لئے اور سیدھا ہوسٹل چلا آیا۔ سیما برآمدے میں گھنٹے بھر تک رسید کا انتظار کرتی رہی مگر رسید لانے والا تو اپنے کمرے میں گہری نیند سو رہا تھا۔ دوسرے دن زماں نے اکہتر روپے سیما کے ہاتھ پر رکھ کر کہا۔ کل مجھے نیند آ گئی اور میں فیس داخل نہ کروا سکا۔ آپ اپنے روپے لیجیے اور ایک روپیہ فیس کا جرمانہ ہے۔ سیما نے کھینچ کر روپیہ دیوار سے دے مارا۔ زماں نے کہا۔ ایسے تو نہیں ٹوٹے گا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
کالج میں پروفیسر راج سے اس کی جان جاتی تھی یہ پرانی وضع کے معمر پروفیسر تھے۔ چست پاجامہ اچکن پہنے ململ کی پگڑی باندھ کر کالج آتے ایک ہاتھ میں بورڈ صاف کرنے کا ڈسٹر ہوتا اور دوسرے میں چاکوں کا ڈبا۔ دونوں ہاتھ چاک کی سفیدی سے بھرے ہوتے اور اچکن پر بھی جگہ جگہ ان ہاتھوں کے نشان ہوتے۔ زماں کو وہ ہینگ والا کہا کرتے تھے اور یہ انہیں بجائے پروفیسر صاحب کے باباجی کہا کرتا۔ باباجی کے سامنے اس نے کبھی سگریٹ نہیں پیا، اونچے نہیں بولا، ضد نہیں کی اور کسی بات سے انکار نہیں کیا۔
ڈائی نمیکس کی کاپیاں دیکھتے ہوئے وہ زماں کو بلاتے اور اس کا کان پکڑ کر آہستہ آہستہ مسلتے جاتے اور کہتے جاتے۔ "یہ کیا کیا ہینگ والے! یہ کیا کیا۔" زماں کے منہ میں گھنگھنیاں بھری ہیں، آنکھیں نیچی ہیں، جواب دینے کی سکت نہیں۔ اسی طرح کمان بنا کھڑا ہے۔ اگلا صفحہ پلٹ کر باباجی اس کا کان چھوڑ کر پیٹھ ٹھونکتے اور خوش ہو کر کہتے۔ "میرا ہینگ والا ہے لائق، لیکن پاپی پڑھتا نہیں مکے بازی پر جان دیتا ہے۔" پھر اس کی کاپی بند کر کے کہتے۔ "جا میرے لئے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس لا۔" اور زماں فخر سے سر اونچا کر کے دروازے کی طرف یوں بڑھتا جیسے کسی نے دوجہان کی دولت اسے بخش دی ہو۔
ایک مرتبہ سیما اور ساوتری پتہ نہیں کون سی کتاب لائبریری سے لینے گئیں تو لائبریرین نے انہیں بتایا کہ وہ کتاب تو دیر سے زماں صاحب کے پاس ہے۔ وہ سیدھی ہاسٹل پہنچیں میں رٹا لگانے میں مصروف تھا اور زماں حسبِ معمول رضائی چوڑائی کے رخ اوڑھے یوں ہی آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔ سیما نے اندر آ کر کہا۔ "زماں صاحب! وہ کتاب آپ کے پاس ہے؟"
زماں نے آنکھیں کھول کر جواب دیا۔ "اس میز پر پڑی ہے۔" اور پھر کروٹ بدل کر دیوار کی طرف منہ کر لیا۔ میں اپنی چارپائی سے اٹھ کر ان کے ساتھ کتاب تلاش کرنے لگا لیکن وہ نہ ملی۔ سیما نے پھر کہا۔ "مسٹر زماں! کتاب تو یہاں نہیں ہے؟"
زماں نے اسی طرح لیٹے لیٹے جواب دیا۔ "یہیں کہیں ہو گی۔ پرسوں تواسی میز پر پڑی تھی۔" سیما اور ساوتری نے اس بدتمیزی پر احتجاجا تلاش بند کر دی اور منہ پھلائے چلی گئیں۔
میں نے کہا۔ "یار عجیب احمق ہو۔"
اس نے کہا۔ "ہوں۔" اور پھر سو گیا۔
ایک مرتبہ جب کالج میں ڈرامے کی ریہرسل ہو رہی تھی تو زماں بھی وہاں پہنچ گیا۔ سیما پانی کے جگ کے پاس کھڑی تھی سلیم اپنا مکالمہ بول کر پانی سے حلق تر کرنے آیا تو سیما نے گلاس پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ "اوں ہوں، باہر نل پر جا کر پانی پیجئے، پتہ نہیں کیسے کیسے لوگ ایک ہی گلاس میں پانی پیتے گئے ہیں۔" سلیم اس کی ہمدردی سے بے حد مرعوب ہوا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں شکریہ ادا کر کے باہر نکل گیا۔
زماں نے کہا۔ "مجھے بھی پیاس لگی ہے۔ سیما نے پھر گلاس پر ہاتھ رکھ کر یہی کہا۔ زماں نے گلاس اس کے ہاتھ سے کھینچ کر جگ سے پانی انڈیلا اور غٹ غٹ پی گیا۔ سیما نے کہا۔ "ضدی کہیں کا۔"
زماں نے کہا۔ "وہمی کہیں کی۔" اور ایک مصنوعی ڈکار لے کر ہال سے باہر آ گیا۔ وائی ایم سی اے میں باکسنگ کا مقابلہ ہوا۔ ہمارے کالج کے علاوہ دوسرے کالجوں کے طلبہ بھی یہ مقابلہ دیکھنے آئے۔ زماں کا مقابلہ پنجاب رجمنٹ کے ایک کپتان سے ہوا۔ زماں ہار گیا رنگ سے باہر نکل کر اس نے سیما اور سلیم کو آپس میں باتیں کرتے دیکھا۔ ان کے قریب جا کر زماں نے سیما سے پوچھا۔ "مقابلہ پسند آیا؟"
"بہت!" سیما نے مسکرا کر کہا۔ "مان ٹوٹا! میں کوئی ہارا ہوں؟" اس نے اپنے خون آلود منہ اور چہرے پر پڑے ہوئے نیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "یہ تمغے کامیابی کے بغیر تو نہیں ملتے نا سلیم صاحب!" سلیم صاحب کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ وہ سیما کو لے کر جلدی جلدی سیڑھیاں اتر گیا۔
سردیوں کی ایک تیرہ و تاہ رات کو بارہ بجے کے قریب وہ کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے سر اور بازو پر پٹیاں بندھی تھیں اور ان سے خون رس رہا تھا۔ بتی جلنے سے میں جاگ اٹھا اور اسے اس حالت میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ "کیا ہوا؟" میں نے رضائی پرے پھینک کر پوچھا۔
"کچھ نہیں یار!" اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر منہ میں دبائی اور ماچس میز پر پہلو کے بل کھڑی کر کے دائیں ہاتھ سے اس پر دیا سلائی رگڑنے لگا۔
میں نے کہا۔ "میں جلائے دیتا ہوں۔"
اس نے جھلا کر کہا۔ "آخر کیوں؟ کیا میں اپنی سگریٹ بھی خود نہیں سلگا سکتا؟"
میں نے پھر پوچھا۔ "تم زخمی کیسے ہو گئے؟"
اس نے ہنس کر کہا۔ "جیسے ہوا کرتے ہیں۔ میں حملے کے جواب کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ مجھ پر ایک دم پل پڑا اور چاقو سے کھچاک کھچاک کئی زخم لگا دئیے۔ پھر میں پٹی کروانے اسپتال چلا گیا۔ اسی لئے تو مجھے دیر ہو گئی اور یار! آج دیر سے آنے پر جواب طلبی بھی ہو گی اور جرمانہ بھی۔"
میں نے پوچھا۔ "مگر وہ تھا کون؟"
"مجھے کیا خبر۔" اس نے بستر پر لیٹتے ہوئے کہا۔ "ایسی تاریک رات میں کہیں شکل پہچانی جاتی ہے۔"
"وہ کچھ بولا نہیں؟" میں نے پوچھا۔
"بولا تھا۔"
"کیا کہتا تھا؟"
"میں نہیں بتاتا۔"
میں نے گالی دے کر کہا۔ "تو جا جہنم میں، تجھ سے پوچھتا ہی کون ہے۔"
اس پر وہ ہنسنے لگا اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دیر تک ہنستا رہا۔ بتی بجھا کر اور اپنے بستر میں منہ سر لپیٹ کر میں جی ہی جی میں اسے گالیاں دیتا رہا۔ پھر میں نے رضائی سے منہ نکال کر پوچھا۔ "یار! تم نے اس کی آواز نہیں پہچانی؟"
اس نے جھلا کر کہا۔ "چاچا! میں نے پہلے کبھی اس کی آواز سنی ہوتی تو پہچانتا۔" پھر ہم میں سے کوئی نہ بولا۔
جب دوسرے دن کالج میں ہر ایک نے بار بار اس سے رات کے حادثہ کے متعلق پوچھنا شروع کیا تو اس نے تنگ آ کر ایک نوٹس لگا دیا کہ "پچھلی رات کسی شخص نے مجھے گھائل کیا۔ میں مقابلے کے لئے تیار نہیں تھا اس لئے گہرے زخم آئے پٹی اسی وقت کرائی گئی، اب روبصحت ہوں۔ براہِ کرم کوئی صاحب میری روداد نہ پوچھیں۔ میں اپنی داستان سنا سنا کر تھک گیا ہوں۔" اس کے نیچے اس نے موٹے حروف میں زماں خاں بقلم خود لکھ دیا۔
اس شام میں اسے سائیکل پر بٹھا کر پٹی کروانے اسپتال لے جا رہا تھا کہ راستے میں سیما مل گئی۔ اس نے ہمیں روک لیا اور زماں سے کہنے لگی۔ "مسٹر زماں! میں نے آج آپ کو پٹی بندھے دیکھا تھا لیکن اس کے متعلق پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ کالج سے گھر لوٹتے ہوئے آپ کا اعلان پڑھا تو میرا جی بھی آپ کو تھکا دینے کو چاہا۔ بتائیے کیا ہوا تھا؟"
زماں نے سائیکل کی گدی پر ٹیک لگا کر کہا۔ "کوئی گیارہ بجے کے قریب جب میں اپنے کالج کے پچھواڑے آموں والی سڑک پر جا رہا تھا تو کسی نے میرا نام لے کر پکارا۔ میں رک گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ متوسط قد کا ایک آدمی کمبل پہنے میرے پاس آیا۔ ذرا سی دیر رکا اور پھر ایک دم خنجر سے مجھ پر وار کیا جو میرے بائیں کندھے میں لگا۔ میں نے اس کی ٹھوڑی کو ہٹ کیا مگر چونکہ میرا کندھا زخمی ہو گیا تھا۔ اس لئے ضرب ٹھیک سے نہیں لگی۔ اس نے مجھے نیچے گرا لیا اور پوچھا۔ کیا تم سیما سے محبت کرتے ہو؟ میں نے کہا۔ "ہاں۔"
سیما نے تنک کر پوچھا۔ "آپ نے یہ کیوں کہا؟"
"وہ اس لئے" زماں نے گھنٹی پر انگلی بجاتے ہوئے کہا۔ "کہ اگر میں نہیں کہہ دیتا تو وہ چھوڑ دیتا اور سمجھتا کہ میں نے صرف جان بچانے کے لئے ایسا کیا ہے پھر اس نے خنجر اوپر اٹھا کر کہا۔ اس کا خیال چھوڑ دو نہیں تو تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔ میں نے جواب دیا کہ میں جان سے جائے بغیر اس کا خیال کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ یہ کہتے ہی میں نے پوری طاقت سے اسے پرے دھکیلا اور وہ دور جا گرا۔ سامنے کے چوبارے کی بتی جلی اور وہ بھاگ گیا۔
سیما اس کا جواب دئیے بغیر تیز تیز آنکھوں سے اسے گھورتی ہوئی آگے چلی گئی۔
راستے میں میں نے اس سے پوچھا۔ "تم نے یہ بات مجھے کیوں نہ بتائی؟"
اس نے جواب دیا۔ "چونکہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس لئے۔"
اس واقعے کے تھوڑے عرصے بعد مارچ کے مہینے میں ایک اور عجیب واقعہ رونما ہوا۔ اس وقت ہم لوگ اپنے کمروں کے دروازے کھلے چھوڑ کر اندر ہی سوتے تھے۔ آدھی رات کو کسی نے ہمارے کمرے کے دروازے سے لگ کر سوتے ہوئے زماں پر پستول کے دو فائر کئے۔ ٹیبل لیمپ کا شیڈ ٹوٹ گیا اور میز پر پڑی آکسفورڈ کی ڈکشنری کے بہت سے اوراق گولی چاٹ کر نکل گئی۔
چند دن بعد زماں ہوسٹل سے چلا گیا۔ پھر اس نے کالج آنا بند کر دیا اور مجھے اکیلا چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں چلا گیا آج پورے بارہ سال اسی زماں نے کافی ہاؤس کی سیڑھیوں کے نیچے میری آنکھیں ہاتھ سے ڈھانپ کر گویا پوچھا تھا۔ "میں کون ہوں؟"
میں بنجارہ ہوٹل میں دیر تک اس کا انتظار کرتا رہا۔ سات بج گئے مگر وہ نہ آیا۔ میں اپنے کمرے سے باہر نکل کر برآمدے میں ٹہلنے لگا ہوٹل کے پھاٹک پر زماں ایک بیرے سے میرا پتہ پوچھ رہا تھا۔ میں لپک کر اس کے پاس پہنچا اور اسے اپنے کمرے میں لے آیا۔
گھنٹی بجا کر میں نے بیرے کو بلایا اور زماں سے پوچھا۔ "چائے پیو گے؟"
"نہیں۔" اس نے منہ پھاڑ کر جواب دیا۔
"آخر کیوں؟"
"بس نہیں۔"
جب اس نے "بس نہیں۔" کہا تو میں نے بیرے سے کہا۔ "جاؤ کوئی کام نہیں۔"
میں نے زماں کے قریب کرسی کھینچ کر اسے وہی خبر سنائی کے اس کے چلے جانے کے بعد سیما بھی کہیں روپوش ہو گئی اور آج تک اس کا کوئی کھوج نہ مل سکا۔
"لیکن وہ گئی کہاں یار؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔ "اس کے ماں باپ نے تلاش بھی نہ کی؟"
"کی بھائی! بہت کی، مگر اس کا پتہ ہی نہ چلا۔"
"کمال ہے۔" اس نے اپنے کرتے کی جیب سے ایک بیڑی نکالی اور چوسنے لگا۔ میری طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھ کر کہنے لگا۔ جس رات مجھ پر کسی نے گولی چلائی۔ اس سے اگلے دن سیما مجھے لائبریری میں ملی۔ اس نے مجھے کہا کہ میں شام کو اسے آرام باغ میں ملوں۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے اتنا کہا کہ شام کو بتاؤں گی۔ شام کو ہم کرکٹ گراؤنڈ سے پرے درختوں کے ایک جھنڈ میں بیٹھ گئے۔ سیما نے کہا۔ "زماں! اگر میں تم سے ایک چیز مانگوں تو دو گے؟" میرے منہ سے پتا نہیں کیوں "ضرور" نکل گیا۔ اس نے روہانسی ہو کر کہا۔ مجھے اپنی زندگی دے دیجئے۔ میں نے بازو پھیلا کر جواب دیا۔ "لے لو" تو اس نے کہا۔ "میں اسے لے جا کر جہاں چاہوں رکھوں؟" میں نے کہا۔ "جو چیز تمہاری ہے اس کے رکھ رکھاؤ میں داخل والا میں کون؟" پھر اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور وہ ہاتھ باندھ کر بولی۔ یہاں سے چلے جائیے اپنے گاؤں یا کہیں اور وہ لوگ آپ کو مار ڈالیں گے۔۔۔۔۔۔ آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ سسکیاں بھر کر رونے لگی۔ میں نے کہا۔ "یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا۔ میرے حملہ آور سمجھیں گے میں ڈر کر بھاگ گیا ہوں، میرے دوست کہیں گے میں بزدل تھا اور باکسنگ میں مجھ سے ہارے ہوئے حریف کہیں گے۔ وہ اب ہوتا تو۔۔۔۔۔۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا سیما! خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے تم مجھے اس بات پر مجبور نہ کرو۔" اس نے کہا۔ "تم نے وعدہ کیا تھا اور میں اس کی شہ پر اتنی سی چیز کی فرمائش کی ہے۔ اب تم اس چیز پر اپنا وعدہ قربان کر رہے ہو؟ میں نے تو سنا تھا کہ تمہارے وعدے کبھی نہیں ٹوٹتے۔" میں نے سیما سے وعدہ کر لیا تھا کہ اپنے گاؤں تو نہ جاؤں گا پر بمبئی چلا جاؤں گا۔ وہاں میری برادری کے چند افراد سودی روپے کا لین دین کرتے تھے۔ میں تمہیں بتائے بغیر ان کے پاس پہنچ گیا۔ دن رات مجھے ایک یہی خیال کھائے جا رہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ موت سی چیز سے ڈر کر بھاگ گیا۔ میں نے سیما کو ایک خط لکھا کہ بمبئی کی زندگی سے تنگ آ گیا چکا ہوں اور واپس آنا چاہتا ہوں۔ اب مجھے وعدے کا ذرا بھی پاس نہیں۔ اگر زندگی میں ایک وعدہ ایفا نہ ہو سکا تو کون سی قیامت آ جائے گی۔ میں تمہارے خط کا ایک ہفتے تک انتظار کروں گا اور اس کے بعد میں پھر تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا۔ چار دن گزر گئے خط نہ آنا تھا نہ آیا۔ پانچویں دن سیما خود میرے پاس پہنچ گئی۔ اس نے مجھے کالج کی کتنی ہی دلچسپ خبریں سنائیں۔ تمہارے متعلق بتایا کہ تم نے ایک نیولا پال لیا ہے اور اسے چھپا کر کلاس میں لے آتے ہو۔ باباجی کے بارے میں بتایا کہ میرا نام لے کر بار بار کہتے ہیں کہ وہ پاپی بہت یاد آتا ہے۔ پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ خدا جانے ہم کو یاد بھی کرتا ہے یا نہیں۔ پھر سیما نے کہا کہ میں اس لئے آئی ہوں کہ تم اپنا وعدہ نبھا سکو۔ اب میں عمر بھر تمہارے ساتھ رہوں گی اور تمہیں اپنے قول پر قائم رکھوں گی۔"
"مجھے کسٹم میں ایک معمولی سی نوکری مل گئی اور بھنڈی بازار کی اسی گلی میں ہماری شادی ہو گئی لیکن یار وہ بجھی بجھی سی رہتی اور جب میں دفتر میں ہوتا تو روتی بھی رہتی۔ شام کو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی ہوتیں اور وہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹیں پھیلا پھیلا کر مجھ سے باتیں کرتی۔ پھر ایک دن پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا کہ میرے پیچھے پڑ گئی کہ بمبئی چھوڑ کر کہیں اور دور نکل چلو۔ یوں تو یار میں رات کو اس کے ساتھ تاش کھیل کر اس کے سارے روپے جیت لیا کرتا تھا اور کبھی واپس نہ کرتا۔ پر مجھے اس کے دل کا بڑا خیال تھا۔ اینگلو ایرانین آئل کمپنی میں مستریوں کی جگہ خالی تھی۔ میں نے عرضی دے دی۔ انتخاب ہوا اور ہم آبادان پہنچ گئے اور یار! اب آبادان کی باتیں سناؤں گا تو رات بیت جائے گی مگر کہانی ختم نہ ہو گی۔ وہاں باکسنگ اور ڈائی نمیکس نے بڑا کام دیا۔ مائیکل صاحب ہر مہینے باکسنگ کا ایک مقابلہ کراتے اور میری گیم ضرور دیکھتے۔ ایک سال کے اندر اندر میں ڈپٹی انجینئر ہو گیا۔ سیما کے بڑے ٹھاٹ تھے۔ اس نے ساری ہندوستانی اخباریں اور رسالے اپنے نام جاری کرا رکھے تھے۔ اپنے بنگلے کے باغیچے میں بید کی کرسی ڈال کر دیر تک مطالعہ کرتی رہتی۔ مستریوں اور فٹروں کی بیویاں اور بچے اس کے گرد گھیرا ڈالے اسے طرح طرح کی باتیں سنایا کرتے۔ اس دوران میں ہم نے شاید ہی کوئی فلم چھوڑی ہو۔ ہر روز سینما کا چکر ہو جاتا تھا۔ کبھی کبھار ہم ناراض بھی ہو جاتے تھے لیکن ہر بار میں ہی اسے مناتا۔ وہ اپنے ابا اور امی کو یاد کر کے بہت رویا کرتی تھی۔ مجھ سے یہ بات پتا نہیں کیوں برداشت نہ ہوتی اور یہیں سے جھگڑا شروع ہو جاتا۔ آبادان کی زندگی میں صرف ایک بار اس نے مجھے منایا وہ بھی غیر ارادی طور پر۔ تمہاری تصویر اخباروں میں چھپی تھی وہ اس کی بھی نظر پڑی۔ میں اس وقت ریفائنری کے ایک ہزار فٹ اونچے کولنگ ٹینک پر بیٹھا سرکٹ دیکھ رہا تھا، کہ سیما ٹرالی پر چڑھ کر اوپر میرے پاس پہنچ گئی۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ ان دنوں روٹھی ہوئی تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ وہ بنگلے سے ریفائنری اور پھر فرش سے اتنی اونچی چوٹی پر چڑھ آئی تھی۔ میں سرکٹ کا معائنہ مستریوں پر چھوڑ کر اس کے ساتھ سوار ہو گیا۔ ٹرالی آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگی۔ میں جنگلے کے ایک کنارے بیٹھ گیا تو اس نے میری آستین پکڑ کر کھینچی۔ میں کچھ بولا نہیں۔ پھر اس نے میری کلائی پکڑ لی۔ مجھے اپنی طرف کھینچا اور بولی۔ یہاں نہ بیٹھو۔ میں نے کہا۔ تم تو مجھ سے بولنا ہی نہیں چاہتیں یہاں سے کیوں اٹھاتی ہو؟ اس نے میری دونوں کلائیاں پکڑ کر اپنی طرف کھینچیں اور میرے ساتھ چمٹ کر بولی۔ تم سے نہ بولوں گی تو اور کس کے ساتھ بولوں گی۔ ٹرالی زمین پر پہنچ گئی اور سارے مستریوں اور مزدوروں سے بے خبر وہ مجھ سے اسی طرح چمٹی رہی۔
"ہماری شادی کے پورے چھ سال بعد سہیل پیدا ہوا اور سیما کا اس سے دل لگ گیا۔ اس کے بعد شاید ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ اور یار! میں نے تم سے کہا نا کہ یہ لڑکیاں عجیب بادشاہ ہوتی ہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "سیما اب کہاں ہے؟"
زماں نے جواب دیا۔ پچھلے دسمبر کی ایک شام سہیل اپنے کونونٹ سے ڈرامہ دیکھ کر آیا تو راستے میں اسے بڑی سردی لگی۔ گھر آ کر اس نے اپنی ممی سے کہا مجھے گرم دودھ پلاؤ تو اس نے یہ سوچ کر کہ باورچی دیر لگائے گا خود ہی ایک پیالے میں دودھ ڈال کر اسے اپنے ہیٹر پر رکھ کر پلگ جو لگایا تو اسے شدید برقی صدمہ پہنچا۔ رات تک سارے ڈاکٹر اس کے گرد جمع رہے لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکی۔ سہیل کو اپنی ممی کی موت کا بہت صدمہ ہوا۔ وہ اسی دن سے بیمار ہے کہ سیما کی موت کے بعد مجھے اپنے معاہدے کے مطابق ایک سال اور وہیں رہنا پڑا اور اس عرصے میں سہیل کی حالت بد سے بدتر ہو گئی اور سچی بات تو یہ ہے کہ سیما کے بعد میں اس پر پوری توجہ نہ دے سکا۔ اس دوران میں خوب جی بھر کر برج کھیلی اور سیما کا جمع کیا ہوا روپیہ ہارتا رہا اور اب مجھے یہاں آئے پورا ایک مہینہ بھی نہیں ہوا۔ سہیل کی حالت اب بالکل بگڑ چکی ہے۔ ڈاکٹر نے اسٹرپٹومائی سین کے ٹیکے تجویز کئے ہیں اور آج دوپہر میں اسی کا پرمٹ لینے جا رہا تھا کہ تم مل گئے۔"
"میں نے پوچھا۔ "پرمٹ مل گیا؟"
"ہاں۔" اس نے اپنے کرتے کی بغلی جیب میں ہاتھ ڈال کر خاکی رنگ کا ایک کاغذ نکال کر دکھایا اور بولا۔ "اب تو دکانیں بند ہو گئی ہوں گی صبح ٹیکے خریدوں گا۔"
میں نے کہا۔ "الفنسٹن اسٹریٹ میں ابھی بہت سی دکانیں کھلی ہوں گی۔ ابھی چل کر کیوں نہ لے لیں۔"
زماں نے کہا۔ "اب کل ہی لوں گا۔"
"کل کیوں؟" میں نے پوچھا۔
"بس یار! آج نہیں لوں گا۔"
"نہیں کیوں؟"
"نہیں لوں گا یار! کیوں کیا؟"
"پیسے نہیں؟" میں نے پوچھا۔
"ہیں۔" اس نے خوف زدہ ہو کر کہا۔
"دکھاؤ۔"
"نہیں دکھاتا۔"
میں نے کہا۔ "اچھا تمہاری مرضٰ، یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ تم ہمیشہ سے ضدی اور اپنی ہٹ کے پکے رہے ہو۔ بچے کی جان کے لالے پڑے ہیں اور تم اپنی وضعداری نبھا رہے ہو۔"
اس نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اور بولا۔ "اچھا اب چلتا ہوں کل تم سے ملوں گا۔ دس گیارہ بجے کے قریب۔"
وہ چلا گیا تو میں نے اپنے بٹوے سے سو روپے کا ایک نوٹ نکالا اور پڑیا بنا کر مٹھی میں چھپا لیا۔ پھر میں تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ وہ ہوٹل کے پھاٹک کے پاس ایک دیا سلائی خرید رہا تھا۔ میں نے کہا۔ "ظالم! اتنی لمبی رات درمیان میں ہے۔ گلے تو مل لو۔" جب وہ مجھ سے بغل گیر ہوا تو میں نے سو روپے کا نوٹ چپکے سے اس کی بغلی جیب میں ڈال دیا۔
تھوڑی دور اس کے ساتھ چل کر میں واپس اپنے ہوٹل میں آ گیا اور بیرے سے کہا کہ اگر کوئی صاحب مجھ سے ملنے آئیں تو انہیں کہہ دینا کہ میں یہ ہوٹل چھوڑ کر چلا گیا ہوں اور دیکھو صبح سات بجے ایک وکٹوریا لا کر مجھے جگا دینا میں صبح کی گاڑی سے واپس جا رہا ہوں۔" یہ کہہ کر میں اپنے کمرے میں آیا زماں کے نام ایک خط لکھا اور اسے میز میں ڈال کر سو گیا۔
صبح ساتھ بجے بیرے نے دروازہ کھٹ کھٹانا شروع کر دیا میں نے کہا۔ "جاگ گیا ہوں بھئی تم جاؤ۔"
مگر بیرے نے شاید میری آواز نہیں سنی۔ اسی طرح دروازہ پیٹے چلا گیا۔ جھلا کر میں بستر سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے زماں کھڑا بیڑی پی رہا تھا۔ اس نے ہنس کر کہا۔ "یار عجیب گھوڑے بیچ کر سوتے ہو۔ اس عمر میں ایسی نیند اچھی نہیں ہوتی۔ بھلے مانس صبح اٹھ کر اللہ کا نام لیا کرو۔"
میں نے خفت مٹاتے ہوئے کہا۔ "بھائی! رات کو دیر تک جاگتا رہا۔ اسی لئے آج دیر سے اٹھا ہوں ورنہ اب تو کالج کا وہ لونڈا نہیں رہا۔ "پھر میں نے اس کے ہاتھ سے بیڑی لے کر یوں ہی ایک دو کش لگائے اور پوچھا۔ "سہیل کیسا ہے؟"
اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ "یار! وہ بھی اپنی ممی سے جا ملا۔" پھر اس نے اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور دامن الٹ کر کہا۔ "یار! ذرا دیکھنا۔ کل رات یہاں سے جاتے ہوئے کسی صاحب زادے نے ہماری جیب کاٹ لی جیسے ہم جیبوں میں نوٹ ہی تو ڈالے پھرتے ہیں۔ سالے کو اسٹرپٹومائی سین کے پرمٹ اور تین آنے کے سوا کیا ملا ہوگا۔" کٹی ہوئی جیب سے اس کی زرد زرد انگلیاں چھپکلیوں کے سروں کی طرح باہر جھانک رہی تھیں۔



