حکیم محمد سعید لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
حکیم محمد سعید لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اقوالِ سعید - حکیم محمد سعید کے سنہرے اقوال . ٢

اقوالِ سعید 
حکیم محمد سعید کے اقوال
انسان ٹھوکریں کھاتا ہے مگر کچھ سبق حاصل نہیں کرتا۔ تاریخ بے چاری ہے کہ اپنا سبق دُہرائے جارہی ہے۔ ناقدریِ وقت سے غلامی کی زنجیریں پیروں میں پڑ جایا کرتی ہیں۔ اپنی شناخت اور اپنے سرمایہء ثقافت کو نظر انداز کرکے ہم علم کے نام پر جو کچھ بھی حاصل کریں گے، اس کے مثبت نتائج کبھی برامد نہیں ہو سکتے۔ ایک غلط کام کرکے انسان بہ ظاہر کتنا ہی خوش ہو ، اُس کا ضمیر اندرونی طور پر اُس کو متنبہ ضرور کرتا ہے۔ جب یہ کیفیت ملامت کی صورت اختیار کرلیتی ہے تو اس سے نظامِ جسم ضرور متاثّر ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قوم فسادِ اخلاق میں مبتلا ہو گئی وہ صفحہء ہستی سے مٹ گئی۔ جس طرح ایک مسلمان کے دل میں طمع اور تقویٰ ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے اسی طرح علم و حکمت اور دولت ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آزادیِ صحافت کے ہرگز یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ تعمیرِ وطن نظروں سے اوجھل ہو جائے اور سر بلندیِ ملک اور سرفرازیِ ملّت نظر انداز کر دی جائے۔

حکیم محمد سعید

اقوالِ سعید - حکیم محمد سعید کے سنہرے اقوال

اقوالِ سعید 
حکیم محمد سعید کے اقوال

اہلیانِ پاکستان کے لئے حکیم محمد سعید صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ حکیم محمد سعید صاحب نہ صرف  ایک مایہ ناز حکیم تھے بلکہ مملکتِ پاکستان کے باسیوں کے لئے ایک عظیم مصلح بھی تھے۔ آپ نے مذہب ، طب و حکمت پر بے شمار کتب تصنیف و تالیف کیں۔ آپ کا قائم کردہ ادارہ ہمدرد پاکستان آج بھی اپنی ساکھ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 

حکیم محمد سعید  نے ہی بچوں کے معروف رسالے  ہمدرد نونہال کا اجراء کیا جو  اطفالِ وطن کی  تعلیم و تربیت میں  مشعلِ راہ کا کام کرتا رہا ہے۔



یہاں ہم حکیم محمد سعید صاحب کے مختصر کتابچے اقوالِ سعید سے کچھ اقوال رقم کریں گے جو نا صرف نونہالانِ پاکستان بلکہ پاکستان کے ہر شہری کے لئے بہت اہم ہیں۔

جس طرح سورج ہر انسان کو بلا امتیا ز اپنی روشنی سے منوّر کرتا ہے اسی طرح ایک انسان کو دوسرے انسان کو روشنی دینا چاہیے۔ روشن ضمیری صرف ایک انسا ن کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو روشنی میں رکھتی ہے۔ انسان جب اپنی ذات کے لئے اضافی آرام و آسائش حاصل کرنے کا خواہاں ہو گا، اُسے خودی اور خود داری کو قربان کرنا پڑے گا۔ قومیں اور افراد چراغِ حُرّیت اپنے خون سے روشن رکھتے ہیں۔ دولت کی بے پناہ محبّت خباثت کی دلیل ہے اس لئے کہ یہ ہمیشہ بُرائی کی طرف لے جاتی ہے۔ مسلمان کی حیاتِ مستعار کا ہر لمحہ قرانِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں بسر ہونا چاہیے اور اُس کی ہر آن اتّباعِ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عبارت ہونا چاہیے۔ تعلیم ایک ارتقائی عمل ہے جس کے ذریعے اقوام و اُمم اپنے مقصدِ حیات سے آگاہ ہو کر اس کے حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتی ہیں۔
حکیم محمد سعید

