اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے ۔ اسلم انصاری

 غزل
 
اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے
اے دل طلسم گنبد شب میں صدا نہ دے

دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے

گل کر نہ دے چراغ وفا ہجر کی ہوا
طول شب الم مجھے پتھر بنا نہ دے

ہم سب اسیر دشت ہویدا ہیں دوستو
ہم میں کوئی کسی کو کسی کا پتا نہ دے

سب محو نقش پردۂ رنگیں تو ہیں مگر
کوئی ستم ظریف یہ پردہ ہٹا نہ دے

اک زندگی گزیدہ سے یہ دشمنی نہ کر
اے دوست مجھ کو عمر ابد کی دعا نہ دے

ڈرتا ہوں آئنہ ہوں کہیں ٹوٹ ہی نہ جاؤں
اک لو سی ہوں چراغ کی کوئی بجھا نہ دے

ہاں مجھ پہ فیض میرؔ و فراقؔ و ندیمؔ ہے
لیکن تو ہم سخن مجھے اتنی ہوا نہ دے

 اسلم انصاری
 
Aslam Ansari
Aslam Ansari

 
 بشکریہ ذوالقرنین بھائی 


مختصر افسانہ:اتفاق

اتفاق

مختصر افسانہ از محمد احمد

وُہ مسکرا رہی تھی اور میں بھی مسکرا رہا تھا۔ وہ اپنے کسی خیال میں اور میں اپنے کسی خیال میں۔ دونوں ایک دوسرے سے بے خبر۔

اچانک دونوں کی نظریں ملیں۔ دونوں کی مسکراہٹیں فزوں تر ہو گئیں۔

"کیا ہوا؟" دونوں نے ایک ساتھ کہا۔

"کچھ نہیں!" ایک سے سوال کا ایک سا جواب تھا۔


یہ محض اتفاق تھا لیکن حسنِ اتفاق کی مکمل تعریف لیے ہوئے تھا۔

*****


 

مختصر افسانہ: اردو ہے کس کا نام؟

اردو ہے کس کا نام؟
مختصر افسانہ از محمد احمدؔ

"بس! یہاں سائڈ پر گاڑی روک دیجے۔"۔۔۔ایک نشست سے نسوانی آواز بلند ہوئی۔
"کیا نمبر ہے آپ کا؟"۔۔۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف روکتے ہوئے بورڈنگ پاس نمبر پوچھا۔
"تھرٹی تھری"۔۔۔ دوشیزہ نے موبائل ایپ پر دیکھتے ہوئے بتایا۔
"اردو میں بتاؤ۔ "۔۔۔سرحدی علاقے کا ڈرائیور انگریزی گنتی سے نابلد تھا۔
"تین تین "۔۔۔ لڑکی نے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا۔ وہ لفظ تینتیس سے واقف نہیں تھی۔
ڈبل تین؟ ڈرائیور نے اپنے انداز میں تصدیق چاہی۔
جی۔
اور اس طرح دو پاکستانی شہری ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔
نئی نسل کی اردو سے بے رغبتی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ "اِشو" بناتے ہیں۔ 

*****





اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا

یہ کلام ہم نے آج فیس بک کے ایک ادبی گروپ پر پڑھا۔ اچھا لگا سو بعد از تحسینِ کلام ہم اس کلام کو نقل کر کے یہاں لے آئے تاکہ قارئینِ رعنائیِ خیال بھی اس سے محظوظ ہو سکیں۔ 

اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا
عربی نے اس کو خاص ترابی بنا دیا

