پیرزادہ قاسم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پیرزادہ قاسم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ایک شاعر کے دو متضاد اشعار

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت عجیب و غریب بنایا ہے ۔ یہ بہ یک وقت متضاد خیالات میں گھرا رہتا ہے ۔ اس میں نیکی اور بدی ایک ساتھ قیام پذیر رہتی ہے اور یہ اکثر اُمید و نا اُمیدی کے مابین کہیں بہتا نظر آتا ہے۔ مجھے آج جناب پیرزادہ قاسم کے دو اشعار ایک ساتھ یاد آئے جو دیکھا جائے تو ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں۔ لیکن انسانی زندگی اسی مد و جزر کا نام ہے۔

اشعار یہ ہیں۔

اسیر کب یہ قفس ساتھ لے کے اُڑتے ہیں
رہے جو طاقتِ پرواز پر میں رہنے دو


عجب نہ تھا کہ قفس ساتھ لے کے اُڑ جاتے
تڑپنا چاہیے تھا، پھڑپھڑانا چاہیے تھا

 

اب میں یہ سو چ رہا ہوں کہ شاعر نے ان میں سے پہلے کون سا شعر کہا ہوگا۔ اور کیا شاعر کو خود بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ اس کے یہ دو اشعار بالکل ایک دوسرے کے متضاد ہیں؟

پیرزادہ قاسم کی دو خوبصورت غزلیں



سفر نصیب ہیں ہم کو سفر میں رہنے دو
سفالِ جاں کو کفِ کوزہ گر میں رہنے دو

ہمیں خبر ہے کسے اعتبار کہتے ہیں
سخن گروں کو صفِ معتبر میں رہنے دو

تمھاری خیرہ سری بھی جواز ڈھونڈے گی
بلا سے کوئی بھی سودا ہو سر میں رہنے دو

یہ برگ و بار بھی لے جاؤ چُوبِ جاں بھی مگر
نمو کی ایک رمق تو شجر میں رہنے دو

اسیر کب یہ قفس ساتھ لے کے اُڑتے ہیں
رہے جو حسرتِ پرواز پر میں رہنے دو

----

میں سمجھا مری گھٹن مٹانے آیا تھا
وہ جھونکا تو دیا بجھانے آیا تھا

موسمِ گل اُس بار بھی آیا تھا لیکن
کیا آیا بس خاک اُڑانے آیا تھا

چشم زدن میں ساری بستی ڈوب گئی
دریا کس کی پیاس بجھانے آیا تھا

مہر نشاں، زرکار قبا، وہ یار مرا
مجھ کو سنہرے خواب دکھانے آیا تھا

خالی چھتری دیکھ فسردہ لوٹ گیا
بچھڑا پنچھی اپنے ٹھکانے آیا تھا


پیرزادہ قاسم