اسی دن میں دنیا کا سفر - ہمدرد نونہال سے جُڑی ایک یاد


آج ہم جو پڑھنے لکھنے کا تھوڑا بہت شغف رکھتے ہیں اُس کی بڑی وجہ بچپن میں پڑھے جانے والے رسالے اور خصوصاً ہمدرد نونہال رہا ہے۔  ہمدرد نونہال غیر محسوس طریقے سے اپنے ننھے منے قارئین کی اس طرح تربیت کرتا تھا کہ اُن میں تمام تر نیک کاموں   اور اچھی چیزوں سے محبت راسخ ہو جاتی تھی۔ ہر اچھائی بُرائی کا اس خوبی سے احساس دلایا جاتا تھا کہ وہ بغیر جانے ہی لاشعور میں اُتر جاتی تھی۔  آج بھی ہم میں نہ جانے کیا باتیں ایسی موجود ہیں جن  کا  تعلق کہیں نہ کہیں سے نونہال ادب سے جا ملتا ہے۔ 

آج بھی ہمیں بچوں کا کوئی ایسا ماہنامہ نظر نہیں آتا جس کا  پیش لفظ جاگو جگاؤ کی طرح تعمیری  طرز رکھتا ہو۔ حکیم محمد سعید اور مسعود احمد برکاتی  کے قلم میں ایسی مٹھاس ، ایسی شفقت تھی کہ پڑھنے والے پر اثر ہو کر ہی رہتا تھا۔  خیال کے  پھو ل کے نام سے دنیا بھر  کے نامور لوگوں کے اقوالِ زرّیں  بچوں کو بڑی سوچ سے روشناس کراتے تھے۔ پھر دیگر چھوٹی چھوٹی کہانیاں ، مضامین اور کبھی کبھی سفر نامے ، یہ سب تفریحِ طبع کے ساتھ ساتھ زبان پر عبور اور اعلیٰ  عادات  و اوصاف سے قربت کا سبب بھی بنتے تھے۔  بہر کیف ہمدرد نونہال بچوں کے لئے ایک بھرپور اور صحتمند تفریح ہوا کرتا تھا۔ شاید اب بھی ایسا ہی ہو۔ 

چاہے آپ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جائیں بچپن بھولے نہیں بھولتا ہے۔ سو آج ہم بھی ایک چھوٹی سی کہانی کے وسیلے سے اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گئے۔  

"اسی دن میں دنیا کا سفر" نونہال ادب سے منتخب کی گئی ایک کہانی ہے جس میں ایک شخص نے اُس زمانے میں اسی دن میں دنیا کا سفر طے کرنے کی شرط لگائی جب  یہ سفر کم از کم تین ماہ پر محیط سمجھا جاتا تھا۔  یہ چھوٹی سی کہانی قاری کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کے ہنر سے واقف ہے اور اس میں تجسس،  مہم جوئی، انسانی ہمدردی، ہمت و جواں مردی اور راستی  جیسے بڑے بڑے عناصر باکثرت ملتے ہیں۔  اگر آپ یہ کہانی پڑھنا شروع کر دیں تو پھر اسے ختم کرکے ہی چھوڑیں گے۔ 

یہ کہانی انگریزی سے ترجمہ کی گئی ہے اور ہمیں "اردو کی برقی کتابیں" جو کہ ہمارے استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب کی ای بکس کی سائٹ ہے سے ملی۔ اس خوبصورت کہانی کی ٹائپنگ ہمارے بہت ہی اچھے دوست انیس الرحمٰن بھائی نے کی ہے جو نونہال ادب سے یک گونہ محبت رکھتے ہیں اور ای بک کی تدوین و تشکیل جناب اعجاز عبید صاحب کے بابرکت ہاتھوں سے ہی ہوئی ہے۔ 

اگر آپ یہ مختصر کہانی پڑھنا چاہیں تو یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔ 



اگر آپ اس تحریر کو اپنے اینڈروائڈ   سیٹ پر  پڑھنا چاہیں تو یہاں سے ڈاؤنلوڈ  کر لیجے یہ موبی فائل زو  ریڈر  پر پڑھی جا سکتی ہے۔