مزاحیہ کلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مزاحیہ کلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا

یہ کلام ہم نے آج فیس بک کے ایک ادبی گروپ پر پڑھا۔ اچھا لگا سو بعد از تحسینِ کلام ہم اس کلام کو نقل کر کے یہاں لے آئے تاکہ قارئینِ رعنائیِ خیال بھی اس سے محظوظ ہو سکیں۔ 

اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا
عربی نے اس کو خاص ترابی بنا دیا

اہلِ زباں نے اس کو بنایا بہت ثقیل
پنجابیوں نے اس کو گلابی بنا دیا

دہلی کا اس کے ساتھ ہے ٹکسال کا سلوک
اور لکھنئو نے اس کو نوابی بنا دیا

بخشی ہے کچھ کرختگی اس کو پٹھان نے
اس حسنِ بھوربن کو صوابی بنا دیا

باتوں میں اس کی ترکی بہ ترکی رکھے جواب
یوں ترکیوں نے اس کو جوابی بنا دیا

قسمت کی بات آئی جو تو رانیوں کے ہاتھ
سب کی نظر میں اس کو خرابی بنا دیا

حرفِ تہجی ساری زبانوں کے ڈال کر
اردو کو سب زبانوں کی چابی بنا دیا

ہم اور ارتقاء اسے دیتے بھی کیا معین
اتنا بہت ہے اس کو نصابی بنادیا

سید معین اختر نقوی


منقول از ادبیات - فیس بک

دماغ آفریدی خلل آفریدم


حضرتِ اقبال کی خوبصورت نظم کا بہت ہی خوب بیڑہ غرق کیا ہے جناب رشید عبد السمیع جلیل صاحب نے؛ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ 

دماغ آفریدی خلل آفریدم
کروں جلد شادی یہ حل آفریدم

'جہاں را زِ یک آب و گل آفریدی'
اسی آب و گل سے محل آفریدم

'تو از خاک فولادِ ناب آفریدی'
میں دھونے دھلانے کو نل آفریدم

تو دنیا میں لاکھوں حسیں آفریدی
میں دل میں ہزاروں کنول آفریدم

تو فردوس و خلدِ بریں آفریدی
زمیں پر میں نعم البدل آفریدم

تری حکمتیں بے نہایت الٰہی
میں از روئے حکمت کھرل آفریدم

مجھے رات دن چاہیے بے خودی سی
اسی واسطے الکحل آفریدم

رشید عبدالسمیع جلیل

وہ جھانسہ دے کے غائب ہے سرِ بازار می رقصم

نمکین غزل

وہ جھانسہ دے کے غائب ہے سرِ بازار می رقصم
بھروسہ کرکے دھوکہ باز پر بے کار می رقصم

سناتا ہوں میں ہر محفل میں اکلوتی غزل اپنی
نہیں ملتی اگر کچھ داد تو سو بار می رقصم

کیا کرتے تھے اوور ٹیک جاو پر حسینوں کو
ہوئی آٹو کی وہ ٹکر کہ آخر کار می رقصم

وہ رکشے پر گزرتی ہے میں پیدل ٹاپ لیتا ہوں
خیالوں میں پکڑ کر دامنِ دلدار می رقصم

نشہ اُترا تو بتلایا مجھے لوگوں نے آ آ کر
بہت اچھلم، بہت کودم برہنہ وار می رقصم

جہاں بجتی ہے شہنائی جلیل اکثر یہ دیکھا ہے
ادھر پتلون می رقصم ادھر شلوار می رقصم 

رشید عبدالسمیع جلیل 

نظم ۔ آندھی ۔۔۔ از ۔۔۔ نذیر احمد شیخ


نذیر احمد شیخ کی ایک خوبصورت نظم "آندھی" بشکریہ محترم نصیر احمد صاحب یہاں پیش کی جا رہی ہے ۔ نصیر صاحب کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ نذیر احمد شیخ مزاحیہ شاعر تھے اور "حرفِ بشاش" کے نام سے اُن کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی۔

