سردار جعفری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سردار جعفری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ کتنی آشاؤں کی لاشیں سوکھیں دل کے آنگن میں ۔سردار جعفری

غزل 

کتنی آشاؤں کی لاشیں سوکھیں دل کے آنگن میں
کتنے سورج ڈوب گئے ہیں چہروں کے پیلے پن میں

بچّوں  کے میٹھے ہونٹوں پر پیاس کی سوکھی ریت جمی
دودھ کی دھاریں گائے کے تھن سے گر گئیں ناگوں کے پھن میں

ریگستانوں  میں جلتے ہیں پڑے ہوئے سو نقشِ قدم
آج خراماں کوئی نہیں ہے اُمیدوں کے گلشن میں

چکنا چُور ہوا خوابوں کا دلکش،  دلچسپ آئینہ
ٹیڑھی ترچھی تصویریں ہیں ٹوٹے پھوٹے درپن میں

پائے جنوں میں پڑی ہوئی ہیں حرص و ہوا کی زنجیریں
قید ہے اب تک ہاتھ سحر کا تاریکی کے کنگن میں

آنکھوں کی کچھ نورس کلیاں  نیم شگفتہ غنچہ ٴ لب
کیسے کیسے پھول بھرے ہیں گلچینوں کے دامن میں

دستِ غیب کی طرح چھپا ہے ظلم کا ہاتھ ستم کا وار
خشک لہو کی بارش دیکھی ہم نے کوچہ و برزن میں

سردار جعفری

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں ۔ سردار جعفری

غزل 

ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں
رنگ بردوش، گلستاں بہ کنار آتے ہیں

چاک دل، چاک جگر، چاک گریباں والے
مثلِ گُل آتے ہیں، مانندِ بہار آتے ہیں

کوئی معشوق سزاوارِ غزل  ہے شاید
ہم غزل لے کے سوئے شہرِ نگار آتے ہیں

کیا وہاں کوئی دل و جاں کا طلب گار نہیں
جا کے ہم کوچہ ٴ قاتل میں پکار آتے ہیں

قافلے شوق کے رُکتے نہیں دیواروں سے 
سینکڑوں محبس  و زنداں کے دیار آتے ہیں

منزلیں دوڑ کے روہرو کے قدم لیتی ہیں
بوسہ ٴ پا کے لئے رہ گزار آتے ہیں

خود کبھی موج و تلاطم سے نہ نکلے باہر
پار جو سارے زمانے کو اتار آتے ہیں

کم ہو کیوں ابروئے قاتل  کی کمانوں کا کھنچاؤ
جب سرِ تیرِ ستم آپ شکار آتے ہیں

سردار جعفری