اخلاقیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اخلاقیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سرقہ مارکہ ذہنیت


چوری کو عربی میں سرقہ کہتے ہیں، چکاری کو کیا کہتے ہیںیہ جاننے کے لئے ہم ابھی تک مناسب لغت کی تلاش میں ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت میں صبر نہیں ہے تو آپ لغت کے ملنے تک سرقہ سراقی سے گزارا چلا سکتے ہیں۔

مارکہ کا لفظ غالباً مارک یا نشان سے اخذکیا گیا ہے اور مارکہ کا مطلب ہے نشان زدہ۔ اگرآپ نے اپنے بچپن میں بلی مارکہ اگربتی کا اشتہار دیکھا ہے تو آپ اسے با آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔ یعنی ایسی اگربتی جس کے ڈبے پر بلی کانشان یاتصویر ہو۔

ذہنیت کا مطلب ذہنی معیار ہے جو سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے لیکن کچھ ذہنی معیار پوری قوم کے بھی بن جاتے ہیں ۔ پوری قوم میں بہرکیف ملت کا ہر شخص شامل نہیں ہے لیکن سوادِاعظم کی سوچ اُسی قسم کی ہو جاتی ہے۔

ابھی کچھ دنوں سے ہم اپنی تحریروں میں مشکل الفاظ کو کھول کھول کر بیان کرنے لگے ہیںاورہمیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ ہمارے قارئین کی اردو کا حال بھی ہمارے ہی جیسا ہے، اور جیسے ہم کسی تحریر میں مشکل الفاظکی بہتا ت دیکھ کر پہلے آنکھیں اور بعد میں صفحہبند کر لیتے ہیں ویسے ہی ہمیں لگتا ہے کہ ہماری تحریریں قارئین کی لسانی قابلیت کے لئے دعوتِ مبارزت کا کام کررہی ہیں۔ تاہم ہمارا حال اُس بچے سے سوا نہیںہے کہجو پانی کاگلاس ہاتھ میں لیتے ہوئےاپنے بڑوں کو ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے مم مم نہیں بلکہ پانی کہتے ہیں۔بہرکیف، اس بارہمیں جلد سے جلداپنے موضوع کی طرف لوٹنا ہے، سو فی الحال فرہنگ کو داخل دفترکیے دیتے ہیں۔


آپ نے شاید بندر روڈ ، کراچی میں سعیدغنی عطرفروش کی دوکان دیکھی ہو۔ ہم نے یہ دوکان آج سے کئی سال پہلے دیکھی تھی اور ہمیں یہاں سے کچھمنگوانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو سامنے ہی سعید غنی عطرفروش کی دوکان نظر آئی ۔ ہم جھٹ سے اندر گھس گئےاور دکاراشیاء کا مطالبہ کیا، جو اتفاق سے اُن کے پاس موجود نہیں تھی۔ ہم دوکان سے باہر آئے کہ اب کیا کیا جائے تودیکھا کہ برابر میں ایک اور سعید غنی کی دوکان ہے ۔ اس سے اگلی دوکان پر نظر دوڑائی تووہ بھی سعید غنی کی دوکان تھی۔ حتیٰ کہ اُس کے بعد والی دُوکان بھی سعید غنی کی ہی تھی۔

بعد میں پتہ چلا کہ سعید غنی عطر کے کامیاب اور مشہور و معروف تاجر ہیں اور اُن کے معروف برانڈ کی نقل کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے دیدہ دلیری سے عین اُن کے برابر دوکان کھول لی ہے اور نتیجتاً ایک ساتھ ایک ہی جیسی اور ایک ہی نام کی چار پانچ دوکانیں ہو گئی ہیں۔ یا حیرت ! اگر ان چوروں میں خدا خوفی نہیں ہے تو کیا آنکھوں میں مروت بھی نہیں ہے۔ بھلا کیسے لوگ عین برابر میں بیٹھ کرآپ کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈال لیتے ہیں۔

اگر آپ حیدرآباد کے شاہی بازار میں جائیں تو وہاں بھی آپ کو یہی حال نظر آئے گا۔ اور ایک قطار میں آپ کو بے تحاشا "حاجی ربڑی" والے نظر آئیں گے۔اگر کوئی آپ کو بھیجے کہ جناب وہاں سے آپ"حاجی ربڑی" لے کر آئیں تو آپ فیصلہ ہی نہیں کر پائیں گے کہ ان میں سے وہ "حاجی" کون سا ہے جس کے پاس مجھے بھیجا گیا ہے۔کیا ربڑی بیچنا بھی اتنا مشکل کام ہے کہجس کےلئے دوسروں کے برانڈ چُرانا لازمی ہو جائے۔ یا ہم بطورِ قوم اس چوری کو چوری ہی نہیں سمجھتے اور "حاجی" کو "ربڑی" کا جنرک نام سمجھنے لگے ہیں۔

