ادیب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ادیب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مولانا حسرت موہانی اور سودیشی تحریک



انگریز برِ صغیر کو دولت کی کان اور کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ سمجھتے تھے اور یہاں کی دولت سے خوب فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہاں سے سستے داموں کپاس خریدتے ۔ یہ کپاس انگلستان جاتی ۔ وہاں اُس سے طرح طرح کے کپڑے تیار ہوتے ۔ پھر یہ کپڑے برصغیر آتے، مہنگے داموں فروخت ہوتے اور انگریز اس کاروبار سے مالی منفعت حاصل کرتے۔ ایک تو یہ کہ اُن کے کارخانے چلتے، ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ۔ دوسرے یہ کہ کپڑے کی فروخت سے بھی خوب فائدہ ہوتا۔

ایک کپاس ہی کیا، برصغیر کی ساری قدرتی پیداوار انگلستان جاتی ۔ وہاں سے بدلی ہوئی شکل میں واپس آ کر انگریزوں کی دولت بڑھاتی۔ اس زمانے میں برصغیر میں کارخانے بھی کم تھے ۔ جو تھے وہ بھی انگریزی کارخانوں سے مقابلہ نہ کر پاتے۔

برِ صغیر کے رہنماؤں نے انگریزوں کی اس زبردستی کو ختم کرنے کےلئے سودیشی تحریک شروع کی۔ سود یشی کا مطلب ہے دیس سے تعلق رکھنے والی ۔ سودیشی تحریک کے تحت ہر شخص سے کہا گیا کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدے اور استعمال کرے۔ برصغیر کی معیشت کو پہنچنے والے بھاری نقصان کے اعتبار سے یہ بہت اچھی تحریک تھی۔

دنیا کی تمام ترقی کرنے والی قومیں اسی اصول پر عمل کرتی ہیں۔ انگریز اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ امریکی فرانسیسی، چینی، جاپانی سب اپنے ملکوں کی مصنوعات پسند کرتے ہیں۔ یہ خاصیت ہم میں ہی ہے کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں چھوڑ کر پرائے دیس کی چیزیں خریدتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے اور خوشی خوشی ہر ایک کو دکھاتے ہیں کہ یہ باہر کا کپڑا ہے۔یہ باہر کا جوتا ہے۔ حالاں کہ اس سے قومی صنعتوں اور قومی ترقی کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج بھی ہمارا یہی حال ہے۔

سودیشی تحریک کو لوگوں نے کامیاب بنانے کی کوشش کی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی۔ مولانا حسرت کو بھی سودیشی تحریک بہت پسند آئی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ عہد کیا کہ میں اب کوئی غیر ملکی چیز استعمال نہیں کروں گا۔ یہ بڑا مشکل عہد ہے۔ آسان بات نہیں مگر مولانا دُھن کے پکّے تھے۔ جب تک جیے اس عہد کو نباہتے رہیے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سخت سردی کا زمانہ تھا ۔ شام کے وقت مولانا لکھنؤ میں ایک معروف عالم سیّد سلیمان ندوی سے ملنے گئے۔ باتوں میں بڑی دیر ہو گئی ۔ سید صاحب نے اصرار کیا۔ کہنے لگے۔ "اب کہاں جائیے گا۔ رات بہت ہو گئی ہے۔ سردی بھی بہت ہے رات یہیں گزار لیجے، صبح کو چلے جائیے گا۔" مولانا سید صاحب کے اصرار پر وہیں ٹھہر گئے۔ رات کو اتفاقاً سید صاحب کی آنکھ کھلی تو خیال آیا ، مولانا حسرت مہمان ہیں۔ ذرا دیکھ لو آرام سے ہیں ۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔ یہ سوچ کر سیّد صاحب اس کمرے میں گئے جہاں مولانا سو رہے تھے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا گُڑی مُڑی بنے، سُکڑے سِمٹے لیٹے ہیں اور اونی کمبل پائنتی پر پڑا ہے ۔ ہوا یہ کہ مولانا کے پائنتی کمبل رکھ دیا گیا تھا کہ رات کو اوڑھ کر سو جائیں۔ کمبل تھا ولایتی۔ مولانا نے ولایتی کمبل دیکھا تو اپنے عہد کے مطابق اُسے نہیں اوڑھا۔ کمبل پائنتی پڑا رہا ۔ مولانا رات بھر سردی میں سُکڑتے رہے مگر ولایتی کمبل اوڑھنا گوارا نہ ہوا۔ عہد پر قائم رہنے والے سچے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

اگر سب لوگ اپنے عہد کا پاس کرنے لگیں تو کوئی بڑے سے بڑا قومی کام بھی ناممکن نہ رہے۔

یہ مضمون ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی" کے اقتباسات پر مبنی ہے۔

