نثر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
نثر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فنش باشندوں کی خوش باشی​

تحریر : محمد احمد​


فِن لینڈ کے باشندوں کو فنش یافنز کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ فن لینڈ ایسے ممالک میں سرِ فہرست ہے کہ جہاں لوگ خوش باش رہتے ہیں۔ اور فن لینڈ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ مسلسل پانچ سال خوش رہنے والے ممالک میں سرِ فہرست رہا ہے۔

فرینک مارٹیلا فِن لینڈ کے ایک ماہرِ نفسیات ہیں۔ ایک حالیہ آرٹیکل میں فرینک ہمیں بتاتے ہیں کہ اُن سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر فنش باشندوں کے خوش رہنے کی وجوہات کیا ہیں۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرینک کہتے ہیں کہ دراصل ہم فنش شہری تین کام کبھی نہیں کرتے۔

فنش لوگ کبھی اپنے پڑوسیوں سے مقابلہ نہیں کرتے

فن لینڈ میں ایک مشہور مقولہ ہے کہ کبھی بھی اپنی خوشی کا مقابلہ کسی اور سے نہ کرو اور نہ ہی اپنی خوشیوں کی شیخی مارو۔

حیرت انگیز بات ہے کہ فنش لوگ اس مقولے پر دِل سے عمل کرتے ہیں۔ بالخصوص وہ مادی اشیاء اور دولت کی نمائش سے بہت گریز کرتے ہیں۔ ایک انتہائی امیر شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرینک بتاتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنے بچے کو خود اسٹرولر (بچوں کی گاڑی) میں بٹھا کر لے جا رہا تھا۔ حالانکہ وہ اگر چاہتا تو اپنے بچے کے لیے قیمتی سے قیمتی گاڑی خرید سکتا تھا۔ یا اس کے لیے ڈرائیور رکھ سکتا تھا۔ لیکن اتنی دولت ہونے کے باوجود اس نے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو ترجیح دی۔ یہ چیز فنش باشندوں کو اور دُنیا سے ممتاز کرتی ہے۔

فِن لینڈ میں خوشی یہ ہے کہ آپ باقی سب جیسے لگیں۔ فرینک کہتے ہیں کہ ہمیں کامیابی سے زیادہ ان امور پر توجہ دینی چاہیے جو ہماری خوشی کا باعث بنتے ہیں۔

فنش باشندے فطرت کے ثمرات کو نظر انداز نہیں کرتے

87 فیصد فنش باشندے یہ سمجھتے ہیں کہ قدرتی مظاہر ان کے لیے اہم ہیں اور یہ انہیں ذہنی سکون، توانائی اور آرام پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ فِن لینڈ میں ملازمین کو گرمیوں میں چار ہفتوں کی رخصت ملتی ہے، جس میں زیادہ تر فنش باشندے دیہاتوں کا رخ کرتے ہیں حتیٰ کہ بہت سے لوگ ایسے علاقوں میں بھی جاتے ہیں جہاں بجلی بھی نہیں ہوتی۔ ان علاقوں میں جا کر یہ لوگ قدرت سے بہت قریب ہو جاتے ہیں اور یہاں انہیں بے پناہ سکون اور طمانیت حاصل ہوتی ہے۔

فرینک کہتے ہیں کہ قدرت سے قریب رہ کر آپ میں صحت، اطمینان اور ذاتی نمو کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جو بہت ہی انمول شے ہے۔

فنش لوگ اپنے سماج میں باہمی اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دیتے

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا بھروسہ اور اعتماد ایک ملک کے شہریوں کو ایک دوسرے پر ہوتا ہے اتنا ہی اس ملک کے باشندے خوش باش رہتے ہیں۔

2022 میں گم شدہ بٹووں کا ایک معاشرتی تجربہ (Lost wallet Experience)کیا گیا۔ اس تجربے میں دنیا بھر کے 16 شہروں میں 192 بٹوے دانستہ گرائے گئے کہ لوگوں کی دیانت داری کا اندازہ لگایا جا سکے۔ دیانت داری کے اس تجربے میں فن لینڈ کا دار الخلافہ ہیل سنکی پہلے نمبر پر رہا۔ اور ہیل سنکی میں پھینکے گئے بارہ میں سے گیارہ بٹوے واپس اُن کے مالک تک پہنچ گئے۔

فنش شہری ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور دیانت داری کو اہمیت دیتے ہیں۔ فنش باشندے اگر اپنا لیپ ٹاپ لائبریری میں بھول جائیں یا اگر ان کا فون ٹرین میں رہ جائے تو اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ اُن کی چیز اُنہیں واپس مل جائے گی۔

فن لینڈ میں اکثر بچے اسکول آنے جانے کے لیے پبلک بس استعمال کرتے ہیں اور بڑوں کی نگرانی کے بغیر ہی باہر کھیلتے ہیں۔

فرینک کہتے ہیں کہ معاشرے میں خوش باشی کو فروغ دینے کے لیے ہمیں چاہیے کہ باہمی اعتماد کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔

اگر آپ کو فن لینڈ کی یہ باتیں پڑھ کر ساٹھ ، ستر یا اسی کی دہائی کا پاکستان یاد آ گیا تو آپ واقعی ٹھیک پہنچے۔ دیکھا جائے تو معاشرتی سکون اور اطمینان کے حساب سے یہ پاکستان کا سنہری دور تھا۔ لوگ اپنے معاملات سے کسی حد تک خوش تھے اور ایک دوسرے سے بے حد قریب تھے۔ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک تھے اور ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ آج ہم سب ایک عجیب ہی افرا تفری کا شکار ہیں۔ ہر شخص کسی نہ کسی مسابقتی دوڑ کا گھوڑا بنا ہوا ہے۔ باہمی اعتماد اب ہم میں بالکل نہیں رہا۔ جرائم کی روک تھام کےلئے بنائے گئے ادارے اپنے مقاصد میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے بلکہ کچھ ادارے جرائم کی آبیاری کے لئے ممد و معاون بھی ثابت ہوئے۔ نتیجتاً آج ہمارے شہری اپنے ہی گلی محلوں میں عدم تحفظ کا شکار ہیں اور حد تو یہ ہے کہ وہ کسی اجنبی سے بات کرتے ہوئے بھی ڈرنے لگے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ آج کا پاکستان اچھے لوگوں سے بالکل ہی عاری ہو گیا ہے ۔ بلکہ آج بھی بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں جو گاہے گاہے ہمیں بتاتے ہیں کہ ابھی بھی کہیں نہ کہیں اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔

یہ پچھلے محرم الحرام کی بات ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ حیدرآباد گیا تھا۔ وہاں میرا والٹ (بٹوا) بس میں گر گیا۔ اور مجھے اس بات کا احساس تک نہ ہوا۔ یہ والٹ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو ملا۔ اور اُس نے والٹ میں موجود ایک ڈپازٹ سلپ سے میرا نمبر لے کر مجھ سے رابطہ کیا اور وہ والٹ مجھ تک پہنچانے کا بندو بست کیا۔ مجھے اس نوجوان سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔ اگر وہ نوجوان میرا والٹ مجھ تک نہ پہنچاتا تو مجھے اپنا شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، اور بہت سے دیگر کارڈز بنوانے میں بہت دقت کا سامنا ہوتا۔ لیکن الحمدللہ ، اس نوجوان کے طفیل میں ان سب پریشانیوں سے بچ گیا۔

سو آج بھی بہت سے لوگ ہمارے ہاں موجود ہیں۔ اور کچھ لوگ آج بھی بے غرض ہو کر بہت سے نیک کام کر رہے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام ٹھیک طرح سے کرتے رہیں تو راہِ راست سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا قبلہ بھی بہت جلدی درست ہو جائے۔ اسی طرح عام لوگ بھی مقابلے بازی سے ہٹ کر اپنے ذاتی اہداف کے لئے محنت کریں اور ساتھ ساتھ انسانی اقدارکی پاسداری کرنا نہ بھولیں تو ہمارے معاشرہ بھی سکون اور آشتی کا گہوارہ بن جائے اور مجموعی سطح پر آسودگی اور طمانیت کو فروغ ملے۔

حوالہ: ربط

افسانہ: سفرنامہ ٴ ابتلاء​

سفرنامہ ٴ ابتلاء​

از: محمد احمد​

afsana-safar-nama-e-ibtila

کبھی کبھی ہماری ترجیحات ہمیں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ عام زندگی میں اگر ہمیں موقع ملے تو ہم ایسا کبھی نہ کریں۔ مجھے ایک سفر درپیش تھا۔ ایک جنازے میں شرکت کے لئے میں ابھی ابھی بس میں سوار ہوا تھا۔ میرا مقامِ مقصود تین چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قریبی شہر تھا۔

مجھے نکلتے نکلتے دوپہر کا ایک بج چکا تھا اور میری کوشش تھی کہ جلد از جلد وہاں پہنچ جاؤں۔ ابھی اس بات کا تعین نہیں ہو سکا تھا کہ تدفین عصر میں ہوگی یا مغرب میں۔ جب میں بس اسٹاپ پر پہنچا تو مجھے متعلقہ بکنگ آفس میں براجمان شخص نے بتایا کہ کچھ دیر میں ایک کوچ (بس) آئے گی اس میں جگہ ہو تو آپ اس میں چلے جانا۔ ورنہ اگلی گاڑی ایک گھنٹے بعد آئے گی۔

جب بس پہنچی تو اُس میں سیٹ نہیں تھی۔ میں نے کنڈکٹر کو بتایاکہ مجھے یہ معاملہ درپیش ہے اور مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ تو اُس نے مجھے کہا کہ سب سیٹیں پہلے سے بک ہیں۔ آپ اسٹول پر بیٹھ جاؤ۔

ہمارے ہاں اندرونِ شہر چلنے والی بسوں میں سیٹوں کے درمیان راہ داری میں پلاسٹک کے اسٹول رکھ کر لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے اور جلدی پہنچنے کے لالچ یا مجبوری میں کئی ایک لوگ ان اسٹولوں پر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میں کبھی بھی اس بات کے لئے راضی نہیں ہوتا کہ میں اتنی دور کے سفر کے لئے ایسی غیر آرام دہ نشست کا انتخاب کروں۔ لیکن چونکہ وقت کا تقاضا تھا سو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں ایک اسٹول پر بیٹھنے پر راضی ہو گیا۔

یا تو یہ پچھلے دنوں کی بے انتہا مصروفیات کے باعث تھا یا اس ناپسندیدہ فیصلے کا اثر کہ مجھے بس میں بیٹھتے ہی کمر میں درد کا سا احساس ہو نے لگا۔ حالانکہ ابھی تو مجھے بس میں سوار ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے اور ابھی بس اسٹاپ سے چلی بھی نہیں تھی۔

ایک لمحے کے لئے خیال آیا کہ بس سے اُتر جاؤں اور اس کے بعد والی گاڑی میں سوار ہو جاؤں۔لیکن پھر یہی سوچ کر اس خیال کو جھٹک دیا کہ اس طرح کافی وقت ضائع ہو جائے گا۔ پھر جب کنڈکٹر کرایہ وصول کرنے آیا تو دل چاہا کہ اُس سے کہوں کہ اس انتہائی غیر آرام دہ سیٹ کے بھی اتنے ہی پیسے لے رہے ہو جتنے دوسری سیٹوں کے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر چپ رہا کہ یہ انتخاب تو میرا اپنا ہے اور پھر اس قسم کے پیشوں سے وابستہ لوگ کافی منہ پھٹ ہوا کرتے ہیں، سو خاموشی ہی بہترتھی۔

بس اب چل پڑی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ دعا کر رہا تھا کہ جلد از جلد یہ سفر تمام ہو۔ مجھ سمیت آٹھ لوگ اسٹول پر بیٹھے تھے۔ لیکن باقی لوگوں کی باڈی لینگویج سے بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی غیر آرام دہ نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مجھے لگا کہ شاید میں اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہا ہوں۔ تب مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کچھ لوگ تو اس سے بھی بُری حالت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن شکوہ لب پر نہیں لاتے۔ پھر خیال آیا کہ شاید یہ لوگ اس طرح کے سفر کے عادی ہیں، اور اس خیال سے میرے احساسِ ندامت میں کچھ کمی واقع ہوئی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ زندگی میں ایک دو بار پہلے بھی میں نے اس طرح سفر کیا ہے ۔ لیکن آج یہ بات کچھ زیادہ ہی کَھل رہی ہے۔ یا شاید ڈھلتی عمر کے ساتھ اب قوتِ برداشت کچھ کم ہوگئی ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی تکلیف سے گزر جانے کے بعد اُسے بھول جاتے ہیں اور شاید یہ بھی خدا کا ہم پر احسان ہے۔

میں اسٹول پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ میں نے اپنے جوتے اتار کر سائیڈ پر رکھ دیے اور اپنے پاؤں آگے والے اسٹول کے پائیدان پر ٹکا دیے۔ بے آرامی کے باعث میں مختلف انداز سے پہلو بدل بدل کر دیکھ رہا تھا کہ شاید کسی کل چین آ جائے لیکن ہر طرح سے ایک ہی جیسا حال تھا اور بے سہارا کمر بس کی رفتار کے باعث دباؤ اور تکلیف کا شکار تھی۔

بس اب اچھی خاصی رفتار سے چل رہی تھی۔ میرے دونوں اطراف کی سیٹوں پر موجود چاروں لوگ اونگھ رہے تھے۔بائیں طرف بیٹھے نوجوان نے اپنی پی کیپ کو اُتار کر گھمایا اور اُس کے پچھلے بند کو اپنی ٹھوڑی میں پھنسا کر اپنا منہ اور آنکھیں ڈھک لی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر کچھ ہنسی بھی آئی۔ لیکن اِس وقت ہنسنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔

کچھ لوگ ہینڈ فری لگائے بغیر سوشل میڈیا پر ویڈیوز وغیرہ دیکھ رہے تھے۔ اور طرح طرح کی آوازوں سے مجھے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی۔ کسی سونے والے نے ایک آدھ کی آواز کو کم بھی کروایا ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ آوازیں از خود ماند ہو گئیں، اور بس کے بیشتر مسافر اونگھنے لگے۔

کمر کا درد اب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا ۔ میں نے موبائل فون پر اپنی دلچسپی کا ایک آرٹیکل نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ لیکن میں بمشکل تمام آدھی ہی تحریر پڑھ پایا اور بے چینی کے عالم میں پڑھنا معطل کر دیا۔

تیز رفتار بس کی کھڑکی سے ویران پہاڑیاں اور کہیں کہیں سبزہ نظر آ رہا تھا ۔ میں اس وقت بالکل فارغ بیٹھا تھا۔ مجھے پچھلے دنوں پڑھی ہوئی ایک کتاب یاد آئی کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ تخلیقی کاموں سے وابستہ لوگوں کو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر روزانہ کچھ نہ کچھ وقت فارغ بیٹھنا چاہیے۔ تاکہ اُن کے ذہن کو ادھر اُدھر بھٹکنے کا موقع ملے۔ اور مشاہدے اور خیالات کے خمیر سے کوئی تخلیقی خیال جنم لے سکے۔

