سوشل میڈیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سوشل میڈیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کتاب پڑھنا کیوں ضروری ہے؟​


ہم حیران ہوتے ہیں ، ہم سے مراد وہ لوگ جنہوں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو اپنی آنکھوں کے سامنے نمو پاتے ہوئے دیکھا ہے اور جن لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے میں اچھی خاصی جگہ بنا لی ، بلکہ یوں کہیے کہ یہ ہم میں سے بیشتر کے حواس پر چھا گیا۔

ہم سب حیران ہوتے ہیں اور اکثر حیران ہوتے ہیں کہ ہم اِس زلفِ گرہ گیر کے اسیر کیسے ہو گئے۔ ہم جو ایک زمانے میں کتابوں سے جڑے رہتے تھے، کتابیں پڑھتے پڑھتے نیند کی آغوش میں چلے جاتے اور صبح اُٹھتے ساتھ ہی تکیے کی نیچے سے پھر کتاب نکال کر وہیں سے شروع ہو جاتے ، ہم کس طرح انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے چُنگل میں اس بُری طرح پھنس گئے کہ اِس سے اب جان چھوٹتی نظر نہیں آتی۔

ہم میں سے بیشتر نے اس کا شکوہ بھی کیا، گلزار صاحب نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم "کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے " لکھی اور بھی کئی لوگوں نے گاہے گاہے اس موضوع پر اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن یہ سب اظہاریے اور شکوے ، شکوے کم اور اپنی بے بسی کا اظہار زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جو کتابیں پڑھنے والے لوگ تھے، اب ہماری اکثریت سوشل میڈیا پر موجود تحریریں پڑھنے تک محدود کیوں ہو گئی ہے؟

شاید آپ یہ کہیں کہ بیشتر لوگ جو دن میں ایک صفحہ بھی نہیں پڑھتے تھے اب ان جانے میں کئی کئی صفحات کے برابر مواد سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر پڑھ لیتے ہیں۔ اور یہ سوشل میڈیا کی خوبی ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگوں کی حد تک تو یہ واقعی ایک اچھی بات ہے۔ لیکن اگر اُن سنجیدہ قارئین کو دیکھا جائے جو پہلے کُتب بینی کے عادی تھے اور اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی تحریروں تک محدود ہو گئے ہیں تو اُن کے لئے یہ بہت بڑے نقصان کا سودا ہے۔

ذیل میں ہم سوشل میڈیا پر ملنے والے تحریری مواد اور باقاعدہ کتب کا ایک مختصر موازنہ کریں گے۔ باقاعدہ کتب سے مراد وہ کتابیں ہیں جو لکھی گئی اور شائع کی گئی، ان میں ای بکس وغیر ہ بھی شامل ہیں۔

کتابیں (کاغذ پر چھپی کتابیں اور ای بُکس وغیرہ)
سوشل میڈیا تحریریں
باقاعدہ کتابیں (اب سے ہم صرف کتابیں کہیں گے) باقاعدہ مصنفین کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جو کہ ناصرف پڑھنے لکھنے کے ہنر سے واقف ہوتے ہیں ۔ بلکہ اُن میں سے بیشتر اوسط علم و ذہانت سے زیادہ ذہین و فطین ہوتے ہیں، اور اپنے وسیع مطالعے کے باعث زیادہ علم والے بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ اُن میں سے کچھ تو عبقری اذہان کے حامل نابغہ روزگار شخصیات ہوتی ہیں۔
سوشل میڈیا پرلکھنے والے ہمارے آپ کے جیسے اوسط علم و ذہانت کے حامل ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو محض پروپیگنڈہ کے لئے لکھ رہے ہوتے ہیں کافی پست ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔
یوں تو بہت سی کتابیں بھی اتفاقاً ہمارے پاس چلی آتی ہیں لیکن زیادہ تر کُتب کی اصناف و مضامین کا انتخاب ہمارے پاس ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر موضوعات اکثر ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں اور ہم اپنے انتخاب کا اختیار کسی حد تک دوسروں کو دے دیتے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی بہ نسبت ، کتابوں میں ہمیں زیادہ موضوعات اور تنوع مل سکتا ہے کہ اکثر یہ ہمارا اپنا انتخاب ہوتی ہیں اورکسی پروپیگنڈے کے تحت ہم پر مسلط نہیں کی جاتیں۔
سوشل میڈیا پر موضوعات میں تنوع بہت کم ہوتا ہے اور اکثر تحریریں محض بہاؤ میں بہنے والے مضامین لیے ہوتی ہیں ۔
سوشل میڈیا کی بہ نسبت ، کتابوں میں ہمارے لئے اثر پذیری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور اِن میں سے اچھی کتابوں کی رسائی ہماری درونی کیفیات تک ہوجاتی ہے، کہ جس تجربے سے گزرنا بڑے نصیب کی بات ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا مضامین کے پیچھے اکثر سطحی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے اور ہمیں عموماً ایسی تحاریر پڑھنے کو نہیں ملتی جن میں واقعتاً گہرائی اور گیرائی کا عنصر موجود ہو۔
کتاب اپنے موضوعات کا احاطہ بڑی جامعیت کے ساتھ کرتی ہیں، اور ان میں فصاحت و بلاغت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
جبکہ سوشل میڈیا تحریر عموماً یک تہی اور اکثر ناقص الخیال ہوتی ہیں۔


