نیوز چینلز کی آمد سے پہلے کسی کو ورغلانا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ زرا کسی کو "اُس کے فائدے" کی بات بتادو تو وہ صاحب ہتھے سے اُکھڑ جاتے اور اول فول بکنے لگتے ۔ ہاں جو لوگ "کچھ" سمجھدار ہوتے وہ وقتی سمجھداری کا مظاہرہ ضرور کرتے اور آپ کی بات کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے اور اُس پر عمل کی سعی بھی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ زرا کسی نے آپ کے "معمول " سے استفسار کر لیا کہ یہ پٹی آپ کو کس نے پڑھائی ہے سب کچھ فر فر بتا دیتے اور آپ کا نام تو گویا نوکِ زبان پر ہی ہوتا ۔ نتیجہ وہی جو اس طرح کے معاملات میں ہوتا ہے یعنی تعلقات کی خرابی۔
اس کے برعکس جب سے نیوز چینلز نے یلغار کی ہے سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب نیوز چینلز والے سارا سارا دن لوگوں کو "پٹیاں پڑھاتے *" رہتے ہیں اور لوگ ناصرف وہ پٹیاں تن من دھن سے پڑھتے ہیں بلکہ من و عن ایمان بھی لے آتے ہیں۔ یہ پٹیاں خبروں کی فوری ترسیل کا کام کرتی ہیں لیکن یہ صرف خبروں کی ہی محتاج نہیں ہوتی اور خبروں کے علاوہ بھی اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتی ہیں۔
نیوز چینلز کی یہ پٹیاں خبروں کی اہمیت اور پروپیگنڈا کی کیفیت کے اعتبار سے اپنی رنگت بدلتی رہتی ہیں اور درجہ شرارت کے حساب سے کبھی سبز، کبھی نیلی اور اکثر شدتِ جذبات سے سُرخ رہتی ہیں۔ یہ پٹیاں اپنی مدد آپ کے تحت ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا جانتی ہیں ۔ آپ کیسا ہی دلچسپ پروگرام دیکھ رہے ہوں پٹیاں بھی آپ کی توجہ اور دلچسپی میں سے اپنا خراج لیتی رہتی ہیں۔
ان پٹیوں میں اکثر باتیں سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں لیکن کچھ فوراً ہی سمجھ آجاتی ہیں پر افسوس کہ جو باتیں فوراً سمجھ آجائیں دوسرے دن اُن کی تردید آجاتی ہے ۔ مثلاً آج وزیرِ اعظم صاحب کا یہ بیان کہ حکومت کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں کرے گی "جو" بھی ہوگا وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔ اب اس میں سے ہم جو بات سمجھے ہیں کل اُس کی تردید آجائے گی اور وزیرِ اعظم صاحب کہیں گے کہ اُن کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سمجھا گیا ہے۔
ہمارے وزرا صاحبان الفاظ کا چناؤ کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ سمجھو تو بہت کچھ اور نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں یعنی سانپ بھی بچ جائے اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ان نیوز چینلز کا آخر مقصد کیا ہے اور انہوں نے آکر کون سی نئی بات بتائی۔ مثلاً یہ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کے سارے وزیر اور مشیر چور معاف کیجے گا بدعنوان ہیں یا یہ کہ پولیس بے گناہ لوگوں پہ تشدد کرتی ہے یا پھر یہ کہ آئی ایم ایف سے لیا جانے والا سارا قرضہ عوام کو اپنی خون پسینے کی کمائی سے چکانا پڑے گا یہ سب باتیں تو ہمیں پہلے سے پتہ ہیں پھر ان نیوز چینلز کا کیا مصرف ہے سوائے اس کے کہ روزانہ کسی نہ کسی پروگرام میں دو مخالف جماعتوں کے حاشیہ برداروں کو مرغوں کی طرح لڑنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ مرغے غالب کے اس فرمان پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ" لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی" اور حقِ نمک ادا کرتے ہوئے اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لئے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ چوپائے بھی شرمسار ہو کر ان مرغوں کے حق میں دستبردار ہو جاتے ہیں۔
ہاں البتہ کچھ کچھ نیوز سٹوریز کی اُٹھان دیکھ کر یہ شعر ضرور یاد آتا ہے ۔
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
غالب
اور اس طرح کی کارکردگی کی داد نہ دینا یقیناً بڑی بے انصافی کی بات ہے۔
* News Ticker