میرے لئے فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام تھا۔ جب کبھی تھوڑی سی بھی فراغت ملتی تو نہ جانے کس طرح موبائل فون جیب سے نکل کر ہاتھ میں پہنچ جاتا۔ اور میں مختلف لوگوں کے بے سروپا پیغامات دیکھنے لگ جاتا۔ سوشل میڈیا کی ایپس کب کُھل جاتیں اور نہ جانے کتنا وقت وہاں کھپ جاتا، پتہ ہی نہ چلتا۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ میں کسی کام سے موبائل فون نکالتا اور سوشل میڈیا کے کسی نوٹیفیکیشن کی اُنگلی پکڑ کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ۔ اور مجھے یاد بھی نہ رہتا کہ میں نے کس کام سے موبائل نکالا تھا۔

لیکن آج تو نہ کسی تحریر میں دل لگ رہا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر۔ آج تو بس یہی خیال تھا کہ کسی طرح یہ وقت کٹے اورمیں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں۔ بس اپنی رفتار سے چلی جا رہی تھی ۔میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ بس کی رفتار کم تھی۔ ہاں البتہ میرا انتظار کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔

مجھے یاد آیا کہ ماضی میں جب کبھی میں بس میں سفر کیا کرتا تھا تو میرے برابر بھی کوئی نہ کوئی شخص اسٹول پر آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ مجھے اُس سے ہمدردی ضرور ہوتی تھی لیکن کبھی اتنی اخلاقی جرات نہیں ہو سکی کہ اپنی سیٹ اُسے دے کر اُس کی جگہ بیٹھ جاؤں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے ، آپ کسی کی تکلیف اُس وقت تک کم نہیں کر سکتے ، جب تک کہ اُس کے حصے کی تکلیف برداشت کرنے پر راضی نہ ہو جائیں۔ مجھے اپنے پڑوسیوں سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ یہ آرام دہ سیٹ اُن کا حق تھی اور میں اپنے مقدر یا انتخاب پر قانع تھا۔

بس کسی چھوٹے سے اسٹاپ پر رُکی تو اچانک کہیں سے کچھ خوانچہ فروش بس میں در آئے اور چپس، پیٹیز اور کولڈ ڈرنک کی آواز لگانے لگے۔ کچھ لوگ اُن سے چپس اور بوتلیں خرید رہے تھے۔ بظاہر یہ چپس ایک معروف برانڈ کے معلوم ہوتے تھے لیکن اُن پر نام کچھ اور تھا۔ اسی طرح پانی کی بوتلیں بھی اچھے برانڈز کے ملتے جُلتے نام لئے ہوئے تھیں۔ لیکن سفر میں سب چلتا ہے۔ میں اپنی پانی کی بوتل اسٹاپ سے ہی لے چکا تھا ۔ سو مجھے ان خوانچہ فروشوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ تاہم چونکہ ہم اسٹول والے، راستے میں براجمان تھے سو مجھ سمیت سب اسٹول والوں کو خوانچہ فروشوں اور اصلی مسافروں کے درمیان وسیلے کا کام کرنا پڑ رہا تھا۔ ادھر سے چیز لے کر اُدھر پکڑاتے ، پھر اُدھر سے پیسے لے کر خوانچہ فروشوں کو دیتے ۔ پھر بقیہ پیسے اور نئی چیزوں کا تبادلہ ہوتا۔ اس سرگرمی سے کوئی فائدہ تو کیا پہنچتا البتہ کچھ دیر کے لئے درد کا احساس پس منظر میں چلا گیا۔ بس چلی تو کمر کی تکلیف نے واپس اپنی جگہ سنبھال لی اور پہلے سے زیادہ شدت سے اپنا احساس دلانے لگی۔

یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بس کا یہ سفر کوئی قید با مشقت ہو اور قید کا یہ دورانیہ کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہا تھا اور کمر کی تکلیف جبری مشقت کی طرح نا قابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ اس وقت زندگی اِس بس اور بس کے ماحول تک محدود ہو چکی تھی صرف ذہن کچھ کچھ آزاد تھا کہ ادھر اُدھر بھٹک سکے اور آنکھوں کو اجازت تھی کہ بس کی کھڑکیوں سے اُس طرف کے مناظر میں کوئی دلچسپی تلاش کر سکیں۔

بس کچھ نئے تعمیراتی پروجیکٹس کے پاس سے گزر رہی تھی۔ ایک قطعہِ زمین کو طرح طرح کے رنگا رنگ جھنڈوں اور بینرز سے سجایا گیا تھا ۔ ایک چھوٹی سی خوبصورت عمارت آفس کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہاں لگے بڑے بڑے بینرز بے گھر لوگوں کو اپنے گھر کے خواب دکھا رہے تھے۔ اس غیر آباد زمین میں عارضی طور پر جنگل میں منگل اس لئے برپا کیا گیا تھا کہ اپنے گھر کے خواہش مند لوگ اس رنگ و روپ اور چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنے پلاٹ بک کروا لیں۔

لیکن یہ سب گہما گہمی پروجیکٹ کے شروع میں ہی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب زیادہ تر پلاٹ فروخت ہو جاتے ہیں ۔ تب یہ سب رونق آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب یہ جگہ پھر سے بے آب و گیاہ ویرانے کی طرح نظر آتی ہے۔

ایسے میں اگر کوئی بھولا بھٹکا اپنا پلاٹ دیکھنے آ جائے تو وہ یہی سوچتا ہے کہ شاید یہاں یا شاید وہاں اُس کا پلاٹ تھا۔ حتیٰ کہ اُسے پلاٹ کا کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آتا ، اور وہ مخمصے اور شکوک شبہات میں گھرا واپس لوٹ جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے برسوں بعد قبرستان آنے والا اپنے کسی عزیز کی قبر ڈھونڈتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید یہاں تھی، یا شاید وہاں تھی۔ لیکن اسے یقین کی دولت میسر نہیں آتی۔

ایک آہ میرے منہ سے برآمد ہوئی۔ آہ کیا یہ تو ایک کراہ تھی۔ اُس شدید تکلیف کا احساس تھی جو بے آرامی کے باعث میری رگ رگ میں سرائیت کر چکی تھی۔ کاش میں کوئی درد کی گولی ہی کھالیتا۔ لیکن کیسے کھاتا۔ سفر میں نہ تو کوئی معالج تھا نہ کوئی دوا۔ یوں بھی یہ تکلیف کوئی تکلیف تھوڑی تھی۔ یہ تو بس بے آرامی کا روگ تھا اور اسے آرام سے ہی شفا ہونی تھی۔

اب تک غالباً دو تہائی سفر طے ہو چکا تھا۔ لیکن جیسے جیسے منزل قریب آ رہی تھی ۔ اسٹول پر بیٹھنا اور دشوار ہو رہا تھا ۔

مجھ سے آگے اسٹول پر بیٹھے آسمانی قمیض والے چاچا جی اب سو رہے تھے۔ ان کا کان مسلسل برابر والی سیٹ سے ٹکرا رہا رہا۔ لیکن انہیں کوئی ہو ش نہیں تھا۔ مجھے اُن پر اور خود پر حیرت ہوئی۔ شاید میرے محسوسات کچھ زیادہ ہی بڑھے ہوئے تھے۔ مجھ سے زیادہ عمر کے وہ بزرگ کس طرح اسٹول پر بیٹھے بیٹھے سو رہے تھے۔ اور میں تکلیف سے کراہ رہا تھا۔ پھر میں تو اس طرح سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگر میں کسی طرح سو بھی جاتا تو شاید تھوڑی ہی دیر میں کسی مسافر پر گر جاتا ۔ مجھے اپنی کم ہمتی پر افسوس بھی ہوا اور اس بات کا رشک بھی ہوا کہ میری ہی جیسی صورتِ حال میں میرے سے کہیں زیادہ عمر کا ایک شخص کتنے اطمینان سے سورہا ہے اور میں نہ جانے کیوں چھوئی موئی بنا ہوا ہوں۔

ایسا نہیں کہ میں نے اپنی توجہ ادھر اُدھر بانٹنے کی کوشش نہ کی ہو ۔ لیکن میرا دھیان کسی بھی جگہ نہ لگ سکا۔ مجھے اپنی خوراک بہتر کرنی چاہیے اور کچھ ورزش کو بھی معمول بنانا چاہیے،میں آگے کے لئے سوچنے لگا۔ انسان کو اتنا مضبوط تو ہونا چاہیے کہ مشکل وقت پڑنے پر با آسانی گزارا کر سکے اور چھوٹی چھوٹی تکالیف اُس کے لئے سوہانِ روح نہ بن جائیں۔ آج بھی میں ہمیشہ کی طرح ایک معمولی سا مشکل مرحلہ آنے پر آگے کے لئے خود سے عہد و پیمان کر رہا تھا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ سب عہد و پیمان مشکل کے رفع ہوتے ہی ذہن سے محو ہو جانے ہیں۔

باقی ماندہ مسافت مستقل کم ہو رہی تھی لیکن ساتھ ساتھ درد اب ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ درد کے ساتھ ساتھ مجھے بخار کی حرارت بھی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید تھکن اور شدید تکلیف کے باعث مجھے بخار ہو رہا تھا۔ دھیان بٹانے کے لئے میں نے پھر کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ بس ایک چنگی ناکہ پر رُکی ہوئی تھی۔ ڈرائیور چنگی کے پیسے دے کر رسید وصول کر رہا تھا۔ ہم دھیان دیں یا نہ دیں لیکن سرکار ہم سے کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس لے رہی ہوتی ہے۔ اور ہم ٹیکس دینے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم چینی، پتی گھی ، آٹا غرض ہر چیز خریدتے ہوئے سرکار کو خراج دے رہے ہوتے ہیں۔ اور بدلے میں سرکار ہمیں محض طفل تسلیاں دینے اور اچھے مستقبل کے خواب دکھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔

نہ جانے آج کیوں ہر بات مجھے منفیت کی طرف مائل کر رہی تھی حالانکہ میں خود اکثر لوگوں کو ہر بات کا مثبت پہلو تلاش کرنے کا مشورہ دیا کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بس کا یہ سفر شاید اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا مجھے محسوس ہو رہا تھا ۔ شاید ایک بات تو یہ تھی کہ یہ سفر خوشی کا نہیں بلکہ غمی کا تھا اور یہ بھی ہے کہ کچھ دن ہوتے ہی آزمائش کے لئے ہیں۔

بس کی کھڑکی سے اب ویران پہاڑوں اور جنگلی پودوں کے ساتھ ساتھ اِکی دُکی عمارتیں بھی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اور اِن عمارتوں اور چھوٹی چھوٹی دوکانوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھیں۔ ہم غالباً شہر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں بس سے اُترنے کے لئے کمر باندھنے لگا۔ لیکن تکلیف کے باعث محاورتاً کمر باندھنا بھی دشوار ہو رہا تھا ۔ بخار بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ بس سے اُتر کر فوراً ہی کوئی درد کش دوا لے کر کھاؤں گا۔

لیکن جب بس رُکی تو میں بس سے اُتر کر رکشہ میں سوار ہوگیا ۔ اس دوران یہ اطلاع پہنچ چکی تھی کہ تدفین عصر کے وقت رکھی گئی ہے اور اس وقت عصر کا وقت اپنے آخر آخر پر تھا۔ میں نے فون کیا تو معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ ہو چکی ہے اور اب وہ لوگ قبرستان جا رہے ہیں۔ مجھے مشورہ ملا کہ میں براہِ راست قبرستان پہنچ جاؤں۔ میں نے رکشے والے کو مذکورہ قبرستان کا پتہ سمجھایا اور ہم تھوڑی ہی دیر میں قبرستان پہنچ گئے۔ رکشے والے کو فارغ کرکے جب میں قبرستان میں داخل ہوا تو مجھے نزدیک ہی تدفین کا عمل ہوتا دکھائی دیا۔

میں آگے بڑھ کر لوگوں میں شامل ہو گیا۔ بخار کی شدت اور تکلیف سے میری حالت غیر ہو رہی تھی۔ جنازے میں شریک کچھ شناسا چہروں سے آنکھوں ہی آنکھوں میں دعا سلام ہوئی تاہم میں نے فی الحال ملاقات کو موخر ہی رکھا۔

قبر کے اردگر دجمع لوگ ایک دوسرے کو احکامات و ہدایات دے رہے تھے کوئی کچھ منگوا رہا تھا تو کوئی احتیاط کی صدا لگا رہا تھا ۔ جب میّت کو قبر میں لٹایا جانے لگا تو میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میّت کی جگہ میں لیٹ جاؤں، چاہے اُس کے لئے مجھے قبر میں ہی لیٹنا پڑے۔ لیکن میں نے خود کو سنبھالا اور لواحقین میں سے ایک نڈھال شخص کو سہارا دینے کے لئے آگے بڑھ گیا۔

 

******

افسانہ : روپ بہروپ

روپ بہروپ

از محمد احمد


"یہ عامر وسیم پاگل واگل تو نہیں ہے؟ "صدیقی صاحب کافی غصے میں نظر آ رہے تھے
لیکن میں اس لڑکے کی بات سن کر ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا تھا۔ میرا ذاتی خیال یہی تھا کہ کرکٹر وغیرہ کافی لا ابالی ہوتے ہیں۔ پھر یہ تو ابھی بالکل نوجوان ہی تھا۔ اکیس بائیس سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ ایسے میں اُس کی طرف سے اِس قسم کی بات کافی حیران کن تھی۔

"مجھے ایڈورٹزمنٹ کے شعبے میں 30 سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج تک ایسی بات کسی نے نہیں کی۔"
"اتنے بڑے بڑے ماڈلز، ایکٹرز، ایکٹریسز، حتیٰ کہ بڑے سے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ میں نے اشتہار کیے ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے ایسی بات نہیں کی۔" صدیقی صاحب اپنی دراز میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔

"اس کا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہو گیا ہے۔" انہوں نے دراز زور سے بند کرتے ہوئے کہا۔ شاید اُن کی مطلوبہ شے وہا ں نہیں تھی۔
"خیر ! میں کلائنٹ سے بات کرتا ہوں اور اُن سے کہتا ہوں کہ وہ اس کے بجائے شاہد کمال کو لے لیں۔ شاہد کمال کی ریٹنگ بہت اچھی ہے اوراس کے مقابلے میں یہ تو بالکل ہی نیا ہے۔ چار چھ میچز کی پرفارمنس کوئی پرفارمنس ہوتی ہے۔" صدیقی صاحب اپنی رو میں کہے جا رہے تھے۔

*****

میں اور صدیقی صاحب ایک ایڈورٹِزمنٹ ایجنسی میں ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہماری فرم ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے لئے اشتہارات بناتی ہے۔ ہم دونوں کا کام ایک طرح سے مارکیٹنگ اور کلائینٹ ہینڈلنگ ہے۔

ہمارے ایک کلائینٹ کی فرمائش ہے کہ وہ اپنے فوڈ سپلیمنٹ کے اشتہار میں نئے ابھرتے ہوئے کرکٹر عامر وسیم کو لیں ۔ عامر وسیم نے کچھ ہی ماہ قبل ایک مقامی لیگ میں ڈیبیو کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ اُس کے فوراً بعد ہی اُسے قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا اور اپنی پہلی ہی سیریز میں اس نے کئی نئے ریکارڈ بنا دیے۔

جب میں اور صدیقی صاحب اشتہار کے سلسلے میں عامر وسیم سے ملے تو وہ کافی خندہ پیشانی سے ملا لیکن اُس نے ایک عجیب بات کی۔

اُس کا کہنا ہے کہ وہ اشتہار میں کام کرنے سے پہلے اُن کی یہ پروڈکٹ استعمال کرکے دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر اسے سمجھ آئی تو اشتہار میں کام کرے گا، ورنہ معذرت کر لے گا۔ اُس نے فوڈ سپلیمنٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ اُس نے کہا کہ میں کسی غلط پروڈکٹ کا اشتہار نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے اللہ کو جواب دینا ہے۔

یہ بات واقعی عجیب ہے۔ آج تک کسی ماڈل نے ایسا نہیں کہا کہ وہ پروڈکٹ کو استعمال کیے بغیر اشتہار میں کام نہیں کرے گا۔ بلکہ ماڈلز کو تو اس بات سے غرض ہی نہیں ہوتی کہ وہ پروڈکٹ کیسی ہے، اچھی ہے یا بری ہے۔ اُن کو اپنے پیسوں سے غرض ہوتی ہے اور بس!

