کراچی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کراچی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ذہانت یا خیانت

ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں جگہ جگہ پر بھانت بھانت کی چورنگیاں ہوا کرتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ سڑکیں تنگ ہوتی گئیں اور چورنگیاں سُکڑتی گئیں۔ اب حال یہ ہے کہ کراچی میں بڑی بڑی چورنگیاں دو ایک ہی رہ گئی ہیں۔

مشہورِ زمانہ فور کے چورنگی کے چرچے تو آپ نے سنے ہی ہوں گے لیکن آج کا قصہ پاور ہاؤس چورنگی سے متعلق ہے۔ پاور ہاؤس چورنگی فور کے چورنگی سے کچھ فاصلے پر ہے اس کے قریب بجلی بنانے والی کمپنی کا پاور ہاؤس ہے اور اسی نسبت سے یہ پاور ہاوس چورنگی کہلاتی ہے۔ اس پر ایک سفید رنگ کا ماڈل جہاز لگا ہوا ہے اور اس کی دیواریں سُرخ رنگ کی جالی دار اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ چورنگی کی دیوار کا ایک بڑا حصہ کچھ عرصہ قبل ٹوٹ گیا تھا اور یہ کافی بدنما معلوم ہوتا تھا۔ کل پرسوں میں نے دیکھا کہ کسی نے اس دیوار کے ٹوٹے ہوئے حصے کو پینا فلیکس شیٹ سے بند کر دیا تھا۔ اور پینا فلیکس پر بعینہ چورنگی کی اینٹوں کی سی دیوار کا ڈیزائن پرنٹ کیا گیا تھا۔ پہلی نظر میں پتہ نہیں چلتا تھا کہ دیوار کا یہ حصہ اصلی نہیں بلکہ دیوار کی پینافلیکس نقل ہے۔ مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا کہ چورنگی کی بدنمائی اس سے چھپ گئی اور خرچہ بھی اس میں کم آیا ہوگا۔

تاہم اگلے دن جب میں نے اس کا تفصیلی جائزہ لیا تو دیکھا کہ ماڈل جہاز کے عین سامنے ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا تھا کہ جس میں ایک تعمیراتی ادارے جی ایف ایس بلڈر زکی طرف سے ضلع کی تزین و آرائش کا بلند و بانگ دعویٰ کیا گیا تھا۔

مجھے اس بات پر اچھی خاصی حیرت ہوئی، اور حیرت بھی اشتعال آمیز ۔ اگر پینافلیکس لگانے کا کام کسی چھوٹی موٹی این جی او نے کیا ہوتا تو یقیناً لائقِ ستائش ہوتا۔ لیکن ایک تعمیراتی ادارہ جو کہ اس مشہورِ زمانہ چورنگی کو اپنی تشہیر کے لئے بھی استعمال کر رہا ہے ، اس سے یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ وہ چند سو اینٹیں لگانے کے بجائے پینافلیکس کی دیوار بنا کر اپنے تئیں ضلع مکینوں پر احسان جتائے۔

یقیناً اس مہم کو اُنہوں نے سرکاری محکمہ کی باقاعدہ اجازت کے بعد ہی شروع کیا ہوگا تو ایسے میں سرکاری عہدے دار بھی اس بات کے قصور وار ہیں کہ اُنہوں نے اتنی ارزاں قیمت پر اتنی بڑی چورنگی کو اشتہار ی مہم کے استعمال کے لئے دے دیا۔

چورنگی کی کنکریٹ کی دیوار میں پینا فلیکس کا پیوند لگانے کا خیال یقیناً تعمیراتی ادارے کے پیچھے کارفرما افراد کی ذہانت کا کمال ہے تاہم ایک تعمیراتی ادارے کو اس قسم کی حرکت ہرگز زیب نہیں دیتی۔ وہ بھی تب کہ جب وہ اس چورنگی کو اپنے کاروباری مقاصد کے لئے بھی استعمال کر رہے ہوں۔
پاور ہاؤس چورنگی

تصویر بغیر رُکے لی گئی ہے معیار کے لئے معذرت

کرکٹ آزار اور کراچی

 