******
ٹائپنگ:  ملک بلال بھائی - اردو محفل
بشکریہ : اردو محفل

افسانہ : موم کی مریم ۔ جیلانی بانو

موم کی مریم

جیلانی بانو


"موم کی مریم" جیلانی بانو ہی کا نہیں، اردو افسانے کا بھی ایک آبرو مند نمائندہ ہے۔ جیلانی بانو 1935ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے والد شاعر حیرت بدایونی بہ سلسلۂِ ملازمت مقیم تھے۔ دسمبر 1953ء میں پہلا افسانہ لکھا۔ اس کے بعد سے آج تک مسلسل لکھ رہی ہیں اور پاکستان اور بھارت کے معروف ادبی رسائل لے لئے لکھتی ہیں۔ افسانوں کا پہلا مجموعہ "روشنی کے مینار" 1958ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دو اور مجموعے "نروان" اور نغمے کا سفر" شائع ہوئے۔ تین ناولٹ "جگنو اور ستارے" 1964ء میں اور ایک ناول "ایوانِ غزل" 1977ء میں شائع ہوا۔ متعدد ڈرامے بھی لکھے۔ "موم کی مریم" پہلی مرتبہ رسالہ اور ادب لطیف (لاہور) میں چھپا تھا۔


آج بھی اندھیرے میں لیٹا میں خیالی ہیولوں سے کھیل رہا تھا۔

اور جب بھی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ تم نہ جانے کہاں سے نکل آتی ہو۔ جیسے تم نے تاریکی کی کھوکھ سے ہی جنم لیا ہو۔ اور مجبورا مجھے جلے ہوئے سگریٹ کی راکھ کی طرح تمہیں بھی زمین پر جھٹک دینا پڑتا ہے۔

میں نے کبھی تمہارے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ کبھی تمہارے اوپر نظمیں نہیں لکھیں۔ کبھی تمہاری یاد میں تارے نہیں گنے۔ پھر کیوں تمہیں یاد کئے جاؤں۔۔۔۔۔؟

زندگی میں تم سے اتنی دور رہا کہ کبھی اس رنگ و بو کے سیلاب میں غرق نہ ہو سکا جو تمہارے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ ہمارے بیچ میں جھوٹی عقیدت اور مضحکہ خیز احترام کی خلیج حائل رہی۔ پھر آج تم اپنی آہوں اور سسکیوں سے کون سے دبے ہوئے جذبے جگانا چاہتی ہو۔۔۔۔۔؟