دیکھا جائے تو یہ لڑکا اشتہاروں سے اچھا خاصا کما سکتا ہے لیکن اس قسم کا رویّہ تو اپنے پیروں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ یقیناً وہ کسی اچھی تربیت کے زیرِ اثر پلا بڑھا ہے ورنہ آج کل تو لوگ مالی منفعت کے آگے کچھ بھی نہیں دیکھتے۔

*****

 
صدیقی صاحب جب کلائینٹ سے ملے تو خلافِ توقع کلائینٹ نے اُنہیں کہا کہ وہ ہر حال میں اپنا اشتہار عامر وسیم سے ہی کروانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پرانے چاولوں کے مقابلے میں نئے ٹیلینٹ اور نئے چہرے کے ساتھ اپنا اشتہار کروائیں۔ کلائینٹ نے کہا کہ وہ اپنی پروڈکٹ کے کچھ فریش سیمپل بھیج دے گا تاکہ وہ عامر وسیم کو بھیج دیے جائیں ۔ کلائینٹ نے صدیقی صاحب کی ذمہ داری لگائی کہ وہ کسی طرح عامر وسیم کو اس اشتہار کے لئے راضی کریں۔

صدیقی صاحب جتنا عامر وسیم سے چِڑ رہے تھے اُتنا ہی اُنہیں اُس سے واسطہ پڑ رہا تھا۔

*****

عامر وسیم سے ہماری اگلی ملاقات کم و بیش دو ہفتے بعد ہوئی۔

صدیقی صاحب نے کافی کوشش کے بعد اپنے موڈ کو خوشگوار بنایا اور عامر وسیم کو فوڈ سپلیمنٹ کے تازہ سیمپل دئیے جو کلائینٹ نے خاص طور پر عامر وسیم کے لئے بھیجے تھے۔

عامر وسیم حسبِ سابق بہت اچھی طرح ملا ۔ بظاہر یہ ایک کھلندڑا اور ہنس مکھ نوجوان تھا۔ عامر وسیم نے بتایا کہ ان سیمپلز کی اب ضرورت نہیں ہے۔ وہ مارکیٹ سے لے کر اس پروڈکٹ کو استعمال کرتا رہا ہے اور اس دوران اُس نے پروڈکٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ بھی کرو ا لیا ہے۔ اب وہ پروڈکٹ سے مطمئن تھا ۔

یوں صدیقی صاحب کی مشکل توقع سے کہیں پہلے آسان ہو گئی اور پھر وہ بھی خوش دلی سے باقی کے مراحل میں جُت گئے۔ 

*****


عامر وسیم ایک اچھا کرکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ خوش شکل اور جاذبِ ِ نظر بھی تھا۔ پھر ہماری فرم کا برسوں کا تجربہ بھی اشتہار سازی میں شامل رہا ۔ یوں یہ اشتہار کافی اچھا بنا ۔ اور لوگوں میں مقبول بھی بہت ہوا۔

کمپنی کے مالک نے ایک کام اوربھی کیا۔ اُس نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ایک کمپین چلائی ، جس میں ایمانداری اور سچی گواہی کے ہیش ٹیگز شامل کیے گئے اور اس میں بتایا گیا کہ کرکٹر نے اشتہار میں کام کرنے کی کیا شرط رکھی۔ یہ کمپین بظاہر کرکٹر کو سراہنے کے لئے تھی ۔ لیکن ضمنی طور پر یہ اس پروڈکٹ کی شہرت کا سبب بنی کہ ہر پوسٹ ہر ٹوٹئٹ میں اشتہار کی ویڈیو بھی شامل کی گئی۔

یوں عامر وسیم کی شہرت اور نیک نامی کو بھی چار چاند لگے ،لیکن اصل فائدہ کلائینٹ کو ہی ہوا۔

*****

آج اتوار کا دن تھا ۔ سہ پہر کے وقت میں اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر حالات حاضرہ کا کوئی پروگرام چل رہا تھا۔ ہم ادھر اُدھر کی باتیں بھی کر رہے تھے۔

اچانک ٹی وی اسکرین پر ایک اشتہار میں شاہد کمال نظر آیا۔
"میں کبھی کسی ایسے پروڈکٹ کے لئے کام نہیں کرتا جس کو میں نے خود نہ آزمایا ہو۔اور جب تک میں خود اس پروڈکٹ کی تحقیق نہ کر لوں۔ " شاہد کمال بڑے پر یقین لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
اُس کے ہاتھ میں ایک انرجی ڈرنک تھا اور وہ اُس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہا تھا۔

میں اس پروڈکٹ کو دیکھ کر چونکا۔ میں نے فوراً اس کا نام سرچ انجن پر ڈالا۔
میرا خدشہ بالکل درست نکلا۔ یہ تو اُن پروڈکٹس میں سے تھی جن کے استعمال پر وزارتِ صحت نے تنبیہ کی تھی اور مضرِ صحت مصنوعات کی فہرست میں اس کا نام شامل کیا تھا۔

غالب کا ایک شعر نہ جانے کہاں سے میرے حافظے میں نمودار ہوا۔

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی

اور میں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔

***-***-***

افسانہ - روپ بہروپ

مشاعرہ، تہذیب اور انڈے ٹماٹر

مشاعرہ ہماری تہذیبی روایت ہے۔ یعنی روایت ہے کہ مشاعرہ ہماری تہذیب کا علمبردار ہوا کرتا تھا۔ یہاں دروغ بر گردن راوی کا گھسا پٹا جملہ شاملِ تحریر کر دینا خلاف عقل نہ ہوگا کہ راوی کے نامہٴ سیاہ میں جہاں معصیت کے اتنے انبار لگے ہیں، وہاں ایک اور سہی۔

بھلے وقتوں میں مشاعروں میں جو کلام پڑھا جاتا تھا اس کی کچھ یادگار یوٹیوب پر نہیں ملتی۔ نہ ہی متشاعروں کے دیوان ہی چھپ کر آج کی نسل تک پہنچ سکے۔ رہ گیا استاد شعراء کا کلام تو ایک مشاعرے میں ایک آدھ ہی استاد شاعر (دوسرے اساتذہ سے کرسیِ صدارت کی جنگ جیت کر) جگہ بنا پاتے ہوں گے۔ ایسے میں انسان شاعر کم اور صدر زیادہ بن جاتا ہے سو ایسے استادوں کی استادی یعنی ایسے شعراء کے کلام کو مشاعرے کا نمائندہ کلام سمجھنا دانشمندانہ فعل نہیں معلوم ہوتا۔

یہ البتہ ہم نے ضرور سن رکھا ہے کہ بھلے وقتوں میں بڑے بڑے کامیاب مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے یا وہ منعقد ہونے کے بعد کامیاب قرار پاتے تھے۔

کجھ راویانِ مشاعرہ تو اس قدر دیدہ دلیر واقع ہوئے ہیں کہ اکثر و بیشتر مشاعرہ گاہ کی چھت بِنا ڈائنامائٹ کے اُڑاتے ہوئے پکڑے گئے! البتہ دوسرے طبقہ کا خیال ہے کہ کھلے میدان میں ہونے والے مشاعروں کے شامیانے عاجزی برتتے ہوئے زمیں بوس ہو جاتے تھے اور شعراء کے پروموٹر اسے چھت اُڑ جانے سے تعبیر کرتے تھے۔

بھلے وقتوں میں مشاعرے میں شعراء کی بڑی عزت ہوا کرتی تھی یہاں تک کہ کھاتے پیتے گھرانوں کے خوش ذوق قارئین شعراء کو داد دیتے ہوئے انڈے اور ٹماٹر جیسی نادر اشیاء نظم و ضبط کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ارسال کر دیتے تھے۔

انڈے ٹماٹروں پر اگرچہ نیک خواہشات لکھنے کا وقت نہیں ہوتا تھا تاہم ہمیں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہی سمجھنا چاہیے کہ سامعین یہ سوغات گراں مایہ نیک خواہشات کے ساتھ ہی ارسال کرتے ہوں گے۔

اب آپ ذرا چشمِ تصور وا کرتے ہوئے فرض کیجے کہ آپ مشاعرے میں موجود ہیں اور شاعر نے ایسی غزل سنائی کہ آپ عش عش کر اُٹھے لیکن کیا سر سے پاؤں تک سرشار ہونے کے بعد بھی آپ انڈے اور ٹماٹر جیسی نادر الوجود چیزیں شاعر کو بطور ہدیہ و تحفہ دے سکیں گے؟

آپ واہ واہ واہ کرکے اپنا گلا تو سکھا لیں گے لیکن دمڑی کو چمڑی پر اور غزل کو انڈے ٹماٹر پر فوقیت نہیں دے سکیں گے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ شعراء کو انڈے ٹماٹر ارسال کرنے والے سامعین مشاعرہ ذوق سے عاری اور جذبہ فلاح و بہبود سے سرشار ہوا کرتے تھے۔ سو وہ یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ شاعر جو یہاں بیٹھا اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہا ہے اور یقیناً اس سے پیشتر بھی یہ مشق سخن کے نام پر اپنا پورا دن برباد کرتا رہا ہوگا اور اسے اپنے اہل و عیال کے لیے روزی روٹی کمانے کی فرصت و توفیق ہی نہیں مل سکی ہوگی۔ سو وہ خیال کرکے شعراء کی سمت میں انڈے ٹماٹر پھینکا کرتے تھے تاکہ کسی نہ کسی طرح ان کے گھر کا چولہا بھی جلتا رہے۔

کسی شاعر نے اس خوبصورت منظر کو شاعرانہ رنگ دے کر کچھ یوں کہا ہے:

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

کچھ لوگ ٹماٹر کو پھلوں میں شمار کرتے ہیں شاعر نے شاید اسی رعایت سے کام لیا ہے۔ رہی بات انڈے کو گُل سے تشبیہ دینے کی تو اسے آپ المعنی فی بطنِ الشاعر سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ انڈے نے بھی آخر کار وہیں پہنچنا ہے۔

بہر کیف! آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح کسی کی عزت نفس مجروح کیے بغیر ہمارے اسلاف ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے اور نکھٹو سے نکھٹو شخص کو بھی نکھٹو نہیں کہا کرتے تھے بلکہ انڈے ٹماٹر جیسی نادر اشیاء سے ان کی تواضع کیا کرتے تھے۔

جن سے مل کر زندگی سے عشق (شاعری سے بیر) ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

اندرونی حلقوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کے شعراء مشاعرے سے پہلے شاعری کی مشق کم کیا کرتے تھے اور انڈے ٹماٹروں کو بنا گزند ہر دو فریق کیچ کرنے کی پریکٹس زیادہ کرتے تھے۔

ممکن ہے بعد میں انہی انڈے ٹماٹروں کی تعداد کو گن کر مشاعرے کے کامیاب ترین شاعر کا فیصلہ ہوتا ہو۔ لیکن راوی یہاں خاموش ہے اور راوی کی خاموشی کافی پراسرار معلوم ہوتی ہے۔

بہرکیف یہ تو بھلے وقتوں کی باتیں ہیں۔ اب وہ پہلے جیسی قدریں کہاں رہیں۔ بد ذوقی کا عالم یہ ہے کہ اب تو مشاعرے میں بے چارے شاعر واہ واہ کرنے کے لیے دو چار ہمنوا ساتھ لے کر جاتے ہیں جو پہلے مصرع سے ہی غزل اٹھانے کے کام پر مامور ہوتے ہیں تاکہ مشاعرے کے انجام پر شاعر کے ساتھ چکن بریانی کھا سکیں اور سوشل میڈیا پر شاعر کو ٹیگ کرکے تصاویر لگا سکیں۔ رہا شاعر تو وہ لفافے میں ملفوف کاغذات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں انڈے ٹماٹروں کا کہیں دخل نہیں ہے اور انڈے ٹماٹر آج کل محض ٹی وی کی خبروں اور ٹاک شوز میں ہی پائے جاتے ہیں۔


 محمد احمد

*****

 


 

بلا ضرورتِ رشتہ

بلا ضرورتِ رشتہ
از محمد احمد


آج وہ کافی موڈ میں تھا۔

سامنے سے آنے کے باوجود اُس نے گھوم کر میری کمر پر ہاتھ مارا ۔
"او یار !میں نے تیرے لیے ایک رشتہ دیکھا ہے۔" وہ ایسا خوش تھا کہ جیسے ایسا پہلی بار ہوا ہو۔
"سچی! "میں نے ہمیشہ کی طرح حیرانی کا اظہار کیا۔
"ہاں یار!" بڑی خوبصورت لڑکی ہے۔
"اچھا! "

"ہاں بڑی خوبصورت ہے بھئ۔۔!" اُس کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔
"صراحی دار گردن ہے ۔" رنگ چھوڑ کر گردن سے بات شروع کرکے شاید وہ خود کو دیگر پاکستانیوں سے ممتاز کرنا چاہ رہا تھا۔
"صراحی دار گردن" میں نے خیالیہ انداز میں دُہرایا۔
"پھرتو میں ایک ہاتھ سے اُس کی گچی دبا سکوں گا۔" میں نے مُٹھی بھینچتے ہوئے کہا۔

"ہرنی جیسی آنکھیں۔" اُس کی مشین چل پڑی تھی۔
"پھر تو بہت تیز دوڑتی ہوگی۔ " میں نے حیرت سے کہا
"ارے میں آنکھوں کی بات کر رہا ہوں۔" وہ جھنجلا کر بولا۔
"ہاں تو ہرنی تیز ہی دوڑتی ہے۔ اب میں اتنا بھی پاگل نہیں ہوں ۔" 


"تمہیں پتہ ہے ! بچپن میں میرے نانا کہتے تھے کہ میں بڑا ذہین ہوں۔" میں نے اُسے کچھ باور کروانے کی ضرورت محسوس کی۔
"یار ایک بار تمہارے نانا نے میرے ناناسے اردو لغت اُدھار مانگی تھی جو میرے نانا نے دی نہیں تھی۔ اگر لغت مل جاتی تو شاید وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔"