کراچی والے کرکٹ سے محبت کرتے ہیں جن میں سے ایک تو راقم تحریر خود ہے۔

کرکٹ کا کھیل بچپن سے لے کر آج تک اس خاکسار کے لیے باعثِ دلکشی رہا ہے۔ بچپن میں ہم بلّے کے حصول کے لئے گیندیں گھما گھما کر پھینکنے کے عادی رہے ہیں، اور بلّا مل جانے پر اکثر گیند بزورِ بلّا گم کر دینے کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ تاہم، ہمیں یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا کہ ان معصوم خطاؤں کی کیا بھیانک سزا ہمیں مستقبل میں بھگتنی ہوگی۔

بچپن کے رخصت ہوتے ہوتے دیگر کھیلوں کی طرح یہ کھیل بھی ہم سے چھٹ گیا تاہم کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلوں سے جو دلی وابستگی قائم ہوئی، وہ آج بھی قائم ہے۔ بالخصوص مملکت ِ خداداد کی خداداد صلاحیتوں اور نالائقیوں کی حامل ٹیم جب کبھی میدان میں اترتی ہے تو خاکسار شرمسار ہونے سے پہلے اور اکثر بعد تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔

ایسی الجھی نظر اُن سے ہٹتی نہیں
دانت سے ریشمی ڈور کٹتی نہیں


عمر کب کی برس کے سفید ہو گئی لیکن یہ موئے سیاہ کی مانند کرتوت والے 'لڑکے' تا حال ہماری جان کے درپے ہیں۔ اور ہم بھی پیرویِ میر میں انہی لڑکوں سے اب تک دوا لے رہے ہیں۔

ہم فقیروں کو کچھ آزار تمھیں دیتے ہو
یوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں


سچی بات تو یہ ہے کہ عین شہر کے قلب میں شدید ترین حفاظتی انتظامات کے تحت ہونے والی کرکٹ، کرکٹ کے دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کرتی ہے۔ نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف کی سڑکیں کئی کئی دن بندش کے ادوار سے گزرتی ہیں اور اپنے اپنے اسکول، کالج، دفتر، دوکان، ہسپتال اور قبرستان جانے والے کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر پھنسے رہتے ہیں اور یوں یہ کرکٹ کا مزیدار کھیل لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔

سڑکوں کی بے جا بندش کرکٹ بیزاروں کو ہمارے کان کترنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور ہم خود سڑکوں پر پہروں پھنسے رہنے کے باعث کرکٹ سے بیزار اور کرکٹ بیزاروں کے آگے شرمسار نظر آتے ہیں۔

ہماری حکامِ بالا و زیریں اور میانِ بالا و زیریں سے مودبانہ گزارش ہے کہ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں اور خط کو تار سمجھیں اور ان کرکٹ میچوں کو شہر کے کسی دور افتادہ مقام پر منعقد کروایا جائے کہ جہاں عوام الناس کے شب و روز کرکٹ میچز کے حفاظتی انتظامات سے متاثر نہ ہوں۔ اسی میں کراچی، کرکٹ اور عوام الناس کی بھلائی ہے۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر




کراچی آرٹس کونسل میں خوش نویسی کی نمائش


منگل کے روز آرٹس کونسل کراچی میں کیلیگرافی ایگزیبیشن یعنی خوش نویسی / خطاطی کی سہ روزہ نمائش کا افتتاح ہوا ۔ یوں تو یہ نمائش ہر سال ماہِ رمضان میں منعقد ہو ا کرتی ہے لیکن اس بار حکومتی عہدے داروں کو اس غیر ضروری کام کے لئے فرصت ہی نہیں مل پا رہی تھی سو یہ کام رمضان میں نہ ہو سکا اور اُس کے بعد التوا در اِلتوا کا شکار رہا ۔ تاہم آخر کار یہ 15 ستمبر 2015 کو منعقد ہوا ۔ اور سُنا ہے کہ اس بار بھی کمشنر کراچی نہ پہنچ پائے۔

بہرکیف، ہم یوں تو آرٹس کونسل میں جا کر جھانکتے تک نہیں ہیں تاہم ہمارے ایک عزیز دوست محمد وسیم اور اُن کے تین دوست محمد شفیق، سلمان احمد اور نعیم سعید مغل اس نمائش میں حصہ لے رہے تھے تو ہم بھی کشاں کشاں اس موقع پر وہاں پہنچ گئے۔

