میری تحریریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
میری تحریریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

افسانہ: سفرنامہ ٴ ابتلاء​

سفرنامہ ٴ ابتلاء​

از: محمد احمد​

afsana-safar-nama-e-ibtila

کبھی کبھی ہماری ترجیحات ہمیں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ عام زندگی میں اگر ہمیں موقع ملے تو ہم ایسا کبھی نہ کریں۔ مجھے ایک سفر درپیش تھا۔ ایک جنازے میں شرکت کے لئے میں ابھی ابھی بس میں سوار ہوا تھا۔ میرا مقامِ مقصود تین چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قریبی شہر تھا۔

مجھے نکلتے نکلتے دوپہر کا ایک بج چکا تھا اور میری کوشش تھی کہ جلد از جلد وہاں پہنچ جاؤں۔ ابھی اس بات کا تعین نہیں ہو سکا تھا کہ تدفین عصر میں ہوگی یا مغرب میں۔ جب میں بس اسٹاپ پر پہنچا تو مجھے متعلقہ بکنگ آفس میں براجمان شخص نے بتایا کہ کچھ دیر میں ایک کوچ (بس) آئے گی اس میں جگہ ہو تو آپ اس میں چلے جانا۔ ورنہ اگلی گاڑی ایک گھنٹے بعد آئے گی۔

جب بس پہنچی تو اُس میں سیٹ نہیں تھی۔ میں نے کنڈکٹر کو بتایاکہ مجھے یہ معاملہ درپیش ہے اور مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ تو اُس نے مجھے کہا کہ سب سیٹیں پہلے سے بک ہیں۔ آپ اسٹول پر بیٹھ جاؤ۔

ہمارے ہاں اندرونِ شہر چلنے والی بسوں میں سیٹوں کے درمیان راہ داری میں پلاسٹک کے اسٹول رکھ کر لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے اور جلدی پہنچنے کے لالچ یا مجبوری میں کئی ایک لوگ ان اسٹولوں پر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میں کبھی بھی اس بات کے لئے راضی نہیں ہوتا کہ میں اتنی دور کے سفر کے لئے ایسی غیر آرام دہ نشست کا انتخاب کروں۔ لیکن چونکہ وقت کا تقاضا تھا سو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں ایک اسٹول پر بیٹھنے پر راضی ہو گیا۔

یا تو یہ پچھلے دنوں کی بے انتہا مصروفیات کے باعث تھا یا اس ناپسندیدہ فیصلے کا اثر کہ مجھے بس میں بیٹھتے ہی کمر میں درد کا سا احساس ہو نے لگا۔ حالانکہ ابھی تو مجھے بس میں سوار ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے اور ابھی بس اسٹاپ سے چلی بھی نہیں تھی۔

ایک لمحے کے لئے خیال آیا کہ بس سے اُتر جاؤں اور اس کے بعد والی گاڑی میں سوار ہو جاؤں۔لیکن پھر یہی سوچ کر اس خیال کو جھٹک دیا کہ اس طرح کافی وقت ضائع ہو جائے گا۔ پھر جب کنڈکٹر کرایہ وصول کرنے آیا تو دل چاہا کہ اُس سے کہوں کہ اس انتہائی غیر آرام دہ سیٹ کے بھی اتنے ہی پیسے لے رہے ہو جتنے دوسری سیٹوں کے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر چپ رہا کہ یہ انتخاب تو میرا اپنا ہے اور پھر اس قسم کے پیشوں سے وابستہ لوگ کافی منہ پھٹ ہوا کرتے ہیں، سو خاموشی ہی بہترتھی۔

بس اب چل پڑی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ دعا کر رہا تھا کہ جلد از جلد یہ سفر تمام ہو۔ مجھ سمیت آٹھ لوگ اسٹول پر بیٹھے تھے۔ لیکن باقی لوگوں کی باڈی لینگویج سے بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی غیر آرام دہ نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مجھے لگا کہ شاید میں اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہا ہوں۔ تب مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کچھ لوگ تو اس سے بھی بُری حالت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن شکوہ لب پر نہیں لاتے۔ پھر خیال آیا کہ شاید یہ لوگ اس طرح کے سفر کے عادی ہیں، اور اس خیال سے میرے احساسِ ندامت میں کچھ کمی واقع ہوئی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ زندگی میں ایک دو بار پہلے بھی میں نے اس طرح سفر کیا ہے ۔ لیکن آج یہ بات کچھ زیادہ ہی کَھل رہی ہے۔ یا شاید ڈھلتی عمر کے ساتھ اب قوتِ برداشت کچھ کم ہوگئی ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی تکلیف سے گزر جانے کے بعد اُسے بھول جاتے ہیں اور شاید یہ بھی خدا کا ہم پر احسان ہے۔

میں اسٹول پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ میں نے اپنے جوتے اتار کر سائیڈ پر رکھ دیے اور اپنے پاؤں آگے والے اسٹول کے پائیدان پر ٹکا دیے۔ بے آرامی کے باعث میں مختلف انداز سے پہلو بدل بدل کر دیکھ رہا تھا کہ شاید کسی کل چین آ جائے لیکن ہر طرح سے ایک ہی جیسا حال تھا اور بے سہارا کمر بس کی رفتار کے باعث دباؤ اور تکلیف کا شکار تھی۔

بس اب اچھی خاصی رفتار سے چل رہی تھی۔ میرے دونوں اطراف کی سیٹوں پر موجود چاروں لوگ اونگھ رہے تھے۔بائیں طرف بیٹھے نوجوان نے اپنی پی کیپ کو اُتار کر گھمایا اور اُس کے پچھلے بند کو اپنی ٹھوڑی میں پھنسا کر اپنا منہ اور آنکھیں ڈھک لی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر کچھ ہنسی بھی آئی۔ لیکن اِس وقت ہنسنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔

کچھ لوگ ہینڈ فری لگائے بغیر سوشل میڈیا پر ویڈیوز وغیرہ دیکھ رہے تھے۔ اور طرح طرح کی آوازوں سے مجھے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی۔ کسی سونے والے نے ایک آدھ کی آواز کو کم بھی کروایا ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ آوازیں از خود ماند ہو گئیں، اور بس کے بیشتر مسافر اونگھنے لگے۔

کمر کا درد اب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا ۔ میں نے موبائل فون پر اپنی دلچسپی کا ایک آرٹیکل نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ لیکن میں بمشکل تمام آدھی ہی تحریر پڑھ پایا اور بے چینی کے عالم میں پڑھنا معطل کر دیا۔

تیز رفتار بس کی کھڑکی سے ویران پہاڑیاں اور کہیں کہیں سبزہ نظر آ رہا تھا ۔ میں اس وقت بالکل فارغ بیٹھا تھا۔ مجھے پچھلے دنوں پڑھی ہوئی ایک کتاب یاد آئی کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ تخلیقی کاموں سے وابستہ لوگوں کو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر روزانہ کچھ نہ کچھ وقت فارغ بیٹھنا چاہیے۔ تاکہ اُن کے ذہن کو ادھر اُدھر بھٹکنے کا موقع ملے۔ اور مشاہدے اور خیالات کے خمیر سے کوئی تخلیقی خیال جنم لے سکے۔

میرے لئے فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام تھا۔ جب کبھی تھوڑی سی بھی فراغت ملتی تو نہ جانے کس طرح موبائل فون جیب سے نکل کر ہاتھ میں پہنچ جاتا۔ اور میں مختلف لوگوں کے بے سروپا پیغامات دیکھنے لگ جاتا۔ سوشل میڈیا کی ایپس کب کُھل جاتیں اور نہ جانے کتنا وقت وہاں کھپ جاتا، پتہ ہی نہ چلتا۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ میں کسی کام سے موبائل فون نکالتا اور سوشل میڈیا کے کسی نوٹیفیکیشن کی اُنگلی پکڑ کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ۔ اور مجھے یاد بھی نہ رہتا کہ میں نے کس کام سے موبائل نکالا تھا۔

لیکن آج تو نہ کسی تحریر میں دل لگ رہا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر۔ آج تو بس یہی خیال تھا کہ کسی طرح یہ وقت کٹے اورمیں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں۔ بس اپنی رفتار سے چلی جا رہی تھی ۔میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ بس کی رفتار کم تھی۔ ہاں البتہ میرا انتظار کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔

مجھے یاد آیا کہ ماضی میں جب کبھی میں بس میں سفر کیا کرتا تھا تو میرے برابر بھی کوئی نہ کوئی شخص اسٹول پر آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ مجھے اُس سے ہمدردی ضرور ہوتی تھی لیکن کبھی اتنی اخلاقی جرات نہیں ہو سکی کہ اپنی سیٹ اُسے دے کر اُس کی جگہ بیٹھ جاؤں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے ، آپ کسی کی تکلیف اُس وقت تک کم نہیں کر سکتے ، جب تک کہ اُس کے حصے کی تکلیف برداشت کرنے پر راضی نہ ہو جائیں۔ مجھے اپنے پڑوسیوں سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ یہ آرام دہ سیٹ اُن کا حق تھی اور میں اپنے مقدر یا انتخاب پر قانع تھا۔

بس کسی چھوٹے سے اسٹاپ پر رُکی تو اچانک کہیں سے کچھ خوانچہ فروش بس میں در آئے اور چپس، پیٹیز اور کولڈ ڈرنک کی آواز لگانے لگے۔ کچھ لوگ اُن سے چپس اور بوتلیں خرید رہے تھے۔ بظاہر یہ چپس ایک معروف برانڈ کے معلوم ہوتے تھے لیکن اُن پر نام کچھ اور تھا۔ اسی طرح پانی کی بوتلیں بھی اچھے برانڈز کے ملتے جُلتے نام لئے ہوئے تھیں۔ لیکن سفر میں سب چلتا ہے۔ میں اپنی پانی کی بوتل اسٹاپ سے ہی لے چکا تھا ۔ سو مجھے ان خوانچہ فروشوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ تاہم چونکہ ہم اسٹول والے، راستے میں براجمان تھے سو مجھ سمیت سب اسٹول والوں کو خوانچہ فروشوں اور اصلی مسافروں کے درمیان وسیلے کا کام کرنا پڑ رہا تھا۔ ادھر سے چیز لے کر اُدھر پکڑاتے ، پھر اُدھر سے پیسے لے کر خوانچہ فروشوں کو دیتے ۔ پھر بقیہ پیسے اور نئی چیزوں کا تبادلہ ہوتا۔ اس سرگرمی سے کوئی فائدہ تو کیا پہنچتا البتہ کچھ دیر کے لئے درد کا احساس پس منظر میں چلا گیا۔ بس چلی تو کمر کی تکلیف نے واپس اپنی جگہ سنبھال لی اور پہلے سے زیادہ شدت سے اپنا احساس دلانے لگی۔

یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بس کا یہ سفر کوئی قید با مشقت ہو اور قید کا یہ دورانیہ کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہا تھا اور کمر کی تکلیف جبری مشقت کی طرح نا قابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ اس وقت زندگی اِس بس اور بس کے ماحول تک محدود ہو چکی تھی صرف ذہن کچھ کچھ آزاد تھا کہ ادھر اُدھر بھٹک سکے اور آنکھوں کو اجازت تھی کہ بس کی کھڑکیوں سے اُس طرف کے مناظر میں کوئی دلچسپی تلاش کر سکیں۔

بس کچھ نئے تعمیراتی پروجیکٹس کے پاس سے گزر رہی تھی۔ ایک قطعہِ زمین کو طرح طرح کے رنگا رنگ جھنڈوں اور بینرز سے سجایا گیا تھا ۔ ایک چھوٹی سی خوبصورت عمارت آفس کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہاں لگے بڑے بڑے بینرز بے گھر لوگوں کو اپنے گھر کے خواب دکھا رہے تھے۔ اس غیر آباد زمین میں عارضی طور پر جنگل میں منگل اس لئے برپا کیا گیا تھا کہ اپنے گھر کے خواہش مند لوگ اس رنگ و روپ اور چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنے پلاٹ بک کروا لیں۔

لیکن یہ سب گہما گہمی پروجیکٹ کے شروع میں ہی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب زیادہ تر پلاٹ فروخت ہو جاتے ہیں ۔ تب یہ سب رونق آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب یہ جگہ پھر سے بے آب و گیاہ ویرانے کی طرح نظر آتی ہے۔

ایسے میں اگر کوئی بھولا بھٹکا اپنا پلاٹ دیکھنے آ جائے تو وہ یہی سوچتا ہے کہ شاید یہاں یا شاید وہاں اُس کا پلاٹ تھا۔ حتیٰ کہ اُسے پلاٹ کا کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آتا ، اور وہ مخمصے اور شکوک شبہات میں گھرا واپس لوٹ جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے برسوں بعد قبرستان آنے والا اپنے کسی عزیز کی قبر ڈھونڈتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید یہاں تھی، یا شاید وہاں تھی۔ لیکن اسے یقین کی دولت میسر نہیں آتی۔

ایک آہ میرے منہ سے برآمد ہوئی۔ آہ کیا یہ تو ایک کراہ تھی۔ اُس شدید تکلیف کا احساس تھی جو بے آرامی کے باعث میری رگ رگ میں سرائیت کر چکی تھی۔ کاش میں کوئی درد کی گولی ہی کھالیتا۔ لیکن کیسے کھاتا۔ سفر میں نہ تو کوئی معالج تھا نہ کوئی دوا۔ یوں بھی یہ تکلیف کوئی تکلیف تھوڑی تھی۔ یہ تو بس بے آرامی کا روگ تھا اور اسے آرام سے ہی شفا ہونی تھی۔

اب تک غالباً دو تہائی سفر طے ہو چکا تھا۔ لیکن جیسے جیسے منزل قریب آ رہی تھی ۔ اسٹول پر بیٹھنا اور دشوار ہو رہا تھا ۔