مزے کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایجاد کرنے والے امریکیوں کی ایک غالب اکثریت اب بھی کتابیں پڑھتی ہے۔ جن میں طبع شدہ کتابوں کا تناسب اب بھی ای بکس اور آڈیو بکس سے زائد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تہتر فیصد بالغ افراد اب بھی امریکہ میں کتابیں پڑھتے ہیں۔ اور بیشتر لوگوں کے ریڈرز، ٹیب اور فونز میں ہمہ وقت کتابیں موجود رہتی ہیں۔


اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر محض چھوٹی چھوٹی مجہول تحریریں پڑھتے رہنا آپ کے مطالعے کے شوق اور ضرورت کو اُسی طرح پورا کرتی ہیں کہ جیسے پہلے کبھی کتابیں کیا کرتیں تھیں تو پھر آپ کو ایک بار پھر سے اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکی مصنف اور مزاح نگار مارک ٹوئین کا کہنا ہے کہ جو شخص کتابیں نہیں پڑھتا ، اُس شخص سے کسی طرح بہتر نہیں ہے جو پڑھنا ہی نہیں جانتا۔ اسی بات کو اردو میں پڑھ لکھ کر گھاس کاٹنا کہا جاتا ہے۔

ہمارا یہ کہنا ہے کہ کتابوں کے لئے اپنے وسائل بالخصوص وقت میں سے کچھ حصہ ضرور صرف کریں یہ یقیناً آپ کے اور آپ کی آنے والی نسل کے مستقبل کے لئے بہترین سرمایہ کاری ثابت ہوگی۔

تحریر: محمد احمد​



***

Why Book Reading is important?

سوشل میدیا اسٹیٹس یا دُکھوں کے اشتہار

سوشل میدیا اسٹیٹس یا دُکھوں کے اشتہار
از : محمد احمدؔ

پہلے دنیا میں عمومی طور پر دو طرح کے لوگ ہوتے تھے۔ یعنی لوگ دوطرح کے رویّے رکھتے تھے۔ کچھ لوگ ایکسٹروورٹ (باہر کی دُنیا میں جینے والے) ہوتے تھے اور چاہتے تھے کہ جو کچھ اُن پر بیت رہی ہے وہ گا گا کر سب کو بتا دیں ۔ وہ ایک ایک کو پکڑتے اور اپنا غم خوشی اُس کے گوش و گزار کر دیتے اور اس طرح اُنہیں صبر آ جاتا تھا۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے جو انٹروورٹ (اپنے دل کی دنیا میں بسنے والے) ہوتے اور جو اپنے دل کی بات اپنے دل میں ہی رکھتے تھے ۔ کسی کو نہ بتاتے کہ اُن پر کیا بیت رہی ہے یا وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ دوست احباب اُن کی اُداسی کا سبب پوچھ پوچھ کر مر جاتے لیکن وہ کچھ نہ بتاتے۔ کبھی موسم کا بہانہ کر دیتے تو کبھی طبیعت کا۔