آج صبح عائشہ کے خط سے مجھے تمہاری موت کی خبر مل چکی ہے مگر میں اس موت پر اظہار افسوس نہ کر سکا۔ روزانہ جانے کتنے بادل بنا برسے گزر جاتے ہیں۔ کتنے نغے ساز کے اندر ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کتنے انسان ایک لمحہ کی خوشی ڈھونڈتے ڈھونڈتے مر جاتے ہیں۔ پھر تمہاری موت تو میرے سامنے کتنی بار ہو چکی ہے۔ اگر مادی طور پر تم چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آج میرے کمرے میں آ بیٹھی ہو۔

جب سے عائشہ کا خط پڑھا ہے میرے خیالات کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈولتے پھرتے ہیں اور نہ جانے کیوں بہت سی دھندلی دھندلی یادیں جھلملانے لگی ہیں اور اندھیرے اجالے میں بہت سے چہرے غلط ملط ہو گئے ہیں۔

مگر اس وقت تمہارے خیالی وجود سے باتیں نہیں کر رہا ہوں کیوں کہ تمہاری جانی پہچانی سسکیاں مجھ کو تمہاری موجودگی کا یقین دلا رہی ہیں تو میں اسے واہمہ کیسے تصور کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔؟

تمہارا اور اندھیرے کا ہمیشہ کا ساتھ رہا ہے۔ تم زندگی بھر جہاں جہاں بھی گئیں چراغ گل ہوتے گئے۔ تاریکی کے حلقے تمہیں اپنے گھیرے میں اسیر کئے رہے۔ جس طرح مریم کی تصویر کے گرد مصور نے نورل کا ہالہ کھینچ دیا ہے۔ عصمت، تقدس اور معصومیت کی لکیریں جن کے اندر پاک مریم کی روح کو محصور کر دیا گیا ہے۔
اس وقت بھی جب تمہارے سیاہ مستقبل کی طرح کمرے میں تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ تمہارے آنسو یوں چمک رہے ہیں۔ جیسے پر پرامید بحرین نے دریا کی سطح پر چراغوں کی قطار چھوڑ دی ہو۔ میرے کمرے میں تمہارے آنسوؤں نے اجالے کی امید قائم کر رکھی ہے۔۔۔۔۔ ہم مشرق کے مرد صدیوں سے اپنی عیش گاہوں میں تمہارے اشکوں سے چراغاں مناتے آئے ہیں۔۔۔۔۔

تمہارے متعلق لوگوں نے جو کہانیاں مشہور کر رکھی تھیں وہ بالکل سطحی تھیں اور اسی لئے میں نے حقیقت کی سطح پر اتر کر تمہیں سمجھنا چاہا تھا۔۔۔۔۔ تم کیا تھیں! اماوس کی رات کو ٹوٹنے والا ایک ستارہ جو اپنی آخری جھلک سے بہت سے دلوں میں امید کی کرن چمکا کر غائب ہو جائے۔۔۔۔۔ ایک تند لہر جو اپنے زعم میں ساحل کے پرخچے اڑا دینے کے ساتھ خود بھی مٹ گئی ہو۔

آج جب تم اپنے گناہوں کی لمبی فہرست سمیت خود ہی میرے کمرے میں آ گئی ہو۔ تو مجھے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تم ایک عام سی لڑکی ہونے کے باوجود دوسروں سے کس قدر مختلف تھیں۔ تم ایک مسحور کرنے والا جادو بن گئیں تھیں۔ جو کتنے ہی خریداروں کو خرید لایا۔ مگر سونگھا ہوا پھول سمجھ کر سب واپس چلے گئے۔

دوکان دار کے نزدیک وہ چیز کتنی حقیر ہو جاتی ہے جسے گاہک الٹ پلٹ کر پھر دوکان پر رکھ جائے۔۔۔۔۔ شیشے کے کیس میں بند رہنے والی گڑیا۔۔۔۔۔ آج تم اتنی صاف صاف باتیں سن کر حیران کیوں ہو رہی ہو۔ جبکہ تم نے اپنے آس پاس کے شیش محل چکنا چور کر ڈالے تھے۔ اور سماج کی کھینچی ہوئی لکیروں پر چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک بار تم سب لڑکیوں کو آنگن میں دھماچوکڑی مچاتے دیکھ کر امی نے کہا تھا۔

"اونہہ، مت روکو نگوڑی ماریوں کو۔۔۔۔۔ کنواری لڑکیاں برساتی چڑیاں ہوتی ہیں۔ کون جانے کل کس کا ڈولا دروازے پر کھڑا ہو گا۔۔۔۔۔"

اس وقت اخبار پڑھتے پڑھتے میں نے تمہاری زندگی کا پورا فلم دیکھ ڈالا تھا۔ جب تم کسی ناصر یا شاہد کلرک سے بیاہی جاؤ گی اور آنسو پونچھتی ڈولے میں سوار کرائی جاؤ گی۔ پھر ہر سال ایک نئے منے کی پیدائش میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور ساتویں یا آٹھویں ننھے کی پیدائش پر تپ دق کا شکار ہو کر مر جاؤ گی۔ ہر لڑکی انہی لکیروں پر دوڑتی آئی ہے۔ مگر تم نے اپنی انفرادیت کا ایک دوسرا راستہ ڈھونڈنا چاہا جس کی سزا میں موت اور زندگی تم پر حرام ہو گئی۔

تم منجھلے چچا کی دسویں یا گیارہویں اولاد تھیں۔۔۔۔۔ پھر نامراد لڑکی۔۔۔۔۔

"اونہہ، لڑکی ہے تو کیا ہوا نصیب اچھے ہوں۔ لڑکے کون سا فیض پہنچاتے ہیں۔۔۔۔۔ ماں باپ کی موت پر آنسو بہانے والی بیٹی ہی تو ہوتی ہے۔"

اور اپنی موت کے نوحہ گر کے پیدا ہوتے ہی کسی نے تمہیں خوش آمدید نہ کہا۔

اپنے ارد گرد کے اس ماحول نے تمہیں زیادہ حساس بنا دیا۔ حقارت کی نظروں نے خودی کا احساس بیدار کیا اور تم نے کچھ کرنے اور کچھ پانے کی قسم کھا لی۔ تمہارے متعلق بدنامیاں اور سرگوشیاں بڑھتی چلی گئیں۔ جاہل، بددماغ، بدصورت اور مغرور۔ دن بھر تمہیں انہی خطابوں سے یاد کیا جاتا ہے مگر تم ایک ننھی چڑیا کی طرح اترا اترا کر کہتی رہیں۔۔۔۔۔ جو میرے پاس ہے وہ رانی کے محل میں بھی نہیں۔

اسی انانیت پسندی سے تم ایک ایسا شعر بن گئیں جس کے غالب کے شارحین کی طرح ہر ایک نے الگ معنی نکالنے چاہے مگر پھر بھی بہت کم حقیقت کی تہہ تک پہنچ سکے۔

اور میں نے بہت دور ہو کر بھی تمہیں سمجھنا چاہا۔ یہ سچ ہے کہ میں نے دوسرے مردوں کی طرح تمہاری دوشیزگی کی جانب ہاتھ نہیں بڑھایا۔ کبھی اس قدر نزدیک نہیں آیا کہ تمہارے تنفس کی رفتار سے کوئی راز پا سکوں۔ پھر بھی میں نے اس شعر پر کافی ریسرچ کی۔ دماغی لیبارٹی میں دو سال تک تجربے کئے مگر کچھ بھی سمجھ نہ سکا۔

ایک بار مجھے اپنی جانب جھکتے دیکھ کر تم تنے کہا تھا۔

"احمد بھائی! میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں اور یہ نہیں چاہتی کہ کوئلوں کی دلالی میں آپ بھی اپنے ہاتھ کالے کر بیٹھیں۔۔۔۔۔" مگر یہ کتنا بڑا خزینہ ہے کہ تم نے بہت سوں کو کوئلوں کی دلالی سے بچانے کی خاطر اپنے منہ پر کالک مل لی تھی تاکہ ان کے سفید دامن سیاہی سے ملوث نہ ہوں۔۔۔۔۔ تم میری بہت عزت کرتی تھیں۔۔۔۔۔ ایک نوجوان مرد کی، جو تمہارے ذرا سے سہارے پر آگے بڑھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ جس نے تمہاری اٹھارہ سال کی زندگی میں مسلسل فریب دئیے تھے، جس نے تمہیں منزل کے قریب لا کر بھٹکا تھا۔ بدنامی کی کوٹھڑی میں دھکیل کر ہر دروازہ بند کر دیا تھا۔ پھر تم نے اپنی رہی سہی عزت کی دھجیاں بکھیر ڈالیں اور بیچ چوراہے، اپنے سب ظاہری لباس اتار ڈالے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ تم میری عزت کرتی رہیں اور میں تمہیں سمجھنے میں اتنا منہمک ہو گیا کہ جذبات کے انجکشن قطعی بے اثر ہو گئے ورنہ ممکن تھا ایک دن میری خودداری اور عزت تمہارے قدموں میں پڑی بخشش کی طلبگار ہوتی اور تم اطہر کی طرح مجھے ایک چٹان پر چھوڑ کر کہتیں۔

"میں نے تمہیں پانے کے لئے بہت سی ٹھوکریں کھائیں مگر تمہارے چھونے سے پہلے اتنی بلندی پر پہنچ گئی کہ جب تم وہاں پہنچے میں سراب بن چکی تھی۔"

گھبراؤ نہیں۔ تم نے یہ الفاظ اطہر یا ریاض سے خود نہیں کہے۔ مگر آج تک تم نے کون کون سی باتیں زبان سے ادا کی ہیں، تم تو اس گونگی کی طرح ہو جسے اپنا مفہم ہمیشہ عملی طور پر سمجھانا پڑتا ہے۔

صرف اٹھارہ سال کی زندگی میں تم نے اتنی باتیں کیسے کہہ لیں!

بظاہر تم کتنی معمولی لڑکی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کاندھوں تک لہراتے ہوئے بال جن کی باریک باریک آوارہ لٹیں چہرے کے گرد ہالہ سا بنائے کانپتی رہتیں۔ معمولی سا قد، دبلا پتلا دھان پان جسم جیسے تیز ہوا کے جھونکے بھی تمہیں اڑا کر لے جائیں گے۔ جیسے تمہاری جانب ہاتھ بھی بڑھایا تو چھوئی موئی کی طرح کملا جاؤ گی۔ ایک واہمہ سی، ایک ادھورا خاکہ۔ کتنے ہلکے ہلکے تھے تمہارے خد و خال۔ پتلے خمیدہ لب، جو ہمیشہ سرمہری سے بند رہتے۔ ہر چیز کو تجسس سے دیکھنے والی ہمدرد آنکھیں جو اپنے سارے گناہ آشکار کرنے کو تیار رہتیں اور اسی خیال سے بات کرتے وقت بار بار بند ہو جاتیں تا کہ ان کی گہرائیوں کا کوئی پتہ نہ لگا سکے اور لمحہ لمحہ بدلنے والا رنگ، جو کبھی شعلے کی طرح دہکنے لگتا، کبھی راکھ کی طرح سیلا پڑ جاتا۔

اور جب باتیں کرتیں تو تمہارے خدوخال میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ کتنی مشکل بات تھی تمہارے چہرے سے کسی بات کا اندازہ لگانا۔

اس معمولی شکل و صورت ہی نے تو تمہیں گھر میں ایک ناقابل التفات چیز بنا دیا تھا۔ اپنی خوبصورت سعادت مند بہنوں کے مقابلے میں تمہاری کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ خرید و فروخت کے اس بازار میں صرف اچھی صورت والی لڑکی ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔۔۔۔۔ اور یہ خیال چچا اور چچی کے لئے سوہانِ روح تھا۔

مجھے آج سے تین سال پہلے والی جاڑوں کی ایک صبح یاد آ رہی ہے۔

تم اس وقت نہا کر آئی تھیں۔ نسرین اور عائشہ کے ساتھ صحن میں بیٹھی، سویئٹر کا ایک نمونہ بنا بنا کر ادھیڑ رہی تھیں۔ نومبر کی لطیف دھوپ آنگن میں بکھری ہوئی تھی۔ چچی نیچے بیٹھی نئے لحافوں میں دھاگے پرو رہی تھی۔ اس وقت تمہارے گلابی ڈوپٹے، بھیگے بال اور نکھرے ہوئے رنگ کو دیکھ کر بھی مجھے کوئی شعر یاد نہیں آیا، کوئی تشبیہ دماغ میں نہیں ابھری۔ عائشہ، نسرین اور فرزانہ کے فروزاں حسن نے وہاں تمہارے چراغ کو ٹمٹمانے نہیں دیا۔۔۔۔۔ کتنی کمتر تھیں تم اپنی مغرور اور اپنے حسن پر خود ہی مر مٹنے والی بہنوں کے حلقے میں۔۔۔۔۔ اس وقت میں نے سوچا تھا کہ حسن کے اس جھمگٹ میں تمہاری کہانی کتنی مختصر اور پھیکی ہو گی۔

انہی دنوں میں مسلسل بیکاری نے مجھے نئی نئی راہوں سے واقف کر دیا تھا۔ اور گھر سے بہت دور ایک ہڑتال کے سلسلے میں گرفتار ہوا تھا۔ تو عائشہ کا خط پڑھ کر پہلی دفعہ تمہاری جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔۔ تم لڑکیوں کو خط لکھنے کو بھی تو کوئی بات نہیں ملتی۔ عائشہ کے خط بھی اسی کی طرح خوبصورت اور معصوم ہوتے جن میں وہ ابا کی ناراضگی سے لے کر خاندان کی اہم تقریبوں میں آنے والی عورتوں کے کپڑے، زیوروں کے ڈیزائن اور اسکول کی سہیلیوں کے رومان تک۔۔۔۔۔ سب کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتی۔ ساتھ ہی وہ مجھے بھی ایسا ہی مزیدار لمبا خط لکھنے کی ہدایت کرتی۔۔۔۔۔ میری بےوقوف بہن نہیں جانتی تھی کہ میں رومانوں، سرگوشیوں اور رنگینیوں کی دنیا سے کتنی دور تھا۔ مگر وہ میری مسلسل خاموشی کے باوجود ایک ہنگامہ پرور گھر کے کمرے میں بیٹھی، باربار منہ پر جھک آنے والے لٹوں کو پیچھے جھٹک کر لکھتی رہی۔۔۔۔۔ آپ نے ایک اور خبر سنی بھائی جان؟ قدسیہ کے یہاں چھوٹی خالہ امجد بھائی کا پیغام لے کر گئیں تو قدسیہ نے خود آ کر ان سے کہہ دیا کہ وہ امجد سے شادی نہیں کرے گی۔

سنا ہے چچا ابا زہر کھانے والے ہیں اور سارے خاندان میں تھو تھو ہو رہی ہے۔

اس دن بہت دنوں کے بعد جیل کی تنہا کھوٹڑی میں مسکرا سکا۔ اس دلیرانہ جرات پر میں نے غائبانہ طور پر تمہاری پیٹھ ٹھونکی تھی اور کہا تھا کہ جس خول میں ہم اپنے آپ کو لپیٹے ہوئے ہیں وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ رہا ہے۔ جی چاہا کہ فورا چچا ابا کو زہر کی ایک شیشی بھیج دوں تاکہ وہ صرف ارادہ کر کے ہی نہ رہ جائیں۔ تم پھر ایک بار میرے سامنے آئی تھیں۔ جھنجھلا کر سویئٹر ادھیڑتی ہوئی۔

