غزل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
غزل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

غزل: ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا ۔ عرفان صدیقی

غزل
 
 ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
ورنہ ٹوٹے ہوئے رشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا

اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا

یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا
اک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا

سب تری دین ہے یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا! کچھ بھی نہ تھا

اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دھرتی دیتی
ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دعا کچھ بھی نہ تھا

لوگ خود جان گنوا دینے پہ آمادہ تھے
اس میں تیرا ہُنر ہے اے دستِ جفا! کچھ بھی نہ تھا

سبز موسم میں ترا کیا تھا، ہوا نے پوچھا
اُڑ کے سوکھے ہوئے پتے نے کہا، کچھ بھی نہ تھا

عرفانؔ صدیقی


غزل: چھوڑ جانے پر پرندوں کی مذمت کی ہو ۔۔۔ احمد خلیل خان

 غزل 

چھوڑ جانے پر پرندوں کی مذمت کی ہو
تم نے دیکھا ہے کبھی پیڑ نے ہِجرت کی ہو

جھولتی شاخ سے چپ چاپ جدا ہونے پر
زرد پتوں نے ہواؤں سے شکایت کی ہو

اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ کب آخری بار
دل نے کچھ ٹوٹ کے چاہا، کوئی حسرت کی ہو

عمر چھوٹی سی مگر شکل پہ جھریاں اتنی
عین مکمن ہے کبھی ہم نے محبت کی ہو

ایسا ہمدرد تیرے بعد کہاں تھا جس نے
لغزشوں پر بھی میری کھل کے حمایت کی ہو

دل شکستہ ہے کوئی ایسا ہنر مند بتا
جس نے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مرمت کی ہو

شب کے دامن میں وہی نور بھریں گے احمد
جن چراغوں نے اندھیرے سے بغاوت کی ہو

احمد خلیل خان

 

chhoR-jany-pe-parindoN-ki-Ahmed-Khalil-Khan

 

غزل : جب بال و پر نہیں تو ہوا پر نہ جائیے ۔۔۔ عرفان صدیقی


غزل

جب بال و پر نہیں تو ہوا پر نہ جائیے
آندھی میں سیرِارض و سماء پر نہ جائیے

کیا شاندار لوگ ہیں دامن دریدہ لوگ
دل دیکھئے حضور، قبا پر نہ جائیے

کیجے نہ ریگ زار میں پھولوں کا انتظار
مٹی ہے اصل چیز، گھٹا پر نہ جائیے

کچھ اور کہہ رہا ہوں غزل کے حوالے سے
مطلب سمجھئے، طرز ادا پر نہ جائیے

آخر تو فیصلہ سر مقتل اُسی کا ہے
اس انتظامِ جرم و سزا پر نہ جائیے

دنیا میں اور بھی تو اشارے سفر کے ہیں
ہر بار اپنے دل کی صدا پر نہ جائیے

عرفان صدیقی

غزل: وہ آنکھ ہی نہیں کہ جو درد آشنا نہ ہو --- فرحان محمد خان

غزل

وہ آنکھ ہی نہیں کہ جو درد آشنا نہ ہو
اس دل پہ تف ہے جس میں کوئی دلربا نہ ہو

وہ عشق ہی نہیں کہ جو صبر آزما نہ ہو
ایسا بھی کیا کہ حسن میں ناز و ادا نہ ہو

ڈرتا ہوں اس کی آہ سے محشر بپا نہ ہو
ایسا حسیں کہ جس کو کوئی دیکھتا نہ ہو

چھونے کی آرزو ہو مگر حوصلہ نہ ہو
اللہ اس قدر بھی کوئی پارسا نہ ہو

اہلِ نظر کے واسطے دوزخ ہے دوستو
وہ زندگی کہ جس میں کوئی ابتلا نہ ہو

مارا ہوا ہے اس کا ہر اک تیسرا جوان
کہتے ہیں جس کو عشق، کہیں یہ وبا نہ ہو

سینے سے اٹھ رہی ہے جو دھڑکن کے نام پر
یہ بھی کسی حسین کی آوازِ پا نہ ہو

میں چاہتا ہوں عام ہو اس عشق کا رواج
محبوب کے لیے کوئی شرطِ وفا نہ ہو

باقی رہے گا خاک بھلا لطفِ عاشقی
معشوق میں حضور! جو خوئے جفا نہ ہو

دنیا پہ ٹوٹتی ہیں تو ٹوٹیں قیامتیں
پھیکا کبھی بھی کاش وہ رنگِ حنا نہ ہو

ہے داستانِ عشق کی رونق رقیب سے
میری دعا ہے عشق کبھی بے مزا نہ ہو

فرحان محمد خان

 