"اچھا فضول باتیں چھوڑو یہ بتاؤ کہ اُس کی زلفیں ناگن کی طرح تو نہیں ہیں؟ " میں نے موضوع پر واپس آتے ہوئے پوچھا۔
"زلفیں اسپرنگ والی ہیں اُس کی۔ اکثر چمٹا پکڑ کر سیدھی کرتی نظر آتی ہے۔ "
"چل شکر ہے ناگن سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں تو ناگن چورنگی سے بھی ڈرتے ڈرتے گزرتا ہوں۔" میری آنکھوں میں خوف کے سائے لہرانے کے بجائے ساکت و صامت تھے۔

"رنگ تو بتایا نہیں تم نے اُس، کا گندمی ہے یا چقندر جیسا ہے؟ " مجھے رنگ کی پڑی تھی۔
"اب تو بہت گوری ہو گئی ہے، لیکن بچپن میں کھڑی مسور کی دال جیسا رنگ تھا اس کا" اُس نے کچھ سوچتے ہوئے بتایا۔
"یار چیک کر لینا تھا، کہیں پندرہ منٹ بعد پھر سے فائزہ کی طرح ہو جائے۔" فکر مندی میرے چہرے سے عیاں تھی۔

"اچھا بات سُنو! تم نے اسے بتا تو دیا ہے نا کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں۔ " میں نے ڈیل کلوز کرتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں میں نے اُسے کہہ دیا ہے کہ تم اُسے رانی کی طرح رکھو گے۔"
"ارے بے وقوف! ہو سکتا ہے اُس نے یہ لطیفہ پڑھا ہوا ہو" میں نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
"پڑھا تو ضرور ہو گا لیکن سمجھی نہیں ہوگی۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
"کیوں نہیں سمجھی ہوگی بھلا؟" مجھے بڑا تعجب ہوا۔
"خوبصورت ہونے کی ناطے وہ کافی غبّی ہے۔" اُس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔

"چلو خوبصورت تو ہے نا! میری طرف سے ہاں ہے۔" میں کافی خوش تھا۔
"ہاں! لیکن ایک مسئلہ ہے!" اُس نے ہینڈ گرنیڈ کی پن نکال پھینکی۔
"اب کیا مسئلہ ہے یار؟" مجھے طیش آ گیا؟
"وہ پاکستان میں نہیں رہنا چاہتی!" اُس نے بم پھاڑ ہی دیا۔
"اگر تم کسی طرح کسی مغربی ملک کی شہریت حاصل کر لو تو وہ اُسی وقت دو بول پڑھانے پر راضی ہو جائے گی"۔

"تمہیں پتہ ہے، میں بہت ضروری کام کر رہا تھا۔" میری یاد داشت واپس آنے لگی۔
"یار تم کوشش تو کرو!" اُس نے اپنے جوتوں کے لیس باندھتے ہوئے کہا۔
"مجھے کل تک یہ پروجیکٹ فائنل کرنا ہے۔ " میں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔

"اچھا! چلو شام کو چائے پر ملتے ہیں!" اُس نے الوداعی جملہ پھینکا۔
"ٹھیک ہے، لیکن چائے سے پہلے میں چپلی کباب بھی کھاؤں گا۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اچھا بابا ٹھیک ہے، ویسے بھی کچھ کھائے بغیر تمہارا غم کیسے غلط ہو سکتا ہے۔" وہ مُسکراتے ہوئے اُٹھا اور لہراتے ہوئے نکل گیا۔

*****

منزلِ شوق اور نارسائی ، آخر کیوں؟


ہم میں سے بہت سے لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اور بظاہر اُس مقصد کے لئے سنجیدہ بھی نظر آتے ہیں ۔ لیکن دراصل وہ کبھی بھی اُس مقصد کو حاصل نہیں کر پاتے یا اپنا مدتوں پالا شوق پورا نہیں کر پاتے۔ دراصل ہم اُسی بات کو اہمیت دیتے ہیں جسے ہم واقعتاً اہم سمجھتے ہیں۔ اور جسے ہم اہم نہیں سمجھتے وہ چیز دانستہ یا نا دانستہ طور پر اہمیت کی فہرست میں بہت نیچے چلی جاتی ہے۔ یہاں اہمیت دینے سے مُراد کسی چیز کے حصول کے لئے ضروری مراحل کی تکمیل اور عملی تقاضوں کا پورا کرنا ہے۔

الغرض اصل بات ہے اہمیت کی۔ اور پھر اہمیت کی ترتیب ، یعنی ترجیحات کی۔

ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیں باتیں کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ خاص طور پر اپنے شوق کے بارے میں ۔ اور کبھی کبھی ہم محض باتوں سے ہی اپنے شوق کی تسکین کر لیتے ہیں۔ اور اُسی سے ہمیں جھوٹا ہی سہی لیکن تکمیل کا تاثر (Sense of Completion) مل جاتا ہے۔ اور نتیجتاً ہمارے شوق کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ سادے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا شوق، عمل کے لئے جو جذبہ اور جو اُمنگ ہم میں پیدا کرتا ہے، ہم اُس آگ میں ہاتھ سینک لیتے ہیں اور چائے چڑھانا بھول جاتے ہیں۔ خیر یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہےسو اس بارے میں ہم پھر کبھی بات کریں گے۔


بات ہو رہی تھی اہمیت کی ترتیب کی، یعنی ترجیحات کی۔ فرض کیجے آپ کی انگریزی زبان کی لیاقت بالکل معمولی سی ہے اور آپ اپنی انگریزی زبان کی استعداد بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ اور آپ بارہا اپنے دوستوں میں، عزیز و اقارب میں بیٹھ کر اس کا اعادہ بھی کر چکے ہیں ۔ لیکن بات یہ ہے کہ بات اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ ممکن ہے آپ نے چار سال پہلے کہا ہو کہ آپ اپنی انگریزی اچھی کرنا چاہتےہیں اور آپ اب بھی کہتے ہیں کہ آپ اپنی انگریزی اچھی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ممکن ہے کہ اگلے چار سال بعد بھی آپ اپنی محفلوں میں کسی سے یہی کہہ رہے ہوں۔

سُنتے آئے ہیں کہ انسان کی ایسی قَسموں پر گرفت نہیں ہوتی جو اُس نے بس یوں ہی رواروی میں کھالی ہوں یعنی بغیر کسی سنجیدگی اور تدبر کے۔ لیکن ایسی قسمیں جو اُس نے باقاعدہ سوچ سمجھ کر اور پکے ارادے سے کھائی ہوں اور اُنہیں پورا نہ کر سکے تو پھر اُسے کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

سو جب ہم کسی مقصد کے حصول کا اظہار کرتے ہیں اور اکثر کرتے رہتے ہیں تو پھر ہم پر بھی یہی قسم کے کفارے والا فارمولا عائد ہوتا ہے۔ اگر ہم واقعی سنجیدگی سے کوئی بات کرتے ہیں اور اُس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو پاتی تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ چُوک ہوئی کہاں۔ اور اب کیسے کفارہ ادا کیا جائے۔

اگر اس بات کا تعین ہو جائے کہ آپ اپنے مقصد یا شوق کے اظہار میں سچے تھے تو پھر اب ایک ہی مسئلہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے ترجیحات میں اُس مقصد کے تعین کا۔ آپ اپنی تمام تر ترجیحات کو ایک کاغذ پر لکھ لیں اور پھر اُن پر اہمیت کے اعتبار سے نمبر ڈال لیجے۔ اگر آپ کا مذکورہ شوق پہلی پانچ ترجیحات (علاوہ بنیادی ضرورتیں) میں جگہ بنانے میں ناکام ہو جائے تو پھر اُس سے دستبردار ہو جائیے اور جگہ جگہ محفلوں میں غیر سنجیدہ دعووں سے گریز کریں۔

تاہم اگر آپ کا شوق شروع کی پانچ ترجیحات (علاوہ بنیادی ضرورتیں) میں شامل ہو جائے تو پھر اس کے لئے باقاعدہ وسائل (وقت اور اخراجات ، اگر درکار ہوں) مختص کریں اور اللہ کا نام لے کر کام میں جُت جائیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ سیوہ بنا میوہ نہیں ملتا تو پھر محنت کریں اور کوئی کسر نہ چھوڑیں، اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور کامیاب کریں گے۔ 

*****

تنقید علی التحریص برائے دلفریب و دلنشین و لیکن مہمل اسمائے اطفال

تنقید علی التحریص برائے دلفریب و دلنشین و لیکن مہمل اسمائے اطفال

ویسے تو آپ عنوان دیکھ کر ہی سمجھ گئے ہوں گے اور تحریر لکھنا محض وقت کا زیاں ہی ہو گا ۔ تاہم فالتو کی تحریریں لکھنے کی چاٹ ہے کہ کہتی ہے کہ محض عنوان کافی نہ ہوگا بلکہ اچھا خاصا ٹھوک بجا کر تحریر لکھنا اوراُسے جا بجا چھاپنا اور ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو جبراً پڑھوانا انتہائی ضروری ہے۔ چھپوانا ہم نے اس لئے نہیں لکھا کہ ہم اُس کٹھن دور میں پیدا نہیں ہوئے کہ جب تحریریں چھپوانے کے لئے ہفتوں پہلے سے رسالے کے مُدیران کو روزانہ پان کی گلوریاں بھجوانی پڑتی تھیں اور پان کی گلوریوں کی عدم موجودگی میں تحریر غیر معیاری قرار پا کر ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتی تھی۔

خیر! موضوع پر تو ہم اتنی جلدی نہیں آنے کے، فی الحال کچھ عنوان کی خبر لے لیں۔

ہمارے ہاں دفتری زبان میں جو خطوط لکھے جاتے ہیں خصوصاً سرکاری محکموں میں ، اُن میں کم و بیش سارا ہی معاملہ خط کے عنوان میں ہی لکھ دیا جاتا ہے اور پھر پورے خط میں عنوان کے حوالے دے دے کر ناک میں دم کیا جاتا ہے۔ یعنی بین السطور یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اگر ایک بار ڈھنگ سے عنوان پڑھ لیا ہوتا تو یوں خط کی گلیوں یعنی سطور میں خاک نہیں چھاننا پڑتی۔

لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لینے والے سرکاری دفتروں میں بیٹھے کہنہ سال گھاگ افسران بھی محض لفافے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ خط کا عنوان پڑھ کر ہی ضروری ہدایات اور غیر ضروری طعنے اپنے ماتحتوں کو دیا کرتے ہیں اور اکثر خط کے عنوان کے جواب میں ایک اور عنوان لکھ کر ماتحتوں کو اُس عنوان کے تحت خط لکھنے کی ہدایت بھی جاری کر دیتے ہیں۔

اکثر خطوط کے عنوان ایسے ہوتے ہیں جو سالوں برسوں چلتے رہتے ہیں اور لکھنے والے ہر بار اُنہی کے حوالے دے دے کر ساری دفتری زندگی گزار دیتے ہیں۔ یعنی:

ع- خط لکھیں گے چاہے مطلب کچھ نہ ہو

خیر بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں آگئی، بلکہ یوں کہیے کہ بات تو ابھی تک چلی ہی نہیں اور اب تک ہم قاری کی استعداد و فہم و اداراک پر ہی گزارا چلاتے آ رہے ہیں کہ وہ عنوان دیکھ کر ہی نصیحت پکڑیں اور مذکورہ و غیر مذکورہ بد عنوانی سے باز آنے کا اصولی فیصلہ کریں۔ 

تاہم سچی بات یہ ہے کہ ہم قاری کی فہم پر کامل بھروسہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے اور عنوان کے تحت چار چھ سطریں گھسیٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔



سب سے پہلے تو ہم عنوان میں دی گئ مشکل اصطلاحات کی فرہنگ پیش کر دیں۔

تنقید: یہ ہمیشہ دوسروں پر کی جاتی ہے اور جب کوئی آپ سے بڑھ کر نکتہ چینی کرنے والا مل جائے اور آپ کی ذات کو ہدفِ تنقید بنائے تو اُسے تنقید کے لغوی معنی بتا کر مرغیوں کے خاک سے دانے علیحدہ کرنے کی مثال میں اُلجھایا جا سکتا ہے ، اور یہ بھی باور کروایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر حقیر کام میں اپنا وقت خراب کر رہا ہے۔ پھر بھی نہ مانے تو نو نقد نہ تیرہ اُدھار کی دو دھاری تلوار سے محارب کی زبان درازی کو لگام دی جا سکتی ہے۔ البتہ تنقید کا نقد سے اُتنا ہی تعلق ہے جتنا ہمارے ہاں تنقید نگاروں کا مالی خوشحالی اور فارغ البالی سے ہوا کرتا ہے۔

تحریص: تحریص کا لفظ لکھنے کی حرص بخدا ہمیں ہرگز نہیں تھی اور ہم تو انگریزی کا لفظ (Temptation) لکھنا چاہ رہے تھے لیکن اپنے ہی فرمودات ِ عبث سے خوف کھا کر اردو میں انگریزی ملانے سے گریز کیا۔ تحریص کا مطلب وہی ہے جو آپ پہلے سے جانتے ہیں، ہم اسے کوئی نئے معنی پہنانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

دلفریب: یہ ایک مرکب اصطلاح ہے اور بہتر یہ ہے کہ اسے مرکب صورت میں ہی فرہنگ کے حوالے کیا جائے ورنہ دل کے اپنے سو ڈرامے ہیں اور فریب تو ہے ہی فریبیوں سے ملاقات کی سبیل۔ دل فریب سے مراد دل کو لبھانے والا۔ اور دل بقول شٰخصے بچہ ہوتا ہے یا بچے کی مانند ہوتا ہے اور ظاہری چمک دمک پر ہی فریفتہ ہو جاتا ہے۔

دل نشین: دل میں رہنے والا یا دل میں اُتر جانے والا۔ بقول شاعر: شاید کے تیرے دل میں اُتر جائے مری بات (یعنی عنوانی نصیحت)۔۔۔! اور بقول دوسرے شاعر:

نصیحت دل نشیں رکھتا ہوں اُن خاموش آنکھوں کی
مگر بندہ بشر ہوں رفتہ رفتہ بھول جاتا ہوں

لیکن: لیکن کا مطلب ہے ٹانگ اڑانا۔ جیسے آپ نے اکثر لوگوں کو کہتے سُنا ہوگا کہ بھئی بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن ۔۔۔ یعنی بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن ہم اپنی ٹانگ اڑائے بغیر باز نہیں آئیں گے۔

مُہمل: اگر ہم مُہمل کے لئے لغت میں موجود سارے معنی لکھ ماریں تو آپ یقیناً ہماری لغت نگاری بلکہ لغت نقالی سے عاجز آ جائیں گے، اس لئے سب معنی رہنے دیتے ہیں بس اتنا سمجھ لیجے کہ قاعدے کی رو سے ایسے الفاظ جن کے کوئی معنی نہ ہوں اُنہیں مُہمل کہا جاتا ہے۔