لیکن جب سے ہماری زندگیوں میں سوشل میڈیا کی آمد ہوئی ہے ۔ ہم میں سے انٹروورٹ لوگ بہت کم ہی رہ گئے ہیں ۔ جو اپنے دوستوں اور اقرباء سے کچھ نہیں کہہ پاتے وہ بھی سوشل میڈیا پر اپنے غموں کے اشتہار سجا دیتے ہیں۔ اور ایسی ایسی باتیں ادھر اُدھر سے اُٹھا کر چپکا دیتے ہیں کہ اگر وہ بات کوئی اور اپنی طرف سے اُن سے کہے تو اُنہیں معیوب محسوس ہو۔

سچی بات تو یہ ہے کہ پہلے دنیا بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی۔ پہلے لوگوں کے دُکھ اُن کے دلوں میں ہوتے تھے یا قریبی دوستوں کے سینوں میں۔ لیکن اب ہر شخص کے دُکھ سوشل میڈیا / اسٹیٹس پر جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ اور لوگ خوشی کو ضرب دینے اور دُکھوں کو مختصر کرنے کی حکایت بھول چُکے ہیں۔

آپ کو ایک دوست کی طرف سے کوئی غلط فہمی ہو گئی ۔ آپ نے سوشل میڈیا سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر 19 جلی کٹی تصاویر اور اقوال اپنے فیس بک یا واٹس ایپ اسٹیٹس پر لگا دیے۔ جنہیں 34 لوگوں نے دیکھا اور نہ جانے کیا کیا سوچا۔

کچھ نے یہ سوچا کہ نہ جانے آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے اور کچھ نے یہ سوچا کہ یہ دنیا اور اُس کے لوگ اور لوگوں کے رویّے کس قدر بدصورت ہیں اور کچھ نے آپ کے مظلومیت کے فریم میں اپنی تصویر جڑ دی۔ اور نتیجتاً یہ دُنیا مزید ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ اور آپ دُکھوں کی ترویج کرنے والے بن گئے۔ اور آپ نے جانے انجانے میں نہ جانے کتنے چہروں سے مُسکراہٹیں چھین لیں۔

شام تک آپ کی اپنے دوست کے ساتھ ہو جانے والی غلط فہمی دور ہو گئی اور آپ کے درمیان مُسکراہٹوں کے تبادلے شروع ہو گئے۔ لوگ اب بھی اسٹیٹس دیکھ کر آپ کو زود رنج کہہ رہے ہیں یا دُنیا کو کوس رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم اتنے بے صبرے کیوں ہو گئے کہ معمولی معمولی باتوں پر ہمارےصبر کا پیمانہ چھلک جاتا ہے اور ہمار ے اسٹیٹس رشتے ناطوں اور احباب کے خلاف زہر میں بجھے تیر بن جاتے ہیں اور اُس سے جانے انجانے میں نہ جانے کون کون زخمی ہو جاتا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے رویّوں میں اعتدال کی شدید ضرورت ہے۔

سو اسٹیٹس لکھنے یا منتخب کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیے کہ جن پچیس تیس لوگوں نے یہ اسٹیٹس دیکھنا ہے کیا یہ بات میں اُن سب کے سامنے بھی اسی طرح کہہ سکوں گا اگر ہاں تو ضرور لکھیے لیکن اگر آپ کو لگے کہ اُن میں سے ایک بھی شخص سے میں یہ بات منہ در منہ نہیں کہہ سکوں گا تو پھر آپ کو یقیناً سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے اسٹیٹس بظاہر آپ کو اوجھل رکھتے ہیں لیکن دراصل آپ اپنے جملہ خیالات(اور وقتی جذبات و اشتعالات سمیت) سب کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں۔

اسٹیٹس ضرور لگائیے اور جتنے دل چاہے لگائیے مگر زیادہ تر کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آپ کے اسٹیٹس دیکھنے والے آپ کے بارے میں اچھی رائے قائم کریں اور آپ کا اسٹیٹس اُن کے من میں مسکراہٹوں کے پھول کھلائے۔ مزید یہ کہ اگر کسی سے شکوہ گلہ بھی کرنا ہے تو مہذب ترین لہجے میں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ آپ ایک اچھی محفل کے ایک اچھے شریک کی حیثیت سے کیا کرتے ہیں۔