مجھ سے آگے اسٹول پر بیٹھے آسمانی قمیض والے چاچا جی اب سو رہے تھے۔ ان کا کان مسلسل برابر والی سیٹ سے ٹکرا رہا رہا۔ لیکن انہیں کوئی ہو ش نہیں تھا۔ مجھے اُن پر اور خود پر حیرت ہوئی۔ شاید میرے محسوسات کچھ زیادہ ہی بڑھے ہوئے تھے۔ مجھ سے زیادہ عمر کے وہ بزرگ کس طرح اسٹول پر بیٹھے بیٹھے سو رہے تھے۔ اور میں تکلیف سے کراہ رہا تھا۔ پھر میں تو اس طرح سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگر میں کسی طرح سو بھی جاتا تو شاید تھوڑی ہی دیر میں کسی مسافر پر گر جاتا ۔ مجھے اپنی کم ہمتی پر افسوس بھی ہوا اور اس بات کا رشک بھی ہوا کہ میری ہی جیسی صورتِ حال میں میرے سے کہیں زیادہ عمر کا ایک شخص کتنے اطمینان سے سورہا ہے اور میں نہ جانے کیوں چھوئی موئی بنا ہوا ہوں۔

ایسا نہیں کہ میں نے اپنی توجہ ادھر اُدھر بانٹنے کی کوشش نہ کی ہو ۔ لیکن میرا دھیان کسی بھی جگہ نہ لگ سکا۔ مجھے اپنی خوراک بہتر کرنی چاہیے اور کچھ ورزش کو بھی معمول بنانا چاہیے،میں آگے کے لئے سوچنے لگا۔ انسان کو اتنا مضبوط تو ہونا چاہیے کہ مشکل وقت پڑنے پر با آسانی گزارا کر سکے اور چھوٹی چھوٹی تکالیف اُس کے لئے سوہانِ روح نہ بن جائیں۔ آج بھی میں ہمیشہ کی طرح ایک معمولی سا مشکل مرحلہ آنے پر آگے کے لئے خود سے عہد و پیمان کر رہا تھا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ سب عہد و پیمان مشکل کے رفع ہوتے ہی ذہن سے محو ہو جانے ہیں۔

باقی ماندہ مسافت مستقل کم ہو رہی تھی لیکن ساتھ ساتھ درد اب ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ درد کے ساتھ ساتھ مجھے بخار کی حرارت بھی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید تھکن اور شدید تکلیف کے باعث مجھے بخار ہو رہا تھا۔ دھیان بٹانے کے لئے میں نے پھر کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ بس ایک چنگی ناکہ پر رُکی ہوئی تھی۔ ڈرائیور چنگی کے پیسے دے کر رسید وصول کر رہا تھا۔ ہم دھیان دیں یا نہ دیں لیکن سرکار ہم سے کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس لے رہی ہوتی ہے۔ اور ہم ٹیکس دینے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم چینی، پتی گھی ، آٹا غرض ہر چیز خریدتے ہوئے سرکار کو خراج دے رہے ہوتے ہیں۔ اور بدلے میں سرکار ہمیں محض طفل تسلیاں دینے اور اچھے مستقبل کے خواب دکھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔

نہ جانے آج کیوں ہر بات مجھے منفیت کی طرف مائل کر رہی تھی حالانکہ میں خود اکثر لوگوں کو ہر بات کا مثبت پہلو تلاش کرنے کا مشورہ دیا کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بس کا یہ سفر شاید اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا مجھے محسوس ہو رہا تھا ۔ شاید ایک بات تو یہ تھی کہ یہ سفر خوشی کا نہیں بلکہ غمی کا تھا اور یہ بھی ہے کہ کچھ دن ہوتے ہی آزمائش کے لئے ہیں۔

بس کی کھڑکی سے اب ویران پہاڑوں اور جنگلی پودوں کے ساتھ ساتھ اِکی دُکی عمارتیں بھی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اور اِن عمارتوں اور چھوٹی چھوٹی دوکانوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھیں۔ ہم غالباً شہر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں بس سے اُترنے کے لئے کمر باندھنے لگا۔ لیکن تکلیف کے باعث محاورتاً کمر باندھنا بھی دشوار ہو رہا تھا ۔ بخار بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ بس سے اُتر کر فوراً ہی کوئی درد کش دوا لے کر کھاؤں گا۔

لیکن جب بس رُکی تو میں بس سے اُتر کر رکشہ میں سوار ہوگیا ۔ اس دوران یہ اطلاع پہنچ چکی تھی کہ تدفین عصر کے وقت رکھی گئی ہے اور اس وقت عصر کا وقت اپنے آخر آخر پر تھا۔ میں نے فون کیا تو معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ ہو چکی ہے اور اب وہ لوگ قبرستان جا رہے ہیں۔ مجھے مشورہ ملا کہ میں براہِ راست قبرستان پہنچ جاؤں۔ میں نے رکشے والے کو مذکورہ قبرستان کا پتہ سمجھایا اور ہم تھوڑی ہی دیر میں قبرستان پہنچ گئے۔ رکشے والے کو فارغ کرکے جب میں قبرستان میں داخل ہوا تو مجھے نزدیک ہی تدفین کا عمل ہوتا دکھائی دیا۔

میں آگے بڑھ کر لوگوں میں شامل ہو گیا۔ بخار کی شدت اور تکلیف سے میری حالت غیر ہو رہی تھی۔ جنازے میں شریک کچھ شناسا چہروں سے آنکھوں ہی آنکھوں میں دعا سلام ہوئی تاہم میں نے فی الحال ملاقات کو موخر ہی رکھا۔

قبر کے اردگر دجمع لوگ ایک دوسرے کو احکامات و ہدایات دے رہے تھے کوئی کچھ منگوا رہا تھا تو کوئی احتیاط کی صدا لگا رہا تھا ۔ جب میّت کو قبر میں لٹایا جانے لگا تو میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میّت کی جگہ میں لیٹ جاؤں، چاہے اُس کے لئے مجھے قبر میں ہی لیٹنا پڑے۔ لیکن میں نے خود کو سنبھالا اور لواحقین میں سے ایک نڈھال شخص کو سہارا دینے کے لئے آگے بڑھ گیا۔

 

******

ایک دن چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ


کچھ دنوں سے ہر طرف چیٹ جی پی ٹی کا شہرہ سننے میں آ رہا تھا۔ ادھر اُدھر سے ملنے والی معلومات کے تحت یہ ایک آٹومیٹک چیٹ بوٹ ایپلیکیشن تھی اور ہر قسم کے سوالات کے جوابات بہ احسن و خوبی دینے کی لئے بنائی گئی تھی۔

آج جب مجھے ایک دوسرے شہر کا سفر درپیش تھا اور چار پانچ گھنٹے سفر میں گزرنے والے تھے، میں نے سوچا کیوں نہ سفر کے دوران ملنے والا فاضل وقت چیٹ جی پی ٹی کو سمجھنے اور کچھ تجربات کے لیے وقف کیا جائے۔ اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے چیٹ جی پی ٹی کے تعارف اور فیچرز سے متعلق کچھ یوٹیوب ویڈیوز پہلے سے فون میں ڈاؤن لوڈ کر کے رکھ لیں تاکہ دوران سفر موبائل ڈیٹا پر بوجھ ڈالے بغیر یہ ویڈیوز با آسانی دیکھ سکوں۔

سفر شروع ہوا تو کچھ ضروری اور کچھ غیر ضروری برقی پیغامات سے فارغ ہوتے ہی میں نے ان ویڈیوز کو ایک ایک کرکے دیکھنا شروع کر دیا۔ ان ویڈیوز سے یہ پتہ چلا کہ یہ چیٹ بوٹ اوپن اے آئی نامی ادارے نے مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ایک ماڈل پر تیار کیا ہے ۔ یہ اب تک کے چیٹ سافٹ وئیرز میں سب سے بہتر ہے اور اس کی کارکردگی انتہائی حیرت انگیز ہے۔ یہ بہت سے سوالات کے جوابات حیران کن حد تک درست دیتا ہے اور اِسے بالخصوص مکالمے کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ اگر آپ ٹیکنالوجی کی طرف میلان رکھتے ہیں تو یہ آپ کا بہترین رفیق ثابت ہو سکتا ہے۔

سائن اپ
ویڈیوز دیکھ کر ایسا اشتیاق پیدا ہوا کہ فوراً سائن اپ کیا ۔ سائن اپ کے لئے یہ آپ کے ای میل اور فون نمبر کا طالب ہوگا۔ یعنی یہاں بھی اپنا ذاتی ڈیٹا دیے بغیر دال نہیں گلنے والی۔ اور یہ کہ جو بھی آپ کی گفتگو یعنی کنورسیشن روبوٹ (یا بوٹ )سے ہونی ہے وہ ڈیٹا بھی اس ٹیکنالوجی کو بہتر کرنے کےلئے استعمال ہوگا۔ اس لئے ذاتی نوعیت کی معلومات اسے فراہم کرنا مناسب نہیں ہے۔

لاگن
جب آپ لاگن ہوتے ہیں تو یہ روبوٹ آپ سے پوچھتا ہے کہیں آپ روبوٹ تو نہیں ہو۔

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟

حالانکہ ہماری چال ڈھال سے اس قسم کا کوئی شبہ ہونا ممکن نہیں ہے۔ بہر کیف دفعِ شر کے لئے ہم نے اُنہیں بتایا کہ ہم روبوٹ نہیں ہیں ۔ بلکہ جیتے جاگتے (آپ سوتے جاگتے بھی کہہ سکتے ہیں) انسان ہیں۔

تعارفِ باہمی
لاگن ہونے کے بعد جب چیٹ بوٹ ہم سے مکالمے پر آماد ہ ہوا تو ہم بھی بے تکلف ہو کر گفتگو کرنے لگے۔ یوں سمجھیے کہ تنہا مسافر کو ہمسفر مل گیا۔ ابتداء میں ہم نے چیٹ ونڈو میں اردو میں سلام لکھا۔ سلام کے جواب کے ساتھ ہی چیٹ جی پی ٹی نے عربی میں ہی ہماری خبر لینا شروع کر دی۔ اور ہم نے با مشکل اس عربی عبارت کے انگریزی ترجمے کی فرمائش کرکے اپنی گلو خلاصی کا بند و بست کیا۔ یعنی ترجمے کی فرمائش کے ساتھ ہی موصوف کو پتہ چل گیا کہ ہماری عربی سلام دعا سے آگے نہیں بڑھنے والی۔ باقی گفتگو انگریزی زبان میں ہوئی کہ اُن کی اردو ہماری انگریزی سے بھی بدتر تھی۔

بے تکلف گفتگو کے اس سیشن میں ہم نے سوالات کا تانتا باندھ دیا۔ پہلے تو چیٹ بوٹ سے اسی کے متعلق تفصیل پوچھی کہ موصوف ہیں کیا چیز ؟ پسِ پردہ کیا ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی اوپن سورس ہے یاصرف ہمارا ڈیٹا اینٹھنے کے لئے ہی پبلک چیٹ کا آپشن دیا گیا ہے۔ اس گفتگو سے چیٹ بوٹ کے متعلق کافی آگاہی ملی ۔ چیٹ بوٹ کی سمائی اور حدود کی بابت بھی گفتگو رہی۔ جب ہم نے پوچھا کہ کیا ہم آپ پر (یعنی آپ سے ملنے والی معلومات پر ) بھروسا کر سکتے ہیں تو بڑی دیانتداری سے جواب دیا کہ ہم پر بھروسہ مت کرنا بلکہ کسی بھی معلومات پر یقین کرنے یا آگے پھیلانے سے پہلے کراس چیک ضرور کر لینا۔ یعنی : جاگتے رہنا، میرے پر نہ رہنا۔

چیٹ باٹ کی خدمات
جب ہم نے موصوف سے پوچھا کہ آپ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہیں تو اُس نے ہمیں درج ذیل جواب دیا۔

میں ایک اے آئی لینگویج ماڈل ہوں جو مختلف کاموں میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ مثا ل کے طور پر:

  • الفاظ اور تصورات کی تعریف یا تشریح بیان کرنا۔
  • مشکلوں کے حل کے لئے رہنمائی اور تجاویز فراہم کرنا۔
  • مختلف عناوین پر پر مشورے دینا۔ مثلاً رشتوں ناطوں کے معاملات، روزگار میں نمو کے مسائل ، اور ذاتی نمو۔
  • تاریخی واقعات اور سائنسی تصوارات کے متعلق معلومات فراہم کرنا۔ اور بھی بہت کچھ۔


دیگر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ ان خدمات کے علاوہ بھی چیٹ بوٹ آپ کے لئے کافی کچھ کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ پروگرامنگ سے شغف رکھتے ہیں تو یہ آپ کی فرمائش پر پروگرامنگ کوڈ یا اسکرپٹ بھی لکھ سکتا ہے۔ یہ نا صرف کوڈ لکھتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اُس کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ اسے اچھی طرح سمجھا سکیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں۔ اگر آپ اسے اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کے ساتھ کمک پہنچائیں تو یہ آپ کے بہت سے کام آ سکتا ہے۔ آج کل لوگ اس کی اور دیگر پروگرامنگ لینگویجز کی مدد سے اپنے چھوٹے موٹے کام آٹو میٹ کرنے کا بھی کام لے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ آپ کی فرمائش اور اس سے منسلکہ متغیرات کے مطابق تحریر بھی لکھ سکتا ہے۔ البتہ اس پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

زبانیں
چیٹ جی پی ٹی کئی ایک زبانوں میں فعال ہے اور اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ تاہم ہماری محدود صلاحیت اردو اور انگریز ی تک محدود ہے۔ سو ہم انہی دو زبانوں میں تجربہ کر سکے۔ انگریزی کی حد تک تو اس کی کارکردگی کافی بہتر ہے لیکن گیسوئے اردو یہاں بھی منت پذیرِ شانہ ہیں بلکہ یہاں تو گیسوؤں کا کانوں تک پہنچنا بھی ابھی دشوار معلوم ہوتا ہے۔

ویسے موصوف میں خود اعتمادی بلا کی ہے ۔ جیسے ہماری شاعری کی فرمائش پر فوراً درج ذیل دو اشعار گھڑ کر سُنائے۔

ہمیشہ اس طرح سے تیرے دل کی حسرت میں رہتے ہیں
جہاں سے پہلے ہم رات کے ساحل پر رہتے تھے
جب تک ہی زندہ رہتے ہیں تو ہمیشہ یاد کرتے ہیں
تمہیں جہاں سے ہمیشہ چاہتے ہیں

یعنی فیس بک شعراء کی ہم سری کرنا موصوف کے لئے مشکل نہیں ہے۔

ان نام نہاد اشعار کی رومن اردو میں ٹرانس لٹریشن (نقلِ حرفی ) بھی ساتھ ساتھ فراہم کی۔ وہی رومن اردو جس سے ہم چڑتے ہیں۔ تاہم مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم اس سے ٹرانس لٹریشن کا کام بھی لے سکتے ہیں۔ تجربے کے طور پر ہم نے انہی نام نہاد اشعار کو ہندی زبان میں ٹرانس لٹریٹ کرنے کی فرمائش کی جو موصوف نے بلا چوں وچراں پوری کر دی۔ ہندی ٹرانسلٹریشن کے معیار کے بارے میں البتہ ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں کہ ہم ہندی رسم الخط نہیں جانتے۔