بشکریہ عاطف ملک بھائی

غزل: زندگی یوں ہوئی بسر تنہا ۔۔۔ گلزار

غزل

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا

رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا

ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا

دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا

ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا

گلزار

 

گلزار ۔ شاعر از ہندوستان

 

غزل : کسی سے کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی - حنیف اسعدی

غزل

کسی سے کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی
نہ دل نے دل کو ٹٹولا فضا ہی ایسی تھی

زبانِ درد سے لیکر دہانِ زخم تلک
کوئی بھی کھل کے نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

سُکوں کے در پئے آزار سب ہوئے لیکن
جنوں سے کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

ہوا چلی بھی تو ماحول کے رگ و پے میں
ہوا نے زہر ہی گھولا فضا ہی ایسی تھی

کہیں قریب مکانوں سے اُٹھ رہا تھا دھواں
دریچہ پھر بھی نہ کھولا فضا ہی ایسی تھی

برستی آنکھوں نے آنکھوں سے کچھ سوال کئے
کوئی بھی منہ سے نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

رسائی ہو بھی گئی وقت کی عدالت تک
وہاں بھی کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

عجب ستم ہے کہ میزان خیر و شر میں‌ حنیفؔ
یقیں کو وہم میں تولا فضا ہی ایسی تھی

حنیف اسعدی

 

Hanif Asadi
حنیف اسعدی مشاعرہ پڑھتے ہوئے

اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے ۔ اسلم انصاری

 غزل
 
اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے
اے دل طلسم گنبد شب میں صدا نہ دے

دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے

گل کر نہ دے چراغ وفا ہجر کی ہوا
طول شب الم مجھے پتھر بنا نہ دے

ہم سب اسیر دشت ہویدا ہیں دوستو
ہم میں کوئی کسی کو کسی کا پتا نہ دے

سب محو نقش پردۂ رنگیں تو ہیں مگر
کوئی ستم ظریف یہ پردہ ہٹا نہ دے

اک زندگی گزیدہ سے یہ دشمنی نہ کر
اے دوست مجھ کو عمر ابد کی دعا نہ دے

ڈرتا ہوں آئنہ ہوں کہیں ٹوٹ ہی نہ جاؤں
اک لو سی ہوں چراغ کی کوئی بجھا نہ دے

ہاں مجھ پہ فیض میرؔ و فراقؔ و ندیمؔ ہے
لیکن تو ہم سخن مجھے اتنی ہوا نہ دے

 اسلم انصاری
 
Aslam Ansari
Aslam Ansari

 
 بشکریہ ذوالقرنین بھائی 


بنا حُسنِ تکلّم، حُسنِ ظن آہستہ آہستہ ۔ شاذ تمکنت

  شاذ تمکنت صاحب کی ایک خوبصورت غزل ہم نے سن 2013ء میں رعنائی خیال پر پر لگائی تھی۔ آج شاذ صاحب کی ایک اور غزل قارئینِ بلاگ کے عمدہ ذوق کی نذر کی جا رہی ہے۔ اُمید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی۔

غزل

بنا حُسنِ تکلّم، حُسنِ ظن آہستہ آہستہ
بہر صورت کُھلا، اِک کم سُخن آہستہ آہستہ

مُسافر راہ میں ہے شام گہری ہوتی جاتی ہے
سُلگتا ہے تِری یادوں کا بن آہستہ آہستہ

دُھواں دل سے اُٹھے چہرے تک آئے نور ہو جائے
بڑی مشکل سے آتا ہے یہ فَن، آہستہ آہستہ

ابھی تو سنگِ طفلاں کا ہدف بننا ہے کوچوں میں
کہ راس آتا ہے یہ دیوانہ پن آہستہ آہستہ

ابھی تو امتحانِ آبلہ پا ہے بیاباں میں
بنیں گے کُنجِ گل، دشت و دمن آہستہ آہستہ

ابھی کیوں کر کہوں زیرِ نقابِ سُرمگیں کیا ہے
بدلتا ہے زمانے کا چلن آہستہ آہستہ

میں اہلِ انجمن کی خلوتِ دل کا مغنی ہوں
مجھے پہچان لے گی انجمن آہستہ آہستہ

دلِ ہر سنگ گویا شمعِ محرابِ تمنّا ہے
اثر کتی ہے ضربِ کوہکن آہستہ آہستہ

کسی کافر کی شوخی نے کہلوائی غزل مجھ سے
کھلے گا شاذؔ اب رنگِ سخن آہستہ آہستہ

شاذ تمکنت

شاذ تمکنت
Shaz Tamkanat

 


 