پھر میں اس واقعے کو بھول گیا۔ عائشہ اپنے خطوں میں لکھتی رہی کہ تمہارا اور ریاض کا رومان چل رہا ہے۔۔۔۔۔ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی کوشش مت کرو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے اپنی محبت کو کامیاب بنانے کی کتنی کوشش کی۔ لیکن ریاض تمہارے ہاں کا لے پالک تھا۔ تمہارے دسترخوان کے جھوٹے ٹکڑوں پر پلا تھا۔ پھرچچا ابا کو اس کی سن گن ملی تو ریاض گھر ہی سے نہیں شہر ہی سے نکال دیا گیا۔ اور تم نے بڑے تحمل سے محبت کی اس لاش کو دل کے قبرستان میں دفن کر دینا چاہا۔۔۔۔۔ لیکن شاید ایسا نہ ہو سکا۔ کیوں کہ مردار کھانے والے گدھ، جو ایسے موقعوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، اس لاش کو باہر کھینچ لائے۔ جی بھر کے اس سے لطف اٹھایا اور پھر اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ تمہاری بیماری کو بڑے خوفناک معنی پہنائے گئے۔ یعنی یہ سب ریاض کی امانت کو ٹھکانے لگانے کے بہانے ہیں اور تم اپنے کمرے ہی میں نہیں پڑی رہتیں بلکہ ریاض کے ساتھ فرار ہو چکی ہو۔

یہ باتیں میں نے بہت دور بیٹھ کر سنیں اور ہر بات کو یقین کے خانے میں ڈالتا گیا۔ یہ کوئی ناقابل یقین بات بھی تو نہ تھی۔ بقول عائشہ کے تم اپنی اہمیت کا احساس دلانے کا فیصلہ کر چکی تھیں اور تم نے ساری دنیا کو ٹھکرا کے اپنی من مانی کرنے کا عزم کر لیا تھا۔۔۔۔۔ پھر تم جیسی محبت کی ماری لڑکیاں اس سے زیادہ اپنی اہمیت کا کیا ثبوت دے سکتی ہیں۔۔۔۔۔؟

اس کے بعد جب میں رہا ہو کر گھر آیا تو تم وقت کا ایک اہم موضوع بن چکی تھیں یا عائشہ کے الفاظ میں کچھ کر دکھانے کی دھن میں اپنا رہا سہا وقار بھی کھو بیٹھی تھیں۔

اس دوران میں تم اپنے ماسٹر سے بھی محبت کر چکی تھیں جو تمہیں پڑھانے آتا تھا۔ ایک سیدھا سادھا، خطرناک حد تک شریف انسان، جو اپنی مظلومی اور بےچارگی ظاہر کر کے دوسروں سے رحم کی بھیک مانگتا تھا۔

پہلے اس نے تمہیں شرافت اور عزت کے سبق پڑھائے۔ اپنی بےچارگی اور دکھ کے افسانے سنائے۔ اس کی محبوبہ نے اسے دھوکہ دیا تھا۔ محض غربت کی وجہ سے اسے ٹھکرا دیا تھا (یہ محبوباؤں کے دھوکہ دینے کا دکھڑا بھی کتنا فرسودہ ہو چکا۔) پھر اس کی پیاسی دنیا میں تم نے اپنی ہمدردی کے چند قطرے برسانے چاہے۔ اپنے طرزِ عمل سے اس کا دکھ کم کرنا چاہا۔ اپنے غم کی کہانی بھی اسے سنا ڈالی۔۔۔۔۔ پھر کورس کی کتابوں کو ایک جانب سمیٹ کر تسلی اور تسکین کے سبق پڑھائے جانے لگے۔

پھر تمہارا ماسٹر بیمار ہو گیا اور چچا ابا نے دوسرا ماسٹر رکھنا چاہا تو تم نے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ تم اس ماسٹر سے پڑھنا چاہتی تھیں اور اس کی مزاج پرسی کے لئے اس کے گھر جانے پر مصر تھیں۔

یہ ساری باتیں گھر کے چھوٹے بچوں تک نے مجھے سنائیں۔ میں کیسے یقین کر لوں کہ تمہیں اس ماسٹر سے محبت نہیں تھی، صرف ہمدردی تھی۔ یہ انسانیت کا جذبہ ہی تھا جو تمہیں ایک رات چپکے سے اٹھا کر ماسٹر کے گھر لے گیا اور جب تم ابھی دروازہ ہی کھٹکٹھا رہی تھیں کہ چچا ابا کے ڈنڈے کی ضرب سے بےہوش ہو گئیں۔

پھر مہینوں گھر والے تمہارے سائے سے بھی اچھوتوں کی طرح بچتے پھرے۔ گھر کی لمبی لمبی ناک والی عورتوں نے خاندان میں نکلنا چھوڑ دیا۔ چچا ابا نے وقت سے پہلے پنشن لے لی اور سارے خاندان میں کھڑی ہو کر تم نے اپنی ماں سے کہا کہ امی جو میرا جی چاہے گا کروں گی یا پھر آپ لوگ مجھے مار ڈالئے۔ پھر سب نے دوسری بات سے اتفاق کر لیا۔ یعنی تم مار ڈالی گئیں۔ سب نے تم پر فاتحہ پڑھا۔ لیکن شمیم ماموں اس فاتحے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ دوسرا زخم بھی بھرنے لگا پھر شمیم ماموں کی نازبرداریوں نے اسے مٹا ڈالا تھا۔۔۔۔۔ وہ تم پر بے حد مہربان تھے۔ عائشہ کہتی تھی۔

"شمیم ماموں کی عذرا تو قدسیہ کی کلاس فیلو ہے۔ جیسی ان کی لڑکی ویسی قدسیہ، پھر کیسے ایک لڑکی کو گھل گھل کر مر جانے دیں۔" شمیم ماموں مدتوں سے اپنی بیوی بچوں سے قطع تعلق کر کے اکیلی زندگی گزار رہے تھے۔ صرف اتنی سی بات پر کہ ان کی بیوی کبھی اچھی طرح ساڑھی نہ باندھ سکیں۔

ایک بار مجھے عائشہ نے لکھا تھا کہ تم بہترین ساڑھی باندھنے پر اسکول میں انعام لے چکی ہو۔ وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر تمہیں سیر کرانے لئے جاتے، تمہارے صدقے میں سارا گھر سینما دیکھتا، پکنک پر جاتا۔ تم کوئی اعلیٰ ڈگری لینا چاہتی تھیں اور چچا ابا تمہیں تنہا ہاسٹل میں چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ اس لئے بیچارے شمیم، اپنی وکالت کے بےشمار اہم کام چھوڑ کے، بارہ بارہ بجے رات تک فارسی اور اردو شاعروں کا کلام پڑھاتے اور عشق و تصوف میں ڈوبے ہوئے اشعار کا مطلب تم سے پوچھتے۔

سب کے ٹھکرائے جانے سے پہلے تم خود ہی کسی سے بات کرنا پسند نہ کرتی تھیں۔ دن بھر پلنگ پر اوندھی پڑی نہ جانے کیا سوچا کرتیں۔ کوئی بات نہ کرتا تو شکایت نہ کرتیں۔ شمیم ماموں سر پر ہاتھ پھیرتے تو منع نہ کرتیں۔ ہاتھ پکڑ کے موٹر میں بٹھا دیتے تو بیٹھ جاتیں۔ ممکن ہے تم سے ان کی ویران زندگی نہ دیکھی گئی ہو اور انسانیت کے تقاضے نے مجبور کر دیا ہو۔ مگر تمہاری یہ روش کتنی تعجب خیز تھی۔ ممانی کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا اور سب کی سوالیہ نگاہیں پھر تمہارے چہرے پر گڑ گئیں۔۔۔۔۔ ایک رات جب شمیم ماموں تمہیں پڑھا رہے تھے۔ کمرے میں کچھ شور سا ہوا پھر پھر تم بغیر ڈوپٹے کے بھاگتی ہوئی کمرے میں آئیں اور پلنگ پر گر کر رونے لگیں۔

چچی نے تمہارے کمزور جسم پر اپنی دانست میں بڑے زوردار دھموکے رسید کئے اور بہت سی مرغیاں کڑکڑانے لگیں۔ جواب میں سسکیاں روک کے تم نے بڑی مشکل سے کہا۔

"میں دھر بھی جاؤں سب مجھی کو برا کہتے ہیں۔ مجھے کیا معلوم تھا وہ اتنا کمینہ۔"
اور مجھے ہنسی آ گئی۔۔۔۔۔ کوئی مرد ماموں نہیں ہوتا، ماسٹر نہیں ہوتا، شریف نہیں ہوتا، صرف کمینہ ہوتا ہے۔ جو عورت سے سب کچھ لینے کے بعد بھی اسے جھلملاتے آنسوؤں کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔

شمیم ماموں نے سوچا ہو گا کہ اگر ریاض یا ماسٹر تمہیں کوئی امانت نہ دے سکے تو وہ کیوں نہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ جبکہ وہ کسی رشتے ناتے سے تمہارے فرضی ماموں بھی بنے ہوئے تھے۔

پھر تو ان کی بیوی نے شہر بھر میں یہ خبر عام کر دی کہ تم چاہو تو بیوی بچوں والے بوڑھے مردوں کو بھی بھٹکا سکتی ہو۔ پھر کسی میوزیم میں رکھی ہوئی لاکھوں سال پرانی ممی کی طرح تم ایک نمائش کی چیز بن گئیں۔ لمبی لمبی چھتوں کو پھلانگتی ہوئی یہ بات سارے شہر کا گشت لگا کر تمہارے ماتھے پر چپ گئی۔ عورتیں اور لڑکیاں دور دور سے بچے کولھوں پر ٹکاتے، ناک پر انگلیاں رکھے تمہیں دیکھنے کو آتیں۔ مردوں کی محفلوں میں بلند قہقہوں اور فحش گالیوں کے درمیان تمہارا نام آ جاتا تو خود بھی اس لٹنے والے باغ میں جانے کو طبیعت مچل اٹھتی۔

اطہر اسی مالِ غنیمت کی امید میں آیا تھا۔

میرا چھوٹا بھائی جو اپنی آوارگی کے سبب حوالات تک ہو آیا تھا۔ کالج سے نکال دیا گیا تھا۔ اور متفقہ طور پر یہ طے ہو گیا تھا کہ اسے کوئی اپنی بیٹی نہ دے گا۔ متوسط طبقے کا ایک بےکار نوجوان جس سے لب لوگ مایوس ہو گئے تھے۔

باہر کی تفریحوں کے علاوہ اور بھی کئی لڑکیوں کو جھانسہ دے چکا تھا بلکہ راحت کے متعلق تو مشہور ہے کہ صرف اطہر کی وجہ سے اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے اور ہو میکے میں دن گزار رہی ہے۔

مگر اتنے سیاہ کارناموں کے باوجود تمہاری جانب سے مایوس نہ لوٹا۔

ساری دنیا سے دھتکارا ہوا بےرحم، منہ پھٹ، چیخ چیخ کر باتیں کرنے والا اطہر، جسے ابا روز گھر سے نکال دیتے، امی کوسنے دیتی اور عائشہ اپنی قسمت پر صبر کر کے بیٹھ جاتی۔۔۔۔۔ اگر بہنوں کے بھائی قابل فخر نہ ہوں تو وہ کتنی بدنصیب نظر آتی ہیں۔ خوبصورت کماؤ بھائیوں کے بھروسے پر ہی تو وہ کتنی ہی ناکوں کو اپنے سامنے رگڑوا سکتی ہیں۔ عائشہ کی ساری توجہ مجھ پر مرکوز ہو گئی تھی۔ لڑکیوں کے لئے میری خشک اور بےربط زندگی میں بھی کوئی کشش نہ تھی۔ مگر پھر بھی میری شخصیت کو گھر میں کافی اہمیت دی جاتی تھی۔

تمہاری بارگاہ میں اطہر کو کیسے شرفِ نیاز بخشا گیا۔ یہ بات سب کے لئے حیران کن تھی۔ وہ تو صرف اپنے خوبصورت جسم اور بےباک لہجے سے معرکے سر کرتا تھا اور تم نے ہمیشہ بجھے ہوئے دل اور بیمار ذہن تلاش کئے تھے۔

یہاں پر مجھے اپنی پچھلی ریسرچ بیکار معلوم ہوئی اور اسے اٹھا کر پھینکنے سے پہلے میں نے تم سے راہ رسم بڑھانا چاہی۔ مجھے گھر میں رہنے کا اتفاق بہت کم ہوتا۔ خصوصاً تم سے تو کبھی بےتکلفی سے بات بھی نہ کر سکا تھا۔ اس لئے ایک گھر میں رہنے کے باوجود ہم بہت دور رہتے تھے۔ تم ہمیشہ مجھ سے چھپنا چاہتیں کیوں کہ پہلے دن ہماری ملاقات نے بڑی تلخ فضا پیدا کر دی تھی۔ اس دن ہماری ملاقات ناشتے کی میز پر ہوئی تھی۔ تم شاید میری سنجیدگی کی بات عائشہ سے پہلے ہی سن چکی تھیں اور مجھ تک اپنے کارنامے پہنچانے سے گریز کر رہی تھیں۔ احتیاط سے سر پر پلو ڈالے، نظریں جھکائے یوں بیٹھی تھیں جیسے کسی پادری کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے آئی ہو۔ عائشہ نے میری جانب بڑی بامعنی نظروں سے دیکھ کر کہا تھا۔

"بھائی جان! دیکھیے یہ ہیں قدسیہ۔۔۔۔۔ عائشہ کی طنزیہ نظروں کو تم نے بیچ میں سے ہی پکڑ لیا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر شکستہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔ "تو احمد بھائی جان مجھے پہلے سے ہی جانتے ہیں؟"

اور تم چائے کی پیالی رکھ کر اٹھ گئی تھیں۔

پھر برسات کی ایک شام کو ہلکی ہلکی رم جھم نے موسم بڑا پرکیف بنا دیا تھا۔ بہت دیر تک فیض کی "نقشِ فریادی" پڑھنے کے بعد میں حسبِ عادت سگریٹ کے دھوئیں سے خیالی ہیولے بنا رہا تھا۔

عائشہ، پروین، چھوٹی بھابی اور فرزانہ قریب بیٹھی کیرم کھیل رہی تھیں اور کسی فلم پر زوردار بحث کر رہی تھیں۔ جس میں ایک ہیرو دو لڑکیوں سے محبت کرتا ہے اور ڈائریکٹر ہر بار اس محبت کو سچی محبت بنانے پر مصر ہے۔ عائشہ کے خیال میں یہ محبت کی توہین تھی یا ہیرو کی ابوالہوسی۔

تم ان کے قریب والی کرسی پر بیٹھی، سیاہ ساٹن کے ایک ٹکڑے پر ننھے ننھے آئینے ٹانک رہی تھیں۔ جن کی بہت سی شعاعوں نے مل کر تمہارے چہرے پر مشعلیں سی جلا دی تھیں۔

اپنی رائے کو زیادہ وزنی بنانے کے لئے عائشہ نے مجھ سے پوچھا۔

"آپ بتائیے بھائی جان! کیا محبت ایک بار سے زیادہ کی جا سکتی ہے۔؟"

اور میں نے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا "قدسیہ سے پوچھو۔"

تمہارے ہاتھ کام کرتے کرتے رک گئے۔ چہرے پر جلتی ہوئی مشعلیں بجھ گئیں اور تم گہری شکایت آمیز نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں۔ بھابی اور پروین آہستہ آہستہ ہنسنے لگیں۔ فرزانہ بات کو ٹالنے کے لئے گنگنانے لگی اور عائشہ نے داد طلب نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ پھر میں نے اس خوبصورت شام کا زرتار لباس نوچ کر پھینک دیا۔ رم جھم کا شور مچانے والی بوندیں آنسوؤں کے دھارے بن گئیں فیض کے دل نشیں شعر ہاتھ ملا کر مجھ سے رخصت ہو گئے اور کمرے میں اندھیرا بڑھنے لگا۔

"آج موسم کتنا خوشگوار ہے۔!"

