افتخار عارف لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افتخار عارف لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس ۔ افتخار عارف

غزل

کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس
ایک بستی میں کسی شہرِ خوش آثار کے پاس

دِن نِکلتا ہے، تو لگتا ہے کہ جیسے سورج
صُبحِ روشن کی امانت ہو شبِ تار کے پاس

دیکھیے کُھلتے ہیں کب، انفس و آفاق کے بھید
ہم بھی جاتے تو ہیں اِک صاحبِ اَسرار کے پاس

خلقتِ شہر کو مُژدہ ہو کہ، اِس عہد میں بھی
خواب محفوظ ہیں اِک دِیدۂ بیدار کے پاس

ہم وہ مُجرم ہیں کہ آسودگیِ جاں کے عِوَض
رہن رکھ دیتے ہیں دِل درہَم و دیِنار کے پاس

کسی گُم گشتہ مُسافر کی دُعاؤں کا اثر
منزلیں گرد ہو ئیں جادۂ ہموار کے پاس

دِل کی قیمت پہ بھی ،اِک عہد نِبھائے گئے ہم
عُمر بھر بیٹھے رہے، ایک ہی دِیوار کے پاس

شہِ خُوبانِ جہاں ایسی بھی عُجلت کیا ہے
"خود بخود پہنچے ہے گُل گوشۂ دستار کے پاس"

افتخار عارف

افتخار عارف کی دو خوبصورت غزلیں

افتخار عارف کی دو خوبصورت غزلیں

قِصّہ ٴاہلِ جنُوں کوئی نہیں لِکّھے گا
جیسے ہم لِکھتے ہیں، یُوں کوئی نہیں لِکّھے گا

وَحشتِ قلبِ تپاں کیسے لکھی جائے گی!
حالتِ سُوزِ دَرُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

کیسے ڈھہ جاتا ہے دل، بُجھتی ہیں آنکھیں کیسے؟؟
سَر نوِشتِ رگِ خُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

کوئی لِکّھے گا نہیں ، کیوں بڑھی، کیسے بڑھی بات؟؟
کیوں ہُوا درد فزُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا

خلقتِ شہر سَر آنکھوں پہ بِٹھاتی تھی جنہیں 
کیوں ہُوئے خوار و زبُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا

عرضیاں ساری نظر میں ہیں رَجَز خوانوں کی
سب خبر ہے ہمیں، کیُوں کوئی نہیں لِکّھے گا

شہر آشُوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
مَیں ہی لِکُّھوں تو لکُھوں، کوئی نہیں لِکّھے گا! 

بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسِم میں 
کیا کہُوں،کس سے کہُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

✿✿✿✿✿✿✿

دل کو دِیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
خاک ہو جائیں جو رُسوائی کو شُہرت کریں ہم

اِک قیامت کہ تُلی بیٹھی ہے پامالی پر
یہ گُزرلےتوبیانِ قد وقامت کریں ہم

حرف ِ تردید سے پڑ سکتے ہیں سَو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عُمرکے دِن
شام آئی ہے تو کیا ترکِ محُبت کریں ہم

اک ہماری بھی امانت ہے تہ ِ خاک یہاں
کیسے ممکن ہے کہ اس شہر سے ہِجرت کریں ہم

دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دُنیا
صُبح سے پہلے ہر اِک خواب کو رُخصت کریں

شوق ِآرائش ِ گل کایہ صلہ ہے کہ صبا
کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم

عُمر بھر دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ
کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم


افتخار عارف

ٰImage Credit : Urdu Mehfil

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہر اک سیلِ بلا، ایک اک شناور سامنے ہے ۔ افتخار عارف

غزل 

ہر اک سیلِ بلا، ایک اک شناور سامنے ہے
کنارے ہوں مگر سارا سمندر سامنے ہے

اک آئینہ اور اتنے مسخ چہرے اور بہ یک وقت
بجھی جاتی ہیں آنکھیں اب وہ منظر سامنے ہے

نہیں معلوم اب اس خواب کی تعبیر کیا ہو
میں نرغے میں ہوں اور جلتا ہوا گھر سامنے ہے

سوالِ حرمتِ میزانِ بے توقیر کے بعد 
جو زیرِ آستیں تھا اب وہ خنجر سامنے ہے

ابھی جو اہتمامِ جشنِ فردا میں مگن تھی
وہی خلقِ خدا حیران و ششدر سامنے ہے

افتخار عارف


[ہفتہ ٴ غزل] ۔ نعتِ رسول مقبول ﷺ

نعتِ رسول مقبول ﷺ

اپنے آقاؐ کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
دِل اُلجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں

اب یہ دنیا جسے چاہے اُسے دیکھے سَرِ سیل
ہم تو بس ایک سفینے کی طرف دیکھتے ہیں

عہدِ آسودگیِ جاں ہو کہ دورِ ادبار
اُسی رحمت کے خزینے کی طرف دیکھتے ہیں

وہ جو پَل بھر میں سرِ عرشِ بریں کُھلتا ہے
بس اُسی نور کے زینے کی طرف دیکھتے ہیں

بہرِ تصدیقِ سند نامہ ٴ نسبت، عُشّاق
مُہرِ خاتم کے نگینے کی طرف دیکھتے ہیں

دیکھنے والوں نے دیکھے ہیں وہ آشفتہ مزاج
جو حرم سے بھی مدینے کی طرف دیکھتے ہیں

افتخار عارف



[ہفتہ ٴ غزل] ۔ حمدِ جنابِ باری

حمدِ جنابِ باری

حجابِ شب میں تب و تابِ خواب رکھتا ہے
درون ِخواب ہزار آفتاب رکھتا ہے

کبھی خزاں میں کھلاتا ہے رنگ رنگ کے پھول
کبھی بہار کو بے رنگ و آب رکھتا ہے

کبھی زمین کا منصب بلند کرتا ہے
کبھی اِسی پہ بِنائے عذاب رکھتا ہے

کبھی یہ کہتا ہے سورج ہے روشنی پہ گواہ
کبھی اِسی پہ دلیلِ حجاب رکھتا ہے

کبھی فغاں کی طرح رائیگاں اثاثہ ٴ حرف
کبھی دُعا کی طرح مُستجاب رکھتا ہے

کبھی برستے ہوئے بادلوں میں پیاس ہی پیاس
کبھی سراب میں تاثیرِ آب رکھتا ہے

بشارتوں کی زمینیں جب آگ اُگلتی ہیں
اِس آگ ہی میں گُلِ انقلاب رکھتا ہے

میں جب بھی صبح کا انکار کرنے لگتا ہوں
تو کوئی دل میں مرے آفتاب رکھتا ہے

سوال اُٹھانے کی توفیق بھی اُسی کی عطا
سوال ہی میں جو سارے جواب رکھتا ہے

میں صابروں کے قبیلے سے ہوں  مگر میرا رب
وہ مُحتسب ہے کہ سارے حساب رکھتا ہے

افتخار عارف

اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

غزل

تری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں

تیرا احسان کہ جانے گئے پہچانے گئے
اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں

دربدر ہو کے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

اب گلہ کیا کہ ہوا ہوگئے سب حلقہ بگوش
میں نہ کہتا تھا کہ یہ سہل طلب تیرے نہیں

ہو نہ ہو دل پہ کوئی بوجھ ہے بھاری ورنہ
بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں

افتخار عارف

اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا

غزل

لوگ پہچان نہیں پائیں گے چہرا اپنا
اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا

برق ایک ایک نشیمن کا پتہ جانتی ہے
اب کے پھر ڈھونڈ نکالے گی ٹھکانا اپنا

طعنہء دربدری دے مگر اتنا رہے دھیان
راستہ بھی تو بدل سکتے ہیں دریا اپنا

بول، اے بے سروسامانیء گلشن، کچھ بول
خلقتِ شہر طلب کرتی ہے حصّہ اپنا

یہ بھی کب تک کہ ہر آفت کا سبب ہے کوئی اور
منزلیں خود بھی تو گُم کرتی ہیں رستہ اپنا

ہم کہاں اپنے سوا اور کو گردانتے ہیں
ہم نے لِکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا

افتخار عارفؔ

قصّہ ایک بسنت کا ۔ ۔ ۔


قصہ ایک بسنت کا



پتنگیں لوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا اور کس کی
ڈور ہلکی تھی
اُنھیں اس سے غرض کیا پینچ پڑتے وقت کن ہاتھوں میں لرزہ آگیا تھا
اور کس کی کھینچ اچھی تھی؟
ہوا کس کی طرف تھی، کونسی پالی کی بیری تھی؟
پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم؟
اُنھیں تو بس بسنت آتے ہی اپنی اپنی ڈانگیں لے کے میدانوں میں آنا ہے
گلی کوچوں میں کانٹی مارنی ہے پتنگیں لُوٹنا ہے لُوٹ کے جوہر دکھانا ہے
پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا
اور کس کی ڈور ہلکی تھی؟


افتخار عارف