عوام کے ہمدرد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عوام کے ہمدرد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں



ہمارے وزیرِ اعظم صاحب کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ہیں اور وہ کسی چور دروازے سے نہیں آئے ہیں ۔ وہ عوام کے ووٹ سے آئے ہیں اور عوام کے حقیقی نمائندے ہیں۔

کچھ اسی قسم کے راگ ہمارے دوسرے ممبرانِ اسمبلی الاپتے نظر آتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر عوامی نمائندے کیا ہوتے ہیں اور اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے یہ لوگ کس طرح سے عوامی نمائندگی کر رہے ہیں کہ عوام کی مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔

ہمارے ہاں کرپشن اپنے عروج پر ہے، امداد کے نام پر بھیک لی جا رہی ہے، معیشت قرض کے ستونوں پر استوار ہے۔ لاقانونیت نے پورے ملک کو جکڑا ہواہے۔ کسی شہر میں آٹھ دس لوگوں کا مرنا کسی گنتی شمار میں نہیں ہے۔ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی۔ تعلیم کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے کہ تعلیمی ادارے بھی سیاسی جماعتوں کے اکھاڑے بنے ہوئے ہیں۔ بجلی اور گیس کی شدید قلت ہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی صرف سوئس بنک اکاونٹ بھرنے تک محدود ہے۔

قصہ کوتاہ ، پاکستان اور پاکستانی اس وقت انتہائی ابتر حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ جبکہ ہمارے نام نہاد عوامی نمائندے، اعلیٰ سے اعلیٰ گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ فائیو اسٹار ہوٹلز میں کھاتے ہیں، منرل واٹر پیتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں روپے اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں۔ بجلی ،ایندھن اور بے شمار مراعات سرکار کی طرف سے ۔ عیش کیجے جناب ۔ آ پ تو عوامی نمائندے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کا ہی تو ہے۔

عوامی نمائندے خوش ہوتے ہیں تو ذاتی مفاد کے حصول پر ۔ اور ناراض ہوتے ہیں تو بھی اپنے ہی نقصان پر۔ ہماری سیاسی جماعتیں حکومت میں شامل ہوتی ہیں تو سیٹس اور وزرارتیں ملنے پر ۔ الگ ہوتی ہیں تب بھی سیٹیں اور وزراتیں ہی ان کے پیشِ نظر ہوتی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو کرپشن ، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ یا کسی اور عوامی مسئلے کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ ہو یا ان مسائل کے حل کی شرط پر حکومت میں شامل ہو۔

شاید جون ایلیا نے ایسے ہی کسی ہمدرد سے کہا ہوگا:

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

افسوس کہ یہ ہمارے عوامی نمائندے ہیں ۔ کاش یہ نہ ہوتے تو شاید عوامی مسائل بھی نہ ہوتے کہ یہ مسائل حل کرنے والے ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہر مسئلے کی جڑ یہی لوگ ہیں۔ ہر وہ شخص جو آ ج اسمبلی میں بیٹھا ہے چاہے وہ کسی بھی سیاسی، علاقائی یا لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والا ہو وہ اس قوم کا مجرم ہے۔ یہ بات واقعی ٹھیک ہے کہ ہمارے وزیرِ اعظم کسی چور دروازے سے نہیں آئے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ جاتے ہوئے وہ اور اُن کے حواری اسی دروازے کا انتخاب کریں گے۔

ہاتھی کے دانت



کہتے ہیں کسی بھی ملک و ملت کی ترقی اور تنزلی، اُس کی خوشحالی یا بدحالی، اس کی قیادت پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر قیادت اچھی ہو تو ملک و قوم ترقی کرتے ہیں نہیں تو وہی ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔

قیادت کیسی ہو اس کے بارے میں دنیا میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن علامہ اقبال نے بڑا سادہ سا نسخہ پیش کردیا ہے۔