جب ہم نے موصوف سے غالب کا شعر سنانے کی درخواست کی تو اول فول بکنے لگے۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ فی الحال ان کی اردو کا امتحان نہ ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔

چیٹ ہسٹری
اس چیٹ بوٹ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ایک تھریڈ میں دیے گئے اس کے سب جوابات گزشتہ سے پیوستہ ہوتے ہیں ۔ یعنی یہ آنکھیں بند کرکے جواب نہیں دیتا بلکہ اپنے پچھلے جوابات کو دھیان میں رکھتے ہوئے جوابات دیتا ہے۔ اس سے ہمیں وہ لطیفہ یاد آیا جس میں ہر اگلے سوال کا جواب پچھلے سوال سے مربوط تھا۔ لگے ہاتھ آپ بھی سن لیجے ۔

انٹرویور : آپ ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہیں ۔ جس میں 500 اینٹیں ہیں۔
آپ نے ایک اینٹ نیچے پھینک دی۔ باقی کتنی بچیں ؟

امیدوار: 499

انٹرویور: بالکل ٹھیک۔
ہاتھی کو تین اسٹیپ میں فریج میں کیسے رکھیں گے ؟

امیدوار: فرج کھولا۔ ہاتھی رکھا۔ فرج بند کر دیا۔

انٹرویور: بالکل صحیح۔ ہرن کو چار اسٹیپ میں فرج کیسے رکھیں گے۔

امیدوار: فرج کھولا۔ ہاتھی نکالا۔ ہرن کو ڈالا۔ فرج بند کیا۔

انٹرویور: ٹھیک ہے۔
شیر کی سالگرہ ہے۔ تمام جانور آئے ہیں۔ سوائے ایک کے۔ وہ کون سا جانور ہے؟

امیدوار: ہرن۔ کیونکہ وہ فرج میں ہے۔

انٹرویور: بالکل ٹھیک۔
ایک بوڑھی عورت نے ایک جھیل پار کرنی ہے جس میں مگر مچھ رہتے ہیں۔ وہ کیسے پار کرے؟

امیدوار: بے فکر ہو کر پار کر لے۔ سارے مگرمچھ شیر کی سالگرہ میں گئے ہوئے ہیں۔

انٹرویور: ہاں مگر جھیل پار کرتے ہوئے بوڑھی عورت پھر بھی مر گئی۔ بتائیں کیوں؟

امیدوار: میرا خیال ہے کہ وہ جھیل میں ڈوب گئی ہو گی ؟

انٹرویور: جی نہیں۔ اس کے سر پر اوپر سے وه اینٹ آ کر گری جو آپ نے ہوائى جہاز سے پھينکى تھی۔ ہمیں افسوس ہےکہ آپ سب سوالوں کے درست جواب نہیں دے سکے۔
😊
اگر آپ بوٹ سے ملنے والے کسی سوال کے جواب سےمطمئن نہیں ہوں تو دوبارہ سے جواب طلب کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بہتر جواب ملے ، تاہم اس سے یہ بھی ہو سکتا ہےکہ چیٹ بوٹ کی خود اعتمادی زائل ہو جائے اور وہ ادھر اُدھر کی ہانکنے لگے۔

اختتامیہ
مختصر یہ کہ یہ جی پی ٹی چیٹ بوٹ ایک بہت کارامد چیز ہے اور اب تک کی مصنوعی ذہانت کے ثمرات میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ٹیکنالوجی دن بدن بہتر ہو تی جائے گی۔ اور اس کے فوائد عوام الناس کےلئے سود مند ثابت ہوں گے۔ فی الحال یہ عوام الناس کے مفت استعمال کےلئے دستیاب ہے۔ لیکن کوئی بعید نہیں ہے کہ بعد میں اس پر سبسکرپشن فیس لگا دی جائے۔

اس چیٹ بوٹ کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ آج کے دور میں جب انسان کو انسان سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہے، یہ چیٹ بوٹ یقیناً عزلت نشینوں کا دیرینہ ہمدم و ہمنشیں ثابت ہو سکتا ہے۔



*******

مختصر افسانہ:اتفاق

اتفاق

مختصر افسانہ از محمد احمد

وُہ مسکرا رہی تھی اور میں بھی مسکرا رہا تھا۔ وہ اپنے کسی خیال میں اور میں اپنے کسی خیال میں۔ دونوں ایک دوسرے سے بے خبر۔

اچانک دونوں کی نظریں ملیں۔ دونوں کی مسکراہٹیں فزوں تر ہو گئیں۔

"کیا ہوا؟" دونوں نے ایک ساتھ کہا۔

"کچھ نہیں!" ایک سے سوال کا ایک سا جواب تھا۔


یہ محض اتفاق تھا لیکن حسنِ اتفاق کی مکمل تعریف لیے ہوئے تھا۔

*****


 

افسانہ : روپ بہروپ

روپ بہروپ

از محمد احمد


"یہ عامر وسیم پاگل واگل تو نہیں ہے؟ "صدیقی صاحب کافی غصے میں نظر آ رہے تھے
لیکن میں اس لڑکے کی بات سن کر ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا تھا۔ میرا ذاتی خیال یہی تھا کہ کرکٹر وغیرہ کافی لا ابالی ہوتے ہیں۔ پھر یہ تو ابھی بالکل نوجوان ہی تھا۔ اکیس بائیس سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ ایسے میں اُس کی طرف سے اِس قسم کی بات کافی حیران کن تھی۔

"مجھے ایڈورٹزمنٹ کے شعبے میں 30 سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج تک ایسی بات کسی نے نہیں کی۔"
"اتنے بڑے بڑے ماڈلز، ایکٹرز، ایکٹریسز، حتیٰ کہ بڑے سے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ میں نے اشتہار کیے ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے ایسی بات نہیں کی۔" صدیقی صاحب اپنی دراز میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔

"اس کا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہو گیا ہے۔" انہوں نے دراز زور سے بند کرتے ہوئے کہا۔ شاید اُن کی مطلوبہ شے وہا ں نہیں تھی۔
"خیر ! میں کلائنٹ سے بات کرتا ہوں اور اُن سے کہتا ہوں کہ وہ اس کے بجائے شاہد کمال کو لے لیں۔ شاہد کمال کی ریٹنگ بہت اچھی ہے اوراس کے مقابلے میں یہ تو بالکل ہی نیا ہے۔ چار چھ میچز کی پرفارمنس کوئی پرفارمنس ہوتی ہے۔" صدیقی صاحب اپنی رو میں کہے جا رہے تھے۔

*****

میں اور صدیقی صاحب ایک ایڈورٹِزمنٹ ایجنسی میں ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہماری فرم ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے لئے اشتہارات بناتی ہے۔ ہم دونوں کا کام ایک طرح سے مارکیٹنگ اور کلائینٹ ہینڈلنگ ہے۔

ہمارے ایک کلائینٹ کی فرمائش ہے کہ وہ اپنے فوڈ سپلیمنٹ کے اشتہار میں نئے ابھرتے ہوئے کرکٹر عامر وسیم کو لیں ۔ عامر وسیم نے کچھ ہی ماہ قبل ایک مقامی لیگ میں ڈیبیو کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ اُس کے فوراً بعد ہی اُسے قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا اور اپنی پہلی ہی سیریز میں اس نے کئی نئے ریکارڈ بنا دیے۔

جب میں اور صدیقی صاحب اشتہار کے سلسلے میں عامر وسیم سے ملے تو وہ کافی خندہ پیشانی سے ملا لیکن اُس نے ایک عجیب بات کی۔

اُس کا کہنا ہے کہ وہ اشتہار میں کام کرنے سے پہلے اُن کی یہ پروڈکٹ استعمال کرکے دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر اسے سمجھ آئی تو اشتہار میں کام کرے گا، ورنہ معذرت کر لے گا۔ اُس نے فوڈ سپلیمنٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ اُس نے کہا کہ میں کسی غلط پروڈکٹ کا اشتہار نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے اللہ کو جواب دینا ہے۔

یہ بات واقعی عجیب ہے۔ آج تک کسی ماڈل نے ایسا نہیں کہا کہ وہ پروڈکٹ کو استعمال کیے بغیر اشتہار میں کام نہیں کرے گا۔ بلکہ ماڈلز کو تو اس بات سے غرض ہی نہیں ہوتی کہ وہ پروڈکٹ کیسی ہے، اچھی ہے یا بری ہے۔ اُن کو اپنے پیسوں سے غرض ہوتی ہے اور بس!

دیکھا جائے تو یہ لڑکا اشتہاروں سے اچھا خاصا کما سکتا ہے لیکن اس قسم کا رویّہ تو اپنے پیروں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ یقیناً وہ کسی اچھی تربیت کے زیرِ اثر پلا بڑھا ہے ورنہ آج کل تو لوگ مالی منفعت کے آگے کچھ بھی نہیں دیکھتے۔

*****

 
صدیقی صاحب جب کلائینٹ سے ملے تو خلافِ توقع کلائینٹ نے اُنہیں کہا کہ وہ ہر حال میں اپنا اشتہار عامر وسیم سے ہی کروانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پرانے چاولوں کے مقابلے میں نئے ٹیلینٹ اور نئے چہرے کے ساتھ اپنا اشتہار کروائیں۔ کلائینٹ نے کہا کہ وہ اپنی پروڈکٹ کے کچھ فریش سیمپل بھیج دے گا تاکہ وہ عامر وسیم کو بھیج دیے جائیں ۔ کلائینٹ نے صدیقی صاحب کی ذمہ داری لگائی کہ وہ کسی طرح عامر وسیم کو اس اشتہار کے لئے راضی کریں۔

صدیقی صاحب جتنا عامر وسیم سے چِڑ رہے تھے اُتنا ہی اُنہیں اُس سے واسطہ پڑ رہا تھا۔

*****

عامر وسیم سے ہماری اگلی ملاقات کم و بیش دو ہفتے بعد ہوئی۔

صدیقی صاحب نے کافی کوشش کے بعد اپنے موڈ کو خوشگوار بنایا اور عامر وسیم کو فوڈ سپلیمنٹ کے تازہ سیمپل دئیے جو کلائینٹ نے خاص طور پر عامر وسیم کے لئے بھیجے تھے۔

عامر وسیم حسبِ سابق بہت اچھی طرح ملا ۔ بظاہر یہ ایک کھلندڑا اور ہنس مکھ نوجوان تھا۔ عامر وسیم نے بتایا کہ ان سیمپلز کی اب ضرورت نہیں ہے۔ وہ مارکیٹ سے لے کر اس پروڈکٹ کو استعمال کرتا رہا ہے اور اس دوران اُس نے پروڈکٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ بھی کرو ا لیا ہے۔ اب وہ پروڈکٹ سے مطمئن تھا ۔

یوں صدیقی صاحب کی مشکل توقع سے کہیں پہلے آسان ہو گئی اور پھر وہ بھی خوش دلی سے باقی کے مراحل میں جُت گئے۔ 

*****


عامر وسیم ایک اچھا کرکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ خوش شکل اور جاذبِ ِ نظر بھی تھا۔ پھر ہماری فرم کا برسوں کا تجربہ بھی اشتہار سازی میں شامل رہا ۔ یوں یہ اشتہار کافی اچھا بنا ۔ اور لوگوں میں مقبول بھی بہت ہوا۔

کمپنی کے مالک نے ایک کام اوربھی کیا۔ اُس نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ایک کمپین چلائی ، جس میں ایمانداری اور سچی گواہی کے ہیش ٹیگز شامل کیے گئے اور اس میں بتایا گیا کہ کرکٹر نے اشتہار میں کام کرنے کی کیا شرط رکھی۔ یہ کمپین بظاہر کرکٹر کو سراہنے کے لئے تھی ۔ لیکن ضمنی طور پر یہ اس پروڈکٹ کی شہرت کا سبب بنی کہ ہر پوسٹ ہر ٹوٹئٹ میں اشتہار کی ویڈیو بھی شامل کی گئی۔

یوں عامر وسیم کی شہرت اور نیک نامی کو بھی چار چاند لگے ،لیکن اصل فائدہ کلائینٹ کو ہی ہوا۔

*****

آج اتوار کا دن تھا ۔ سہ پہر کے وقت میں اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر حالات حاضرہ کا کوئی پروگرام چل رہا تھا۔ ہم ادھر اُدھر کی باتیں بھی کر رہے تھے۔

اچانک ٹی وی اسکرین پر ایک اشتہار میں شاہد کمال نظر آیا۔
"میں کبھی کسی ایسے پروڈکٹ کے لئے کام نہیں کرتا جس کو میں نے خود نہ آزمایا ہو۔اور جب تک میں خود اس پروڈکٹ کی تحقیق نہ کر لوں۔ " شاہد کمال بڑے پر یقین لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
اُس کے ہاتھ میں ایک انرجی ڈرنک تھا اور وہ اُس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہا تھا۔

میں اس پروڈکٹ کو دیکھ کر چونکا۔ میں نے فوراً اس کا نام سرچ انجن پر ڈالا۔
میرا خدشہ بالکل درست نکلا۔ یہ تو اُن پروڈکٹس میں سے تھی جن کے استعمال پر وزارتِ صحت نے تنبیہ کی تھی اور مضرِ صحت مصنوعات کی فہرست میں اس کا نام شامل کیا تھا۔

غالب کا ایک شعر نہ جانے کہاں سے میرے حافظے میں نمودار ہوا۔

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی

اور میں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔

***-***-***

افسانہ - روپ بہروپ

مختصر افسانہ: اردو ہے کس کا نام؟

اردو ہے کس کا نام؟
مختصر افسانہ از محمد احمدؔ

"بس! یہاں سائڈ پر گاڑی روک دیجے۔"۔۔۔ایک نشست سے نسوانی آواز بلند ہوئی۔
"کیا نمبر ہے آپ کا؟"۔۔۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف روکتے ہوئے بورڈنگ پاس نمبر پوچھا۔
"تھرٹی تھری"۔۔۔ دوشیزہ نے موبائل ایپ پر دیکھتے ہوئے بتایا۔
"اردو میں بتاؤ۔ "۔۔۔سرحدی علاقے کا ڈرائیور انگریزی گنتی سے نابلد تھا۔
"تین تین "۔۔۔ لڑکی نے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا۔ وہ لفظ تینتیس سے واقف نہیں تھی۔
ڈبل تین؟ ڈرائیور نے اپنے انداز میں تصدیق چاہی۔
جی۔
اور اس طرح دو پاکستانی شہری ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔
نئی نسل کی اردو سے بے رغبتی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ "اِشو" بناتے ہیں۔ 

