محمد احمد کا ظریفانہ کلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
محمد احمد کا ظریفانہ کلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

نمکین غزل : اُڑاتے روز تھے انڈے پراٹھے

نمکین غزل

اُڑاتے روز تھے انڈے پراٹھے
پر اب کھاتے ہیں ہر سنڈے پراٹھے

یہاں ہم کھا رہے ہیں چائے روٹی
وہاں کھاتے ہیں مسٹنڈے پراٹھے

ترستے لقمہ ٴ تر کو ہیں اب تو
وہ کیا دن تھے کہ تھے فن ڈے، پراٹھے

کہا بیگم رعایت ایک دن کی
پکا لیجے گا اِس منڈے پراٹھے

کہا بیگم نے ہے پرہیز بہتر
بہت کھاتے ہو مُسٹنڈے پراٹھے

زمانہ یاد ہے اسکول والا
کہ جب کھاتے تھے تم ڈنڈے، پراٹھے

کئی فرمائشیں مانی ہیں میں نے
بنے بیگم کے ہتھکنڈے، پراٹھے

چلو احمد ؔ منگائیں گرم چائے
ہوئے جاتے ہیں سب ٹھنڈے پراٹھے

محمد احمدؔ

شکرقندی کا المیہ

شکرقندی کا المیہ
مرتضیٰ برلاس سے معذرت کے ساتھ

سبزیوں کے حلقے میں، ہم وہ کج مقدر ہیں
گاجروں میں مولی ہیں، مولیوں میں گاجر ہیں




سرگوشی: شعر جو تختہء مشق بنا :)

دوستوں کے حلقے میں ہم و کج مقدر ہیں
افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں مرتضیٰ برلاس

احوالِ ملاقات . فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ​ (تضمین)

احوالِ ملاقات
فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ​

وہ تو کچھ چُپ چُپ رہی پر اُس کے پیارے بھائی نے‎
چار چھ مکے بھی مارے، آٹھ دس لاتوں کے بعد‎
اُس نے اپنے بھائی سے پوچھا یہ حضرت کون تھے؟
"ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد"​

تضمین از محمد احمدؔ​


جوش ملیح آبادی اور فیس بک ۔۔۔ تحریف در غزلِ جوش

جوش ملیح آبادی کی ایک خوبصورت غزل کسی شوخ ساعت میں  ہماری مشقِ ستم کا شکار ہو گئی تھی۔ غزل کی اس تازہ شکل میں جوش صاحب قتیلِ فیس بک ہو کر رہ گئے ہیں اور اسی بات کی دہائی جناب اس غزل میں دے رہے ہیں۔

ملاحظہ فرمائیے۔


فیس بک دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں مینشن تجھ کو
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

نوٹیفائیر نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب میں لاگ آف ہوا، تو نے مجھے یاد کیا

اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
آپ نے ٹیگ کیا اور کچھ ارشاد کیا

اس کا رونا نہیں ان فرینڈ کیا تم نے مجھے
اس کا غم ہے کہ بہت دیر سے آزاد کیا

اتنا مانوس ہوں 'فطرت' سے، کہ لی جب چُٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں، میں تو وہاں ٹیگ نہ تھا
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا​

پس نوشت:

اِس دھماچوکڑی میں فرینڈ کی "ر" کہیں گر گرا گئی ہے، تاہم یہ انگریزی ہے اور اردو کے برخلاف کہ جس میں صرف الف کا ہی وصال ہوا کرتا ہے، انگریزی میں وصال اتنی عنقا شے نہیں ہے سو ہم اس اجازت کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ :)

ویسے انگریزی میں کہیں کہیں "ر" کی ادائیگی آدھی یا چوتھائی بھی رہ جاتی ہے اور چھوٹے موٹے حروف جگجیت سنگھ کی طرح کھا جانا عیب نہیں سمجھا جاتا۔ 

تم ہوتے ہو جہاں حماقت ہوتی ہے



جاوید اختر ہمارے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اُن کی ایک غزل جو ہمیں  بہت پسند ہے ایک دن بیٹھے بیٹھے دماغ میں اُلٹ پُلٹ ہوگئی۔ یہ نیا ورژن قارئینِ بلاگ کے لئے پیش ہے۔

تم ہوتے ہو جہاں حماقت ہوتی ہے
میں ہوتا ہوں، میری ہمت ہوتی ہے

اکثر وہ کہتے ہیں تکلف مت کرنا
اکثر کیوں کہتے ہیں حیرت ہوتی ہے

چاروں اور سے دیکھتے ہیں اُس شوخ کو ہم
ڈبے پر ہر شے کی قیمت ہوتی ہے

ماں کے ہاتھ میں چپل بھی ہے دھیا ن رہے
یہ مانا پیروں میں جنت ہوتی ہے

عادی ہوں میں دنیا بھر کی باتوں کا
جانتا ہوں میں اُن کو عادت ہوتی ہے

بسمہ اللہ پڑھ کر وہ پانی ڈالتا ہے
دودھ میں اچھی خاصی برکت ہوتی ہے​

شبنم افسانی

شبنم افشانی

اے غریبِ شہر تیری رب نگہبانی کرے
لوڈ شیڈنگ کے ستائے، تجھ پہ آسانی کرے
گر نہیں تجھ کو میسر گرمی دانوں کا سفوف٭
آسماں تیری کمر پر شبنم افشانی کرے

محمد احمدؔ​

* prickly heat powder​


تحریف در غزلِ شکیب جلالی :)

شکیب جلالی کی معروف غزل "یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں" اور ہماری مشقِ ستم، آپ احباب کے ذوقِ سلیم کی نذر: 

یہ جو دیوانے سے چھ آٹھ نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ بمباٹ1 نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو فِٹ فاٹ نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
ان دنوں آپ بھی کچھ شارٹ2 نظر آتے ہیں

ان سموسوں میں حراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ کھا کھا کے بھی اسمارٹ3 نظر آتے ہیں

جب سے اسپاٹ کی فکسکنگ کا سنا ہے شہرہ
اب تو ہرمیچ میں اسپاٹ4 نظر آتے ہیں

ہو گئے وہ بھی سگِ عاملِ تطہیرِ لباس
اب کبھی گھر تو کبھی گھاٹ نظر آتے ہیں

کچے دھاگے سے کھنچے آتے ہیں اب بھی لیکن
کچے دھاگے میں کئی ناٹ5 نظر آتے ہیں

اُن سے کہتا تھا کہ مت اتنی مٹھائی کھائیں
دیکھیے اب وہ شوگر پاٹ6 نظر آتے ہیں

محمد احمد


فرہنگ
1۔ بمباٹ : ایک قسم کی دیسی شراب 
2- short
3- smart
4- spot
5- knot
6- sugar pot

تضمین بر کلامِ حضرتِ ولی دکنی - ظریفانہ کلام

حضرتِ ولی دکنی کا یہ مشہور و معروف شعر تو آپ نے سُنا ہی ہوگا۔

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

خاکسار کی جانب سے اس کے دونوں مصرعوں پر (ظریفانہ) تضمین پیش ہے۔
اُمید ہے احباب کو پسند آئے گی۔ 

وہ جو شادی سے پہلے کہتا تھا 
اُس کو یکسانیت پسند نہیں
اُس کی بیوی نے کر دیا ثابت
"راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں"


کچھ تو کہیے وہ اُس سے کہتا تھا​
لفظ مہکیں، کھُلے کتابِ سخن​
اُس کو شادی کے بعد علم ہوا​
"تا قیامت کھُلا ہے بابِ سخن"​

محمد احمدؔ