غزل: کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا؟۔۔۔ قمر جلال آبادی

یہ دنیا بڑی رنگ برنگی ہے اور انسان کے لئے بڑی کشش رکھتی ہے۔ دنیا کی رونقیں ہمہ وقت انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ، لیکن کبھی کبھی انسان کی نظر دنیا کے اُس دوسرے رُخ پر بھی پڑتی ہےجہاں سے اس کی رونقیں بالکل ماند نظر آتی ہیں اور انسان ا س دنیا کی بے ثباتی پر سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ زیرِ نظر غزل میں محترم قمر جلال آبادی نے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور بہت خوبی سے کیا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا؟
لے لوں گا شاندار سا گھر ، اُس کے بعد کیا؟

مے کی طلب جو ہوگی تو بن جاؤں گا میں رِند
کر لوں گا میکدوں کا سفر ، اُس کے بعد کیا؟

ہوگا جو شوق حُسن سے راز و نیاز کا
کرلوں گا گیسوؤں میں سحر، اُس کے بعد کیا؟

شعر و سُخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں
دُنیا میں ہوگا نام مگر، اُس کے بعد کیا ؟

موج آئے گی تو سارے جہاں کی کروں گا سیر
واپس وہی پرانا نگر ، اُس کے بعد کیا؟

اِک روز موت زیست کا در کھٹکھٹائے گی
بُجھ جائے گا چراغِ قمر ، اُس کے بعد کیا؟

اُٹھی تھی خاک، خاک سے مل جائے گی وہیں
پھر اُس کے بعد کس کو خبر ، اُس کے بعد کیا؟

قمر جلال آبادی

دنیا کو ریشہ ریشہ اُدھیڑیں، رفو کریں - راجیش ریڈی

راجیش ریڈی صاحب پڑوسی ملک ہندوستان کے معروف شاعر ہیں۔ اُن کی زیرِ نظر غزل اچھی لگی، سو خیال آیا کہ بلاگ کے قارئین کے ساتھ شریک کی جائے۔ اس غزل کا مطلع مجھے خاص طور پر پسند آیا۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

غزل

دنیا کو ریشہ ریشہ اُدھیڑیں، رفو کریں
آ بیٹھ تھوڑی دیر ذرا گفتگو کریں

جس کا وجود ہی نہ ہو دونوں جہان میں
اُس شے کی آرزو ہی نہیں جستجو کریں

دنیا میں اِک زمانے سے ہوتا رہا ہے جو
دنیا یہ چاہتی ہے وہی ہُو بہ ہُو کریں

ان کی یہ ضد کہ ایک تکلف بنا رہے
اپنی تڑپ کہ آپ کو تم، تم کو تو کریں

ان کی نظر میں آئے گا کس دن ہمارا غم
آخر ہم اپنے اشکوں کو کب تک لہو کریں

دل تھا کسی نے توڑ دیا کھیل کھیل میں
اتنی ذرا سی بات پہ کیا ہاؤ ہُو کریں

دل پھر بضد ہے پھر اسی کوچے میں جائیں ہم
پھر ایک بار وہ ہمیں بے آبرو کریں

راجیش ریڈی


راجیش ریڈی
راجیش ریڈی ۔ دنیا کو ریشہ۔ ریشہ اُدھیڑیں ، رفو کریں

غزل: اول اول کی دوستی ہے ابھی - احمد فراز


اول اول کی دوستی ہے ابھی
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی

میں بھی شہر وفا میں نو وارد
وہ بھی رک رک کے چل رہی ہے ابھی

میں بھی ایسا کہاں کا زود شناس
وہ بھی لگتا ہے سوچتی ہے ابھی

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی

گرچہ پہلا سا اجتناب نہیں
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھلتا
بوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی

خود کلامی میں کب یہ نشہ تھا
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

فصل گل میں بہار پہلا گلاب
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی

مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر
وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی


فراز

غزل : وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا - حنیف اسعدی

آج بہت دنوں بعد کوئی غزل ایسی سنی کے طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ساتھ ساتھ کلامِ شاعر بزبانِ شاعر سے بھی حظ اُٹھائیے۔

غزل

وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا
وطن کی خاطر جیے مریں گے یہ طے ہو ا تھا

بوقتِ ہجرت قدم اُٹھیں گے جو سوئے منزل
تو بیچ رستے میں دَم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا

چہار جانب بہار آئی ہوئی تھی لیکن
بہار کو اعتبار دیں گے یہ طے ہوا تھا

تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کرکے
نئے وطن کو وطن کہیں گے ، یہ طے ہوا تھا

خدا کے بندے خدا کی بستی بسانے والے
خدا کے احکام پر چلیں گے یہ طے ہوا تھا

بغیرِ تخصیص پست و بالا ہر اک مکاں میں
دیئے مساوات کے جلیں گے، یہ طے ہوا تھا

کسی بھی اُلجھن میں رہبروں کی رضا سے پہلے
عوام سے اذنِ عام لیں گے، یہ طے ہوا تھا

تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے
جو طے نہیں ہے، وہ طے کریں گے، یہ طے ہوا تھا