"ہونہہ۔"

"جی چاہ رہا ہے کہیں باہر گھومنے جاؤں۔"

"تو جائیے۔۔۔۔۔" تم حسبِ عادت مختصر جواب دے رہی تھیں۔

"مگر کوئی ساتھ چلنے والا جو نہیں۔ اطہر نے وعدہ کیا تھا مگر نہیں آیا۔ کتنا غیر ذمہ دار اور جھوٹا ہو گیا ہے یہ لڑکا۔"

جان بوجھ کر اطہر کی برائی کر کے میں نے تمہارے چہرے پر کچھ ڈھونڈا۔ تمہاری آنکھیں سامنے کھلی ہوئی کتاب پر تھیں اور ہاتھ ٹیبل کلاتھ کی شکنیں درست کرنے میں مصروف۔ پھر بڑے طنز کے ساتھ تم نے کہا۔

"اتنے سہانے موسم میں تو وہ کسی بار میں بےہوش پڑے ہوں گے۔ آپ لوگ تو انہیں اچھی طرح جانتے ہیں نا۔"

یہ تم کہہ رہی تھیں۔ تم، جس کے متعلق مشہور تھا کہ سارے خاندان کی عزت جوتے کی ناک پر اچھال کر تم اطہر سے شادی کرو گی، سب سے چھپا کر اسے روپے دیتی ہو۔ وہ شراب پی کر آتا ہے تو اس کی پردہ پوشی کرتی ہو۔ اتنے برے انسان پر تمہاری یہ عنایتیں کیوں تھیں جبکہ پچھلی زندگی میں کئی قابلِ اعتبار مرد تمہیں دھوکا دے چکے تھے۔

تمہارے متعلق پھیلی ہوئی بدنامیوں کے درمیان مجھے اپنی یہ رائے بڑی مضحکہ خیز لگی، اسے میں نے اپنے دماغ سے کھرچ دیا۔ تم سب کے لئے ناقابلِ فہم بن گئی تھیں۔ بھول بھلیوں کے پیچیدہ راستوں کی طرح تم نے اپنے گرد مکر و فریب کے جو جال بچھا رکھے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے تم سے نفرت ہو تئی۔ پھر ایک دن بڑی سوچ بچار کے بعد میں کچھ حواس باختہ سا تمہارے کمرے میں آیا۔

"میں تمہارے متعلق کچھ جاننا چاہتا ہوں قدسیہ، اگر تم مجھے اجازت دو تو۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔" اپنی گھبراہٹ پر میں خود متعجب تھا۔ اس دن تمہارے چہرے پر پہلی بار میں نے ڈر کی پرچھائیاں دیکھیں۔ جن پر حیرانی غالب تھی۔ تم یوں کھڑی ہو گئیں جیسے شمیم ماموں تم پر جھپٹنا چاہتے ہیں۔ تم نے ڈوپٹے کو سینے پر سنبھال کر کہا۔

"آپ بھی مجھے جاننا چاہتے ہیں احمد بھائی! میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں۔ پھر آپ کیوں کوئلوں کی دلالی میں اپنے ہاتھ کالے کرنا چاہتے ہیں۔" اور تم پیچھے دیکھے بغیر باہر بھاگ گئیں تھیں۔

ان ہی دنوں اتفاق سے مجھے ایک خط ہاتھ لگا جو تم نے ریاض کو لکھا تھا مگر اسے بھیج نہ سکی تھیں یا شاید اسے بھیجنے کو لکھا ہی نہ ہو۔ کیوں کہ یہ صرف تمہاری روح کی پکار تھی، جس کو ریاض جیسا بےوقوف انسان کبھی نہ سمجھ سکتا۔ اس کی محبت میں تمہاری برتری اور پرستش کا جذبہ غالب تھا۔ اور تم اسے روح کی بلندی کبھی نہ دے سکتی تھیں۔ بارش بہت زوروں کی ہو رہی تھی۔ اور دریچوں سے نیچے گرنے والے قطروں کو بچے ہاتھوں میں روک کر بہت خوش ہو رہے تھے۔ اتنے میں بھابی کا چھوٹا بچہ راشد ناؤ بنوانے کے لئے ایک کاغذ لے کر آیا۔ یہ نیلے کاغذ پر لکھا ہوا ایک لمبا چوڑا خط تھا۔ نیچے تمہارے بہت ہی بگڑے ہوئے دستخط۔ وہ خط راشد تمہاری اٹیچی نے نکال کر لایا تھا۔ اپنی شرافت کا ثبوت دینے کے لئے میں نے اسے واپس رکھوانا چاہا مگر ایک بار پڑھنے سے باز نہ رہ سکا۔

میری جانب ملامت آمیز نظروں سے نہ دیکھو۔۔۔۔۔ ان دنوں میں تم پر ریسرچ کر رہا تھا۔ بیسویں صدی کا ایک نکما انٹلیکچوئل۔۔۔۔۔ تمہارا یہ خط بہت سی ڈھکی چھپی باتوں کو سامنے لے آیا اور میری رائے پھر ڈگمگانے لگی۔

اس خط میں ریاض کو لکھا تھا کہ بچپن سے تم نے ہر دل میں اپنے لئے حقارت اور نفرت پائی اور صرف کسی کی نظر میں برتری حاصل کرنے کا یہ جذبہ ہی تمہیں ریاض کی جانب لے گیا۔ جو تمہاری طرح سب کی جانب سے دھتکارا ہوا دوسرا فرد تھا۔ ریاض کی نیازمندی اور احساس کمتری نے اسے گہرا کر دیا۔ اور گھروالوں کی مخالفت نے اسے جنگل میں لگی ہوئی آگ کی طرح بھڑکا دیا۔ پھر تم نے ہر قیمت ادا کر کے ریاض کو پا لینے کا تہیہ کر لیا۔ مگر ریاض کے قدم اس دشوار راستے پر لڑکھڑا گئے۔ ابا کی ایک ڈانٹ پر محبت اچھل کر دور جا پڑی اور وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ گیا۔

خط کے آخر میں تم نے اسے خوب ذلیل کیا تھا۔۔۔۔۔ بزدل، تو سمجھتا ہے اس طرح تو نے اپنی محبت کو رسوائی سے بچا کر میری لاج رکھ لی۔ مگر ابھی ہماری محبت شروع ہی کہاں ہوئی تھی، پہلے ہی میری عزت کون سے جھنڈے پر چڑھی بیٹھی تھی۔ میں وہ دے ہی نہ سکی جو میری زندگی کا بلند ترین آدرش ہے۔۔۔۔۔ کاش میں تجھے اس بلندی پر پہنچا سکتی جہاں تک خود میرا ہاتھ بھی نہ جا سکا۔ اب میری روح اس وسیع سمندر میں اس تنکے کو تلاش کرتی پھرے گی۔

تو اب تم اس تنکے کی تلاش میں خوفناک چٹانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ تم۔۔۔۔۔ جو موم کی مورتی کی طرح اپنے خالق کے تخیل کی گرمی سے پگھل سکتی تھیں کسی کی تیز نگاہوں سے سلگ سکتی تھیں، پھر اپنے چاروں طرف چھائی ہوئی بھیانک آگ میں تمہارے قدم کیسے نہیں ڈگمگاتے۔۔۔۔۔؟

دوسرے دن میں نے اطہر کو تمہارے سامنے خوب ڈانٹا۔

"کل تم مجھ سے وعدہ کرنے کے بعد کیوں نہیں آئے؟ کبھی تو تمہیں اپنے وعدے کا خیال کرنا چاہیے۔ میں یہاں انتظار میں بیٹھا رہا اور بقول قدسیہ جناب کسی بار میں پڑے رہے۔"

اطہر کے بیساختہ قہقہے رک گئے اور وہ یوں خاموش ہو گیا جیسے میں نے اسے پھانسی کا حکم سنایا ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بڑا پشیمان سا میرے پاس آیا۔

"اور اس نے میرے متعلق کیا کہا؟ اسے میری عادتوں کی خبر ہے؟ کیا اس نے میری شکایت کی تھی؟ وہ بہت رنجیدہ ہو گی۔۔۔۔۔؟" زندگی میں آج پہلی بار میں نے اطہر کو شرمندہ دیکھا تھا تو وہ بھی کسی کی شکایت سننے تیار تھا اس سے متاثر ہو سکتا تھا۔

"یہ تو نئی نئی بات ہے۔ جبکہ تم ہمیشہ سے فریب دیتے آئے ہو اور قدسیہ ہمیشہ سے فریب کھاتی آئی ہے۔"

"آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں بھائی جان!" اس نے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔

قدسیہ کے بگڑنے میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے وہ بہت بدنصیب لڑکی ہے لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر اسے کچھ نہ دے سکوں تو اس کی بدنامیوں میں اضافے کا سبب بھی نہ بنوں۔ میں سچ مچ بہت برا ہوں اور قدسیہ کو فریب دے کر بھی نقصان ہی میں رہوں گا۔"

وہ باہر چلا گیا اور ایک بار پھر تم میرے سامنے نئی گتھیاں لئے آ گئیں اطہر کون سا راستہ اختیار کر رہا تھا!

وہ بے رحم انسان جو اپنے مفاد کے آگے کسی پر رحم نہ کر سکتا تھا۔۔۔۔۔ تم مجھے ایک کسوٹی نظر آئیں جس پر سونا اور پیتل دونوں واضح شکل میں چمک اٹھتے ہیں۔

دو گناہوں کے اتصال سے اتنا پاک جذبہ بھی وجود میں آتا ہے۔"

پھر تمہاری کہانی کا باقی حصہ میں خود نہ دیکھ سکا، میری مصروفیتیں مجھے کلکتہ کھینچ کر لے گئیں اور وہاں مجھے آندھیرا کے علاقوں میں جانا پڑا اور آندھیرا کی بیدار زندگی اور پرجوش سرگرمیوں نے تمہاری محبت کی نیم مردہ رینگتی ہوئی کہانی بھلا دی اور گھر میں ہونے والے یہ چھوٹے چھوٹے حادثے ذہن کے کسی کونے تھک کر سو گئے۔

ایک بار عائشہ نے لکھا کہ اطہر کی مسلسل نافرمانیوں کے سبب ابا نے اسے عاق کر دیا ہے اور وہ گھر سے چلا گیا ہے اور معلوم ہوا کہ تم اچانک گھر سے غائب ہو گئیں اور کسی نے ایک بار مجھے بتایا کہ تم دونوں اب لکھنؤ میں رہتے ہو۔ چچا ابا اب تمہیں گھر بلانے پر تیار نہیں ہیں۔

اس سے آگے کی کہانی مجھے کسی نے نہیں سنائی مگر اس بات کا منتظر رہا کہ اب اطہر اپنا الو سیدھا کرنے ممبئی لے جائے گا۔ جہاں کئی برسوں تک ٹھوکریں کھانے کے بعد میں تمہیں ایک دن کسی فلم میں دیکھوں گا۔ ہیروئن کے پیچھے، ایکسٹراؤں میں کولھے مٹکاتے ہوئے کوئی آوارہ سا گیت تمہارے لبوں پر ہو گا، جو تمہارے مصنوعی چہرے، چھاتیوں، پنڈلیوں اور کمر کی نمائش کرے گا۔ تم ایک جھوٹ کا خول ہو گی۔ سولائڈ کی گڑیا جس کی ہر جنبش دوسروں کے تابع ہوتی ہے اور تم اپنی خودداری کی لاش پر ناچ رہی ہو گی۔

ایک حد سے زیادہ جذباتی لڑکی کے تخیل کی اڑآن ہمیشہ یوں ہی کھائیوں میں گر کے دم توڑ دیتی ہے۔

مجھے تم دونوں کے نام سے نفرت ہو گئی۔ عائشہ نے ایک بار لکھا بھی تھا کہ قدسیہ وہاں کسی پرائیویٹ اسکول میں نوکر ہو گئی ہے۔ اطہر بیمار ہے اور وہ دونوں بڑی تکلیف کے دن گزار رہے ہیں۔

لیکن میں نے بڑی سختی سے اسے لکھ دیا کہ میں اب قدسیہ کے متعلق کچھ سننا نہیں چاہتا۔

اطہر کی تبدیلی جتنی نفرت انگیز تھی اتنی ہی حیرت انگیز بھی تھی۔۔۔۔۔ وہ کسی کی شادی کی خبر سن کر مذاق اڑایا کرتا تھا۔ ایک ہی راگ مسلسل لوگ کیسے سنے جاتے ہیں۔ میں تو دو ہی دن میں پاگل ہو جاؤں گا۔"

پھر اس نے دو سال تک اس راگ کو کیسے سنا!

امی اپنی قسمت کو رو کر بیٹھ رہیں۔ ان کی زندگی کے دونوں کڑوے پھل گئے۔ میں تو خیر اپنی خطرناک زندگی سے کوئی فیض نہ پہنچا سکتا تھا۔

مگر ابا بھی یہ برداشت نہ کر سکے کہ اطہر کی قسمت اچانک پلٹا کھائے اور وہ کوئی اچھی ملازمت حاصل کر لے۔

پھر امی کے آنسوؤں نے ابا سے خط لکھوا ہی دئیے جس میں اطہر کو اپنی خاندانی عزت اور بےشمار دولت کا واسطہ دیا گیا تھا اور تمہیں اطہر کی محبت کا۔۔۔۔۔ اور آج عائشہ نے لکھا ہے۔

بھائی جان! آپ قدسیہ سے نفرت کرتے ہے۔ آئندہ اس کے متعلق کوئی بات نہیں ہو گی جو میں آپ کو سناؤں گی آج اطہر بھائی کو ابا تنہا گھر لے آئے ہیں۔ قدسیہ معمولی بیماری سے مر چکی ہے۔"

تم زندگی بھر میری عزت کرتی رہیں اور میں تم سے نفرت کرتا رہا۔ یہ ہم دونوں کی اپنی ذہنیت کا قصور ہے۔ ادھر منہ کرو۔۔۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں چمکتے ہوئے آنسو کیا کہہ رہے ہیں؟

کیا سچ مچ تم کسی معمولی بیماری سے مر گئیں! اس چھوٹی سی بیماری کو اپنے نازک جسم پر نہ سہہ سکیں اور اس بیماری کا علاج کسی سے نہ ہو سکا، اطہر سے بھی نہیں۔ مجھ سے بھی نہیں جو تم سے نفرت کرتا رہا۔

تمہیں اپنی شکست پر آنسو نہیں بہانا چاہیئں کیوں کہ تم نے اطہر کو وہ تحفہ دے دیا۔ جس کے لئے تم زندگی بھر سرگرداں رہیں اور چپ چاپ اندھیرے میں کھو گئیں۔۔۔۔۔ اور اب تمہاری روندی ہوئی سسکیاں اور جھلملاتے آنسو ہی مجھے تمہاری موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔۔۔۔۔ تم آج گھٹی گھٹی آہوں اور پیتے ہوئے آنسوؤں سے اس کمرے میں میرے لئے اپنی عزت کا تحفہ لے کر آئی ہو۔۔۔۔۔ مگر میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا کہ جلے ہوئے سگریٹ کو ایش ٹرے میں پھینک کر تمہارے خیال کو بھی ذہن سے جھٹک دوں۔۔۔۔۔

