گیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اردو ترجمہ : منے دی موج وچ ہنسنا

کچھ گیت اپنی شاعری اور نغمگی کے باعث برسوں دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک گیت جو مجھے ہمیشہ مسحور کرتا ہے وہ حدیقہ کیانی کا منے دی موج ہے۔

یہ گیت پہلی بار پی ٹی وی پر سُنا اور دیکھا۔ اس کی عکسی تشکیل بھی بہت خوبصورت انداز میں کی گئی تھی۔ پسِ پردہ موسیقی اور گلوکارہ کی آواز بھی خوب تھی ۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ٹیلی ویژن صرف پی ٹی وی تک محدود تھا۔ تب ہم کئی ایک چیز باخوشی بار بار دیکھ لیتے تھے اُن میں سے ایک یہ گیت بھی تھا۔ یہ گیت پنجابی زبان میں ہے اور غالباً کسی مقامی لہجے کی آمیزش سے کچھ مزید گداز ہو گیا ہے۔

نہ جانے کیوں اس گیت کی لفظیات سے یہ گمان ہوتا تھا کہ جیسے یہ گیت سننے میں اچھا لگتا ہے ویسے ہی مفہوم کے اعتبار سے بھی اچھا ہوگا۔ تاہم گیت کی زبان سے عدم واقفیت کے باعث ہمیں گیت کے مفاہیم تک رسائی نہیں تھی۔

نہ جانے کب سے دل میں پلتی یہ خواہش کہ اس گیت کے معنی جانے جائیں ایک دن کچھ دوستوں کے حلقے میں زبان پر آ گئی۔ خوش قسمتی سے اس حلقے میں ہمارے ایک بہت اچھے دوست اور بھائی جناب عبد القیوم چوہدری بھی موجود تھے اور انہوں نے ازراہِ محبت اس کام کا بیڑہ اُٹھایا اور بہت کم وقت میں اس کلام کا اچھا سا ترجمہ کرکے دیا۔ جب سے اس گیت کے معنی سمجھ آئے ہیں یہ گیت اور بھی اچھا لگنے لگا۔

ہم چوہدری عبد القیوم بھائی کے بے حد شکر گزار ہیں اور اُن کا کیا ہوا ترجمہ آپ کے اعلیٰ ذوق کی نذر کر رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ کو یہ گیت مع ترجمہ ضرور پسند آئے گا۔

منے دی موج وچ ہسنا، کھیڈنا
(من کی مستی میں ہنستے کھیلتے رہنا)

دل کی رکھنا کمّے کنّے
(دل کو کسی نا کسی کام میں مصروف کیے رکھنا)

میں نہ پر کِسے کی مندا نہیں بولنا
(لیکن کبھی کسی کو برا نہیں کہنا)

چنے دی چاننی کندے کنّے
(چاند کی چاندنی دیوار کے کنارے تک)

منے دی موج وچ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساڈا کُجھ کمّ ہے کتّنا تُمبنا
(ہمارا یہی کام ہے کہ روئی کاتنا یا چھانٹنا)

ہور کُجھ کھیتِیاں چُگّنے دا
(یا کھیتوں میں کام کرنا)

گھر دے کمّ وچ آر نہ ہوندی اے
(گھر کا کام کاج کرنے میں کوئی شرم نہیں ہوتی)

دل کی رکھنا کمّے کنّے
(دل کو کسی نا کسی کام میں مصروف کیے رکھنا)

منے دی موج وچ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔

اُچّے اُچّے پربت سوہنیاں وادیاں
(اونچے اونچے پہاڑ اور خوبصورت وادیاں)

نِیلیاں ندِیاں ٹھنڈیاں نے
(شفاف پانی کی ندیاں ٹھنڈیاں ہیں)

سوہنِیاں بولیں پیارے لوکی
(خوبصورت لوگوں کی پیاری زبان)

رب دی رحمت وطنے کنّے
(خدا کی رحمت وطن کے لیے ہے)

