تبصرہ ٴ کتب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تبصرہ ٴ کتب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

تبصرہ ٴکُتب | عکسِ فریادی - نصیر ترابی

نصیر ترابی شہرِ کراچی کے منفرد، طرح دار اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ محبت، تعلق، سماجی مسائل اور انسانی روئیے آپ کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں۔

عکس فریادی نصیر ترابی کی غزلیات کا مجموعہ ہے۔ آپ کی غزلیات شعری روایات کی علمبردار ہیں تاہم آپ کے موضوعات بہ یک وقت جدید بھی ہیں اور دورِ حاضر سے علاقہ رکھتے ہیں۔

نصیر ترابی کی معروف غزل "وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی" بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔

کتاب کے آخر میں شاعر کے فارسی اشعار بھی موجود ہیں تاہم راقم الحروف اپنی علمی بے بضاعتی کے باعث ان پر رائے دینے سے قاصر ہے۔

بحیثیتِ مجموعی یہ ایک اچھی کتاب ہے اور شعر و ادب کے قارئین کا اسے پڑھنا باعثِ زحمت نہیں ہوگا۔

نصیر ترابی کے کچھ اشعار آپ کے ذوق کی نذر

 

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا
یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا
اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا
ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے
سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا
کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے
پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا
کچھ روز نصیرؔ آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا

*****

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے
شہر بے مہر! کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے
ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
اس کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے

*****

مثل صحرا ہے رفاقت کا چمن بھی اب کے
جل بجھا اپنے ہی شعلوں میں بدن بھی اب کے
ہم تو وہ پھول جو شاخوں پہ یہ سوچیں پہروں
کیوں صبا بھول گئی اپنا چلن بھی اب کے
منزلوں تک نظر آتا ہے شکستوں کا غبار
ساتھ دیتی نہیں ایسے میں تھکن بھی اب کے

*****




تبصرہ ٴکُتب | روشن دان - جاوید صدیقی

روشن دان جاوید صدیقی کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ جاوید صدیقی ہندوستان کے ادیب ہیں اور اُن کا سابقہ بہ یک وقت صحافت اور فلمی دنیا سے رہا ہے۔ یہ خاکے زیادہ تر اُن لوگوں کے ہیں جن سے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں جاوید صدیقی صاحب کا واسطہ رہا۔ ان میں کچھ معروف لوگوں کے خاکے بھی ہیں اور کچھ مصنف کے قریبی لوگوں کے بھی ۔

جاوید صدیقی زبان و بیان پر گرفت رکھتے ہیں۔ اچھا لکھتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ لکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ قاری کو اپنے جذبات میں شریک کر لینا جاوید صدیقی کے لئے مشکل نہیں ہے۔ ان کے بعض خاکوں میں تو افسانوں کا سا رنگ ہے کہ پڑھنے والا اُس کے سحر میں کھو جاتا ہے آخر تک مصنف کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔

کہیں کہیں البتہ منظر نگاری کو کچھ ضرورت سے زیادہ طول دے دیتے ہیں۔ یا اپنے ممدوح (یا شاذ معاملات میں مذموم) کے بارے میں غیر دلچسپ تفصیلات بھی شامل کر دیتے ہیں۔

بہرکیف، یہ ایک اچھی کتاب ہے اور اسے وقت گزاری کے لئے پڑھا جا سکتا ہے۔ 

 


 

تبصرہ ٴکُتب | جپسی - مستنصر حسین تارڑ

 

تارڑ صاحب کا ناول جپسی مجھے اچھا لگا، شاید اس لئے کہ مجھے کافی دن بعد فکشن پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

ناول کا شروع کا حصہ پڑھ کر مجھ جیسے کولہو کے بیل کو اپنے شب و روز میں مقید ہونے کا کافی قلق ہوا۔ اور یہ خیال جاگا کہ کچھ نہ کچھ سیاحتی سرگرمیاں زندگی میں ہونی چاہیے۔ تاہم بہت جلد ہی ہم سنبھل گئے اور قفس کو پھر سے آشیاں سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔

اصلی ناول کافی دیر بعد شروع ہوا۔ یعنی ناول بھی اپنے مرکزی کردار کی طرح کچھ آوارہ گرد ثابت ہوا۔ جپسی کی محبت خانہ بدوشوں کی سی تھی۔ سادہ اور الہڑ ۔ اور کچھ اکھڑ بھی۔ جیسے خانہ بدوشوں کے ہاں سفر اور قیام کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا۔ بعینہ و ہی حال یہاں بھی تھا۔

