جہانگیر کا ہندوستان ۔ ۳
پیداوار
ہندوستان کی زمین پیداوار کے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے لیکن یہاںپر کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ اگر کبھی کوئی گاؤں پیداوار کی کمی کی وجہ سے پورا لگان ادا نہ کر پائے تو جاگیردار یا گورنر اسے اس قدر مجبور کرتا ہے کہ اسے ادائیگی کے لئے اپنے بیوی، بچوں کو بیچنا پڑتا ہے ورنہ اسے بغاوت کے جرم میںسزا دی جاتی ہے۔ کچھ کسان اس ظلم و ستم سے گھبرا کر ان زمینداروں اور راجاؤں کے پاس پناہ لیتے ہیں کہ جو پہلے ہی سے باغی ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسانوں کی چھوڑی ہوئی زمینیں خالی اور بنجر ہو جاتی ہیں اور وہاں گھاس پھوس اگ آتی ہے۔ اس قسم کی زیادتیاں اس ملک میںبہت عام ہیں۔
گوشت کی سپلائی یہاں بھی ہالینڈ کی طرح ہے۔ اگرچہ یہاں پر یہ سستا ہے بھیڑیں، بکریاں، تیتر، بطخیں اور ہرنوں کا گوشت بازار میں ملتا ہے۔ چونکہ سپلائی بہت ہے اس لئے قیمت بھی کم ہے بیلوں اور گایوں کی قربانی نہیں کی جاتی ہے کیونکہ ایک تو ان کے ذریعے کاشت کی جاتی ہے دوسرے بادشاہ کی جانب سے ان کی قربانی کی سخت ممانعت ہے اور اس کی سزا موت ہے اس کے مقابلے میںبھینسوں کی قربانی کی جاتی ہے۔گائے کی قربانی کی ممانعت بادشاہ نے اپنی ہندو رعایا کو خوش کرنے کے لئے کی ہے کیونکہ وہ گائے کو دیوی اور مقدس مانتے ہیں۔ اکثر ہندو رشوت دے کر یا سفارش کرکے بادشاہ یا گورنر سے ایسا فرمان بھی جاری کروالیتے ہیںکہ جس کے تحت ایک خاص مدت تک مچھلی پکڑنے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے یا یہ پابندی لگا دی جاتی ہے کہ کچھ دنوں تک بازار میں کسی قسم کا گوشت نہیں بیچا جائے گا۔ اس قسم کے احکامات عام لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں جہاں تک امراء کا تعلق ہے تو وہ ہر روز اپنی پسند کے جانور گھروں پر ذبح کرتے رہتے ہیں۔
انتظامِ سلطنت
انتظامِ سلطنت کے بارے میں میری یہ رپورٹ مکمل نہیں ہے کیونکہ موجودہ بادشاہ کے بارے میں پوری تفصیل دینا ممکن نہیںہے۔البتہ جہانگیر کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے اپنی شخصیت کو ختم کرکے خود کو اپنی چالاک بیوی کے حوالہ کردیا ہے کہ جس کا تعلق ایک کم تر خاندان سے ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ یا تو وہ زبان کی بڑی میٹھی ہے یا پھر اسے شوہر کو قابو کرنے کے حربے آتے ہیں۔ اس نے اس صورتحال سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور نتیجتاً اس نے آہستہ آہستہ خود کو بے انتہا مالدار بنا لیا ہے۔ اس وقت اس کی حیثیت شاہی خاندان کے کسی بھی فرد سے زیادہ ہے۔ اس کے وہ تمام حمایتی جو اس کے ساتھ ہیں انہیں بھی بے انتہا مراعات کے حاصل ہیں۔ وہ سب اس کے آدمی ہیں اور اسی کی سفارش سے ان کو ترقیاں ملی ہیں۔ چونکہ یہ تمام عہدےدار اس کے احسان مند ہیں لہٰذا بادشاہ تو برائے نام ہے۔ ورنہ تمام اختیارات اس کے اور اس کے بھائی آصف خاں کے پاس ہیں اور اس وجہ سے سلطنت پر ان کو پورا پورا کنٹرول ہے۔ بادشاہ کے کسی فرمان اور حکم کی اس وقت تک تعمیل نہیں ہوتی ہے کہ جب تک ملکہ کی اس پر تصدیق نہ ہو۔ اگرچہ انہوں نے دولت و شہرت و اقتدار سب کچھ حاصل کر لیا ہے مگر ان کی خواہشات اور ہوس کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔
بادشاہ جب شکار سے واپس آتا ہے تو وہ غسل خانہ (جہاں وہ خاص خاص امراء سے ملتا تھا) میں آکر بیٹھتا ہے کہ جہاں تمام امراء اس کے سامنے آکر حاضری دیتے ہیں۔ یہاںپر ان لوگوں کو بھی شرفِ بازیابی ملتا ہے کہ جو بادشاہ سے ملنے کی خصوصی درخواست کرتے ہیں۔ وہ یہاں پر ایک پہر رات یا جب تا اس کی مرضی ہو رہتا ہے۔ اس دوران وہ شراب کے تین پیالے پیتا ہے۔ شراب پینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک تین بار تھوڑے تھوڑے وقفے سے اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ شراب نوشی کے دوران جو بھی محفل میں حاضر ہوتا ہے وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شراب نوشی کو بادشاہ کی صحت کے لئے ضروری سمجھتا ہے اسی طرح جیسے ہمارے ملک میںکہا جاتا ہے کہ بادشاہ کی شراب نوشی میںرحمت ہے۔ جب بادشاہ آخری پیالہ پی کر سوجاتا ہے تو اس وقت تمام حاضرین بھی رخصت ہوجاتے ہیں۔ امراء کے جانے کے بعد ملکہ معہ کنیزوں کے آتی ہے اور اس کے کپڑے تبدیل کراتی ہے۔ یہ تین پیالے اس کو اس قدر مدہوش او رمسرو ر کردیتے ہیں کہ وہ اس کے بعد جاگنے کے بجائے سونا پسند کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب اس کی ملکہ اس سے جو چاہتی ہے منظور کرالیتی ہے کیونکہ بادشاہ اس پوزیشن میںنہیںہوتا ہے کہ وہ اس کی بات سے انکار کرے۔
بادشاہ کے تمام علاقوں، شہروں اور گاؤں وغیرہ کی سالانہ آمدنی کا حساب ایک رجسٹر میںلکھا جاتا ہے جو کہ دیوان کے چارج میںہوتا ہے۔ اس وقت موجودہ دیوان ابوالحسن ہے تمام شہزادوں، منصب داروں اور امیروں کو ان کی حیثیت کے مطابق جاگیریں دی جاتی ہیں کہ جس کی آمدن سے وہ اپنا خرچہ پورا کرتے ہیں۔ ان میں کچھ امراء بادشاہ کے دربار میں رہتے ہیں، اور اپنی جاگیر کا انتظام اپنے کسی معتمد کے حوالے کر دیتے ہیں یا وہ کسانوں یا کروڑی کو دے دیتے ہیں کہ جو اچھی یا خراب فصل پر نفع و نقصان کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن صوبے اس قدر غریب ہیں کہ ایک جاگیر جس کی آمدن پچاس ہزار تصور کر لی جاتی ہے۔ وہ درحقیقت پچیس ہزار مشکل سے وصول کرتی ہے۔ اور یہ بھی اس صورت میں کہ غریب کسانوں کو بالکل نچوڑ لیا جاتا ہے۔ اور ان کے کھانے کو خشک روٹی مشکل سے بچتی ہے کہ جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن منصب داروں کو پانچ ہزار سوار رکھنا چاہیے وہ مشکل سے ایک ہزار سوار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی شان و شوکت اور رعب داب کے لئے ہاتھی گھوڑے اور ملازمین کی ایک تعداد رکھتے ہیں تاکہ وہ عام آدمی کے بجائے بارعب امیر لگیں اور جب ان کی سواری نکلے تو ان کے ملازمین بلند آواز میںلوگوں کو سامنے سے ہٹاتے رہیں۔ ایسے موقعوں پر جو لوگ راستے سے نہیںہٹتے ہیں۔ انہیںملازم بلا کسی لحاظ کے مارتے پیٹتے ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ان امراء کی لالچ اور طمع کی کوئی انتہا نہیں ہے ہر وقت ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کریں چاہے اس میں انہیںلوگوں پر ظلم و ستم کرنا پڑے یا ناانصافی سے کام لینا پڑے۔ دستور یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی امیر مرتا ہے تو دیکھے بغیر کہ وہ معمولی امیر تھا یا مقرب خاص بادشاہ کے آدمی فورا اس کے محل میںجاتے ہیں اور اس کے مال و اسباب و ساز و سامان کی ایک فہرست تیار کرتے ہیں یہاں تک کہ خواتین کے زیورات اور ان کے ملبوسات کو بھی نہیں چھوڑا جاتا ہے، بشرطیکہ انہیں چھپا کر نہیں رکھا جائے ۔ امیر کے مرنے پر بادشاہ اس کی جاگیر کو واپس لے لیتا ہے اس صورت میں عورتوں اور بچوں کو گذارے کے لئے معقول رقم دیدی جاتی ہے ۔ بس اس سے زیادہ نہیں۔ اس کا امکان کم ہوتا ہے کہ بچے اور خاندان والے امیر کی زندگی میں اس کی دولت کا کچھ حصہ چھپا دیں تاکہ وہ بعد میں ان کے کام آئے۔ یہ اس لئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر امیر کی جائداد اس کی آمدن اور اس کی دولت کے بارے میں اس کے دیوان کو پورا پورا پتہ ہوتا ہے۔ دیوان کے ماتحت کئی لوگ ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہاں یہ دستور ہے کہ جو کام ایک آدمی کرسکے اس کے لئے دس ملازم رکھے جائیں۔ ان میںسے ہر ایک کے پاس ایک خاص کام ہوتا ہے۔ اور اب یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ امیر کے مرنے کے بعد اس کا حساب کتاب دے۔ اگر ضرورت پڑے تو متوفی امیر کے عملہ کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ حساب کتاب کے تمام کاغذات پیش کریں اور یہ بتائیں کہ ان کے آقا کی آمدنی و اخراجات کیا تھے۔ اگر وہ کچھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیںتو ان کو اس وقت تک اذیت دی جاتی ہے کہ جب تک وہ سب کچھ نہ بتادیں۔ اب آپ ذرا ایک ایسے شخص کے بارے میں سوچئے کہ جو ایک وقت میں سر پر ٹیڑھی ٹوپی رکھے بارعب انداز میںرہتا ہے اور کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ اس کے قریب جائے مگر وقت کے بدلتے ہی وہی شخص پھٹے پرانے کپڑوں اور زخمی چہرے کے ساتھ ادھر سے ادھر پریشان حال بھاگتا پھرتا ہے۔ اس کے بعد ایک ایسے شخص کے لئے اسی قسم کی ملازمت کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ درحقیقت زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ میںاس قسم کے کئی لوگوں سے ذاتی طور پر واقف ہوں کہ جو اس اذیت سے گزرے ہیں اور اب غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
میں اکثر امراء سے جو میرے دوست ہیں یہ سوال کرتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اس قدر محنت و مشقت کرکے دولت جمع کرتے ہو، جب کہ تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ دولت نہ تو تمھارے کام آسکے گی اور نہ تمھارے خاندان والوں کے ۔ اس کے جواب میںسوائے اس کے اور کچھ نہیںہوتا کہ وہ یہ سب کچھ وقتی طور پر دنیا کو دکھلانے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی شہرت میں اس وجہ سے اضافہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مرنے کے بعد اتنی جائداد ، اس قدر دولت چھوڑی ہے۔ میں ان سےکہا کرتا ہوں کہ اگر انہیں اپنی شہرت اور عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے دوست اور خاندان والے چونکہ ان کی جمع شدہ دولت سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے اس لئے کیا یہ بہتر نہیںہے کہ وہ اس میں ان غریبوں کو شامل کریں کہ جن کی تعداد اس ملک میں بے شمار ہے۔ اور اس بات کی کوشش کریں کہ وہ لوگوں کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کریں۔ان کے ساتھ نا انصافی نہیں کریں، تاکہ عوام کو ان سے کوئی خوف نہ ہو ۔ لیکن جب بھی میںیہ دلائل پیش کرتا ہوں تو وہ یہ کہہ کر بحث کا خاتمہ کردیتے ہیں کہ یہ ان کے ملک کا رواج ہے۔
جہاں تک اس ملک میں قانون کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کوئی قانون نہیں ہے۔ انتظامِ سلطنت میں مطلق العنانیت ہے، لیکن قانونی کتابیں ضرور ہیں جو کہ قاضی کے پاس ہوتی ہیں۔ ان قوانین کے تحت سزاؤں میں ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور آنکھ کے بدلے آنکھ لینے پر عمل ہوتا ہے۔ لیکن جیسا ہمارے ہاں ہے وہ کون ہے کہ جو پوپ کو عیسائیت سے نکالے؟ اس طرح یہاں بھی کسی کی مجال نہیں کہ وہ صوبہ کے عامل سے یہ سوال پوچھ سکے کہ "تم ہم پر اس طرح کیوں حکومت کرتے ہو؟ جب کہ ہمارا قانون تو یہ مطالبہ کرتا ہے"