منے دی موج وچ۔۔۔
۔۔۔۔۔

پنکھ پکھیرُو اُڈّدے جاون
(پرندے اڑتے جاتے ہیں)

گھر نِیاں یاداں آئِیاں نے
(اور گھر کی یادیں آ رہی ہے)

اساں پردیسیاں آس نہ کوئی
(ہم پردیسیوں کو اور کوئی آس نہیں ہے)

ربّ دُعائِیں سجناں کنّے
(خدا سے سجنوں کے لیے دعائیں ہی ہیں۔)

منے دی موج وچ۔۔۔

 ****** 

 

mane-di-moj

مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے۔ سدھرشن فاکر

سدھرشن فاکر صاحب ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے ایک بہت اچھے شاعر ہیں۔ آپ نے کئی ایک فلمی گیت لکھے ہیں تاہم آپ کے لکھے فلمی گیت بھی محض عامیانہ اور سوقیانہ نہیں ہیں بلکہ آپ کی شاعری میں جذبات و احساسات کی گہرائی موجود ہے اور آپ کے ہاں اظہار کا سلیقہ موجود ہے۔

سدھرشن فاکر صاحب کا ایک گیت جو میں نے بچپن میں سنا تھا اور مجھے پسند بھی رہا ہے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اُمید ہے آپ کو پسند آئے گا۔ ممکن ہے کہ یہ شاعری آپ کو قنوطیت زدہ لگے، تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان زندگی میں طرح طرح کی کیفیات و احساسات سے گزرتا ہے۔ زندگی کے ہر احساس ہر کیفیت کو سجا سنوار کر شاعری میں پیش کردینا بہرکیف ایک ہنر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سدھرشن فاکر صاحب نے اس گیت میں اپنے ہنر کا حق ادا کردیا ہے۔ گیت ملاحظہ فرمائیے۔


مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے
تجھے وہ دل سے بھلا دے تو انتظار کرے

تو پوچھتا پھرے اُس کا پتہ بہاروں سے
جواب تک نہ ملے تجھ کو رہ گزاروں سے
ہر ایک موڑ پہ وہ تجھ کو بے قرار کرے

تو دشمنوں کی محبت میں دوستی ڈھونڈے
غموں کے شہر میں جیسے کوئی خوشی ڈھونڈے
ترا ستم کبھی تجھ کو بھی اشکبار کرے

ترے غرور کی نظریں جھکی جھکی سی رہیں
تیری اُمید کی شمعیں بُجھی بُجھی سی رہیں
اُسے تو پا نہ سکے کوششیں ہزار کرے

مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے
تجھے وہ دل سے بھلا دے تو انتظار کرے

سدھرشن فاکر

*****
 
سدھرشن فاکر
Sudharshan Faakir

 

میر کی غزل کہوں تجھے میں؟

شعر اور رومان کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ انسان کو جب کسی شے کی تعریف کے لئے لفظ ناکافی معلوم ہوتے ہیں تو وہ اپنے لفظوں میں، لگاوٹ اور محبت کے ساتھ ساتھ نغمگی بھی شامل کر دیتا ہے۔ نغمگی اور آہنگ بھاری بھرکم تعریفی کلمات کو بھی ایسا ہلکا پھلکا کر دیتے ہیں کہ پڑھنے سننے والا مخمور سا ہو جاتا ہے۔ گو کہ فی نفسہ مجھے رومانوی شاعری سے کچھ خاص اُنسیت نہیں ہے لیکن کچھ گیت البتہ ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی باذوق شخص، اگر انہیں سُنے تو داد دیے بغیر نہ رہے۔ ایسا ہی ایک گیت آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اسے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نے لکھا ہے اور معروف گلوکار محمد رفیع نے گایا ہے۔ اس سے آپ کو انداز ہو گیا ہوگا کہ یہ کوئی آج کے زمانے کا گیت نہیں ہے۔ سو آپ یہ سمجھ لیجے کہ یہ قدیم دوستوں کے لئے شرابِ کہنہ ہے! گیت ملاحظہ فرمائیے۔


