محمد احمد کی نظم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
محمد احمد کی نظم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

نظم ۔ راہ مسدود ہے ۔ محمد احمد

راہ مسدود ہے 

ہر طرف کتنی چھوٹی بڑی گاڑیاں
آڑی ٹیڑھی پھنسی بیچ چوراہے پر
ڈرائیور* پان کی پیک منہ میں لئے
گالیاں دے رہے ہیں ہوا میں کسی 
دوسرے ڈرائیور کا تصوّر کیے

پان کی پیک، بس کا دھواں 
ڈرائیور کے غلاظت بھرے 
منہ سے اُگلی ہوئی گالیاں
جُز تعفّن نہیں کچھ، نہیں کچھ یہاں

نظم مفقود ہے
راہ مسدود ہے

اُس کو جانے کی جلدی تھی 
اُس نے غلط راہ لی
اُس کی جلدی کا عفریت 
کتنے ہی لوگوں کے معمول کو کھا گیا
اب سبھی گاڑیاں  
راستے میں پھنسی ہیں 
کئی ہاتھ ہارن سے چمٹے ہوئے ہیں
مگر کوئی بڑھ کر کہاں دیکھتا ہے
کہ سُلجھاؤ کا  راستہ ہے کہاں

سوچ مفقو د ہے
راہ مسدود ہے

محمد احمدؔ

نوٹ: انگریزی لفظ ڈرائیور کو فاعلن کے وزن پر باندھا گیا ہے  جو اپنے اصل تلفظ سے زیادہ قریب ہے۔ 


نظم: حیرت ۔ از ۔ محمد احمد

حیرت

ایک بستی تماش بینوں کی
،اک ہجوم
اژدھام لوگوں کا
دیکھ میرے تنِ برہنہ کو
ہنستا ہے
قہقہے لگاتا ہے
اور میں ششدر ہوں
دیکھ کر اُن کو
سب کے سب لوگ ہیں برہنہ تن ۔

محمد احمدؔ

مختصر نظم ۔۔۔ نیا دور، نئے طور ۔۔۔ محمد احمدؔ

نیا دور، نئے طور

یہ نیا زمانہ ہے
اس نئے زمانے میں
اب وہ سب نہیں ہوتا
وہ جو پہلے ہوتا تھا
پہلے دو فریقوں میں
ایک جھوٹا ہوتا تھا

محمد احمدؔ

نظم : منظر سے پس منظر تک


کھڑکی پر مہتاب ٹکا تھا
رات سنہری تھی
اور دیوار پہ ساعت گنتی
سَوئی سَوئی گھڑی کی سُوئی
چلتے چلتے سمت گنوا کر غلطاں پیچاں تھی
میں بھی خود سے آنکھ چُرا کر
اپنے حال سے ہاتھ چھڑا کر
برسوں کو فرسنگ بنا کر
جانے کتنی دور چلا تھا 
جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا
دھندلے دھندلے چہرے کیسے رنگ رنگیلے تھے
پیلے پیلے پھول تھے، آنچل نیلے نیلے تھے
کیا چمکیلی آنکھیں ، کیسے خواب سجیلے تھے
لیکن آنکھیں نم تھیں، منظر سِیلے سیلے تھے
اک چہرہ تھا روشن جیسے چاند گھٹاؤں میں
اک مسکان تھی جیسے بکھریں رنگ فضاؤں میں
منظر منظر تکتا جاتا ، چلتا جاتا میں
اِ س منظر سے اُس منظر تک بڑھتا جاتا میں
اک تصویر کو رُک کر دیکھا ، رُک نہیں پایا میں
اِس کھڑکی سے اُس آنگن تک جھُک نہیں پایا میں
جیسے اُس شب چلتے رہنا قسمت ٹھیری تھی
میرے تعاقب میں 
یادوں کی پچھل پیری تھی

محمد احمدؔ

شاعری (ایک نظم)

شاعری

رات خوشبو کا ترجمہ کرکے
میں نے قرطاسِ ساز پر رکھا
صبح دم
چہچہاتی چڑیا نے 
مجھ سے آکر کہا
یہ نغمہ ہے
میں نے دیکھا 
کہ میرے کمرے میں
چارسو تتلیاں پریشاں ہیں
اور دریچے سے جھانکتا اندر
لہلاتا گلاب تنہا ہے

محمد احمدؔ


رشک بھرے دو سوال

کاسنی رنگ کا 
وہ جو چھوٹا سا پھول اُس کے بالوں میں ہے
کن خیالوں میں ہے؟

اور آویزے جو 
جھلملاتے ہوئے اُس کے کانوں میں ہیں
کن اُڑانوں میں ہیں؟

محمد احمدؔ

نظم ۔ منزل تمھاری ہے ۔ محمد احمد

منزل تمھاری ہے
(مرکزی خیال ماخوذ)
اگر تم دل گرفتہ ہو
کہ تم کو ہار جانا ہے
تو پھر تم ہار جاؤ گے
اگر خاطر شکستہ ہو
کہ تم کچھ کر نہیں سکتے
یقیناً کر نہ پاؤ گے

یقیں سے عاری ہو کر
منزلوں کی سمت چلنے سے
کبھی منزل نہیں ملتی
کبھی کنکر کے جتنے حوصلے والوں 
سے بھاری سل نہیں ہلتی

زمانے میں ہمیشہ کامیابی
اُن کے حصے میں ہی آتی ہے
جو اول دن سے اپنے ساتھ 
اک عزمِ مصمّم لے کے چلتے ہیں
کہ جن کے دل میں عزم و حوصلہ اک ساتھ پلتے ہیں

اگر تم چاہتے ہو کامیاب و کامراں ہونا 
تو بس رختِ سفر میں
تم یقین و عزم کی مشعل جلا رکھنا
سفر دشوار تر ہو 
تب بھی ہمت، حوصلہ رکھنا

سفر آغاز جب کرنا 
تو بس اتنا سمجھ لینا 
جہاں میں کامیابی کی یقیں والوں سے یاری ہے
اگر تم بھی یقیں رکھو 
تو پھر منزل تمھاری ہے۔

محمد احمدؔ

اس نظم کا مرکزی خیال انگریزی زبان کی ایک نظم (The Man Who Thinks He Can) سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم مجھے بہت پسند ہے ۔ میں نے کوشش کی کہ اس کا ترجمہ کروں، لیکن ساتھ ساتھ یہ احساس بھی رہا کہ شاید میں ترجمے کا حق ادا نہیں کر سکوں گا۔ پھر اگر میں اس نظم کا من و عن منظوم ترجمہ کر بھی دیتا تو یہ ترجمہ شاید اردو زبان کے مزاج سے لگا نہیں کھاتا، سو میں نے اس نظم کا مرکزی خیال لے کر اپنی سی ایک کوشش کی ہے۔ انگریزی نظم بھی آپ کے مطالعے کے لئے پیش ہے۔ 

      The Man Who Thinks He Can
If you think you are beaten, you are;
If you think you dare not, you don’t!
If you’d like to win, but think you can’t,
It’s almost a cinch that you won’t.
If you think you’ll lose, you’re lost
For out in the world we find
Success begins with a fellow’s will;
It’s all in the state of mind!
If you think you’re outclassed, you are;
You’ve got to think high to rise.
You’ve got to be sure of yourself
Before you can win the prize.
Life’s battles don’t always go
To the strongest or fastest man;
But sooner or later the man who wins
Is the man who thinks he can! 
- Walter D. Wintle

ایک خیال کی رو میں ۔۔۔

ایک خیال کی رو میں ۔۔۔

کہیں سنا ہے
گئے زمانوں میں
لوگ جب قافلوں کی صورت
مسافتوں کو عبور کرتے
تو قافلے میں اک ایسا ہمراہ ساتھ ہوتا
کہ جو سفر میں
تمام لوگوں کے پیچھے چلتا
اور اُس کے ذمّے یہ کام ہوتا
کہ آگے جاتے مسافروں سے
اگر کوئی چیز گر گئی ہو
جو کوئی شے پیچھے رہ گئی ہو
تو وہ مسافر
تمام چیزوں کو چُنتا جائے
اور آنے والے کسی پڑاؤ میں ساری چیزیں
تما م ایسے مُسافروں کے حوالے کردے
کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
اپنے رستے تو پاٹ آئے
پر اپنی عجلت میں کتنی چیزیں
گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے

میں سوچتا ہوں
کہ زندگانی کے اس سفر میں
مجھے بھی ایسا ہی کوئی کردار مل گیا ہے
کہ میرے ہمراہ جو بھی احباب تھے
منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
راستوں پر بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
میں سب سے پیچھے ہوں اس سفر میں
سو دیکھتا ہوں کہ راستے میں
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں
جگہ جگہ پر پڑی ہوئی ہیں
میں اپنے خود ساختہ اُصولوں کی
زرد گٹھری میں ساری چیزیں سمیٹتا ہوں
اور اپنے احساس کے جلو میں
ہر اک پڑاؤ پہ جانے والوں کو ڈھونڈتا ہوں
پر ایسا لگتا ہے
جیسے میرے تمام احباب منزلوں کو گلے لگانے
بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
یا میں ہی شاید
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں سمیٹنے میں کئی زمانے بتا چکا ہوں۔


محمد احمدؔ

حصہ (ایک سادہ سی نظم ) ۔ برائے یومِ تعلیم ۔ ہفتہ بلاگستان

اظہارِ تاسف کے بہت سے مواقع ہماری زندگی میں آتے ہیں اوراکثر ہمیں اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا لمحاتی اظہارِ رنج کسی کی محرومی پر ہے یا اپنی نا اہلی پر۔ یہاں کہیں کہیں امید کے موہوم ستارے موجود ہوتے ہیں جنہیں اپنائیت کا عدسہ لگائے بغیر دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ جو بات کسی کے لئے نا ممکنات میں سے ہو ہمارے ذرائع اور وسائل کے لحاظ سے انتہائی معمولی ہو۔

اگر ہمارے ارد گرد پھیلے مناظرِ فطرت اور زندگی کی رنگا رنگی میں ہمارا بھرپور حصہ ہے تو پھر حسن و زندگی کے عدم توازن پر تشویش بھی ہمارا فرض ہے۔ اور یوں بھی خوابوں کے عکس میں تعبیروں کے رنگ بھرنے سے جو سرخوشی اور سرشاری نصیب ہوتی ہے وہ اور کسی طرح ممکن ہی نہیں۔ خواب ہمارے ہوں یا کسی اور کے خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں۔
جاگتی آنکھوں کے کچے رنگوں سے گندھے ایک خواب کی کہانی (ایک سادہ سی نظم )پیشِ خدمت ہے ۔گر قبول افتد زہے عزّو شرف۔۔۔


کوئلے سے دیواریں کالی کرتا ہے
اس بچے کے پاس قلم نہ بستہ ہے

ایک کتاب چُرا لایا ہے آج بھی وہ
آج بھی سب سے چھپ کر اُس کو تکتا ہے

اُجلے پیراہن میں ہنستے بچوں کو
روز مدرسے جا کر دیکھا کرتا ہے

کیا میں بھی اک روز مدرسے جاؤں گا
روز سویرے اُٹھ کر سوچا کرتا ہے

آنکھوں میں قندیلیں جلتی رہتی ہیں
چہرے پر اک سایہ لرزاں رہتا ہے

جس قطرے کو ہوا اُڑائے پھرتی ہے
سیپ میں ہو تو موتی بھی ہو سکتا ہے

کوئلے سے لکھی تحریریں پوچھتی ہیں
اس بچے سے کس کا کیا کیا رشتہ ہے

مانا اپنے خوابوں میں وہ تنہا ہے
تعبیروں میں تو ہم سب کا حصّہ ہے

محمد احمدؔ



۔ یہ نظم اس سے پیشتر جنوری 2008 میں محفلِ سُخن میں بھی پیش کی جاچکی ہے
۔ لفظ "مدرسہ" کو غلط العام تلفظ پر باندھنے پر اہلِ فن سےمعذرت۔