مولانا حسرت موہانی اور اردوئے معلیٰ


بہ یک وقت 'رئیس الاحرار' اور 'رئیس المتغزلین' کا لقب پانے والے سید فضل الحسن کو دنیا مولانا حسرت موہانی کے نام سے جانتی ہے۔ مولانا حسرت موہانی اودھ کے علاقے موہان کے رہنے والے تھے۔ اور موہان کی نسبت اپنے تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ موہان سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے مولانا علی گڑھ کالج آ گئے۔ طالبِ علمی کے زمانے میں ہی کالج میں مولانا حسرت کی شہرت ہو گئی تھی۔ وہ کالج یونین کے جلسوں میں تقریریں کرتے اور مباحثوں میں بھی حصہ لیتےتھے۔ اس کے ساتھ ساتھ حسرت مشاعروں میں غزلیں بھی پڑھتے تھے۔ مولانا نے علی گڑھ کالج میں ایک ادبی انجمن ادوئے معلیٰ بھی بنائی تھی ۔ مولانا حسرت موہانی نوجوانی ہی میں بڑے بااصول اور بات کے دھنی تھے ۔اپنی بات پر قائم رہتے اور غلط بات گوارا نہیں کرتے تھے ۔ اُنہیں غلامی سے نفرت تھی اس وجہ سے انگریز حکومت کو سخت ناپسند کرتے تھے اور آزادی کی جد و جہد کرنے والوں کے ساتھ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے سرکار پرست لوگ مولانا سے دوستانہ رویّہ نہیں رکھتے تھے۔

بی اے کے سالِ آخر میں مولانا نے کالج میں ایک مشاعرہ بڑی دھوم دھام سے منعقد کیا تو جہاں اس مشاعرے کا لوگوں میں چرچا ہوا وہیں ایسے لوگ بھی تھے کہ جنہیں مولانا کی شُہرت پسند نہیں تھی ۔ ان لوگوں نے کالج کے پرنسپل سے مولانا کی شکایت کی کہ مشاعرے میں ایسے اشعار پڑھے گئے کہ جن سے طالبِ علموں کے اخلاق بگڑنے کا خدشہ ہے۔ پرنسپل نے آگ بگولہ ہو کر مولانا کو بُلایا اور ان کا موقف سُنے بغیر اُنہیں خوب ڈانٹا اور کالج سے نکالنے کا حکم سُنایا۔گو کہ پرنسپل کو سمجھانے والا کوئی نہیں تھا تاہم مولانا بھی کوئی عام طالبِ علم نہیں تھے اس لئے آخری فیصلہ یہ ہو ا کہ اُنہیں کالج سے تو نکال دیا جائے لیکن امتحان سے نہ روکا جائے۔ اس حکم کے بعد مولانا نے کالج کا ہوسٹل خالی کر دیا اور علی گڑھ شہر میں مکان کرائے پر لے کے رہنے لگے۔

امتحان دینے کے فوراً بعد ہی مولانا نے "اردوئے معلیٰ" کے نام سے ایک رسالے کا اجرا کیا اور اپنے لئے انگریز کی نوکری کے بجائے اخبار نویسی کے آزاد پیشے کا انتخاب کیا ۔ رسالہ نکلتا رہا اور مولانا آزادی کی تحریکوں میں شامل رہے ۔ جلد ہی مولانا اپنی ہمت، جذبے اور آزادی کی لگن کی وجہ سے مشہور ہو گئے۔ لوگ ان کی عزت کرتے تھے اور اُن کو پسند بھی کرتے تھے۔

اردوئے معلیٰ میں دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی مضامین بھی چھپتے جن میں زیادہ تر کے محرکات آزادی کی تحریک سے ہی میسر آتے۔ ایک دفعہ ایک مضمون "مصر میں انگریزوں کی پالیسی" بھی اردوئے معلیٰ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون کافی تنقید ی نوعیت کا تھا سو انگریز سرکار نے مولانا کو عدالت میں طلب کیا اور مصنف کی بابت استفسار کیا ۔ تاہم مولانا نے کہا کہ یہ رسالہ میرا ہے سو مضمون بھی میرا ہے اور مصنف کا نام نہیں بتایا۔ انگریز سرکار نے اس مضمون کی اشاعت پر مولانا کو دو سال کی سزا اور پانچ سو روپے کا جرمانہ کیا۔ جرمانے میں ان کا کتب خانہ جس میں بڑی قیمتی کتابیں تھیں کوڑیوں کے مول نیلا م ہو گیا۔ جس کا مولانا کو بہت دُکھ ہوا۔ مگر چونکہ انگریز حاکموں کو اُن سے دشمنی تھی اس لئے کتب خانہ جان بوجھ کر نیلام کر دیا گیا۔

قید میں بھی مولانا کو سخت مشقت میں رکھا گیا ۔ اندھیری کوٹھری میں رہنا ، دوسرے قیدیوں کے ساتھ مل کر دن بھر چکی پیسنا۔ نہ اخبار نہ رسالہ، نہ لکھنے پڑھنے کی اجازت۔ بات بات پر دھمکیاں اور سختیاں۔ مولانا کی نظر کمزور تھی ۔ عینک لگاتے تھے مگر جیل میں عینک بھی چھین لی گئی۔ کھانا اتنا خراب کہ زبان پر نہ رکھا جائے۔

بہر کیف مولانا حسرت اصول پرست انسان تھے اُنہوں نے لاکھ سختیاں اُٹھائی لیکن اپنے موقف سے کبھی سرِ مو انحراف نہیں کیا۔

************

یہ مضمون ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی" کے اقتباسات پر مبنی ہے۔