اسماء: اسم یعنی نام کی جمع ۔ اب یہ بھی میں بتاؤں۔

اطفال: اطفال وہی ، جن کی بابت حکومت دو سے زیادہ کی اجازت دینے پر راضی نہیں ہے اور عوام دو پر اکتفا کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔اب بھی اگر نہیں سمجھ آیا تو غالب کے بازیچہء اطفال میں سے بازیچے کو دیس نکالا دے کر باقیات کی واحد بنائیں اور طفل تسلیوں سے دل بہلائیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فرہنگ ختم ہوتے ہی آپ واپس عنوان پر جاتے اور اُسے اپنے تئیں سمجھنے کی کوشش کرتے۔ لیکن ہم آپ کو جانتے ہیں ۔ آپ ایسے نہیں مانیں گے۔ کیونکہ آپ ویسے بھی نہیں مانتے۔

اور جب آپ ایسے بھی نہیں مانتے اور ویسے بھی نہیں مانتے تو پھر اتنے بڑے ناصحانہ کھٹراگ کا فائدہ ہی کیا ہے؟

آپ شاید بھول گئے، وہی فالتو کی تحریریں لکھنے کی چاٹ اور ان چاہی نصیحتوں کے طومار باندھنا اور جا بے جا حظ اُٹھانا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدا نے آپ کو اولاد دے ہی دی ہے تو آلتو فالتو ویب سائٹس پر جا کر چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے بے مطلب ناموں کو اپنے بچوں پر تھوپ دینے کی ہرگز کوشش نہ کریں بلکہ ہمیشہ اچھے اور باقاعدہ معنوں والے احسن نام اپنے بچوں کے لئے منتخب کریں۔

تاکہ کل کو جب آپ کے بچے کسی کو اپنے نام کا مطلب بتائیں تو کوئی سنکی لغت آشنا اُن کے ڈھائی گھنٹے خراب نہ کرے۔ 

***** 

حضرتِ انسان اور ہم یعنی بُلبُلِ بے تاب بقلم خود​

حضرتِ انسان اور ہم یعنی بُلبُلِ بے تاب بقلم خود​

نہ جانے اس کے پیچھے کیا راز ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ حضرت انسان کو ہم سے شروع سے ہی کچھ پرخاش سی ہے۔ سو اس نے ہمیشہ اس پرخاش پر لبیک کہا اور ہماری چونچ میں دم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ یعنی خود اشرف المخلوقات ہو کر بھی ہم سے چونچ لڑانے پر تُلا رہا اور یہ بھی نہ سوچا کہ بھلا میں انس کہاں، جانور غریب کہاں۔۔! انسانوں میں بھی بالخصوص شعراء ہم سے ٹھیک ٹھاک بیر رکھا کرتے ہیں۔

یہی دیکھ لیجے کہ ہماری اوائل عمری میں ہی انسان نے ہمیں مشقِ ستم بنا لیا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک سبز بخت نے انسانوں کے بچوں کے لئے نظم لکھنے کے نام پر بلبل کے ایک سادہ و معصوم بچے پر خوب ستم ڈھائے۔ اور علی االاعلان سب کو اپنے کارنامے بھی بتائے۔ لیکن انسانوں میں سے کوئی ایک بھی اس معصوم طفلِ بُلبُل سے ہمدردی کرنے والا نہیں ملا۔
جناب فرماتے ہیں:

بلبل کا بچہ ،کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی


صحافت کی دنیا میں یہ بات مشہور ہے کہ کتا اگر انسان کو کاٹ لے تو یہ کوئی خبر نہیں ہے کہ انسان اکثر و بیشتر کتوں سے کٹوانے کا سامان کر ہی لیتا ہے لیکن اگر انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ ایک خبر ہے۔ اب اگر اسی فارمولے کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ شاعری کو دیکھیں تو اس نظم میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔

ارے بھائی بُلبل کا بچہ کھچڑی ہی تو کھا رہا تھا ۔ کوئی ڈائنامائٹ تو نہیں چبا رہا تھا کہ آپ یوں سیخ پا ہو گئے۔ اب اگر آپ کے گھر میں کھچڑی کے علاوہ کچھ بنتا ہی نہیں ہے تو اُس میں بلبل کے بچے کا کیا قصور ! پھر پانی پینے کی بھی اس قدر تشہیر ہو رہی ہے کہ خدا کی پناہ! نہ جانے وہ کون سا پانی پی گیا کہ بستی والوں کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

آگے فرماتے ہیں:

گاتا تھا گانے
میرے سرہانے


اب بھلا بتائیے آپ کون سا میر صاحب ہیں کہ آپ کے سرہانے آہستہ بولا جائے۔ بے چارہ بچہ اگر گانا گا رہا ہےتو گانے دیجیے۔ اگر زیادہ ہی تنگ ہو رہے ہیں تو تکیہ سرہانے سے اُٹھا کر پائنتی پر رکھ لیجے۔ لیکن نہیں! آپ نے تو یہ بات دل میں ہی رکھ لی اور موقع کی تاک میں گھات لگا کر بیٹھ گئے۔

مزید فرماتے ہیں:

اک دن اکیلا بیٹھا ہوا تھا
میں نے اُڑایا، واپس نہ آیا


لیجے پست ہمتی دیکھیے کہ ایک معصوم بلبل کے بچے کو گھیرنے کے لئے بھی جناب نے اُس کے اکیلے ہونے کا انتظار کیا۔ اور ہُش کرکے اُڑا دیا۔ اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ ہُش کرنے کا تذکرہ شاعر نے نہیں کیا۔ جس طرح کچھ چیزیں زیبِ داستان کے لئے بڑھائی جاتی ہیں ویسے ہی کچھ چیزیں حذف بھی کر دی جاتی ہیں۔

پھر اس پر مستزاد یہ کہ اُسے اُڑا کر اُس کی واپسی کا انتظار بھی کر رہے ہیں۔ بغیر بجلی کے اتنے اچھے اچھے گانے سُننے سے محروم جو ہوگئے۔ لیکن وہ واپس نہیں آنے والا۔ بھلا وہ کیوں واپس آئے؟ کھچڑی کھانے؟ اور اِس من و سلویٰ کے بھی اُسے طعنے سُننے کو ملیں۔ نہیں بھئی نہیں! قریب ہی ایک جگہ چڑا اور چڑیا رہتے ہیں۔ ایک بھلا مانس چاول کا دانہ لے آتا ہے ایک دال کا دانہ لے آتی ہے، کھچڑی تو وہاں بھی مل جائے گی ۔ بس اُن سے دوستی گاٹھ لیں گے۔ کم از کم جیسے بھی ہیں، اپنے تو ہیں۔

ایک اور شاعر کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں


اب بتائیے۔ بھئی آپ چمن میں گئے ہی کیوں؟ بچپن سے آپ نے "ہم پھول چمن میں آتے ہیں" کی رٹ لگائی ہوئی ہے اور نہ جانے کیا کیا عزائم ہیں آپ کے ، اس کے پیچھے۔ نہ آپ چمن میں جاتے نہ ہی پنڈورہ باکس میرا مطلب ہے دبستاں یا وہ جو بھی تھا، کُھلتا۔

پھر اُس پر زعم یہ کہ بلبلیں ان کی دھائیں دھائیں سن کر غزلخواں ہوئیں۔ بھول گئے وہ وقت جب بچپن ہی سے آپ بلبل کے بچے کے گانے سنا کرتے تھے ۔ کیا یہ بھی میں یاد دلاؤں کہ آپ کی طبیعت میں موزونیت بھی بے چارے جلاوطن بلبل کے بچے کے مرہونِ منت ہے۔ ورنہ فعلن فعولن کے چوکھٹوں میں الفاظ بٹھانا آپ کے بس کی بات ہرگز نہیں تھی۔ لیکن آپ نے احسان ماننے کے بجائے احسان فراموشی کو وتیرہ بنایا اور ہمیشہ کی طرح ہر اچھے کام کا کریڈٹ لینے پر کمر بستہ و سینہ کشاد ہو گئے۔

ایک اور صاحب فرماتے ہیں:

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے


اب بھلا بتائیے، افئیر آپ کا چل رہا ہے اور آپ ہمیں بلا وجہ گھسیٹ رہے ہیں ۔ اور اپنی زوجہء ناکردہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ دل یہ چاہتا ہے کہ تمہیں گل کے رو برو بٹھائیں اور ہم بلبلِ بے تاب سے گفتگو کریں۔

؂ تمہیں اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں۔

اب یہ بھی کسی کو کیا پتہ کہ ہماری اور گُل کے عشق کی داستان اتنی تھی نہیں کہ جتنی اُسے شاعروں نے رگڑا ہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ :

؂ اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام


خیر، ہم کیوں کسی کی غیبت کریں ، کچھ شاعر اچھے بھی ہوتے ہیں اور ہر حال میں حقیقت کو ہی مقدم جانتے ہیں۔ جیسے کہ یہ ایک شعر ہے:

چمن میں نہ بلبل کا گونجے ترانہ
یہی باغبان چمن چاہتا ہے


کیا سچی بات ہے۔ لیکن جو شعر میرا "موسٹ فیورٹ" ہے وہ کچھ یوں ہے:

سنا ہے کہ دلی میں الو کے پٹھے
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں


اور اسے دلی کے علاوہ بھی کئی ایک شہروں کے نام بدل بدل کر پڑھنےمیں مزہ آتا ہے۔ رگِ گل سے بلبل کے پر باندھنے کا تو خیر نہ جانے کیا مطلب ہے لیکن پہلا مصرع ہی ایسا کامل ہے کہ دوسرے کا خیال ہی نہیں آتا۔

بہر کیف،

کہنی سنی معاف!

از قلم:
بلبل ِ بے تاب

افسانہ: فریاد کی لے​

فریاد کی لے​
از محمد احمدؔ​

وہ اِس وقت ذہنی اور جسمانی طور پر بالکل مستعد تھا۔ بس انتظار تھا کہ مولوی صاحب سلام پھیریں اور وہ نماز ختم کرکے اپنا کام شروع کر دے۔ اُس نے اپنے ذہن میں اُن لفظوں کو بھی ترتیب دے لیا تھا جو اُس نے حاضرینِ مسجد سے مخاطب ہو کر کہنا تھے۔ جیسے ہی مولوی صاحب نے سلام پھیر ااُس نے بھی تقریباً ساتھ ساتھ ہی سلام پھیرا اور ایک جھٹکے سے اُٹھا لیکن عین اُس وقت کہ جب اُس کو کھڑا ہو کر اپنی فریاد لوگوں تک پہنچانی تھی اُس کی قمیص کا دامن اُسی کے پاؤں تلے آ گیا اور ایک دم سے اُٹھنے کی کوشش کے باعث دامن چاک سے لے کر کافی اُوپر تک پھٹ گیا۔ ابھی وہ قمیص کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ ہال کے دوسرے کنارے سے ایک آواز سُنائی دی۔

"میرے بھائیو! میں اور میرے گھر والے تین روز سے ۔۔۔۔" رُندھی ہوئی آواز میں شروع ہوا یہ جملہ بیچ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اِس وقت کسی غیر متوقع "حریف" سے ٹکراؤ کا اُسے خیال تک نہیں تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے دروازے کے پاس ایک خستہ حال لڑکے نے حاضرین کو متوجہ کیا لیکن وہ جملہ مکمل کیے بغیر ہی رونے لگا ابھی وہ اس نئے سائل کی ڈرامے بازی کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک فریاد کرنے والا لڑکا جو اپنا جملہ مکمل کرنے کے بجائے رونے لگا تھا لوگوں کو پھلانگتے ہوئے بھاگنا شروع ہو گیا۔

نہ جانےاُسے کیا ہوا کہ اُس نے بھی نئے سائل کے پیچھے دوڑ لگا دی، کہ جیسے عین "دھندے" کے وقت پہنچ کر اُس کے حریف نے اُسے دعوتِ پیکار دے دی ہو اور پھر میدانِ جنگ سے فرنٹ ہو گیا ہو۔ اور جیسے اب اُس کی پہلی ذمہ داری ہی یہ ہو کہ پسپا ہوتے دشمن کو قریب ہی کہیں چھاپ لے اور پھر ایک ایک کرکے سارے بدلے چُکائے۔

صورتِ حال اب یہ تھی کہ آگے آگے خستہ حال نوجوان لڑکا روتا جاتا اور دوڑتا جاتا تھا اور وہ اُس کے پیچھے پیچھے ایک غیر ارادی تعاقب میں دوڑ رہا تھا ۔ دوڑتے دوڑتے اُس نے سوچا بھی کہ جب نیا لڑکا دوڑ ہی گیا تھا تو اُسے اپنا کام شروع کرنا چاہیے تھا بجائے اِس کے کہ وہ اُس کے پیچھے اپنا وقت برباد کرنے آگیا۔ لیکن یہ سوچ بھی اُس کے قدم روکنے کا حیلہ نہ بن سکی اور وہ اندھا دھند دوڑتا رہا۔

مختلف چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزر کر مفرور سائل ایک گھر کے دروازے میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ اُس نے اُسے جا ہی لیا ۔ اُس کی گرفت میں آکر مفرور لڑکا شدید پریشانی کا شکار نظر آتا تھا اور اُسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اُس کا اندھا دھند تعاقب کرنے والا یہ شخص کون تھا اور آخر اُس سے ایسا کیا قصور ہوا تھا کہ اُسے نجات ملنے کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا تھا۔
"کون ہے بے تو؟؟؟" اُس نے حقارت سے لڑکے سے پوچھا
"میں ! میں!" لڑکے کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد سے کیسے نمٹا جائے۔
پھر شاید اُسے ہی خیال آیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی جارح ہو رہا ہے تو اُس نے اپنے لہجے کو کچھ بہتر بناتے ہوئے پوچھا" مسجد میں کیا کرنے آیا تھا؟"
"وہ ، میں۔۔۔! مجھے پیسے چاہیےتھے" لڑکے نے ہکلاتے ہوئے بتانا شروع کیا۔
"ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کھانے کو ، پیسے بھی نہیں ہیں" وہ سسکتا جاتا اور بتاتا جاتا۔
"میں نے۔۔۔۔ میری امی نے، میرے بھائی نے ۔۔۔ ہم نے کچھ نہیں کھایا " رو رو کر لڑکے کا بُرا حال تھا اور اُس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ سوال جواب کیوں کر رہا ہے۔
"تین دن سے ہمیں پانی کے علاوہ کچھ نہیں ملا، میں نے سوچا مسجد میں جا کر ۔۔ جیسے دوسرے لوگ ۔۔۔ " لڑکا پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
اُس کے ہونٹوں سے سارے سوال غائب ہو گئے تھے اور آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
پھر اچانک اُس نے آگے بڑھ کر لڑکے کو گلے سے لگا لیا، اور پھر وہ دونوں رونے لگے ۔ جیسے جیسے اُن کا کوئی مر گیا ہو۔ لیکن اُن کا اس دنیا میں تھا ہی کون جو مرتا۔ اور اُن کا کوئی ہوتا تو کیا وہ اس طرح روتے؟
وہ روتے جاتے اور ایک دوسرے کو بھینچتے جاتے کہ جیسےکوئی سالوں برسوں بعد ملا ہو اور اس بات کا یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ ملن کا لمحہ واقعی آن پہنچا ہے۔
آس پاس جمع ہوتے بچوں کو دیکھ کر اُسے کچھ ہوش آیا۔ اُس نے لڑکے کو خود سے جدا کیا اور ہتھیلیوں کی پشت سے آنسو پوچھتے ہوئے بولا ۔ "میرے ساتھ آ" اور اُس کا ہاتھ پکڑکر چلنے لگا۔
سائل لڑکا میکانیکی انداز میں اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔ راستے میں وہ دونوں بالکل خاموش تھے۔کہتے بھی تو کیا۔
اُن کا یہ مختصر سفر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر ختم ہوا اور اُس نے لڑکے کو ہوٹل پر ایک تخت پر لا کر بٹھا دیا۔ ادھر اُدھر دیکھنے پر اُسے ایک پانی کا ڈرم نظر آیا۔ اُس نے ڈرم سے پانی جگ میں نکالا اور منہ دھونے لگا۔ منہ ہاتھ دھو کر اُس نے ایک جگ اور بھرا اور لڑکے کو بُلا کر اُس کا منہ بھی دھلوا دیا۔
کچھ تازہ دم ہو کر وہ پھر سے تخت پر بیٹھے تو بیرا اُن کے سر پر نازل ہو چکا تھا۔ "ہاں اُستاد ! کیا لاؤں؟"
"ایک دال فرائی لے آ اور روٹی گرم لانا ۔ " اُس نے بیرے کو دیکھا اور سوچتے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دیر میں بیرا کھانا لے آیا۔ کھجور کے پتوں سے بنی رکابی میں تندور کی تازہ روٹیاں اور اسٹیل کی پلیٹ میں چنے کی دال ، فرائی کی ہوئی۔ سائل لڑکے کے آنسو اب تک تھم گئے تھے لیکن اُس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اُس نے لڑکے کی طرف دیکھا اور کھانے کی طرف اشارہ کرکے کہا "گرو ، ہو جا شروع۔۔۔!"