نذیر احمد شیخ صاحب کی کہ یہ نظم اپنی سلاست اور روانی کے اعتبار سے لاجواب ہے۔ آندھی کا جو نقشہ شاعرِ موصوف نے کھینچا ہے اور جس بے ساختگی سے یہ خوش آہنگ نظم بُنی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ساتھ ساتھ یہ نظم آج کے دور سے کچھ پرے اُس زمانے کی ہے جب زندگی کی بیشتر سہولیات تک اکثریت کی رسائی نہیں تھی لیکن زندگی تب زیادہ خوبصورت تھی۔

آندھی
نظم

کھڑکی کھڑکے، سرکی سرکے، پھڑکے روشن دان
ناکہ بندی کرتے کرتے سب گھر ریگستان

جھاڑو جھاڑن موج منائیں اُن کا اپنا راج
پیپا بیٹھا ڈھول بجائے کتھک ناچے چھاج

درہم برہم سب تصویریں، طُرفہ تر احوال
مرزا غالب اُلٹے لٹکے، سجدے میں اقبال

ایک بگولہ سب سے اولیٰ، بھوتوں کا سردار
لوٹ پلٹ کر پڑھتا جائے دنیا کے اخبار

سُنتے سُنتے شور شرابا کانوں کا یہ حال
بیگم اپنی شال منگائے نوکر لائے ڈال

اُڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چُھڑائیں رخصت ہو دستار

چھجے نے جب جھٹکا کھا کر دھڑ سے پھینکی اینٹ
مٹکے کا وہ جھٹکا دیکھا سر سے گزری چھینٹ

پیڑوں کے جب ٹہنے ٹوٹے سب کی ٹوٹی آس
اُپلے چھت سے فوراً کودے سیدھے چولہے پاس

نذیر احمد شیخ


دوکان رمضان ۔ تضمین از محمد احمدؔ

دوکان رمضان
(تضمین)

تحائف شو میں رمضاں کے، بلا تمہید ہی برسے
بڑھا کر ہاتھ جھپٹو، مانگ لو کچھ التجا کرکے

لیاقت کا تو کوئی کام ہی کیا شو میں عامر کے
کوئز شو ہے مگر تحفہ ملے گا رقص بھی کرکے

یہ دل میں ٹھان لو کہ لے مریں گے اک نہ اک بائک
فہد کے شو سے مل جائے، بھلے جمشید کے در سے

تلوکا ایک ڈبہ کار تک لے جا بھی سکتا ہے
اگر مکھن نہیں تو گھی لگاؤ خوب بھر بھر کے

اگر بائک نہیں تو ایک دو کُرتے ہی مل جائیں
ذرا دستِ سوال اونچا اُٹھاؤ ، دستِ بر تر سے

تقاضہ وقت کا سمجھو کہ عزت آنی جانی ہے
بچا کر عزتِ نفس اب کوئی کیوں ہر گھڑی ترسے

تجارت کی زکواۃ اب دے رہے ہیں تاجر و زرگر
رکھو پاؤں میں اینکر کے ،اُتارو پگڑیاں سر سے

میں کُڑھتا ہوں کہ میرے لوگ ایسے ہو گئے کیونکر
"حمیّت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے"

محمد احمدؔ

تضمین بر کلامِ حضرتِ ولی دکنی - ظریفانہ کلام

حضرتِ ولی دکنی کا یہ مشہور و معروف شعر تو آپ نے سُنا ہی ہوگا۔

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

خاکسار کی جانب سے اس کے دونوں مصرعوں پر (ظریفانہ) تضمین پیش ہے۔
اُمید ہے احباب کو پسند آئے گی۔ 

وہ جو شادی سے پہلے کہتا تھا 
اُس کو یکسانیت پسند نہیں
اُس کی بیوی نے کر دیا ثابت
"راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں"


کچھ تو کہیے وہ اُس سے کہتا تھا​
لفظ مہکیں، کھُلے کتابِ سخن​
اُس کو شادی کے بعد علم ہوا​
"تا قیامت کھُلا ہے بابِ سخن"​

محمد احمدؔ