ظہیر احمد ظہیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ظہیر احمد ظہیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

نظم: وہیں تو عشق رہتا ہے ۔۔۔ از ۔۔۔ ظہیر احمد ظہیر

 
ظہیر احمد ظہیر بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ لیکن قادر الکلام شاعر کے لئے کسی بھی صنف میں کوئی بھی خیال نظم کرنا دشوار نہیں ہوتا۔ یوں بھی جو شعراء کبھی کبھی نظم کہتے ہیں اُن کی نظمیں اکثر بہت خوب ہوتی ہیں۔ ظہیر احمد ظہیر صاحب کی یہ نظم اس بات پر مزید دلالت کرتی ہے۔ یہ نظم رومانوی مزاج رکھتی ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے آپ کو کم از کم تخیلاتی سطح پر رومانی فضا کی ضرورت ہے۔

 

وہیں تو عشق رہتا ہے


جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں غم گیت گاتے ہیں ، جہاں ہر درد ہنستا ہے
وہیں ہے گھر محبت کا ، وہیں تو عشق رہتا ہے
جہاں حدِ نظر تک نیلگوں گہرے سمندر کے
سنہری ساحلوں پر دھوپ کوئی نام لکھتی ہے
ہوا کی موج بکھرے بادلوں سے رنگ لے لے کر
شفق کی زرد تختی پر گلابی شام لکھتی ہے
جہاں اقرار وپیماں کے گھنے شیشم تلے سورج
نئے اک دن کی خاطر تیرگی کے وار سہتا ہے
جہاں اک آس کی خوشبو میں لپٹا یاس کا سایہ
کسی کی نظم لکھتا ہے ، کسی کے شعر کہتا ہے

اداسی جب کبھی دل پر کمندیں ڈال دیتی ہے
تھکن جب دھڑکنوں میں نا امیدی گھول دیتی ہے
تو اُس لمحے دبے پاؤں کسی احساس کا پیکر
قریب آکر بجھی آنکھوں پہ رکھ کر ہاتھ پیچھے سے
دبی سرگوشیوں کے نرمگیں لہجے میں کہتا ہے
" یہ غم میری امانت ہے ، تم اِس سے ہار مت جانا
تمہیں میری قسم دیکھو کبھی اُس پار مت جانا
جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں کوئی نہیں بستا ، جہاں کوئی نہیں رہتا"

پلٹ کر دیکھئے اُس پل تو کوئی بھی نہیں ہوتا
بس اک موہوم سی آہٹ اور اک مانوس سی خوشبو
فضا میں جیسے بکھری ہو ، ہوا جیسے مہکتی ہو
تبسم کی چنبیلی اور ترنم کے گلابوں سے
ڈھکے ٹیلوں کے دامن میں ، ذرا سی دور خوابوں سے
منقش جھلملاتی یاد کی پگھلی ہوئی چاندی
کا اک آئینہ بہتا ہے
وہیں تو گھر ہمارا ہے ، وہیں تو عشق رہتا ہے
وہیں تو عشق رہتا ہے



ظہیؔر احمد

 


 

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے ۔ ظہیر احمد ظہیر

غزل

پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے
ہم خاک پہ رہتے ہیں خلامیں نہیں رہتے

قامت بھی ہماری ہے ، لبادہ بھی ہمارا
مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے

ہم کشمکشِ دہر کے پالے ہوئے انسان
ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے

خاشاکِ زمانہ ہیں ، نہیں خوف ہمیں کوئی
آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں رہتے

ہم چھوڑ بھی دیتے ہیں کُھلا توسنِ دل کو
تھامے ہوئے ہر وقت لگامیں نہیں رہتے

روحوں میں اتر جاتے ہیں تیزاب کی صورت
لفظوں میں گھلے زہر صدا میں نہیں رہتے

احساس کے موسم کبھی ہوجائیں جو بے رنگ
خوشبو کے ہنر دستِ صبا میں نہیں رہتے

اونچا نہ اُڑو اپنی ضرورت سے زیادہ
تھک جائیں پرندے تو فضا میں نہیں رہتے

دستار بنے جاتے ہیں اب شہرِ طلب میں
کشکول کہ اب دستِ گدا میں نہیں رہتے

اس خانہ بدوشی میں خدا لائے نہ وہ دن
جب بچھڑے ہوئے یار دعا میں نہیں رہتے


ظہیر احمد ظہیر

ظہیر احمد ظہیرؔ کی خوبصورت غزل

غزل 


یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی
جیسے سب ہیں مجھے ویسا نہیں بننے دیتی

آنکھ ایسی ہے کہ دیکھے نہیں جاتے حالات
سوچ ایسی ہے کہ اندھا نہیں بننے دیتی

دُوراندر سے کہیں ایک اُبھرتی ہوئی چیخ
میرے احساس کو بہرا نہیں بننے دیتی

ظلم ایسا ہے کہ دنیا کی زبانیں خاموش 
یہ خموشی مجھے گونگا نہیں بننے دیتی

دلِ وحشی مجھے ہونے نہیں دیتا سرسبز
چشم ِ گریہ ہے کہ صحرا نہیں بننے دیتی​

دشت ایسا ہے کہ چھتنار شجر ہیں ہر گام
دھوپ ایسی ہے کہ سایا نہیں بننے دیتی

خاک ایسی ہے کہ ہر ذرہ طلبگار ِ نمو
رُت وہ ظالم کہ شگوفہ نہیں بننے دیتی

شہر ایسا ہے کہ تاحدِ نظر امکانات
بھیڑ ایسی ہے کہ رستہ نہیں بننے دیتی

حرمتِ خامہ وہ ضدی جو کسی قیمت پر 
سکہّء حرف کو پیسہ نہیں بننے دیتی

کیا قیامت ہے کہ اب میرے تصور کی تھکن
بادلوں میں کوئی چہرہ نہیں بننے دیتی

میں کسی اور کا بنتا تو منافق ہوتا 
یہ انا مجھ کو کسی کا نہیں بننے دیتی

ظہیر احمد ظہیرؔ