محاصرہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
محاصرہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

محاصرہ ۔ ایک لازوال نظم

آج سے دس بارہ سال پہلے اکیڈمی ادبیات نے مزاحمتی ادب کے نام سے ایک انتخاب شائع کیا تھا۔ اس انتخاب میں ایسا کلام شائع کیا گیا تھا جو مختلف ادوار میں ظلم و استبداد کے خلاف لکھا گیا۔ اس میں زیادہ تر کلام وہ ہے جو اُن ادوار میں لکھا گیا جب فوجی آمریت نے ملک پر شب خون مارا۔ اس موضوعاتی انتخاب میں بہت عمدہ کلام پیش کیا گیا ہے۔ اس اعلیٰ ترین انتخاب میں بھی جو نظم مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ کوئی اور نہیں بلکہ احمد فرازؔ کی محاصرہ ہی تھی۔ محاصرہ ایسی نظم ہے جو ظلم و جبر کے خلاف واضح اور واشگاف انکار ہے جو تمام تر جبر، خوف اورسمجھوتے کی شکل میں ملنے والی مراعات ، مفادات اور دیگر ترغیبات کے باوجود حق و باطل کا ادارک نہیں کھونے دیتی۔ یہاں فراز صاحب نے اُن لوگوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جو یوں تو حق کی بات کرتے ہیں لیکن مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی بے ضمیر سے سمجھوتے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ میرے نزدیک محاصرہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اب تک کی بہترین تخلیق ہے۔ اور اس پر احمد فراز کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے لیکن بقول فراز صاحب کے:
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ ہم بھی کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
سو فراز صاحب جیسی قد آور شخصیت کو سراہنا بھی سورج کو چراغ دکھانے والی ہی بات ہے لیکن کیا کریں کہ ۔ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ یوں تو گوگل پر تلاش کی کل دباتے ہی محاصرہ کے بے شمار ربط نظر آئیں گے لیکن یہ وہ نظم ہے کہ میری خواہش ہے کہ جب لوگ ویب پر اس نظم کو تلاش کریں تو سینکڑوں روابط میں سے ایک ربط میرے بلاگ کا بھی ہو۔ مزید کچھ کہے بغیر ایک بار پھر اس خوبصورت تخلیق سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ محاصرہ میرے غنیم نے مجھکو پیام بھیجا ہے کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اُسکے فصیل شہر کے ہر برج، ہر مینارے پر کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے وہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جسکی تپش وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی بچھا دیا گیا بارود اسکے پانی میں وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے سپرد ِدار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام امید ِلطف پہ ایوان ِکجکلاہ میں ہیں معززین ِعدالت حلف اٹھانے کو مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے وہ آسمان ِہنر کے نجوم سامنے ہیں بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا گداگران ِسخن کے ہجوم سامنے ہیں قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو تمھارے ساتھ ہے کون؟‌آس پاس تو دیکھو تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے تو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لیے کہ مجھکو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
احمد فرازؔ