یوں تو ناول میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انسان عش عش کر اُٹھے لیکن وقت گزاری کے لئے اور اپنے شب و روز سے کٹنے کے لئے یہ ایک اچھا ناول ہے۔

پسِ نوشت: ویسے جپسی سے مجھے طارق عزیز یاد آتے ہیں جو اپنے مشہورِ زمانہ پروگرام میں جپسی امیزنگ کریم کی تشہیر اپنے مخصوص انداز میں کیا کرتے تھے۔



تبصرہ ٴکُتب | کبڑا عاشق ۔ وکٹر ہیوگو


مجھے تراجم پڑھنا اس لئے اچھا لگتا ہے کہ عموماً شاہکار کتابیں ہی ذہن میں یہ خیال پیدا کرتی ہیں کہ انہیں دوسری زبان کے جاننے والوں کے لئے بھی پیش کیا جائے۔ ورنہ ہر کتاب کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ اور اکثر تراجم جو میں نے پڑھے ہیں وہ واقعتاً اپنی صنف کی شاہکار کتابیں ہیں۔

وکٹر ہیوگو کا مشہور ناول نوٹرے ڈیم کا کبڑا کا اردو ترجمہ کبڑا عاشق کے نام سے کیا گیا ہے ۔ فکشن ہاؤس نے اسے چھاپا ہے لیکن کہیں بھی مترجم کا ذکر نہیں کیا۔ ویب سرچ سے پتہ چلتا ہے کہ اس ناول کا ترجمہ ستار طاہر صاحب نے کیا ہے۔ بدگمانی سے کام لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ غالباً ستار طاہر کے کام کو ہی فکشن ہاؤس نے بغیر کریڈٹ دئیے اپنے پلیٹ فارم سے شائع کر دیا۔ واللہ اعلم!

بہر کیف، ناول کا پلاٹ اچھا ہے۔ پس منظر میں مصنف نے مذکورہ دور کے پیرس کا حال بھی پیش کیا ہے کہ کس طرح پیرس اُس وقت ظلم و جہالت کا شکار تھا اور وہاں کے عوام کی نفسیات کیا تھیں۔ سماج اور انصاف کی کون سی قدریں وہاں رائج تھیں۔

ناول میں بین السطور کئی ایک سماجی مسائل زیرِ بحث آئے ہیں کہ جن میں سے کچھ مسائل کا ہمیں آج بھی سامنا ہے۔ ناول کے ایک واقعہ کو پڑھ کر گلزار کا مشہور افسانہ "ادھا" یاد آتا ہے کہ جس کی تھیم یہ تھی کہ برے وقت میں ایک ایسا شخص کام آتا ہے کہ جس سے بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

بہرکیف، وقت گزاری کے لئے یہ ایک اچھا ناول ہے۔





تبصرہ ٴکُتب | جب زندگی شروع ہوگی


"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ناول ہے۔ اگر آپ نے یہ ناول نہیں پڑھا تو میری رائے یہ ہے کہ آپ بغیر کوئی اثر لئے اس ناول کو پڑھیے۔ بعد میں چاہیں تو یہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس ناول کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں تو پھر ہمارا تبصرہ حاضر ہے۔

کراچی ایکسپو سینٹر میں ہر سال کتابوں کی نمائش منعقد ہوا کرتی ہے اور ہم کم از کم ایک بار تو وہاں حاضری دے ہی دیتے ہیں۔ "جب زندگی شروع ہوگی" کا پہلا دیدار ہمیں کراچی ایکسپو سینٹر میں ایسی ہی ایک نمائش میں ہوا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ہال کے داخلی دروازے پر دو تین لوگ اس کتاب کا ایک ایک نسخہ لیے ہر آنے جانے والے کو گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہر ایک کو روک کر کہتے ہیں،کیا آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے؟

میری طبیعت کچھ ایسی ہے کہ میں اُن چیزوں سے کافی بیزار ہو جاتا ہوں جن کی بہت زیادہ مارکیٹنگ ہوتی نظر آتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ بھلا کوئی مجھ پر کوئی شے کیوں مسلط کرے۔ سو اپنی طبیعت کے باعث میں ہمشہ اس گروہ سے بچ کر نکل جاتا۔ پھر اُس کے بعد کہیں نہ کہیں اس کتاب کا دیدار ہوتا رہا کہ اکثر کتابوں کی دوکان پر یہ کافی نمایاں مقامات پر رکھی نظر آتی۔ اور میں اپنا پہلا تاثُّر لیے اسے نظر انداز کر دیتا۔

