عرفان صدیقی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عرفان صدیقی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

غزل: ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا ۔ عرفان صدیقی

غزل
 
 ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
ورنہ ٹوٹے ہوئے رشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا

اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا

یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا
اک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا

سب تری دین ہے یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا! کچھ بھی نہ تھا

اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دھرتی دیتی
ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دعا کچھ بھی نہ تھا

لوگ خود جان گنوا دینے پہ آمادہ تھے
اس میں تیرا ہُنر ہے اے دستِ جفا! کچھ بھی نہ تھا

سبز موسم میں ترا کیا تھا، ہوا نے پوچھا
اُڑ کے سوکھے ہوئے پتے نے کہا، کچھ بھی نہ تھا

عرفانؔ صدیقی


غزل : جب بال و پر نہیں تو ہوا پر نہ جائیے ۔۔۔ عرفان صدیقی


غزل

جب بال و پر نہیں تو ہوا پر نہ جائیے
آندھی میں سیرِارض و سماء پر نہ جائیے

کیا شاندار لوگ ہیں دامن دریدہ لوگ
دل دیکھئے حضور، قبا پر نہ جائیے

کیجے نہ ریگ زار میں پھولوں کا انتظار
مٹی ہے اصل چیز، گھٹا پر نہ جائیے

کچھ اور کہہ رہا ہوں غزل کے حوالے سے
مطلب سمجھئے، طرز ادا پر نہ جائیے

آخر تو فیصلہ سر مقتل اُسی کا ہے
اس انتظامِ جرم و سزا پر نہ جائیے

دنیا میں اور بھی تو اشارے سفر کے ہیں
ہر بار اپنے دل کی صدا پر نہ جائیے

عرفان صدیقی

چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا ۔ عرفان صدیقی

غزل 


چراغ دینے لگے گا دھواں  نہ چھو لینا
تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا

زمیں چُھٹی تو بھٹک جاؤگے خلاؤں میں
تم اُڑتے اُڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا

نہیں تو برف سا پانی تمھیں جلا دے گا
گلاس لیتے ہوئے اُنگلیاں نہ چھو لینا

ہمارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں
ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ چھو لینا

اُڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند
شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا

مروٓتوں کو محبت نہ جاننا، عرفان
تم اپنے سینے سے نوکِ سناں نہ چھو لینا

عرفان صدیقی


تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

غزل

میرے ہونے میں کسی طور تو شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

دشت سے دُور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں
دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جاؤ

جس پہ ہوتا ہی نہیں خونِ دو عالم ثابت
بڑھ کے اک دن اسی گردن میں حمائل ہو جاؤ

وہ ستم گر تمھیں تسخیر کیا چاہتا ہے
خاک بن جاؤ اور اس شخص کو حاصل ہو جاؤ

عشق کیا کارِ ہوس بھی کوئی آسان نہیں
خیر سے پہلے اسی کام کے قابل ہو جاؤ

ابھی پیکر ہی جلا ہے تو یہ عالم ہے میاں
آگ یہ روح میں لگ جائے تو کامل ہو جاؤ

میں ہوں یا موجِ فنا اور یہاں کوئی نہیں
تم اگر ہو تو ذرا راہ میں حائل ہو جاؤ

عرفان صدیقی

دستِ عصائے معجزہ گر بھی اُسی کا ہے



دستِ عصائے معجزہ گر بھی اُسی کا ہے
گہرے سمندروں کا سفر بھی اُسی کا ہے

میرے جہاز اسی کی ہواؤں سے ہیں رواں
میری شناوری کا ہنر بھی اسی کا ہے

لشکر زمیں پہ جس نے اتارے ہیں رات کے
کھلتا ہوا نشانِ قمر بھی اسی کا ہے

آب رواں اسی کے اشارے سے ہے سراب
بادل کے پاس گنجِ گہر بھی اسی کا ہے

جو خشک ٹہنیوں سے اگاتا ہے برگ و بار
موسم تمام اس کے شجر بھی اسی کا ہے

منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں
حیرانیوں میں ذوقِ نظر بھی اسی کا ہے

بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ
ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے

تیغِ ستم کو جس نے عطا کی ہیں مہلتیں
فریادِ کشتگاں میں اثر بھی اسی کا ہے

تیرا یقین سچ ہے مری چشمِ اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے

مجرم ہوں اور خرابہء جاں میں اماں نہیں
اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے

خود کو چراغ راہ گزر جانتا ہوں میں
لیکن چراغِ راہ گزر بھی اسی کا ہے

عرفان صدیقی