اہلِ زباں نے اس کو بنایا بہت ثقیل
پنجابیوں نے اس کو گلابی بنا دیا

دہلی کا اس کے ساتھ ہے ٹکسال کا سلوک
اور لکھنئو نے اس کو نوابی بنا دیا

بخشی ہے کچھ کرختگی اس کو پٹھان نے
اس حسنِ بھوربن کو صوابی بنا دیا

باتوں میں اس کی ترکی بہ ترکی رکھے جواب
یوں ترکیوں نے اس کو جوابی بنا دیا

قسمت کی بات آئی جو تو رانیوں کے ہاتھ
سب کی نظر میں اس کو خرابی بنا دیا

حرفِ تہجی ساری زبانوں کے ڈال کر
اردو کو سب زبانوں کی چابی بنا دیا

ہم اور ارتقاء اسے دیتے بھی کیا معین
اتنا بہت ہے اس کو نصابی بنادیا

سید معین اختر نقوی


منقول از ادبیات - فیس بک

نشست بند ، اردو اور چالان


ہماری اردو میں انگریزی اس بُری طرح گُھسی ہوئی ہے کہ چاہیں بھی تو اُسے نکالا نہیں جا سکتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ دراصل حکم (زبان) تو اُسی کا چلتا ہے کہ جو بالا دست ہو۔ انگریز نے جو ترقی کی اُسے ہم بڑی خوشی سے اپناتے گئے ساتھ ساتھ اُس ترقی کے ساتھ در آنے والی نئی اصطلاحات بھی ہمارے روز مرہ میں شامل ہوتی گئیں۔

بہت سی نئی چیزیں ہم تک انگریزوں سے براہِ راست اور کچھ انگریزوں کی وساطت سے پہنچی ۔ سو اُن کے نام اور اُن سے متعلقہ اصطلاحات انگریزی میں ہی ہمارے ہاں رواج پا گئیں۔ اسی لئے ہمارے پاس فریج، کُولر، ہیٹر، واشنگ مشین ، جوسر، بلینڈرز اور اسی قسم کی بے تحاشہ اشیا کے لئے کوئی اردو نام نہیں ہیں۔

اب بات یہاں تک آگئی کہ ہمارے ہاں بھی کوئی نئی چیز ایجاد ہو تو اُس کا نام انگریزی میں ہی رکھا جاتا ہے۔(یہ الگ بات کہ ایسی نوبت ہی شاذ ہی کبھی آتی ہے)۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ انگریزی نام سے بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ اردو نام والی چیزوں کو ہمارے اپنے معاشرے میں ہی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

اردو وکی پیڈیا والوں نے کافی کوشش کی انگریزی اصطلات کی اردو کاری کی جائے اور اُنہوں نے اس سلسلے میں شبانہ روز مشقت کرکے کئی بھانت بھانت کی اصطلاحات بھی متعارف کروائیں ۔ لیکن یہ تراکیب زیادہ تر عربی سے اخذ کردہ تھیں سو اردو دان طبقے کے لئیے بہت اجنبی اور مشکل ثابت ہوئیں اور اہلِ اردو میں اُنہیں کوئی خاص قبولِ عام نہیں ملا۔ یوں بھی جس کا نام بچپن میں پپو یا مُنّا پڑ جائے ۔ آپ لاکھ چاہیں لیکن لوگ اُسے صلاح الدین کہنے پر راضی نہیں ہوتے۔ تاہم ہم اردو وکی پیڈیا والوں کے کام کے معترف ہیں کہ جس نوعیت کا کام ان لوگوں نے کیا وہ بہت عرق ریزی اور پتہ مارنے والا کام ہے اور اس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔

خیر ہم بات کیا کرنا چاہ رہے تھے اور بات کہاں نکل گئی۔ ہم تو بات کرنا چاہ رہے تھے گاڑی کی سیٹ بیلٹ کی، کہ جس کے لئے ہم نے عنوان میں نشست بند کی اصطلاح شامل کی ہے۔ سیٹ بیلٹ کو اردو میں بھی سیٹ بیلٹ ہی کہا جاتا ہے اور نشست بند کے نام سے کوئی اسے نہیں پہچانتا۔ اگر آپ کو زیادہ ہی اردو بولنے کا خبط ہے تو آپ اسے سیٹ پٹّہ کہہ سکتے ہیں ، شاید کہ لوگوں کے ذہن میں اُتر جائے آپ کی بات۔