*****





تبصرہ ٴکُتب | سرگزشت از سید ذوالفقار علی بخاری

سرگزشت

سید ذوالفقار علی بخاری
 
23 مارچ 2020ء کو سندھ حکومت نے صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا اور سب لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھیں تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکے ۔ آج اپریل کی چار تاریخ ہے اور تا حال لاک ڈاؤن جاری ہے ۔

نہ جانے اس لاک ڈاؤن سے کتنے فائدے اور کتنے نقصانات ہوئے تاہم اس سے قطع نظر ذاتی حیثیت میں ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ کچھ رُکے ہو ئے کام جو عدم فرصت کے باعث التویٰ کا شکار تھے، ہمارے کان میں کہنےلگے کہ اب تمہارے پاس کوئی بہانہ نہیں بچا۔

انہی بہت سے کاموں میں ایک کام وہ بھی تھا کہ جس کی تلقین ہم سارے زمانے کو کیا کرتے ہیں، یعنی کتب بینی۔ گو کہ ہم نے اب بھی اپنا تما م تر وقت کتب بینی کو نہیں دیا تاہم کچھ نہ کچھ آنسو پوچھنے کا سامان ہو ہی گیا۔

قصہ مختصر ، سید ذوالفقار علی بخاری کی آپ بیتی "سرگزشت" جو ہمارے زیرِ مطالعہ تھی اور جسے ہم مزے لے لے کر آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے، اُسے کچھ زیادہ وقت ملا اور ہم مکمل کتاب پڑھنے میں کامیاب ہو گئے، یا کتاب ہم سے جان چھرانے میں کامیاب ہو گئی۔

سرگزشت نہایت دلچسپ کتاب ہے ۔ فاضل مصنف نے یہ آپ بیتی بالکل غیر رسمی انداز میں لکھی ہے اور اس میں بے ساختگی کمال کی ہے ۔ تاہم غیر رسمی ہونے کے باوجود کتاب کے تمام تر مضامین باہم مربوط نظر آتے ہیں۔

اسے ان کتابوں کی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے کہ جو ختم ہونے کے قریب آئیں تو دل میں ملال سا ہوا کہ یہ دلچسپ کتاب اب ختم ہو جائے گی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب "غبارِ خاطر" اور کچھ دیگر کتابوں کے اختتام پر بھی ہماری ایسی ہی کچھ کیفیت تھی۔ غبارِ خاطر میں اور اس کتاب میں ایک اور قدرِ مشترک باموقع فارسی اشعار کی شمولیت بھی ہے۔ فارسی اشعار ہماری سمجھ میں بامشکل ہی آتے ہیں ۔ لیکن مقامِ شکریہ رہا کہ غبارِ خاطر کی طرح اس کتاب کے آخر میں فارسی اشعار کی تشریح موجود نہیں تھی ورنہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے بھی ہم نفسِ مضمون اور تفہیمِ شعر کی حسرت کے درمیان ہی معلق رہتے۔

مجھے اعتراف ہے کہ میں نے کافی عرصے بعد ایک بہت دلچسپ کتاب پڑھی اور اپنے وقت کا زیاں ہرگز محسوس نہیں ہوا۔

بخاری صاحب نے مضامین کو کوئی عنوان نہیں دیا بلکہ اُنہیں شمار کیا ہے اور اس اعتبار سے کتاب میں کل 55 مضامین ہیں۔ کتاب کے مضامین گو کہ کہانی کی صنف سے علاقہ نہیں رکھتے تاہم بخاری صاحب ہر مضمون کو نکتہ عروج یعنی کلائمیکس تک لے جاتے ہیں اور اکثر مضامین کا انجام افسانوں کے انجام کی طرح ہوتا ہے اور قاری کتاب ہاتھ میں لیے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ مضامین فکشن نہیں ہیں تاہم فکشن سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ خاکسار کی رائے میں ایسا طرزِ تحریر قسمت والوں کو ہی میسر آتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کتاب میں شاذ ہی یہ گمان ہوتا ہے کہ کوئی بات دُہرائی جا رہی ہے۔ ورنہ اکثر آپ بیتیاں مکر ر ارشاد سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ لوگ اُلٹ پھیر کر وہی مضامین بیان کرتے چلتے جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ بخاری صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزار ی ہے اور ریڈیو جیسے محکمے میں جو اُس وقت بے حد اہمیت کا حامل تھا ایک اہم عہدے پر فائز رہے اور سرگرم طبعیت کے باعث ہمہ وقت پر عزم اور مصروف عمل رہے ۔

بہرکیف کتاب انتہائی پرلطف ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ اپنا قیمتی وقت اس کے لئے نکالا جائے۔


*****

تبصرہ ٴکُتب | احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

یہ کتاب معروف پاکستانی صنعت کار جناب احمد داؤد کی سوانح عمری ہے اور اسے عُثمان باٹلی والا صاحب نے لکھی ہے۔ احمد داؤد پاکستان میں صنعتکاری کے بانی سمجھے جاتے ہیں اور کاروباری اعتبار سے پاکستان میں اُن کا نام کافی اہم ہے۔

کتاب کی زبان صاف ستھری ہے اور مضامین بڑے واضح اور آسان انداز میں لکھے گئے ہیں ۔غرض یہ کہ تحریر پر مصنف کی گرفت مضبوط ہے اور مضامین کا ابلاغ ایک عمومی قاری کے لئے بے حد آسان ہے ۔

احمد داؤد کی سوانح عمری ہندوستان سے شروع ہو کر پاکستان تک آ جاتی ہے۔ احمد داؤد کی ساری زندگی محنت اور جانفشانی سے عبارت ہے۔ کاروباری برادری سے تعلق ہونے کے باعث اُن کو کاروباری سمجھ بوجھ وراثت میں ملی تھی۔ اُنہوں نے اپنی محنت سے اپنی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔

نوجوانوں کے لئے ان کی زندگی میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔ احمد داؤد کام کو زندگی سمجھتے تھے اور ہمیشہ انتھک محنت اور لگن سے اپنے اہداف کے حصول میں لگے رہتے تھے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے احمد داؤد کے کچھ اقوالِ زریں میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔

"Pursue work not money. Get down to work and don’t pursue money. If you run after the money it might run away but if you concentrate on your work, money will automatically follow you. So work, work and only work."

"Never lose your hope while passing through unfavorable conditions or experiencing tough times"

"Leave your nose (ego, arrogance or hot temperament) at home while going out for work."

Ahmed Dawood
گو کہ مصنف نے احمد داؤد صاحب کی کچھ خامیوں کا ذکر کیا ہے تاہم ان کا یہ ذکر برائے خانہ پوری ہی معلوم ہوتا ہے۔ خاکسار کا خیال ہے کہ ہر کامیاب شخص کی طرح احمد داؤد کی شخصیت بھی کہیں نہ کہیں ضرور متنازع رہی ہوگی اور اُن کے دوستوں کے ساتھ ساتھ اُن سے اختلاف رکھنے والے لوگ یا اُن پر تنقید کرنے والے لوگ بھی ضرور ہوں گے۔ تاہم یہ کتاب اس معاملے میں خاموش ہے ۔ غالباً یہ کتاب اُن کی برداری کے ایک فرد کی طرف سے لکھی گئی ہے سو اسے ایک غیر جانبدار کتاب گرداننا دشوار ہو گا۔

تاہم احمد داؤد کی زندگی اور جدو جہد سے سبق سیکھنے والوں کے لئے یہ کتاب بہر کیف مفید ہے۔ 

تبصرہ ٴکُتب | بیراگ (ناول)

بیراگ

بیراگ سنہالی ادب کا ایک ناول ہے جسے مارٹن وکرما سنگھے نے تحریر کیا ہے ۔ اس ناول کا اردو ترجمہ مصطفیٰ نذیر احمد صاحب نے کیا ہے اور اس کے ناشر مشعل لاہور ہیں۔ بنیادی طور پر اس ناول کا پس منظر سری لنکا کا دیہی علاقہ ہے اور ناول میں سنہالی ثقافت رچی بسی ہے۔




اس ناول کی طرز ایک آپ بیتی کی سی ہے ۔ لیکن اس سے پیشتر راوی نے اختتامیہ پیش کیا ہے کہ جو ہمیں ناول کے کردار و واقعات سے آگہی دیتا ہے۔ گو کہ ناول کا پلاٹ سیدھا سادھا ہے لیکن پھر بھی یہ کسی عام ناول سے بہت مختلف ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ کہانی دلچسپ ہے لیکن زیادہ دلچسپ انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں الجھتے بل کھاتے وہ مظاہر ہیں جو اس ناول میں بین السطور پیش کیے گئے ہیں۔ اگر آپ کسی شاندار پلاٹ اور کہانی میں ٹوئسٹ کے متلاشی ہیں تو یہ ناول آپ کے لئے نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ انسان کی گوناگوں درونی کیفیات اور نفسیات سے دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو یہ ناول کو ضرور پڑھنا چاہیے۔

سرقہ مارکہ ذہنیت


چوری کو عربی میں سرقہ کہتے ہیں، چکاری کو کیا کہتے ہیںیہ جاننے کے لئے ہم ابھی تک مناسب لغت کی تلاش میں ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت میں صبر نہیں ہے تو آپ لغت کے ملنے تک سرقہ سراقی سے گزارا چلا سکتے ہیں۔

مارکہ کا لفظ غالباً مارک یا نشان سے اخذکیا گیا ہے اور مارکہ کا مطلب ہے نشان زدہ۔ اگرآپ نے اپنے بچپن میں بلی مارکہ اگربتی کا اشتہار دیکھا ہے تو آپ اسے با آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔ یعنی ایسی اگربتی جس کے ڈبے پر بلی کانشان یاتصویر ہو۔

ذہنیت کا مطلب ذہنی معیار ہے جو سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے لیکن کچھ ذہنی معیار پوری قوم کے بھی بن جاتے ہیں ۔ پوری قوم میں بہرکیف ملت کا ہر شخص شامل نہیں ہے لیکن سوادِاعظم کی سوچ اُسی قسم کی ہو جاتی ہے۔

ابھی کچھ دنوں سے ہم اپنی تحریروں میں مشکل الفاظ کو کھول کھول کر بیان کرنے لگے ہیںاورہمیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ ہمارے قارئین کی اردو کا حال بھی ہمارے ہی جیسا ہے، اور جیسے ہم کسی تحریر میں مشکل الفاظکی بہتا ت دیکھ کر پہلے آنکھیں اور بعد میں صفحہبند کر لیتے ہیں ویسے ہی ہمیں لگتا ہے کہ ہماری تحریریں قارئین کی لسانی قابلیت کے لئے دعوتِ مبارزت کا کام کررہی ہیں۔ تاہم ہمارا حال اُس بچے سے سوا نہیںہے کہجو پانی کاگلاس ہاتھ میں لیتے ہوئےاپنے بڑوں کو ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے مم مم نہیں بلکہ پانی کہتے ہیں۔بہرکیف، اس بارہمیں جلد سے جلداپنے موضوع کی طرف لوٹنا ہے، سو فی الحال فرہنگ کو داخل دفترکیے دیتے ہیں۔


آپ نے شاید بندر روڈ ، کراچی میں سعیدغنی عطرفروش کی دوکان دیکھی ہو۔ ہم نے یہ دوکان آج سے کئی سال پہلے دیکھی تھی اور ہمیں یہاں سے کچھمنگوانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو سامنے ہی سعید غنی عطرفروش کی دوکان نظر آئی ۔ ہم جھٹ سے اندر گھس گئےاور دکاراشیاء کا مطالبہ کیا، جو اتفاق سے اُن کے پاس موجود نہیں تھی۔ ہم دوکان سے باہر آئے کہ اب کیا کیا جائے تودیکھا کہ برابر میں ایک اور سعید غنی کی دوکان ہے ۔ اس سے اگلی دوکان پر نظر دوڑائی تووہ بھی سعید غنی کی دوکان تھی۔ حتیٰ کہ اُس کے بعد والی دُوکان بھی سعید غنی کی ہی تھی۔

بعد میں پتہ چلا کہ سعید غنی عطر کے کامیاب اور مشہور و معروف تاجر ہیں اور اُن کے معروف برانڈ کی نقل کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے دیدہ دلیری سے عین اُن کے برابر دوکان کھول لی ہے اور نتیجتاً ایک ساتھ ایک ہی جیسی اور ایک ہی نام کی چار پانچ دوکانیں ہو گئی ہیں۔ یا حیرت ! اگر ان چوروں میں خدا خوفی نہیں ہے تو کیا آنکھوں میں مروت بھی نہیں ہے۔ بھلا کیسے لوگ عین برابر میں بیٹھ کرآپ کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈال لیتے ہیں۔

اگر آپ حیدرآباد کے شاہی بازار میں جائیں تو وہاں بھی آپ کو یہی حال نظر آئے گا۔ اور ایک قطار میں آپ کو بے تحاشا "حاجی ربڑی" والے نظر آئیں گے۔اگر کوئی آپ کو بھیجے کہ جناب وہاں سے آپ"حاجی ربڑی" لے کر آئیں تو آپ فیصلہ ہی نہیں کر پائیں گے کہ ان میں سے وہ "حاجی" کون سا ہے جس کے پاس مجھے بھیجا گیا ہے۔کیا ربڑی بیچنا بھی اتنا مشکل کام ہے کہجس کےلئے دوسروں کے برانڈ چُرانا لازمی ہو جائے۔ یا ہم بطورِ قوم اس چوری کو چوری ہی نہیں سمجھتے اور "حاجی" کو "ربڑی" کا جنرک نام سمجھنے لگے ہیں۔