پھر ایک بار ہمارے ایک شفیق اُستاد نے ہم سے اس کتاب کا ذکر کیا اور بین السطور اس کی تعریف بھی کی۔ تب کہیں جا کر ہم نے اس کتاب کو فہرستِ مطالعہ میں جگہ دی۔ اور کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان دنوں ہم نے یہ کتاب پڑھ بھی لی۔


"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ناول یعنی فکشن ہے۔ لیکن یہ عام فکشن نہیں ہے۔ دراصل مصنف نے اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کی اُخروی زندگی کو ایک ناول کی صورت پیش کیا ہے۔ اس ناول کا آغاز ہی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے سے ہوتا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار عبداللہ نامی شخص ہے اور ناول کے تمام تر واقعات عبداللہ ہی کی زبانی بیان ہوئے ہیں۔ ناول میں حشر کے طویل ترین دن کا بیان ہے کہ کس طرح کے اعمال والوں کے ساتھ اُس دن کیا سلوک ہونا ہے۔ حشر کے دن کی سختیاں اور ہولناکیاں اس میں بتائی گئی ہیں ۔ حساب کتاب کیا ہوگا، کس طرح ہو گا۔حشر کا دن، اللہ کے انسانوں سے کئے گئے وعدوں کے پورا ہونے کا دن، کیسا ہوگا۔ جس نے اللہ کے وعدوں کو سچ سمجھا، اُس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا اور جس نے اللہ کے وعدوں اور وعید وں کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیاوی زندگی کو ہی سب کو کچھ سمجھ لیا، اُس کے ساتھ کیا ہوگا۔ پھر جنت اور جہنم کا بیان۔ جنت کے حسن و جمال اور عیش و آرام والی زندگی کا بیان اور جہنم کے بدترین حالات اور اہلِ جہنم کی مصیبتوں کا احوال اس تحریر میں موجود ہے۔ ساتھ ساتھ بین السطور اس بات کا بیان کہ کس طرح کی زندگی گزارنے والے کی آخرت کیسی ہوگی۔ اعمال کا وزن کس طرح ہوگا۔ نیّتوں کا کیا دخل ہوگا ، اور اللہ کی رحمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بیان۔ غرض کہ ایک کوزے میں سمندر کو بند کر دیا گیا ہے اور وہ بھی دلچسپ کہانی کے پیرائے میں۔

گو کہ مسلمان یہ سب وعدے وعید کہیں نہ کہیں پڑھتا سنتا رہتا ہے لیکن یہ سب چیزیں اکثر کسی ایک جگہ نہیں ملتیں ۔ انسانی فطرت ہے کہ کہانی کی شکل میں چیزوں سے زیادہ اثر لیتا ہے سو یہ ناول ہم سب کو پڑھنا چاہیے۔

اس ناول پر کچھ لوگوں کو اعتراضات بھی ہیں ۔ اور اعتراضات کا ہونا بعید از قیاس ہرگز نہیں ہے کہ ان سنجیدہ موضوعات کو کہانی کی شکل دینے میں کئی ایک قباحتیں درپیش ہو سکتی ہیں۔ تاہم مصنف کا کہنا یہ ہے کہ اُس ناول میں تمام تر مندرجات اور واقعات نگاری کے لئے اُنہوں نے اسلامی تعلیمات کے اہم ترین ماخذ قران اور صحیح احادیث سے استنباط کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے آپ کو کئی ایک احادیثِ مبارکہ اور قرانی آیات یاد آئیں گی جو اس بات کی دلالت ہے کہ یہ محض ایک فکشن نہیں ہے بلکہ مصنف نے اس کے مندرجات کی تحقیق میں کافی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔

ناول کے بارے میں مصنف نے کچھ وضاحتیں آغاز میں اور کچھ ناول کے انجام پر پیش کی ہیں جس سے عمومی شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔

شرعی اعتبار سے اس قسم کے ناول کی کیا حیثیت ہے میں اس حوالے سے کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں ۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ ناول بڑی تاثیر رکھتا ہے اور پڑھنے والے کو خدا سے قریب کرتا ہے اور فکرِ آخرت کو مہمیز کرتا ہے۔

یہ اُن تمام تحریروں سے کہیں بہتر ہے کہ جو ہمیں فکشن کو حقیقت بنا کر سُناتی ہیں اور اس پر یقین کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ہیں، اور ہم میں سے بہت سے سادہ لوح اُن پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔ تاہم یہ ناول ہے اور مصنف نے اسے بطورِ فکشن ہی پیش کیا ہے۔

