ظریفانہ کلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ظریفانہ کلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

نمکین غزل : اُڑاتے روز تھے انڈے پراٹھے

نمکین غزل

اُڑاتے روز تھے انڈے پراٹھے
پر اب کھاتے ہیں ہر سنڈے پراٹھے

یہاں ہم کھا رہے ہیں چائے روٹی
وہاں کھاتے ہیں مسٹنڈے پراٹھے

ترستے لقمہ ٴ تر کو ہیں اب تو
وہ کیا دن تھے کہ تھے فن ڈے، پراٹھے

کہا بیگم رعایت ایک دن کی
پکا لیجے گا اِس منڈے پراٹھے

کہا بیگم نے ہے پرہیز بہتر
بہت کھاتے ہو مُسٹنڈے پراٹھے

زمانہ یاد ہے اسکول والا
کہ جب کھاتے تھے تم ڈنڈے، پراٹھے

کئی فرمائشیں مانی ہیں میں نے
بنے بیگم کے ہتھکنڈے، پراٹھے

چلو احمد ؔ منگائیں گرم چائے
ہوئے جاتے ہیں سب ٹھنڈے پراٹھے

محمد احمدؔ

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
نظم

گریباں پسینے میں تر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
اُدھر کا مسافر اِدھر ہو رہا ہے

جو دیوار تھی اس میں در ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کوئی پہلواں سیٹ میں دھم گیا ہے
بہت بھی گیا تو بہت کم گیا ہے
کوئی ہاتھ پتلون میں جم گیا ہے
کوئی ناک دیوار پہ تھم گیا ہے

کوئی سرو قد مختصر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جواں کچھ سرِ پائے داں اور بھی ہیں
دریچوں میں سروِ رواں اور بھی ہیں
قطاروں میں بیوی میاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ہجوم اور بھی معتبر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

وہ اک پیل تن یوں سمٹ کر کھڑا ہے
کہ پیٹ اس کا دھڑ سے الگ جا پڑا ہے
کسی کی گھڑی پر کسی کا گھڑا ہے
مقدر کو دیکھو کہاں جا لڑا ہے

تماشا سرِ رہگزر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جو خوش پوش گیسو سنوارے ہوئے تھا
بہت مال چہرے پہ مارے ہوئے تھا
بڑا قیمتی سوٹ دھارے ہوئے تھا
گھڑی بھر میں سب کچھ اتارے ہوئے تھا

بے چارے کا حلیہ دگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کوئی بے خبر گُل فشاں ہو گئی ہے
تو لاری کی لاری جواں ہو گئی ہے
طبیعت اچانک رواں ہو گئی ہے
ملاقات اُن سے کہاں ہو گئی ہے

نظر سے طوافِ نظر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کبھی پیش سے گھٹ کے پس ہو گئی ہے
کسی پیچ میں پیچ کس ہو گئی ہے
چلی ہے تو بانگِ جرس ہو گئی ہے
رکی ہے تو ٹھَس ہو کے بَس ہو گئی ہے

نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جو کالر تھا گردن میں، 'لر' رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر' رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے

کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
 
سید ضمیر جعفری


دماغ آفریدی خلل آفریدم


حضرتِ اقبال کی خوبصورت نظم کا بہت ہی خوب بیڑہ غرق کیا ہے جناب رشید عبد السمیع جلیل صاحب نے؛ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ 

دماغ آفریدی خلل آفریدم
کروں جلد شادی یہ حل آفریدم

'جہاں را زِ یک آب و گل آفریدی'
اسی آب و گل سے محل آفریدم

'تو از خاک فولادِ ناب آفریدی'
میں دھونے دھلانے کو نل آفریدم

تو دنیا میں لاکھوں حسیں آفریدی
میں دل میں ہزاروں کنول آفریدم

تو فردوس و خلدِ بریں آفریدی
زمیں پر میں نعم البدل آفریدم

تری حکمتیں بے نہایت الٰہی
میں از روئے حکمت کھرل آفریدم

مجھے رات دن چاہیے بے خودی سی
اسی واسطے الکحل آفریدم

رشید عبدالسمیع جلیل

وہ جھانسہ دے کے غائب ہے سرِ بازار می رقصم

نمکین غزل

وہ جھانسہ دے کے غائب ہے سرِ بازار می رقصم
بھروسہ کرکے دھوکہ باز پر بے کار می رقصم