اب ہمارے ہاں یہ بھی ہونے لگا ہے کہ پہلے لوگ کسی کاروباری شخص کو کوئی دوکان کرائے پر دیتے ہیںاور جب دوکان چل پڑتی ہے تو اُس شخص کوکرائے کی دُوکان سے چلتا کرکے خود اُسی جگہ ویسی ہی دوکان کھول لیتے ہیں اور کچھ بے شرم تو پچھلے کرائے دار کی دوکان کا نام بھی استعمال کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک لودھی صاحب ہیں اُن کی آٹے کی چکی "خان آٹا چکی" کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ اب لودھی صاحب نے اپنی آٹا چکی کا نام لودھی کے بجائے خان صاحب کے نام پر کیوں رکھا یہ تو ہم خود بھی نہیں سمجھ سکے۔ لیکن ہوا یہ کہاُن صاحب نے اپنی آٹا چکی سامنے جگہ خرید کر منتقل کر لی، تو کچھ ہی دنوں میں بالکل اُسی جگہ کم و بیش اُنہی کے نام سے ایک آٹا چکی کُھل گئی، بس نام میں اے کا اضافہ کیا اور چکی کا نام اے خان آٹا چکی ہو گیا۔یعنی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی سے اصلی دُوکان کے سامنے جعلی دوکان کھل گئی۔

کیوں سارق و مسروق میں حائل رہیں پردے
تم شرم و مُروّت کے جنازے کو اُٹھا دو

یعنی اگر کوئی گاہک سال چھے ماہ بعد آئے تو اُسے پتہ بھی نہ چلے کہ جس دوکان سے وہ خریداری کرنا چاہتا تھا وہ سامنے منتقل ہو گئی ہے اور یہ جعلی دوکان ہے۔ ردِ عمل میں اصلیخان آٹا چکی والوں نے بڑا بڑا لکھ کر لگایا جو ہمارے ہاں اکثر لکھا نظر آتا ہے ۔ یعنی "نقالوں سے ہُشیار" اور یہ کہ اصلی خان آٹا چکی کی دوکان یہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ایک میڈیکل اسٹور جو بہت چلنے والا تھا ۔ اُس نے دوکان تبدیل کی یا اُسے دوکان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو وہ اصل دوکان سے کچھ فاصلے پر منتقل ہو گیا۔ اور کچھ ہی دنوں میں پہلی دوکان میںپھر میڈیکل اسٹور کھل گیا اور نئے مالک نے دوکان کا نام تکبدلنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یا بددیانتی سے پرانا نام ہی چلنے دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہاب بھی لوگوں کی بھیڑ اصلی دوکان پر ہی رہتی ہے۔ یعنی چُرانے والے نے اُن کا نام تو چُرا لیا لیکن اُن کا برسوں کا تجربہ اور کاروباری لیاقت نہیں چُرا سکا۔

ایسی بے تحاشا کہانیاں ہیں۔ کیا کیا ذکر کیا جائے۔ ایک زمانے میں جب جیو نیوز نیا نیا لانچ ہوا تھا اور بہت مقبول ہو رہا تھا تو ہر دوسری بیکری اور ڈیری جیو کے نام سے کُھلنا شرو ع ہو گئ تھی۔ یعنی ایک مشہور نام کے سہارے پر لوگ اپنے نئے کاروبار کی بنیاد رکھنا تو گوارا کر لیتے ہیں لیکن محنتاورلگن سے اپنا نام بنانے کو عار سمجھتے رہے تھے۔

ہمارے ہاں کاروباری اخلاقیات کا اتنا فقدان ہے کہ لوگ دھڑلے سے دوسروں کا نام چرا لیتے ہیں اور کسی کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ محنت کرکےاپنا نام بنانے کا اعتماد ایسے لوگوں میں نام کو نہیں ہوتا اوراُن کی حاسد نگاہیں دوسروں کی کمائی پر لگی رہتی ہیں۔

حالانکہ انسان کو محنت سے اپنا نام کمانا چاہیےاور رزق کے معاملے پر رازق پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ چوری کرنے والے کامیاب بھی ہو جائیں تو وہ چور ہی رہتے ہیں اور اُن کو کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں باز پُرس یا مکافات کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔

منزلِ شوق اور نارسائی ، آخر کیوں؟


ہم میں سے بہت سے لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اور بظاہر اُس مقصد کے لئے سنجیدہ بھی نظر آتے ہیں ۔ لیکن دراصل وہ کبھی بھی اُس مقصد کو حاصل نہیں کر پاتے یا اپنا مدتوں پالا شوق پورا نہیں کر پاتے۔ دراصل ہم اُسی بات کو اہمیت دیتے ہیں جسے ہم واقعتاً اہم سمجھتے ہیں۔ اور جسے ہم اہم نہیں سمجھتے وہ چیز دانستہ یا نا دانستہ طور پر اہمیت کی فہرست میں بہت نیچے چلی جاتی ہے۔ یہاں اہمیت دینے سے مُراد کسی چیز کے حصول کے لئے ضروری مراحل کی تکمیل اور عملی تقاضوں کا پورا کرنا ہے۔

الغرض اصل بات ہے اہمیت کی۔ اور پھر اہمیت کی ترتیب ، یعنی ترجیحات کی۔

ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیں باتیں کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ خاص طور پر اپنے شوق کے بارے میں ۔ اور کبھی کبھی ہم محض باتوں سے ہی اپنے شوق کی تسکین کر لیتے ہیں۔ اور اُسی سے ہمیں جھوٹا ہی سہی لیکن تکمیل کا تاثر (Sense of Completion) مل جاتا ہے۔ اور نتیجتاً ہمارے شوق کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ سادے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا شوق، عمل کے لئے جو جذبہ اور جو اُمنگ ہم میں پیدا کرتا ہے، ہم اُس آگ میں ہاتھ سینک لیتے ہیں اور چائے چڑھانا بھول جاتے ہیں۔ خیر یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہےسو اس بارے میں ہم پھر کبھی بات کریں گے۔


بات ہو رہی تھی اہمیت کی ترتیب کی، یعنی ترجیحات کی۔ فرض کیجے آپ کی انگریزی زبان کی لیاقت بالکل معمولی سی ہے اور آپ اپنی انگریزی زبان کی استعداد بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ اور آپ بارہا اپنے دوستوں میں، عزیز و اقارب میں بیٹھ کر اس کا اعادہ بھی کر چکے ہیں ۔ لیکن بات یہ ہے کہ بات اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ ممکن ہے آپ نے چار سال پہلے کہا ہو کہ آپ اپنی انگریزی اچھی کرنا چاہتےہیں اور آپ اب بھی کہتے ہیں کہ آپ اپنی انگریزی اچھی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ممکن ہے کہ اگلے چار سال بعد بھی آپ اپنی محفلوں میں کسی سے یہی کہہ رہے ہوں۔

سُنتے آئے ہیں کہ انسان کی ایسی قَسموں پر گرفت نہیں ہوتی جو اُس نے بس یوں ہی رواروی میں کھالی ہوں یعنی بغیر کسی سنجیدگی اور تدبر کے۔ لیکن ایسی قسمیں جو اُس نے باقاعدہ سوچ سمجھ کر اور پکے ارادے سے کھائی ہوں اور اُنہیں پورا نہ کر سکے تو پھر اُسے کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

سو جب ہم کسی مقصد کے حصول کا اظہار کرتے ہیں اور اکثر کرتے رہتے ہیں تو پھر ہم پر بھی یہی قسم کے کفارے والا فارمولا عائد ہوتا ہے۔ اگر ہم واقعی سنجیدگی سے کوئی بات کرتے ہیں اور اُس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو پاتی تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ چُوک ہوئی کہاں۔ اور اب کیسے کفارہ ادا کیا جائے۔

اگر اس بات کا تعین ہو جائے کہ آپ اپنے مقصد یا شوق کے اظہار میں سچے تھے تو پھر اب ایک ہی مسئلہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے ترجیحات میں اُس مقصد کے تعین کا۔ آپ اپنی تمام تر ترجیحات کو ایک کاغذ پر لکھ لیں اور پھر اُن پر اہمیت کے اعتبار سے نمبر ڈال لیجے۔ اگر آپ کا مذکورہ شوق پہلی پانچ ترجیحات (علاوہ بنیادی ضرورتیں) میں جگہ بنانے میں ناکام ہو جائے تو پھر اُس سے دستبردار ہو جائیے اور جگہ جگہ محفلوں میں غیر سنجیدہ دعووں سے گریز کریں۔

تاہم اگر آپ کا شوق شروع کی پانچ ترجیحات (علاوہ بنیادی ضرورتیں) میں شامل ہو جائے تو پھر اس کے لئے باقاعدہ وسائل (وقت اور اخراجات ، اگر درکار ہوں) مختص کریں اور اللہ کا نام لے کر کام میں جُت جائیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ سیوہ بنا میوہ نہیں ملتا تو پھر محنت کریں اور کوئی کسر نہ چھوڑیں، اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور کامیاب کریں گے۔ 

*****

عربی آسان ہے

عربی آسان ہے
از محمد احمد

کہا جاتا ہے کہ ہر چیز آسان ہونے سے پہلے مشکل ہی ہوتی ہے۔ ایسے ہی جیسے نومولود بچے کے لئے اُٹھ کر بیٹھنا بھی دشوار ہوتا ہے، پھر وہ بیٹھنا سیکھ لیتا ہے تو کھڑا ہونا دشوار ہوتا ہے اور جب کھڑے ہونا سیکھ لیتا ہے تو چلنا دشوار ہوتا ہے اور جب وہ چلنا سیکھ لیتا ہے تو اُسے روکنا دشوار ہو جاتا ہے۔ 😊

بالکل اسی طرح عربی زبان ہم غیر عرب لوگوں کو دشوار لگتی ہے باوجود اس کے کہ ہم مسلمانوں کااس زبان سے قلبی اور روحانی رشتہ ہے۔ لیکن درحقیقت عربی اتنی مشکل زبان نہیں ہے جتنی کہ ہم سمجھتے ہیں۔ بس محنت اور لگن درکار ہے جو ہر اچھی چیز یا مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہوا کرتی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ماحول نہ ہونے کی وجہ سے عربی بول چال ہم غیر عرب لوگوں کے لئے دشوار ہے لیکن وہ عربی جو کہ اسلامی تعلیمات کے ماخذ ات (قران و احادیث) میں ہمیں ملتی ہے اتنی مشکل نہیں ہے کہ جتنی سمجھی جاتی ہے۔ بالخصوص اگر ہم بات کریں عربی برائے قران فہمی کی تو اُس کا سیکھنا اُتنا زیادہ دشوار نہیں ہے کہ جتنا عموماً سمجھا جاتا ہے۔

ہمیں پہلے سے کیا آتا ہے؟

ہم پاکستانی جو اردو زبان سے بخوبی آشنا ہیں اُن کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ اردو کے 60 سے 70 فیصد الفاظ عربی الاصل ہیں اور وہ ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ جیسے قلم، کتاب، باب، ارض، شمس، اولاد، طفل، فقیر، مسکین، مدرسہ ، مسجد، صالح، صغیر، طویل، خلق، علم، رحم، ظلم، عدل اور اس جیسے بے شمار اردو کے الفاظ ،عربی الاصل ہیں اور ہمارے لئے اجنبی نہیں ہیں۔

پھر مسلمان ہونے کے ناطے بے شمار اسلامی اصطلاحات، جیسا کہ صوم و صلوۃ، خیرات و زکوۃ ، حج عمرہ، جنت، جہنم، دنیا، آخرت، قیامت، ایمان، کفر، نفاق، فسق، عمل وغیرہ بھی ہمارے لئے نئی نہیں ہیں۔

مزید یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اسلامی تاریخ اور قرانی واقعات سے واقف ہیں، قصص النبین کچھ لوگوں نے پڑھ رکھے ہیں۔ کچھ نے ادھر اُدھر محفلوں میں کہیں کہیں سے سُن رکھے ہیں۔ اصحابِ کہف کون تھے، ان کا کیا ماجرہ تھا۔ ہم جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ابراہیم اور موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں کو تو جانتے ہی ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم لوگ فرعون ، ہامان، قارون ، طالوت ، جالوت اور ہاروت ماروت کے نام بھی کہیں نہ کہیں سن رکھے ہیں۔ 


عربی سیکھنے میں آسان کیوں ہے؟

سب سے پہلے تو درج بالا دو باتیں یعنی ہم اردو اور اسلام کی نسبت سے بہت سے عربی الفاظ اور اصطلاحات پہلے سے جانتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ عربی ایک منظم و مربوط (Systematic) زبان ہے۔ اس کی گرامر کے اصول گو کہ پیچیدہ ہیں لیکن ایک بار سمجھنے کے بعد وہ ہمارے لئے ہمیشہ کام آتے ہیں۔

مزید یہ کہ عربی زبان کے 99 فیصد الفاظ کسی نہ کسی تین حروف کو بنیاد بنا کر تشکیل دیے جاتے ہیں۔ ان تین حرفوں کو لفظ کا مادہ (Origin of word) کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عربی زبان میں مختلف قسم کے سانچے (Dies) استعمال ہوتے ہیں جو مادے کے حروف و حرکات کو استعمال کرتے ہوئے مختلف لفظ بناتے ہیں۔ ان سانچوں کو وزن کہا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر لفظ "علم" تین حرفی مادے پر مشتمل ہے اسے مختلف سانچوں سے گزار کر متعدد الفاظ تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ سو اس طرح اصل مادے "علم" سے ہم ، عالم، معلوم، معلّم، معلّمہ، علوم، تعلیم،اعلام، علامہ، علماء، علیم اور اس کے علاوہ کئی ایک الفاظ حاصل کر لیتے ہیں۔ یعنی ایک مادے اور اُس کے اوزان (Patterns) کے بارے میں سیکھ لینے سے ہمارے اوپر ایک جہان معنی کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ ہے نا آسانی؟

مزید میّسر آسانیاں کیا ہیں؟

پھر اگر بات کی جائے "عربی برائے قران فہمی" کی، تو جناب ہم سب کے پاس غلطیوں سے پاک قرآن کا متن موجود ہے۔ اور کئی ایک تراجم بھی دستیاب ہیں۔ لفظ بہ لفظ تراجم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مفسرین کی کتابیں بھی ہیں۔ اگر آپ کے پاس یہ کتابیں نہیں ہیں تو آپ سرچ قران ڈاٹ کام سے تراجم دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈرائڈ فونز کے لئے اسلام 360 کی ایپ ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں ، جس میں نا صرف کئی ایک تراجم و تفاسیر موجود ہیں بلکہ لفظ بہ لفظ ترجمہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ قران فہمی کی بات کی جائے تو نہ تو ہمیں عربی بولنے کی ضرورت ہے اور نہ لکھنے کی۔ لکھا ہوا مواد ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم نے بس اُسے پڑھنا ہے اور سمجھنا ہے۔

انٹرنیٹ پر عربی گرامر کی کئی ایک کتابیں با آسانی مل جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر عربی گرامر کے حوالے سے کئی ایک سیریز موجود ہیں ۔ بالخصوص جناب عامر سہیل صاحب کے ویڈیو لیکچرز موجود ہیں ۔ جنہوں نے عربی گرامر کو بہت ہی آسان کرکے سمجھایا ہے۔

اگر آپ میں عربی سیکھنے کی لگن پیدا ہو جائے تو آپ کے علاقے میں بھی آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا ادارہ ضرور مل جائے گا کہ جہاں مختصر وقت لگا کر آپ عربی سیکھ سکیں گے۔

اگر گرامر طبعاً آپ کے لئے دشوار چیز ہے تو آپ یوٹیوب پر موجود عبد الرحیم صاحب کے لیکچرز بہ عنوان "آؤ قران سمجھیں" دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں صرف و نحو کی تفصیلات میں پڑے بغیر قران کریم میں زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ و تراکیب سکھائے گئے ہیں اور یہ ایک بہت اچھی سیریز ہے۔ اسی طرز پر فہم القران کورس کے نام سے ایک کتاب موجود ہے جس میں 1100 سے زائد کلمات و آیاتِ قرانی کا ذخیرہ موجود ہے جو قران میں بار ہا استعمال ہوئیں ہیں۔ اس کتاب میں ان کلمات و آیات کا اردو اور انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔

الغرض اگر آپ سیکھنا چاہیں تو بے شمار سہولتیں آپ کی منتظر ہیں۔ بہ شرطِ عزمِ مصمم آزمائش شرط ہے۔

شروعات کیسے کریں؟

اتنا کچھ پڑھ لینے کے بعد اب ایک بار اس بات کا تعیّن کریں کہ آپ عربی برائے قران فہمی سیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر آپ واقعتاً اس بات کا تعین کر لیتے ہیں کہ آپ عربی سیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز ہیں:

ترجیحات

اب جب آپ عربی سیکھنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں تو سب سے پہلے اس بات کا تعیّن کریں کہ آپ کی ترجیحات میں عربی کے لئے کون سی جگہ ہے۔ اس طرح ترجیحات طے کرنے سے عربی آپ کے ضروری و بنیادی کاموں میں رُکاوٹ نہیں بنے گی اور نہ ہی کوئی دوسری عبث سرگرمی عربی سیکھنے کی راہ میں حائل ہوگی۔

وقت

پھر آپ عربی سیکھنے کے لئے ایک خاص وقت کا تعیّن کریں جو آپ اس کام کو پابندی سے دیں گے۔ یہ روزانہ کا ایک گھنٹہ بھی ہو سکتا ہے اور پندرہ منٹ بھی۔ یا ہفتے کے دو گھنٹے بھی۔ اس کا تعیّن بھی آپ اپنی مصروفیات اور آسانی کے حساب سے کریں گے۔

رہنمائی کیسے حاصل کریں

سب سے پہلے تو آپ اللہ سے دعا کیجے کہ آپ خالص اللہ کی رضا کے حصول کے لئے قرانِ کریم سمجھنا اور اس سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ آپ کے لئے راستے کھو ل دے گا۔ کہ اللہ نے خود بارہا فرمایا ہے کہ ہم نے اس قران کو سمجھنے کے لئے اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کر دیا ہے۔

نیز اگر آپ کسی باقاعدہ ادارے میں داخلہ لیتے ہیں تو آپ کو وہاں اساتذہ کی رہنمائی مل جائے گی۔ اسی طرح اگر آپ کسی ویڈیو سیریز کو فالو کرتے ہیں تو بھی آپ کو ویڈیو میں ہدایات ملتی رہیں گی ۔ اس کے علاوہ آپ کی مدد کے لئے ذکر کردہ موبائل ایپس، کتابیں اور لغات میسر ہیں۔ مزید اپنے اردگرد تلاش کیجے جو اس سفر میں ہو اور آپ سے کچھ آگے ہو اُن سے بھی آپ کو رہنمائی مل جائے گی۔ مساجد مدرسے کےعلماء اور مدرسین سے رابطہ کرنا بھی ہمارے ہاں دشوار نہیں ہیں۔ یعنی اگر آپ رہنمائی کے لئے اپنا ہاتھ بڑھائیں گے تو ان شاءاللہ ، اللہ آپ کا ہاتھ تھام لے گا۔

خود سے پڑھنا چاہیں تو کیا کریں

اگر آپ باقاعدہ کلاسیں لینے کا وقت نہیں نکال سکتے تو پہلی ترجیح یہ ہے کہ آپ ویڈیو سیریز سے سیکھیں۔ اگر گرامر کی طرف آپ کا رجحان ہے تو بہتر ہے کہ آپ عامر سہیل صاحب کی بیسک عربی گرامر کے اسباق سے آغاز کریں۔ اگر گرامر سے طبعاً آپ گھبراتے ہیں تو ڈاکٹر عبدالعزیز عبدالرحیم صاحب کی ویڈیو سیریز آؤ قران سمجھیں سے آغاز کریں۔ اگر ویڈیو سیریز فالو کرنے میں کچھ قباحت ہے تو کتابیں موجود ہیں۔ آپ عربی زبان کے بنیادی قاعدے "لغۃ العربیہ لغیر ناطقین بہا" سے آغاز کر سکتے ہیں، یہ غیر عرب لوگوں کے لئے بہت اچھا قاعدہ ہے اور اس کی کلید بھی اس مضمون کے ساتھ نتھی کتابوں میں شامل ہے۔ نیز اگر آپ عربی گرامر کتابوں سے پڑھنا چاہیں تو گرامر کی بہت سے کتابیں نیچے دیئے گئے روابط پر موجود ہیں۔

اُمید ہے کہ درج بالا گذارشات آپ کا حوصلہ بڑھانے میں اور عربی برائے قران فہمی کے مبارک سلسلے کا آغاز کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔

جزاک اللہ خیر

وسائل و حوالہ جات

سرچ قران ڈاٹ
اسلام 360 ۔ اینڈراوئڈ ایپ

بیسیک عربی گرامر کورس از جناب عامر سہیل صاحب
آؤ قران سمجھیں ۔ ویڈیو لیکچرز ۔ از ڈاکٹر عبدالعزیز عبدالرحیم
کورپس قران

جناب مزمل احمد صاحب کی The Arabic Guide  یوٹیوب سلسلہ
(بشکریہ سیما آفتاب)

(قران کی لسانیات کے حوالے سے یہ ایک اچھی ویب سائٹ ہے، لیکن اس کی بنیادی زبان انگریزی ہے۔)


عربی گرامر کی دستیاب کتابیں

بنیادی قواعد

دارالعلم : اقراء
مدینہ : لغۃ العربیہ لغیر ناطقین بہا ۔ جلد اول، دوم، اور سوم
مدینہ : لغۃ العربیہ لغیر ناطقین بہا ۔ کلید اردو ۔ جلد اول، دوم، اور سوم
مدینہ : لغۃ العربیہ لغیر ناطقین بہا ۔ کلید انگریزی ۔ جلد اول، دوم، اور سوم

عربی بول چال

دارالسلام : آئیے عربی سیکھیں
دارالاشاعت : عربی گفتگو نامہ

عمومی کتب

قرطاس : اردو عربی کے لسانی رشتے
دارالہدیٰ : صرف پانچ منٹ کا مدرسہ۔ جلد اول اور دوم
گوشہ علم و فکر : قران پڑھیے

قران فہمی

پیس ٹی وی : آؤ قران سمجھیں
قرانک ایجوکیشنل پبلیکیشنز : فہم القران کورس


گرامر

دارالسلام : ابتدائی قواعد الصرف
دارالسلام : ابتدائی قواعد النحو۔ جلد اول اور دوم
دارالسلام : ابواب الصرف
مکتبہ محمدیہ : ابواب الصرف
خدام القران : آسان عربی گرامر ۔ حصہ اول دوم سوم
مکتبہ قرانیات : آسان قرانی عربی
عطا الرحمٰن ثاقب : آسان قرانی گرامر
ضیاءالقران : تسھیل النحو
اردو نیوز : عربی اسباق
الہدیٰ : عربی گرامر
خدام القران : عربی گرامر برائے قران فہمی
مکتبہ اہلِ حدیث : علم الصرف
دارالکتاب سلفیہ : علم النحو
دارالسلام : قواعد الصرف
دارالسلام : قواعد النحو
خلیل الرحمٰن : قواعد عربی ایک مبتدی کی نظر سے
دارالسلام : کتاب الصرف جدید
قران اکیڈمی : لسان القران
دارلاشاعت : مسائل النحو و الصرف
دارالقدس : نحو میر
دار القدس : ھدایۃ النحو

لغات

پاک مسلم : جدید عربی لغت
مقتدرہ قومی زبان : قران مجید کا عربی اردو لغت
الکہتاب دہلی : لغات القران جلد اول اور دوم

یہ تمام کتابیں اس ربط پر دستیاب ہیں۔
فہرست کتب کا ربط یہ ہے۔ 

آپ یہ مضمون پی ڈی ایف شکل میں بھی ڈاؤنلوڈ کیجے

جزاک اللہ!

افسانہ: فریاد کی لے​

فریاد کی لے​
از محمد احمدؔ​

وہ اِس وقت ذہنی اور جسمانی طور پر بالکل مستعد تھا۔ بس انتظار تھا کہ مولوی صاحب سلام پھیریں اور وہ نماز ختم کرکے اپنا کام شروع کر دے۔ اُس نے اپنے ذہن میں اُن لفظوں کو بھی ترتیب دے لیا تھا جو اُس نے حاضرینِ مسجد سے مخاطب ہو کر کہنا تھے۔ جیسے ہی مولوی صاحب نے سلام پھیر ااُس نے بھی تقریباً ساتھ ساتھ ہی سلام پھیرا اور ایک جھٹکے سے اُٹھا لیکن عین اُس وقت کہ جب اُس کو کھڑا ہو کر اپنی فریاد لوگوں تک پہنچانی تھی اُس کی قمیص کا دامن اُسی کے پاؤں تلے آ گیا اور ایک دم سے اُٹھنے کی کوشش کے باعث دامن چاک سے لے کر کافی اُوپر تک پھٹ گیا۔ ابھی وہ قمیص کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ ہال کے دوسرے کنارے سے ایک آواز سُنائی دی۔

"میرے بھائیو! میں اور میرے گھر والے تین روز سے ۔۔۔۔" رُندھی ہوئی آواز میں شروع ہوا یہ جملہ بیچ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اِس وقت کسی غیر متوقع "حریف" سے ٹکراؤ کا اُسے خیال تک نہیں تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے دروازے کے پاس ایک خستہ حال لڑکے نے حاضرین کو متوجہ کیا لیکن وہ جملہ مکمل کیے بغیر ہی رونے لگا ابھی وہ اس نئے سائل کی ڈرامے بازی کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک فریاد کرنے والا لڑکا جو اپنا جملہ مکمل کرنے کے بجائے رونے لگا تھا لوگوں کو پھلانگتے ہوئے بھاگنا شروع ہو گیا۔

نہ جانےاُسے کیا ہوا کہ اُس نے بھی نئے سائل کے پیچھے دوڑ لگا دی، کہ جیسے عین "دھندے" کے وقت پہنچ کر اُس کے حریف نے اُسے دعوتِ پیکار دے دی ہو اور پھر میدانِ جنگ سے فرنٹ ہو گیا ہو۔ اور جیسے اب اُس کی پہلی ذمہ داری ہی یہ ہو کہ پسپا ہوتے دشمن کو قریب ہی کہیں چھاپ لے اور پھر ایک ایک کرکے سارے بدلے چُکائے۔

صورتِ حال اب یہ تھی کہ آگے آگے خستہ حال نوجوان لڑکا روتا جاتا اور دوڑتا جاتا تھا اور وہ اُس کے پیچھے پیچھے ایک غیر ارادی تعاقب میں دوڑ رہا تھا ۔ دوڑتے دوڑتے اُس نے سوچا بھی کہ جب نیا لڑکا دوڑ ہی گیا تھا تو اُسے اپنا کام شروع کرنا چاہیے تھا بجائے اِس کے کہ وہ اُس کے پیچھے اپنا وقت برباد کرنے آگیا۔ لیکن یہ سوچ بھی اُس کے قدم روکنے کا حیلہ نہ بن سکی اور وہ اندھا دھند دوڑتا رہا۔

مختلف چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزر کر مفرور سائل ایک گھر کے دروازے میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ اُس نے اُسے جا ہی لیا ۔ اُس کی گرفت میں آکر مفرور لڑکا شدید پریشانی کا شکار نظر آتا تھا اور اُسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اُس کا اندھا دھند تعاقب کرنے والا یہ شخص کون تھا اور آخر اُس سے ایسا کیا قصور ہوا تھا کہ اُسے نجات ملنے کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا تھا۔
"کون ہے بے تو؟؟؟" اُس نے حقارت سے لڑکے سے پوچھا
"میں ! میں!" لڑکے کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد سے کیسے نمٹا جائے۔
پھر شاید اُسے ہی خیال آیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی جارح ہو رہا ہے تو اُس نے اپنے لہجے کو کچھ بہتر بناتے ہوئے پوچھا" مسجد میں کیا کرنے آیا تھا؟"
"وہ ، میں۔۔۔! مجھے پیسے چاہیےتھے" لڑکے نے ہکلاتے ہوئے بتانا شروع کیا۔
"ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کھانے کو ، پیسے بھی نہیں ہیں" وہ سسکتا جاتا اور بتاتا جاتا۔
"میں نے۔۔۔۔ میری امی نے، میرے بھائی نے ۔۔۔ ہم نے کچھ نہیں کھایا " رو رو کر لڑکے کا بُرا حال تھا اور اُس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ سوال جواب کیوں کر رہا ہے۔
"تین دن سے ہمیں پانی کے علاوہ کچھ نہیں ملا، میں نے سوچا مسجد میں جا کر ۔۔ جیسے دوسرے لوگ ۔۔۔ " لڑکا پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
اُس کے ہونٹوں سے سارے سوال غائب ہو گئے تھے اور آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
پھر اچانک اُس نے آگے بڑھ کر لڑکے کو گلے سے لگا لیا، اور پھر وہ دونوں رونے لگے ۔ جیسے جیسے اُن کا کوئی مر گیا ہو۔ لیکن اُن کا اس دنیا میں تھا ہی کون جو مرتا۔ اور اُن کا کوئی ہوتا تو کیا وہ اس طرح روتے؟
وہ روتے جاتے اور ایک دوسرے کو بھینچتے جاتے کہ جیسےکوئی سالوں برسوں بعد ملا ہو اور اس بات کا یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ ملن کا لمحہ واقعی آن پہنچا ہے۔
آس پاس جمع ہوتے بچوں کو دیکھ کر اُسے کچھ ہوش آیا۔ اُس نے لڑکے کو خود سے جدا کیا اور ہتھیلیوں کی پشت سے آنسو پوچھتے ہوئے بولا ۔ "میرے ساتھ آ" اور اُس کا ہاتھ پکڑکر چلنے لگا۔
سائل لڑکا میکانیکی انداز میں اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔ راستے میں وہ دونوں بالکل خاموش تھے۔کہتے بھی تو کیا۔
اُن کا یہ مختصر سفر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر ختم ہوا اور اُس نے لڑکے کو ہوٹل پر ایک تخت پر لا کر بٹھا دیا۔ ادھر اُدھر دیکھنے پر اُسے ایک پانی کا ڈرم نظر آیا۔ اُس نے ڈرم سے پانی جگ میں نکالا اور منہ دھونے لگا۔ منہ ہاتھ دھو کر اُس نے ایک جگ اور بھرا اور لڑکے کو بُلا کر اُس کا منہ بھی دھلوا دیا۔
کچھ تازہ دم ہو کر وہ پھر سے تخت پر بیٹھے تو بیرا اُن کے سر پر نازل ہو چکا تھا۔ "ہاں اُستاد ! کیا لاؤں؟"
"ایک دال فرائی لے آ اور روٹی گرم لانا ۔ " اُس نے بیرے کو دیکھا اور سوچتے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دیر میں بیرا کھانا لے آیا۔ کھجور کے پتوں سے بنی رکابی میں تندور کی تازہ روٹیاں اور اسٹیل کی پلیٹ میں چنے کی دال ، فرائی کی ہوئی۔ سائل لڑکے کے آنسو اب تک تھم گئے تھے لیکن اُس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اُس نے لڑکے کی طرف دیکھا اور کھانے کی طرف اشارہ کرکے کہا "گرو ، ہو جا شروع۔۔۔!"

لڑکے نے جھجکتے ہوئے ایک نوالہ بنایا اور دال کی پلیٹ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ لیا۔ نوالے کے منہ میں جاتے ہی اُس کی ساری جھجک رُخصت ہوگئی اور وہ بے صبری سے کھانا کھانے لگا۔ اُسے کوئی خاص بھوک نہیں تھی لیکن لڑکے کا ساتھ دینے کے لئے وہ بھی چھوٹے چھوٹے نوالے لیتا رہا۔


کھانا ختم ہونے پر اُس نے بیرے کو آواز دے کر چائے منگوائی اور مسجد سے فرار اختیار کرنے والے سائل کی طرف متوجہ ہوا۔

"تم مسجد سے بھاگ کیوں گئے تھے۔ "وہ اب تو سے تم پر آ گیا۔
لڑکے نے اُس کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر کہا "مجھے شرم آگئی تھی۔ میں نے، میرے خاندان والوں نے کسی نے بھی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ اگر حالات اس قدر خراب نہ ہوتے تو شاید میں مسجد میں اس غرض سے آنے کی ہمت بھی نہ کر پاتا۔"
"شرم ! " اُس نے حیرت اور غصے سے لڑکے کی طرف دیکھا۔
"تمھیں کیوں شرم آ ئی!" اُس کی آواز غیض سے بھرّا رہی تھی۔
"شرم تو تمھارے پڑوسیوں کو آنی چاہیے، تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے کہ تمھارے ہاں تین روز سے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ بے خبر ہیں۔"
"تمھاری پڑوسی اپنی زندگی جی رہے ہیں، کھا رہے پی رہے ہیں عیش کر رہے ہیں۔ کیا اُن کا فرض نہیں کہ اڑوس پڑوس کا بھی حال پوچھیں۔ کس پر کیا گزر رہی ہے۔ کس پر کیا مصیبت آن پڑی ہے" ذرا توقف کے بعد وہ پھر شروع ہوا۔
"شرم تو تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے ۔ کوئی تمھیں پوچھنے نہیں آیا" اُس نے زور سے سر کو جھٹکا دیا۔
"کیسی رشتہ داری ہے آج کل کی۔ وقت اچھا ہو تو صبح شام چکر لگائیں اور جہاں بُرے دنوں نے رستہ دیکھاوہیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جائیں گے۔"
"لعنت ہے ایسی رشتہ داری پر اور لعنت ہےایسے پڑوسیوں پر۔" اُس نے زور سے چائے کا کپ تخت پر پٹخا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
اُس نے ہوٹل کے مالک سے کہہ کر کچھ کھانا لڑکے کے گھر والوں کے لئے بھی پیک کروایا اور بل ادا کرنے کے بعد کچھ پیسے لڑکے کی جیب میں بھی ٹھونس دیے۔

"میں اسی ہوٹل پر بیٹھتا ہوں شام کے بعد ، کبھی بھی کوئی مسئلہ ہو تو میرے پاس آ جانا۔ اور ویسے بھی ملتے رہنا " اُس نے لڑکے کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ " میں ویسے بھی چھڑا چھانٹ ہوں، میرا گزارا جیسے تیسے چل ہی جاتا ہے"۔ اب اُس کے چہرے پر مُسکراہٹ نے جگہ بنا لی تھی۔

*****

عصر کی نماز اُس نے ایک اور مسجد میں پڑھی ۔ یہ مسجد بازار کے بیچ و بیچ تھی اور اس میں نمازیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ نماز ختم ہوئی تو اُس نے اپنی درد ناک آواز میں فریاد شروع کر دی۔ آج اُس کی آواز میں الگ ہی کرب تھا۔ اُس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کے رٹے رٹے جملے آج تاثیر میں گُندھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پیروں میں بچھے رومال پر چھوٹے بڑے نوٹ جمع ہو رہے تھے۔ وہ مستقل رو رہا تھا اور اندر سے ایک اطمینان اُ س کے اندر اُتر رہا تھا کہ رومال پر جمع ہونے والے نوٹ اب اُس کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ اہم تھے ۔ اُس کی آنکھوں کے آنسو خوشی سے چمک رہے تھے اور اُس کا پھٹا ہوا دامن ہوا میں لہرا لہرا کر مسرت کا اظہار کر رہا تھا۔

*****

اپنے روز مرہ کاموں کی فہرست بنائیں

فہرستِ امورِ ضروری
اپنے روز مرہ کاموں کی فہرست بنائیں

اگر آپ اپنے روز مرہ کے کاموں کی فہرست مرتب نہیں کرتے اور اُس کے باوجود آپ کے سب کام ٹھیک ٹھاک اور اپنے وقت پر ہو جاتے ہیں تو یہ تحریر آپ کے لئے نہیں ہیں۔ آپ بالکل ٹھیک جا رہے ہیں آپ اپنے کام پر توجہ رکھیے اور دوسروں کو بھی یہ گُر سکھائیے۔

لیکن اگر آپ کے کام بروقت نہیں ہو پاتے اور بہت سے کام آپ کے ذہن سے نکل جاتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ روزانہ یا کم از کم ہفتے میں دو تین بار کاموں کی فہرست مرتب کریں اور گاہے گاہے اُس کو دیکھتے رہیے تاکہ آپ کو یاد رہے کہ کون سا کام ہو چکا ہے اور کون سا کام ابھی باقی ہے۔

فہرست امورِ ضروری مرتب کرتے ہوئے درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

کام کی حیثیت:

کام چھوٹا ہو یا بڑا اُسے آپ کی فہرست میں جگہ ضرور ملنی چاہیے۔ اکثر ہم چھوٹے کاموں کو فہرست میں جگہ نہیں دیتے کہ اسے کیا لکھنا ۔لیکن دراصل چھوٹے چھوٹے کام نہ ہو تو اُن کی وجہ سے بہت سے بڑے بڑے معاملات رُکے رہتے ہیں۔ اس لئے یا تو چھوٹے چھوٹے کاموں کو فوراً کر لیا جائے یا پھر فہرست میں لکھ لیا جائے۔
کام اگر بڑا ہو تو ہمیں چاہیے کہ اُسے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیں اس سے ہمیں کام کو نمٹانے میں آسانی ہوگی۔ کسی دانش مند نے کہا ہے کہ اگر آپ پہاڑ کو سرکانا چاہتے ہیں تو ذروں کو سرکانے کا فن سیکھیے۔

مثلاً اگر آپ گھر میں ہونے والی ایک تقریب کے انتظامات کو اپنی کاموں کی فہرست میں جگہ دینا چاہتے ہیں تو ایک دم سے تقریب کا نام لکھ دینے سے بات نہیں بنے گی۔ بلکہ آپ کو چاہیے کہ انتظامات کو مختلف حصو ں میں تقسیم کر لیں۔ مثال کے طور پر ، دعوت ناموں کی تقسیم یا فون کالز، بازار سے منگوانے کے لئے سامان کی فہرست، گھر کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ کا کام وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح ان کاموں کو مزید ٹکڑوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

ترجیحات:


ہماری فہرست میں کاموں کی ترجیح بہت اہم چیز ہے ۔ یعنی ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ کون سا کام زیادہ اہم اور ہے کون سا کم اہم ہے ۔ یا وقت کے حساب سے کون سا کام پہلے کرنا ضروری ہے اور کون سا کام ایساہے جسے بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔

سو ہر کام کے سامنے اُس کے ترجیح ضرور لکھیں مبادا ہم کم اہمیت کے کاموں میں سارا وقت کھپا دیں اور اہم کام رہ جائیں۔ سو جو کام سب سے زیادہ اہم ہو اُس کے سامنے ترجیح ایک (1) لکھ لیں اور جو اُس سے کم اہمیت کا ہو اُس کے سامنےدو (2) لکھ لیا جائے اور اسی طرح ایک سے پانچ تک سب کاموں کی ترجیحات متعین کر لی جائیں۔

معیاد اور دورانیہ


کچھ کام ایسے ہوتے ہیں کہ جو ہمیں ایک خاص وقت تک مکمل کرنے ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ طالب علموں کے اسائنمنٹ وغیرہ ۔ لیکن عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مقررہ وقت یا تاریخ ہمیں مہمیز کرنے کے بجائے سست کرد یتی ہے اور ہم میں سے اکثر یہ سوچتے ہیں کہ ابھی وقت ہے اور کر لیں گے آرام سے۔ لیکن یہی سوچتے سوچتے بہت وقت گزر جاتا ہے اور اچانک ہمیں خیال آتا ہے کہ مقرررہ وقت پورا ہونے میں بس ذرا سی کسر رہ گئی ہے۔ پھر ہم جلدی جلدی میں اُلٹا سیدھا کام کرتے ہیں اور جیسے تیسے جان چھڑا لیتے ہیں ۔

پارکنسن کے مطابق:

Work expands to fill the time available for its completion

یعنی کام عموماً تمام تر میسر وقت میں پھیل جاتا ہے اور وقت کا ایک بڑا حصہ ایک ایسے کام میں کھپ جاتا ہے کہ جو دراصل بہت کم وقت چاہتا ہے۔

اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کام کو لکھتے ہوئے ہمیں اُس کی ڈیڈ لائن کے ساتھ ساتھ اُس کے لئے درکار وقت کا تعین کرنا بھی ضروری ہے ۔ فرض کیجے کہ ایک اسائنمنٹ مکمل کرنے کے لئے آپ کو تین سے پانچ گھنٹے درکار ہیں اور اُس کی ڈیڈ لائن ایک مہینے بعد کی ہے۔ اگر آپ کام کے ساتھ صرف ڈیڈ لائن لکھیں گے تو زیادہ تر اُمید یہی ہے کہ یہ تین سے پانچ گھنٹے کا اسائنمنٹ پورے مہینے پر پھیل جائے اور آخر میں کام بھی معیار ی نہ ہو۔ سو ہمیں چاہیے کہ کام کے ساتھ کام کی ڈیڈ لائن اور اندازاً درکار وقت بھی ضرور لکھیں۔

کب اور کہاں


بہت سے کام صرف اس لئے پورے نہیں ہوتے کہ وہ شروع نہیں ہو پاتےاور وہ روز بروز ٹلتے رہتے ہیں اور مہینے بیت جاتے ہیں ۔ سو ایسے کاموں کو لکھتے وقت دو باتیں اور طے کر لیجے اور وہ دو باتیں ہیں کب اور کہاں؟

فرض کیجے کوئی کام کئی ہفتوں سے ٹل رہا ہے اور آپ سوچتے ہیں کہ اسے بھی کرنا ہے تو پھر آپ سب سے پہلے یہ فیصلہ کریں کہ آیا آپ یہ کام کرنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں کرنا چاہتے تو اپنی فہرست میں اس کام پر خطِ تنسیخ پھیر دیجے تاکہ آپ کے ذہن کا بوجھ ہلکا ہو سکے ۔ یا اگر آپ اس کام کو واقعتاً کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے کرنے کے لئے وقت ، دن، تاریخ کا تعین کر لیں اور اگر کسی جگہ کا تعین بھی ضروری ہو تو وہ بھی کر لیجے۔ ایسا کرنے سے وہ کام ضرور ہو جائے گا۔

کیسے


ضروری امور کی فہرست کیسے بنائیں ؟ یوں تو یہ فہرست بنانے کے لئے کاغذ کا ایک تراشہ اور قلم یا پنسل ہی کافی ہیں لیکن آپ یہ کام کرنے کے لئے کوئی ڈائری بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتے تو بہتر ہو گا کہ آپ ایک پاکٹ ڈائری میں یہ فہرست بنائیں۔

اگر آپ اینڈرائڈ فون استعمال کر تے ہیں تو کچھ ایپس آپ کو اس قسم کی لسٹ بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔ آپ چاہیں تو کلر نوٹ یا اسی انواع کی دیگر ایپس استعمال کر سکتے ہیں۔ یا ونڈوز پر اسٹکی نوٹس بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