آدابِ زندگی
جہاں تک لوگوں کے طرزِ رہائش اور رہنے سہنے کے انداز کا سوال ہے تو امیر لوگوں کے پاس تو بے انتہا دولت اور لامحدود طاقت ہے لیکن اس کےمقابلے میں عام لوگ انتہائی غربت اور مفلسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ مفلسی کے باعث ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس مشکل سے دو وقت کے کھانے کے لئے کچھ ہوتا ہے۔ ان کی رہنے کی جگہوں یا گھروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عبرت کا نمونہ ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگ ان تکالیف کو انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ اس سے زیادہ اچھا سلوک ہو۔ ان میں مشکل ہی سے کوئی اس بات کی ٕکوشش کرتا ہے کہ اپنی زندگی کوتبدیل کرے اور اپنی موجودہ حالات کو بہتر بنائے۔ یہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ ذات پات کی وجہ سے لڑکے کو وہی پیشہ اختیار کرنا پڑتا ہے کہ جو اس کے باپ کا ہے۔ لوگوں کے لئے یہ بھی ناممکن ہے کہ اپنی ذات سے باہر شادی بیاہ کر سکیں۔ اس لئے ہر فرد اپنی ذات اور پیشہ کے بارے میں پہلے ہی سے آگاہ ہوتا ہے۔
یہاں مزدوروں اور دستکاروں کے لئے دو عذاب ہیں۔ پہلا عذاب تو یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بے انتہا کم ہوتی ہیں۔ سنار، رنگریز، کشیدہ کاری کرنے والے قالین بننے والے، جولاہے، لوہار، درزی ، معمار، پتھر توڑنے والے، اور اسی طرح سے دوسرے پیشہ ور دست کار و ہنر مند، یہ اس کام کو جو ہالینڈ میں ایک آدمی کرے چار مل کر کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک کام کرنے کے بعد ان کی روزانہ کی کمائی مشکل سے 5 یا 6 ٹکہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرا عذاب ان کے لئے گورنر، امراء، دیوان، کوتوال، بخشی اور دوسرے شاہی عہدے داروں کی شکل میں آتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو کام کروانے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کام کرنے والے کو، چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے زبردستی پکڑ کر بلوا لیتے ہیں، ایک مزدور یا کاریگر کی یہ ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اس پر ذرا اعتراض کرے۔ پورے دن کام کے بعد شام کو یا تو اسے معمولی سی اجرت دی جاتی ہے یا بغیر کسی ادائیگی کے اسے رخصت کر دیا جاتا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا کھانا کس قسم کا ہوگا۔ وہ گوشت کے ذائقہ سے بہت کم واقف ہوتے ہیں اور ان کے کھانے میں سوائے کھچڑی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
مذہبی توہمات
مسلمانوں کے مذہب کے بارے میں ہماری زبان میں کافی مواد چھپ چکا ہے۔ لیکن اب تک ان کے توہمات کے بارے میںکہ جو اس ملک میں عام ہیں، نہیں لکھا گیا ہے لہٰذا میں ان میں سے کچھ کے بارے میںیہاں لکھوں گا، ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ جو کیتھولک فرقہ والوں کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلا ان کے ہاں بھی اس قدر پیر، فقیر ہیں کہ جیسے کیتھولک فرقہ والوں کے ہاں بزرگ اور اولیاء ہیں۔ لیکن یہ لوگ ان کی مورتیاں نہیں بناتے ہیں کیونکہ یہ ان کے مذہب میں ممنوع ہے۔ لیکن یہ بھی ان کی طرح منتیں مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہر دنیاوی بادشاہ کا اپنا دربار ہوتا ہے۔ اس کے امراء اور عہدے دار ہوتے ہیں کہ جو اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ او ر انتظام سلطنت کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جیسے بادشاہ تک کوئی بھی اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کی رسائی کسی امیر یا عہدے دار سے نہ ہو اسی طرح سے خدا تک سفارش پہنچانے کے لئے بھی اس کے کسی نمائندے کی ضرورت ہے کہ جو اس کی درخواست کو منظور کرائے۔ یہ لوگ بھی کیتھولک فرقہ کی طرح اس گمراہی میںہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ خدا عالم الغیب اور ہر چیز کا جاننے والا ہے لیکن یہ لوگ اس سے آنکھیں بند کرکے اور خدا کی رحمت سے انکار کرکے ان جھوٹے لوگوں کے دام فریب میں آجاتے ہیں۔ ان نام نہاد اولیاء کا سحر اور جادو غریب لوگوں پر نہ صرف ان کی زندگی میں بھی چلتا ہے بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے مرید اور متولی غریب لوگوں کو مسلسل فریب و دھوکے میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ عام لوگوں کو کس طرح سے قابو میں رکھا جائے اس مقصد کے لئے یہ عوام میں ان کی کراماتیں اور عجیب و غریب واقعات کے بارے میں کہانیاں پھیلاتے ہیں کہ جنہیں سن کر لوگ ان کے عقیدت مند ہو جاتے ہیں۔
ہندو مت
میری خواہش تو یہ تھی کہ میں ہندومت اور اس کے اعتقادات پر تفصیل سے لکھوں، لیکن جب میں نے اس کا مطالعہ کیا اور اس کے بارےمیں معلومات اکھٹی کیں تو مجھے پتہ چلا کہ چند دلکش اور شاعرانہ قصہ کہانیوں، ہزاروں دیوی و دیوتاؤں اور ان کے کرداروں اور عقیدوں کی بوقلمونی کے سوا اس میں اور کچھ نہیں۔ بس اس بات نے مجھے تفصیل میں جانے سے روک دیا اور میں نے سچائی کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہندو مت میں اگر ایک فرقہ کوئی بات کہتا ہے تو دوسرا فرقہ اس سے الگ ہٹ کر بالکل دوسری بات بتاتا ہے۔ اگر اس مذہب کے بارے میں مصنفین کی تحریریں پڑھو تو اس میں تضادات ہی تضادات نظر آئیں گے کیونکہ اپنا مواد شاید انہوں نے کئی فرقوں سے لیا ہوگا۔ مثلاً گجرات کے بنیوں کی لاتعداد ذاتیں ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ کھاتے ہیںاور نہ پیتے ہیں۔ برہمنوں کی ذات چونکہ قابلِ عزت ہے اس لئے صرف اس کے ساتھ کھانے پینے میں ممانعت نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں پر کھتریوں میںکئی ذاتیں ہیں۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے اعتقادات میں اس قدر تنگ نظر نہیں ہیں۔ یہ بھیڑ و بکری کا گوشت کھالیتے ہیں۔ اور اپنی نجی محفلوں میںشراب سے بھی شوق کر لیتے ہیں۔ لیکن ایسی ذاتوں سے بھی میری واقفیت رہی ہے جو کسی ایسی چیز کو نہیںکھاتے ہیں کہ جس میں زندگی ہو، یہاں تک کے کچھ سبزیاں بھی۔ ان کی غذا محض چاول اناج اور گھی ہوتی ہے۔ یہاں پر عام بات ہے کہ جتنے خاندان ہیں، اسی قدر عقیدے ہیں۔ چونکہ شادی بیاہ صرف ذات میں ہی ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی ذات و براداری ختم ہو جائے تو اس کے ساتھ اس کا عقیدہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔
انہی رسومات و تہواروں میں ہندو مسلمانوں سے زیادہ سخت ہیں کوئی ہندو عورت و مرد چاہے کس قدر سردی ہو، ضرور صبح کے وقت نہاتا ہے عام لوگ تو دریا یا ندی کے کنارے جا کر نہاتے ہیں جب کہ امراء گھروںپر نہاتے ہیں وہ اس وقت تک کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتے جب تک کہ نہا نہ لیں۔ وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیںکہ سال میں ایک بار گنگا میں جا کر ضرور نہائیں۔ جو اس قابل ہوتے ہیں وہ 500 سے 600 کوس کا فاصلہ اس مقصد کے حصول کے لئے طے کرتے ہیں۔ وہ اکتوبر کے مہینہ میںغسل کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس کے بعد ان کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں، واپسی پر وہ گنگا کا پانی اپنے ہمراہ لاتے ہیں اور اسے برکت کے لئے گھر میں رکھتے ہیں۔
کچھ برہمن بڑے ہوشیار ہوتے ہیں۔ وہ اچھے نجومی کی طرح ستاروں کی حرکات سے واقف ہوتے ہیں اور موسموں و حالات کے بارے میںصحیح پیشین گوئی کرتے ہیں۔ وہ چاند اور سورج گرہن کے بارے میں بالکل صحیح اندازہ کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ قسمت کا حال بھی بتاتے ہیں۔ ہر شہر میں اس شہرت کے دو یا چار برہمن ضرور ہوتے ہیں۔ موجودہ بادشاہ بھی خاص طور سے ایک کو اپنے دربار میں رکھتاہے۔
خاتمہ
یہ اس ملک کے لوگوں کی عادات، اطوار، انتظام اور رسم و رواج کا ایک خاکہ ہے ۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جتنا حقیقت سے قریب ہو اسے بیان کروں لیکن میں نے جو میں نے بیان کیا ہے نہ تو یہ حتمی ہے نہ پورے ملک پرصادق آتا ہے کیونکہ اس ملک میں بہت زیادہ اختلافات ہیں، انواع و اقسام کی روایات ہیں اور لوگوں کے مذاق میں بہت فرق ہے۔ ان کے طبقہ اعلٰی اور عوام میں اس فرق کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ سے میں اس بات کو بھی ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ میں ہندوستان میں خاموش تماشائی کی طرح نہیں رہا بلکہ ان کے معاشرے اور لوگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔
*******
گذشتہ حوالے:جہانگیر کا ہندوستان ۱
جہانگیر کا ہندوستان ۲
جہانگیر کا ہندوستان تینوں حصے ایک ساتھ پڑھنے کے لئے یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں۔
تو ہمارا حال ہمیشہ سے یہی رہا ہے. جہانگیر ہو، مشرف ہو، زرداری ہو یا کوئی میاں چوہدری ہو.
جواب دیںحذف کریںجہانگیر تو بڑا نیک اور اچھا بادشاہ تصوری کیا جاتا ہے۔اگر آپ ناراض نہ ہوں تو یہ بتائیں کہ آپ نے یہ تحقیق کن حوالہ جات کی مدد سے کی۔
جواب دیںحذف کریںشکریہ
جی یاسر صاحب، ان تفصیلات کو تو آپ شیخ محمد اکرام یا کسی بھی غیر جانبدار مصنف کی کتاب میں حاصل کر سکتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںمحمد احمد صاحب، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر انگریزوں نے یہ ملک حاصل کیا تو دراصل انکی چالاکی سے زیادہ یہاں کی صورت حال بھی ایسی ہی تھی۔ تمام شخصی حکومتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ان شخصی حکومتوں کے اثرات ہمارے اوپر اب بھی موجود ہیں۔ جو ہمارے یہاں کے امراء کے مزاج کا حصہ ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ انگریزوں کے یہاں آنے سے ہندوستان ترقی سے آشنا ہوا تو غلط نہ ہوگا۔ اگر وہ یہاں نہ آتے تو آج بھی انڈیا اپنے بادشاہوں کی عیاشیاں نبھا رہا ہوتا اور جو تھوڑا بہت ترقی کا مزہ ہم نے چکھا وہ بھی نہ ہوتا۔ یہ الگ بات کہ یہ ترقی انگریزوں کو بھی اپنی سیاسی ضروریات کے باعث یہاں لانی پڑی۔
اچھا ہے کہ ہمارے نقطہ نظر کے بر عکس دوسرے لوگ ہماری تاریخ کو کس طرھ دیکھتے ہیں
جواب دیںحذف کریںانگریزیں ہمارا سرمایہ لے گئے اسکا دکھ نہیں ہے۔ پر ہمیں مغربی جمہوریت نہ مل سکی ، سارا غم اسی کا ہے!
جواب دیںحذف کریںمیں اکثر یہ سوچ کر حیران ہوا کرتا تھا کہ جب انڈیا کے مسلمان حکمراں اتنے اچھے تھے تو پھر انگریزوں کا عذاب وہاں کیوں نازل ہوا ؟؟؟؟؟؟
جواب دیںحذف کریںاب سمجھ آیا کہ یہ جھوٹ جو اسکول سے لے کر کالج تک ہمارے دماغوں میں بھرا جاتا رہااس نے اللہ پر بھی ہمارا ایمان مضبوط نہیں ہونے دیا!
کیونکہ اللہ تو کہتا ہے کہ تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے!
عارف کریم، انگریز ہمارا سرمایہ تو نہیں لے کر گئے۔ وہ جو سرمایہ لے کر گئے وہ اس وقت کے امراء کا تھا۔ اگر ہم اس زمانے میں ہوتے تو ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا کہ ہمارا بادشاہ جہانگیر ہے یا ایسٹ انڈیا کمپنی۔
جواب دیںحذف کریںآج اگر ہمارا سرمایہ سوئس بینکوں میں رکھا ہوا ہے اور کل کسی وجہ سے اسے وہاں رکھنے والے استعمال کرنے کے لائق نہ رہیں بلکہ وہی مغرب اس دولت پہ قابض ہو جائیں تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ سوئس بینکوں میں رکھا ہمارا سرمایہ سوئس بینکوں نے ہتھیا لیا۔اور ہمیں کچھ نہ دیا۔
یہ احسان آپ چاہیں نہ مانیں، لیکن یہ مغربی جمہوریت کی دین ہے کہ آج ایک نائ کا بیٹا ایک وزیر بن سکتا ہے۔ ورنہ ہمارے یہاں ذات پات ہماری ضرب الامثال تک میں چھائ ہوئ ہے۔ جبھِ تو کہتے ہیں کہ منہ چڑھی ڈومنی سر کو آتی ہے۔
شاکر بھائی!
جواب دیںحذف کریںہمارا حال یہی ہے زمانے سے۔ بقول جون ایلیا۔
جور رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
اور نہ جانے ایسا کب تک چلے۔
بھائی یاسر عمران ،
جواب دیںحذف کریںیہ میری تحقیق نہیں ہے بلکہ جہانگیر کا ہندوستان" پیلسے ئرٹ (پیل سارٹ) کا سفرنامہ ہندوستان ہے۔ جس کا انگریزی ترجمہ ڈبلیو ۔ ایچ۔ مورلینڈ نے کیا ۔ اس انگریزی ترجمہ سے اردو ترجمہ کا کام ڈاکٹر مبارک علی نے میں انجام دیا۔ اس بات کی تفصیل آپ کو اس تحریر کے پہلے حصے میں مل جائے گی.
رہی بات جہانگیرکے نیک اور اچھا ہونے کی تو ممکن ہے ایسا ہو لیکن یہ ایک غیر ہندوستانی کی رائے ہے جو ممکن ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ یا اصل رخ ہو. دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے بادشاہوں سے جاہ و مراتب کے حصول کے لئے خوشامد سے اچھا کوئی طریقہ نہیں رہا جس کا واضح اثر ہمیں تواریخ میں ملتا ہے.