******

ٹائپنگ:  ملک بلال بھائی - اردو محفل
بشکریہ : اردو محفل

افسانہ - چور - دوستوفسکی

چور
دوستوفسکی
ترجمہ: شاھد احمد دہلوی

فیدور دوستوفسکی (1888ء ۔ 1821ء) بنیادی طور پر ناول نویس تھا، لیکن اس نے چند افسانے بھی لکھے تھے، جن میں سے "چور" زیادہ مشہور ہوا۔ مدیر "ساقی" جناب شاہد احمد دہلوی (مرحوم) کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔ دوستوفسکی زندگی بھر غربت و افلاس اور مرگی کی بیماری میں مبتلا رہا۔ 1849ء سازش کے الزام میں اسے پھانسی کی سزا ملی، لیکن عین تختہ دار پر اس کی سزا گھٹا کر جلاوطنی اور جبری فوجی خدمت میں تبدیل کر دی گئی۔ اس نے صحافت کا پیشہ بھی اختیار کیا۔ کچھ عرصہ رسالہ "روسی دنیا" کا مدیر رہا۔ ناولوں میں لاشعور اور نفس کا تجزیہ اس کا وصفِ خاص ہے۔ مشہور ترین ناول "جرم و سزا" ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو سال کی بات ہے۔ اس وقت میں ایک نواب کے ہاں ملازم تھا۔ سارے گھر کی دیکھ بھال میرے ذمے تھی۔ نواب صاحب چند روز بعد اپنی املاک دیکھنے باہر جانے والے تھے۔ میں جانتا تھا کہ ادھر نواب صاحب روانہ ہوئے اور ادھر مجھے ملازمت سے جواب ملا۔ اللہ ہی جانے پھر کیسے گزارہ ہو گا؟ قریب کے ایک شراب خانہ میں انہی دنوں مجھے ایک شخص عاملین ملا۔ وہ بہت غریب اور بے یار و مددگار تھا۔ کبھی وہ بھی کسی جگہ ملازم تھا مگر پینے پلانے کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔ ان حرکتوں کی وجہ سے اسے یاد رکھتا بھی کون؟ جو مل گیا پہن لیا۔ کبھی کبھی تو مجھے بھی شبہ ہوتا کہ اس کے بوسیدہ لبادے کے نیچے قمیص ہے بھی یا نہیں۔ جو چیز بھی اس کے ہاتھ میں آ جاتی اسے بیچ کر شراب پی جاتا۔ مگر شراب پینے کے بعد وہ اودھم نہیں مچاتا تھا۔ بالکل نہیں، وہ بڑی اچھی اور شریف طبیعت کا آدمی تھا۔ ہر ایک سے اچھی طرح اور محبت سے پیش آتا تھا۔ کبھی کسی سے کچھ نہ مانگتا تھا۔ اس معاملے میں وہ بڑا حساس تھا بغیر اس کے کچھ مانگے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ اب بیچارہ پینے کے لئے مرا جا رہا ہے۔ اس کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی اور کوئی نہ کوئی اسے پلا دیتا تھا۔ خیر تو ہم دونوں دوست بن گئے اور ایک چھوٹے کتے کی طرح وہ میرے ساتھ لگ گیا۔ اب جدھر جاؤ ساتھ ہے۔ پہلی ہی ملاقات کے بعد یہ کیفیت ہو گئی۔

اس رات کو بھی وہ میرے ساتھ ہی رہا۔ اس کے پاسپورٹ میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں تھی اور وہ خود بھی ٹھیک ہی تھا۔ دوسری رات بھی ساتھ ہی گزری۔ تیسری رات کو بھی اس نے میرا گھر نہ چھوڑا۔ اگلے دن برآمدے کی کھڑکی میں سارا دن بیٹھا رہا اور وہیں رات بھی گزار دی۔ میں نے دل میں کہا "دیکھا! ہتھیا دی ہے اس نے۔ اب تمہیں اسے کھلانا پڑے گا اور رہنے کی جگہ دینی ہو گی۔ غریب آدمی کو تو بس یہ چاہیے کہ کوئی نہ کوئی اس کی دیکھ بھال کرتا رہے۔

تھوڑے ہی دنوں میں مجھے معلوم ہو گیا کہ ایک دفعہ پہلے بھی وہ کسی اور سے اسی طرح وابستہ ہو گیا تھا جس طرح اب مجھ سے ہوا ہے۔ دونوں ساتھ پیتے تھے مگر وہ کسی غم کی وجہ سے گھل گھل کر جلدی مر گیا۔ میں سوچتا رہا۔ اس کا کیا علاج کروں؟ نکال دوں گھر سے باہر؟ میرا دل نہیں مانتاا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر مجھے بڑا افسوس ہوتا تھا۔ اس قدر زبوں حال اور دھتکارا ہوا کہ میں اسے دیکھ کر کانپ جاتا تھا۔ اور پھر ایسا بے زبان کہ اپنے منہ سے کچھ نہ مانگتا تھا۔ خاموش بیٹھا بس میری آنکھوں کو تکے جاتا جیسے کوئی بڑا ہی وفادار کتا ہو۔ شراب سے انسان اس حد تک برباد ہو جاتا ہے! پھر میں نے اپنے جی میں کہا۔ فرض کرو میں اگر اس سے کہوں "یہاں سے نکل جاؤ عاملین! یہاں تمہارا کوئی کام نہیں ہے۔ تم نے میرے پاس آنے میں غلطی کی ہے۔ میرے پاس تو خود کھانے کو نہیں ہے، بھلا تم یہ کیسے توقع رکھتے ہو کہ میں تمہیں بھی کھلاتا رہوں گا؟" پھر میں نے سوچنا شروع کیا کہ میرے اس کہنے کے بعد وہ کیا کرے گا۔ اور میں سمجھ سکتا تھا کہ میری بات سننے کے بعد وہ دیر تک مجھے تکتا رہے گا اور اس کی سمجھ میں میرا ایک لفظ بھی نہیں آئے گا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کی سمجھ میں آ جائے گا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اور کھڑکی میں سے اٹھ کر اپنا چھوٹا سا پلندا اٹھائے گا۔ جھپر جھپر لال کپڑے میں لپٹا ہوا۔ نہ جانے اس میں کیا کیا لپٹا ہوا تھا، جہاں بھی جاتا اسے اپنے ساتھ لے جاتا۔ اپنے گلے ہوئے لبادے کو جھاڑ پونچھ کر اس طرح پہنے گا کہ اس کے سوراخ اور پیوند کم سے کم دکھائی دیں۔ آدمی وہ نازک احساسات کا تھا۔ پھر وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر دروازہ کھولے گا اور چلا جائے گا۔

تو پھر کیا ایک آدمی کو بالکل ہی مر جانے دیا جائے؟ مجھے ایک دم سے اس پر بہت ہی ترس آیا۔ مگر اس کے ساتھ دل میں یہ خیال بھی آیا کہ آخر میں کیا کروں گا؟ کیا میری حالت اس سے بہتر ہے؟ پھر دل ہی دل میں کہا "اچھا عاملین! تم زیادہ عرصے تک تو میرا سر نہیں کھا سکو گے۔ مجھے خود یہاں سے عنقریب نکلنا ہے۔ اس کے بعد تمہیں میرا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ "نواب صاحب اپنی املاک کے معائنہ کے لئے تھوڑے دنوں بعد ہی چلے گئے اور جاتے وقت مجھ سے کہہ گئے کہ "ہم تمہارے کام سے بہت خوش ہیں۔ جب ہم یہاں واپس آئیں گے تو تمہیں رکھ لیں گے۔" نواب صاحب بہت اچھے آدمی تھے مگر اسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔

نواب صاحب اور ان کے خاندان والوں کو چھوڑنے میں تھوڑی دور تک ساتھ گیا۔ انہیں رخصت کر کے واپسی پر اپنا سامان سمیٹا۔ جو کچھ پس انداز کیا تھا اسے لے کر وہاں سے چلا اور ایک بڑی بی نے اپنے کمرے کا ایک گوشہ کرایہ پر دے دیا تھا، اس میں رہنے لگا۔ یہ بڑی بی کسی اونچے گھرانے میں دایہ تھیں۔ جب بہت ضعیف ہو گئیں تو انہیں وظیفہ دے کر علیحدہ کر دیا گیا ھتا۔ میں نے دل میں کہا "لو دوست عاملین، تم سے رخصت ہونے کا وقت آ پہنچا۔ اب تم مجھے نہیں پاؤ گے۔"

اور صاحب پھر کیا ہوا؟ جب میں شام کو گھر واپس آیا تو دیکھتا ہوں کہ میرے ٹرنک پر اپنی لال گھٹھڑی لئے عاملین بیٹھے ہیں۔ وہ اپنے بوسیدہ لبادے میں لپٹے لپٹائے میرے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے بڑی تنہائی محسوس کی ہو گی جبھی تو بڑی بی سے اس نے دعاؤں کی کتاب مانگی تھی۔ مگر کتاب الٹی پکڑ رکھی تھی۔ اس نے آخر میرا پتہ چلا ہی لیا تھا۔ میرے ہاتھ بے جان ہو کر لٹک گئے۔ لو بھئی، اب اس کا کوئی علاج نہیں۔ میں نے اسے پہلے ہی کیوں نہ نکال دیا؟ میں نے اس سے پوچھا بھی تو کیا۔ "عاملین، تم نے اپنا پاسپورٹ لے لیا تھا؟" اس کے بعد میں بیٹھ گیا اور اس معاملہ پر غور کرتا رہا۔ یہ ایک گھومنے پھرنے والا آدمی ہے کیا یہ میرے کاموں میں حائل ہو گا؟ جب میں اس پہلو پر خوب غور کر چکا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ حائل نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ مجھ پر کچھ ایسا زیادہ بار بھی نہیں ہو گا۔ اس میں شک نہیں کہ اسے کھلانا پڑے گا۔ لیکن یہ ایسا کون سا بڑا خرچ تھا! صبح کو ذرا سی روٹی اور پیاز کی آدھی ڈلی۔ دوپہر کو پھر روٹی اور پیاز اور رات کے لئے پھر روٹی اور پیاز اور رائی کا ٹھرا۔ اور اگر مل گیا تو بند گوبھی کا شوربہ، چلو دونوں کا پیٹ ناکوں ناک بھر جائے گا۔ میں کم خوراک ہوں۔ عاملین پینے پلانے والا آمدی ہے، وہ کھاتا ہی کتنا ہو گیا؟ اسے تو صرف سستی شراب ملنی چاہیے۔ اس کا پینا میرا کام تمام کر دے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایک عجیب طرح کا احساس مجھ پر طاری ہونے لگا کہ اگر عاملین چلا گیا تو میری زندگی میرے لئے وبال ہو جائے گی۔ اس لئے میں نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اس کا محسن بن جاؤں۔ میں اسے اس کے پیروں پر کھڑا کر دوں گا۔ اسے برباد ہونے سے بچاؤں گا اور رفتہ رفتہ شراب بھی چھڑا دوں گا۔ دل میں میں نے کہا۔ "رہ جاؤ بیتا ذرا تم میرے پاس، عاملین! جو کچھ میں کہوں گا اسے سنو۔ میرا حکم مانو۔"

میں نے سوچا کہ پہلے اسے کوئی کام سکھاؤں گا۔ مگر فوراً ہی نہیں۔ ذرا وہ غریب پہلے آرام کر لے۔ اس عرصے میں میں تلاش کروں گا اور معلوم کروں گا کہ اس کے لئے آسان سے آسان کام کیا ہو سکتا ہے۔ کام بھی ایسا ہو جسے وہ کر سکے کیوں کہ ہر کام کرنے کے لئے آدمی میں اس کے کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اور میں نے چپکے چپکے اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ عاملین تو بڑا عجیب نکلا۔ میں نے پہے چاہا کہ میٹھی میٹھی باتیں کر کے اس کے دل کا بھید لوں، مثلاً میں نے اس سے کہا "دیکھنا عاملین! تم ذرا اپنا خیال رکھا کرو اور وقت گزارنے کے لئے تھوڑا بہت کام کیا کرو۔"

"پینا چھوڑ دو۔ ارے بھئی ذرا اپنا حلیہ تو دیکھو۔ چیتھڑے لٹک رہے ہیں۔ تمہارا لبادہ چھلنی ہو رہا ہے۔ یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ اب تمہیں ہوش میں آنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے۔"

عاملین سر جھکائے میری باتیں سنتا رہا۔ وہ اس حالت کو پہنچ چکا تھا جب شراب کا اثر زبان پر ہو جاتا ہے اور منہ سے کوئی معوقل بات نہیں نکلتی۔ آپ کھیت کی کہئے تو وہ کھلیان کی سنتا ہے۔ وہ سنتا رہا۔ دیر تک چپکا سنتا رہا اور پھر اس نے ایک لمبا ٹھنڈا سانس بھرا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ "ٹھنڈا سانس کس بات پر لے رہے ہو؟"

"کچھ نہیں اصطفی۔ تم گھبراؤ نہیں۔ آج کا ایک واقعہ یاد آ گیا تھا اصطفی! دو عورتیں لڑ رہی تھیں۔ اتفاق کی بات کہ ایک سے دوسری کا ٹوکرا الٹ گیا۔ اور جنگلی بیر بکھر گئے۔"

"اچھا تو پھر؟"

"اور اس عورت نے جس کے بیر گر گئے تھے دوسری عورت کے ہاتھ سے اس کا ٹوکرا چھین کر سارے بیر زمین پر گرا دئے اور پھر یہ کیا کہ ان سب بیروں کو کچل ڈالا۔"

"اچھا تو پھر عاملین، پھر اس سے کیا؟"

میں نے دل میں کہا "عاملین! اس لعنتی شراب نے تمہارے حواس خراب کر دئے کہیں۔"

اس کے بعد عاملین نے پھر کہا۔ "اور یہ ہوا کہ ایک نواب نے گوروبازار میں دیکھا کہ اس کی جیب میں جو نوٹ رکھے تھے وہ کہیں گر گئے ہیں۔ ایک اور شخص نے جیب میں سے گرتے انہیں دیکھ لیا تھا "یاقسمت" کہہ کر اس نے گدی اٹھانی چاہی کہ ایک آدمی اس سے بھڑ گیا اور بولا "نہیں، یہ میری قسمت کے ہیں۔ میں نے انہیں پہلے دیکھا ہے۔۔۔۔۔"

"پھر عاملین؟"

"اور ان دونوں آدمیوں نے لڑنا شروع کر دیا۔ اصطفی! اس پر طرہ یہ ہوا کہ ایک پولیس والا آیا اور اس نے گڈی اٹھا کر نواب کے حوالے کر دی اور ان کو دھمکایا کہ اگر زیادہ شور مچاؤ گے تو ابھی تم دونوں کو حوالات میں بند کر دوں گا۔"

"اچھا تو پھر اس سے کیا ہوا؟ عاملین! آخر اس میں ایسی کون سی عجوبہ یا حیرت ناک ہے؟"

"بات تو خیر کوئی نہیں لیکن لوگ ہنسنے لگ، اصطفی!"

میں نے کہا۔ "عاملین! لوگوں کو اس سے کیا غرض؟ تم نے اپنی لافانی روح کو ٹکے میں بیچ ڈالا۔ مگر کیا تمہیں معلوم ہے میں تم سے کیا کہنے والا ہوں؟"

کیا اصطفی؟"

"بہتر یہی ہے کہ تم کوئی کام کرو۔ تمہیں کچھ نہ کچھ کرنا ہی چاہیے۔ میں تم سے سینکڑوں بار کہہ چکا ہوں کہ تمہیں اپنے اوپر رحم کرنا چاہیے۔"

"مگر اصطفی! میں آخر کروں تو کیا کروں؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کام کہاں سے شروع کروں۔ اور اصطفی! مجھے کوئی نوکر نہیں رکھے گا۔"

"عاملین! تمہیں اسی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا۔ یہ سب پینے پلانے کی بدولت ہے۔"

عاملین نے کہا۔ "اور آج انہوں نے مے فروش کو دفتر میں بلایا تھا۔"

میں نے پوچھا۔ "اسے کیوں بلایا تھا عاملین؟"

"مجھے معلوم نہیں کیوں بلایا اصطفی! شاید اس کی ضرورت ہو گی، اس لئے بلایا ہو گا۔"

میں نے اپنے دل میں کہا۔ "کچھ نہیں جی! ہم دونوں کسی اچھے نتیجے پر پہنچیں گے۔ یہ تو ہمارے گناہوں کی وجہ سے اللہ ہمیں سزا دے رہا ہے۔"

بھلا ایسے آدمی کے ساتھ کوئی کیا کر سکتا ہے!