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے

اگر ہم پاکستان کے رہبرانِ ملت کو دیکھیں تو اُن میں یہ تمام اوصافِ جمیلہ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ نگاہ ہمارے لیڈر کی بلند ہے۔ بلند بھی اتنی کہ وزارتِ عظمٰی سے نیچے ہی نہیں اُترتی ۔ سخن دلنوازی بھی موجود ہے خاص طور پر اگر خطاب عوام سے ہو اور مخاطب بھی عوام ہی ہوں، مخالفین نہ ہوں ۔ اب رہ جاتی ہے "جاں پر سوز" کی بات تو اس کڑے معیار پر بھی ہمارے قائدین پورے پورے اُترتے ہیں بلکہ گردن گردن غرق ہیں۔ ہمارے لیڈرز کا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اُن کا دل خون کے آنسو نہ روتا ہویا جب عوام کے غم میں اُن کے پیٹ میں مروڑ نہ اُٹھتے ہوں۔

اگر کسی کو ہمارے ان رہبرانِ ملت کے اخلاص میں زرا بھی شبہ ہو تو وہ ناقدین ہمارے ان قائدین کے عوامی خطابات سنیں ضرور افاقہ ہوگا ۔ اُنہیں پتہ چلے گا کہ ہمارے رہبرانِ ملت کو عوام کے دکھ درد کا کتنا زیادہ احساس ہے اور عوام کی فلاح کے لئے اُن کے پاس کتنے بہترین منصوبے ہیں جو مخالفین کی بلاجواز مزاحمت کی وجہ سے پایائے تکمیل کو نہیں پہنچ پاتے ۔ ملکی سلامتی اور خود مختاری اُن کی اولین ترجیح ہے اور وہ ملکی وقار اور سالمیت پر سودے بازی کو گناہ سے بھی بد تر سمجھتے ہیں۔

گو کہ ہمارے تمام رہبرانِ ملت علامہ اقبال کی وضع کردہ کسوٹی پر پورے اُترتے ہیں بلکہ کچھ اس سے بھی سوا ہیں لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں ملک و ملت کی حالت کچھ اور ہی ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ نہیں آئی، ہمیں کیا یہ بات تو منیر نیازی کی بھی سمجھ نہیں آئی جس کا اظہار اُنہوں نے یوں کیا ہے۔

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

سمجھ نہیں آتا کہ اتنے مخلص رہبرانِ ملت کی مو جودگی کے باوجود بھی آخر کیوں

پاکستان کا ہر دور تاریخ کا نازک ترین دورہوتا ہے۔
ساری عمر عوام کا رونا رونے والے عوامی مسائل پر تب ہی کیوں زور دیتے جب اُن کی اپنی جماعت پر انگشت نمائی ہوتی ہے۔
حکومت سے علیحدگی کے لئے بھی اُسی وقت کا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے جب آپ کے وزراء کو برطرف کردیا جائے یا آپ کی جماعت پر کڑی تنقید کی جائے۔
ملکی سلامتی اور وقار کی باتیں کرنے والے حکومتی اور حزبِ اختلاف کے لیڈرز جس وقت ہنس کے ہنس وائسرائے پاکستان سے باتیں کرتے ہیں تب ملکی سلامتی اور وقار جیسی چیزیں کہاں ہوتی ہیں۔
مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی معیاراور عوامی فلاح کے موضوعات پر اسمبلیوں میں چپ سادھ لینے والے لوگ مائیکروفون ہاتھ آتے ہی غریب آدمی کی کمر ٹوٹنے کا رونا کیوں روتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں سیاست کے نام پر نوجوان نسل کا مستقبل تباہ کرنے والوں کے اپنے بچے ملک سے باہر کیوں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

یہ اور ایسے انگنت سوالات ہیں جن کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے اور آگے بھی کوئی آثار نہیں، لیکن تحسین ہے ہمارے رہبرانِ ملت کے لئے کہ آج بھی اُن کا ماضی بے داغ ہے اور مستقبل تابناک۔ اور میں اور آپ اُن کے جلسوں میں کھڑے نعر وں پر نعرے لگا رہے ہیں کہ ایسے پُر خلوص لیڈرز قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں۔

نہ جانے کس خیال کی رو میں اس تحریر کا عنوان "ہاتھی کے دانت" رکھ دیا ورنہ ہم تو صرف ہاتھی کے دانت کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں کہ

"ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور"

حالانکہ ہم اس تحریر کا عنوان "سال کی آخری جلی کٹی تحریر" بھی رکھ سکتے تھے۔