میں نے پوچھا چاند سے
کہ دیکھا ہے کہیں، میرے یار سا حسیں
چاند نے کہا، چاندنی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

میں نے یہ حجاب تیرا ڈھونڈا
ہر جگہ شباب تیرا ڈھونڈا
کلیوں سے مثال تیری پوچھی
پھولوں میں جواب تیرا ڈھونڈا
میں نے پوچھا باغ سے ، فلک ہو یا زمیں
ایسا پھول ہے کہیں؟
باغ نے کہا، ہر کلی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

چال ہے کہ موج کی روانی
زُلف ہے کہ رات کی کہانی
ہونٹ ہیں کہ آئینے کنول کے
آنکھ ہے کہ مے کدوں کی رانی
میں نے پوچھا جام سے فلک ہو یازمیں
ایسی مے بھی ہے کہیں؟
جام نے کہا، مے کشی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

خوبصورتی جو تونے پائی
لُٹ گئی خدا کی بس خدائی
میر کی غزل کہوں تجھے میں
یا کہوں خیام کی رباعی
میں نے پوچھا شاعروں سے
ایسا دل نشیں
کوئی شعر ہے کہیں؟
شاعر کہیں، شاعری کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

میں نے پوچھا چاند سے
کہ دیکھا ہے کہیں، میرے یار سا حسیں
چاند نے کہا، چاندنی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

 

نغمہ نگار: آنند بخشی


 

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے ۔ راجیندر کرشن

یوں تو یہ ایک گیت ہے جو شاید آپ میں سے کسی نے لتا کی آواز میں سنا ہو۔ لیکن ہیئت کے اعتبار سے یہ ایک غزل ہے اور کیا ہی خوب غزل ہے۔ آج فیس بک پر اسے دیکھا تو سوچا کہ اس خوبصورت کلام کو بلاگ پر لگایا جائے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

غزل

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے
خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے

گھر سے چلے تھے ہم تو خوشی کی تلاش میں
غم راہ میں کھڑے تھے وہی ساتھ ہو لیے

مرجھا چکا ہے پھر بھی یہ دل پھول ہی تو ہے
اب آپ کی خوشی اسے کانٹوں میں تولیے

ہونٹوں کو سی چکے تو زمانے نے یہ کہا
یوں چپ سی کیوں لگی ہے اجی کچھ تو بولئے

راجیندر کرشن


ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی ۔۔۔

 
رعنائیِ خیال پر   گنتی کے دو چار گیت ہی موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رعنائیِ خیال کا مزاج  ایسا ہے کہ اس میں عامیانہ گیتوں کی شاعری  جچتی نہیں ہے ۔ سو بس کچھ گیت جو اپنی شاعری کی وجہ سے انتہائی ممتاز ہیں اور خاکسار کو خاص طور پر پسند ہیں وہ میں  بلاگ میں شامل کیے دیتا ہوں۔ 


آج جو گیت میں بلاگ پر شامل کر رہا ہوں یہ  بھی مجھے بے حد پسند ہے۔ گیت کی شاعری مدن پال کی ہے اور اسے جگجیت سنگھ نے بہت خوب گایا ہے۔ آئیے آپ بھی اس گیت کی شاعری سے لطف اندوز ہوں

ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی، پھر بھی ہے یہ سفر اجنبی اجنبی​
راہ بھی اجنبی، موڑ بھی اجنبی، جائیں گے ہم کدھر اجنبی اجنبی​

زندگی ہو گئی ہے سلگتا سفر، دور تک آ رہا ہے دھواں سا نظر​
جانے کس موڑ پر کھو گئی ہر خوشی، دے کے دردِ جگر اجنبی اجنبی​