اگر آپ اس ناول کی صنف کے متعلق تذبذب کا شکار ہیں تو میرے نزدیک اس کی مثال بچوں کی کہانیوں کی سی ہے کہ جو ہوتی تو فکشن ہی ہیں لیکن اُن میں دیا گیا اخلاقی سبق بالکل سچ ہوتا ہے ۔ شاید آپ نے بچپن میں اُس لکڑ ہارے کی کہانی سنی ہو کہ جس کی کلہاڑی دریا میں گر گئی اور ایک جل پری نے اُسے ایک چاندی کی کلہاڑی دکھائی کہ شاید یہ تمہاری کلہاڑی ہے۔ جس پر لکڑہارے نے منع کر دیا کہ یہ اُس کی کلہاڑی نہیں ہے۔ اُس کے بعد جل پری نے اُسے سونے کی کلہاڑی دکھائی اور اس بار بھی لکڑہارے نے انکار کر دیا ۔ اور جب تیسری بار جل پری نے اُسے اُس کی اپنی لوہے کی کلہاڑی دکھائی تو لکڑہارے نے کہا کہ ہاں یہی میری کلہاڑی ہے ۔ اور اس کے بعد اُس کی ایمانداری کے انعام کے طور پر جل پری نے اُسے سونے اور چاندی کی کلہاڑیاں بھی بطور تحفہ دے دیں۔ اب دیکھا جائے تو یہ خالص فکشن ہے لیکن ایمانداری کا سبق اپنی جگہ مسلم ہے اور ہماری توقع ہوتی ہے کہ بچے اس قسم کی کہانیاں سن کر ایمانداری سیکھیں۔

بہرکیف ایک کتاب کے تبصرے کی مد میں اتنا کہنا کافی ہے۔ آپ اپنی رائے کتاب پڑھ کر قائم کر سکتے ہیں۔ آخر میں ایک مشورہ ہماری طرف سے یہ ہے کہ اگر اس کتاب میں پیش کیے جانے والا کوئی خیال یا تصور آپ کے لئے نیا ہو یا چونکا دینے والا ہو تو اِ سے ایک دم قبول یا رد نہ کریں بلکہ تھوڑی سی تحقیق کریں جس سے آپ کی بھرپور تشفی ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ہدایت عطاء فرمائے اور دُنیا میں اور بالخصوص آخرت میں کامیابی سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔

پش نوشت: اگر آپ یہ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کو با آسانی بک اسٹال سے مل جائے گی اور اگر آپ اس کی پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو اس ربط سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔

******


تبصرہ ٴکُتب | پیاری زمین - پرل بک / اختر حسین رائے پوری


'پیاری زمین' مشہور امریکی مصنفہ مسز پرل بک کے ناول گُڈ ارتھ (Good Earth) کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مصنفہ کو نوبل پرائز دیا گیا اور یہ ناول بیسٹ سیلرز میں سے ایک ہے۔ مصنفہ ایک امریکی خاتون ہیں لیکن اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزرا اور اس ناول کے کردار و واقعات بھی چینی دیہاتی زندگی کا پس منظر لیے ہوئے ہیں۔ مصنفہ پرل بک 1892ء میں پیدا ہوئیں اور 1934ءتک زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزارا۔ اسی اثناء میں انہوں نے بیسوی صدی کے چین کی دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھا اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ہی یہ ناول رقم کیا۔


کتاب میں کل 476 صفحات ہیں ۔ جس میں سے 28 صفحات تعارف پر مبنی ہیں ۔ جس میں چین کے اس دور کے حالات ذکر ہیں کہ جب ناول نگاری کو مشاہیرِ ادب حقیر جانتے تھے اور اسے کسی بھی طرح ادبِ عالیہ کا درجہ دینے پر راضی نہیں تھے۔ تعارف میں مزید یہ بھی بتایا گیا کہ چین میں ناول نگاری کا ارتقاء کس طرح ہوا۔ چین کی عوام میں قصہ کہانیوں کا رواج بہت عام تھا ۔ یہی قصہ کہانیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتے ہوئے ناولز کا روپ دھار گئیں ۔

گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کیا اور اسے انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے شائع کیا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری پاکستان کے نامور ترقی پسند نقاد، ماہرِ لسانیات، افسانہ نگار اور مترجم تھے ۔

ڈاکٹر صاحب نے ناول کا ترجمہ بہت احسن طریقے سے کیا ہے اور بامحاورہ ،شستہ و نستعلیق اردو سے مزین یہ ناول کسی بھی طرح اردو دان طبقے کے لئے اجنبی معلوم نہیں ہوتا۔