مگر صاحب! وہ تھا بڑا چالاک، وہ میری باتیں سنتا رہا، سنتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ معلوم ہونے لگا کہ وہ میری باتوں سے اکتا رہا ہے۔ جیسے ہی اس نے بھانپا کہ مجھے تاؤ آنے والا ہے اس نے چپکے سے اپنا لبادا سنبھالا اور کھسک گیا۔ اس کے بعد وہ سارا دن دکھائی نہیں دیا۔ شام کو پھر واپس آ گیا۔ نشے میں دھت، نوابوں کی طرح مست۔ اسے شراب کس نے پلائی؟ پینے کے لئے اس کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ میں نے تو اسے ایک کوڑی بھی دی۔

میں نے اس سے کہا "سنتے ہو عاملین؟ تمہیں شراب ضرور چھوڑنی پڑے گی۔ اب کے اگر تم پی کے آئے تو مہیں زینے میں سونا پڑے گا۔ میں تمہیں اندر نہیں آنے دوں گا۔"

اس کے بعد دو دن تک عاملین گھر ہی رہا۔ تیسرے دن وہ پھر چپکے سے کھسک گیا۔ میں اس کی راہ تک رہا ہوں، مگر وہ ہے کہ آتا ہی نہیں۔ سچی بات ہے، میں تو ڈر گیا۔ اس کے علاوہ مجھے بڑا رنج ہو رہا تھا کہ نہ جانے اس پر کیا گزری؟ میں اس غریب کے سر خوامخواہ کیوں ہو گیا! ضرور وہ مجھ سے ڈر کر بھاگ گیا۔ نہ جانے وہ بدنصیب کہاں ہو گا؟ یا اللہ! کہیں وہ مر جائے! رات گزر گئی اور وہ نہیں آیا۔ صبح کو میں نے بڑے کمرے میں جا کر دیکھا وہ نیچے سیڑھی پر سر رکھے پڑا اور سردی سے اکڑا ہوا ہے۔

"کیا ہو گیا تمہیں عاملین؟ اللہ تم پر رحم کرے۔ یہاں کیوں پڑے ہو تم؟"

اس نے کہا "مگر تم تو جانتے ہو اصطفی! کہ اگلے دن مجھ سے ناراض ہو گئے تھے۔ میں نے تمہیں غصہ دلا دیا۔ تم نے کہا تھا، میں تمہیں اندر نہیں آنے دوں گا۔ اس لئے مجھ میں ۔۔۔۔۔ میجھ میں ہمت نہیں تھی کہ اندر آ جاؤں۔ اور یہیں پڑ رہا۔"

مجھے اس پر غصہ بھی آ رہا تھا اور ترس بھی۔ میں نے کہا ۔ "تمہارے لئے یہ بہتر ہو گا عاملین! کہ تم کوئی بہتر کام تلاش کرو۔ بجائے اس کے کہ پڑے سیڑھیوں کو بے ضرورت تکتے رہو۔"

مگر کام آخر کیا کروں؟ اصطفی!"

مجھے ایک دم سے غصہ آ گیا۔ "کم بخت درزی کا کام سیکھ لے۔ ذرا اپنے لبادے کو تو دیکھ، لنجارے پڑے ہوئے ہیں اس میں اور بیریاں لگ رہی ہیں۔ اتنا تو تم کر سکتے ہو کہ سوئی لے کر اسے ٹھیک کرلو۔ ذرا تو اس کی شکل بن جائے۔ بس شراب میں دھت ہونا آتا ہے، اور کچھ نہیں۔"

تو صاحب! پھر بھلا کیا ہوا؟ اس نے سوئی سنبھالی۔ میں نے تو یونہی چڑانے کو کہا تھا۔ اس نے سچ مچ سوئی سنبھال لی مارے ڈر کے، اس نے اپنا لبادہ اتار کر وہ پھینکا اور لگا سوئی میں تاگہ پرونے۔ نتیجہ ظاہر ہے اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا اور دیدے سرخ ہونے لگے۔ ہاتھ کپکپانے لگے۔ وہ تاگے کو بار بار پروتا مگر ناکے میں تاگہ نہیں گیا۔ اس نے تاگے کو منہ سے تر کیا، مروڑیاں دیتا رہا، اسے سیدھا کیا مگر سوئی نہیں پروئی گئی۔ آخر اس نے سوئی تاگہ دور پھینکا اور مجھے تکنے لگا۔

میں نے کہا۔ "اچھا کیا تم نے عاملین! اگر تمہیں کوئی تاگہ پروتے دیکھ لیتا تو میں مارے شرم کے مر جاتا۔ میں نے تو مذاق میں تم سے کہا تھا اور اس لئے بھی مجھے تم پر غصہ آ رہا تھا۔ خیر، چھوڑو اس سینے پرونے کو۔ اللہ تمہیں گناہوں سے بچائے۔ تم کچھ نہ کرو۔ بس بیہودگی سے دور رہو۔ اور زینے میں مت سوؤ کہ مجھے بعد میں شرمندہ ہونا پڑے۔"

"مگر میں کروں کیا آخر، اصطفی؟ میں اپنے آپ کو جانتا ہوں کہ میں ہمیشہ نشے میں رہتا ہوں اور مجھ سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ اور میں تمہیں، اپنے مح۔۔۔۔۔ محسن کو بلا وجہ ناراض کر دیتا ہوں۔"

بس صاحب! اور کہنا کیا باقی رہ گیا؟ یہ سارا واقعہ ہی اس قدر غیر ضروری اور خفیف ہے کہ اس کا ذکر کرنا اور پر وقت ضائع کرنا ہے۔ مثلاً جناب اس کے دو ٹکے بھی نہ دیں، مگر میرے نزدیک اس کی قیمت زیادہ ہے۔ اگر میرے پاس کچھ ہو تو میں سب کچھ دے دوں اور وہ بات نہ ہونے دوں جو ہو گئی۔ بات یہ ہوئی کہ میری ایک برجس تھی نیلے رنگ کی اور اس پر بٹنکیاں پڑی ہوئی تھیں۔ بڑے اعلیٰ درجے کی چیز تھی۔ خدا غارت کرے، ایک بڑآ زمیندار یہاں آیا تھا۔ اس نے مجھ سے سلوائی تھی۔ مگر جب وہ تیار ہو گئی تو زمیندار نے کہا یہ تو بہت تنگ ہے۔ وہ چھوڑ کر چلا گیا۔ اور پھر لینے نہیں آیا۔

میں نے سوچا کپڑا تو اعلیٰ درجے کا ہے۔ اگر میں اسے گدڑی بازار میں بھی بیچوں تو اچھی قیمت مل جائے گی۔ ورنہ اس میں سے ایک اچھی پتلون نکل آئے گی جسے کوئی شہری ہاتھوں ہاتھ لے گا۔ اور ایک ٹکڑا میری واسکٹ کے لئے بچ رہے گا۔ غریب کے لئے تو کوئی چیز بےکار نہیں ہوتی۔ عاملین اس وقت بہت زدہ حال ہو رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے شراب خوری چھوڑ دی تھی۔ ایک دن گزرا، دوسرا گزرا، تیسرا گزرا، وہ بڑا مایوس سا دکھائی دے رہا تھا۔

مجھے خیال آیا کہ اس کی یہ حالت اس وجہ سے ہے کہ اس کے پاس پینے کے لئے پیسہ نہیں ہے۔ یا پھر اس کی عقل نے اس کا ساتھ دیا ہو گا۔ اور وہ راہِ راست پر آ گیا۔

قصہ مختصر، ایک ضروری چھٹی کا دن آ گیا اور یں شام کو دعا خوانی میں چلا گیا۔ جب گھر لوٹا تو میں نے دیکھا کہ عاملین خوب پئے پلائے نوابوں کی طرح بیٹھے ہیں۔ میں نے جی میں کہا تو جناب یہ کر کے آئے ہیں؟ اور میں نے کچھ نکالنے کے لئے اپنا ٹرنک کھولا۔ لو! وہ برجس غائب ہے؟ ادھر دیکھا، ادھر دیکھا، کہیں نہیں۔

جب میں نے اسے سارے کمرے میں تلاش کر لیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ برجس غائب ہو گئی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سن سے کوئی چیز میرے سارے جسم میں دوڑ گئی۔ میں نے بڑی بی کا رخ کیا۔۔۔۔۔ رہا عاملین، ہر چند کہ اس کے پئے ہونے سے اس کے خلاف بہت کچھ ثابت ہو رہا تھا مگر نہ جانے میرا خیال اس کی طرف کیوں نہیں گیا۔

بڑی بی نے کہا۔ "لو خدا نہ کرے۔ بھلے آدمی میں بھلا برجس کا کیا کروں گی؟ کیا میں اسے پہنوں گی؟ کل میرا گھاگرا خود جاتا رہا۔ اب تک اس کا پتہ نہیں چلا۔"

میں نے پوچھا۔ "کوئی آیا تو نہیں تھا؟"

بڑی بی نے کہا۔ "یہاں تو کوئی بھی نہیں آیا۔ میں گھر سے باہر نکلی ہی نہیں۔ تمہارا دوست ذرا سی دیر کے لئے باہر گیا تھا۔ پھر واپس آ گیا۔ وہ بیٹھا ہے اس سے کیوں نہیں پوچھتے؟"

"تم نے تو کسی کام سے عاملین میرے ٹرنک میں سے برجس نہیں نکالی؟ وہ جو تمہیں یاد ہو گی ایک زمیندار نے بنوائی تھی۔ وہ بولا۔ "نہیں اصطفی! میں نے نہیں لی۔"

"تو پھر وہ گئی کہاں؟" اور میں نے پھر اسے تلاش کرنا شروع کر دیا مگر بےسود۔ اور عاملین کھڑکی میں بیٹھا نشے میں جھوم رہا تھا۔

میں زمین پر گھٹنے ٹیکے عاملین کے بالکل سامنے جھکا ہوا ٹرنک دیکھ رہا ھتا۔ میں نے ایک دم سے کنکھیوں سے اسے دیکھا۔ میرا دل جل رہا تھا اور چہرہ تمتما رہا تھا۔ ایکا ایکی اس سے آنکھیں چار ہو گئیں۔

"عاملین نے کہا۔ "نہیں اصطفی! تم شاید یہ سمجھ رہے ہو کہ میں۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ۔۔۔۔۔ تم سمجھ گئے ہو گے۔۔۔۔۔ مگر میں نے نہیں لی۔۔۔۔۔"
"پھر آخر وہ گئی کہاں عاملین؟"

ا س نے کہا۔ "نہیں اصطفی، میں نے تو اسے دیکھا تک نہیں۔"

"اچھا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ خود کہیں جا کر کھو گئی، کیوں عاملین؟"

"ہو سکتا ہے یہی ہوا ہو اصطفی۔"

اس کے بعد اس سے کچھ کہنا بےکار تھا۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹرنک میں قفل لگایا اور لیمپ جلا کر اپنا کام لے بیٹھا۔ میں ایک سرکاری کلرک کی واسکٹ دوبارہ ٹھیک کر رہا تھا۔ وہ نچلی منزل ہی میں رہتا ھتا۔ مگر میرا دماغ پراگندہ ہو رہا تھا۔ خیال آیا کہ اس سے اچھا یہ تھا کہ آگ لگ جاتی اور میرا سارا سامان جل کر راکھ ہو جاتا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عاملین کو میرے غصہ کا احساس ہو رہا تھا۔ جب دل میں چور ہو تو یہی حال ہوتا ہے۔ اسے پہلے سے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب کوئی آفت آنے والی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چڑیوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اب طوفان آنے والا ہے۔

"اور بھی کچھ سنا تم نے اصطفی! ڈاکٹر نے کوچ بان کی بیوہ سے شادی کر لی؟"

یہ بات اس نے ایک دم سے کہہ دی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا مگر شاید اتنے غصے سے کہ وہ سمجھ گیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ میرے بستر کے قریب گیا اور اسے ٹٹولنے لگا۔ آپ ہی آپ کہتا جاتا تھا۔ "آخر کہاں؟ غائب ہو گئی جیسے شیطان اڑا لے گیا ہو۔"

میں چپکا بیٹھا رہا کہ دیکھو ابھی اور کیا کرتا ہے۔ بچارا عاملین میری چارپائی کے نیچے گھس گیا۔ اب مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔

میں نے کہا ۔ "دیکھو جی، تم چارپائی کے نیچے کیوں گھسے ہو؟"

عاملین نے چارپائی کے نیچے ہی سے کہا۔ "میں برجس ڈھونڈ رہا ہوں اصطفی! شاید اس کے نیچے کسی طرح پہنچ گئی ہو۔"

مگر جناب! آپ مجھ غریب کی خاطر اس طرح اپنے آپ کو زحمت کیوں دے رہے ہیں؟ خوامخواہ اپنے گھٹنے میلے کر رہے ہیں۔"

غصہ میں اس سے میں آپ جناب سے باتیں کر رہا تھا گویا وہ بھی کوئی صاحب تھے۔

"مگر اصطفی میرا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ اس کے نیچے تلاش کیا جائے تو شاید مل جائے۔"

"ہوں! ذرا ایک بات میری سنو عاملین!"

"کیا اصطفی؟"

مارے غصے کے میرا برا حال ہو رہا تھا۔ چارپائی کے نیچے وہ اس لئے گھس رہا تھا کہ جو چیز وہ جانتا تھا کہ وہاں نہیں ہے اسے تلاش کرے۔ میں نے چٹخ کر کہا۔ "کیا تم نے بدمعاش چور کی طرح اسے نہیں چرایا اور یوں میرے نان و نمک کا بدلہ تم نے مجھے دیا؟ سیدھی بات کیوں نہیں کرتے؟"

"نہیں اصطفی" اور وہ دیر تک چارپائی کے نیچے پڑا رہا۔ پھر وہ ایکا ایکی رنگ کر باہر نکل آیا اور میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔ میری آنکھوں میں اب بھی اس کی تصویر پھر رہی ہے۔ گناہ مجسم کی طرح بھیانک۔

اس نے کپکپاتی آواز میں کہا۔ "نہیں۔" وہ سر سے پاؤں تک لرز رہا تھا اور اپنی انگلی سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ میں کچھ ایسا مبہوت ہو گیا کہ کھڑکی کے قریب بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔ "میں نے تمہاری برجس نہیں لی، اصطفی!"

میں نے کہا۔ "اچھا عاملین! مجھے معاف کر دو کہ میں نے تم پر چوری کا الزام لگایا۔ رہی برجس، تو چلو اسے غارت کرو۔ ہم بغیر اس کے ہی زندہ رہیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس اپنے ہاتھ ہیں اور ہمیں چوری کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اب بھی ہمیں کسی غریب کو دھوکہ دینے کی ضرورت نہ ہو گی۔ ہم اپنی روزی آپ کمائیں گے۔"

عاملین کچھ دیر تک میرے سامنے کھڑا رہا۔ میری باتیں سنتا رہا۔ پھر وہ بیٹھ گیا اور بے حس و حرکت رات گئے بیٹھا رہا۔ جب میں سونے کے لئے لیٹا تو وہ اس وقت بھی بیٹھا ہوا تھا۔

صبح کو جب میں جاگا تو دیکھا کہ وہ اپنا لبادہ لپیٹے زمین پر پڑا سو رہا ہے۔ اسے اتنی خفت ہوئی تھی کہ اپنے بستر پر جا کر سو رہنے کو بھی اس کا جی نہ چاہا۔

تو صاحب اس دن مجھے اس شخص سے شدید نفرت ہو گئی۔ شروع شروع میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے لڑکے ہی نے میری چوری کی ہو اور مجھے سخت متنفر کر دیا ہو۔ مجھے ہر وقت عاملین ہی کا خیال آتا رہتا۔ اور صاحب عاملین تھا کہ دو ہفتے کے لئے اپنا غم غلط کرتا پھرا۔ صبح سے شام تک جانوروں کی طرح پیتا اور پورے دو ہفتے اس نے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ شاید اسے کوئی گہرا غم کھائے جا رہا تھا یا پھر وہ اس طرح اپنی زندگی ختم کرنا چاہتا تھا۔ آخر تھک کر اس نے شراب چھوڑ دی۔ شاید اس کے پاس ٹھرا خریدنے کے لئے کچھ بھی نہ رہا تھا۔۔۔۔۔ جو کچھ بھی اسے ملا سب کی شراب پی گیا۔ اور پھر کھڑکی میں اپنی جگہ پر آ بیٹھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ وہاں پورے تین دن تک خاموش بیٹھا رہا۔ ایک دم سے اسے دیکھا کہ رو رہا ہے۔ کھڑکی میں بیٹھا ہے اور رو رہا ہے۔ اور رونا بھی کیسا رونا! آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ ٹپ ٹپ، ٹپ ٹپ، جیسے اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں۔ صاحب! کسی بڑی عمر کے آدمی کو روتا دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور پھر جب کہ عاملین کی طرح کوئی معمر ہو اور ٹوٹ پھوٹ کر رو رہا ہو۔

میں نے اس سے کہا۔ "عاملین! تمہیں کیا تکلیف ہے؟"

وہ چونک کر کانپنے لگا۔ اس دن کے بعد میں نے آج اس سے پہلی دفعہ بات کی تھی۔

"کچھ نہیں اصطفی!"