لڑکے نے جھجکتے ہوئے ایک نوالہ بنایا اور دال کی پلیٹ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ لیا۔ نوالے کے منہ میں جاتے ہی اُس کی ساری جھجک رُخصت ہوگئی اور وہ بے صبری سے کھانا کھانے لگا۔ اُسے کوئی خاص بھوک نہیں تھی لیکن لڑکے کا ساتھ دینے کے لئے وہ بھی چھوٹے چھوٹے نوالے لیتا رہا۔


کھانا ختم ہونے پر اُس نے بیرے کو آواز دے کر چائے منگوائی اور مسجد سے فرار اختیار کرنے والے سائل کی طرف متوجہ ہوا۔

"تم مسجد سے بھاگ کیوں گئے تھے۔ "وہ اب تو سے تم پر آ گیا۔
لڑکے نے اُس کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر کہا "مجھے شرم آگئی تھی۔ میں نے، میرے خاندان والوں نے کسی نے بھی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ اگر حالات اس قدر خراب نہ ہوتے تو شاید میں مسجد میں اس غرض سے آنے کی ہمت بھی نہ کر پاتا۔"
"شرم ! " اُس نے حیرت اور غصے سے لڑکے کی طرف دیکھا۔
"تمھیں کیوں شرم آ ئی!" اُس کی آواز غیض سے بھرّا رہی تھی۔
"شرم تو تمھارے پڑوسیوں کو آنی چاہیے، تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے کہ تمھارے ہاں تین روز سے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ بے خبر ہیں۔"
"تمھاری پڑوسی اپنی زندگی جی رہے ہیں، کھا رہے پی رہے ہیں عیش کر رہے ہیں۔ کیا اُن کا فرض نہیں کہ اڑوس پڑوس کا بھی حال پوچھیں۔ کس پر کیا گزر رہی ہے۔ کس پر کیا مصیبت آن پڑی ہے" ذرا توقف کے بعد وہ پھر شروع ہوا۔
"شرم تو تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے ۔ کوئی تمھیں پوچھنے نہیں آیا" اُس نے زور سے سر کو جھٹکا دیا۔
"کیسی رشتہ داری ہے آج کل کی۔ وقت اچھا ہو تو صبح شام چکر لگائیں اور جہاں بُرے دنوں نے رستہ دیکھاوہیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جائیں گے۔"
"لعنت ہے ایسی رشتہ داری پر اور لعنت ہےایسے پڑوسیوں پر۔" اُس نے زور سے چائے کا کپ تخت پر پٹخا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
اُس نے ہوٹل کے مالک سے کہہ کر کچھ کھانا لڑکے کے گھر والوں کے لئے بھی پیک کروایا اور بل ادا کرنے کے بعد کچھ پیسے لڑکے کی جیب میں بھی ٹھونس دیے۔

"میں اسی ہوٹل پر بیٹھتا ہوں شام کے بعد ، کبھی بھی کوئی مسئلہ ہو تو میرے پاس آ جانا۔ اور ویسے بھی ملتے رہنا " اُس نے لڑکے کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ " میں ویسے بھی چھڑا چھانٹ ہوں، میرا گزارا جیسے تیسے چل ہی جاتا ہے"۔ اب اُس کے چہرے پر مُسکراہٹ نے جگہ بنا لی تھی۔

*****

عصر کی نماز اُس نے ایک اور مسجد میں پڑھی ۔ یہ مسجد بازار کے بیچ و بیچ تھی اور اس میں نمازیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ نماز ختم ہوئی تو اُس نے اپنی درد ناک آواز میں فریاد شروع کر دی۔ آج اُس کی آواز میں الگ ہی کرب تھا۔ اُس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کے رٹے رٹے جملے آج تاثیر میں گُندھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پیروں میں بچھے رومال پر چھوٹے بڑے نوٹ جمع ہو رہے تھے۔ وہ مستقل رو رہا تھا اور اندر سے ایک اطمینان اُ س کے اندر اُتر رہا تھا کہ رومال پر جمع ہونے والے نوٹ اب اُس کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ اہم تھے ۔ اُس کی آنکھوں کے آنسو خوشی سے چمک رہے تھے اور اُس کا پھٹا ہوا دامن ہوا میں لہرا لہرا کر مسرت کا اظہار کر رہا تھا۔

*****

اپنے روز مرہ کاموں کی فہرست بنائیں

فہرستِ امورِ ضروری
اپنے روز مرہ کاموں کی فہرست بنائیں

اگر آپ اپنے روز مرہ کے کاموں کی فہرست مرتب نہیں کرتے اور اُس کے باوجود آپ کے سب کام ٹھیک ٹھاک اور اپنے وقت پر ہو جاتے ہیں تو یہ تحریر آپ کے لئے نہیں ہیں۔ آپ بالکل ٹھیک جا رہے ہیں آپ اپنے کام پر توجہ رکھیے اور دوسروں کو بھی یہ گُر سکھائیے۔

لیکن اگر آپ کے کام بروقت نہیں ہو پاتے اور بہت سے کام آپ کے ذہن سے نکل جاتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ روزانہ یا کم از کم ہفتے میں دو تین بار کاموں کی فہرست مرتب کریں اور گاہے گاہے اُس کو دیکھتے رہیے تاکہ آپ کو یاد رہے کہ کون سا کام ہو چکا ہے اور کون سا کام ابھی باقی ہے۔

فہرست امورِ ضروری مرتب کرتے ہوئے درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

کام کی حیثیت:

کام چھوٹا ہو یا بڑا اُسے آپ کی فہرست میں جگہ ضرور ملنی چاہیے۔ اکثر ہم چھوٹے کاموں کو فہرست میں جگہ نہیں دیتے کہ اسے کیا لکھنا ۔لیکن دراصل چھوٹے چھوٹے کام نہ ہو تو اُن کی وجہ سے بہت سے بڑے بڑے معاملات رُکے رہتے ہیں۔ اس لئے یا تو چھوٹے چھوٹے کاموں کو فوراً کر لیا جائے یا پھر فہرست میں لکھ لیا جائے۔
کام اگر بڑا ہو تو ہمیں چاہیے کہ اُسے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیں اس سے ہمیں کام کو نمٹانے میں آسانی ہوگی۔ کسی دانش مند نے کہا ہے کہ اگر آپ پہاڑ کو سرکانا چاہتے ہیں تو ذروں کو سرکانے کا فن سیکھیے۔

مثلاً اگر آپ گھر میں ہونے والی ایک تقریب کے انتظامات کو اپنی کاموں کی فہرست میں جگہ دینا چاہتے ہیں تو ایک دم سے تقریب کا نام لکھ دینے سے بات نہیں بنے گی۔ بلکہ آپ کو چاہیے کہ انتظامات کو مختلف حصو ں میں تقسیم کر لیں۔ مثال کے طور پر ، دعوت ناموں کی تقسیم یا فون کالز، بازار سے منگوانے کے لئے سامان کی فہرست، گھر کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ کا کام وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح ان کاموں کو مزید ٹکڑوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

ترجیحات:


ہماری فہرست میں کاموں کی ترجیح بہت اہم چیز ہے ۔ یعنی ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ کون سا کام زیادہ اہم اور ہے کون سا کم اہم ہے ۔ یا وقت کے حساب سے کون سا کام پہلے کرنا ضروری ہے اور کون سا کام ایساہے جسے بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔

سو ہر کام کے سامنے اُس کے ترجیح ضرور لکھیں مبادا ہم کم اہمیت کے کاموں میں سارا وقت کھپا دیں اور اہم کام رہ جائیں۔ سو جو کام سب سے زیادہ اہم ہو اُس کے سامنے ترجیح ایک (1) لکھ لیں اور جو اُس سے کم اہمیت کا ہو اُس کے سامنےدو (2) لکھ لیا جائے اور اسی طرح ایک سے پانچ تک سب کاموں کی ترجیحات متعین کر لی جائیں۔

معیاد اور دورانیہ


کچھ کام ایسے ہوتے ہیں کہ جو ہمیں ایک خاص وقت تک مکمل کرنے ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ طالب علموں کے اسائنمنٹ وغیرہ ۔ لیکن عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مقررہ وقت یا تاریخ ہمیں مہمیز کرنے کے بجائے سست کرد یتی ہے اور ہم میں سے اکثر یہ سوچتے ہیں کہ ابھی وقت ہے اور کر لیں گے آرام سے۔ لیکن یہی سوچتے سوچتے بہت وقت گزر جاتا ہے اور اچانک ہمیں خیال آتا ہے کہ مقرررہ وقت پورا ہونے میں بس ذرا سی کسر رہ گئی ہے۔ پھر ہم جلدی جلدی میں اُلٹا سیدھا کام کرتے ہیں اور جیسے تیسے جان چھڑا لیتے ہیں ۔

پارکنسن کے مطابق:

Work expands to fill the time available for its completion

یعنی کام عموماً تمام تر میسر وقت میں پھیل جاتا ہے اور وقت کا ایک بڑا حصہ ایک ایسے کام میں کھپ جاتا ہے کہ جو دراصل بہت کم وقت چاہتا ہے۔

اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کام کو لکھتے ہوئے ہمیں اُس کی ڈیڈ لائن کے ساتھ ساتھ اُس کے لئے درکار وقت کا تعین کرنا بھی ضروری ہے ۔ فرض کیجے کہ ایک اسائنمنٹ مکمل کرنے کے لئے آپ کو تین سے پانچ گھنٹے درکار ہیں اور اُس کی ڈیڈ لائن ایک مہینے بعد کی ہے۔ اگر آپ کام کے ساتھ صرف ڈیڈ لائن لکھیں گے تو زیادہ تر اُمید یہی ہے کہ یہ تین سے پانچ گھنٹے کا اسائنمنٹ پورے مہینے پر پھیل جائے اور آخر میں کام بھی معیار ی نہ ہو۔ سو ہمیں چاہیے کہ کام کے ساتھ کام کی ڈیڈ لائن اور اندازاً درکار وقت بھی ضرور لکھیں۔

کب اور کہاں


بہت سے کام صرف اس لئے پورے نہیں ہوتے کہ وہ شروع نہیں ہو پاتےاور وہ روز بروز ٹلتے رہتے ہیں اور مہینے بیت جاتے ہیں ۔ سو ایسے کاموں کو لکھتے وقت دو باتیں اور طے کر لیجے اور وہ دو باتیں ہیں کب اور کہاں؟

فرض کیجے کوئی کام کئی ہفتوں سے ٹل رہا ہے اور آپ سوچتے ہیں کہ اسے بھی کرنا ہے تو پھر آپ سب سے پہلے یہ فیصلہ کریں کہ آیا آپ یہ کام کرنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں کرنا چاہتے تو اپنی فہرست میں اس کام پر خطِ تنسیخ پھیر دیجے تاکہ آپ کے ذہن کا بوجھ ہلکا ہو سکے ۔ یا اگر آپ اس کام کو واقعتاً کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے کرنے کے لئے وقت ، دن، تاریخ کا تعین کر لیں اور اگر کسی جگہ کا تعین بھی ضروری ہو تو وہ بھی کر لیجے۔ ایسا کرنے سے وہ کام ضرور ہو جائے گا۔

کیسے


ضروری امور کی فہرست کیسے بنائیں ؟ یوں تو یہ فہرست بنانے کے لئے کاغذ کا ایک تراشہ اور قلم یا پنسل ہی کافی ہیں لیکن آپ یہ کام کرنے کے لئے کوئی ڈائری بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتے تو بہتر ہو گا کہ آپ ایک پاکٹ ڈائری میں یہ فہرست بنائیں۔

اگر آپ اینڈرائڈ فون استعمال کر تے ہیں تو کچھ ایپس آپ کو اس قسم کی لسٹ بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔ آپ چاہیں تو کلر نوٹ یا اسی انواع کی دیگر ایپس استعمال کر سکتے ہیں۔ یا ونڈوز پر اسٹکی نوٹس بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

آخر میں سب سے اہم بات، اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اس ڈائری کو بار بار دیکھ کر اپنی کارکردگی کا جائزہ نہیں لیتے اور اسے ہاتھ ہاتھ کے ہاتھ اپڈیٹ یعنی تازہ نہیں کرتے تو پھر یہ سب مشقت بے کار جائے گی۔ یاد رکھیے کہ پودا لگانا صرف ایک دن کا کام ہے لیکن اسے پانی روز دینا پڑتا ہے۔

شادیٔ مرگ ِ شاعری

شادیٔ مرگ ِ شاعری 
(شادی اور شاعری)

کہتے ہیں شاعر کو شادی ضرور کرنی چاہیے، کہ اگر بیوی اچھی مل جائے تو زندگی اچھی ہو جائے گی ورنہ شاعری اچھی ہو جائے گی۔ موخر الذکر صورت تو اللہ نہ کرے کسی کے ساتھ پیش آئے لیکن اول الذکر صورت میں بھی آنے والی آپ کو محرومِ محض نہیں کرتی بلکہ اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ شاعری کا بھی دال دلیہ چلتا رہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ دال دلیا پر صبر شکر کریں یا کوئی اور نیا طوطا پال لیں۔ یہ البتہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ طوطا دال دلیے سے الرجک ہوتا ہے اور ہری مرچیں چبانے کو ہی اپنے لئے باعث صد افتخار گردانتا ہے۔ طوطا پالنے کی نسبت بکری پالنا ذرا آسان ہے اور تحریک کے لئے مشہور مثل بھی موجود ہے کہ "غم نداری بُز بخر" یعنی اگر آپ کو کوئی غم نہیں ہے تو بکری پال لیجے ۔ تاہم بکری سے ملنے والے غموں کے خام مال سے آپ عاشقانہ اور درد بھری شاعری کرنے کے قابل ہو جائیں تو ہم سفارش کریں گے کہ اس صدی کا سب سے بڑا مبالغہ آرائی اور مغالطہ فرمائی کا ایوارڈ آپ کو ہی دیا جائے۔


