تحیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تحیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ۔۔۔۔! جاوید اختر


کچھ گیت اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ اُنہیں محض فلمی گیت سمجھ کر نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے گیت ہزار بارے سُنے جائیں تو ایک ہزار ایکویں بار سُننے کا دل چاہتا ہے۔ گو ہم باوجوہ اب موسیقی نہیں سُنا کرتے ۔ تاہم کچھ چیزوں کو استثنیٰ دیے بغیر بات نہیں بنتی۔

جاوید اخترصاحب کا یہ گیت بھی ایسا ہی ہے۔ اِس میں ترنگ ہے، تڑپ ہے، معصومیت ہے، تحیّر ہے، ان پوچھے سوالوں کا ایک جہان ہے اورنئی دنیاؤں میں جھانکنے کی ایک لگن ہے۔ اگر سرشاری و جذب (Ecstasy) نام کی کوئی چیز اِس دنیا میں ہے تو اُسے اِس گیت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ کسی بھی اچھے گیت کو لازوال بنانے کے لئے اُس کی موسیقی اور پسِ پردہ آوازوں کا بڑا کمال ہوتا ہے تاہم پھر بھی اصل تو شاعری ہی ہے اور اچھی شاعری کا سحر ایسا ہے کہ اچھے بھلےانسان کو ازخود رفتہ کر سکتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو یہ گیت ملاحظہ فرمائیے۔

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ بیٹھیں گے باتیں کریں گے
تجھ کو آتے اِدھر لاج آئے اگر، اوڑھ کے آ جا تو بادل گھنے

گلشن گلشن، وادی وادی، بہتی ہے ریشم جیسی ہوا
جنگل جنگل، پربت پربت، ہیں نیند میں سب اِک میرے سوا
چندا۔۔۔! چندا۔۔۔۔!!!
آ جا سپنوں کی نیلی ندیا میں نہائیں
آ جا یہ تارے چُن کر ہم ہار بنائیں

اِن دُھندلی دُھندلی راہوں میں آ دونوں ہی کھو جائیں

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ بیٹھیں گے باتیں کریں گے
تجھ کو آتے اِدھر لاج آئے اگر، اوڑھ کے آ جا تو بادل گھنے

چندا سے پوچھیں گے ہم سارے سوال نِرالے
جَھرنے کیوں گاتے ہیں پنچھی کیوں مَتوالے
ہو ! کیو ں ہے ساون مہینہ گھٹاؤں کا
چندا سے پوچھیں گے ہم سارے سوال نِرالے
چندا۔۔۔! چندا۔۔۔۔!!!
تتلی کے پر کیوں اتنے رنگیں ہوتے ہیں
جگنو راتوں میں جاگیں تو کب سوتے ہیں

اِن دُھندلی دُھندلی راہوں میں آ دونوں ہی کھو جائیں

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ بیٹھیں گے باتیں کریں گے
تجھ کو آتے اِدھر لاج آئے اگر، اوڑھ کے آ جا تو بادل گھنے


جاوید اختر