"اللہ تم پر رحم کرے عاملین، تم اس کا خیال نہ کرنا۔ گزشتہ را صلوٰۃ۔ ارے بھئی اس کا ملال نہ کرو۔"

مجھے اس پر بڑا ترس آ رہا تھا۔

"بات یہ ہے کہ میں کچھ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ کچھ کام کرنا چاہتا ہوں اصطفی!"

"مگر آخر کس قسم کا ہو عاملین؟"

"کسی بھی قسم کا بھی ہو، شاید میں کوئی نوکری ہی کر لوں، پہلے کی طرح۔ جہاں میں پہلے نوکر تھا وہاں میں پوچھنے گیا بھی تھا۔ یہ میرے لئے ٹھیک نہیں اصطفی، کہ تم پر ہی پڑا رہوں۔ مجھے اصطفی! شاید کوئی ملازمت مل جائے گی اور پھر میں تمہارے سارے خرچ دے سکوں گا۔ کھانے کے علاوہ باقی سارے خرچ۔"

"ایسا مت کہو عاملین! یہ مت کہو۔ تم نے ایک گناہ کیا تھا۔ چلو وہ ختم ہوا۔ لعنت بر کار شیطان۔ اب ہم اسی طرح رہیں گے جس طرح پہلے رہتے تھے۔ گویا کوئی بات ہوئی ہی نہیں۔"

"تم اصطفی! تم شاید اس کی طرف اشارہ کر رہے ہو، مگر میں نے تمہاری برجس نہیں لی۔"

"اچھا تو پھر جو تم کہو وہ درست عاملین!"

"نہیں اصطفی، ظاہر ہے تمہارے ساتھ اب نہیں رہ سکتا۔ معاف کرنا تم مجھے اصطفی!"

"مگر خدا کے لئے عاملین! تمہیں آخر کون ناراض کر رہا ہے یا گھر سے نکال رہا ہے؟ کیا میں؟"

"نہیں۔" مگر یہ میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ تمہاری مہمان نوازی سے اب غلط فائدہ اٹھاؤں۔ اصطفی! اب یہاں سے دور جانا ہی بہتر ہے۔"

میں نے دیکھا کہ واقعی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اپنا بوسیدہ لبادہ پہن لیا۔۔۔۔۔ اس نے برا مانا تھا۔ یقیناً اس نے میرے کہے کو محسوس کیا تھا اور اس کے دل میں سما گئی تھی کہ چلا ہی جائے۔

"مگر تم کہاں جا رہے ہو عاملین؟ عقل کی بات کرو۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کہاں جاؤ گے تم؟"

"نہیں، یہی بہتر ہے اصطفی! مجھ روکنے کی کوشش نہ کرو۔"

اور وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

"جانے دو مجھے اصطفی! اب تم وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔"

"کیوں نہیں ہوں؟ میں تو بالکل وہی کا وہی ہوں۔ مگر تم اکیلے رہ جاؤ گے تو مر جاؤ گے عاملین۔۔۔۔۔ بے عقل بچے کی طرح مر جاؤ گے۔"

"نہیں اصطفی! حال میں تم نے یہ کرنا شروع کیا ہے کہ جب گھر سے باہر جاتے ہو تو ٹرنک میں قفل ڈال کر جاتے ہو اور میں، اصطفی! اسے دیکھتا ہوں اور روتا ہوں۔۔۔۔۔ نہیں، بہتر یہی ہے کہ تم مجھے جانے دو، اصطفی اور دیکھنا تمہارے ساتھ رہنے میں اگر میں نے تمہیں اپنی کسی بات سے ناراض کیا ہو تو مجھے معاف کر دینا۔"

تو جناب! وہ آخر چلا ہی گیا۔ ایک دن میں نے انتظار کیا اور سوچتا رہا کہ رات کو آ جائے گا۔ مگر ایک دن گزر جاتا ہے، دوسرا گزر جاتا ہے۔ مگر نہیں آتا۔ تیسرے دن۔۔۔۔۔ وہ نہیں آتا۔ مجھے اب اندیشہ ہونے لگا اور شدید غم میرے دل پر چھا گیا۔ میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور ساری ساری رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹ دیتا۔ اس شخص نے تو مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔ چوتھے دن میں اسے تلاش کرنے نکلا۔ میں نے قریب کے تمام شراب خانوں میں اسے ڈھونڈا اور دریافت کیا کہ اسے کسی نے دیکھا تو نہیں۔ مگر اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ عاملین بالکل غائب ہو گیا تھا۔ خیال آیا کہ شاید اس نے اپنی دکھ بھری زندگی کا خاتمہ نہ کر لیا ہو! کہیں نشے میں کسی دیوار کے نیچے کتے کی موت نہ مر گیا ہو۔ تھکان اور نا امیدی سے نیم مردہ گھر واپس آیا۔ اور سوچا کہ کل پھر اسے ڈھونڈوں گا۔ اپنے آپ کو کوستا رہا کہ اس بے عقل، بے یار و مددگار شخص کو میں نے بھلا کیوں جانے دیا؟ لیکن پانچویں دن علی الصبح (چھٹی کا دن تھا) دروازہ کھلنے کی چوں چوں سنائی دی۔ اور لو عاملین آ گیا۔ مگر کس حال میں! اس کا چہرہ نیلا، بالوں میں مٹی بھری ہوئی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ بازاروں میں سوتا پھرا تھا۔ بچارا سوکھ کر کانٹا ہو رہا تھا۔ اس نے اپنا لبادہ اتارا اور ٹرنک پر بیٹھ گیا اور میری طرف تکنے لگا۔ صاحب! مجھے بے انتہا خوشی ہوئی مگر اس کے ساتھ ساتھ میرے دل کو غم مسوس رہا تھا۔ معاملہ کچھ ایسا تھا۔ مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اگر یہی واقعہ مجھے پیش آیا ہوتا تو میں کتے کی موت مرنا پسند کرتا، واپس ہر گز نہ آتا۔ اور عاملین واپس آ گیا۔ بہر حال، یہ ایک قدرتی امر ہے کہ آپ کسی کو بھی ایسے برے حال میں دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے۔ میں نے ہر طرح سے اسے بہلانا اور دلاسا دینا شروع کیا۔

میں نے کہا "عاملین! مجھے بڑی خوشی ہے کہ تم واپس آ گئے۔ اگر تم اتنی جلدی واپس نہ آتے تو میں تم کو یہاں نہ ملتا کیوں کہ میرا ارادہ تمہاری تلاش میں نکل جانے کا تھا۔ تم نے کچھ کھایا بھی؟

"کھایا ہے اصطفی۔"

مجھے یقین نہیں آتا۔ لو۔ یہ کرم کلے کا شوربہ ہے۔۔۔۔۔ کل کا بچا ہوا۔ اچھا شوربہ ہے۔ گوشت والا۔ وہ نہیں جس میں برائے نام گوشت ہوتا ہے اور یہ لو روٹی اور پیاز کی ڈلی۔ بس شروع ہو جاؤ۔ اس سے ذرا تم میں جان آ جائے گی۔"

میں نے یہ سب چیزیں اس کی طرف بڑھا دیں۔ جس طرح گو کو اس نے کھایا اس سے مجھے اندازاہ ہوا کہ پچھلے تین دن سے اسے فاقہ ہی تھا۔ اچھا تو یہ بھوک تھی جس کی وجہ سے وہ میرے پاس واپس آیا! اس بچارے کو میں نے غور سے دیکھا تو مجھے اس پر بڑا ترس آیا اور میں نے طے کیا کہ پاس کے شراب خانہ لپک کر جاؤں اور اس کے لئے ٹھرا لے آؤں۔ اس سے ذرا اس میں جان آ جائے گی اور ڈھنگ کی باتیں بھی ہو سکیں گی۔ جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔ مجھے اب اس غریب سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اور میں جا کر ٹھرا لے آیا اور اس سے بولا۔ "آؤ عاملین! آج کی چھٹی کی خوشی میں ہم تم دونوں ایک دوسرے کا جام صحت پئیں۔ آؤ پیو۔ اس سے تمہیں فائدہ پہنچے گا۔"

اس نے اپنا ہاتھ لپک کر پھیلا دیا۔ پھر بھرا ہوا گلاس اٹھایا، منہ تک لے گیا۔ ہاتھ کانپ رہا تھا، اس لئے آستین پر بہت کچھ گرایا۔ بہر حال منہ تک کسی نہ کسی طرح لے ہی گیا مگر فوراً ہی گلاس میز پر واپس رکھ دیا۔

"کیا بات ہے عاملین؟ پیتے کیوں نہیں؟"

"مگر نہیں، میں نہیں پیوں گا اصطفی!"

"تم نہیں پیو گے؟"

"مگر میں اصطفی! میرا خیال ہے کہ اب کبھی نہیں پیوں گا اصطفی۔"

"کیا تم نے چھوڑنے کا فیصلہ ہمیشہ کے لئے کر لیا ہے عاملین؟ یا صرف آج کے لئے؟"

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ذرا سی دیر بعد میں نے دیکھا کہ اس نے اپنا سر جھکا ہاتھ پر جھکا لیا۔ میں نے پوچھا "کیا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے عاملین؟"

"نہیں اچھی خاصی ہے، اصطفی۔"

میں نے اسے بستر پر لٹا دیا۔ اس کی حالت واقعی اچھی نہیں تھی۔ اس کا سر جل رہا تھا اور وہ بخار میں ھلھلا رہا تھا۔ میں سارا دن اس کے پاس بیٹھا رہا۔ شام ہوتے اس کی حالت بگڑنے لگی۔ میں نے اس کے لئے رائی کی شراب، مکھن اور پیاز کا کھانا تیار کیا تھا اور اس میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی ڈال دئے تھے۔ میں نے کہا۔ "اٹھو، کچھ کھا لو۔ شاید اس سے تمہاری طبیعت سنبھل جائے۔"

مگر اس نے سر ہلا کر کہا "نہیں اصطفی، آج میں کھانا بالکل نہیں کھاؤں گا۔"

میں نے بڑی بی کو زحمت دی اور ان سے چائے بنوائی مگر عاملین نے چائے پینے سے انکار کر دیا۔

میں نے دل میں کہا معاملہ بہت بگڑ چکا ہے۔ تیسرے دن صبح ہی صبح میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے ہاں گیا۔ اس نے میرا علاج بڑا اچھا کیا تھا۔ ڈاکٹر آیا۔ مریض کا معائنہ کیا اور بولا "مجھے بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ بچارا تو بہت دور جا چکا ہے۔ پڑیاں لکھے دیتا ہوں کھلا دینا۔"

میں نے اسے پڑیاں بالکل نہیں دیں، مجھے معلوم تھا کہ ڈاکٹر صرف دل رکھنے کے لئے نسخہ لکھ گیا ہے۔ اب پانچواں دن لگ گیا۔

اب صاحب! وہ میرے سامنے پڑا مر رہا تھا۔ میں کھڑکی میں بیٹھا تھا اور میری گود میں کام پڑا تھا۔ بڑی بی چولھا جلا رہی تھیں۔ ہم سب خاموش تھے۔ بیچارے بے حس و حرکت مرنے والے پر میرا دل رو رہا تھا۔ جیسے میرا اپنا بچہ مجھ سے جدا ہو رہا ہو۔

میں جان رہا تھا کہ عاملین کی نظریں یکساں مجھ پر جمی ہوئی ہیں۔ صبح سویرے سے یہ میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہا ہے مگر بظاہر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کہہ سکے۔ آخر میں نے بھی اس کی طرف دیکھا اور وہ اب بھی مجھے تکے جا رہا تھا۔ اتنا ضرور ہوا کہ آنکھیں چار ہوتے ہی اس نے اپنی نظریں فوراً جھکا لیں۔

"اصطفی!"

کیا ہے عاملین؟"

"اگر میرا لبادہ گدڑی بازار لے جایا جائےاصطفی! تو کیا اس کی کچھ رقم مل جائے گی؟

میں نے کہا۔ "بھئی میں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا مگر تین چاندی کے سکے تو مل ہی جائیں گے اس کے، عاملین!" میں نے یہ بات محض اس بچارے کا دل رکھنے کے لئے کہہ دی، ورنہ میں اس چیتھڑے لگی چیز کو اگر بیچنے جاتا تو بازار والے میری ہنسی اڑاتے۔

"اور میرا یہ خیال تھا کہ کچھ اور زیادہ مل جائے گا اصطفی! یہ کپڑے کا بنا ہوا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تین سکوں سے زیادہ وہ اس کے نہیں دیں گے؟"

"بات یہ ہے عاملین! کہ اگر تم اس کو بیچنا چاہو تو بے شک تم اس کا زیادہ بھی مانگ سکتے ہو۔"

عاملین ذرا سی دیر خاموش رہا اور پھر اس نے مجھے آواز دی۔

"اصطفی!"

"کیا ہے عاملین؟"

جب میں مر جاؤں تو تم میرا لبادہ بیچ ڈالنا۔ مجھے اس میں کفنانے کی ضرورت نہیں۔ میرا کام اس کے بغیر بھی چل جائے گا۔ اس کی اچھی قیمت مل جائے گی اور تمہارا ہاتھ تنگ نہیں رہے گا۔"

یہ سن کر میرے دل میں ایسی ٹیس اٹھی کہ بیان نہیں کر سکتا۔ موت کی مایوسی مرنے والے پر چھائی جا رہی تھی۔ اب پھر ہم دونوں خاموش تھے اسی طرح ایک گھنٹہ گزر گیا۔ میں نے پھر اس کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے دیکھے جا رہا تھا اور جب آنکھیں چار ہوئیں تو اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔"

میں نے اس سے پوچھا۔ "ٹھنڈا پانی پیو گے عاملین؟"

"تھوڑا سا دے دو۔ اللہ تمہیں اس کی جزا دے اصطفی!"

"کچھ اور چاہیے عاملین؟"

"نہیں اصطفی، مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ مگر میں۔۔۔۔۔"

"کیا؟"

"تمہیں معلوم ہے کہ۔۔۔۔۔"

"تمہیں کیا چاہیے عاملین؟"

"برجس۔۔۔۔۔ تمہیں معلوم ہے۔۔۔۔۔ میں نے ہی لی تھی اصطفی!"

میں نے کہا۔ خیر، اللہ تمہیں معاف کرے گا عاملین! بےکس اور بدنصیب ہو۔ چین سے رخصت ہو۔"

اور مجھے اس کی طرف سے منہ پھیر لینا پڑا کیوں کہ مارے غم کے میرا سانس رک گیا تھا اور میری آنکھوں میں آنسو ابل پڑے تھے۔"

"اصطفی۔۔۔۔۔"

میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ مجھ سے کچھ اور کہنا چاہتا تھا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔ اس کے لب ہل رہے تھے۔۔۔۔۔ اس کے چہرے پر سرخی آئی اور اس نے میری طرف دیکھا۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ ایکدم سے رنگ زرد پڑنے لگا۔ پلک جھپکتے میں اس کا منکا ڈھلک گیا۔ بس ایک ہی سانس لیا اور اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹائپنگ : ملک بلال بھائی - اردو محفل
بشکریہ : اردو محفل