بہرکیف تو ہم یہ بتا رہے تھے کہ ہمارے پاس ایک عدد گاڑی ہے کہ جس کے ہونے سے ہمارے روایت پسند ہونے کے ایسے ٹھوس ثبوت ملتے ہیں کہ جدّت کو پانی بھرنے کا موقع تک نہیں ملتا۔ کُہنہ روایت کی علمبردار ہماری اس گاڑی میں سیٹ بیلٹ کچھ اس قسم کے واقع ہوئے تھے کہ جیسے اڑیل گائے ہوتی ہے یعنی رسی پکڑ کر کھینچتے رہیے اور وہ ایک انچ نہیں ہلتی ۔ تاہم ہم یہ نہیں جانتے تھے۔ یعنی نہ تو ہمیں اس بات کا اندازہ تھا کہ ہماری گاڑی کی سیٹ بیلٹ ہمارے شانہ و شکم کے اطراف حمائل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور نہ خود ہمیں کبھی اس افعی ِ سُوت و آہن کو خود پر سوار کرنے کا خیال آیا۔

لیکن پھر ایک روز لب سڑک ایک سفید پوش شخص سے ملاقات ہوئی جس نے ہمارے سیٹ بیلٹ کے بارے میں خیالات تبدیل کرنے کا ڈول ڈالا۔ اور ٹھیک اُسی وقت ہم نے سفید پوشوں کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ موصوف نے ہمارے ہاتھ میں ایک پرچہ تھماتے ہوئے ہمارا پروانہء ڈرائیونگ (شکر ہے کہ ہم شاعری نہیں کررہے کہ شاعری میں تو عربی اور ہندی الفاظ کے مابین اضافت بھی ناقدوں کو نہیں بھاتی چہ جائیکہ انگریزی اور اردو کا بے جوڑ رشتہ بنایا جائے۔ ) ضبط کر لیا۔ خیر ہمیں یاد آیا کہ اس قسم کے پرچوں کے لئے لوگ باگ چالان کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی یاد آیا کہ پروانہء ڈرائیونگ کی بحالی کے لئے دامے درمے سُخنے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ خیر یہ تو تھی سفید پوشوں سے پہلی ملاقات لیکن نوشتہء دیوار یہ نہیں بتاتا تھا کہ:

ع-      ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں

خیر چالان ہونے کے بعد ہمیں یہ خیال آیا کہ سیٹ بیلٹس سے ربط و ضبط استوار کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔ تب جا کر ہمیں پتہ چلا کہ سیٹ بیلٹ تو قلتِ استعمال سے اتنی تنہائی پسند ہو گئی ہیں کہ اپنے خول سے باہر آنے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ پھر ہم نے ٹیڑھی انگلی سے سیٹ بیلٹ نکالنے کی کوشش کی تو انگلی شانوں تک ٹیڑھی ہو گئی لیکن گھی یعنی سیٹ بیلٹ باہر نہیں نکلا۔ پھر جب ہم نے اس کام کے لئے چاروں ہاتھوں پیروں کی  طاقت آزمائی تو سیٹ بیلٹ طوعاً و کرہاً اپنے خول سے برامد ہو گئی۔ ہم ابھی خوش ہونے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ ہمیں اندازہ ہوا کہ سیٹ بیلٹ جو کھینچنے پر باہر آ گئی ہے اب واپس اپنے خول میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ ارادہ کیا اہلیت تک نہیں رکھتی۔ جب ہم نے یہ سیٹ بیلٹس مکینک کو دکھائی تو اُس نے ہاتھ جوڑ لیے اور ہم سے وعدہ کیا کہ نہ جانے کو ن سے بازار جب اُس کا جانا ہوگا تو وہ ہمارے لئے سیٹ بیلٹ کا جوڑا لے آئے گا۔ بات آئی گئی ہوئی اور ہم پھر سے اپنی دنیا میں کھو گئے۔