اب ہمارے ہاں یہ بھی ہونے لگا ہے کہ پہلے لوگ کسی کاروباری شخص کو کوئی دوکان کرائے پر دیتے ہیںاور جب دوکان چل پڑتی ہے تو اُس شخص کوکرائے کی دُوکان سے چلتا کرکے خود اُسی جگہ ویسی ہی دوکان کھول لیتے ہیں اور کچھ بے شرم تو پچھلے کرائے دار کی دوکان کا نام بھی استعمال کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک لودھی صاحب ہیں اُن کی آٹے کی چکی "خان آٹا چکی" کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ اب لودھی صاحب نے اپنی آٹا چکی کا نام لودھی کے بجائے خان صاحب کے نام پر کیوں رکھا یہ تو ہم خود بھی نہیں سمجھ سکے۔ لیکن ہوا یہ کہاُن صاحب نے اپنی آٹا چکی سامنے جگہ خرید کر منتقل کر لی، تو کچھ ہی دنوں میں بالکل اُسی جگہ کم و بیش اُنہی کے نام سے ایک آٹا چکی کُھل گئی، بس نام میں اے کا اضافہ کیا اور چکی کا نام اے خان آٹا چکی ہو گیا۔یعنی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی سے اصلی دُوکان کے سامنے جعلی دوکان کھل گئی۔

کیوں سارق و مسروق میں حائل رہیں پردے
تم شرم و مُروّت کے جنازے کو اُٹھا دو

یعنی اگر کوئی گاہک سال چھے ماہ بعد آئے تو اُسے پتہ بھی نہ چلے کہ جس دوکان سے وہ خریداری کرنا چاہتا تھا وہ سامنے منتقل ہو گئی ہے اور یہ جعلی دوکان ہے۔ ردِ عمل میں اصلیخان آٹا چکی والوں نے بڑا بڑا لکھ کر لگایا جو ہمارے ہاں اکثر لکھا نظر آتا ہے ۔ یعنی "نقالوں سے ہُشیار" اور یہ کہ اصلی خان آٹا چکی کی دوکان یہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ایک میڈیکل اسٹور جو بہت چلنے والا تھا ۔ اُس نے دوکان تبدیل کی یا اُسے دوکان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو وہ اصل دوکان سے کچھ فاصلے پر منتقل ہو گیا۔ اور کچھ ہی دنوں میں پہلی دوکان میںپھر میڈیکل اسٹور کھل گیا اور نئے مالک نے دوکان کا نام تکبدلنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یا بددیانتی سے پرانا نام ہی چلنے دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہاب بھی لوگوں کی بھیڑ اصلی دوکان پر ہی رہتی ہے۔ یعنی چُرانے والے نے اُن کا نام تو چُرا لیا لیکن اُن کا برسوں کا تجربہ اور کاروباری لیاقت نہیں چُرا سکا۔

ایسی بے تحاشا کہانیاں ہیں۔ کیا کیا ذکر کیا جائے۔ ایک زمانے میں جب جیو نیوز نیا نیا لانچ ہوا تھا اور بہت مقبول ہو رہا تھا تو ہر دوسری بیکری اور ڈیری جیو کے نام سے کُھلنا شرو ع ہو گئ تھی۔ یعنی ایک مشہور نام کے سہارے پر لوگ اپنے نئے کاروبار کی بنیاد رکھنا تو گوارا کر لیتے ہیں لیکن محنتاورلگن سے اپنا نام بنانے کو عار سمجھتے رہے تھے۔

ہمارے ہاں کاروباری اخلاقیات کا اتنا فقدان ہے کہ لوگ دھڑلے سے دوسروں کا نام چرا لیتے ہیں اور کسی کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ محنت کرکےاپنا نام بنانے کا اعتماد ایسے لوگوں میں نام کو نہیں ہوتا اوراُن کی حاسد نگاہیں دوسروں کی کمائی پر لگی رہتی ہیں۔

حالانکہ انسان کو محنت سے اپنا نام کمانا چاہیےاور رزق کے معاملے پر رازق پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ چوری کرنے والے کامیاب بھی ہو جائیں تو وہ چور ہی رہتے ہیں اور اُن کو کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں باز پُرس یا مکافات کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔

سوشل میدیا اسٹیٹس یا دُکھوں کے اشتہار

سوشل میدیا اسٹیٹس یا دُکھوں کے اشتہار
از : محمد احمدؔ

پہلے دنیا میں عمومی طور پر دو طرح کے لوگ ہوتے تھے۔ یعنی لوگ دوطرح کے رویّے رکھتے تھے۔ کچھ لوگ ایکسٹروورٹ (باہر کی دُنیا میں جینے والے) ہوتے تھے اور چاہتے تھے کہ جو کچھ اُن پر بیت رہی ہے وہ گا گا کر سب کو بتا دیں ۔ وہ ایک ایک کو پکڑتے اور اپنا غم خوشی اُس کے گوش و گزار کر دیتے اور اس طرح اُنہیں صبر آ جاتا تھا۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے جو انٹروورٹ (اپنے دل کی دنیا میں بسنے والے) ہوتے اور جو اپنے دل کی بات اپنے دل میں ہی رکھتے تھے ۔ کسی کو نہ بتاتے کہ اُن پر کیا بیت رہی ہے یا وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ دوست احباب اُن کی اُداسی کا سبب پوچھ پوچھ کر مر جاتے لیکن وہ کچھ نہ بتاتے۔ کبھی موسم کا بہانہ کر دیتے تو کبھی طبیعت کا۔

