رعنائیِ خیال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
رعنائیِ خیال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

غزل



کوئی مہرباں نہیں ساتھ میں، کوئی ہاتھ بھی نہیں ہات میں
ہیں اداسیاں مری منتظر سبھی راستوں میں جِہات میں

ہے خبر مجھے کہ یہ تم نہیں، کسی اجنبی کو بھی کیا پڑی
سبھی آشنا بھی ہیں روبرو، تو یہ کون ہے مری گھات میں

یہ اداسیوں کا جو رنگ ہے، کوئی ہو نہ ہو مرے سنگ ہے
مرے شعر میں، مری بات میں، مری عادتوں میں، صفات میں

کریں اعتبار کسی پہ کیا کہ یہ شہر شہرِ نفاق ہے
جہاں مسکراتے ہیں لب کہیں، وہیں طنز ہے کسی بات میں

چلو یہ بھی مانا اے ہمنوا کہ تغیّرات کے ماسوا
نہیں مستقل کوئی شے یہاں، تو یہ ہجر کیوں ہے ثبات میں

مری دسترس میں بھی کچھ نہیں ، نہیں تیرے بس میں بھی کچھ نہیں
میں اسیرِ کاکلِ عشق ہوں، مجھے کیا ملے گا نجات میں


محمد احمدؔ

اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے

غزل

اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے
مگر ہم زندگی سے کب لڑے تھے

فرارِ زیست ممکن ہی نہیں تھا
شجر کے پاؤں مٹی میں گڑے تھے

محبت بھی وہی، دنیا وہی تھی
وہی دریا، وہی کچے گھڑے تھے

وہ کب کا جا چکا تھا زندگی سے
مگر ہم بانہیں پھیلائے کھڑے تھے

اور اب تو موم سے بھی نرم ہیں ہم
کوئی دن تھے کہ ہم ضد پر اڑے تھے

رہا سر پر سلامت غم کا سورج
کم از کم اپنے سائے سے بڑے تھے

سراسیمہ سی کیوں تھی ساری بستی
بھنور تو دور دریا میں پڑے تھے

ملا وہ، کہہ رہا تھا خوش بہت ہوں
مگر آنکھوں تلے حلقے پڑے تھے

تو کیا تم نے ہمیں دھوکے میں رکھا
وفا بھی تھی یا افسانے گھڑے تھے

خزاں پہلے پہل آئی تھی اُس دن
وہ بچھڑا تو بہت پتے جھڑے تھے

وفا، مہر و مروت اور یہ دنیا
ہماری عقل پر پتھر پڑے تھے

شبِ فرقت ستارے تھے کہ آنسو
نگینے خلعتِ شب میں جڑے تھے

ہمیں احمد صبا نے پھر نہ دیکھا
کہ ہم برگِ خزاں آسا پڑے تھے

محمداحمد

صحرا صحرا دوپہریں ہیں، بادل بادل شام

خاکسار کی ایک غزل۔ ۔ ۔

غزل

صحرا صحرا دوپہریں ہیں، بادل بادل شام
دل نگری کی رات اداسی، چنچل چنچل شام

ڈالی ڈالی پھول ہیں رقصاں، دریا دریا موج
تتلی تتلی نقش ہیں رنگیں، کومل کومل شام

رنگِ جنوں دل دیوانے پر دید کے پیاسے نین
تیری گلی، تیری دہلیزیں، پاگل پاگل شام

نین ہیں کس کے، یاد ہے کس کی، کس کے ہیں آنسو
کس کی آنکھوں کا تحفہ ہیں، کاجل کاجل شام

رات کی رانی، اوس کا پانی، جگنو ، سرد ہوا
مُسکاتی، خوشبو مہکاتی، جنگل جنگل شام

ڈوبتا سورج، سونا رستہ، آس کے بجھتے دیپ
مایوسی کی گرد میں لپٹی اُتری پل پل شام

رنگ سنہرا، دھوپ سا اُس کا، گیسو جیسے رات
چاند سا اُجلا اُجلا چہرہ، اُس کا آنچل شام

خواب میں جب سے آیا ہے وہ، سوچوں میں گم ہوں
کیا ہو جو تعبیر بتانے آجائے کل شام

احمد کوئی نظم سُناؤ کچھ تو وقت کٹے
تنہا تنہا دل بھی ہے اور بوجھل بوجھل شام

دریا ملے ، شجر ملے ، کوہِ گراں ملے

غزل

دریا ملے ، شجر ملے ، کوہِ گراں ملے
بچھڑے مسافروں کا بھی کوئی نشاں ملے

یہ وصل بھی فریبِ نظر کے سوا نہیں
ساحل کے پار دیکھ زمیں آسماں ملے

ایسی جگر خراش کہاں تھیں کہانیاں
راوی کے رنج بھی تو پسِ داستاں ملے

جانے مسافروں کے مقّدر میں کیا رہا
کشتی کہیں ملی تو کہیں بادباں ملے

جس کو جنوں کی زرد دوپہروں نے چُن لیا
شامِ سکوں ملی ، نہ اُسے سائباں ملے

بارش میں بھیگتی رہی تتلی تمام شب
آئی سحر تو رنگ دھنک میں عیاں ملے

پختہ چھتیں بھی اب کے یقیں سے تہی ملیں
پکے گھروں میں خوف کے کچے مکاں ملے

احمدؔ یہ دل کا شہر تو حیران کر گیا
جھرنے کہیں ملے ، کہیں آتش فشاں ملے

یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید

غزل

یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید
تشنگی بھی سراب ہے شاید

کچھ کسی کو نظر نہیں آتا
روشنی بے حساب ہے شاید

میں سزا ہوں تری خطاؤں کی
تو مرا انتخاب ہے شاید

یہ جسے ہم سکون کہتے ہیں
باعثِ اضطراب ہے شاید

اُس کا لہجہ گلاب جیسا ہے
طنز خارِ گلاب ہے شاید

ہر نئی بار اک نیا پن ہے
وہ غزل کی کتاب ہے شاید

کیا محبت اُسے بھی ہے مجھ سے
مختصر سا جواب ہے "شاید"

میں بھی محرومِ خواب ہوں احمد
وہ بھی زیرِ عتاب ہے شاید