اگلی بار جب سفید پوشوں سے واسطہ پڑا تو ہم نے بڑے فخر سے کہا کہ بھائی سیٹ بیلٹ خراب ہے کیسے لگائیں۔ جواب ملا کہ سیٹ بیلٹ تو بنوانی چاہیے آپ کو سب کام چھوڑ کر ، کیو ں نہیں بنوائی! ہم نے اپنے چہرے میں مسکینیت کے سارے رنگ بھر کر بڑی لجاجت سے سفید پوش ہرکارے کے طرف دیکھا تو اُسے ترس آ گیا۔ کہنے لگا۔ " ابھی تو خیر چالان ہو گا لیکن یہ لٹکی ہوئی سیٹ بیلٹ اُٹھا کر شانے اور سینے پر سجا لیا کرو"۔ ہم نے کہا "لیکن اس طرح تو سیفٹی کا اصل مقصد پورا نہیں ہو سکے گا"۔ اس پر سفید پوش نے ہمیں کچھ اس طرح گھورا کہ جیسے عزرائیل اپنے کلائنٹ کو گھورا کرتے ہیں۔ کہنے لگے "سیفٹی کو کون پوچھتا ہے!!!"۔

خیر اُن کے پڑھائے ہوئے سبق کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک سیٹ بیلٹس نہیں بن سکیں اور ہم ٹریفک سارجنٹس کو دیکھ کر اپنے سیٹ بیلٹ اس طرح اپنے سینے پر پھیلاتے ہیں کہ جس طرح پہلے زمانے کی بہوئیں سُسر کو دیکھ کر بہ عجلت تمام گھونگٹ نکال لیا کرتی تھیں۔

ع -      مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں


کیا آپ حالات کے پروردہ ہیں؟


اسٹیفن کوی کہتے ہیں :
I am not a product of my circumstances. I am a product of my decisions.
–Stephen Covey
اسٹیفن کوی معروف امریکی مصنف ہیں جنہوں نے مشہورِ زمانہ کتاب "The 7 Habits of Highly Effective People " تحریر کی ہے۔

بظاہر دیکھنے پر اسٹیفن کا یہ قول ایک شیخی کی طرح کا لگتا ہے تاہم اس کے پیچھے ایک پورا فلسفہ چھپا ہوا ہے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو ہمیں بیشتر لوگ ایسے نظر آئیں گے کہ جنہیں حالات جس طرف ہانک کر لے لئے گئے ،وہ وہیں کے ہو گئے۔ جنہیں جیسا ماحول ملا وہ ویسے ہی ڈھل گئے۔ یعنی اُن کی شخصیت سازی اُنہوں نے خود نہیں کی بلکہ مخصوص و حالات و واقعات جس طرح اُن کی پرورش و پراداخت کرتے رہے وہ ویسے ہی ہو رہے اور اُن کے اپنے ارادے کا اُس میں کوئی خاص دخل نہیں رہا۔اسٹیفن نے دراصل اسی سوچ پر ضرب لگائی ہے کہ انسان خود کو بالکل ہی حالات کے دھارے پر نہ چھوڑ دے بلکہ وہ خود اپنے بارے میں سوچے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور وہ کیا کر سکتا ہے اور اُسے کیا کرنا چاہیے۔ پھر اپنے کچھ اہداف طے کرے اور اُن کے حصول کے لئے منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کرے۔

"کسی راستے پر آپ کو اُمید کی ذرا سی بھی کرن نظر آئے تو فوراً تدبر اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اُس راستے پر چلنے کی عملی کوشش کریں۔"
میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ حالات و واقعات کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے یا جو فیصلے تقدیر کرے اُن کی طرف سے آنکھ بند کر لی جائے بلکہ صرف یہ کہ انسان اپنے راستے میں در آنے والی ان دیواروں سے کمر ٹِکا کر نہ بیٹھ جائے بلکہ ان دیواروں میں در تلاش کرتا رہے ۔ بعید نہیں کہ اس سعی کے طفیل وہ اس صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے۔

دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لئے

سو اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کسی صورتِ حال میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو اسٹیفن آپ سے ہی مخاطب ہے۔ آپ اپنے حالات سے جزوی سمجھوتہ بھلے سے کر لیں لیکن اس کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں۔ بلکہ اس بارے میں سوچتے رہیں کہ کیا ہو سکتا ہے اور کیسے ہو سکتا ہے۔ اور اگر کسی راستے پر آپ کو اُمید کی ذرا سی بھی کرن نظر آئے تو فوراً تدبر اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اُس راستے پر چلنے کی عملی کوشش کریں۔ انسان کی سب سے اچھی رفیق اُمید اور کوشش ہی ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ کامیاب نہیں بھی ہوتے تب بھی کم از کم آپ کو یہ اطمینان تو ضرور ہو گا کہ آپ نے وقت سے ہار نہیں مانی اور اپنے طور پر معاملات سے نبرد آزما رہے یہ احساس آپ کو وقت سے ہارے ہوئے لوگوں میں شامل ہونے سے بچا رکھے گا۔