سناتا ہوں میں ہر محفل میں اکلوتی غزل اپنی
نہیں ملتی اگر کچھ داد تو سو بار می رقصم

کیا کرتے تھے اوور ٹیک جاو پر حسینوں کو
ہوئی آٹو کی وہ ٹکر کہ آخر کار می رقصم

وہ رکشے پر گزرتی ہے میں پیدل ٹاپ لیتا ہوں
خیالوں میں پکڑ کر دامنِ دلدار می رقصم

نشہ اُترا تو بتلایا مجھے لوگوں نے آ آ کر
بہت اچھلم، بہت کودم برہنہ وار می رقصم

جہاں بجتی ہے شہنائی جلیل اکثر یہ دیکھا ہے
ادھر پتلون می رقصم ادھر شلوار می رقصم 

رشید عبدالسمیع جلیل 

شکرقندی کا المیہ

شکرقندی کا المیہ
مرتضیٰ برلاس سے معذرت کے ساتھ

سبزیوں کے حلقے میں، ہم وہ کج مقدر ہیں
گاجروں میں مولی ہیں، مولیوں میں گاجر ہیں




سرگوشی: شعر جو تختہء مشق بنا :)

دوستوں کے حلقے میں ہم و کج مقدر ہیں
افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں مرتضیٰ برلاس

احوالِ ملاقات . فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ​ (تضمین)

احوالِ ملاقات
فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ​

وہ تو کچھ چُپ چُپ رہی پر اُس کے پیارے بھائی نے‎
چار چھ مکے بھی مارے، آٹھ دس لاتوں کے بعد‎
اُس نے اپنے بھائی سے پوچھا یہ حضرت کون تھے؟
"ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد"​

تضمین از محمد احمدؔ​


جوش ملیح آبادی اور فیس بک ۔۔۔ تحریف در غزلِ جوش

جوش ملیح آبادی کی ایک خوبصورت غزل کسی شوخ ساعت میں  ہماری مشقِ ستم کا شکار ہو گئی تھی۔ غزل کی اس تازہ شکل میں جوش صاحب قتیلِ فیس بک ہو کر رہ گئے ہیں اور اسی بات کی دہائی جناب اس غزل میں دے رہے ہیں۔

ملاحظہ فرمائیے۔


فیس بک دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں مینشن تجھ کو
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

نوٹیفائیر نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب میں لاگ آف ہوا، تو نے مجھے یاد کیا

اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
آپ نے ٹیگ کیا اور کچھ ارشاد کیا

اس کا رونا نہیں ان فرینڈ کیا تم نے مجھے
اس کا غم ہے کہ بہت دیر سے آزاد کیا

اتنا مانوس ہوں 'فطرت' سے، کہ لی جب چُٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں، میں تو وہاں ٹیگ نہ تھا
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا​

پس نوشت:

اِس دھماچوکڑی میں فرینڈ کی "ر" کہیں گر گرا گئی ہے، تاہم یہ انگریزی ہے اور اردو کے برخلاف کہ جس میں صرف الف کا ہی وصال ہوا کرتا ہے، انگریزی میں وصال اتنی عنقا شے نہیں ہے سو ہم اس اجازت کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ :)

ویسے انگریزی میں کہیں کہیں "ر" کی ادائیگی آدھی یا چوتھائی بھی رہ جاتی ہے اور چھوٹے موٹے حروف جگجیت سنگھ کی طرح کھا جانا عیب نہیں سمجھا جاتا۔ 

تم ہوتے ہو جہاں حماقت ہوتی ہے



جاوید اختر ہمارے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اُن کی ایک غزل جو ہمیں  بہت پسند ہے ایک دن بیٹھے بیٹھے دماغ میں اُلٹ پُلٹ ہوگئی۔ یہ نیا ورژن قارئینِ بلاگ کے لئے پیش ہے۔

