احمد فراز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
احمد فراز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

غزل: اول اول کی دوستی ہے ابھی - احمد فراز


اول اول کی دوستی ہے ابھی
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی

میں بھی شہر وفا میں نو وارد
وہ بھی رک رک کے چل رہی ہے ابھی

میں بھی ایسا کہاں کا زود شناس
وہ بھی لگتا ہے سوچتی ہے ابھی

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی

گرچہ پہلا سا اجتناب نہیں
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھلتا
بوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی

خود کلامی میں کب یہ نشہ تھا
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

فصل گل میں بہار پہلا گلاب
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی

مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر
وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی


فراز

احمد فراز کی سدا بہار غزل

احمد فراز میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ خیر یہ بات تو نہ جانے کتنے لوگ کہتے ہیں ہم نے کہہ دیا تو کیا کہا۔ فراز شاعر ہی ایسے تھے کہ اُنہیں پسند کرنے والے بہت ہیں، خاص طور پر عوام میں سے۔ خواص میں سے کچھ لوگ شاید ایسے ہوں جو احمد فراز سے کچھ خائف نظر آتے ہیں تاہم اُن کے اپنے تحفظات ہیں اور اُن کے کہنے سے احمد فراز کی ہر دلعزیزی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

احمد فراز کی یہ غزل ہمیشہ سے میری پسندیدہ رہی ہے اور جب بھی پڑھوں اچھی لگتی ہے۔ قارئینِ بلاگ کی نذر:


غزل

کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مُستقل سُکوت سے دِل کو لہو کرے

اب تو ہمیں بھی ترک مراسم کا دُکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تُو کرے

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تری جُستجو کرے

اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے

تجھ کو بھلا کے دل ہے وہ شرمندۂ نظر
اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ
دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے

احمد فرازؔ



خواب مرتے نہیں ۔ احمد فراز

خواب مرتے نہیں

خواب مرتے نہیں
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں

خواب تو روشنی ہیں
نوا ہیں
ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظُلم کے دوزخوں سے بھی پُھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جُھکتے نہیں

خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں

احمد فراز


[ہفتہ ٴ غزل] ۔ پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے ۔ احمد فراز

آج کی معروف غزل

پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے
جسے قرار نہ آیا کہیں بھلا کے مجھے

جدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ ملیں
فریب دو تو ذرا سلسلے بڑھا کے مجھے

نشے سے کم تو نہیں یادِ یار کا عالم
کہ لے اُڑا ہے کوئی دوش پر ہوا کے مجھے

میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گے آئینہ دکھا کے مجھے

تمہارے بام سے اب کم نہیں ہے رفعتِ دار
جو دیکھنا ہو تو دیکھو نظر اٹھا کے مجھے

کھنچی ہوئی ہے مرے آنسوؤں میں اک تصویر
فراز دیکھ رہا ہے وہ مسکرا کے مجھے

احمد فراز

نظم ۔۔۔ میں اور تو ۔۔۔ احمد فرازؔ


روز جب دھوپ پہاڑوں سے اترنے لگتی
کوئی گھٹتا ہوا بڑھتا ہوا بے کل سایہ
ایک دیوار سے کہتا کہ میرے ساتھ چلو
اور زنجیرِ رفاقت سے گریزاں دیوار
اپنے پندار کے نشے میں سدا ایستادہ
خواہشِ ہمدمِ دیرینہ پہ ہنس دیتی تھی
کون دیوار کسی سائے کے ہمراہ چلی
کون دیوار ہمیشہ مگر ایستادہ رہی
وقت دیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق
اور اب سنگ و گل و خشت کے ملبے کے تلے
اسی دیوار کا پندار ہے ریزہ ریزہ
دھوپ نکلی ہے مگر جانے کہاں ہے سایہ

احمد فرازؔ

دو شاعر ایک ترنگ ۔ ۲

ایک ہی زمین میں دو معروف شعراء، جاں نثآر اخترؔ اور احمد فرازؔ کی غزلیات پیشِ خدمت ہیں۔ دونوں ہی خوب ہیں اور اپنی مثال آپ ہیں۔

غزلیات

زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں، ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خونِ شہیداں ہم نہ کہتے تھے

علاجِ چاکِ پیراہن ہوا تو اِس طرح ہوگا
سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے

ترانے، کچھ دبے لفظوں میں خود کو قید کرلیں گے
عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے

کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جا کے دفنا دے
اِنھیں سڑکوں پر مرجائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے

نظر لپٹی ہے شعلوں میں، لہو تپتا ہے آنکھوں میں
اُٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے

چھلکتے جام میں بھیگی ہوئی آنکھیں اُتر آئیں
ستائے گی کسی دن یادِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی
اُجڑ جائے گا یہ شہرِ غزالاں ہم نہ کہتے تھے

جاں نثار اخترؔ

******

اماں مانگو نہ اُن سے جاں فگاراں ہم نہ کہتے تھے
غنیمِ شہر ہیں چابک سواراں ہم نہ کہتے تھے

خزاں نے تو فقط ملبوس چھینے تھے درختوں سے
صلیبیں بھی تراشے گی بہاراں ہم نہ کہتے تھے

ترس جائیں گی ہم سے بے نواؤں کو تری گلیاں
ہمارے بعد اے شہرِ نگاراں ہم نہ کہتے تھے

جہاں میلہ لگا ہے ناصحوں کا، غمگساروں کا
وہی ہے کوچۂ بے اعتباراں ہم نہ کہتے تھے

کوئی دہلیزِ زنداں پر کوئی دہلیزِ مقتل پر
بنے گی اس طرح تصویرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

فرازؔ اہلِ ریا نے شہر دشمن ہم کو ٹھہرایا
بس اس کارن کہ مدحِ شہرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

احمد فرازؔ

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

غزل

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے

میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے ، اے صاحبِ دریا میرے

مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے

دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے

احمد فراز

محاصرہ ۔ ایک لازوال نظم

آج سے دس بارہ سال پہلے اکیڈمی ادبیات نے مزاحمتی ادب کے نام سے ایک انتخاب شائع کیا تھا۔ اس انتخاب میں ایسا کلام شائع کیا گیا تھا جو مختلف ادوار میں ظلم و استبداد کے خلاف لکھا گیا۔ اس میں زیادہ تر کلام وہ ہے جو اُن ادوار میں لکھا گیا جب فوجی آمریت نے ملک پر شب خون مارا۔ اس موضوعاتی انتخاب میں بہت عمدہ کلام پیش کیا گیا ہے۔ اس اعلیٰ ترین انتخاب میں بھی جو نظم مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ کوئی اور نہیں بلکہ احمد فرازؔ کی محاصرہ ہی تھی۔ محاصرہ ایسی نظم ہے جو ظلم و جبر کے خلاف واضح اور واشگاف انکار ہے جو تمام تر جبر، خوف اورسمجھوتے کی شکل میں ملنے والی مراعات ، مفادات اور دیگر ترغیبات کے باوجود حق و باطل کا ادارک نہیں کھونے دیتی۔ یہاں فراز صاحب نے اُن لوگوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جو یوں تو حق کی بات کرتے ہیں لیکن مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی بے ضمیر سے سمجھوتے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ میرے نزدیک محاصرہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اب تک کی بہترین تخلیق ہے۔ اور اس پر احمد فراز کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے لیکن بقول فراز صاحب کے:
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ ہم بھی کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
سو فراز صاحب جیسی قد آور شخصیت کو سراہنا بھی سورج کو چراغ دکھانے والی ہی بات ہے لیکن کیا کریں کہ ۔ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ یوں تو گوگل پر تلاش کی کل دباتے ہی محاصرہ کے بے شمار ربط نظر آئیں گے لیکن یہ وہ نظم ہے کہ میری خواہش ہے کہ جب لوگ ویب پر اس نظم کو تلاش کریں تو سینکڑوں روابط میں سے ایک ربط میرے بلاگ کا بھی ہو۔ مزید کچھ کہے بغیر ایک بار پھر اس خوبصورت تخلیق سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ محاصرہ میرے غنیم نے مجھکو پیام بھیجا ہے کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اُسکے فصیل شہر کے ہر برج، ہر مینارے پر کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے وہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جسکی تپش وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی بچھا دیا گیا بارود اسکے پانی میں وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے سپرد ِدار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام امید ِلطف پہ ایوان ِکجکلاہ میں ہیں معززین ِعدالت حلف اٹھانے کو مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے وہ آسمان ِہنر کے نجوم سامنے ہیں بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا گداگران ِسخن کے ہجوم سامنے ہیں قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو تمھارے ساتھ ہے کون؟‌آس پاس تو دیکھو تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے تو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لیے کہ مجھکو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
احمد فرازؔ