اسٹیفن کی اسی بات کو ایک شاعر نے اس طرح سے کہا ہے:

ہم خود تراشتے ہیں منازل کے راہ و سنگ
ہم وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا

سو اُمید کو مشعلِ راہ بنائیں اور کوشش کو کشتی بنا لیں، آپ کا رب ان شاءاللہ آپ کی کشتی کو پار لگا دے گا۔

شکریہ اردو محفل


اگر انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج کا ذکر کیا جائے تو پہلا خیال اردو محفل کا ہی آتا ہے۔ اردو محفل بلاشبہ انٹرنیٹ پر یونیکوڈ اردو کو باقاعدہ متعارف کروانے والا پہلا فورم ہے۔ ہماری خوش نصیبی کہ ہم ایک عرصے اس فورم کے ساتھ منسلک رہے۔ ہم اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ہم اردو محفل کی اردو اور اردو دان طبقہ کے لئے جو خدمات ہیں اُن کا کھلے دل سے اعتراف کریں اور ایک بار پھر شکریہ ادا کریں۔


اردو یونیکوڈ کی ترویج

ایک زمانہ تھا کہ انٹرنیٹ پر اردو زبان نظر ہی نہیں آتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ جب انٹرنیٹ پر اردو نظر آنا شروع ہوئی تو وہ تصویری شکل میں تھی۔ یعنی لوگ باگ ان پیچ پر اردو مواد کمپوز کرتے اور اُس کی تصاویر بنا کر مختلف سائٹس پر چسپاں کر دیتے تھے۔ یہ اردو محفل ہی کے لوگ تھے کہ جنہوں نے اردو دان طبقے کو یہ احساس دلایا کہ تصویری اردو ، اردو کی ترویج میں معاون ثابت نہیں ہوتی کہ نہ تو اسے سرچ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ عبارت کسی اور کام آنے ولی ہے ۔ اور یہ کہ یونیکوڈ اردو ہی اردو کا مستقبل ہے۔ ان لوگوں کی یہ محنت رنگ لائی اور آہستہ آہستہ لوگ اردو رسم الخط میں لکھی تحاریر براہِ راست انٹرنیٹ پرشامل کرنے لگےاور رفتہ رفتہ تصویری اردو سے جان چھوٹ گئی۔ اس اہم کام پر ہم اردو محفل کے شکر گزار ہیں۔

اردو کمپیوٹنگ

انٹرنیٹ کے دنیا میں اردو کی ترویج اردو محفل انتظامیہ اور اراکین کی خاص ترجیح رہی ۔ انہوں نے اردو کمپیوٹنگ کو باسہولت بنانے کے لئے شبانہ روز محنت کی۔ اردو لوکلائزیشن، سوفٹ وئیر ڈیولپمنٹ، ٹائپو گرافی وغیرہ میں بہت کام ہوا جو کہ اردو دان طبقے کے لئے بہت مفید ثابت ہوا۔ مزید براں اردو محفل پر بہت سے ٹیوٹوریلز بھی گاہے بگاہے شامل ہوتے رہے جو نوواردان کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔

اردو بلاگنگ کی ترویج بھی اردو محفل کا خاصہ رہی ہے اور شروع کے دور میں بننے والے بیش تر بلاگ محفلین کے ہی تھے۔ خود ہمیں بھی بلاگ لکھنے کی ترغیب اردو محفل سے ہی ملی۔ یعنی اگر اردو محفل نہ ہوتی تو شاید آج رعنائیِ خیال بھی نہ ہوتا۔ ہماری جانب سے شکریہ !