نمائش میں نو آموز اور تجربہ کار دونوں ہی قسم کے فنکاروں کا کام شامل تھا اور بیشتر کام اسلامی خطاطی سے متعلق تھا۔ بہت سا کام ایسا بھی تھا کہ دیکھتے ہی کلمہ ء تحسین لبوں پر آ کر سج گیا۔ زیادہ تر کام آئل پینٹ سے کیا گیا تھا اور کچھ میں دیگر میڈیا بھی استعمال ہوا تھا۔ ہمارے دوست محمد وسیم اپنی مصروفیات کے باعث صرف ایک ہی شاہکار پیش کر سکے ۔ پاکستانی فنکاروں میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو زندگی کی گوں ناگوں مصروفیات میں سے بامشکل ہی اپنے شوق کے لئے وقت نکال پاتے ہیں اور اکثر زبانِ حال سے یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ:

ع- تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

قارئین کی دلچسپی کے لئے کچھ تصاویر اس پوسٹ میں شامل کر رہے ہیں۔
(تصاویر چونکہ موبائل کیمرے سے لی گئی ہیں سو معیار زیادہ اچھا نہیں ہے۔)

ہمارے دوست محمد وسیم اپنے فن پارے کے ساتھ

محمد وسیم نمائش میں شرکت کی سند وصول کرتے ہوئے۔

محمد وسیم ، خاکسار اور محمد شفیق ، عقب میں محمد شفیق کے بنائے ہوئے دو فن پارے ۔

مزید کچھ فن پارے جو ہمیں پسند آئے۔













 فن یا آرٹ کے ذریعے ہم اپنی زندگی کے معمولات تو نہیں بدل سکتے لیکن تخلیقی ماحول سے قربت ہمارے محسوسات ضرور بدل سکتی ہے۔ آج کی زندگی بلاشبہ بہت مصروف ہے لیکن کبھی کبھار اس قسم کی تقاریب میں شرکت ہمارے روز و شب میں بہتری لانے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتی ہے۔


لب لرزتے ہیں روانی بھی نہیں

غزل

لب لرزتے ہیں روانی بھی نہیں
گو کہانی سی کہانی بھی نہیں

چاندنی ٹھہری تھی اِس آنگن میں کل
اب کوئی اس کی نشانی بھی نہیں

رابطہ ہے پر زماں سے ماورا
فاصلہ ہے اور مکانی بھی نہیں

حالِ دل کہنا بھی چاہتا ہے یہ دل
اور یہ خفّت اُٹھانی بھی نہیں

غم ہے لیکن روح پر طاری نہیں
شادمانی، شادمانی بھی نہیں

جس میں آخر ہنستے بستے ہیں سبھی
یہ کہانی، وہ کہانی بھی نہیں

کچھ کچھ اندازہ تھا اس دل کا مجھے
عشق ایسا ناگہانی بھی نہیں

یاد رہ جائے گی بس اک آدھ بات
داستاں یہ جاویدانی بھی نہیں

کل مری بستی میں اک سیلاب تھا
آج دریاؤں میں پانی بھی نہیں

گو ہماری ترجماں ہے یہ غزل
یہ ہماری ترجمانی بھی نہیں

محمد احمدؔ

جو سنتا ہوں کہوں گا میں ۔ انور شعورؔ کی دو غزلیں


انور شعور ؔ عہدِ حاضر کے اُن  شعراء میں سے ہیں جن کا کلام اُن کو بہت سے دوسرے ہم عصر شعراء  سے ممتاز کرتا ہے۔ انور شعور کے ہاں جو  بے ساختگی اور  بے باکی ہمیں ملتی ہے وہ دیگر  شعراء میں شاذ ہی نظر آتی ہے ۔ بے باکی کو  اشعار  میں برتنا ، وہ بھی ایسے کہ شعر کا فطری حسن  ، نزاکتِ خیال اور  نغمگی  متاثر نہ ہو، آسان ہرگز نہیں ہے لیکن انور شعور کے ہاں ایسے اشعار جا بجا نظر آتے ہیں اور اُن کی قادر الکلامی پر دلالت کرتے ہیں۔   اُن کی دو خوبصورت غزلیں اہلِ  ذوق کی نذر کی جا رہی ہیں  جو  اپنی مثال آپ ہیں اور انور شعور کی  دل پزیر  شاعری کی  تمثیل بھی ہیں۔


