غزل
زندگانی کا بنا لیجے چلن حُسنِ سُلُوک
لوگ جیسے بھی ہوں رکھیے حسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک
سعیِ پیہم ہو کہ ہر دن زندگی کا خوب ہو
ہر عمل حسنِ عمل ہو ہر جتن حُسنِ سُلُوک
رہبرو! فتنہ گرو! غارت گرانِ دیں سُنو
الحذر! اب چاہتا ہے یہ وطن، حُسنِ سُلُوک
دھوپ ہے تو کیسا شکوہ، آپ خود سایہ بنیں
بے غرض کرتے ہیں سب سرو و سمن حُسنِ سُلُوک
مسکرائیں، رنج بانٹیں، اور شجر کاری کریں
چاہتے ہیں آپ سے کوہ و دمن حُسنِ سُلُوک
ہم بُرائی کو بُرائی سے بدل سکتے نہیں
راہرو ہو یا ہو کوئی راہزن حُسنِ سُلوک
آپ بھی احمدؔ فقط ناصح نہ بنیے، کیجے کچھ!
ہر ادا حُسنِ ادا ہو، ہر سخن حُسنِ سُلُوک
عمدہ سوچ کو عمدہ اسلوب میں پیش کیا ہے
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ!
جواب دیںحذف کریںشاد آباد رہیے۔
کیا کہنے، احمد بھائی۔ اخلاقی مضامین کو غزل میں سمونا مشکل کام ہے۔ رنگینی رخصت ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ مگر آپ نے بہت خوب لکھا ہے، واللہ۔ لطف اٹھایا۔ رسید بارِ دگر حاضر ہے۔
جواب دیںحذف کریںکلام کو دیو ناگری رسم الخط میں بھی پیش کریں تو قارین کی تعداد میں اضافہ ہو گا
جواب دیںحذف کریں