میرے جیسے قاری کے لئے کہ جو عدیم الفرصتی اور سہل پسندی کے باعث سب سے پہلے کسی بھی کتاب کے صفحات گنا کرتا ہے ، چار ساڑھے چار سو صفحات کا ناول پڑھنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ تاہم ناول اس قدر رواں ہے کہ قاری کو ہرگز گراں نہیں گزرتا۔ حالات و واقعات اس طرح باہم پیوست ہیں کہ قاری کہانی کی تلاش میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کہانی انجام تک اُسے اپنے ساتھ ساتھ چلاتی ہے ۔

ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو قریب سے دکھایا گیا ہے جس نے انتہائی غربت میں اپنے کام کا آغاز کیا اور ایک باندی سے شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد مستقل محنت سے اپنی زمینوں میں اضافہ کرتا گیا۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمیندار بنتا گیا۔ناول بار بار یہ باور کرواتا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے اور وہ لوٹ پھیر کر اپنی زمین کی طرف ہی آتا ہے۔

ناول کا سب سے اہم حصہ وہ ہے کہ جس میں تاریخی قحط کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوئے ۔ یہاں تک کے اُنہیں بھیک مانگ کر بھی گزارا کرنا پڑا۔ قحط کی ہولناکی سمجھنا آج کے انسان کے لئے دشوار ہے ۔ وہ اس بات کا ٹھیک طرح ادراک نہیں کر سکتا کہ کس طرح اناج کے چند دانے انسان کے لئے ہر چیز اور ہر رشتے سے زیادہ مقدم ہو سکتے ہیں۔

کسان وانگ لنگ نے عروج و زوال کے کئی ایک زمانے دیکھے اور آخر کار وہ ایک بہت بڑا زمیندار بن گیا۔ ناول ہمہ وقت کئی ایک ذیلی موضوعات میں بھی گھرا رہتا ہے کہ جن میں انسانی فطرت، غربت کے مسائل، امارت کے ساتھ در آنے والی خرابیاں شامل ہیں ۔ مزید براں اس ناول کی کہانی انسانی زندگی کی ذاتی اور سماجی نفسیات سے بھی چھیڑ چھاڑ کرتی نظر آتی ہے۔

یہ ناول پڑھ کر آپ یہ تو شاید نہ کہیں کہ یہ آپ کے پڑھے ہوئے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ ایک یادگار ناول ہے۔ اور اردو دان طبقے کے لئے اس میں مصنفہ کے ساتھ ساتھ مترجم کی محنت بھی شامل ہے۔

تبصرہ ٴکُتب | سرگزشت از سید ذوالفقار علی بخاری

سرگزشت

سید ذوالفقار علی بخاری
 
23 مارچ 2020ء کو سندھ حکومت نے صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا اور سب لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھیں تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکے ۔ آج اپریل کی چار تاریخ ہے اور تا حال لاک ڈاؤن جاری ہے ۔

نہ جانے اس لاک ڈاؤن سے کتنے فائدے اور کتنے نقصانات ہوئے تاہم اس سے قطع نظر ذاتی حیثیت میں ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ کچھ رُکے ہو ئے کام جو عدم فرصت کے باعث التویٰ کا شکار تھے، ہمارے کان میں کہنےلگے کہ اب تمہارے پاس کوئی بہانہ نہیں بچا۔

انہی بہت سے کاموں میں ایک کام وہ بھی تھا کہ جس کی تلقین ہم سارے زمانے کو کیا کرتے ہیں، یعنی کتب بینی۔ گو کہ ہم نے اب بھی اپنا تما م تر وقت کتب بینی کو نہیں دیا تاہم کچھ نہ کچھ آنسو پوچھنے کا سامان ہو ہی گیا۔

قصہ مختصر ، سید ذوالفقار علی بخاری کی آپ بیتی "سرگزشت" جو ہمارے زیرِ مطالعہ تھی اور جسے ہم مزے لے لے کر آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے، اُسے کچھ زیادہ وقت ملا اور ہم مکمل کتاب پڑھنے میں کامیاب ہو گئے، یا کتاب ہم سے جان چھرانے میں کامیاب ہو گئی۔

سرگزشت نہایت دلچسپ کتاب ہے ۔ فاضل مصنف نے یہ آپ بیتی بالکل غیر رسمی انداز میں لکھی ہے اور اس میں بے ساختگی کمال کی ہے ۔ تاہم غیر رسمی ہونے کے باوجود کتاب کے تمام تر مضامین باہم مربوط نظر آتے ہیں۔