اردو ویب لائبریری

اردو ادب کی ترویج کے لئے اردو محفل کے زیرِ اہتمام بہت سی کتابوں کو ڈجیٹائز کرنے کا کام شروع کیا گیا اور شروع کے ادوار میں اس سلسلے میں خاطر خواہ کام ہوا۔ آج بھی ہمیں جو بہت سی اردو ای بک یونیکوڈ فارم میں مل جاتی ہیں، اُن میں کہیں نہ کہیں محفل یا محفلین کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ شکریہ!

ادب پرور ماحول

یہ اردو محفل اور محفلین کی خوش قسمتی رہی ہے کہ یہاں اردو ادب سے علاقہ رکھنے والے اساتذہ ہر دور میں موجود رہے اور مبتدی اراکین کی داد رسی اور اصلاح کاکام ان احباب نے ہر دور میں بے غرض ہو کر کیا ۔ یہ ایک ایسی بیش بہا نعمت ہے کہ جوبہت سے دیگر فورمز پر مفقود رہی۔خود خاکسار کے لئے ان احباب سے سیکھنے کے مواقع ہر دور میں حاضر رہے اور خاکسار نے حسبِ حیثیت آپ احباب سے بہت کچھ سیکھا۔ میں بطورِ خصوصی جناب اعجاز عبید صاحب، جناب وارث صاحب اور جناب یعقوب آسی صاحب کی خدمات کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

گفتگو کا پلیٹ فارم

انٹرنیٹ کی دنیا میں یوں تو گفتگو کے بہت سے پلیٹ فارم موجود تھے لیکن بیش تر یا تو انگریزی زبان کے تھے یا پھر رومن اردو تک محدود تھے۔ اردو محفل کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ یہاں گفتگو کا ایک ایسا فورم موجود تھا جہاں صرف اردو جاننے والے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار اپنی زبان میں کر سکتے تھے۔ اور یہ احساس بہت خوبصورت تھا۔ خاکسار نے اپنی ایک نظم میں اردو محفل کی اس خصوصیت کا شکریہ ادا کیا ہے جسے آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اردو محفل کے توسط سے ایسے اچھے دوست ملے کہ جن کی بابت ہم شکریہ بھی ادا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ یہ اردو محفل کا پلیٹ فارم ہی تھا کہ جس کی وساطت سے ہم ایسے دوستوں سے متعارف ہوئے کہ جو جغرافیائی لحاظ سے تو ہم سے قریب نہیں تھے لیکن دل کے بہت قریب نکلے۔ اِن احباب کی دوستی آج بھی ہمارا اثاثہ ہے۔

آخری شکریہ

اور آخری شکریہ یہ کہ اردو محفل نے ہمیں یہ سکھایا کہ انسان کو کسی بھی چیز کا اتنا عادی نہیں ہونا چاہیے کہ اُسے چھوڑنے کا خیال ہی اُسے لرزا دے۔ ایسی باتیں مشکل سے ہی سمجھ آتی ہیں لیکن سکھانے والے اچھے ہوں تو آ ہی جاتی ہیں۔ سو کسی حد تک ہم بھی سیکھ ہی گئے۔

نہ جاننے والوں کے لئے بتا دیتے ہیں کہ محفل آج سے ڈیڑھ دو ماہ قبل کچھ طبقاتی کشیدگی کا شکار رہی۔ چونکہ ہم بھی اپنی سو چ رکھتے ہیں سوہمارا جھکاؤ بھی دو میں سے ایک طبقے کی طرف رہا اور اس کا اظہار بھی ہم نے گاہے گاہے کیا کہ اگر گفتگو کے ایسے اچھے پلیٹ فارم پر بھی انسان اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرے گا تو کہاں کرے گا۔ بہرکیف اس دوران محفل انتظامیہ اپنی مصروفیات کے باوجود ان معاملات سے نمٹنے کی کما حقہ کوشش کرتی رہی اور اپنے تئیں کچھ اقدامات کرکے معاملات بہتر بھی کر لیے۔

