عوام الناس لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عوام الناس لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کرکٹ آزار اور کراچی

 

کراچی والے کرکٹ سے محبت کرتے ہیں جن میں سے ایک تو راقم تحریر خود ہے۔

کرکٹ کا کھیل بچپن سے لے کر آج تک اس خاکسار کے لیے باعثِ دلکشی رہا ہے۔ بچپن میں ہم بلّے کے حصول کے لئے گیندیں گھما گھما کر پھینکنے کے عادی رہے ہیں، اور بلّا مل جانے پر اکثر گیند بزورِ بلّا گم کر دینے کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ تاہم، ہمیں یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا کہ ان معصوم خطاؤں کی کیا بھیانک سزا ہمیں مستقبل میں بھگتنی ہوگی۔

بچپن کے رخصت ہوتے ہوتے دیگر کھیلوں کی طرح یہ کھیل بھی ہم سے چھٹ گیا تاہم کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلوں سے جو دلی وابستگی قائم ہوئی، وہ آج بھی قائم ہے۔ بالخصوص مملکت ِ خداداد کی خداداد صلاحیتوں اور نالائقیوں کی حامل ٹیم جب کبھی میدان میں اترتی ہے تو خاکسار شرمسار ہونے سے پہلے اور اکثر بعد تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔

ایسی الجھی نظر اُن سے ہٹتی نہیں
دانت سے ریشمی ڈور کٹتی نہیں


عمر کب کی برس کے سفید ہو گئی لیکن یہ موئے سیاہ کی مانند کرتوت والے 'لڑکے' تا حال ہماری جان کے درپے ہیں۔ اور ہم بھی پیرویِ میر میں انہی لڑکوں سے اب تک دوا لے رہے ہیں۔

ہم فقیروں کو کچھ آزار تمھیں دیتے ہو
یوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں


سچی بات تو یہ ہے کہ عین شہر کے قلب میں شدید ترین حفاظتی انتظامات کے تحت ہونے والی کرکٹ، کرکٹ کے دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کرتی ہے۔ نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف کی سڑکیں کئی کئی دن بندش کے ادوار سے گزرتی ہیں اور اپنے اپنے اسکول، کالج، دفتر، دوکان، ہسپتال اور قبرستان جانے والے کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر پھنسے رہتے ہیں اور یوں یہ کرکٹ کا مزیدار کھیل لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔

سڑکوں کی بے جا بندش کرکٹ بیزاروں کو ہمارے کان کترنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور ہم خود سڑکوں پر پہروں پھنسے رہنے کے باعث کرکٹ سے بیزار اور کرکٹ بیزاروں کے آگے شرمسار نظر آتے ہیں۔

ہماری حکامِ بالا و زیریں اور میانِ بالا و زیریں سے مودبانہ گزارش ہے کہ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں اور خط کو تار سمجھیں اور ان کرکٹ میچوں کو شہر کے کسی دور افتادہ مقام پر منعقد کروایا جائے کہ جہاں عوام الناس کے شب و روز کرکٹ میچز کے حفاظتی انتظامات سے متاثر نہ ہوں۔ اسی میں کراچی، کرکٹ اور عوام الناس کی بھلائی ہے۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر




لوکل پریسٹیج | مقامی وقار

لوکل پریسٹیج

 

کیا غیر معیاری چیزیں لوکل ہوتی ہیں؟

ہمارے ہاں عوام الناس اکثر غیر معیاری اشیاء کے لئے لوکل کا لفظ استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ لوکل انگریزی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب "علاقائی" یا "مقامی" ہے ۔ دراصل یہ اصطلاح ہمارے علاقائی دوکاندار استعمال کرتے ہیں اور کسی بھی غیر معیاری چیز کو لوکل کہہ کر بے وقعت کر دیتے ہیں۔ اور کسی بھی معیاری چیز کو اُس 'لوکل' شے کے مقابل لا کر رکھ دیتے ہیں۔ اُنہی سے عوام الناس خاص طور پر وہ لوگ جو انگریزی زبان سے زیادہ علاقہ نہیں رکھتے ، یہ بات سیکھ لیتے ہیں۔

اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دیسی ساختہ چیزیں اکثر غیر معیاری ہی ہوا کرتی ہیں اور اُن کی بہ نسبت باہر سے درامد شدہ اشیاء کا معیار کچھ بہتر ہوتا ہے۔ تاہم یہ کُلیہ کہ تمام تر لوکل چیزیں غیر معیاری ہوتی ہیں سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے اور بہت سی دیسی ساختہ اشیاء اپنے معیار کے اعتبار سے بہترین درجے کی بھی ہوتی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس کچھ ایسی اشیاء بھی غیر معیاری ہوتی ہیں جو باہر ممالک سے امپورٹ کی جاتی ہیں اور وہ دیسی ساختہ اشیاء سے مقابلہ نہیں کر پاتیں۔

سو ہمیں چاہیے کہ غیر معیاری اشیاء کو براہِ راست لوکل نہ کہیں بلکہ غیر معیاری یا ہلکی ہی کہیں ۔ تاکہ مقامی اشیاء سازوں کی حوصلہ شکنی نہ ہو اور مقامی اشیاء کا وقار اور بتدریج معیار بہتر ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔

آج کے تمام تر ترقی یافتہ ممالک اپنی مقامی صنعت کو فروغ دیتے ہیں اور مقامی لوگ پہلے مقامی ساختہ مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر بعد میں درامد شدہ مصنوعات کی طرف جاتے ہیں۔ اس سے اُن کا زرِ مبادلہ بچتا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اُن کی کرنسی مضبوط ہوتی ہے۔

یہ تھی آج کی چھوٹی سی بات جو اتنی چھوٹی بھی نہیں ہے۔