اسے ان کتابوں کی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے کہ جو ختم ہونے کے قریب آئیں تو دل میں ملال سا ہوا کہ یہ دلچسپ کتاب اب ختم ہو جائے گی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب "غبارِ خاطر" اور کچھ دیگر کتابوں کے اختتام پر بھی ہماری ایسی ہی کچھ کیفیت تھی۔ غبارِ خاطر میں اور اس کتاب میں ایک اور قدرِ مشترک باموقع فارسی اشعار کی شمولیت بھی ہے۔ فارسی اشعار ہماری سمجھ میں بامشکل ہی آتے ہیں ۔ لیکن مقامِ شکریہ رہا کہ غبارِ خاطر کی طرح اس کتاب کے آخر میں فارسی اشعار کی تشریح موجود نہیں تھی ورنہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے بھی ہم نفسِ مضمون اور تفہیمِ شعر کی حسرت کے درمیان ہی معلق رہتے۔

مجھے اعتراف ہے کہ میں نے کافی عرصے بعد ایک بہت دلچسپ کتاب پڑھی اور اپنے وقت کا زیاں ہرگز محسوس نہیں ہوا۔

بخاری صاحب نے مضامین کو کوئی عنوان نہیں دیا بلکہ اُنہیں شمار کیا ہے اور اس اعتبار سے کتاب میں کل 55 مضامین ہیں۔ کتاب کے مضامین گو کہ کہانی کی صنف سے علاقہ نہیں رکھتے تاہم بخاری صاحب ہر مضمون کو نکتہ عروج یعنی کلائمیکس تک لے جاتے ہیں اور اکثر مضامین کا انجام افسانوں کے انجام کی طرح ہوتا ہے اور قاری کتاب ہاتھ میں لیے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ مضامین فکشن نہیں ہیں تاہم فکشن سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ خاکسار کی رائے میں ایسا طرزِ تحریر قسمت والوں کو ہی میسر آتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کتاب میں شاذ ہی یہ گمان ہوتا ہے کہ کوئی بات دُہرائی جا رہی ہے۔ ورنہ اکثر آپ بیتیاں مکر ر ارشاد سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ لوگ اُلٹ پھیر کر وہی مضامین بیان کرتے چلتے جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ بخاری صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزار ی ہے اور ریڈیو جیسے محکمے میں جو اُس وقت بے حد اہمیت کا حامل تھا ایک اہم عہدے پر فائز رہے اور سرگرم طبعیت کے باعث ہمہ وقت پر عزم اور مصروف عمل رہے ۔

بہرکیف کتاب انتہائی پرلطف ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ اپنا قیمتی وقت اس کے لئے نکالا جائے۔


*****

تبصرہ ٴکُتب | احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

یہ کتاب معروف پاکستانی صنعت کار جناب احمد داؤد کی سوانح عمری ہے اور اسے عُثمان باٹلی والا صاحب نے لکھی ہے۔ احمد داؤد پاکستان میں صنعتکاری کے بانی سمجھے جاتے ہیں اور کاروباری اعتبار سے پاکستان میں اُن کا نام کافی اہم ہے۔

کتاب کی زبان صاف ستھری ہے اور مضامین بڑے واضح اور آسان انداز میں لکھے گئے ہیں ۔غرض یہ کہ تحریر پر مصنف کی گرفت مضبوط ہے اور مضامین کا ابلاغ ایک عمومی قاری کے لئے بے حد آسان ہے ۔

احمد داؤد کی سوانح عمری ہندوستان سے شروع ہو کر پاکستان تک آ جاتی ہے۔ احمد داؤد کی ساری زندگی محنت اور جانفشانی سے عبارت ہے۔ کاروباری برادری سے تعلق ہونے کے باعث اُن کو کاروباری سمجھ بوجھ وراثت میں ملی تھی۔ اُنہوں نے اپنی محنت سے اپنی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔

نوجوانوں کے لئے ان کی زندگی میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔ احمد داؤد کام کو زندگی سمجھتے تھے اور ہمیشہ انتھک محنت اور لگن سے اپنے اہداف کے حصول میں لگے رہتے تھے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے احمد داؤد کے کچھ اقوالِ زریں میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔

"Pursue work not money. Get down to work and don’t pursue money. If you run after the money it might run away but if you concentrate on your work, money will automatically follow you. So work, work and only work."

"Never lose your hope while passing through unfavorable conditions or experiencing tough times"

"Leave your nose (ego, arrogance or hot temperament) at home while going out for work."