غزل

توفیقِ علم و حلم و شرافت نہیں مجھے
حاصل کسی طرح کی سعادت نہیں مجھے

جب سے سنی ہیں متّقیوں کی کرامتیں
اپنے کیے پہ کوئی ندامت نہیں مجھے

دل چاہتا تو ہے کہ ہَوس کاریاں کروں
لیکن یہ استطاعت و ہمّت نہیں مجھے

خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے

تا حشر حاسدوں کو سلامت رکھے خدا
ان کے طفیل کون سی راحت نہیں مجھے

درپے ہُوا ہی کرتے ہیں کج فہم و کم نظر
ان احمقوں سے کوئی شکایت نہیں مجھے

لکھّی گئی ہیں نامہ ء اعمال میں مرے
جن لغزشوں سے دور کی نسبت نہیں مجھے

کیا کیا ہُوئیں نہ حوصلہ افزائیاں کہ اب
زنہار صبر و ضبط کی طاقت نہیں مجھ

چُپ ہوں کہ بارگاہِ حقیقت پناہ سے
اسرار کھولنے کی اجازت نہیں مجھے

انور شعورؔ

*******

جو سنتا ہوں کہوں گا میں، جو کہتا ہوں سنوں گا میں
ہمیشہ مجلسِ نطق و سماعت میں رہوں گا میں

نہیں ہے تلخ گوئی شیوہ ء سنجیدگاں لیکن
مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں

کم از کم گھر تو اپنا ہے، اگر ویران بھی ہوگا
تو دہلیز و در و دیوار سے باتیں کروں گا میں

یہی احساس کافی ہے کہ کیا تھا اور اب کیا ہوں
مجھے بالکل نہیں تشویش آگے کیا بنوں گا میں

مری آنکھوں کا سونا چاہے مٹی میں بکھر جائے
اندھیری رات! تیری مانگ میں افشاں بھروں گا میں

تساہل ایک مشکل لفظ ہے، اس لفظ کا مطلب
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں، کسی سے پوچھ لوں گا میں

حصول آگہی کے وقت کاش اتنی خبر ہوتی
کہ یہ وہ آگ ہے جس آگ میں زندہ جلوں گا میں

اُداسی کی ہوائیں آج پھر چلنے لگیں؟ اچھا
تو بس آج اور پی لوں، کل سے قطعا` چھوڑ دوں گا میں

کوئی اک آدھ تو ہوگا مجھے جو راس آجائے
بساطِ وقت پر ہیں جس قدر مہرے چلوں گا میں

نہ لکھ پایا ترے دل میں اگر تحریرِ غم اپنی
تری ماتھے پہ اک گہری شکن ہی کھینچ دوں گا میں

کیا ہے گردشوں سے تنگ آ کر فیصلہ میں نے
کہ محنت کے علاوہ چاپلوسی بھی کروں گا میں

اگر اس مرتبہ بھی آرزو پوری نہیں ہوگی
تو اس کے بعد آخر کس بھروسے پر جیوں گا میں

یہی ہوگا، کسی دن ڈوب جاؤں گا سمندر میں
تمناؤں کی خالی سیپیاں کب تک چنوں گا میں

انور شعورؔ



کراچی کی غزل خواں مر گئے کیا

غزل

سخن ہاے دل و جاں مر گئے کیا
کہو کچھ تو کہو ہاں مرگئے کیا

یہ کیا آٹھوں پہر چپ سی لگی ہے
وہ کچھ کہنے کے ارماں مر گئے کیا

جیے جاتے ہیں ہم اک دوسرے بن
ہمارے عہد و پیماں مر گئے کیا

یہ خاموشی تو اب رونے لگی ہے
وہ آنے والے طوفاں مرگئے کیا

یہ دل کیوں سینہ کوبی کر رہا ہے
یہ تم مجھ میں مری جاں مر گئے کیا

اسیرانِ خمِ زلفِ زمانہ
پریشاں تھے پریشاں مر گئے کیا

جو دن دھّمال کرتے آ رہے تھے
وہ رستے ہی میں رقصاں مر گئے کیا

کوئی تو دارسامانی کو آتا
گرانی میں سب ارزاں مر گئے کیا

میں ایسا کون زندہ ہوں کہ پوچھوں
کراچی کی غزل خواں مر گئے کیا

لیاقت علی عاصمؔ