اب جب کہ صورتحال بہت بہتر تھی اور محفل پر محفل کی سالگرہ کی تقریبات عروج پر تھیں تو نہ جانے انتظامیہ کس کی کس بات سے مشتعل ہوئی اور انتظامی تبدیلیوں کے نام پر پھر جانبدارانہ اقدامات کرتی نظر آئی۔ ہم محفل پر آن لائن ہی تھے کہ اچانک ہمیں اپنی تین پوسٹس اور ایک کیفیت نامے کے حذف ہونے کی اطلاع ملی اور اُس کے بعد ہمارا اکاؤنٹ جزوقتی طور پر معطل ہوگیا۔

حذف ہونے والی تین پوسٹس میں سے ایک تو ایسی تھی کہ جس میں ہم نے محفل میں کشیدگی کے دوران افتخار عارف کے کچھ اشعار جمع کیے تھے کہ جو محفل کی صورتحال سے کچھ نہ کچھ مماثلت رکھتے تھے یا اُن کی بابت ایسا سمجھا جا سکتا تھا۔ یہ ہماری واحد "شر انگیزی" تھی حالانکہ اس پوسٹ میں بھی اشعار کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

ہمیں حیرت اس بات پر ہوئی کہ نبیل بھیا نے یا اتنظامیہ کے کسی اور رُکن نے پسندیدہ کلام میں لگائی جانے والی افتخار عارف کی دو مزید غزلیات بھی حذف کر دیں۔ شاید اس سراسیمگی کی کیفیت میں اُنہیں رسی بھی سانپ نظر آ رہی ہے۔ اسی طرح ہمارےایک کیفیت نامے کا شعر جو کہ ہم نے نہ جانے کس خیال میں کیفیت نامے میں ارسال کر دیا۔ اُسے بھی حذف کر دیا گیا۔ حالانکہ اس کا تعلق محفل اور محفل انتظامیہ سے ہرگز نہیں تھا۔ شعر یہ تھا:


میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھر ےکوئی

ہم جون ایلیا کے لہجے کی تاثیر کے معترف تو ہیں ہی لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ تیر پر اُڑ کر نشانے از خود بھی لگ سکتے ہیں۔ :)

بہرکیف اس کیفیت نامے کا محفل یا انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی افتخار عارف کی آخری دو غزلوں کا کوئی واسطہ اس سب معاملے سے تھا۔ سُنتے ہیں کہ انتظامیہ نے ہم سمیت کچھ لوگوں کے کچھ اختیارات کو محدود کیا ہے۔ بہت اچھی بات ہے وہ کر سکتے ہیں کہ اُن کو اختیار ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر محفل انتظامیہ شروع سے ہی ایسی حساسیت والی ہوتی تو ہم تو پسندیدہ اشعار کے انتخاب کے باعث 2007 میں ہی انتظامیہ کو پیارے ہو جاتے۔ :)

سب سے آخری بات یہ ہے کہ ہمیں محفل انتظامیہ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے اور درج بالا مندرجات اس سلسلے میں ہماری سوچ کی عکاسی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ محفل انتظامیہ صاحبِ اختیار ہے اُن کا حق ہے کہ وہ اپنے فورم کو جیسے چاہیں چلائیں۔ یہ تحریر اپنے بلاگ پر اس لئے لگائی ہے کہ اگر کوئی دوست اسے پڑھنا چاہے تو یہ پڑھنے والوں کے لئے دستیاب رہے۔

اس آخری شکریے سے ماقبل محفل کی خدمات کے حوالے سے ہم نے جو اعترافات کیے ہیں وہ تمام تر تہہ دل سے کیے ہیں اور ہم واقعتاً ان شاندار کارناموں پر محفل انتظامیہ کے ممنون ہیں۔ بالخصوص ہم نبیل بھائی، ذکریا بھائی، سعود بھائی اور دیگر ابتدائی دور کے اراکین کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے اردو محفل کو اردو محفل بنایا۔

کسی کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ نے چاہا تو محفل ایسے ہی آباد رہے گی۔

ہمارا ایک پرانا کیفیت نامہ، جسے شاید ہم نے کچھ پہلے لکھ دیا تھا:

دائم آباد رہے گی 'محفل'
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا