تجھے ملا تھا مگر جانے کہا میں نے
وہ ایک بات جو سوچی تھی تجھ سے کہہ دوں گا
تجھے ملا تو لگا، وہ بھی کہہ چکا ہوں کبھی
کچھ ایسا لگتا ہے تجھ سے کبھی کہی ہوں گی
ترے خیال سے غافل نہیں ہوں تیری قسم
گلزار
![]() |
Gulzar - Urdu Poet |
![]() |
Gulzar - Urdu Poet |
شاذ تمکنت صاحب کی ایک خوبصورت غزل ہم نے سن 2013ء میں رعنائی خیال پر پر لگائی تھی۔ آج شاذ صاحب کی ایک اور غزل قارئینِ بلاگ کے عمدہ ذوق کی نذر کی جا رہی ہے۔ اُمید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی۔
غزل
بنا حُسنِ تکلّم، حُسنِ ظن آہستہ آہستہ
بہر صورت کُھلا، اِک کم سُخن آہستہ آہستہ
مُسافر راہ میں ہے شام گہری ہوتی جاتی ہے
سُلگتا ہے تِری یادوں کا بن آہستہ آہستہ
دُھواں دل سے اُٹھے چہرے تک آئے نور ہو جائے
بڑی مشکل سے آتا ہے یہ فَن، آہستہ آہستہ
ابھی تو سنگِ طفلاں کا ہدف بننا ہے کوچوں میں
کہ راس آتا ہے یہ دیوانہ پن آہستہ آہستہ
ابھی تو امتحانِ آبلہ پا ہے بیاباں میں
بنیں گے کُنجِ گل، دشت و دمن آہستہ آہستہ
ابھی کیوں کر کہوں زیرِ نقابِ سُرمگیں کیا ہے
بدلتا ہے زمانے کا چلن آہستہ آہستہ
میں اہلِ انجمن کی خلوتِ دل کا مغنی ہوں
مجھے پہچان لے گی انجمن آہستہ آہستہ
دلِ ہر سنگ گویا شمعِ محرابِ تمنّا ہے
اثر کتی ہے ضربِ کوہکن آہستہ آہستہ
کسی کافر کی شوخی نے کہلوائی غزل مجھ سے
کھلے گا شاذؔ اب رنگِ سخن آہستہ آہستہ
شاذ تمکنت
![]() |
Shaz Tamkanat |
یہ دنیا بڑی رنگ برنگی ہے اور انسان کے لئے بڑی کشش رکھتی ہے۔ دنیا کی رونقیں ہمہ وقت انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ، لیکن کبھی کبھی انسان کی نظر دنیا کے اُس دوسرے رُخ پر بھی پڑتی ہےجہاں سے اس کی رونقیں بالکل ماند نظر آتی ہیں اور انسان ا س دنیا کی بے ثباتی پر سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ زیرِ نظر غزل میں محترم قمر جلال آبادی نے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور بہت خوبی سے کیا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا؟
لے لوں گا شاندار سا گھر ، اُس کے بعد کیا؟
مے کی طلب جو ہوگی تو بن جاؤں گا میں رِند
کر لوں گا میکدوں کا سفر ، اُس کے بعد کیا؟
ہوگا جو شوق حُسن سے راز و نیاز کا
کرلوں گا گیسوؤں میں سحر، اُس کے بعد کیا؟
شعر و سُخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں
دُنیا میں ہوگا نام مگر، اُس کے بعد کیا ؟
موج آئے گی تو سارے جہاں کی کروں گا سیر
واپس وہی پرانا نگر ، اُس کے بعد کیا؟
اِک روز موت زیست کا در کھٹکھٹائے گی
بُجھ جائے گا چراغِ قمر ، اُس کے بعد کیا؟
اُٹھی تھی خاک، خاک سے مل جائے گی وہیں
پھر اُس کے بعد کس کو خبر ، اُس کے بعد کیا؟
قمر جلال آبادی
نصیر ترابی شہرِ کراچی کے منفرد، طرح دار اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ محبت، تعلق، سماجی مسائل اور انسانی روئیے آپ کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں۔
عکس فریادی نصیر ترابی کی غزلیات کا مجموعہ ہے۔ آپ کی غزلیات شعری روایات کی علمبردار ہیں تاہم آپ کے موضوعات بہ یک وقت جدید بھی ہیں اور دورِ حاضر سے علاقہ رکھتے ہیں۔
نصیر ترابی کی معروف غزل "وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی" بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔
کتاب کے آخر میں شاعر کے فارسی اشعار بھی موجود ہیں تاہم راقم الحروف اپنی علمی بے بضاعتی کے باعث ان پر رائے دینے سے قاصر ہے۔
بحیثیتِ مجموعی یہ ایک اچھی کتاب ہے اور شعر و ادب کے قارئین کا اسے پڑھنا باعثِ زحمت نہیں ہوگا۔
نصیر ترابی کے کچھ اشعار آپ کے ذوق کی نذر
ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا
یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا
اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا
ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے
سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا
کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے
پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا
کچھ روز نصیرؔ آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا
*****
دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے
شہر بے مہر! کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے
ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
اس کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے
*****
مثل صحرا ہے رفاقت کا چمن بھی اب کے
جل بجھا اپنے ہی شعلوں میں بدن بھی اب کے
ہم تو وہ پھول جو شاخوں پہ یہ سوچیں پہروں
کیوں صبا بھول گئی اپنا چلن بھی اب کے
منزلوں تک نظر آتا ہے شکستوں کا غبار
ساتھ دیتی نہیں ایسے میں تھکن بھی اب کے
*****
غزل
اِس قدر اضطراب دیوانے؟
تھا جُنوں ایک خواب دیوانے!
ہم ہیں آشفتہ سر ہمیشہ سے
ہم تو ہیں بے حساب دیوانے
فاتر العقل ہیں نہ مجنوں ہیں
ہم ہیں عزت مآب دیوانے
آئے نکہت فشاں چمن میں وہ
ہو رہے ہیں گلاب دیوانے
ہیں خرد مند فیس بک پر خوش
پڑھ رہے ہیں کتاب دیوانے
سب ہیں ہشیار اگر بکار خویش
نام کے ہیں جناب دیوانے
نام اللہ کا لے، بھٹکنا چھوڑ
تھام لے اِک طناب دیوانے
خاک مسجد بنے گی شب بھر میں
اب نہیں دستیاب دیوانے
روز مڈ بھیڑ اہلِ دانش سے
روز زیرِ عتاب دیوانے
سر کھپاتے ہو فکرِ دنیا میں
تم ہو احمدؔ خراب دیوانے
محمد احمدؔ
غزل
چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں، مِرے خواب کہاں آتے ہیں
مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو، اب خواب کہاں آتے ہیں
تنہا رہتا ہُوں میں دِن بھر، بھری دُنیا میں قتؔیل
دِن بُرے ہوں، تو پھر احباب کہاں آتے ہیں
قتیل شفائی
غزل
دلوں میں زہر تھا کینہ شُمار کرتے رہے
برہنہ لفظ کے خنجر سے وار کرتے رہے
سُخن وری تو فقط بر طرف تکلف تھا
خدنگِ سب و شتم سے شکار کرتے رہے
نہ ہم سفر نہ کوئی دوست تھا نہ ہم سایہ
سو اپنے آپ سے شکوے ہزار کرتے رہے
بچا ہی کیا تھا بجز تار دامنِ دل میں
اُس ایک تار کو ہم تار تار کرتے رہے
کہیں نہیں تھا کوئی جس کو کہ سکیں اپنا
کسے بُلانے کو ہم یار یار کرتے رہے
اثاثہ کوئی نہ تھا ، مُفلسی مسلط تھی
بدن کی مٹّی تھی ہم جس کو خوار کرتے رہے
بچھڑنا ملنا مقدر کا کھیل تھا مسعود
وگرنہ عشق تو ہم بار بار کرتے رہے
مسعود مُنّور
غزل
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا
وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا
سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا
نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا
مرتضٰی برلاس
خفا ہیں؟ مگر! بات تو کیجیے
ملیں مت، ملاقات تو کیجیے
ملیں گے اگر تو ملیں گے کہاں
بیاں کچھ مقامات تو کیجیے
پلائیں نہ پانی، بٹھائیں بھی مت
مسافر سے کچھ بات تو کیجیے
نہیں اتنے سادہ و معصوم وہ
کبھی کچھ غلط بات تو کیجیے
سنی وعظ و تقریر، اچھی لگی
چلیں ،کچھ مناجات تو کیجیے
نہیں دوستی کی فضا گر، نہ ہو
خدارا شروعات تو کیجیے
بھلے ، کل بگڑ کر کہَیں "الفراق"
بسر آج کی رات تو کیجیے
کہا کیا؟ یہی ہے روایت مری؟
بیاں کچھ روایات تو کیجیے
نزولِ سکینت بھی ہو گا ضرور
عمل بر ہدایات تو کیجیے
عبث رب سے شکوہ کناں آپ ہیں
شمارِ عنایات تو کیجیے
اگر تزکیے سے ہے احمد ؔفلاح
چلیں پھر شروعات تو کیجیے
محمد احمد ؔ
غزل
وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے
نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا
پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے
تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے
جمال احسانی
انور مقصود، افتخار عارف اور جمال احسانی ۔ دائیں سے بائیں