نظم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
نظم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

نظم: گنتی

نظم: گنتی

یہ آٹھ پہروں شمار کرنا
کہ سات رنگوں کے اس نگر میں
جہات چھ ہیں
حواس خمسہ،
چہار موسم،
زماں ثلاثہ،
جہان دو ہیں
خدائے واحد!
یہ تیرے بے انت وسعتوں کے
سفر پر نکلے ہوئے مسافر
عجیب گنتی میں کھوگئے ہیں۔

سید مبارک شاہ

بشکریہ محمد تابش صدیقی بھائی



بے وفائی کی مشکلیں

یوں تو امجد اسلام امجد صاحب کی سب نظمیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن آپ کی یہ نظم بہت دلچسپ ہے اور روایتی شاعری سے کچھ مختلف ہے۔ اس میں امجد صاحب نے بے وفائی کی مشکلوں کا احاطہ کیا ہے کہ بے وفائی بھی اتنی آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے پہلے سے کچھ باتیں سوچ سمجھ لی جائیں۔ 😀


بے وفائی کی مشکلیں

 
 جو تم نے ٹھان ہی لی ہے
ہمارے دل سے نکلو گے
تو اتنا جان لو پیارے
وفا کی سیڑھیوں پر ہر قدم پھیلا ہوا
یہ آرزوؤں کا لہو ضائع نہ جائے گا
سمندر سامنے ہوگا اگر ساحل سے نِکلو گے!
سِتارے، جن کی آنکھوں نے ہمیں اِک ساتھ دیکھا تھا،
گواہی دینے آئیں گے!
پرانے کاغذوں کی بالکونی سے بہت سے لفظ جھانکیں گے
تمہیں واپس بلائیں گے،
کئی وعدے، فسادی قرض خواہوں کی طرح رستے میں روکیں گے
تمہیں دامن سے پکڑیں گے،
تمہاری جان کھائیں گے!
چُھپا کر کس طرح چہرہ
بھری محفل سے نکلو گے!
ذرا پھر سوچ لو جاناں!
نکل تو جاؤگے شاید
مگر مشکل سے نکلو گے!
 
امجد اسلام امجد
  
Amjad Islam Amjad
Amjad Islam Amjad


نظم : ڈیجیٹل فوٹو


زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں


نوید رزاق بٹ

 


 

نظم: وہیں تو عشق رہتا ہے ۔۔۔ از ۔۔۔ ظہیر احمد ظہیر

 
ظہیر احمد ظہیر بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ لیکن قادر الکلام شاعر کے لئے کسی بھی صنف میں کوئی بھی خیال نظم کرنا دشوار نہیں ہوتا۔ یوں بھی جو شعراء کبھی کبھی نظم کہتے ہیں اُن کی نظمیں اکثر بہت خوب ہوتی ہیں۔ ظہیر احمد ظہیر صاحب کی یہ نظم اس بات پر مزید دلالت کرتی ہے۔ یہ نظم رومانوی مزاج رکھتی ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے آپ کو کم از کم تخیلاتی سطح پر رومانی فضا کی ضرورت ہے۔

 

وہیں تو عشق رہتا ہے


جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں غم گیت گاتے ہیں ، جہاں ہر درد ہنستا ہے
وہیں ہے گھر محبت کا ، وہیں تو عشق رہتا ہے
جہاں حدِ نظر تک نیلگوں گہرے سمندر کے
سنہری ساحلوں پر دھوپ کوئی نام لکھتی ہے
ہوا کی موج بکھرے بادلوں سے رنگ لے لے کر
شفق کی زرد تختی پر گلابی شام لکھتی ہے
جہاں اقرار وپیماں کے گھنے شیشم تلے سورج
نئے اک دن کی خاطر تیرگی کے وار سہتا ہے
جہاں اک آس کی خوشبو میں لپٹا یاس کا سایہ
کسی کی نظم لکھتا ہے ، کسی کے شعر کہتا ہے

اداسی جب کبھی دل پر کمندیں ڈال دیتی ہے
تھکن جب دھڑکنوں میں نا امیدی گھول دیتی ہے
تو اُس لمحے دبے پاؤں کسی احساس کا پیکر
قریب آکر بجھی آنکھوں پہ رکھ کر ہاتھ پیچھے سے
دبی سرگوشیوں کے نرمگیں لہجے میں کہتا ہے
" یہ غم میری امانت ہے ، تم اِس سے ہار مت جانا
تمہیں میری قسم دیکھو کبھی اُس پار مت جانا
جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں کوئی نہیں بستا ، جہاں کوئی نہیں رہتا"

پلٹ کر دیکھئے اُس پل تو کوئی بھی نہیں ہوتا
بس اک موہوم سی آہٹ اور اک مانوس سی خوشبو
فضا میں جیسے بکھری ہو ، ہوا جیسے مہکتی ہو
تبسم کی چنبیلی اور ترنم کے گلابوں سے
ڈھکے ٹیلوں کے دامن میں ، ذرا سی دور خوابوں سے
منقش جھلملاتی یاد کی پگھلی ہوئی چاندی
کا اک آئینہ بہتا ہے
وہیں تو گھر ہمارا ہے ، وہیں تو عشق رہتا ہے
وہیں تو عشق رہتا ہے



ظہیؔر احمد

 


 

نظم : ٹھیک ہی تو کرتے ہیں ۔۔۔ سید شعیب نعیم

ٹھیک ہی تو کرتے ہیں

روندتے مسلتے ہیں
روز گھاس کو ہم سب
پاؤں سے کچلتے ہیں
ٹھیک ہی تو کرتے ہیں

یہ جو گھاس ہوتی ہے
آب کے کنارے پر 

ڈوبتا کوئی بھی ہو
ہاتھ اگر بڑھائے تو
ہاتھ تھام لیتی ہے
اپنی تاب سے بڑھ کر
اژدہے سے پانی کے
اس کو چھین لینے کی
کوششیں وہ کرتی ہے

اور اگر وہ یہ دیکھے
آب جیت سکتا ہے
کوئی ڈوب سکتا ہے
پھر بھی ڈوبتے کو یہ
چھوڑ تو نہیں دیتی
مثلِ یار، یہ نظریں
پھیر تو نہیں لیتی 

اور جب کوئی ڈوبے
ساتھ ڈوب جاتی ہے
آب جس جگہ کھینچے
آب جس جگہ پھینکے
ساتھ ساتھ رہتی ہے
جس کا ہاتھ تھاما تھا
اُس کے ساتھ جیتی ہے
اُس کے ساتھ مرتی ہے



سید شعیب نعیم

نظم : ضد نہیں کیجیے ۔۔۔ شاہین مفتی

ضد نہیں کیجے

زندگی کی دعائیں نہیں دیجئیے
ضد نہیں کیجئیے
اپنی تشنہ لبی کا تقاضہ تھا یہ
پانیوں کے سفر پر چلیں جس گھڑی
ساحلوں پر کوئی بھی ہمارا نہ ہو
اجنبی دیس کی ملگجی شام کے آسمانوں پہ کوئی ستارہ نہ ہو
کشتئ عمر کو بادبانوں کا کوئی سہارا نہ ہو
حلقہء موج میں کوئی آواز جو آ کے پیچھا کرے
مُڑ کے تکنا بھی ہم کو گوارا نہ ہو
اِس سمندر کا کوئی کنارہ نہ ہو

اب ہمارا تعاقب نہیں کیجئیے
ڈوبنے دیجئیے
ضد نہیں کیجئیے

شاہین مفتی 

بشکریہ نعیم رضوان ۔ فیس بک