آخر میں سب سے اہم بات، اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اس ڈائری کو بار بار دیکھ کر اپنی کارکردگی کا جائزہ نہیں لیتے اور اسے ہاتھ ہاتھ کے ہاتھ اپڈیٹ یعنی تازہ نہیں کرتے تو پھر یہ سب مشقت بے کار جائے گی۔ یاد رکھیے کہ پودا لگانا صرف ایک دن کا کام ہے لیکن اسے پانی روز دینا پڑتا ہے۔

چاند میں تو کئی داغ ہیں


2013ء میں جب پاکستان میں الیکشن کا انعقاد ہوا تو اُس وقت عمران خان کی تحریکِ انصاف ایک بڑی قوت بن کر اُبھری اور گمان تھا کہ یہ میدان بھی مار جائے لیکن نتائج کچھ مختلف رہے۔

اس وقت عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ عمران خان جیسے بھی ہیں لیکن دوسرے دستیاب آپشنز سے بہرکیف بہتر ہیں۔ یعنی بُروں میں سب سے اچھے عمران خان ہیں۔ یا یوں کہیے کہ بہت سے برے آپشنز میں سے وہ نسبتاً بہتر ہیں۔ اگر بات الیکشن تک رہتی تو شاید تحریک انصاف کامیاب بھی ہو جاتی لیکن سیلیکشن کے مرحلے میں آکر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وزیرِ اعظم بننے کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ الغرض دلہن وہی بنی جو پیا من بھائی ! اور عمران خان دلہن نہ بن پائے تو ولن بن گئے اور آنے والی حکومت کے پیچھے پڑ گئے۔

عمران خان نے اپنے مخالفین کو کافی شدید زک پہنچائی اور اُن کی بے انتہا کردار کشی کی ۔ اور اسی وجہ سے اور کچھ اُن کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے اُن کا اپنا کردار بھی نظریاتی لوگوں کی نظر میں تاراج ہو گیا، اور عمران خان 2013ء کی طرح لوگوں کے ذہن میں نجات دہندہ رہبر نہیں رہے بلکہ بہت سے آپشنز میں سے ایک آپشن بن گئے۔

انہوں نے بہت تیزی کے ساتھ اپنی جماعت میں الیکٹیبلز کے نام پر لوٹے بھرتی کیے اور پرانے نظریاتی کارکنوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اُن کے نظریات ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہے اور وہ کبھی یکسو ہو کر کوئی مثبت کام نہیں کر پائے۔ خیبر پختونخواہ میں اُن کی صوبائی حکومت کی شہرت گو کہ باقی تمام صوبوں سے بہتر ہے تاہم وہ خیبر پختونخواہ کو وہ نمونہ نہیں بنا سکے کہ جسے دیکھ آئندہ انتخابات میں اُنہیں ووٹ دیے جا سکیں۔ 


وہ ابھی بہت سے بدترین لوگوں سے بہت بہتر ہیں لیکن درحقیقت صاحبِ کردار لوگ ایسے لوگوں سے اپنے تقابلی جائزے ہی کو اپنے لئے باعثِ شرم جانتے ہیں۔ بہرکیف شنید ہے کہ اس بار پیا کے من میں بھی تبدیلی کی جوت جگی ہے اور وہ نئی دلہن کی طرف راغب ہیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان ایک بار پھر ایک نظریاتی جماعت سے محروم ہو گیا ہے۔

سائے میں پڑی لاشیں


سندھی زبان کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ حق بات اپنی جگہ لیکن ساتھ بھائی کا دیں گے۔ اس سے آپ یہ ہر گز نہ سمجھیے گا کہ تعصب پر سندھی بولنے والوں کی ہی اجارہ داری ہے بلکہ یہ بیماری تو ہمارے ہاں موجود ہر قوم میں کسی نہ کسی شکل میں پھیلی ہوئی ہے۔

تعصب عدل کو معزول کر دیتا ہے ۔ یوں تو عدل اور تعصب دونوں ہی اندھے ہوتے ہیں لیکن عدل سب کے لئے کورچشم ہوتا ہے تاہم تعصب اندھا ہوتے ہوئے بھی اتنا ضرور دیکھ لیتا ہےکہ کون اپنا ہے اور کون پرایا اور کسے ریوڑھیاں بانٹنی ہے اور کسے نہیں۔

ہم بڑے عجیب لوگ ہیں، ہم اپنی معاملے میں عدل چاہتے ہیں لیکن دوسروں کے معاملے میں تعصب سے کام لیتے ہیں۔ جب مصیبت ہم پر آ پڑتی ہے تو ہم انصاف انصاف کی دُہائی دیتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن جب بات کسی اور کی ہو تو ہم سوچتے ہیں کہ صاحبِ معاملہ کون ہے۔ کہاں کا رہنے والا ہے؟ کون سی زبان بولتا ہے؟ کس رنگ و نسل کا ہے؟ حتیٰ کہ ہمارے علاقے کا ہے یا کہیں اور کا۔ ہمارے صوبے کا ہے یا کہیں اور کا؟ ہمارے شہر کا ہے یا کہیں اور کا؟

پھر اگر کوئی آپ کا اپنا معاملے کا فریق بن جائے تو پھر آپ عدل سے آنکھیں چرا کر اپنے پرائے کو ہی حق و باطل کا معیار بنا لیتے ہیں۔ آپ کا اپنا ؟ آپ کا اپنا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کا بھائی، آپ کا رشتہ دار، آپ کے محلے پڑوس کا کوئی شخص ، آپ کا کوئی ہم زبان، ہم رنگ و نسل۔ پھر آپ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں عدل و انصاف نام کی بھی کوئی شے ہے۔ بس جو اپنا ہے وہ ٹھیک ہے اور دوسرا وہ شخص جو آپ سے کوئی نسبت نہیں رکھتا حق پر ہوتے ہوئے بھی ، غلط ہے ۔ ظالم ہے۔

ہم لوگ اکثر روتے ہیں کہ ہمارے ہاں ظلم بڑھ گیا ہے۔ ہمارے ہاں عدل و انصاف نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی ہے۔ لیکن کیا ہم واقعی عدل کو پسند کرتے ہیں۔ عدل جو اندھا ہوتا ہے، جسے اپنے پرائے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ جو کبھی ذات پات، رنگ ونسل، علاقہ و لسان کسی چیز سے علاقہ نہیں رکھتا۔

ہم کہتے ہیں ہمارے ہاں عدل کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہاں تو بس جان پہچان چلتی ہے، یہاں تو سیاسی وابستگی کام آتی ہے یہاں ہمارے لئے عدل کا حصول ممکن نہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے معاملے میں تعصب کو برا سمجھتے ہیں۔

یا ہم نے سارے معیار صرف اس لئے وضع کیے ہیں کہ اُن سے دوسروں کی پیمائش کی جاتی رہے اور ہماری باری پر ہمیں استثنیٰ مل جائے۔


*****
بہرکیف اگر آپ کسی سے تعصب برتتے بھی ہیں تو اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے کہ روزِ حشر اس کے جواب دہ آپ خود ہوں گے تاہم آپ کا یہ تعصب آپ کے دشمنوں کے لئے ہی نقصان دہ نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے اپنے لئے بھی زہرِ قاتل ہے۔

وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ آپ کے سیاست دان آپ کی تعصب کی بیماری سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ آپ کو رنگ و نسل اور زبان و علاقے کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں اور اِسی برتے پر آپ کا قیمتی ووٹ لے اُڑتے ہیں۔ اور آپ؟

آپ اتنے سیدھے سادھے ہیں کہ آپ اس سے پوچھتے تک نہیں کہ ٹھیک ہے تم میری قوم سے ہو لیکن پچھلے پانچ سال تمہاری کیا کارکردگی رہی؟ اگلے پانچ سال کے لئے تمہار ا کیا منشور ہے؟ جس منصب پر پہنچنے کے لئے تم میرا ووٹ طلب کر رہے ہو کیا تم اُس کے اہل بھی ہو ۔ یا تمہاری اہلیت صرف یہ ہے کہ تم میری قوم سے ہو، یا میری زبان بولتے ہو۔

کہتے ہیں کہ اپنا تو مار کر بھی سائے میں ڈالتا ہے تو پھر سمجھ لیجے کہ آپ پاکستانیوں کا جو حال ہے وہ سائے میں پڑی لاشوں سے بہتر نہیں ہے جنہیں اُن کے 'اپنوں'نے مار کر بہت محبت سے سائے میں ڈالا ہے۔

یقین کیجے آپ کی آنکھیں بہت اچھا دیکھ سکتی ہے، بس ایک بار تعصب کی ہری نیلی پیلی عینکیں اُتار کر دیکھنے کی ہمت کیجے۔ تب آپ کو اپنوں میں غیر اور غیروں میں موجود اپنے نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

جادو کا کھلونا ۔۔۔ از ۔۔۔ محمد احمدؔ


آج تو میں اِس دنیا کو انفرینڈ کر ہی دوں گا۔

میں نے آج پھر تلملاتے ہوئے کہا۔ ویسے ہی جیسے ہر بار زخم کھا کر ہاتھ ڈریسنگ باکس میں رکھے مرہم و نشتر کی طرف بڑھتا ہے کہ اب کچھ علاج ہونا ہی چاہیے۔ لیکن بقول راشد:

زہرِ غم کی نگہِ دوست بھی تریاق نہیں
جا ترے درد کا درماں دلِ صد چاک نہیں
ن ۔م راشد

خیر ! نہ جانے کس جھونک میں اُڑتا ہوا میں اُس کی پروفائل تک پہنچ گیا۔ کیا حسین پروفائل تھی، میں ہمیشہ کی طرح مبہوت ہو کر رہ گیا۔ لیکن پھر قاصر کی نصیحت یاد آئی۔

حسین سانپ کے نقش و نگار خوب سہی
نگاہ زہر پہ رکھ، خوشنما بدن پہ نہ جا

وہی پھولوں سا بدن، اور وہی ڈستی خوشبو! میں نے گھبرا کر نظریں چاروں طرف دوڑائیں۔

کہاں ہے؟ ان فرینڈ کا بٹن کہاں ہے؟ کوئی نیلا، کوئی سُرخ بٹن! کہ جسے پوری قوت سے ضرب لگا کر ہی دل کو کچھ تسکین ملے۔ کہ جس پر کلک کرتے ہوئے انگشت تلوار بن جائے اور دل اس زور سے دھڑکے کہ گرج آسمان میں سنائی دے۔

لیکن نہیں یہاں تو کوئی بٹن ہے ہی نہیں! کیسے انفرینڈ کروں؟ کیسے جان چھڑاؤں؟ آخر کیسے؟

کہاں ہیں جون ایلیا، جو کہتے تھے کہ

ترکِ تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی

پھر تو، پھر تو لیاقت علی عاصم ہی اچھے رہے:

عاجز تھا بے عجز نبھائی، رسمِ جُدائی میں نے بھی
اُس نے مجھ سے ہاتھ چُھڑایا، جان چھڑائی میں نے بھی

۔۔۔۔
مگر نہیں ! یہاں تو کوئی انفرینڈ کا بٹن ہی نہیں ہے۔ ہاں ایک بٹن ہے اور کہتا ہے کہ دوستی کی درخواست بھیجو! یا حیرت!

ہم سے نہیں رشتہ بھی، ہم سے نہیں ملتا بھی
ہے پاس وہ بیٹھا بھی، دھوکہ ہو تو ایسا ہو
ابن انشاء

لیجے ایک نئی کشمکش! ہم تو ترکِ دوستی کو تُلے بیٹھے تھے، لیکن کون سا دوست؟ کہاں کا دوست؟ یہاں کوئی دوست ہے ہی نہیں کہ جس سے ترک دوستی کی جائے۔ کہ جس پر تین حرف بھیجے جا سکیں۔ صد حیف کہ دل کے تپتے صحرا کو اوس کے تین قطرے بھی نصیب نہیں!

دیکھیں اب کہ امتحان میں سُرخ رو ہوتا ہے کون
وہ بھی کچھ سوچے ہوئے ہیں، ہم بھی کچھ ٹھانے ہوئے
کلیم عاجز

ماؤس کرسر ایک وحشت لئے اسکرین پر اِدھر سے اُدھر غزالِ دشت کی مانند بھٹک رہا ہے۔ کسی کل چین نہیں پڑتا ۔ ایک بٹن واپسی کا بھی ہے لیکن وہ شاید ڈس ایبل ہے یا کرسر وہاں پہنچنا ہی نہیں جانتا۔

کسی کے ہاتھ کا نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں
حدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا
شاہد کبیر

اک کشمکش ہے۔ کہیں اندر سے صدا آتی ہے کہ اب جا۔ دفع ہو جا۔ آیا تھا ترکِ دوستی کرنے۔ جو تیرا دوست کبھی تھا ہی نہیں اُس سے کیا ترک راہ و رسم کرے گا۔ ہے کوئی عقل تجھے۔ لیکن ماؤس کرسر، ماؤس کرسر ہے کہ دیوانوں کی طرح ایک نیلے بٹن کا طواف کر رہا ہے اور نیلا بٹن اُسے اپنے مرکز کی سمت کھینچ رہا ہے۔

دائرے اِنکار کے، اِقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹیں کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا
افتخار امام صدیقی

ارے ! ارے یہ کیا! ماؤس کا تیر نیلے بٹن کے بیچوں بیچ پہنچ گیا ہے، وہی نیلا بٹن جو کہتا ہے کہ دوستی کی درخواست بھیجو۔ دوستی کی درخواست! اس ناہنجار دنیا کو۔ جو کسی اور کا ہونے دے، نہ اپنا رکھے۔ نہیں! میں تو ترکِ دنیا کا ارادہ کرکے یہاں پہنچا تھا۔ پھر میں دوستی کی درخواست کیونکر بھیجنے لگا۔ آخر کیوں!

نہ جانےیہ کیسی کشش تھی جو میری نحیف انگلی کو خود رفتہ کر گئی۔ میں! میں دوستی کی درخواست بھیج چکا تھا۔ اُسی دنیا کو کہ جس سے جان چھڑانے آیا تھا۔ وہی دنیا جس پر تین حروف بھیجنے تھے۔ آنسوؤں کے دو تین تپتے قطرے میرے صحرا ایسے سینے پر گرے اور صحرا یکایک بادِ صر صر کی زد میں آکر آگ بگولہ ہو گیا۔ وائے حسرت!!!

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے
ندا فاضلی