لیکن جب سے ہماری زندگیوں میں سوشل میڈیا کی آمد ہوئی ہے ۔ ہم میں سے انٹروورٹ لوگ بہت کم ہی رہ گئے ہیں ۔ جو اپنے دوستوں اور اقرباء سے کچھ نہیں کہہ پاتے وہ بھی سوشل میڈیا پر اپنے غموں کے اشتہار سجا دیتے ہیں۔ اور ایسی ایسی باتیں ادھر اُدھر سے اُٹھا کر چپکا دیتے ہیں کہ اگر وہ بات کوئی اور اپنی طرف سے اُن سے کہے تو اُنہیں معیوب محسوس ہو۔

سچی بات تو یہ ہے کہ پہلے دنیا بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی۔ پہلے لوگوں کے دُکھ اُن کے دلوں میں ہوتے تھے یا قریبی دوستوں کے سینوں میں۔ لیکن اب ہر شخص کے دُکھ سوشل میڈیا / اسٹیٹس پر جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ اور لوگ خوشی کو ضرب دینے اور دُکھوں کو مختصر کرنے کی حکایت بھول چُکے ہیں۔

آپ کو ایک دوست کی طرف سے کوئی غلط فہمی ہو گئی ۔ آپ نے سوشل میڈیا سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر 19 جلی کٹی تصاویر اور اقوال اپنے فیس بک یا واٹس ایپ اسٹیٹس پر لگا دیے۔ جنہیں 34 لوگوں نے دیکھا اور نہ جانے کیا کیا سوچا۔

کچھ نے یہ سوچا کہ نہ جانے آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے اور کچھ نے یہ سوچا کہ یہ دنیا اور اُس کے لوگ اور لوگوں کے رویّے کس قدر بدصورت ہیں اور کچھ نے آپ کے مظلومیت کے فریم میں اپنی تصویر جڑ دی۔ اور نتیجتاً یہ دُنیا مزید ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ اور آپ دُکھوں کی ترویج کرنے والے بن گئے۔ اور آپ نے جانے انجانے میں نہ جانے کتنے چہروں سے مُسکراہٹیں چھین لیں۔

شام تک آپ کی اپنے دوست کے ساتھ ہو جانے والی غلط فہمی دور ہو گئی اور آپ کے درمیان مُسکراہٹوں کے تبادلے شروع ہو گئے۔ لوگ اب بھی اسٹیٹس دیکھ کر آپ کو زود رنج کہہ رہے ہیں یا دُنیا کو کوس رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم اتنے بے صبرے کیوں ہو گئے کہ معمولی معمولی باتوں پر ہمارےصبر کا پیمانہ چھلک جاتا ہے اور ہمار ے اسٹیٹس رشتے ناطوں اور احباب کے خلاف زہر میں بجھے تیر بن جاتے ہیں اور اُس سے جانے انجانے میں نہ جانے کون کون زخمی ہو جاتا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے رویّوں میں اعتدال کی شدید ضرورت ہے۔

سو اسٹیٹس لکھنے یا منتخب کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیے کہ جن پچیس تیس لوگوں نے یہ اسٹیٹس دیکھنا ہے کیا یہ بات میں اُن سب کے سامنے بھی اسی طرح کہہ سکوں گا اگر ہاں تو ضرور لکھیے لیکن اگر آپ کو لگے کہ اُن میں سے ایک بھی شخص سے میں یہ بات منہ در منہ نہیں کہہ سکوں گا تو پھر آپ کو یقیناً سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے اسٹیٹس بظاہر آپ کو اوجھل رکھتے ہیں لیکن دراصل آپ اپنے جملہ خیالات(اور وقتی جذبات و اشتعالات سمیت) سب کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں۔

اسٹیٹس ضرور لگائیے اور جتنے دل چاہے لگائیے مگر زیادہ تر کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آپ کے اسٹیٹس دیکھنے والے آپ کے بارے میں اچھی رائے قائم کریں اور آپ کا اسٹیٹس اُن کے من میں مسکراہٹوں کے پھول کھلائے۔ مزید یہ کہ اگر کسی سے شکوہ گلہ بھی کرنا ہے تو مہذب ترین لہجے میں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ آپ ایک اچھی محفل کے ایک اچھے شریک کی حیثیت سے کیا کرتے ہیں۔