جیسا کہ ہم نے بتایا کہ شادی کی صورت میں آپ غم و آلام سے محرومِ محض ہو کر نہیں رہ جاتے بلکہ کچھ نہ کچھ راشن آپ کو ملتا ہی رہتا ہے ۔ اور اسی پر اکتفا کرکے ہمارے ہاں مزاحیہ شاعر اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر "کسی" کا نام۔ یعنی بیگم کا نام۔ مزاحیہ شاعروں سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی شاعری صرف بیگم صاحبہ کے ارد گرد ہی کیوں گھومتی ہے تو وہ مسکرا کر کہتے ہیں کہ زندگی کا لطف انہی کھٹی میٹھی باتوں میں ہے۔ اور دل میں کہتے ہیں کہ :

یہ درد کے ٹکڑے ہیں، اشعار نہیں ساغر
ہم کانچ کے دھاگوں میں زخموں کو پروتے ہیں

ہمارا خیال ہے کہ اکثر سنجیدہ شاعر ،شادی کے بعد مزاحیہ شاعری صرف اس لئے کرنے لگتے ہیں کہ اُن کے خیالات پر گرفت ہونے لگے تو وہ کھسیا کر کہیں کہ بھئی یہ تو مزاحیہ شاعری ہے اور مزاحیہ شاعری ایسی ہی ہوتی ہے۔ یعنی بزبانِ حال کہتے نظر آتے ہیں کہ :

اشعار کے پردے میں ہم "کِن" سے مخاطب ہیں
اللہ کرے ہرگز وہ جان نہیں پائیں

کچھ لوگ البتہ شادی کے بعد بھی سنجیدہ شاعری ہی کرتے ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی کے سبب سامعین اُن کی شاعری پر ہنسنے لگتے ہیں اور وہ بے چارے تلملاتے ہوئے مسکراتے ہیں اور مسکرا کر کہتے ہیں کہ یہ مزاحیہ کلام ہی تھا۔

یوں تو ہماری قوم کے لوگ اتنے سفاک اور ظالم نہیں ہیں کہ دوسروں کے غموں پر ہنسنا شروع کر دیں لیکن کیا کیا جائے کہ شادی شدہ لوگوں کے دُکھ کنواروں کو سمجھ نہیں آتے سو وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے مسکرا دیتے ہیں اور شادی شُدہ لوگ چونکہ خود بُھگت کر بیٹھے ہوتے ہیں سو اُن کی ہنسی خودبخود نکل جاتی ہے۔

شادی شدہ شاعروں کو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی بیاض بیگموں سے چھپا کر رکھیں کہ اگر وہ غریب ملی نغمہ بھی لکھیں گے تو اُس پر بھی اُن کی گرفت ہو سکتی ہے کہ ملی نغمہ تو چلو ٹھیک ہے لیکن اس میں فضا، کہکشاں، خوشبو اور چاندنی وغیرہ کا اس قدر ذکر کیوں ہے۔ اب اُنہیں کوئی کیا سمجھائے کہ ہمارے ہاں ایسے تمام الفاظ جو لطافت اور خوبصورتی کے استعارے ہوتے ہیں اُنہیں لڑکیوں کے ناموں کے لئے چُن لیا جاتا ہے یہاں تک بھی ٹھیک ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ یہی لڑکیاں آگے جا کر بیویاں بن جاتی ہیں اور تمام تر جمالیاتی احساسات اور لطافتوں سے عاری و بھاری ہو جاتی ہیں۔

اگر آپ ایک خاتون ہیں او ر ابھی تک یہ تحریر پڑھ رہی ہیں تو ہم اس بات کا اعتراف ضرور کریں گے کہ خواتین میں جمالیاتی حس ختم ہر گز نہیں ہوتی بلکہ اُن بے چاریوں کا مقصد صرف شوہروں کی "آؤٹ آف دی باکس" جمالیاتی حسیات کا قلعہ قمہ کر نا ہوتا ہے، جو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہوتا۔

یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی شدہ شاعر ملی نغمے ہی لکھ رہا ہو ۔ سو شاعروں کی بیویوں کو بھی اُن پر ظاہر ہونے والے جنوں کے آثار پر نظر رکھنی چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اُن کے شوہرِ نامدار کو کون دیوانہ بنا رہا ہے۔ اس کی اشد ضرورت اسلئے بھی ہے کہ اس قسم کے دیوانے "بکار خیر "کافی ہشیار ہوتے ہیں۔

کچھ عاشقانہ شاعری کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی شاعری پر شادی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ تاہم اس بارے میں ہم کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ ایسے حضرات قفس کو ہی آشیاں سمجھ بیٹھتے ہیں یا قفس کی تیلیوں کو دریچہ کور (window blinds) اور دریچہ کور کو پردہء سیمیں سمجھتے ہوئے اپنے تصورات کی دنیا کو مجسم کر لیتے ہیں۔ اور غالباً بڑے غرّے سے یہ کہتے ہوں گے کہ:

اے پردہ نشین تم کو یہ پردہ مبارک ہو
ہم اپنے تصور میں تصویر بنا لیں گے

اور یہ بھی کہ :

ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں "فلاں" کیوں چپ ہے

بہرکیف ،تمام گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہم بہ استفادہء شکیب تمام شادی زدہ شعراء کو مشورہ دیں گے کہ:

شاعری کیجے کہ یہ فطرتِ شاعر ہیں شکیب
جالے لگ جاتے ہیں جب بند مکاں ہوتا ہے

گفتگو کی اجازت تو ویسے بھی آپ کو خال خال ہی ملتی ہوگی۔

چاند میں تو کئی داغ ہیں


2013ء میں جب پاکستان میں الیکشن کا انعقاد ہوا تو اُس وقت عمران خان کی تحریکِ انصاف ایک بڑی قوت بن کر اُبھری اور گمان تھا کہ یہ میدان بھی مار جائے لیکن نتائج کچھ مختلف رہے۔

اس وقت عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ عمران خان جیسے بھی ہیں لیکن دوسرے دستیاب آپشنز سے بہرکیف بہتر ہیں۔ یعنی بُروں میں سب سے اچھے عمران خان ہیں۔ یا یوں کہیے کہ بہت سے برے آپشنز میں سے وہ نسبتاً بہتر ہیں۔ اگر بات الیکشن تک رہتی تو شاید تحریک انصاف کامیاب بھی ہو جاتی لیکن سیلیکشن کے مرحلے میں آکر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وزیرِ اعظم بننے کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ الغرض دلہن وہی بنی جو پیا من بھائی ! اور عمران خان دلہن نہ بن پائے تو ولن بن گئے اور آنے والی حکومت کے پیچھے پڑ گئے۔

عمران خان نے اپنے مخالفین کو کافی شدید زک پہنچائی اور اُن کی بے انتہا کردار کشی کی ۔ اور اسی وجہ سے اور کچھ اُن کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے اُن کا اپنا کردار بھی نظریاتی لوگوں کی نظر میں تاراج ہو گیا، اور عمران خان 2013ء کی طرح لوگوں کے ذہن میں نجات دہندہ رہبر نہیں رہے بلکہ بہت سے آپشنز میں سے ایک آپشن بن گئے۔

انہوں نے بہت تیزی کے ساتھ اپنی جماعت میں الیکٹیبلز کے نام پر لوٹے بھرتی کیے اور پرانے نظریاتی کارکنوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اُن کے نظریات ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہے اور وہ کبھی یکسو ہو کر کوئی مثبت کام نہیں کر پائے۔ خیبر پختونخواہ میں اُن کی صوبائی حکومت کی شہرت گو کہ باقی تمام صوبوں سے بہتر ہے تاہم وہ خیبر پختونخواہ کو وہ نمونہ نہیں بنا سکے کہ جسے دیکھ آئندہ انتخابات میں اُنہیں ووٹ دیے جا سکیں۔ 


وہ ابھی بہت سے بدترین لوگوں سے بہت بہتر ہیں لیکن درحقیقت صاحبِ کردار لوگ ایسے لوگوں سے اپنے تقابلی جائزے ہی کو اپنے لئے باعثِ شرم جانتے ہیں۔ بہرکیف شنید ہے کہ اس بار پیا کے من میں بھی تبدیلی کی جوت جگی ہے اور وہ نئی دلہن کی طرف راغب ہیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان ایک بار پھر ایک نظریاتی جماعت سے محروم ہو گیا ہے۔

سائے میں پڑی لاشیں


سندھی زبان کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ حق بات اپنی جگہ لیکن ساتھ بھائی کا دیں گے۔ اس سے آپ یہ ہر گز نہ سمجھیے گا کہ تعصب پر سندھی بولنے والوں کی ہی اجارہ داری ہے بلکہ یہ بیماری تو ہمارے ہاں موجود ہر قوم میں کسی نہ کسی شکل میں پھیلی ہوئی ہے۔

تعصب عدل کو معزول کر دیتا ہے ۔ یوں تو عدل اور تعصب دونوں ہی اندھے ہوتے ہیں لیکن عدل سب کے لئے کورچشم ہوتا ہے تاہم تعصب اندھا ہوتے ہوئے بھی اتنا ضرور دیکھ لیتا ہےکہ کون اپنا ہے اور کون پرایا اور کسے ریوڑھیاں بانٹنی ہے اور کسے نہیں۔

ہم بڑے عجیب لوگ ہیں، ہم اپنی معاملے میں عدل چاہتے ہیں لیکن دوسروں کے معاملے میں تعصب سے کام لیتے ہیں۔ جب مصیبت ہم پر آ پڑتی ہے تو ہم انصاف انصاف کی دُہائی دیتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن جب بات کسی اور کی ہو تو ہم سوچتے ہیں کہ صاحبِ معاملہ کون ہے۔ کہاں کا رہنے والا ہے؟ کون سی زبان بولتا ہے؟ کس رنگ و نسل کا ہے؟ حتیٰ کہ ہمارے علاقے کا ہے یا کہیں اور کا۔ ہمارے صوبے کا ہے یا کہیں اور کا؟ ہمارے شہر کا ہے یا کہیں اور کا؟

پھر اگر کوئی آپ کا اپنا معاملے کا فریق بن جائے تو پھر آپ عدل سے آنکھیں چرا کر اپنے پرائے کو ہی حق و باطل کا معیار بنا لیتے ہیں۔ آپ کا اپنا ؟ آپ کا اپنا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کا بھائی، آپ کا رشتہ دار، آپ کے محلے پڑوس کا کوئی شخص ، آپ کا کوئی ہم زبان، ہم رنگ و نسل۔ پھر آپ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں عدل و انصاف نام کی بھی کوئی شے ہے۔ بس جو اپنا ہے وہ ٹھیک ہے اور دوسرا وہ شخص جو آپ سے کوئی نسبت نہیں رکھتا حق پر ہوتے ہوئے بھی ، غلط ہے ۔ ظالم ہے۔

ہم لوگ اکثر روتے ہیں کہ ہمارے ہاں ظلم بڑھ گیا ہے۔ ہمارے ہاں عدل و انصاف نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی ہے۔ لیکن کیا ہم واقعی عدل کو پسند کرتے ہیں۔ عدل جو اندھا ہوتا ہے، جسے اپنے پرائے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ جو کبھی ذات پات، رنگ ونسل، علاقہ و لسان کسی چیز سے علاقہ نہیں رکھتا۔

ہم کہتے ہیں ہمارے ہاں عدل کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہاں تو بس جان پہچان چلتی ہے، یہاں تو سیاسی وابستگی کام آتی ہے یہاں ہمارے لئے عدل کا حصول ممکن نہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے معاملے میں تعصب کو برا سمجھتے ہیں۔

یا ہم نے سارے معیار صرف اس لئے وضع کیے ہیں کہ اُن سے دوسروں کی پیمائش کی جاتی رہے اور ہماری باری پر ہمیں استثنیٰ مل جائے۔


*****
بہرکیف اگر آپ کسی سے تعصب برتتے بھی ہیں تو اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے کہ روزِ حشر اس کے جواب دہ آپ خود ہوں گے تاہم آپ کا یہ تعصب آپ کے دشمنوں کے لئے ہی نقصان دہ نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے اپنے لئے بھی زہرِ قاتل ہے۔

وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ آپ کے سیاست دان آپ کی تعصب کی بیماری سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ آپ کو رنگ و نسل اور زبان و علاقے کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں اور اِسی برتے پر آپ کا قیمتی ووٹ لے اُڑتے ہیں۔ اور آپ؟

آپ اتنے سیدھے سادھے ہیں کہ آپ اس سے پوچھتے تک نہیں کہ ٹھیک ہے تم میری قوم سے ہو لیکن پچھلے پانچ سال تمہاری کیا کارکردگی رہی؟ اگلے پانچ سال کے لئے تمہار ا کیا منشور ہے؟ جس منصب پر پہنچنے کے لئے تم میرا ووٹ طلب کر رہے ہو کیا تم اُس کے اہل بھی ہو ۔ یا تمہاری اہلیت صرف یہ ہے کہ تم میری قوم سے ہو، یا میری زبان بولتے ہو۔

کہتے ہیں کہ اپنا تو مار کر بھی سائے میں ڈالتا ہے تو پھر سمجھ لیجے کہ آپ پاکستانیوں کا جو حال ہے وہ سائے میں پڑی لاشوں سے بہتر نہیں ہے جنہیں اُن کے 'اپنوں'نے مار کر بہت محبت سے سائے میں ڈالا ہے۔

یقین کیجے آپ کی آنکھیں بہت اچھا دیکھ سکتی ہے، بس ایک بار تعصب کی ہری نیلی پیلی عینکیں اُتار کر دیکھنے کی ہمت کیجے۔ تب آپ کو اپنوں میں غیر اور غیروں میں موجود اپنے نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

جادو کا کھلونا ۔۔۔ از ۔۔۔ محمد احمدؔ


آج تو میں اِس دنیا کو انفرینڈ کر ہی دوں گا۔

میں نے آج پھر تلملاتے ہوئے کہا۔ ویسے ہی جیسے ہر بار زخم کھا کر ہاتھ ڈریسنگ باکس میں رکھے مرہم و نشتر کی طرف بڑھتا ہے کہ اب کچھ علاج ہونا ہی چاہیے۔ لیکن بقول راشد:

زہرِ غم کی نگہِ دوست بھی تریاق نہیں
جا ترے درد کا درماں دلِ صد چاک نہیں
ن ۔م راشد

خیر ! نہ جانے کس جھونک میں اُڑتا ہوا میں اُس کی پروفائل تک پہنچ گیا۔ کیا حسین پروفائل تھی، میں ہمیشہ کی طرح مبہوت ہو کر رہ گیا۔ لیکن پھر قاصر کی نصیحت یاد آئی۔

حسین سانپ کے نقش و نگار خوب سہی
نگاہ زہر پہ رکھ، خوشنما بدن پہ نہ جا

وہی پھولوں سا بدن، اور وہی ڈستی خوشبو! میں نے گھبرا کر نظریں چاروں طرف دوڑائیں۔

کہاں ہے؟ ان فرینڈ کا بٹن کہاں ہے؟ کوئی نیلا، کوئی سُرخ بٹن! کہ جسے پوری قوت سے ضرب لگا کر ہی دل کو کچھ تسکین ملے۔ کہ جس پر کلک کرتے ہوئے انگشت تلوار بن جائے اور دل اس زور سے دھڑکے کہ گرج آسمان میں سنائی دے۔

لیکن نہیں یہاں تو کوئی بٹن ہے ہی نہیں! کیسے انفرینڈ کروں؟ کیسے جان چھڑاؤں؟ آخر کیسے؟

کہاں ہیں جون ایلیا، جو کہتے تھے کہ

ترکِ تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی

پھر تو، پھر تو لیاقت علی عاصم ہی اچھے رہے:

عاجز تھا بے عجز نبھائی، رسمِ جُدائی میں نے بھی
اُس نے مجھ سے ہاتھ چُھڑایا، جان چھڑائی میں نے بھی

۔۔۔۔
مگر نہیں ! یہاں تو کوئی انفرینڈ کا بٹن ہی نہیں ہے۔ ہاں ایک بٹن ہے اور کہتا ہے کہ دوستی کی درخواست بھیجو! یا حیرت!