عنیقہ صاحبہ،
جواب دیںحذف کریںآپ کا تبصرہ بہت متوازن ہے اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جب انگریز یہاں آئے تو مغل بادشاہ انتظامِ حکومت چلانے میں ناکام ہوچکے تھے اور مغلیہ سلطنت کی دیوار اس قدر خستہ ہوچکی تھی کہ اسے گرانے کے لئے ایک معمولی ٹھوکر بھی کافی تھی. جب جمود حد سے بڑھ جاتا ہے تو تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے اور آکر رہتی ہے اگر آپ خود کو نہیں بدل سکتے تو پھر آپ کو ہی بدل دیا جاتا ہے.
اور یہ بات بھی ایک حد تک ٹھیک ہے کہ انگریز کی آمد سے ہی ہندوستان موجودہ ترقی کی راہوں سے آشنا ہوا ورنہ ہمارے کرم فرماؤں کو تو اپنے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا تھا. مغلوں میں صرف جہانگیر ہی نہیں باقی چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب ایسے ہی رہے ہیں. اس بات کا صحیح اندازہ مجھے کیپٹن نذیر احمد کی کتاب (نام یاد نہیں آ رہا) جو ابھی دو چار سال پہلے ہی کراچی سے شایع ہوئی ہے پڑھ کر ہوا. فی الحال نام یاد نہیں آرہا نہ ہی ویب پر کوئی حوالہ دستیاب ہے.
جی عنیقہ ناز صاحبہ اور محمد احمد
جواب دیںحذف کریںتوجہ دلانے کا بہت شکریہ
عبداللہ
آپ کی بات صحیح ہے، میرے ذہن میں بھی کچھ ایسے ہی سوالات کچھ عرصہ سے قائم ہوے ہیں، جہاں معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان کی کتب میں پاک فوج کو مرد مجاہد یا مومن بنا کر پیش کیا جاتا ہے، آج میں فوج کے جرنلوں کے کرتوت اور فوج کی کرپشن دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ان کی مومنیت کہاں غائب ہو گئی اب۔
کچھ عرصہ قبل خرم بشیر صاحب کی تحاریر پڑھیں جو ۱۹۶۵ کی جنگ سے متعلق تھیں اس کے بعد دماغ میں یہ تحریک پیدا ہوئی۔
شکریہ
محمد ریاض شاہد صاحب،
جواب دیںحذف کریںآپ کی توجہ اور تبصرے کا شکریہ!
.
ڈاکٹر مبارک علی کی تحریروں میں اسی قسم کی تصویر ملتی ہے۔ البتہ اوریا مقبول جان کے ایک کالم میں پڑھا تھا کہ اس قسم کی باتیں انگریزوں نے جان بوجھ کر تاریخ کا حصہ بنائی تھیں، ورنہ ہندوستان سونے کی چڑیا تھا۔ یہاں طب نے بڑی ترقی کی تھی۔ اور بھی بڑی اچھی باتیں تھی جنکی وجہ سے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔
جواب دیںحذف کریںنعیم اکرم،ہندوستان سونے کی چڑیا تھا اس سے کس نے انکار کیا،بس فرق اتنا ہے کہ یہ سونے کی چڑیا محلوں اور جاگیروں مین قید تھی،
جواب دیںحذف کریںجب عوام کا ستحصال کر کے دولت کے انبار لگائے جاتے ہیں تو یہ دوسروں کی نظر میں بھی آتے ہیں اور انہیں للچاتے ہیں،ان کی منصفانہ تقسیم ہی دشمنوں کو حملہ آور ہونے سے روک سکتی ہے!
اوریا مقبول جان کی تو آپنے خوب ہی کہی ان جیسے لوگ تیار ہی اسی لیئے کیئے جاتے ہیں کہ اس نظام کی خوبیاں بیان کریں اور نسل در نسل لوگوں کو بے وقوف بنائیں!
ڈاؤنلوڈ کر لی ہے
جواب دیںحذف کریںابھی فُل پڑھوں گا فیر تبصروں گا
:)
ٹوپیاں بیچ کر گزارہ کرنے والے کی دستار میں جڑے نگوں پر اعتراض اٹھاو تو لوگ برا منا جاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریں