لیاقت علی عاصم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
لیاقت علی عاصم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

حوصلے دیدہء بیدار کے سو جاتے ہیں ۔۔۔ لیاقت علی عاصم


غزل

حوصلے دیدہ ٴ بیدار کے سو جاتے ہیں
نیند کب آتی ہے تھک ہار کے سو جاتے ہیں

چاہتے ہیں رہیں بیدار غمِ یار کے ساتھ
اور پہلو میں غمِ یار کے سو جاتے ہیں

روز کا قصہ ہے یہ معرکہ ٴ یاس و اُمید
جیت کر ہارتے ہیں، ہار کے سو جاتے ہیں

ڈھیرہوجاتی ہے وحشت کسی آغوش کے پاس
سلسلے سب رم و رفتار کے سو جاتے ہیں

سونے دیتے ہیں کہاں شہر کے حالات مگر
ہم بھی سفاک ہیں جی مار کے سو جاتے ہیں

لیاقت علی عاصمؔ

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ حوصلہ دید ہ ٴ بیدار کے سو جاتے ہیں ۔ لیاقت علی عاصم

غزل

حوصلہ دید ہ ٴ  بیدار کے سو جاتے ہیں
نیند کب آتی ہے تھک ہار کے سو جاتے ہیں

روز کا قصہ ہے یہ معرکہ  ٴ یاس و اُمید
جیت کر ہارتے ہیں، ہار کے سو جاتے ہیں

سونے دیتے ہیں کہاں شہر کے حالات مگر
ہم بھی سفّاک ہیں جی مار کے سو جاتے ہیں

چاہتے ہیں رہیں بیدار غمِ یار کے ساتھ
اور پہلو میں غمِ یار کے سو جاتے ہیں

ڈھیر ہو جاتی ہے وحشت کسی آغوش کے پاس
سلسلے سب رم و رفتار کے سو جاتے ہیں

جاگتے تھے تری تصویر کے امکان جن میں
اب تو رنگ بھی دیوار کے سو جاتے ہیں

لیاقت علی عاصم

ناخداؤ! تمھیں خدا پوچھے​

غزل​

ڈوبتی ناؤ تم سے کیا پوچھے
ناخداؤ! تمھیں خدا پوچھے​

کس کے ہاتھوں میں کھیلتے ہو تم
اب کھلونوں سے کوئی کیا پوچھے​

ہم ہیں اس قافلے میں قسمت سے
رہزنوں سے جو راستہ پوچھے​

!ہے کہاں کنجِ گل ، چمن خورو
کیا بتاؤں اگر صبا پوچھے​

اٹھ گئی بزم سے یہ رسم بھی کیا
ایک چپ ہو تو دوسرا پوچھے ​

لیا قت علی عاصم​

لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا
ایک  گھر تھا ٹُوٹا پُھوٹا جل گیا

گھر کی دیواریں ہیں آئنہ بدست
خوبرُو لڑکی کا چہرہ جل گیا

شہر والوں نے کبھی پُوچھا نہیں
جل گئی کشتی کہ دریا جل گیا

حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گُل سے دریچہ جل گیا

اُس طرف کی بھی خبر لیجے کبھی
ابر بتلاتے ہیں صحرا جل گیا

آتشِ نا دیدہ ہے یہ ہجر بھی
یُوں بُجھا یہ دل کہ گویا جل گیا

کشتیوں میں آگ لے آئے تھے ہم
اِس لئے عاصمؔ جزیرہ جل گیا 


******

کشتِ اُمّید بارور نہ ہُوئی
لاکھ سورج اُگے سحر نہ ہُوئی

ہم مُسافر تھے دھوپ کے ہم سے
ناز برداریِ شجر نہ ہُوئی

مُجھ کو افسوس ہے کہ تیری طرف 
سب نے دیکھا مِری نظر نہ ہُوئی

گھر کی تقسیم کے سِوا  اب تک 
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہُوئی

نام میرا تو تھا سرِ فہرست 
اتفاقاً مجھے خبر نہ ہُوئی

جانے کیا اپنا حال کر لیتا
خیر گُزری اُسے خبر نہ ہُوئی

لیاقت علی عاصم 

سچ کہا اے صبا! صحنِ گل زار میں دل نہیں لگ رہا

 لیاقت علی عاصم کی خوبصورت غزل

******جا و ید  صبا کی نذر******


سچ کہا اے صبا! صحنِ گل زار میں دل نہیں لگ رہا
سایہٴ سبز میں صحبتِ یار میں دل نہیں لگ رہا

رُوپ کیا شہر کا، شکل کیا گاؤں کی، دھوپ اورچھاؤں کی
ایک تکرار ہے اور تکرار میں دل نہیں لگ  رہا

وہ بدن اب کہاں، پیرَھن اب کہاں، بانکپن اب کہا ں
سب بیاباں  ہُوا، تیرے  بازار میں دل نہیں لگ رہا

میرے  تو رنگ ہی اُڑ گئے جب کہا ایک تصو یر نے
اب مجھے پھینک دو، میرا دیوار میں دل نہیں لگ رہا

صر صرِ وقت آئے  بکھیرے مجھے چار اطراف میں
اب عناصر کے اس ٹھوس انبار میں دل نہیں لگ رہا

اے پرندو  چلو، اے درختو چلو، اے  ہواؤ چلو
گرد  ہی گرد  ہے، کوچہ ٴ یار میں  دل نہیں لگ رہا

کیا کتابیں مری، کیا مری شاعری، رائیگا ں رائیگاں
میر و سودا و غالب کے اشعار میں دل نہیں لگ رہا

بشکریہ : محترم سید انور جاوید ہاشمی

کراچی کی غزل خواں مر گئے کیا

غزل

سخن ہاے دل و جاں مر گئے کیا
کہو کچھ تو کہو ہاں مرگئے کیا

یہ کیا آٹھوں پہر چپ سی لگی ہے
وہ کچھ کہنے کے ارماں مر گئے کیا

جیے جاتے ہیں ہم اک دوسرے بن
ہمارے عہد و پیماں مر گئے کیا

یہ خاموشی تو اب رونے لگی ہے
وہ آنے والے طوفاں مرگئے کیا

یہ دل کیوں سینہ کوبی کر رہا ہے
یہ تم مجھ میں مری جاں مر گئے کیا

اسیرانِ خمِ زلفِ زمانہ
پریشاں تھے پریشاں مر گئے کیا

جو دن دھّمال کرتے آ رہے تھے
وہ رستے ہی میں رقصاں مر گئے کیا

کوئی تو دارسامانی کو آتا
گرانی میں سب ارزاں مر گئے کیا

میں ایسا کون زندہ ہوں کہ پوچھوں
کراچی کی غزل خواں مر گئے کیا

لیاقت علی عاصمؔ

ایسے ہاتھ، ایسی دیکھ بھال پہ خاک

غزل

ڈال دی حُرمتِ وصال پہ خاک
اِس گُناہوں بھرے خیال پہ خاک

روح جیسا بدن بکھیر دیا
اے محبت تری مجال پہ خاک

آئینہ ٹوٹ ہی گیا آخر
ایسے ہاتھ، ایسی دیکھ بھال پہ خاک

ایک لمحے میں پڑ گئی کیسے
سال ہا سال کے کمال پہ خاک

درد آگے نکل گیا ہم سے
اے دلِ خستہ تیری چال پہ خاک

اور بے حال کر لیا خود کو
خاک اس شوقِ عرضِ حال پہ خاک

غیر اپنا ہے اور اپنا غیر
حاصلِ مُمکن و مُحال پہ خاک

زخم، اے وقت! داغ بن بیٹھا
جا ترے نازِ اندمال پہ خاک

لیاقت علی عاصم