ہم نے چن چن کے تنکے بنایا تھا جو، آشیاں حسرتوں سے سجایا تھا جو​
ہے چمن میں وہی آشیاں آج بھی، لگ رہا ہے مگر اجنبی اجنبی​

کس کو معلوم تھا دن یہ بھی آئیں گے، موسموں کی طرح دل بدل جائیں گے​
دن ہوا اجنبی، رات بھی اجنبی، ہر گھڑی، ہر پہر اجنبی اجنبی​
شاعر : مدن لال

تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے۔ ندا فاضلی

ندا فاضلی ہندوستان کے مشہور معروف شاعرگزرے ہیں۔ اُنہوں نے عمومی غزلیات کے علاوہ فلمی گیت بھی بہت خوب لکھے اور سننے والوں سے خوب خوب داد پائی۔ اُن کی تصنیفات میں "لفظوں کے پھول"، "مور ناچ"، "آنکھ اور خواب کے درمیان میں"، " سفر میں دھوپ تو ہوگی" اور "کھویا ہوا سا کچھ" شامل ہیں۔آج ندا فاضلی کا ایک انتہائی خوبصورت گیت بلاگ پر شامل کر رہا ہوں۔ یہ گیت اپنے بطورِ گیت تو ہر طرح سے لاجواب ہے ہی لیکن اس کی شاعری اس کا اصل گوہر ہے۔

گیت

تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے

یہ آسمان، یہ بادل، یہ راستے، یہ ہوا
ہر ایک چیز ہے اپنی جگہ ٹھکانے سے
کئی دنوں سے شکایت نہیں زمانے سے
یہ زندگی ہے سفر، تُو سفر کی منزل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے

تیرے بغیر جہاں میں کوئی کمی سی تھی
بھٹک رہی تھی جوانی اندھیری راہوں میں
سکون دل کو ملا آ کے تیری بانہوں میں
میں ایک کھوئی ہوئی موج ہوں تُو ساحل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے

تیرے جمال سے روشن ہے کائنات مِری
میری تلاش تیری دل کشی رہے باقی
خدا کرے کہ یہ دیوانگی رہے باقی
تیری وفا ہی میری ہر خوشی کا حاصل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے

ہر ایک شے ہے محبت کے نور سے روشن
یہ روشنی جو نہ ہو زندگی ادھوری ہے
رہِ وفا میں کوئی ہمسفر ضروری ہے
یہ راستہ کہیں تنہا کٹے تو مشکل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہیں

ندا فاضلی

nida Fazli
Nida Fazli


میٹر شارٹ



آج کی صبح بڑی خوشگوار تھی، مطلع ابر آلود  تھا اور ہلکی ہلکی پھوار دھرتی کے دکھتے سینے  پر پھائے رکھ رہی تھی۔  جب میں دفتر جانے کے لئے نکلا تو ایک بہت خوبصورت گیت لبوں پر تھا۔ ہوا میں رقص کرتی بارش کی چھوٹی چھوٹی سی بوندوں میں بلا کا  ترنم تھا بالکل ایسے ہی جیسے گیتوں میں نغمگی ہوتی  ہے۔ الفاظ اور احساسات جس قدر ہم آہنگ ہو جائیں گیتوں کی چاشنی اُتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی شرارتی بوندیں  ہوا میں اور گیت کے مسکراتے مصرعے میرے ہونٹوں پر رقصاں تھے (جنہیں صرف میں ہی سُن سکتا تھا)۔ کسی نے صحیح کہا  ہے کہ خوشی ایک احساس کا نام ہے چاہو تو اُسے محسوس کرو اور چاہو  تو اس احساس سے اجنبی ہو جاؤ۔ 

