ادریس بابر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ادریس بابر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ میں کچھ دنوں میں اِسے چھوڑ جانے والا تھا ۔ ادریس بابر

غزل 

میں کچھ دنوں میں اِسے چھوڑ جانے والا تھا
جہاز غرق ہوا جو خزانے والا تھا

گلوں سے بوئے شکست اٹھ رہی ہے، نغمہ گرو!
یہیں کہیں کوئی کوزے بنانے والا تھا

عجیب حال تھا اِس دشت کا، میں آیا تو
نہ خاک تھی نہ کوئی خاک اُڑانے والا تھا

تمام دوست الاؤ کے گرد جمع تھے، اور
ہر ایک اپنی کہانی سنانے والا تھا

کہانی، جس میں یہ دنیا نئی تھی، اچھی تھی
اس اس پہ وقت، برا وقت، آنے والا تھا

بس ایک خواب کی دوری پہ ہے ہو شہر جہاں
میں اپنے نام کا سکہ چلانے والا تھا

شجر کے ساتھ مجھے بھی ہلا گیا، بابر
وہ سانحہ جو اُسے پیش آنے والا تھا

ادریس بابر

ستارے مُڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا

غزل 

ستارے مُڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا
کہ دل، یہ پھول ہمیشہ سے کب کِھلا ہوا تھا

کسی غزال کا نام و نشان پوچھنا ہے
تو پوچھیے، میں اُسی دشت میں بڑا ہوا تھا

کمال ہے کہ مِرے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے
وہ شخص جیسے کہیں اور بھی گیا ہوا تھا

ہنسی خوشی سبھی رہنے لگے، مگر کب تک
میں پوچھتا ہوں کہانی کے بعد کیا ہوا تھا

پھر ایک دن مجھے اپنی کتاب یاد آئی 
تو وہ چراغ وہیں تھا، مگر بجھا ہوا تھا

خوشی سے اُس کو سہارا نہیں دیا میں نے
مگر وہ سب سے اکیلا تھا، ڈوبتا ہوا تھا

کہ جیسے آنکھ جہانِ دگر میں وا ہوگی
بتا رہے ہیں کہ میں اِس قدر تھکا ہوا تھا

ادریس بابر

بشکریہ : فلک شیربھائی