Ahmed Dawood
گو کہ مصنف نے احمد داؤد صاحب کی کچھ خامیوں کا ذکر کیا ہے تاہم ان کا یہ ذکر برائے خانہ پوری ہی معلوم ہوتا ہے۔ خاکسار کا خیال ہے کہ ہر کامیاب شخص کی طرح احمد داؤد کی شخصیت بھی کہیں نہ کہیں ضرور متنازع رہی ہوگی اور اُن کے دوستوں کے ساتھ ساتھ اُن سے اختلاف رکھنے والے لوگ یا اُن پر تنقید کرنے والے لوگ بھی ضرور ہوں گے۔ تاہم یہ کتاب اس معاملے میں خاموش ہے ۔ غالباً یہ کتاب اُن کی برداری کے ایک فرد کی طرف سے لکھی گئی ہے سو اسے ایک غیر جانبدار کتاب گرداننا دشوار ہو گا۔

تاہم احمد داؤد کی زندگی اور جدو جہد سے سبق سیکھنے والوں کے لئے یہ کتاب بہر کیف مفید ہے۔ 

تبصرہ ٴکُتب | بیراگ (ناول)

بیراگ

بیراگ سنہالی ادب کا ایک ناول ہے جسے مارٹن وکرما سنگھے نے تحریر کیا ہے ۔ اس ناول کا اردو ترجمہ مصطفیٰ نذیر احمد صاحب نے کیا ہے اور اس کے ناشر مشعل لاہور ہیں۔ بنیادی طور پر اس ناول کا پس منظر سری لنکا کا دیہی علاقہ ہے اور ناول میں سنہالی ثقافت رچی بسی ہے۔




اس ناول کی طرز ایک آپ بیتی کی سی ہے ۔ لیکن اس سے پیشتر راوی نے اختتامیہ پیش کیا ہے کہ جو ہمیں ناول کے کردار و واقعات سے آگہی دیتا ہے۔ گو کہ ناول کا پلاٹ سیدھا سادھا ہے لیکن پھر بھی یہ کسی عام ناول سے بہت مختلف ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ کہانی دلچسپ ہے لیکن زیادہ دلچسپ انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں الجھتے بل کھاتے وہ مظاہر ہیں جو اس ناول میں بین السطور پیش کیے گئے ہیں۔ اگر آپ کسی شاندار پلاٹ اور کہانی میں ٹوئسٹ کے متلاشی ہیں تو یہ ناول آپ کے لئے نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ انسان کی گوناگوں درونی کیفیات اور نفسیات سے دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو یہ ناول کو ضرور پڑھنا چاہیے۔

تبصرہ ٴکُتب | ہدایت نامہ شاعر از ساقی فاروقی


ہدایت نامہ شاعر، ساقی فاروقی کی کتاب ہے۔

یہ ساقی فاروقی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جسے سنگ میل پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔ شاعری پر تنقید کے حوالے سے یہ ایک بہت اچھی کتاب ہے۔ مصنف ادبی تنقید میں کافی درک رکھتے ہیں ۔ اپنی تحریر میں بڑے کھرے ہیں اور جس بات کو جیسا سمجھتے ہیں ویسا ہی بیان کرتے ہیں۔ اور یہی اُن کی خوبی ہے۔

ساقی صاحب نے اپنی کتاب میں جہاں جہاں تنقید کے باب رقم کیے ہیں وہاں وہاں اُنہوں نے اُنہیں حوالوں سے مشاہیر و معاصر شعراء کے بہترین اشعار کا انتخاب بھی پیش کیا ہے اور ساقی بہرکیف سچے اور اچھے شعر سے محبت کرنے والے ہیں۔

ساقی کلیشے زدہ اشعار و عبارت سے سخت خائف ہیں اور وہ چاہتے کہ ہر شخص جو لکھے وہ نیا ہو اور اوریجنل ہو۔ خاکسار اُن کی اس بات سے صد فی صد متفق ہے ۔ جب ہم کسی نئے شاعر کا کلام پڑھیں تو ہمیں لگے کہ ہم کچھ نیا پڑھ رہے ہیں اور یہ شاعری مشاہیر کے کلام کا نیا جنم نہیں ہے۔

کتاب کا پہلا اور شاید سب سے طویل باب اُنہوں نے وزیر آغا صاحب کی شاعری پر لکھا ہے بلکہ اُنہیں ٹھیک ٹھاک آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اور وزیر آغا کے کلام میں ایسے اسقام کی نشاندہی کی ہے کہ جن سے مبتدی شعراء بھی با آسانی بچ جاتے ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مصنف کافی زیادہ منہ پھٹ اور کسی حد تک بد تمیز واقع ہوئے ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فن شعر اور تنقید میں اُن کی فہم و فراست اور اعلیٰ ذوق کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں۔