بارش بڑی عجیب شے ہوتی ہے یہ ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔  آپ خوش ہوں تو بارش آپ کی خوشی کو سرخوشی میں بدل سکتی ہے اور آپ غمگین ہوں تو یہی بارش کے قطرے آپ کے آنسو بن کر ساری دنیا بھگونے پر تُل جاتے ہیں۔ غمگساری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔  تاہم  ایسے ہمدم اور ایسے غمگسار صرف احساس رکھنے والوں کے ہی نصیب میں آتے ہیں۔  یوں تو سبھی  لوگ کسی نہ کسی حد تک حساس ہوتے ہیں لیکن  کچھ لوگ اپنی خوشیوں اور غم کو سیلیبریٹ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔   اگر آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں۔  زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔ 

بہرکیف ، آج  اس اچھے موسم کے طفیل  خیال آیا کہ شعر و نغمہ  سے ہماری  وابستگی کی بابت  کچھ باتیں ہی ہو جائیں۔ اسے اتفاق ہی کہیے کہ اوائل عمری میں ہی  کافی گیت اور نغمے  سُنے ۔ یہ نغمے زیادہ تر اِدھر اُدھر سنے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مونگ پھلی والا بھی ٹیپ ریکارڈ  چلائے بغیر آگے نہیں بڑھتا تھا۔ پھر شوق ہو چلا تو خود سے بھی ریکارڈڈ گیت سننے کا اہتمام کیا۔ ہندوستانی (اردو یا ہندی  جو بھی آپ کہنا پسند کریں) اور پاکستانی گیت سنے۔ فلمی اور غیر فلمی ہر طرح کے۔  غزلیات بھی بہت سنیں،  انوپ جلوٹا  سے جگجیت سنگھ تک،  مہدی حسن  سے غلام علی  تک، اقبال بانو سے گلبہار بانو تک ،  نیرہ نور سے ٹینا ثانی تک، یہاں تک کہ سلمان علوی اور  سجاد علی کی غزلیات بھی۔  وقت  گزرنے کے ساتھ ساتھ  احساس ہو ا کہ  ہمیں موسیقی سے زیادہ شاعری سے اُنسیت ہے ۔ اکثر پورے پورے نغمے یاد ہو گئے،  کئی کئی  غزلیں ازبر ہو گئیں۔ جب  کبھی ساز و آواز کا سامان ناپید  ہوتا  تب بھی   ذہن میں موجود  ریکارڈ   سے محظوظ  ہونے کا موقع ہمہ وقت موجود رہتا۔  پھر شاعری پڑھنے کا شوق بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس قدر شاعری سننے اور پڑھنے سے  ذہن کی  غنائیت اورنغمگی سے شناسائی سی ہو گئی اور شاعری کے لئے درکار "میٹر" ذہن میں استوار ہو  گیا۔  سو جب کبھی کسی نغمے کا آہنگ متاثر ہوتا نظر آتا  تو اندازہ ہو جاتا۔  شاید یہی وجہ رہی کہ جب ہم نے شاعری کی کوشش کی تو بہت زیادہ دشواری پیش نہیں آئی اور آہنگ سے متعلق معاملات باآسانی نمٹ گئے ۔ اگر غلطیاں ہوئی بھی تو تکنیکی لاعلمی یا تلفظ کی غلطیوں کے باعث۔  اور ان دو چیزوں کا سیکھنا تو عمر بھر چلتا ہی رہتا ہے۔ 

اس سلسلے میں ہم اس لئے بھی خوش نصیب رہے کہ جب ہم نے گیت سماعت کرنے شروع کیے توعہدِ حاضر سے زیادہ عہدِ قدیم میں دلچسپی لی سو بہت اعلیٰ پائے کے شعراء کو اس میدان میں مصروفِ عمل پایا۔ ان گیت نگاروں کے گیت عمومی شاعری کے معیار کے نہیں تو اُن سے کم تر بھی نہیں تھے۔  ان اعلیٰ گیت نگاروں میں مجروح سلطان پوری، مجاز، ساحر لدھیانوی،  اندیور، حسرت جے پوری، شکیل بدایونی، کیفی اعظمی، آنند بخشی، انجان، جاں نثار اختر، ندا فاضلی اور آگے چل کر گلزار اور جاوید اختر جیسے قادر الکلام لوگ شامل رہے۔ پاکستانی گیت کم اورغزلیں زیادہ سُنی جو زیادہ تر معروف شعراء کے کلام سے انتخاب کی گئیں تھیں۔ پاکستانی  پرانے گیت بھی سنے جو اپنی مثال آپ تھے۔  پھر گانے والوں نے تو میر وغالب کے کلام کو بھی نہیں بخشا اور اکثر نے حق بھی ادا کیا۔