تم ہوتے ہو جہاں حماقت ہوتی ہے
میں ہوتا ہوں، میری ہمت ہوتی ہے

اکثر وہ کہتے ہیں تکلف مت کرنا
اکثر کیوں کہتے ہیں حیرت ہوتی ہے

چاروں اور سے دیکھتے ہیں اُس شوخ کو ہم
ڈبے پر ہر شے کی قیمت ہوتی ہے

ماں کے ہاتھ میں چپل بھی ہے دھیا ن رہے
یہ مانا پیروں میں جنت ہوتی ہے

عادی ہوں میں دنیا بھر کی باتوں کا
جانتا ہوں میں اُن کو عادت ہوتی ہے

بسمہ اللہ پڑھ کر وہ پانی ڈالتا ہے
دودھ میں اچھی خاصی برکت ہوتی ہے​

شبنم افسانی

شبنم افشانی

اے غریبِ شہر تیری رب نگہبانی کرے
لوڈ شیڈنگ کے ستائے، تجھ پہ آسانی کرے
گر نہیں تجھ کو میسر گرمی دانوں کا سفوف٭
آسماں تیری کمر پر شبنم افشانی کرے

محمد احمدؔ​

* prickly heat powder​


تحریف در غزلِ شکیب جلالی :)

شکیب جلالی کی معروف غزل "یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں" اور ہماری مشقِ ستم، آپ احباب کے ذوقِ سلیم کی نذر: 

یہ جو دیوانے سے چھ آٹھ نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ بمباٹ1 نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو فِٹ فاٹ نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
ان دنوں آپ بھی کچھ شارٹ2 نظر آتے ہیں

ان سموسوں میں حراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ کھا کھا کے بھی اسمارٹ3 نظر آتے ہیں

جب سے اسپاٹ کی فکسکنگ کا سنا ہے شہرہ
اب تو ہرمیچ میں اسپاٹ4 نظر آتے ہیں

ہو گئے وہ بھی سگِ عاملِ تطہیرِ لباس
اب کبھی گھر تو کبھی گھاٹ نظر آتے ہیں

کچے دھاگے سے کھنچے آتے ہیں اب بھی لیکن
کچے دھاگے میں کئی ناٹ5 نظر آتے ہیں

اُن سے کہتا تھا کہ مت اتنی مٹھائی کھائیں
دیکھیے اب وہ شوگر پاٹ6 نظر آتے ہیں

محمد احمد


فرہنگ
1۔ بمباٹ : ایک قسم کی دیسی شراب 
2- short
3- smart
4- spot
5- knot
6- sugar pot

پُرانی موٹر ۔۔۔ از ۔۔۔ سید ضمیر جعفری

سید ضمیر جعفری  ظریفانہ شاعری میں ایک ایسی تابندہ مثال ہیں کہ جس کی نظیر اردو شاعری میں نہیں ملتی۔ اُن کا بیشتر مزاحیہ کلام ایسا ہے کہ اسے جب بھی پڑھا جائے اپنا الگ ہی لطف دیتا ہے۔ اُن کی ایک مشہورِ زمانہ نظم پرانی موٹر قارئینِ بلاگ کی نذر!

پرانی موٹر

عجب اک بار سا مردار پہیوں نے اٹھایا ہے
اسے انساں کی بد بختی نے جانے کب بنایا ہے
نہ ماڈل ہے نہ باڈی ہے نہ پایہ ہے نہ سایہ ہے
پرندہ ہے جسے کوئی شکاری مار لایا ہے

کوئی شے ہے کہ بینِ جسم و جاں معلوم ہوتی ہے
کسی مرحوم موٹر کا دھواں معلوم ہوتی ہے

طبعیت مستقل رہتی ہے ناساز و علیل اس کی
اٹی رہتی ہے نہر اس کی ٬ پھٹی رہتی ہے جھیل اس کی
توانائی قلیل اس کی تو بینائی بخیل اس کی
کہ اس کو مدتوں سے کھا چکی عمر طویل اس کی

گریباں چاک انجن یوں پڑا ہے اپنے چھپر میں
کہ جیسے کوئی کالا مرغ ہو گھی کے کنستر میں