حنیف اسعدی

ویڈیو بشکریہ خورشید عبداللہ

بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا ۔ منیر نیازی

غزل

بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا
اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا

شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس
آب سادہ کو حریف رنگ بادہ کر لیا

ہجرتوں کا خوف تھا یا پر کشش کہنہ مقام
کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کر لیا

ایک ایسا شخص بنتا جا رہا ہوں میں منیرؔ
جس نے خود پر بند حسن و جام و بادہ کر لیا

منیر نیازی

غزل ۔ چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں ۔ قتیل شفائی

غزل

چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں، مِرے خواب کہاں آتے ہیں

مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں

میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو، اب خواب کہاں آتے ہیں

تنہا رہتا ہُوں میں دِن بھر، بھری دُنیا میں قتؔیل
دِن بُرے ہوں، تو پھر احباب کہاں آتے ہیں

قتیل شفائی

دلوں میں زہر تھا کینہ شُمار کرتے رہے ۔ مسعود منور

غزل


دلوں میں زہر تھا کینہ شُمار کرتے رہے
برہنہ لفظ کے خنجر سے وار کرتے رہے

سُخن وری تو فقط بر طرف تکلف تھا
خدنگِ سب و شتم سے شکار کرتے رہے

نہ ہم سفر نہ کوئی دوست تھا نہ ہم سایہ
سو اپنے آپ سے شکوے ہزار کرتے رہے

بچا ہی کیا تھا بجز تار دامنِ دل میں
اُس ایک تار کو ہم تار تار کرتے رہے

کہیں نہیں تھا کوئی جس کو کہ سکیں اپنا
کسے بُلانے کو ہم یار یار کرتے رہے

اثاثہ کوئی نہ تھا ، مُفلسی مسلط تھی
بدن کی مٹّی تھی ہم جس کو خوار کرتے رہے

بچھڑنا ملنا مقدر کا کھیل تھا مسعود
وگرنہ عشق تو ہم بار بار کرتے رہے

مسعود مُنّور

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​ ۔ مرتضیٰ برلاس


غزل

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا​

وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے​
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا​

سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں​
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا​

سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو​
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا​

نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے​
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا​


مرتضٰی برلاس​

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے ۔ راجیندر کرشن

یوں تو یہ ایک گیت ہے جو شاید آپ میں سے کسی نے لتا کی آواز میں سنا ہو۔ لیکن ہیئت کے اعتبار سے یہ ایک غزل ہے اور کیا ہی خوب غزل ہے۔ آج فیس بک پر اسے دیکھا تو سوچا کہ اس خوبصورت کلام کو بلاگ پر لگایا جائے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

غزل

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے
خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے

گھر سے چلے تھے ہم تو خوشی کی تلاش میں
غم راہ میں کھڑے تھے وہی ساتھ ہو لیے

مرجھا چکا ہے پھر بھی یہ دل پھول ہی تو ہے
اب آپ کی خوشی اسے کانٹوں میں تولیے

ہونٹوں کو سی چکے تو زمانے نے یہ کہا
یوں چپ سی کیوں لگی ہے اجی کچھ تو بولئے

راجیندر کرشن


وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے ۔ جمال احسانی

غزل

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا
پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

جمال احسانی

 

 انور مقصود، افتخار عارف اور جمال احسانی ۔ دائیں سے بائیں

غزل: آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند

غزل

آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند
تھی ہماری بھی کیا کمال پسند

حیف! بد صورتی رویّوں کی
ہائے دل تھا مرا جمال پسند

کیوں بنایا تھا ٹِھیکرا دل کو
کیوں کیا ساغرِ سفال پسند

ٹھیک ہے میں نہیں پسند اُنہیں
لیکن اس درجہ پائمال پسند

سچ نہ کہیے کہ سچ ہے صبر طلب
لوگ ہوتے ہیں اشتعال پسند

ہاں مجھے آج بھی پسند ہے وہ
اس کو کہتے ہیں لازوال پسند

حلم ہے اہلِ علم کا شیوہ
جاہ والوں کو ہے جلال پسند

وصل کو ہجر ، ناگہانی موت
ہجر کو موسمِ وصال پسند
 

فکرِ دنیا نہیں! مجھے احمدؔ
اپنی مستی اور اپنی کھال پسند

محمد احمدؔ​

جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے۔۔۔ عمیر نجمی

غزل

ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے

رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے

جمع تھے رات مرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئے
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے

میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لئے
شاہ زادی یہ ترا حق تھا تجھے شاہ ملے

ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزر گاہ ملے

اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسے لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے

گھر پہنچنے کی نہ جلدی نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سر راہ ملے

عمیر نجمی