ہم سے نہیں رشتہ بھی، ہم سے نہیں ملتا بھی
ہے پاس وہ بیٹھا بھی، دھوکہ ہو تو ایسا ہو
ابن انشاء

لیجے ایک نئی کشمکش! ہم تو ترکِ دوستی کو تُلے بیٹھے تھے، لیکن کون سا دوست؟ کہاں کا دوست؟ یہاں کوئی دوست ہے ہی نہیں کہ جس سے ترک دوستی کی جائے۔ کہ جس پر تین حرف بھیجے جا سکیں۔ صد حیف کہ دل کے تپتے صحرا کو اوس کے تین قطرے بھی نصیب نہیں!

دیکھیں اب کہ امتحان میں سُرخ رو ہوتا ہے کون
وہ بھی کچھ سوچے ہوئے ہیں، ہم بھی کچھ ٹھانے ہوئے
کلیم عاجز

ماؤس کرسر ایک وحشت لئے اسکرین پر اِدھر سے اُدھر غزالِ دشت کی مانند بھٹک رہا ہے۔ کسی کل چین نہیں پڑتا ۔ ایک بٹن واپسی کا بھی ہے لیکن وہ شاید ڈس ایبل ہے یا کرسر وہاں پہنچنا ہی نہیں جانتا۔

کسی کے ہاتھ کا نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں
حدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا
شاہد کبیر

اک کشمکش ہے۔ کہیں اندر سے صدا آتی ہے کہ اب جا۔ دفع ہو جا۔ آیا تھا ترکِ دوستی کرنے۔ جو تیرا دوست کبھی تھا ہی نہیں اُس سے کیا ترک راہ و رسم کرے گا۔ ہے کوئی عقل تجھے۔ لیکن ماؤس کرسر، ماؤس کرسر ہے کہ دیوانوں کی طرح ایک نیلے بٹن کا طواف کر رہا ہے اور نیلا بٹن اُسے اپنے مرکز کی سمت کھینچ رہا ہے۔

دائرے اِنکار کے، اِقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹیں کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا
افتخار امام صدیقی

ارے ! ارے یہ کیا! ماؤس کا تیر نیلے بٹن کے بیچوں بیچ پہنچ گیا ہے، وہی نیلا بٹن جو کہتا ہے کہ دوستی کی درخواست بھیجو۔ دوستی کی درخواست! اس ناہنجار دنیا کو۔ جو کسی اور کا ہونے دے، نہ اپنا رکھے۔ نہیں! میں تو ترکِ دنیا کا ارادہ کرکے یہاں پہنچا تھا۔ پھر میں دوستی کی درخواست کیونکر بھیجنے لگا۔ آخر کیوں!

نہ جانےیہ کیسی کشش تھی جو میری نحیف انگلی کو خود رفتہ کر گئی۔ میں! میں دوستی کی درخواست بھیج چکا تھا۔ اُسی دنیا کو کہ جس سے جان چھڑانے آیا تھا۔ وہی دنیا جس پر تین حروف بھیجنے تھے۔ آنسوؤں کے دو تین تپتے قطرے میرے صحرا ایسے سینے پر گرے اور صحرا یکایک بادِ صر صر کی زد میں آکر آگ بگولہ ہو گیا۔ وائے حسرت!!!

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے
ندا فاضلی



عقل ہے محوِ تماشا

عقل ہے محوِ تماشا
محمد احمدؔ​

رحیم چاچا اچھے خاصے گدھے تھے اور میں اُن کا بھی گدھا تھا۔

یوں تو گدھا ہونے میں کوئی خاص برائی نہیں ہے لیکن جب انسانوں میں گدھے کے نام سے سے منسوب خصوصیات والے لوگ دیکھتا ہوں تو مجھے کافی شرمندگی ہوتی ہے۔ ان میں سے بھی کچھ لوگ تو نرے گدھے ہی ہوتے ہیں۔ نہ جانے نرے گدھے سے انسانوں کا کیا مطلب ہوتا ہے لیکن میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ ایسے لوگ گدھے کہلائے جانے کے لائق بھی نہیں ہوتے۔

ع ۔ پیشے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو نام

خیر تو میں ذکر کر رہا تھا رحیم چاچا کا۔ پیشے کے اعتبار سے چاچا نمک کے سپلائر تھے لیکن اُن کی لوجسٹک فلیٹ میں میرے علاوہ باربرداری کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں تھا۔ خود چاچا بھی اچھے خاصے گدھے ہونے کے باوجود وزن اُٹھانے سے جی چراتے تھے اور نمک کی بوریاں میری کمر پر لاکر یوں پٹختے کہ جیسے سامان رکھنے کے بجائے دشمن پر حملہ کر رہے ہوں۔ خیر مجھے کیا، میں تو ہوں ہی گدھا۔


نمک کی دو بوریاں تقریباً پون پون بھری ہوئی وہ میری کمر کے دونوں طرف لٹکاتے اور اپنے اکلوتے کسٹمر نمکدان خان کی طرف لے جاتے۔ اس طرح دو بوری صبح اور دو بوری شام وہ نمکدان کو سپلائی کرتے اور راستے میں اُسی میں سے چلر والوں کو بھی نمٹاتے جاتے۔ اگر یہ چکر جلدی پورے ہو جاتے تو پھر وہ کچھ نمک لے کر نکلتے اور قریبی گلی محلوں میں خود سے بیچا کرتے۔ تاہم حرام ہے کہ میں نے یہ نمک کبھی چکھا ہو، سو چاچا چاہ کر بھی مجھے نمک حرامی کا طعنہ نہیں دے سکے۔

چاچا بتاتے ہیں (مجھے نہیں بلکہ لوگوں کو)کہ نمکدان خان جب پیدا ہوا تو ان کے والد کی پہلی نظر اس پر پڑنے کے بعد نمکدان پر پڑی، سو اُس کا نام نمک دان خان رکھ دیا گیا۔ اب یہ پتہ نہیں کہ اُس نے اپنی نام کی نسبت سے نمک کا کام شروع کیا یا اُسے پیدا ہی اس لئے کیا گیا تھا۔ نمکدان خان بہت سیدھا سادھا پٹھان ہے جو اپنے آپ کو بہت تیز سمجھتا ہے لیکن سمجھنے سے کیا ہوتا ہے وہ تو ہمارے سیاست دان بھی خود کو صادق اور امین سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عوام بھی ایسا ہی سمجھتے ہوں گے۔ لیکن میں بحیثیت ایک گدھا اُن کی اس بات کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوں۔ ہاں نرے گدھوں کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ وہ ہم گدھوں میں سے نہیں ہوتے۔

میرا سپلائی روٹ یوں تو تمام کا تمام خشکی کے راستہ پر ہی مبنی تھا تاہم ایک جگہ مجھے ایک ندی پار کرنی پڑتی تھی جس میں میرے گھٹنوں سے کچھ نیچے تک پانی ہوا کرتا تھا سو میں وہ ندی با آسانی پار کر لیا کرتا تھا۔ چاچا کبھی کبھی ندی پر رُک کر منہ دھویا کرتے تھے لیکن مجھے اُن کا یہ عمل سراسر بے مصرف معلوم ہوتا تھا کہ چاچا کے چہرے پر تو کوئی فرق پڑتا نہیں تھا البتہ میں کھڑا کھڑا وزن سے دُہرا ہوتا رہتا تھا۔

ایک دن یا تو وزن زیادہ تھا یا مجھ پر تھکن غالب تھی کہ مجھے نمک کی بوریاں اُٹھانے میں کافی دقت کا سامنا تھا۔ اچانک ندی کے بیچوں بیچ چاچا کو اپنا منہ دھونے کا خیال آ گیا۔ جب چاچا پوری شد و مد سے منہ دھو نے لگے اور یہ بھی بھول گئے کہ میں ندی کے درمیان وزن اُٹھائے کھڑا ہوں تو مارے تھکن کے میں ندی میں ہی بیٹھ گیا اور با مشکل اپنا منہ سانس لینے کے لئے اوپر کیے رکھا۔ چاچا منہ دھونے کے بعد ہوش میں آئے تو اُنہوں نے مجھے ندی میں بیٹھا ہوا پایا۔ نہ جانے ا ُنہیں کیا ہوا کہ سارے ادب آداب بھول گئے اور ڈنڈا اُٹھا کر میرے ڈینٹ نکالنا شروع کردیے۔ اذیت کے مارے میں اُنہیں ٹویوٹا کرولا اور کھوتا کرولا کا فرق بھی نہیں سمجھا سکا۔ خیر مار کھانے کے بعد میں خود کو اچھا خاصا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ گدھوں کا کتھارسس مکالمے سے نہیں بلکہ پھینیٹی لگانے سے ہی ہوا کرتا ہے۔ (زیادہ مسکرانے کی ضرورت نہیں، یہاں پٹواریوں یا انصافیوں کا ذکر ہرگز مطلوب نہیں ہے)۔

خیر جب نمکدان خان کے ہاں پہنچے تو اُس نے بتایا کہ آج نمک کا وزن آدھا رہ گیا ہے اور آدھا نمک غالباً پانی میں گھل گیا۔ آدھے پیسے وصول کرکے چاچا کو غصہ تو کافی آیا لیکن وہ اپنا غصہ پہلے ہی اُتار چکے تھے سو مجھے اب کچھ نہیں کہا گیا۔

سیانے کہتے ہیں کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے سو میں بھی کُٹائی کھا کر ایک گُر کی بات سیکھ گیا۔ اب جب کبھی مجھے وزن زیادہ لگتا تو میں ندی میں کچھ دیر کے لئے بیٹھ جاتا۔ اس واقعے کے بعد چاچا تو منہ دھونا ہی بھول گئے تھے اور صبح بھی چاچی کے خونخوار اصرار پر ہی منہ دھونے کی ہمت کرتے۔ شروع شروع میں چاچا نے میرے اس طرح ندی میں بیٹھ جانے کو اتفاقی سمجھا اور جلد سے جلد مجھے اُٹھا کر اپنی راہ لی۔ لیکن جب یہ معاملہ پیٹرول کی قیمتوں کی بڑھوتری کی طرح جلد جلد واقع ہونے لگا تو چاچا کو فکر لاحق ہو گئی۔

ایک روز چاچا نے میری شکایت نمکدان خان کو کی کہ میں ندی میں بیٹھ جایا کرتا ہوں اور اس طرح کافی نمک ضائع ہو جاتا ہے۔ نمکدان خان کچھ سوچنے لگا اور پھر اُس کے چہرے پر ازلی حماقت برسنے لگی۔ اُس نے چاچا کو کان قریب لانے کا کہا اور آداب ِ محفل بھولتے ہوئے اُن کے کان میں کُھسر پھسر کرنے لگا۔ مجھے بہت غصہ آیا اور دل چاہا کہ اس نمکدان کو بھی ندی میں غوطہ دے کر اس کا وزن آدھا کر دیا جائے لیکن پھر میں نے پہلی غلطی سمجھ کر معاف کر دیا۔

اگلے روز چاچا کو نہ جانے کیا ہوا کہ بجائے نمک کے بوریوں میں روئی بھرنے لگا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم گدھے تو بس یونہی بدنام ہیں اور انسان صرف اپنے نام کی وجہ سے ہی انسان کہلاتا ہے۔ خیر مجھے کیا۔ دونوں بوریوں میں روئی لادنے کے بعد ہم اپنے مخصوص راستے پر چل پڑے۔ آج تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں چاچا کے ساتھ گھومنے نکلا ہوں۔ جب ندی آئی تو بھی میں اُسی انداز میں چلتا رہا۔

جب ندی تقریباً پار ہونے والی تھی تو چاچا کو پتہ نہیں کیا ہوا کہ مجھے روک کر میرے کمر پر زور دینے لگے۔ جب میں ٹس سے مس نہ ہو ا تو چاچا تقریباً مجھ پر چڑھ ہی گئے۔ لیکن وہ گدھا ہی کیا جو اڑیل نہ ہو میں ندی میں چٹان کی طرح کھڑا رہا۔ چاچا نے اپنے دونوں ہاتھ آپس میں ملا کر نہ جانے مجھے کیا اشارہ کیا اور پھر مجھے لے کر آگے چل پڑے۔

نمکدان خان کے پاس پہنچنے پر چاچا کافی غصہ میں معلوم ہوتے تھے اور نہ جانے نمکدان خان کو کیا کیا کہہ رہے تھے ۔ بالآخر نمکدان خان نے چاچا سے کہا کہ چاچا تم فکر نہ کرو۔ ہمارا مشورہ تو بالکل ٹھیک تھا لیکن تمہارا گدھا تو بالکل ہی گدھا ہے۔ ہم ایسا کرتا ہے کہ تم سے روئی خرید لیتا ہے کہ ہمارا گھر والی ویسے بھی نئے لحاف اور گدے تیار کرنے کا کہتی رہتی ہے۔

اُس دن نمکدان خان کے ہاں تین چکر لگانے پڑے ایک روئی لے کر اور باقی دو نمک لے کر۔ شام تک چاچا تھکن سے ہلکان ہو رہا تھا، لیکن مجھے آج بہت لطف آیا۔ اگر چاچا ایسے ہی مجھے کبھی کبھی گھمانے لے جائیں تو اُن کا کیا جائے۔

ویسے میں سوچتا ہوں کہ چاچا اگر یہ سمجھ رہے تھے کہ اُس روز میں روئی لے کر ندی میں بیٹھ جاؤں گا تو عرض کروں گا کہ اب میں اتنا بھی گدھا نہیں ہوں۔ دراصل سوال میری ذات پر نہیں چاچا کی ذات پر اُٹھایا جانا چاہیے کہ ایک تو اُنہیں مشورہ کرنے کے لئے نمکدان خان کے علاوہ کوئی ملا نہیں دوسرے یہ کہ وہ اُس مشورے پر عمل بھی کر بیٹھے۔

پھر بھی گدھے ہم ہیں۔

--------------
مرکزی خیال ماخوذ برائے تفہیم نو