ولایت سے کسی سرجارج ایلن بی کے ساتھ آئی
جوانی لٹ گئی تو سندھ میں یہ خوش صفات آئی
وہاں جب عین اس کے سر پہ تاریخِ وفات آئی
نہ جانے کیسے ہاتھ آئی مگر پھر اپنے ہات آئی

ہمارے ملک میں انگریز کے اقبال کی موٹر
سن اڑتالیس میں پورے اٹھتر سال کی موٹر


یہ چلتی ہے تو دوطرفہ ندامت ساتھ چلتی ہے
بھرے بازار کی پوری ملامت ساتھ چلتی ہے
بہن کی التجا٬ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے
وفائے دوستاں بہرِ مشقت ساتھ چلتی ہے

بہت کم اس خرابے کو خراب انجن چلاتا ہے
عموما زورِ دستِ دوستاں ہی کام آتا ہے

کبھی بیلوں کے پیچھے جوت کر چلوائی جاتی ہے
کبھی خالی خدا کے نام پر کھچوائی جاتی ہے
پکڑ کر بھیجی جاتی ہے٬ جکڑ کر لائی جاتی ہے
وہ کہتے ہیں کہ اس میں پھر بھی موٹر پائی جاتی ہے

اذیت کو بھی اک نعمت سمجھ کر شادماں ہونا
تعالی ﷲ یوں انساں کا مغلوبِ گماں ہونا
بہ طرزِ عاشقانہ دوڑ کر٬ بے ہوش ہو جانا
بہ رنگِ دلبرانہ جھانک کر٬ روپوش ہوجانا

بزرگوں کی طرح کچھ کھانس کر خاموش ہوجانا
مسلمانوں کی صورت دفعتا پر جوش ہوجانا

قدم رکھنے سے پہلے لغزشِ مستانہ رکھتی ہے
کہ ہر فرلانگ پر اپنا مسافر خانہ رکھتی ہے
دمِ رفتار دنیا کا عجب نقشا دکھائی دے
سڑک بیٹھی ہوئی اور آدمی اڑتا دکھائی دے

نظام زندگی یکسر تہہ و بالا دکھائی دے
یہ عالم ہو تو اس عالم میں آخر کیا دکھائی دے

روانی اس کی اک طوفانِ وجد و حال ہے گویا
کہ جو پرزہ ہے اک بپھرا ہوا قوّال ہے گویا

شکستہ ساز میں بھی ٬ محشر نغمات رکھتی ہے
توانائی نہیں رکھتی مگر جذبات رکھتی ہے
پرانے ماڈلوں میں کوئی اونچی ذات رکھتی ہے
ابھی پچھلی صدی کے بعض پرزہ جات رکھتی ہے

غمِ دوراں سے اب تو یہ بھی نوبت آگئی٬ اکثر
کسی مرغی سے ٹکرائی تو خود چکرا گئی، اکثر

ہزاروں حادثے دیکھے٬ زمانی بھی مکانی بھی
بہت سے روگ پالے ہیں زراہِ قدر دانی بھی
خجل اس سخت جانی پر ہے مرگِ ناگہانی بھی
خداوندا نہ کوئی چیز ہو٬ اتنی پرانی بھی

کبھی وقتِ خرام آیا تو ٹائر کا سلام آیا
تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا

سید ضمیر جعفری

تضمین بر کلامِ حضرتِ ولی دکنی - ظریفانہ کلام

حضرتِ ولی دکنی کا یہ مشہور و معروف شعر تو آپ نے سُنا ہی ہوگا۔

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

خاکسار کی جانب سے اس کے دونوں مصرعوں پر (ظریفانہ) تضمین پیش ہے۔
اُمید ہے احباب کو پسند آئے گی۔ 

وہ جو شادی سے پہلے کہتا تھا 
اُس کو یکسانیت پسند نہیں
اُس کی بیوی نے کر دیا ثابت
"راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں"


کچھ تو کہیے وہ اُس سے کہتا تھا​
لفظ مہکیں، کھُلے کتابِ سخن​
اُس کو شادی کے بعد علم ہوا​
"تا قیامت کھُلا ہے بابِ سخن"​

محمد احمدؔ