اس کتاب کو اردو شعری تنقید کی اچھی کتابوں میں چُنا جا سکتا ہے تاہم اب صرف یہ خواہش ہی کی جا سکتی ہے کہ مصنف نے تنقید کرتے ہوئے نرم رویّہ اختیار کیا ہوتا اور زیرِ گفتگو متن کو معروضی انداز میں دیکھا ہوتا۔

بہر کیف یہ ایک اچھی کتاب ہے اور شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں اور بالخصوص شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔



اسی دن میں دنیا کا سفر - ہمدرد نونہال سے جُڑی ایک یاد


آج ہم جو پڑھنے لکھنے کا تھوڑا بہت شغف رکھتے ہیں اُس کی بڑی وجہ بچپن میں پڑھے جانے والے رسالے اور خصوصاً ہمدرد نونہال رہا ہے۔  ہمدرد نونہال غیر محسوس طریقے سے اپنے ننھے منے قارئین کی اس طرح تربیت کرتا تھا کہ اُن میں تمام تر نیک کاموں   اور اچھی چیزوں سے محبت راسخ ہو جاتی تھی۔ ہر اچھائی بُرائی کا اس خوبی سے احساس دلایا جاتا تھا کہ وہ بغیر جانے ہی لاشعور میں اُتر جاتی تھی۔  آج بھی ہم میں نہ جانے کیا باتیں ایسی موجود ہیں جن  کا  تعلق کہیں نہ کہیں سے نونہال ادب سے جا ملتا ہے۔ 

آج بھی ہمیں بچوں کا کوئی ایسا ماہنامہ نظر نہیں آتا جس کا  پیش لفظ جاگو جگاؤ کی طرح تعمیری  طرز رکھتا ہو۔ حکیم محمد سعید اور مسعود احمد برکاتی  کے قلم میں ایسی مٹھاس ، ایسی شفقت تھی کہ پڑھنے والے پر اثر ہو کر ہی رہتا تھا۔  خیال کے  پھو ل کے نام سے دنیا بھر  کے نامور لوگوں کے اقوالِ زرّیں  بچوں کو بڑی سوچ سے روشناس کراتے تھے۔ پھر دیگر چھوٹی چھوٹی کہانیاں ، مضامین اور کبھی کبھی سفر نامے ، یہ سب تفریحِ طبع کے ساتھ ساتھ زبان پر عبور اور اعلیٰ  عادات  و اوصاف سے قربت کا سبب بھی بنتے تھے۔  بہر کیف ہمدرد نونہال بچوں کے لئے ایک بھرپور اور صحتمند تفریح ہوا کرتا تھا۔ شاید اب بھی ایسا ہی ہو۔ 

چاہے آپ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جائیں بچپن بھولے نہیں بھولتا ہے۔ سو آج ہم بھی ایک چھوٹی سی کہانی کے وسیلے سے اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گئے۔  

"اسی دن میں دنیا کا سفر" نونہال ادب سے منتخب کی گئی ایک کہانی ہے جس میں ایک شخص نے اُس زمانے میں اسی دن میں دنیا کا سفر طے کرنے کی شرط لگائی جب  یہ سفر کم از کم تین ماہ پر محیط سمجھا جاتا تھا۔  یہ چھوٹی سی کہانی قاری کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کے ہنر سے واقف ہے اور اس میں تجسس،  مہم جوئی، انسانی ہمدردی، ہمت و جواں مردی اور راستی  جیسے بڑے بڑے عناصر باکثرت ملتے ہیں۔  اگر آپ یہ کہانی پڑھنا شروع کر دیں تو پھر اسے ختم کرکے ہی چھوڑیں گے۔ 

یہ کہانی انگریزی سے ترجمہ کی گئی ہے اور ہمیں "اردو کی برقی کتابیں" جو کہ ہمارے استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب کی ای بکس کی سائٹ ہے سے ملی۔ اس خوبصورت کہانی کی ٹائپنگ ہمارے بہت ہی اچھے دوست انیس الرحمٰن بھائی نے کی ہے جو نونہال ادب سے یک گونہ محبت رکھتے ہیں اور ای بک کی تدوین و تشکیل جناب اعجاز عبید صاحب کے بابرکت ہاتھوں سے ہی ہوئی ہے۔ 

اگر آپ یہ مختصر کہانی پڑھنا چاہیں تو یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔ 



اگر آپ اس تحریر کو اپنے اینڈروائڈ   سیٹ پر  پڑھنا چاہیں تو یہاں سے ڈاؤنلوڈ  کر لیجے یہ موبی فائل زو  ریڈر  پر پڑھی جا سکتی ہے۔