گو کہ یہ شوق یقیناً وقت کے زیاں کا باعث بھی رہا ہوگا تاہم کچھ نہ کچھ تو سیکھ ہی لیا۔لیکن اب کبھی شومیء قسمت سے نئے ہندی گیت سننے کا اتفاق ہو جائے تو خیال  آتا ہے کہ یہ کس قسم کے گانے ہیں اور یہ کون سے گیت نگار ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ فلمی گیتوں کو غیر اخلاقی اور سوقیانہ خیال کیا جاتا تھا اور کسی حد تک یہ بات درست بھی تھی۔ تاہم  آج کل کے گانوں  کے لئے غیراخلاقی اورسوقیانہ قسم کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو بھی "حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا"  والی بات ہوگی۔  نہ آوازیں اچھی ہیں  نہ شاعری۔ بلکہ اُسے شاعری کہنا بھی شاعری کی سخت توہین ہے۔ یہی گلہ ایک بار ہم نے اپنے ایک دوست سے کیا تو کہنے لگے کہ یہ گانے سننے والے نہیں دیکھنے والے ہیں۔ اس بات کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ صد شکر کہ ہم نے یہ گانے نہیں سُنے ورنہ اگر ہم نے یہ گانے سُنے ہوتے تو یقیناً ہمارا ہی نہیں شاعری کا بھی "میٹر شارٹ" ہو جاتا۔

 نوٹ: گیت نگاروں کو یاد کرنے کے لئے ویب سرچ سے مدد لی گئی ہے۔  نیز یہ کہ  ناموں میں تقدیم و تاخیر و مرتبہ وغیرہ کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جا سکا ہے۔

مجھ سے ناراض ہو تو ہو جاؤ

اچھی شاعری چاہے کسی بھی صنف میں ہو دل کو بھلی لگتی ہے کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔ آج ایک خوبصورت نغمہ آپ سے شئر کر رہا ہوں جو اچھی شاعری کی عمدہ مثال ہے ۔ اسے معروف شاعر اور گیت نگار جاوید اختر نے لکھا ہے اور مشہور گلوکار سونو نگم نے بہت خوبصورتی کے ساتھ گایا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ آپ میں سے بہت سوں نے یہ گیت سنا ہوا بھی ہو۔ مجھ سے ناراض ہو تو ہو جاؤ خود سے لیکن خفا خفا نہ رہو مجھ سے تم دور جاؤ تو جاؤ آپ اپنے سے تم جدا نہ رہو مجھ پہ چاہے یقیں کرو نہ کرو تم کو خود پر مگر یقین رہے سر پہ ہو آسمان یا کہ نہ ہو پیر کے نیچے یہ زمین رہے مجھ کو تم بے وفا کہو تو کہو تم مگر خود سے بے وفا نہ رہو آؤ اک بات میں کہوں تم سے جانے پھر کوئی یہ کہے نہ کہے تم کو اپنی تلاش کرنی ہے ہمسفر کوئی بھی رہے نہ رہے تم کو اپنے سہارے جینا ہے ڈھونڈتی کوئی آسرا نہ رہو مجھ سے ناراض ہو تو ہو جاؤ خود سے لیکن خفا خفا نہ رہو مجھ سے تم دور جاؤ تو جاؤ آپ اپنے سے تم جدا نہ رہو جاوید اختر